ہم متعہ کیوں کرتے ہیں؟

ہم متعہ کیوں کرتے ہیں؟

ہم متعہ کیوں کرتے ہیں؟

Publish location :

کراچی پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

ہم متعہ کیوں کرتے ہیں؟

ہم متعہ کیوں کرتے ہیں؟ عقلِ حمید، قرآن، سنتِ رسول، عمل اصحاب رسول اور تصدیق علماء کی روشنی میں۔اس کتاب میں نکاح متعہ پر گفتگو ہوئی ہے جس میں تمام حوالہ جات اہل سنت کی کتابوں سے ہی ذکر کیے گئے ہیں۔ نکاح متعہ، نکاح انقطاعی یا نکاح منقطع کے نام سے مشہور مستحب شادی یا ازدواج ہے جس میں خاتون ایک صیغہ پڑھ کر ایک معینہ مدت اور معینہ حق مہر کے بدلے میں اپنے آپ کو ایک مرد کے حبالہ نکاح میں لاتی ہے۔ قرآن کریم میں آیت "فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً" (ترجمہ: تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو)؛[سورہ نساء، آیت 24] اسی قسم کے نکاح کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ متعہ عصر نبوی میں جائز اور را‏ئج تھا لیکن اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان اس حکم شرعی کے باقی رہنے یا منسوخ ہو جانے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔

آج تک امامیہ کے درمیان کسی نے متعہ کے جائز اور مشروع ہونے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا۔

متعۃ النساء یا متعہ یا میعادی ازدواج یہ ہے کہ عورت خود یا اپنے وکیل کے ذریعے اپنے آپ کو معینہ مدت کے لئے اور معینہ مہر پر، کسی ایسے مرد کے حبالہ نکاح میں لائے جس کے ساتھ شادی میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو: یعنی یہ کہ عورت اور مرد نسب یا سبب یا رضاعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے محرم نہ ہوں؛ عورت کسی اور کے نکاح میں نہ ہو اور طلاق یا وفات کی عدت میں نہ ہو۔ متعہ میں جب معینہ مدت مکمل ہوجائے یا شوہر باقیماندہ مدت عورت کو بخش دے تو وہ اس مرد سے جدا ہو جائے گی اور اگر حق زوجیت کے طور پر مجامعت انجام پائی ہو تو عورت کو دو بار ماہواری کے برابر عدت رکھنا پڑے گی اور اگر خاتون یائسہ ہوئے بغیر ماہواری عادت نہ رکھتی ہو تو اس کو  دن تک انتظار کرنا پڑے گا۔ تاہم اگر مجامعت انجام نہ پائی ہو تو اس مطلقہ عورت کی طرح ہوگی جس سے مجامعت نہ ہوئی ہے اور اس پر عدت نہیں ہے۔ متعہ کی اولاد شرعی احکام کے مطابق دائمی نکاح کی اولاد کی مانند ہے۔   کنواری خواتین کا متعہ والد کے اذن سے مشروط ہے۔

تاریخی پس منظر

شیعہ اور سنی تاریخی مآخذ بخوبی واضح کرتے ہیں کہ رسول خداؐ کے زمانے میں بھی اور آپؐ کی رحلت کے بعد بھی ـ خلیفۂ اول کے زمانے میں بھی متعۃ النساء (خواتین کا متعہ) انجام دیا جاتا تھا؛ حتی کہ خلیفۂ دوئم کی خلافت کے زمانے میں بھی اس قسم کی شادی انجام پاتی تھی لیکن انھوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک واقعے کے بعد اس قسم کے ازدواج کو حرام قرار دیا! اور دھمکی دی کہ اگر کسی نے یہ "حکم" سننے کے بعد اس طرح کی شادی کا "ارتکاب" کیا تو اس کو سنگسار کیا جائے گا۔ نمونے کے طور پر تین روایتیں اہل سنت کے مآخذ حدیث سے نقل کی جاتی ہیں جن میں مشہور ترین واقعہ عمرو بن حریث کا ہے جو اکثر مآخذ میں نقل ہوا ہے اور اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

جابر کہتے ہیں کہ عمرو بن حریث کوفہ سے مدینہ آیا اور ایک آزاد شدہ کنیز کے ساتھ متعہ کیا۔ کنیز حاملہ ہوئی جس کو عمر کے پاس لایا گیا اور اس سے حقیقت حال کے بارے میں سوال کیا گیا۔ تو اس نے کہا: عمرو بن حریث نے میرے ساتھ وقتی نکاح کیا ہے۔ عمر نے عمرو بن حریث سے پوچھا تو اس نے بھی صراحت کے ساتھ بیوی کی بات کی تصدیق کی۔ عمر نے کہا: تم نے اس کے علاوہ کسی اور سے شادی کیوں نہیں کی؟ اور یہی وہ وقت تھا جب عمر نے وقتی شادی سے نہی کی تھی۔

دوسری روایت میں محمد بن اسود بن خلف سے نقل کرتے ہیں:

