کتاب سلیم بن قیس ہلالی
کتاب سلیم بن قیس ہلالی
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
کتاب سلیم بن قیس ہلالی
سلیم بن قیس ہلالی کوفی عامری تابعی ہیں۔آپ نے پانچ آئمہ حضرت امام علی حضرت امام حسن حضرت امام حسین، حضرت امام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور امام محمد باقر علیہم السلام کا زمانہ دیکھا ہے۔سلیم نے اس کتاب میں وہ حالات بیان کیے ہیں کہ جن کو خود انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا خوداُن معتبرراویوں سے سُنا ہے جنہوہں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس یا حضرت علی علیہ السلام سے سُنا ہے۔
البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ آج کل جو کتاب ہمارے پاس موجود ہے واقعاً وہی کتاب ہے اور اس کی سلیم بن قیس کی طرف نسبت دینا درست ہے یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کتاب کو تاریخ اسلامی کے منبع کی حیثیت حاصل ہے۔
کتابُ سُلَیْم بْن قِیْس ہلالی شیخ ابو صادق سلیم بن قیس ہلالی عامری کوفی کی کتاب ہے۔ یہ کتاب شیعوں کا پہلا قلمی اثر ہے جو امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کے دور حکومت میں لکھی گئی۔ یہ کتاب اہل بیت (ع) کے فضائل، امام شناسی اور رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد کے حوادث کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو سلیم بن قیس کی طرف منسوب کرنے اور نہ کرنے میں شیعہ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کتاب اسرار آل محمد (ص) کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہوئی ہے۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ صرف حضرت امیرالمؤمنین (ع) کے پانچ سالہ حکومت میں آزاد تھے۔ اس سے پہلے اور بعد کے زمانے میں بہت سخت حالات میں زندگی گزاری ہے، واضح ہے کہ سوائے گوشہ نشینی کی حالت کے ایسی کتاب لکھ نہیں سکتے تھے۔ عمر اور عثمان کے دور میں تو حدیث کی تدوین پر مکمل پابندی تھی ایسے دور میں انہوں نے نہ صرف ایک کتاب لکھی بلکہ اس کے سارے مطالب نظام حاکم کے خلاف تھے اس صورت میں اگر آپ کے کام سے متعلق کسی کو پتہ چلتا تو وہ اور ان کی کتاب دونوں کو صفحۂ ہستی سے نابود کر دیا جاتا۔
امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد معاویہ اور یزید کے دور میں ایک بار پھر شیعیان علی (ع) پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے، اس دور میں بھی انہوں نے مخفیانہ طور پر اس قدر ماہرانہ انداز میں اپنا کام جاری رکھا کہ اپنی کتاب کے مطالب کی حفاظت اور اسے جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ معاویہ کے اسرار کا بھی کھوج لگانے میں کامیاب ہوئے اور اس کے محرمانہ خطوط جو اس نے زیاد کیلئے لکھے تھے کو اپنی کتاب میں ثبت کرنے میں کامیاب ہوئے۔
مطالب کی یادگیری کے وقت وہ تمام پہلوں سے اس موضوع کے متعلق ذہن میں خطور کرنے والے تمام سوالات کو مطرح کرتے تھے اور ان کے خاطر خواہ جوابات دریافت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جن حالات اور جس جگہ یہ حدیث صادر ہوتی تھی کو بھی دقت کے ساتھ ثبت کرتے تھے۔ آخر میں مطالب کو اور زیادہ معتبر اور قابل اعتماد بنانے کی خاطر ان مطالب کو ائمہ اطہار (ع) کی خدمت میں پیش کرتے اور ان کی صحت پر ائمہ (ع) سے مہر تائید لیتے تھے۔
