پاکستان کے دینی مدارس ،مشکلات اور حل
پاکستان کے دینی مدارس ،مشکلات اور حل
Author :
نذر حافی
0 Vote
152 View
نذر حافی اسلام میں تعلیم و تربیّت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ تبلیغِ اسلام کی تاریخ ہے۔تعلیم و تربیّت کا جوسلسہ صدرِ اسلام میں مساجد کے ذریعے انجام پاتاتھا وقت کے ساتھ ساتھ مستقل طور پر دینی مدارس کی شکل اختیارکرتاگیا اور بعد ازاں درس و تدریس کا یہ سلسلہ مسجد کی عمارت سے نکل کر مدرسے کی صورت میں ڈھل گیااور یوں اسلامی دنیا میں دینی مدارس کو جو مرکزی حیثیت اور شان و شوکت حاصل ہوئی وہ کسی اور ادارے کو حاصل نہیں ہوئی۔ آج کادینی مدرسہ دراصل صدرِ اسلام کے تعلیمی و تربیتی سلسلے کا ہی ایک تسلسل ہے۔ اس زمانے میں مساجد اس ضرورت کو پوراکرتی تھیں اور بعد ازاں مدرسہ ان ضروریات کو پوراکرنے کاضامن ٹھہرا۔دین اسلام میں ،عیسائیت کی طرح مسجد فقط ایک معبد نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرے کا سیاسی و ثقافتی مرکز اور علمی و عملی دارالخلافہ ہے۔اس بات کا ثبوت اسلام کی مایہ ناز مسجد ،مسجدِ نبویﷺ کی تعمیر اور فعالیّت سے بھی ملتاہے۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ اس زمانے میں مسجدِ نبوی ﷺ چند حصّوں میں تقسیم تھی،مسجد کے مغربی حصے میں حضورِاکرم ﷺ کا گھر تھا ۔یہ گھر زبانِ حال سے آج بھی ملت اسلامیہ کو یہ پیغام دے رہاہے کہ اسلامی ریاست کے امیر کی فعالیّت کا مرکز مسجد کوہی ہونا چاہیے۔ اس کے جنوبی حصّے میں محراب ہے جہاں پر پیغمبرِ اسلام ﷺ نمازِ جماعت پڑھایاکرتے تھے۔ پس اس سے یہ درس بھی ملتاہے کہ اسلامی سلطنت کے سربراہ کو امامنت و دیانت کے اس مقام پر فائز ہونا چاہیے کہ فرزندانِ توحید اس کی امامت میں نمازِ جماعت ادا کر سکیں۔اس مسجد کے شمال میں حضورِ اکرم ﷺ کی دخترِ مقدس حضرت فاطمہؑ کا گھر تھا جس کا سلسلہ فیص آج بھی کائنات میں رواں دواں ہے،اسی طرف محرابِ تہجد بھی ہے جہاں پر سرکارِ دوعالم ﷺ نمازِ فرادیٰ پڑھاکرتے تھے۔ اسی مسجد میں حضورﷺ کے گھر کے سامنے چند ستون نصب تھے۔ان میں سے ہر ستون کا نام مشخص تھا جب حضور ﷺ اس ستون کے پاس کھڑے ہوجاتے تھے تو لوگ ستون کو دیکھ کر یہ سمجھ جاتے تھے کہ حضور ﷺ اس وقت فلاں کام میں مصروف ہیں۔مثلاً ان ستونوں میں سے ایک ستون کانام "اسنوتہ الوفود" تھا۔یہاں پر مختلف قبائل کے سربراہ،دیگرممالک سے آنے والے حکومتی نمائندے اور سرکاری وفود ،ختم النبیّنﷺ کے ساتھ ملاقات کیاکرتے تھے۔ مسجد کےشمال مغرب میں وہ چبوترہ تھا جس پروہ مہاجر صحابہ پڑاو ڈالے رکھتے تھے جن کا ہم و غم علمِ دین کاحصول اور اس کی نشرواشاعت تھا اور لوگ انہیں" اصحابِِ صفہ "کہتے تھے۔یہ مردانِ باصفا جس طرح میدانِ علم کے دھنی تھے اسی طرح میدانِ حرب کے بھی سرخیل تھے۔ بزمِ علم سے لے کر صفِ جہاد تک ہر طرف ان کی ہمّت اور صبر کا چرچاتھا۔ مسجد نبوی ﷺ کے ہرکونے میں علمی و فکری مجالس و محافل سجی رہتی تھیں،ابوزرؓ جیسے مجاہدوں اورسلمانؓ جیسے زاہدوں کی تربیّت اسی مسجد میں ہوتی رہی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دین ِ اسلام میں معاشرے کی معنوی اور سیاسی قیادت کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھا جاتاتھا۔