عمرو بن حوشب نے قبیلہ بنی عامر بن لوی کی ایک دوشیزہ کے ساتھ متعہ کیا اور لڑکی کا حمل ٹھرا تو خبر عمر بن خطاب کو پہنچی۔ عمر نے اس سے وضاحت طلب کی اور اس نے کہا کہ عمرو بن حوشب نے اس کے ساتھ متعہ کیا ہے۔ عمر نے کہا: تم نے گواہ کس کو قرار دیا؟ راوی کہتا ہے: میں نہیں سمجھا کہ اس لڑکی نے کیا کہا کہ "اس نے اپنی ماں یا بہن یا بھائی یا باپ کو گواہ ٹہرایا! جس کے بعد عمر منبر پر بیٹھ گئے اور کہا "ان مردوں کو کیا ہوتا ہے جو وقتی شادی کرتے ہیں اور اس پر گواہ عادل قرار نہیں دیتے اور اس کو آشکار نہیں کرتے مگر یہ کہ میں ان پر شرعی حد جاری کردوں!۔

خلیفۂ دوئم نے اس ماحول اور اس عصر کے تفاضوں اور خاص مصلحتوں کی بنا پر اپنی رائے کے مطابق متعہ پر پابندی لگا دی اور یہ پابندی "قانونی اور عرفی" تھی اور "شرعی اور دینی" تحریم نہ تھی۔ چنانچہ یہ جملہ تواتر کے ساتھ ان سے منقول ہے:

"مُتعَتان کانَتا عَلی عَهدِ رَسولِ اللهِ واَنا اُحَرِّمُهُما واُعاقِبُ عَلَیهِما"

ترجمہ: دو متعے رسول خداؐ کے زمانے میں حلال تھے اور میں ان پر پابندی لگاتا ہوں اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کو سزا دونگا: 1) متعۂ نساء ) متعۂ حج۔ جیسا کہ عبارت سے واضح ہے خلیفۂ دوئم نے اس پابندی کو رسول اللہؐ سے نسبت نہیں دی ہے بلکہ کہا ہے کہ "میں اس پر پابندی لگاتا ہوں اور جو مخالفت کرے گا اس کو سزا دونگا"؛ یہ نہیں کہتے کہ "مخالفت کرنے والے کو خدا سزا دے گا"۔

تِرمِذی نے روایت کی ہے:

احمد بن حنبل سند صحیح کے ساتھ عمران بن حصین سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: "نزلت آية المتعة في كتاب اللّه وعملنا بها مع رسول اللّه فلم تنزل آية تنسخها ولم ينه عنها النبي حتى مات،

آیت متعہ نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ کے زمانے میں اس پر عمل کرتے تھے۔ نہ کوئی آیت نازل ہوئی جس نے اس آیت کو منسوخ کیا ہو اور نہ ہی رسول اللہؐ نے اپنے وصال تک متعہ سے منع کیا"۔

قرآنی استدلال

اہل سنت مفسرین کے نزدیک

زمخشری اپنی تفسیر الکشاف   میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ آیت "فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً" (ترجمہ: تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو)؛   قرآن کی آیات محکم میں سے ہے۔ میبدی کشف الاسرار و عدة الابرار 10  میں حسن اور مجاہد کے حوالے سے کہتے ہیں: یہ آیت قرآن مجید کی محکم آیات میں سے ہے اور ثعلبی الکشف والبیان عن تفسیرالقرآن 11  میں حضرت امیرالمؤمنینؑ سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی ہے۔

شیعہ مفسرین کے نزدیک

تفسیر قمی،  البرہان فی تفسیر القرآن،  آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن، 1  تفسیر جوامع الجامع، 1  مجمع البیان فی تفسیرالقرآن،  اور تفسیر المیزان،   نے تصریح کی ہے کہ "فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً"؛ 1  میعادی نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔

لفظ متعہ ـ جس سے لفظ "اسْتَمْتَعْتُم" مشتق ہوا ہے ـ اسلام میں وقتی شادی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اصطلاحاً اس سلسلے میں حقیقت شرعیہ ہے اور اس بات کی گواہی یہاں سے ملتی ہے کہ لفظ متعہ اسی معنی میں رسول اللہؐ سے منقولہ روایات میں بھی اور صحابہ کے کلام میں بھی کثرت سے استعمال ہوا ہے۔

اسلام کے نامی گرامی مفسر ابن عباس، ابی بن کعب، جابر بن عبداللہ انصاری، عمران بن حصین سعید بن جبیر، مجاہد، قتادہ اور سدی جیسے اکابر صحابہ اور سنی مفسرین کی ایک بڑی جماعت نیز تمام شیعہ مفسرین نے مذکورہ بالا آیت سے وقتی نکاح کا حکم اخذ کیا ہے۔ حتی کہ فخر رازی جو شیعہ سے متعلق مسائل میں شک و شبہہ اور اعتراض و تنقید کے حوالے سے مشہور ہیں، اس آیت پر مفصل بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"اس بات میں کوئی حرف نہیں ہے کہ متذکرہ بالا آیت سے جواز متعہ کا حکم اخذ ہوتا ہے بلکہ ہم کہتے کہ یہ حکم کچھ عرصہ بعد نسخ ہوا ہے!