کسی واقعے سے متعلق کسی حدیث کی اصل حقیقت تک پہنچنے کیلئے اس واقعے کو وہ کئی افراد سے دریافت کرتے تھے اور چہ بسا ضرورت پڑنے پر اس کام کیلئے مسافرتوں پر جایا کرتے تھے۔ انہوں اعتقادی حوالے سے بہت سارے اہم سوالات ائمہ (ع) سے پوچھے اور ان کا جواب اپنی کتاب میں ثبت کیا ہے۔ کبھی کبھار دشمنان اہل بیت (ع) سے ان کی بدعتوں کے بارے میں سوالات کرکے اس بارے میں خود ان سے اعتراف لیتے تھے۔
جب بھی کسی اسلامی مملکت میں کسی واقعے کی خبر ملتی تو شخصا وہاں جا کر اس واقعے کی حقیقت سے آگاہ ہونے کی کوشش کرتے اور اس واقعے کو تمام جزئیات کے ساتھ اپنی کتاب میں ثبت کرتے تھے۔ معاویہ کے مدینہ سفر کے دوران ان کا بھی وہاں جانا اس کی واضح مثال ہے۔
یہ کتاب کئی جہات سے قابل تحقیق ہے:
تقدم زمانی؛
بعض مورخین کے بقول احادیث پر مشتمل یہ پہلی کتاب ہے جسے کسی مسلمان نے تألیف کی ہے اس حوالے سے یہ کتاب نہایت اہمیت کا حامل اور معتبر کتاب ہے۔
تاریخی واقعات پر مشتمل ہے؛
اس کتاب کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایسے تاریخی واقعات نقل ہوئی ہیں جو ہمیشہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد اختلاف واقع ہوئی ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ کا امامت و ولایت کے مسئلے پر کی گئی تاکید، فدک کا مسئلہ اور حضرت فاطمہ زہرا(س) کے دروازے پر آگ لے کر حملہ کرنا وغیرہ منجملہ ان حوادث میں سے ہیں جو اس کتاب میں مذکور ہیں۔
ائمہ اطہار کی تائید؛
اس کتاب کے مضامین کی صحیح ہونے پر ائمّہ معصومینؑ نے اس طرح تأیید اور اس کے مطالب سے دفاع کیا ہے جس کی مثال ائمہ کی زندگی میں نہیں ملتی۔[8]
علما کی تأئید؛
پہلی صدی ہجری سے لے کر اب تک کے بڑے بڑے شیعہ علماء نے اس کتاب کے مطالب کی تأئید کی ہے اور چودہ سو سال سے اس کتاب کے احادیث کو ایک سند کے طور پر نقل کرنا اس کتاب کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔
اصول اربع مائۃ میں سے ہے؛
اصول اربع مأۃ میں سے کتاب سلیم بن قیس پہلی اور سب سے اہم کتاب کے عنوان سے پہچانی جاتی ہے اسی وجہ سے علماء اور محدثین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔
شیعوں کے درمیان اس کی شہرت پر غیر شیعوں کا اعتراف؛
بعض غیر شیعہ جیسے ابن ندیم، ابن ابی الحدید، قاضی سُبکی، ملا حیدر علی فیض آبادی وغیرہ نے بھی اس کتاب کی سلیم بن قیس کی طرف منسوب ہونے پر تصریح کی ہیں۔
اس کی تعریف خود مؤلف کی زبانی؛
سلیم بن قیس نے اپنی کتاب ابان بن ابی عیاش کے حوالے کرتے ہوئے اس بارے میں یوں کہا ہے:
میرے پاس کچھ ایسے مکتوب ہیں جنہیں میں نے معتبر افراد سے سنا اور اپنے ہاتھوں سے لکھا ہوں۔ اس میں ایسی احادیث ہیں، میں نہیں چاہتا یہ احادیث اس زمانے کے لوگوں پر آشکار ہو کیونکہ یہ لوگ ان احادیث کا انکار کرینگے اور انہیں عجوبہ سمجھیں گے جبکہ یہ تمام حقیقت پر مبنی ہیں اور جن سے میں نے سنا ہے وہ سب کے سب اہل حق، اہل فقہ، اہل صدق اور اہل صلاح ہیں حن میں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ سے لے کر سلمان، ابوذر اور مقداد شامل ہیں
کتاب کے مضامین
سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میں امامت ائمہ، فضائل اہل بیتؑ، دینی معارف میں ائمہ کے احادیث، پیغمبر اکرمؐ کی پیشن گویاں، سقیفہ کے اسرار، شہادت حضرت زہرا(س)، رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد کے واقعات، امام علیؑ کا خلفائے ثلاثہ کی گئی احتجاجات، جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان، شیعوں کے خلاف معاویہ کے فتنے اور ظلم و ستم جیسے موضوعات پر بحث کی ہے۔