اردو مرثیہ اور عقیدت امام حسین علیہ السلام

صاحب ذوق طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ اردو ادب کا اپنا ایک وسیع جہان ہے اور اردو زبان کی اپنی ایک خوبصورت دنیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کا ہر شعبہ سخن علمی و فنی حدود و قیود کا پابند ہے۔ بعض لوگ زبان دانی کو محض قواعدِ انشاء پردازی کے رٹنے اور محاوروں کے ازبر کرنے تک محدود سمجھتے ہیں، چنانچہ وہ بحر ادب میں غوطہ زن تو ہو جاتے ہیں لیکن ساحل مقصود تک نہیں پہنچ پاتے۔ اپنے فروغ اور ارتقاء کے سفر میں اردو زبان نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور اردو ادب نے کئی زینے طے کئے ہیں۔ جہاں تک اردو میں مرثیہ نگاری کا تعلق ہے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ مرثیہ نگاری فقط اردو زبان اور ہندوستان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام ممالک اور تمام زبانوں میں مرثیہ نگاری موجود ہے اور اپنی ہیّت و ماہیت کے اعتبار سے مرثیہ نگاری کا تعلق صنف شعر سے ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی ادیب بیک وقت نثر نگار بھی ہو اور شاعر بھی، لیکن نثر نگاری اور شاعری کے نہ صرف علمی و فنی تقاضے بلکہ ارتقاء و فروغ کی تاریخ بھی ایک دوسرے سے جدا اور مختلف ہے۔ لفظ مرثیہ خود عربی کلمہ "رثا" سے ماخوذ ہے جس کا لغوی مطلب میت پر رونا ہے اور ادبی اصطلاح میں جو اردو زبان میں بالخصوص رائج ہے مرثیہ سے مراد وہ صنفِ شعر ہے جس میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے خاندان اور اصحاب و انصار کے مصائب بیان کئے جاتے ہیں۔ یہاں پر یہ ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ اردو کے نامی گرامی شعراء نے مختلف لوگوں کے لئے مرثیے لکھے ہیں لیکن اس کے باوجود اردو میں مرثیے کو پذیرائی صرف اور صرف امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کے باعث ملی ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت امام حسین علیہ السلام سے ہندوستانیوں کی گہری عقیدتی وابستگی کے باعث اردو زبان میں مرثیہ نگاری کو جو مقام اور توجہ حاصل ہوئی، وہ کسی اور زبان میں حاصل نہ ہوسکی۔ صرف خاندانِ انیس کو ہی لیجئے، اس خاندان نے آٹھ پشتوں تک خود کو صرف اور صرف مرثیہ نگاری کے لئے وقف کئے رکھا ہے۔ دنیائے ادب میں کسی صنف سخن سے اس طرح کی خاندانی وابستگی کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی۔ میر انیس خود فرماتے ہیں کہ اس ثناء خواں کے بزرگوں میں ہیں کیا کیا مداح جدّ اعلٰی سا نہ ہوگا کوئی اعلٰی مداح باپ مداح ہے داد مداح عم ذیقدر ثناء خوانوں میں ہے یکتا مداح جو عنایات الٰہی سے ہوا نیک ہوا نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا میر انیس پانچویں پشت میں اس فن سے مربوط تھے، اُن کے بعد تین پشتوں تک اُن کا خاندان مرثیہ نگاری سے ہی وابستہ رہا۔ ہندوستان میں اردو مرثیے کے آغاز کے سلسلے میں اگرچہ محقِقین متفق نہیں ہیں لیکن پھر بھی صاحبان نظر و فکر کا ایک بڑا حلقہ اس بات پر زور دیتا چلا آرہا ہے کہ اردو مرثیے کی تاریخ چار سو سال پر محیط ہے اور ہندوستان میں اردو مرثیے کا آغاز دکن سے ہوا ہے۔ محقیقین کے ایک گروہ نے سلطنت گولکنڈہ کے حکمران محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا مرثیہ گو شاعر تسلیم کیا ہے، جس کے بعد مرثیہ گوئی کی یہ لہر ریاست بیجاپور میں داخل ہوئی اور بیجاپور کے "قطب شاہی" اور "عادل شاہی" حکمرانوں نے اس فن کی سرپرستی کرکے اسے مقبول ِ عام بنانے میں قابل قدر کردار ادا کیا۔ بعد ازاں جب 1687ء میں دکن پر مغلوں کا قبضہ ہوگیا تو پھر 1722ء تک مرثیہ مغل حکمرانوں کی زیر سرپرستی نشوونما پاتا رہا اور مرثیہ گو حضرات اس دوران غزل اور قصیدے کی شکل میں اپنے فنون کا اظہار کرتے رہے۔ البتہ یتیم نامی ایک شاعر نے اس دور میں اپنے ہم عصر شعراء سے انفرادیت اختیار کرتے ہوئے مربع کی شکل میں مرثیے لکھ کر ایک نئی پیش رفت کی بنیاد ڈالی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ فن دکن اور بیجاپور سے پھیلتا ہوا ارکاٹ، سدہوٹ اور میسور تک جا پہنچا۔ بعد میں جب مغلوں کا اقتدار دکن پر قائم ہوا تو مرثیہ نگاری میں کئی اخلاقی اور علمی قدریں بھی شامل ہوتی گئیں۔ اس دوران مثلت، مربع، مخمس اور مسدس کی شکل میں مرثیے لکھے گئے۔ تحقیق سے اگرچہ یہ بات تو تقریباً ثابت ہو جاتی ہے کہ دلی میں اردو شاعری دکن سے آئی ہے، لیکن محمد شاہی خاندان کی فن مرثیہ کی سرپرستی کے باعث دہلی کے شعراء نے دکن کے شعراء سے الگ اپنا مقام اور منفرد حیثیت کا لوہا منوایا ہے۔ دہلی کے ساتھ لکھنو کا ذکر بھی ضروری ہے۔ 1775ء میں شجاع الدولہ کے عہد میں مرثیہ گوئی کا آغاز ہوا۔ لکھنو کے ہی ایک شاعر "سکندر" کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے اردو کے علاوہ پنجابی، بنگلہ اور مارواڑی میں بھی منفرد مرثیے لکھے ہیں۔ دراصل سکندر دہلی سے اودھ آگئے تھے اور اودھ لکھنو کے ہی ایک شاعر "سکندر" کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے اردو کے علاوہ پنجابی، بنگلہ اور مارواڑی میں بھی منفرد مرثیے لکھے ہیں۔ دراصل سکندر دہلی سے اودھ آگئے تھے اور اودھ لکھنو کا دارالحکومت تھا۔ لکھنو میں مرثیہ نگاری کے پانچویں دور کو جدید مرثیہ گوئی کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے اور جدید مرثیہ گوئی کا موجد مرزا اوج کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پھر 1918 ء میں جوش ملیح آبادی نے "آواز حق" کے نام سے مرثیہ لکھ کر مرثیے کی دنیا میں ایک نئی اور انقلابی جہت متعارف کرائی۔ بعد ازاں 1944ء میں جوش نے "حسین اور انقلاب" نامی مرثیہ لکھ کر مرثیہ کے روایتی اسلوب کو نئی جدتوں اور جہتوں سے مزین کر دیا۔ جوش کے مرثیے "حسین (ع) اور انقلاب" کا ایک بند نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیے۔ پھر آفتاب ِحق ہے لبِ بام اے حسین پھر بزم ِ آب وگل میں ہے کہرام اے حسین پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسین پھر حریت ہے موردِ الزام اے حسین ذوقِ فساد و ولولہ شر لئے ہوئے پھر عصرِ نو کے شمر ہیں خنجر لئے ہوئے البتہ محقیقین جوش کے ساتھ نجم آفندی کی ادبی خدمات کے بھی معترف ہیں کہ انہوں نے بھی مرثیے کے روایتی خدوخال کو جدید اسلوب میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یوں تاریخ مرثیہ جب اپنے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتی ہے تو محقیقین سید آل رضا کو پاکستان کا پہلا مرثیہ نگار قرار دیتے ہیں۔ البتہ اُن کے ہم عصر شعراء یاور عباس، نسیم امروہوی اور صبا اکبر آبادی نے بھی مرثیے کی دنیا میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی و مذہبی حالات پاکستان میں مرثیہ نگاری پر بھی مرتب ہوئے اور یوں پاکستان میں فن مرثیہ نگاری کو خاطر خواہ فروغ حاصل نہ ہوسکا، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کئی نامور مرثیہ نگار منظر عام پر آئے ہیں۔ جن میں سے صرف چند ایک کے نام نذر قارئیں ہیں۔ ڈاکٹر ہلال نقوی، سید محسن نقوی، قیصر بارہوی، جوہر نظامی، اثر جلیلی، ظہیر الدین حیدر، اثر ترابی، ظفر شارب، مسعود رضا خاکی، علامہ طالب جوہری، مولانا افسر عباس زیدی (افسر دہلوی) وحید الحسن ہاشمی وغیرہ۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے کسی بھی دور میں مرثیہ نگاری کی سرپرستی نہیں کی، لیکن اس کے باوجود حضرت امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہونے کے باعث مرثیہ نگاری اور مرثیہ گوئی کو پاکستان کے عوامی حلقوں میں مقبولیت ِ عام حاصل ہے۔ اسی لیئے پاکستان کے جتنے بھی نامور خطیب اور شعراء ہیں، اُن کے کلام میں مرثیہ شناسی کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ استفادہ بیسویویں صدی میں اردو مرثیہ از ہلال نقوی انیس شناسی از پروفیسر گوپی چند نارنگ