ائمۂ اہل بیت ـ جو اسرار وحی پر سب سے زیادہ آگہی رکھتے ہیں ـ نے متفقہ طور پر اس لفظ سے یہی معنی اخذ کئے ہیں اور اس سلسلے میں ان سے کثیر روایات منقول ہیں۔

نسخ آیت قرآن

جو روایات رسول اللہؐ کے دور میں اس حکم کے نسخ (منسوخی) پر دلالت کرتی ہیں بہت پریشان اور تضادات سے بھرپور ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم غزوہ خیبر میں نسخ ہوا ہے، بعض کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن نسخ ہوا ہے، بعض کا کہنا ہے کہ جنگ تبوک میں اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس میں منسوخ ہوا ہے اور اس طرح کی دوسری روایات؛ چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب روایات مجعول اور موضوع ہیں اور اسی وجہ سے ان کے درمیان اس قدر تضادات پائے جاتے ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس حکم کو رسول اکرم ؐ نے خود منسوخ کیا ہے چنانچہ اس رسول اللہؐ کی حدیث و سنت اس کو نسخ کر چکی ہے اور بعض دوسروں کا کہنا کہ اس حکم کو آیت طلاق نے نسخ کر لیا ہے جہاں ارشاد ہوتا ہے: "إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ"؛ 0 ( جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو طلاق دو زمانۂ عدّت کے لحاظ سے اور پورے عدے کے دنوں کا حساب رکھو)۔ حالانکہ اس آیت کا ہمارے موضوع بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ آیت طلاق کے موضوع پر بحث کرتی ہے اور متعہ میں طلاق نام کا کوئی حکم نہیں ہے اور اس میں علیحدگی مدت معینہ کے اختتام پر ہوتی ہے۔

قدر مسلّم یہ ہے کہ اس قسم کی شادی کا جواز رسول اللہؐ کے دور میں قطعی اور یقینی ہے اور اس کی منسوخی کے بارے میں کوئی بھی قابل اعتماد اور ناقابل انکار دلیل دستیاب نہیں ہے۔ چنانچہ علم اصول میں مسلّمہ قانون کے مطابق اس حکم کی بقاء کا حکم دینا پڑے گا۔

عمر سے منقولہ مشہور جملہ بھی اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ یہ حکم پیغمبرؐ کے زمانے میں ہرگز منسوخ نہیں ہوا ہے۔

 بےشک  پیغمبرؐ کے سوا کسی کو بھی کسی شرعی حکم کی منسوخی کا حق حاصل نہیں ہے اور صرف آپؐ ہی ہیں جو اللہ کے بعض احکام کو اسی کے حکم پر  منسوخ کر سکتے ہیں اور وصال نبیؐ کے بعد نسخ احکام کا باب مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے ورنہ تو کوئی بھی اپنے اجتہاد کی روشنی میں اللہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے گا اور ابدی اور زندہ جاوید شریعت میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ اور اصولی طور پر حدیث اور سنت رسولؐ کے مقابلے میں اجتہاد "اجتہاد بمقابلۂ نصّ" کے زمرے میں آتا ہے جو کسی طور بھی معتبر نہیں ہے۔ 1

حدیث سے استدلال

اہل سنت روایات

صحیح مسلم،   صحیح بخاری،   مصنف ابن ابی شیبہ   اور مسند احمد   میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہؐ کے ہمراہ جنگ کررہے تھے تو ہم نے کہا: کیا بہتر نہ تھا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کردیتے؟ رسول اللہؐ نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور پھر ہمیں اجازت دی کہ مہر (بصورت لباس وغیرہ) دے کر عورتوں کو وقتی طور پر اپنے حبالۂ نکاح میں لائیں۔

صحیح بخاری   نے جابر بن عبداللہ اور مسلمہ بن اکوع سے روایت کی ہے کہ رسول اللہؐ کا منادی ہماری طرف آیا اور کہا: "پیغمبر اکرمؐ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ عورتوں کے ساتھ متعہ کرو (یعنی ان کے ساتھ وقتی طور پر رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاؤ)"۔

احمد بن حنبل نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا: "ہم نے رسول خداؐ کے زمانہ میں متعہ کیا اور لباس اور کپڑوں کو بعنوان مہر متعین کیا۔

مُصَنَّف عبدالرزاق میں جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ "ہم رسول خداؐ اور ابوبکر کے زمانے میں کچھ آٹا اور کھجور بعنوان مہر دے کر متعہ کرتے تھے حتی کہ عمر نے اس عمل کے بموجب اس کو منع کیا جو عمرو بن حریث نے انجام دیا تھا۔

شیعہ روایات

امام صادقؑ سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا: قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے کہ "فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً"؛ تو ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو واجب ہے کہ  ان کی اجرتیں جو مقرر ہوں ادا کردو اور کوئی حرج و گناہ  نہیں کہ اس مقررہ مقدار کے بعد پھر تم آپس میں کوئی سمجھوتہ کرو، اور رقم کو مفاہمت کے ساتھ کم یا زیادہ کرو  یقینا اللہ جاننے والا ہے، صحیح کام کرنے والا۔

امام صادقؑ نے فرمایا: امیرالمؤمنینؑ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ "اگر عمر مجھ پر پہل نہ کرتے اور اپنی خلافت کے ذریعے متعے پر پابندی نہ لگاتے) تو نہایت شقی اور بدبخت (اور بہت کم) لوگوں کے سوا کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا"۔ 0