وقت کے ساتھ ساتھ مساجدکی علمی قندیلوں کے سامنے شاہی دربار و ں کے چراغوں کی روشنی پھیکی پڑنے لگی، کی علمی و معنوی فضا کے نور نے حکام وقت کی آنکھوں کو خیرہ کرنا شروع کردیا اور رفتہ رفتہ درباروں کی تمام تر توانائیاں مسجد کی دشمنی میں صرف ہونے لگیں۔مساجد کی معنوی حکومت کو دیکھ کر بادشاہوں کی مادی حکومتوں پر لرزہ طاری ہوگیا چنانچہ لوگوں کو مسلسل یہ باور کرایا جانے لگا کہ مسجد تو فقط ایک معبد ہے اس میں صرف نماز روزے کا کام ہونا چاہیے۔اگرچہ حضرت مام صادق ؑ کے زمانے میں مسجد ایک باقاعدہ یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر گئی،جابر بن حیان جیسے کیمیادان،ضرارہ جیسے فقیہ اورہشّام جیسےمتکلّم اسی مسجد میں ہی پروان چڑھے لیکن بعد ازاں مسجد فقط ایک معبد کی حد تک محدود ہوگئی اور مسجد کی معنوی طاقت کئی دھڑوں میں بٹ گئی۔اس زمانے میں مسجد جو کہ اپنے وجود میں مکمل مدرسہ بھی ہوتی تھی اپنے دور کے مطابق ماڈرن اور اپ ڈیٹ ہوتی تھی۔مثلاً وہ زمانہ اگر بت پرستی کا تھا تو مساجد میں توحید پرستی کی تعلیم دی جاتی تھی،اگر سود خوری اور اقتصادی کرپشن کا تھا تو مساجد میں زکواۃ،خمس اور مالی مصارف اور حلال آمدن کے حوالے سے نظریات بیان کئے جاتے تھے،اگر جنگ اور قتل و غارت کا دور دورہ تھا تو امن،صلح اور مواخات و اخوت کو موضوع بنایا جاتاتھا۔اس کے علاوہ تمام علمی،کلامی،فقہی ،سیاسی اور عرفانی مسائل کا حل لوگوں کو مساجد سے ہی ملتاتھا۔ آج کا مدرسہ اسی مسجد کا تسلسل ہے لہذا موجودہ معاشرے کی علمی ضرورت کو پورا کرنا موجودہ مدارس کی اوّلین زمہ داری ہے۔موجودہ دور کی بت پرستی ماضی کی بت پرستی سے مختلف ہے اور موجودہ زمانے کی معاشی و اقتصادی مشکلات گزشتہ زمانے کی مشکلات سے بہت ہی مختلف ہیں لہذا ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے اور قبول کرنا چاہیے کہ پرانے انداز کا مدرسہ ،اندازِ تفکّر اور طرزِ تدریس موجودہ زمانے میں عالمِ بشریّت کی رہنمائی نہیں کرسکتا۔جس طرح ماضی کا مدرسہ اپنے دور کے اعتبار سے علمی و تربیتی لحاظ سے ممتاز اور قابلِ رشک ہوتا تھا تھا اسی طرح موجودہ مدارس کو بھی موجودہ دور کے اعتبار سے ممتاز اور قابلِ رشک ہونا چاہیے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ دینی مدرسہ کسی کی خاندانی میراث نہیں ہے بلکہ ایک کلاسک تعلیمی ادارہ ہے۔اس کا نصاب ابتداء سے ہی اس زمانے کی ضرورت کے مطابق ماڈرن تھا۔وہ بت پرستی ،نسل کشی اورتعصب۔۔۔ کا دور تھا موجودہ دورسوشلزم ، کمیونزم ،کیپٹل ازم،استعماریت۔۔۔کا دور ہے لہذامدرسے کا موجودہ نصاب موجودہ ضروریات کے مطابق ہونا چاہیے۔ برّصغیر پاک و ہندکے دینی مدارس ۱۸۵۷ء تک برّصغیر پاک و ہند میں دینی مدارس کا سکّہ جماہوا تھا اور ملّت اسلامیہ کی رہبری کا فریضہ دینی مدارس ہی انجام دے رہے تھے۔دینی مدارس میں قرآن و حدیث، فقہ و سیرت، اصول فقہ و منطق، علم کلام و تاریخ کے ساتھ ساتھ فلکیات، علم الہندسہ، ریاضیات، علم الابدان جیسےسائنسی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔سرکاری زبان فارسی اور علمی زبان عربی تھی۔