مرثیہ خوانی کا فن

مرثیہ خوانی کا فن

مرثیہ خوانی کا فن

Publish number :

2

Publication year :

2005

Publish location :

کراچی پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

مرثیہ خوانی کا فن

مرثیہ خوانی کی پہلی مجلس لکھنؤ کے ایک رہائشی غلام علی کے گھر منعقد ہوئی۔ روایت ہے کہ غلام علی جو میر مظفر حسین ضمیر لکھنوی کے گھر کے پاس رہتے تھے اور بڑے پُرخلوص عزادار تھے۔ سال بھر کی آمدنی مجلس حسینؑ پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ محرم الحرام کی شبِ عاشور انہیں کوئی مجلس پڑھنے والا نہ ملا تو وہ ضمیر لکھنوی کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اس سال مجلس پڑھنے کے لیے کوئی خطیب میسر نہ ہے۔ آپ نے میرے ہاں مجلس پڑھنا ہے۔ ضمیر لکھنوی نے کہا کہ مَیں غزل، مثنوی اور قصیدے پڑھتا ہوں۔ لیکن مرثیے آج تک نہیں پڑھے۔ ضمیر لکھنوی کے کھرے جواب کے بعد غلام علی نے کہا ”اچھا نہ پڑھیے لیکن یاد رہے حشر میں دامن گیر ہوں گا اور رسولِ خدا سے شکایت کروں گا۔“یہ سنتے ہی ضمیر کانپ اٹھے صاحبِ خانہ سے مرزا گدا علی گدا کی بیاض مراثی لے کر ایک مرثیہ منتخب کیا جو یوں لکھنؤ میں پہلی مجلس مرثیہ خوانی کا آغاز ہوا۔

مرثیہ نگاری و مرثیہ خوانی برصغیر پاک و ہند میں مسلم ثقافت کا لازمی حصہ رہے ہیں اور رہیں گے بھی۔ اس کتاب میں آپ مرثیہ خوانی کے ابتدائی خدوخال جان پائیں گے اور اردو ادب کی شخصیات، میر خلیق، میر انیس اور مرزا دبیر کے فن کی جہتوں سے آشنا ہونگے۔ منفرد موضوع پر منفرد کتاب ہے۔