ابو حنیفہ نے امام صادقؑ سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو امامؑ نے فرمایا: "سبحان اللہ! کیا تم نے قرآن|کتاب اللہ   کی تلاوت نہیں کی جہاں ارشاد ہوا ہے کہ "فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةًً؟" تو ابو حنیفہ نے کہا: "خدا کی قسم! گویا میں نے اس آیت کو کبھی پڑھا ہی نہیں!"۔ 1

عبداللہ بن عمیر لیثی نے امام باقرؑ کے پاس آکر پوچھا: "متعہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو امامؑ نے فرمایا: "خداوند متعال نے اس کو اپنی کتاب اور اپنے پیغمبرؐ کی سنت میں حلال کیا ہے پس تا قیامت حلال ہے۔

متعہ کے قائل اصحاب

معتبر تواریخ اور روایات نیز فقہائے اہل سنت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت ـ حتی کہ رسول خداؐ کے وصال کے بعد اور خلفاء کی خلافت کے دوران اور اس کے بعد بھی ـ متعہ اور میعادی نکاح کے قائل تھی اور ان کا فقہی نظریہ یہ تھا کہ متعہ جائز اور مباح ہے۔ اس گروہ درج ذیل افراد شامل تھے:

عمران بن حصین خزاعی (متوفٰی     ہجری)

ابو سعید خدری (متوفٰی     ہجری قمری)

جابر بن عبداللہ انصاری (متوفٰی     ہجری)

زید بن ثابت انصاری (متوفی     ہجری قمری)

عبداللہ بن مسعود (متوفٰی     ہجری)

سلمہ بن اکوع (متوفٰی     ہجری قمری)

علی بن ابی طالبؑ (شہادت   0  ہجری)

عمرو بن حریث (متوفٰی     ہجری قمری)

معاویۃ بن ابی سفیان (متوفٰی   0  ہجری)

سلمہ بن امیہ

ربیعہ بن امیہ

عمرو بن حوشب

ابی بن کعب (متوفٰی   0  ہجری قمری)

اسماء بنت ابی بکر (المتوفٰاۃ     ہجری)

ام عبداللہ بنت ابی خثیمہ

عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب

سمیر (متوفٰی     ہجری قمری)

انس بن مالک (متوفٰی     ہجری)

عبداللہ بن عمر.

متعہ کے قائل تابعین و محدثین

تابعین اور تبع تابعین کی ایک جماعت اور محدثین میں سے متعدد افراد جواز متعہ کے قائل تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں صحاح ستہ کے مؤلفین اور دیگر علماء نے اتفاق رائے سے ـ نقل حدیث کے سلسلے میں ـ قابل اعتماد اور ثقہ گردانا ہے۔ ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

مالک بن انس،

احمد بن حنبل،

سعید بن جبیر،

عبدالله بن عبدالعزیز بن جریج،

عطاء بن ابی رباح،

طاؤوس یمانی،

عمرو بن دینار،

مجاہد بن جبر،

سدّی،

حکم بن عتیبہ،

ابن ابی ملیکہ،

زفر بن اوس بن حدثان مدنی،

طلحہ بن مصرّف الیامی.

حامیوں اور مخالفوں کے مناظرے

متعہ کے حلال یا حرام ہونے کے سلسلے میں خلیفہ دوئم کے حامیوں ـ جو اس کی حرمت کے قائل ہوئے تھے ـ اور مخالفین کے درمیان تنازعات اور جھگڑے رونما ہوئے:

سعید بن جبیر کہتے ہیں: "میں نے سنا کہ عبداللہ بن زبیر خطبہ دے رہا تھا اور متعہ کے حلال ہونے کا فتوی دینے پر ابن عباس پر ملامت کررہا تھا۔ ابن عباس نے کہا: "اگر وہ سچ کہتا ہے تو جا کر اپنی والدہ سے پوچھے"۔ ابن زبیر نے ماں سے پوچھا اور جواب سن لیا جو یوں تھا: "ابن عباس درست کہتے ہیں، ہاں ایسا ہی تھا!۔ ابن عباس نے کہا: "اگر چاہوں تو قریش کے ان افراد کے نام لوں گا جو متعے کے نتیجے میں دنیا میں آئے ہیں"۔

سعید ہی کہتے ہیں: "میں نے جابر سے کہا کہ ابن زبیر متعہ کو ممنوع قرار دیتا ہے اور ابن عباس اس کے جواز کا فتوی دیتے ہیں؛ تو جابر نے کہا: "حدیث فتوی میرے ہاتھوں میں گردش کرتی ہے: ہم رسول خداؐ کے زمانے میں متعہ کرتے تھے؛ عمر بن خطاب کا دور آیا تو انھوں نے خطبہ دیا کہ خداوند عزّ و جلّ نے جو کچھ چاہا اپنے پیغمبر کے لئے حلال کیا اور قرآن اپنے مقامات پر نازل ہوا؛ اب تم اپنا حج عمرے سے الگ کرو اور ان عورتوں کے ساتھ نکاح (متعہ) کرنے سے باز آؤ کیونکہ اگر کوئی مرد میرے پاس لایا جائے جس نے متعہ کیا ہو میں اس کو سنگسار کروں گا"۔

