اسلامی تصور سیاست اور دین

سیاست اور ریاست میں دین کا کردار ایک ایسا موضوع ہے جو دور حاضر میں بدقسمتی سے افراط و تفریط اور دو طرفہ شدت پسندی کا شکار ہے۔ ایک طرف وہ مذہبی طبقہ ہے جس کی ذہنی پرورش اور بلوغت ایسے تنگ نظر مذہبی ماحول میں ہوئی ہے جہاں دنیوی علوم اور عصر حاضر کے مسائل شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں مذکورہ مذہبی ماحول میں تدریس کا مرکزی نقطہ اسلام کم اور اپنے مسلک کی حقانیت اور دوسرے مسلک کی گمراہی و ضلالت زیادہ رہتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس مذہبی طبقہ کو گزشتہ چار دہائیوں سے عالمی طاقتوں اور ملکی اداروں نے بالترتیب اپنی عالمی سرد جنگ اور سٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ دوسری طرف دنیا کے مختلف علاقوں میں سیاسی طور پر غلامی و محکومی اور جبر و تشدد کا نشانہ بننے والی مسلمان قوموں کے مسائل سے عالمی طاقتوں کی چشم پوشی اور بعض جگہوں پر جبر و تشدد کی حمایت و پشت پناہی، مسلم حکمرانوں کی منافقانہ و بزدلانہ پالیسیوں، کرپشن، اقربا پروری اور اُمت مسلمہ کے مسائل کے حل میں عدم دلچسپی نے اس مذہبی طبقے میں ردعمل کے طور پر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام پسندوں اورحق پرستوں کے اقتدار میں آئے بغیر یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اس پس منظر میں ان کے ہاں اقتدار صرف ’’اہل حق‘‘ کا حق ہے اور ’’اہل حق‘‘ اُن کے علاوہ کوئی نہیں۔ اس فکر کو دراصل theocracy یا پاپائیت کا عنوان دیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف وہ جدت پسند طبقہ فکر ہے جس کی نظر میں اہل مذہب کی تنگ نظری، کردار کی عدم پختگی، ان کے ہاں مسائل جدیدہ سے عدم آگہی اور اکیسویں صدی کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی عدم صلاحیت واضح تھی۔ اس طبقہ نے مغرب میں مذہب کو ریاست و سیاست سے الگ کرنے کے انقلابی نتائج و ترقی کا واضح مشاہدہ یا مطالعہ کیا تھا۔ لہذا وہ اس بات کا داعی بن گیا کہ اسلام یا اھل مذہب کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ مذہب صرف فرد کے پروردگار سے تعلق سے عبارت ہے اس دائرہ سے باہر مذہب کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ ان دو انتہائی افکار کے درمیان عامۃ الناس کی اکثریت ہے جو confused ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح دونوں انتہاوں میں سے کسی ایک طرف راغب نظر آتے ہیں۔ اِلتباس و اِبہام کے اس منظر نامہ میں فکری و نظریاتی واضحیت (conceptual clarity) کے حصول کے لیے سب سے پہلے دین اسلام کا دیگر مذاہب بالخصوص یہودیت و مسیحیت سے فرق سمجھنا ضروری ہے۔ اولاً: دونوں مذاہب کی اصل الہامی کتب اور دیگر احکامات تغیر و تبدل کے مراحل سے اتنا گزرے ہیں کہ جو احکام انبیاء کرام پر اترے یا اُنہوں نے بیان فرمائے وہ اصل حالت میں موجود نہیں۔ ثانیاً: دونوں الہامی مذاہب کے بانی نہ سربراہ ریاست بنے نہ انہوں نے کسی سیاسی ریاست کی بنیاد رکھی، لہٰذا اُن کے مذاہب کے ہاں سیاسی و ریاستی اَحکام و ہدایات (political orders) سرے سے دستیاب ہی نہیں۔ اسلام اور دیگر دو الہامی مذاہب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اسلام آخری الہامی دین ہے اور اسلام کا تصورِدین ’’مذہب‘‘ سے بہت مختلف اور وسیع ہے۔ اسلام کا مقصد صرف مذہبی و روحانی اقدار کا فروغ و قیام نہیں بلکہ ظلم و استحصال کی ہر شکل کے خاتمہ، فتنہ و فساد کی سرکوبی اور امن عالم کا قیام بھی ہے۔ یہ بات ہم کسی مفسر، شارح یا مفکر کی تشریحات و افکار کی بنیاد پر نہیں لکھ رہے بلکہ قرآن مجید واضح طور پر اس مقصد کی خود نشاندہی فرماتے ہوئے سورۃ التوبۃ (9 : 33) میں مقصد بعثت نبوی ’’دین اسلام کا سیاسی اظہار‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ سورۃ الانفال (8 : 39) میں ریاستِ اسلامیہ کو تمام فتنوں کی سرکوبی کے لیے قیامِ امن کی بحالی تک جنگ جاری رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ سورۃ التوبۃ میں ارشاد باری تعالی ہے:

’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔‘‘

دوسرے مقام پر سورۃ الانفال میں ارشاد فرمایا:

’’اور (اے اہلِ حق!) تم ان (ظلم و طاغوت کے سرغنوں) کے ساتھ (قیامِ اَمن کے لیے) جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ کوئی فتنہ (باقی) نہ رہ جائے۔ اور سب دین (یعنی نظام بندگی و زندگی) اللہ ہی کا ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو بے شک اللہ اس (عمل) کو جو وہ انجام دے رہے ہیں، خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘

مزید برآں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے نظم و قانون سے آزاد معاشرے میں نہ صرف ایک کامیاب فلاحی ریاست قائم کی بلکہ اپنی زندگی میں اس کو پورے جزیرہ نمائے عرب (Arabian peninsula) تک وسیع کر دیا۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں یہ ریاست دنیا کے نقشہ پر ایک منظم، مضبوط، معتبر، حقوق انسانی کی محافظ، جمہوری اقدار کی مظہر، بین المذاہب رواداری اور ہم آہنگی کی امین اورمختلف برادریوں، لسانی اکائیوں اور مذہبی طبقات کے درمیان پر امن بقائے باہمی کے نمونے کے طور پر ابھری۔ اس تناظر میں ایک اور حقیقت جس کو سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کا تصور ریاست و سیاست پاپائیت (theocracy) سے مکمل طور پر پاک ہے۔ انسانی زندگی کا مذہبی پہلو اس کے دیگر بہت سے پہلووں میں سے ایک ہے۔ اسلام اور سیرت مصطفی نے زندگی کے ہر پہلو کو develop کرنے کے لیے رہنمائی ہی نہیں دی بلکہ زندگی کے ہر گوشے و پہلو کے حوالے سے بہترین شخصی نمونے (role model) بھی پیدا کیے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ذمہ داریاں سورۃ النساء کی آیت نمبر 58 کے حکم الٰہی کے تحت اُن کی صلاحیت، قابلیت، طبعی رجحان اور تخصص (specialization) کے بنیاد پر دی گئیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’حکومت اچھی شے ہے مگر اس کے لیے جس نے اپنے حق (یعنی صلاحیت و قابلیت اور نفع بخشی و فیض رسانی) کی بناء پر اسے حاصل کیا اور پھر اس کا حق ادا کیا، اور حکومت اس کے لیے بری شے ہے جس نے حق دار نہ ہونے (یعنی شہرت و خود نمائی اور حرص و لالچ ہونے) کے باوجود اسے حاصل کیا، اس کے لیے حکومت روزِ قیامت باعث حسرت ہو گی۔‘‘