لکھنو کے مدارس میں اجتہاد کی سطح تک عقلی اور نقلی علوم پڑھائے جاتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت موجودہ پاکستان میں اہلِ تشیع کے پاس لکھنو کی طرح کا کوئی اہم علمی مرکز نہیں تھا۔اس طرح کہاجاسکتاہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد شیعان پاکستان نے از سرِ نو اپنے علمی مراکز قائم کرنے کے جدوجہد شروع کی۔[1] تاریخی شواہد سے پتہ چلتاہے کہ ابتدائی طور پر شیعہ مدارس میں لکھنو کی طرز کاہی نصابِ تعلیم رائج تھا تاہم بعد ازاں حوزہ علمیہ نجف اورقم کا رنگ غالب آتاگیا اور نجف اور قم سے جیسے جیسے طالبِ علم واپس پاکستان پلٹتے رہے شیعہ مدارس کی تعداد میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوتاگیا۔ برصغیر میں انگریزوں کے تسلط سے پہلے اہلِ سنت کے مدارس میں جو نصاب رائج تھااس کا نام درس نظامی ہے۔اسےدرس نظامی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اسےاورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ملا نظام الدین سہالوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:1748ء)نے ترتیب دیا تھاچنانچہ یہ درس انہی سے منسوب ہوگیا۔اورنگزیب نےلکھنو میں ایک ڈچ تاجر کی کوٹھی فرنگی محل خرید کر یہ مدرسہ بنایا اور ملا نظام الدین سہالوری رحمۃ اللہ علیہ کو استاد مقرر کیا۔ درس نظامی ۱۸۵۷ء تک جاری رہا اور بعد ازاں مختلف وجوہات کی بناء پر دیوبندی مدارس یا دیوبندی مکتبِ فکر سے متاثر ہ مدارس کی حد تک محدود ہوگیا۔[2] پاکستان کے دینی مدارس مشکلات اور حل مشکلات نہ انسان کو اچھی لگتی ہیں اور نہ ہی انسان مشکلات میں جینا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان کی ساری زندگی مشکلات سے بھری پڑی ہے۔انسان کے ہر طرف جابجا چھوٹی،بڑی ، مادی ومعنوی مشکلات ہر وقت بکھری پڑی رہتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مشکلات کے ساتھ زندہ رہنے پر راضی ہو جائے بلکہ انسان کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ وہ مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور جدو جہدکرتاہے ۔ ایک دانا و عاقل انسان کے لئےضروری ہے کہ اپنی مشکلات کو بخوبی پہچانے تاکہ ان کا صحیح حل ڈھونڈ سکے۔ ہم نے پاکستان میں دینی مدارس کی مشکلات کا صحیح اندازہ لگانے اور ان کی مشکلات کا درست حل ڈھونڈنے کی خاطرکتابی تحقیق کے ساتھ ساتھ متحرک انداز تحقیق کو بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرز تحقیق کو اختیار کرنے کے لئے ہم نے تعلیم و تدریس سے متعلق کتابوں اور مجلوں سمیت مختلف علمی شخصیات، طلاب کرام اور محققین سے سوالات کر کے ان کے افکار و نظریات ،تجاویز اورخدشات کوبھی جمع کیا ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے یہ کوشش کی ہے کہ ہماری یہ تحقیق کسی نہ کسی حدتک صاحبان علم و دانش کے لئے عملی طورپرمفیدثابت ہو ۔ اس ضمن میں ہم نے جن افراد سے معلومات جمع کی ہیں،انہیں مندرجہ ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱۔ ایسے طالب علم جو پاکستانی مدارس میں کچھ عرصے کے لئے بطور مدرّس اپنی خدمات انجام دےچکے ہیں۔ ۲۔ ایسے طالب علم جو بیرون ملک زیرِ تعلیم ہیں لیکن پاکستان میں بعض مدارس کے نظام تعلیم سے بھی مربوط ہیں۔ ۳۔ ایسے حضرات جو بیرونی ممالک سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستانی مدارس میں مشغول تدریس ہیں یا پھر انہوں نے اپنے مدارس قائم کئے ہوئے ہیں۔ درسِ نظامی درس نظامی کا دورانیہ آٹھ سال ہے اوران آٹھ سالوں کو چار درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ عامہ (میٹرک) خاصہ (انٹر) عالیہ (بی اے) عالمیہ (ایم اے) ہر درجہ دو سال پر مشتمل ہے، وفاق کا امتحان ایک سال کے وقفے سے ہوتا ہے، اس ایک سال کے وقفے میں ہر مدرسہ اپنی پسند کے مضامین پڑھاتا ہے۔ بعض مدارس میں اس دوران انہی فنون کی دیگر کتب پڑھائی جاتی ہیں، جب کہ بعض میں اس کے ساتھ ساتھ عصری مضامین شامل ہوتے ہیں۔[3] ظاہر ہے کہ دینی مدارس کی تعلیمی سرگرمیوں کو منظم کرنے نیز بہترین انداز میں چلانے کے لئے ایک منظم طریقہ کار کی ضرورت ہے ۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے حکومتی سر پرستی میں ایک نظامِ تعلیم وضع کیاگیاہے جسے وفاق کہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وفاق کس طریقے سے کام کرتاہے۔ دینی تعلیم کا بورڈ پاکستان میں دینی مدارس کی ترقی پیشرفت اور ان کے مسائل کے حل کے لئے اس وقت ہر مکتبہ فکر کے مدارس کے لئے ایک بورڈ موجودہےجسے وفاق کہتے ہیں۔وفاق کے تحت اس مکتبہ فکر کے مدارس رجسٹرڈ ہوتے ہیں نیزامتحانات اور اسناد کے اجراء کا اختیار بھی وفاق کے پاس ہی ہوتا ہے۔ ہر وفاق کا ایک نصاب ہے جس کا ہر وہ مدرسہ پابند ہے جو وفاق سے الحاق کرتاہے۔اس متعلقہ نصاب کے علاوہ ہر مدرسہ اپنی مرضی کے مضامین بھی پڑھا سکتا ہے۔ ہم یہاں پر یہ بتادینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ"وفاق" خواہ کسی بھی مکتبِ فکر کا ہو جہاں پر اس کے حامی پائے جاتے ہیں وہیں پر اس کے مخالفین کی بھی قابلِ ذکر تعداد موجودہے اور بہت سارے لوگ وفاق کو ہی مدارس کی مشکلات کا باعث گردانتے ہیں۔[4] مکاتب فکر کی تقسیم کے لحاظ سے پانچ وفاق بنائے گئے۔ اس وقت سوائے چند ایک کےکم و بیش تمام مدارس ان وفاقوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ (دیوبندی) تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان (بریلوی) وفاق المدارس السلفیہ (اہلحدیث) وفاق المدارس الشیعہ (اہل تشیع) رابطۃ المدارس الاسلامیہ (جماعت اسلامی) یہاں پر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہےکہ اس مسلکی تقسیم کے علاوہ ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کے نام سے ان تمام وفاق ہائے مدارس کی ایک مشترکہ کمیٹی بھی ہے جو کہ اہم امور کے سلسلے میں مدارس کی ترجمانی کا کام سر انجام دیتی ہے۔ یادرہے کہ ۱۹۷۵ کے بعد پاکستان میں چار اہم وجوہات کی بناء پرتمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کی تشکیل میں تیزی سے اضافہ ہوا ۔[5] مدارس میں اضافے کی وجوہات ۱۔انقلابِ اسلامی ایران کی کامیابی ۲۔جہادِ افغانستان ۳۔فارغ التحصیل حضرات کا پاکستان واپس پلٹنا ۴۔سعودی عرب اور امریکی مفادات کا تحفظ مندرجہ بالاچوتھی وجہ کے باعث جہاں پر مدارس کی تعمیر میں جہاں تیزی آئی وہیں پر دینی مدارس کی ساکھ کو دھچکا بھی لگا۔