کلینی کہتے ہیں: علی بن ابراہیم قمی کہتے ہیں: ابو حنیفہ نے ابو جعفر محمد بن نعمان صاحب طاق سے پوچھا: اے ابا جعفر! متعہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کیا اس کو حلال سمجھتے ہو؟

انھوں نے کہا: ہاں

کہا: پس اپنی کنیزوں کو کیوں منع کرتے ہو کہ وہ جاکر متعہ کریں اور (تمہارے لئے) آمدنی کمائیں؟

ابو جعفر نے جواب دیا: ایسا نہیں ہے کہ ہر چیز میں شوق و رغبت ہو خواہ و حلال ہی کیوں نہ ہو۔ لوگوں کی اپنی حدود اور مراتب ہیں جن کا وہ تحفظ کرتے ہیں لیکن اے ابا حنیفہ! نبیذ (شراب) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کیا وہ حلال ہے؟

کہا: ہاں، حلال ہے۔

کہا: تو پھر تم کیوں اپنی عورتوں کو شراب فروشی کی دکانوں میں متعین نہیں کرتے ہو تاکہ وہ تمہارے لئے آمدنی کمائیں؟

ابوحنیفہ نے کہا: ایک کا جواب ایک؛ لیکن تمہارا جواب زیادہ مضبوط تھا۔ اور پھر کہا: وہ آیت جو سَأَلَ سَائِلٌ   میں ہے، متعہ کی حرمت کو ظاہری کرتی ہے اور رسول اللہؐ سے منقولہ روایت بھی اس آیت کو نسخ (منسوخ) کرتی ہے۔

ابو جعفر نے کہا: سورہ معارج مکی ہے اور آیت متعہ     مدنی ہے۔   اور تمہاری روایت بھی شاذّ و نادر ہے۔

ابو حنیفہ نے ابو جعفر کی دلیل کا جواب دیئے بغیر  کہا: آیت میراث بھی متعہ کی منسوخی پر دلالت کرتی ہے۔

ابو جعفر نے کہا: یہ نکاح (متعہ) ارث کے بغیر ہے۔ 0

ابو حنیفہ نے کہا: ایسا کیونکر ممکن ہے (کہ نکاح بغیر ارث کے واقع ہو)؟

ابو جعفر نے کہا: اگر ایک مسلم مرد اہل کتاب میں سے کسی عورت کے ساتھ شادی کرے اور وہ مرد مر جائے تو اس عورت کے بارے میں کیا کہوگے؟

ابو حنیفہ نے کہا: اہل کتاب خاتون کو مسلمان مرد کا ارث نہیں ملتا۔

ابو جعفر نے کہا: پس بغیر ارث کے نکاح بھی موجود ہے۔

اس کے بعد وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ 1

مامون کا متعہ کو جائز سمجھنا

بنی عباس کے ساتواں خلیفہ مامون نے اس دور میں سماج میں موجود مخالفتوں کے باوجود حرمت متعہ کو ختم کر دیا اور نکاح متعہ کو جائز قرار دیا۔ لیکب بعد میں جب اس کے مشاور اور قاضی القضات اور اہل سنت عالم یحیی بن اکثم نے اس سے کہا کہ امام علی (ع) بھی اسے حرام سمجھتے تھے تو اس نے امام علی (ع) کے احترام میں اس حکم سے صرف نظر کر لیا۔

دیگر اسلامی فرقوں کی رائے

اہل سنت کے سوا ـ جو متعہ کو باطل سمجھتے ہیں   متعہ کے بارے میں دوسرے اسلامی فرقوں کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں:

اباضیہ اور اہل سنت کے مشترکہ مسائل میں سے ایک متعہ کی تحریم ہے۔ اباضیہ کہتے ہیں کہ آیت متعہ منسوخ ہوئی ہے۔

زیدیہ بھی اہل سنت کی طرح متعہ کو حرام سمجھتے ہیں اور علمائے زیدیہ میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو نکاح متعہ کے جواز کا قائل ہو۔   ۔

اسماعیلیہ متعہ کو جائز نہیں گردانتے اور شادی بیاہ اور ازدواج کو دائمی زوجہ اور ملک یمین تک محدود سمجھتے ہیں۔

ارکان

نکاح منقطع (یعنی متعہ) نکاح اور شادی کی دوقسموں میں سے ایک ہے اور ایک مستحب عمل ہے۔   نکاح منقطع کے ارکان چار ہیں:

صیغہ

عقد متعہ بھی دیگر عقود کی مانند ایجاب اور قبول سے تشکیل پاتا ہے۔ ایجاب بقول مشہور "زَوَّجْتُکَ"، "مَتَّعْتُکَ" یا "أَنْکحْتُکَ" میں سے کسی لفظ کے ساتھ ہونا چاہئے اور عقد دیگر الفاظ ـ جیسے "تملیک"، "ہبہ" اور "اجارہ" جیسے الفاظ = سے منعقد نہیں ہوتا۔ قبول ایسے لفظ کے انجام پاتا ہے جو قبول کرنے والے کی طرف سے رضا و رغبت پر دلالت کرے جیسے "قَبِلْتُ النِّکاحَ"، "قَبِلْتُ المُتْعَةَ"، "قَبِلتُ التَّزْویجَ" یا صرف لفظ "قَبِلْتُ"۔ 0  عقد منقطع اور عقد دائم کی شرائط ایک جیسی ہیں۔ 1