(طبرانی، المعجم الکبیر، 5 : 127) اسلام میں سرکاری عہدہ (public office) تفویض کرنے سے قبل مطلوبہ شرائط و اہلیت کا کس حد تک التزام کیا جاتا ہے، اس کا اندازہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسے زہد و ورع کے پیکر، تقوی و طہارت کے مظہر اور اسلام کی مذہبی تعلیمات کے نمونہ احسن سے مروی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے خود بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ’’اے ابوذر! تم کمزور ہو! اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی کا باعث ہوگی، البتہ جو امارت کے حقوق ادا کرے اور اس کی ذمہ داریاں پوری کرے (وہ مستثنیٰ ہو گا)۔‘‘ (صحیح مسلم، 3 : 1457، رقم: 1825) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ جواب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام کے تصورِ سیاست میں محض عبادت و ریاضت اور زہد و ورع اِستحقاقِ اَمارت اور حصولِ سلطنت و اقتدار کی دلیل نہیں بلکہ اس کے لیے مطلوبہ تقاضے پورے کرنا ہوں گے ۔ اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ امر بھی متحقق ہوتا ہے کہ اسلام کے مذہبی و روحانی پہلو میں خصوصی تجربہ و مہارت رکھنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عملاً سیاسی و انتظامی اُمور میں مداخلت کے بجائے اپنے اختصاص (speciality) کی مناسبت سے ساری توجہ مذہبی و روحانی اُمور پر ہی رکھی۔ ان میں علم تفسیر میں حضرت عبد اﷲ بن عباس، علم حدیث میںحضرت ابو ہریرہ، علم فقہ حضرت عبد اﷲ ابن مسعود، شعر و سخن میں حضرت حسان بن ثابت جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر بے شمار صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے مذہبی میدان میں اعلیٰ ترین مقام ہونے کے باوجود دورِ رسالت یا دورِ خلفاے راشدین میں کوئی سیاسی یا ریاستی ذمہ داری نہ لینا اس theory کی ناقابل تردید شہادت ہے کہ اسلامی تصورِ سیاست پاپائیت سے بالکل پاک ہے اور موجودہ دور کے مذہبی طبقہ کا یہ خیال کے اقتدار میں صرف اہل مذہب ہی آسکتے ہیں اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں۔ اب تک کی بحث سے یہ امر واضح کرنا مقصود تھا کہ دین اسلام کا مذہبی پہلو ریاستی و سیاسی معاملات سے آزاد ایک الگ subject ہے۔ اہل مذہب کی اُمور سیاست میں شرکت پر نہ پابندی ہے اور نہ ہی یہ لازمی ہے۔ چودہ سو سالہ تاریخ اسلام سے واضح ہوتا ہے کہ کبار اَئمہ و اَسلاف نے عموماً سیاسی و ریاستی معاملات سے الگ تھلگ رہ کر ہی مذہب کی خدمت کی اور اہل مذہب کے لیے یہی اسوہ بہترین راستہ ہے، لیکن اس کا یہ معنی لے لینا کہ دین اسلام ریاستی و سیاسی معاملات میں کوئی رہنمائی نہیں دیتا یا ریاست و سیاست کے باب میں اسلام کا کوئی تعلق و واسطہ نہیں دوسری انتہا اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باقاعدہ ریاست قائم کر کے اور خلفاء راشدین نے اس ریاست کے استحکام و توسیع کے ذریعے اسلام کے ریاستی و سیاسی احکام بڑی صراحت کے ساتھ واضح کیے ہیں۔ اسلام کے سیاسی و ریاستی احکام ہی اسلام کو دین بناتے ہیں اور اسے دیگر مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ ان کو دین اسلام سے الگ کرنا یا ریاست و سیاست کو دین سے کلیتاً آزاد کردینا دین اسلام کے حقیقی تصور میں تحویل کے مترادف ہے۔ دین و سیاست کا دو الگ الگ خانوں میں بٹوارہ کرنے والی اِسی مکتبِ فکر کا رد حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا تھا۔ اسلام کے سیاسی و ریاستی احکام و ہدایات کے حوالے سے اہم مسئلہ ’’تصورِ قومیت‘‘ ہے۔ یہ تصور بھی علمی زوال و انحطاط کے دور میں التباس کا شکار ہے۔ اسلام یقینا ریاستی و سیاسی امور میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو برابر شہری کی حیثیت دیتا ہے بلکہ میثاق مدینہ میں حضور اکرم نے یہود و نصاری اور مسلمانوں کے لیے ریاستِ مدینہ کے تناظر میں ’’ملة واحدة‘‘ یعنی ایک قوم کا عنوان دیا۔ لہٰذا اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی خاص جغرافیائی اکائی کے لوگ مل کر اسلامی اصولوں کے مطابق ریاستی نظم و نسق قائم کر کے کسی عمرانی و آئینی دستاویز پر متفق ہوجائیں تو اس ریاست کے تمام شہری بلا تفریق مذہب و نسل ایک قوم تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن اس جغرافیائی یا ریاستی قومیت کے جواز کا یہ معنی نہیں کہ پوری دنیا میں رہنے والے مسلمان ایک قوم نہیں ہیں۔ مسلم قومیت کا مکمل انکار قرآن حدیث کے واضح احکامات سے صرف نظر کرنا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مسلمانوں کے ’’اُمّة واحدة‘‘ اور ’’خير اُمة‘‘ کے الفاظ کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ملت و قوم قرار دیا ہے جو آپس میں انّما المومنون اخوۃ کے تحت رشتہ مواخات میں جڑے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا دیگر ادیان کے ماننے والوں کے مقابلے میں الگ قوم ہونا اس بات کا متقاضی نہیں کہ اس قومیت کی دنیا میں ایک ہی سلطنت، ریاست یا خلافت یا امامت ہو۔ خلاف راشدہ کے دور آخر میں ہی اسلامی دنیا میں عملاً دو الگ الگ حکومتیں قائم ہوگئی تھی۔ بعد ازاں دنیا کے مختلف علاقوں میں الگ الگ امیر، خلیفہ و سلطان موجود رہے جس کی مخالفت یا رد کسی امام یا دینی رہنما نے نہیں کیا۔ لہٰذا انتہا پسند مذہبی طبقات کے ہاں پوری دنیا میں ایک ہی خلافت اسلامیہ کے قیام کے تصور کا کوئی دینی، مذہبی و تاریخی جواز و استدلال موجود نہیں۔ اسلام کا تصور سیاست اس امر کا متقاضی ہے کہ طبقاتِ معاشرہ اور مختلف مذہبی اکائیاں مل کر ایک آئینی ریاست تشکیل دیں۔ یعنی تشکیل ریاست اور تدوین آئین بنیادی اسلامی احکامات و تصورات میں سے ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ریاست مدینہ کی تشکیل اور میثاق مدینہ (Pact of Madina) کی صورت میں ایک آئینی دستاویز کی تیاری ایک قوی ترین اور نا قابل تردید دلیل اور حجت ہے ۔ مزید برآں اسلام نے ریاست کے سربراہ کے تقرر کے لیے اُس ریاست کے شہریوں کی اتفاق رائے یا کثرت رائے کا اصول مقرر کیا ہے جبکہ امور ریاست آمریت یا شخصی حکومت کے بجائے مشاورت سے چلانے کا ضابطہ مقرر کیا ہے جیسا کہ ’واَمرہم شورٰی بینہم‘ کا قرآنی حکم اس باب میں واضح ہے۔ اسلام نے حکمرانوں اور اہل شوری (ممبران پارلیمنٹ) کے لیے عدل، صدق، امانت، دیانت، علمی و ذہنی قابلیت اور جسمانی صحت کے معیارات مقرر کیے ہیں۔ طرزِ حکومت اور نظام انتخابات کو اسلام نے اجتہادی امور کے طور پر open چھوڑ دیا تاکہ ہر دور کے تقاضوں اور معاشرے کے رجحانات و میلانات اور معاشرتی صورت کے مطابق اس کی شکل بنائی جاسکے۔ اسی طرح اسلامی نظام میں حکمران کو اقتدار سے الگ کرنے کا اصل اختیار بھی عوام اور شہریوں کو دیا گیا جس کی بنیاد حضرت صدیق اکبر کا مسند خلافت سنبھالنے کے فوراً بعد پہلے خطبے کے یہ الفاظ ہیں:

’’اے لوگو مجھے تم پر حکمران مقرر کر دیا گیا ہے حالانکہ میں تم سب سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھائی کی راہ پر چلوں تو میری مدد کرنا اور اگر برائی کی راہ پر چلوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کر دینا۔ تم میری اس وقت تک اطاعت کرتے رہنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نافرمان ہو جاؤں تو تم پر میرے فرمان کی اطاعت قطعاً واجب نہیں۔‘‘

(ابن کثیر، البدایہ و النھایۃ، 6 : 301) لہٰذا یہ کہنا کے حکومت کے قیام اور اس کے آئینی قوانین کے حوالے سے دین اسلام کی طرف سے کوئی واضح رہنمائی نہیں یا اس بارے میں مسلمانوں کے کوئی فرائض و وا حیات نہیں درست موقف نہیں۔ اسلام کے نظام سیاست و ریاست کے بنیادی اصولوں میں سے معاشی انصاف، انسانی مساوات، نظام عدل، انسانی حقوق، عوام کی شرکت اقتدار اہم ہیں۔ مزید برآں سورۃ الحج کی آیت نمبر 41 میں قرآن نے اَربابِ اقتدار کی بنیادی ذمہ داریاں چار بیان کی ہیں: جو کہ اقامتِ صلوٰۃ، نظام زکوٰۃ، امر بالمعروف (promotion of good) اور اور نہی عن المنکر (prohibition of crime) ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقامت صلوٰۃ سے مراد محض نماز پنج گانہ کی پابندی کروانا ہی نہیں ہے بلکہ معاشرے میں اسلام کی اعلیٰ اخلاقی و روحانی اقدار کے فروغ کے ضروری اقدامات کرنا بھی ہے، نظام زکوٰۃ سے مراد معاشرے سے معاشی تفاوت کا خاتمہ، ارتکاز زر کی روک تھام اور معاشرے کے محروم طبقات کو جملہ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت شامل ہے۔ امر بالمعروف سے مراد معاشرے میں ان تمام قوانین کی تشکیل اور اُن کی پابندی کروانا جن کی مذکورہ بالا بنیادی اصولوں کے قیام کے لیے ضرورت ہو جبکہ نہی عن المنکر سے مراد ہر اس برائی کی روک تھام ہے جو انسانی نظام حیات کے لیے مضر اور نقصان دہ ہو۔ لہٰذا اسلام کا یہ تقاضا ہے کہ افراد معاشرہ مل کر ریاست قائم کریں، اس کا آئین و دستور اسلام اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے، ریاست اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے کے لیے جمہوری انداز میں حکمران منتخب کرے، حکومتی امور مشاورت کے بنیاد پر طے کیے جائیں اور حکومتی عہدیداران بنیادی ذمہ داریاں ادا کریں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلام ایک ریاست کے مختلف اداروں کے لیے قوانین اور بنیادی اصول بھی بیان کرتا ہے۔ انہیں اصولوں کی روشنی میں اسلام ریاست کے لیے نظامِ قضا (judicial system) کا قیام چاہتا ہے جو حکومتی اثر و رسوخ سے بالکل آزاد، شہریوں کو عدل و انصاف کی فراہمی اور صرف قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہو۔ نظام قانون اُس الوہی ہدایت کی روشنی میں تشکیل دیا جانا لازمی ہے جن کو قرآن، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت و سیرت اور خلفاء راشدین نے قائم کیا۔ البتہ ان کا ڈھانچہ و تفاصیل ہر دور میں وقت اور معاشرے کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اہل شوری (پارلیمنٹ) کی ذمہ داری لگائی گئی ہے۔ اسلام کے نظام قانون کا ایک حصہ نظام تعزیرات (Islamic Penal System) ہے۔ نظام تعزیرات کے حوالے سے بھی ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک سوچ اسلامی تعزیرات کے نظام کو دقیانوسی اور چودہ سو سال پرانا قرار دے کر آج کے دور میں ناقابل عمل قرار دیتی ہے تو دوسری سوچ نظام تعزیرات کے قیام کے ذریعے معاشرے میں اخلاقی اقدار اور قانون کی حکمرانی چاہتی ہے۔ پہلی سوچ تو ہے ہی اِسلام سے متصادم جبکہ دوسری فکر اسلامی مصالح اور شرعی مقاصد سے ہم آہنگ نہیں۔ اسلام ریاست کو اولاً معاشرتی و معاشی انصاف کے قیام، ظلم و ستم اور جبر و استحصال کے خاتمے اور اخلاقی اقدار کا قیام کا پابند کرتا ہے اور جب معاشرے میں اخلاقی و قانونی اقدار قائم ہوجائیں تو اُن کے تحفظ کے لیے تعزیرات کا نظام دیتا ہے۔ تعزیرات کے ذریعے اقدار سے محروم معاشرے میں کبھی اقدار قائم نہیں ہوسکتی۔ ریاست مدینہ میں بے شمار احکامات کا نفاذ بتدریج (gradually) ہوا اور آج کے رو بہ تنزل حالات میں ایک ریاست اسلام کے سیاسی، معاشی اور معاشرے نظام کا قیام بھی بتدریج ہی کرسکتی ہے نہ کہ صرف نفاذ شریعت کے نام پر تعزیرات کے نفاذ سے۔ اسلام ریاست کے باسیوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کریں اور اس کے لیے نظام انتخابات کا شفاف، مساوات اور برابر مواقع پر مشتمل ہونا اور اہل اقتدار مطلوبہ معیار کے مطابق ہوں۔ اگر ریاست کا نظام ایسا نہیں تو نظام کی اصلاح کے لیے پر امن غیر مسلح جدوجہد بھی افرادِ معاشرے کے فرائض میں سے ہے۔ ریاست کی جغرافیائی حدود کے تحفظ اورکسی بھی جارحیت کے خلاف اسلام جہاد بالقتال یعنی جنگ کی اجازت بھی صرف اسلامی ریاست کو دیتا ہے۔ اور اس کے لیے کڑی شرائط قائم کرتا ہے تاکہ کوئی ریاست اپنے سے بہت بڑی طاقت اور مضبوط دشمن سے جنگ کر کے اپنے ہی شہریوں کے جان و مال کو تباہ کرنے کا باعث نہ بن جائے، مزید برآں حیات طیبہ، دور خلفاء راشدین اور اس کے بعد کے جملہ ادوار میں جہاد بالقتال یا اعلان جنگ صرف ریاست کا اختیار تسلیم کیا گیا ہے۔ انفرادی جتھوں، گروہوں نے جب بھی قتال کا نعرہ بلند کیا تو اُن کو خوارج کے قبیل میں شامل کیا گیا۔ مزید برآں کسی ریاست میں حکومت جائز یا ناجائز طریقے سے قائم ہوجائے تو وہ جیسی بھی ہو اُس کے خلاف مسلح بغاوت عسکری جدوجہد کی اسلامی تصورِ سیاست میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایسا عمل کرنے والوں کو بالاجماع باغی قرار دے کر اُن کی سرکوبی ریاست کے لیے لازم قرار دیا گیا۔ اسلام میں ریاست کے پارلیمان / مجلس شوریٰ کو آئین سازی و قانون سازی کا مکمل اختیار ہے مگر وہ اِسلام کے بنیادی اصولوں و تصورات سے ہم آہنگ قانون و آئین سازی ہی کرسکتی ہیں یہ اختیار مطلق نہیں مشروط ہے۔ اسلام کا سیاسی نظام اور ریاستی و معاشی اُصول اتنے جامع و ہمہ گیر اور نفع بخش و فیض رساں ہیں کہ اگر کوئی قوم مذہبِ اسلام قبول کیے بغیر بھی انہیں لاگو کرنا چاہے تو کوئی امر اس میں مانع نہیں ہے اور یہی دین اسلام کا اصل حسن اور صداقت ہے۔ ہمیں اس آفاقی صداقت (Universal truth) کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اِس عالمِ آب و گِل میں کامیابی و کامرانی کا انحصار علم و ہنر، حہدِ مسلسل اور عملِ پیہم پر ہے، محض مذہب و روحانیت پر نہیں۔ اقبال نے اس حقیقت کو کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے:

اگر قبول کرے دینِ مصطفی (ص) انگریز سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام

یعنی نتائج و ثمرات اسلام کی آفاقی صداقتوں کو تسلیم کرنے اور علم وہنر کر بنیاد پر ملیں گے محض تغیرِ مذہب کی بنیاد پر نہیں۔