عورت اور مرد میں سے کوئی بھی تمتع اور لذت لینے کی کیفیت، وقت اور مقام اور دیگر پہلؤوں کے حوالے سے ایسی شرطوں کا تعین کرسکتا ہے جن عقد کے تقاضوں کے منافی نہ ہوں۔   اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان  اختلاف ہے کہ کیا مرد اپنی وقتی زوجہ کا حق زوجیت چار ماہ تک ترک کرسکتا ہے یا نہیں۔

زوجین

وقتی ازدواج اور متعہ مسلمان مرد عورت اور متأخر فقہاء کے مشہور قول کے مطابق مسلمان مرد اور کتابی عورت کے درمیان صحیح ہے لیکن مسلمان عورت اور کتابی مرد کے درمیان صحیح نہیں ہے۔   ۔

مستحب ہے کہ جو عورت عقد منقطع کے لئے اختیار کی جاتی ہے مؤمنہ (شیعہ) اور پاکدامن ہو اور اگر اس پر کوئی الزام ہو تو اس کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ قول مشہور یہ ہے کہ زانیہ عورت کے ساتھ متعہ کرنا مکروہ اور بعض فقہاء کے نزدیک حرام ہے اور مکروہ ہونے کا قول اختیار کرکے اس کے ساتھ متعہ کیا جائے تو اس کو زنا سے بازرکھنا اور منع کرنا مستحب ہے۔   باکرہ کنواری) لڑکی کے ساتھ متعہ کرنا مکروہ ہے اور اگر وہ متعہ کرے تو اس کی بکارت (کنوارا پن) زائل کرنا مکروہ ہے۔ عاقلہ۔ بالغہ اور رشیدہ کنواری لڑکی کے عقد منقطع کے لئے اس کے ولی (والد یا دادا) کی اجازت کی ضرورت میں اختلاف ہے اور بعض (اکثر) فقہاء اس عقد کو باطل سمجھتے ہیں۔

مہر

عقد منقطع میں مہر کا ذکر اس کی صحت کی شرط ہے اور اگر مہر کا ذکر نہ کیا جائے تو عقد صحیح نہیں ہے۔   عورت عقد کے انعقاد کے ساتھ ہی مہر کی مالک بن جاتی ہے لیکن پورے مہر پر اس کی ملکیت مجامعت اور متعہ کی معینہ مدت کے دوران تمکین ( مجامعت کے حوالے سے شوہر کی اطاعت) پر مشروط ہے۔   اگر مرد مجامعت سے قبل ہی مدت متعہ زوجہ کو بخش دے تو مہر کی آدھی رقم اس کے ذمے ثابت ہے۔ 0

مدّت

مدت کا ذکر اس قسم کے عقد میں صحت کی شرط ہے۔ اگر مدت ذکر نہ کی جائے تو قول مشہور یہ ہے کہ عقد دائم واقع ہوجاتا ہے (اور عورت مرد کی دائمی زوجہ ہوگی)۔ مدت کو معین کرنا چاہئے اس طرح کہ اس کو کم یا زیادہ نہ کیا جاسکے؛ مبہم اور کلی نہ جیسے حجاج کی مکہ سے وطن واپسی سے چند ماہ قبل تک وغیرہ۔

مرد مدت متعہ کا کچھ حصہ یا پوری مدت عورت کو بخش سکتا ہے اور اس میں عورت کی طرف سے قبول کا صیغہ جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 1  متعہ میں طلاق نہیں ہے اور عورت اور مرد مدت کے اختتام یا مرد کی طرف سے مدت بخشے جانے کی صورت میں علیحدہ ہونگے۔

بقول مشہور ـ مدت متعہ کے خاتمے سے قبل ـ عورت کے ساتھ عقد متعہ کی تجدید یا اس کی عقد دائم میں تبدیلی صحیح نہیں ہے۔

نکاح متعہ کی عدت

عورت مدت متعہ کے اختتام یا مرد کی طرف سے مدت بخشے جانے کی صورت میں مجامعت و عدم حاملگی، اور حیض کی عمر میں ہوتے ہوئے ماہواری نہ آنے کی صورت میں  دن تک عدت رکھے گی اور اس میں اختلاف ہے کہ کیا عورت کی عدت دو ماہواریاں ہیں یا ڈيڑھ مہینہ، یا دو بار (حیض سے) پاک ہونا۔ اول الذکر قول (دو ماہواریاں) مشہور ہے اور اگر عورت حاملہ ہو تو بچے کی پیدائش تک کی مدت عدت شمار ہوگی۔

بقول مشہور وہ غیر حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پا چکا ہے، چار ماہ تک عدت میں رہے گی اور بعض اس کی نصف مدت کے قائل ہوئے ہیں۔ عدت وفات عورت کے حاملہ ہونے کی صورت میں ـ وضع حمل اور بچے کی پیدا‏ئش تک ـ مدت کے لحاظ سے طویل ترین ہے۔

نکاح منقطع اور نکاح دائم میں فرق

جو چیز ان دو کو ایک دوسرے سے متمایز کردیتی ہے ایک یہ ہے کہ عورت اور مرد فیصلہ کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ایک دوسرے سے نکاح کرلیں اور مدت کے خاتمے کے بعد اگر مائل ہوں تو اس کی تجدید کریں اور اگر مائل نہ ہوں تو علیحدگی اختیار کریں۔

شرائط کے لحاظ سے دونوں کو (نکاح دائم کی نسبت) زيادہ آزادی حاصل ہے اور جس طرح کہ چاہیں معاہدہ کرتے ہیں؛ مثال کے طور پر نکاح دائم میں مرد کو ـ چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے ـ زوجہ کے روزمرہ احتیاجات ـ جیسے غذا، لباس، مکان ـ اور دیگر احتیاجات ـ جیسے علاج معالجہ اور طیبیب کے اخراجات ـ پورے کرنے پڑتے ہیں جبکہ نکاح متعہ میں یہ سب مرد اور عورت کے درمیان آزاد قرارداد پر منحصر ہے؛ ممکن ہے کہ مرد ان اخراجات کو برداشت نہ کرنا چاہے یا نہ کرسکے یا زوجہ شوہر کے مال سے اس سلسلے میں استفادہ نہ کرنا چاہے۔

نکاح دائم میں زوجہ ـ چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے ـ مرد کو سربراہ خاندان کے طور پر قبول کرے گی اور خاندان کے مفاد اور مصلحت کے سلسلے میں اس کے اوامر کی اطاعت گزار ہوگی جبکہ نکاح متعہ میں یہ سب ان کے درمیان اس قرارداد پر منحصر ہو جو ان کے درمیان عقد کے وقت منعقد ہوگی۔

دائمی ازدواج میں زوجہ اور شوہر ـ چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے ـ ایک دوسرے سے وراثت پاتے ہیں جبکہ نکاح متعہ میں ایسا نہیں ہے۔

نکاح دائم میں بعض فقہاء کی رائے کے مطابق زوجین میں سے کوئی بھی دوسرے کی مرضی کے بغیر بچہ جننے اور تولید نسل سے امتناع و احتراز نہیں کرسکتا جبکہ نکاح متعہ میں اس سلسلے میں دوسرے کی مرضی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ درحقیقت یہ بھی ایک قسم کی دوسری آزادی ہے جو نکاح متعہ میں زوجین کو عطا ہوئی ہے۔ اگر اس نکاح سے کوئی بچہ دنیا میں آئے تو اس میں اور دائمی نکاح سے دنیا میں آنے والے بچے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

مہر نکاح دائم میں بھی واجب و لازم ہے اور نکاح متعہ میں بھی؛ فرق صرف یہ ہے کہ نکاح متعہ میں اگر مہر کا ذکر نہ کیا جائے تو نکاح باطل ہے اور اگر نکاح دائم میں اس کا ذکر نہ کیا جائے تو عقد باطل نہیں ہوتا اور مہر المثل متعین کیا جاتا ہے۔

جس طرح کہ عقد دائم میں زوجہ کی ماں اور بیٹی اس کے شوہر، اس کے بیٹے اور باپ پر حرام و محرّم ہے عقد متعہ میں بھی ایسا ہی ہے اور جس طرح کہ زوجۂ دائمہ کا رشتہ مانگنا دوسروں پر حرام ہے زوجۂ متعہ کا رشتہ مانگنا بھی دوسروں پر حرام ہے۔ جس طرح کہ دوسرے مرد کی زوجۂ دائمہ کے ساتھ زنا کرنا ابدی حرمت کا سبب بنتا ہے دوسرے مرد کی زوجہ متعہ کے ساتھ زنا کرنا بھی ابدی حرمت کا موجب بنتا ہے۔

جس طرح کہ زوجۂ دائمہ کو طلاق کے بعد معینہ مدت تک عدت میں رہنا پڑتا ہے زوجۂ متعہ کو بھی معینہ مدت کے خاتمے یا اس کے شوہر کی طرف سے بخشے جانے کی صورت میں کچھ مدت تک عدت میں رہنا پڑتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ نکاح دائم سے طلاق یافتہ عورت کی عدت کی مدت تین ماہواریوں تک اور نکاح متعہ کی عدت  تک ہے۔

نکاح دائم میں دو بہنوں سے شادی کرنا جائز نہیں ہے اور نکاح متعہ میں بھی دو بہنوں کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔

نکاح متعہ میں ـ نکاح دائم کے برعکس ـ عورتوں کے انتخاب کے حوالے سے کوئی حد مقرر نہیں ہے اور مرد جہاں تک چاہے متعدد عورتوں سے نکاح متعہ کرسکتا ہے؛   جبکہ نکاح دائم میں چار عورتوں سے زیادہ سے شادی کرنا جائز نہیں ہے۔

شادی شدہ مرد کا نکاح متعہ

نکاح متعہ کے سلسلے میں رویہ کچھ ایسا ہو کہ نہ تو یہ سنت حسنہ فراموشی کے سپرد کیا جائے اور نہ ہی اس کے مستحب ہونے کے بہانے دائمی زوجہ مشترکہ زندگی اور دین اسلام سے مایوس کیا جائے؛ اگرچہ دائمی زوجہ کے ناراض ہونے یا نہ ہونے سے نکاح متعہ کے جواز اور مشروعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اس کی ناراضگی اس کی حرمت یا ممنوعیت کا سبب نہیں بنتی۔

امام ہادیؑ نے فرمایا ہے:

"بہتر ہے کہ نکاح متعہ کے سلسلے میں سنت کو قائم کرنے پر اکتفا کیا جائے اور اس قدر اس کی طرف توجہ نہ دی جائے کہ انسان اپنی دائمی زوجہ سے غافل ہوجائے؛ کیونکہ ایسا کرنے کی وجہ سے خواتین کفر و انکار کی طرف مائل ہوسکتی ہیں اور نکاح متعہ کا حکم دینے والوں اور اہل بیت علیہم السلام کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کرسکتی ہیں اور ان پر ملامت و نفرین کرسکتی ہی۔

مروی ہے کہ امام ہادیؑ سے متعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:

"متعہ، مباح اور حلال مطلق ہے اس مرد کے لئے جس کو خداوند متعال نے دائمی ازدواج کے ذریعے بےنیاز نہیں کیا ہے (اور ابھی تک ضرورتمند ہے)، پس اگر دائمی نکاح کے ذریعے وہ نکاح متعہ سے بےنیاز ہے تو صرف اس صورت میں متعہ اس کے لئے جائز ہوگا جب زوجہ اس کے پاس نہ ہو۔

متعہ کا فلسفہ

شہید استاد مرتضی مطہریؒ کہتے ہیں:

حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان تھوڑا سا غور کرے تو ظاہر ہے کہ نکاح متعہ ایک حالت ضرورت کے لئے ہے۔ 0  یہ جو اسلام نے متعہ کی اجازت دی ہے کچھ لوگوں کی شہوت رانی اور ہوی و ہوس کی آگ بجھانے کے لئے نہیں کہ بعض افراد جو شادی شدہ ہیں اور ایک، دو، تین یا چار بیویوں کے خاوند ہونے کے باوجود تنوع (variety) کی خاطر نکاح متعہ کی طرف چلے جاتے ہیں کہ ثواب حاصل کریں!! نہیں، ان افراد کے لئے اس کا کوئی ثواب نہیں ہے بلکہ ان کے لئے باعث گناہ بھی ہے۔

استاد مطہری متعہ کی ترغیب اور اس سے نہی کے سلسلے میں ائمۂ معصومین علیہم السلام سے وارد ہونے والی مختلف احادیث کے بارے میں کہتے ہیں:

"میری رائے کے مطابق ـ جہاں ائمۂ اطہار نے شادی شدہ مردوں کو متعہ سے منع کیا ہے، ان کا یہ حکم اس قانون کی حکمت اولیہ پر استوار ہے۔ انھوں نے یہ بتانا چاہا ہے کہ یہ قانون ان مردوں کے لئے وضع نہیں ہوا ہے جن کے لئے متعہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ امام کاظمؑ نے علی بن یقطین سے فرمایا: "تمہیں نکاح متعہ سے کیا کام حالانکہ خداوند متعال نے تم کو اس سے بے نیاز فرمایا ہے" اور ایک دوسرے شخص سے کہا: یہ قانون اس شخص کے لئے جس کو خداوند متعال نے ایک بیوی کے ذریعے اس سے بے نیاز نہیں کیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شادی شدہ ہو تو وہ صرف اس وقت نکاح متعہ کا اہتمام کرے جب زوجہ اس کی دسترس باہر ہو"۔ لیکن جہاں انھوں نے عام افراد کو اس عمل کی ترغیب دلائی ہے وہ اس قانون کی حکمت ثانویہ یعنی "سنت متروکہ کا احیاء" کا تقاضا ہے کیونکہ اگر وہ صرف ضرورتمند افراد کو اس سنت پر عمل کرنے کی ترغیب دلاتے تو یہ حکم اس سنت متروکہ کے احیاء کے لئے کافی نہ تھا۔

محمد حسین کاشف الغطاء نکاح متعہ کے فلسفے کے بارے میں کہتے ہیں:

اسلام نے جنسی مشکل کا راہ حل (خاص طور پر نوجوانوں اور) ان تمام لوگوں کو دکھایا ہے جو کسی وجہ سے دائمی شادی کرنے پر قدرت نہیں رکھتے؛ اور تجویز دیتا ہے کہ ان صورتوں میں عورت اور مرد ـ جو ایک دوسرے کی طرف مائل ہیں ـ دائمی نکاح کے بھاری فرائض اور ذمہ داریاں اٹھائے بغیر، محدود وقت کے لئے نکاح متعہ برقرار کرتے ہیں اور اس کو عینا دائمی شادی سمجھیں اور عورت مدت متعہ کے خاتمے کے بعد بھی عدت کا پاس رکھ کر زوجیت کے حریم کی مکمل طور پر رعایت کریں۔

ان کا کہنا ہے:

نکاح متعہ فحاشی اور جنسی انحرافات کی مختلف اقسام سے بچاؤ کا ایک حربہ ہے اور نوجوانوں کی جنسی مشکلات کے ایک بڑے حصے کو حل کرسکتا ہے اور بہت سی معاشرتی برائیاں جو اس حوالے سے کسی بھی بڑے اور چھوٹے کے دامنگیر ہو سکتی ہیں کی جڑیں اکھاڑ سکتا ہے۔