یہی وجہ ہے کہ جب ہم پاکستان جیسے اسلامی ملک میں قائم شدہ دینی مدارس کی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اعتراف کرناپڑتاہے کہ یہاں پر دینی مدارس کواب عوامی حلقوں میں وہ مرکزی اہمیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے۔[6] اس سے زیادہ اور تلخ حقیقت کیاہوگی کہ سعودی عرب اور امریکی مداخلت کے باعث آج پاکستان جیسی اسلامی و نظریاتی ریاست میں دینی مدارس اور عوام کے درمیان عدمِ اعتماد کی ایک خلیج حائل ہوچکی ہے ۔[7]لوگوں کے دینی جذبے سے سوءِ استفادہ کرکے ان کے بچوں کو دہشت گردبنانا اور انہیں خود کش حملوں کی تربیّت دینا یہ وہ زخم ہیں جنہیں بھرنے میں شاید صدیاں لگیں ۔[8] ایک تلخ حقیقت کا اعتراف پاکستانی معاشرے میں اس وقت دینی مدارس جس عدمِ اعتماد کاشکار ہیں اس کا ذکریوں تو مختلف اخبارات و جرائد کرتے رہتے ہیں لیکن جو لوگ استعماری طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں ان سے مربوط جرائد یاتو اصلاً اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور یاپھر دبے لفظوں میں اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ ایسے جرائداس بات پر مصر ہیں کہ دینی مدارس آج بھی حسبِ سابق ترقی کے زینے طے کررہے ہیں اور اپنی زمہ داریوں کو بطریقِ احسن نبھارہے ہیں۔[9] اس وقت ہم نمونے کے طورپر وہابیت کے ایک ترجمان مجلے" محدث " کے اداریے سے اقتباس پیش کررہے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کا اعتراف محدث نے کچھ یوں کیاہےکہ اگر فضلاء مدارس دینیہ اپنا معاشرتی کردار صحیح معنوںمیں ادانہیں کر پا رہےتو اس کےپس پر دہ اس تعلیم کا معاشرتی دائرے میں محدود استعمال ،مسلم معاشروں پر سیکولر اثرات ،فضلاء مدارس دینیہ کا اپنےمحدود کردار پر قانع ہو جانا ،مسلم حکومتوں کےظالمانہ رویے،اور دین ودنیا کی تفریق ایسےاسباب ہیں جو طلباء کےمطلوبہ کردار کی راہ میں حائل ہیں۔‘‘[10] اسباب چاہے کچھ بھی ہوں مجلے نے اپنے اداریے میں اس بات کو تسلیم کیاہے کہ"فضلاء مدارس دینیہ اپنا معاشرتی کردار صحیح معنوںمیں ادانہیں کر پا رہے"۔ ظاہرہے کہ جب فضلاءِ مدارس کو ان کے اصل اہداف سے ہٹادیاجائے گاتو ان کے زیرِ انتظام چلنے والے اداروں کی عوام پر گرفت بھی ڈھیلی پڑھ جائے گی اورلوگوں میں ان کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے آجائے گا۔ ایسے ادارے جن کے بارے میں لوگوں کو یہ یقین ہوجائے کہ ان میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو گلے کاٹنے،گولیاں مارنے،خودکش حملے کرنے اور کافر کافر کے نعرے لگانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے ،لوگ ان سے خوف و خطرہ محسوس نہیں کریں گے تو اور کیا۔[11] اگرچہ تمام مکاتبِ فکر کے مدارس اس سازش کاشکار نہیں ہوئے تاہم اس سازش کے اثرات تمام مدارس پر مرتّب ہوئے ہیں۔ہماری جمع کردہ معلومات اور اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے دینی مدارس کو کچھ بیرونی اور کچھ داخلی مسائل درپیش ہیں ۔ جن سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر مدارس حقیقی معنوں میں ترقی کرنے سے قاصر رہیں گے۔ سب سے پہلےہم بیرونی مسائل کا ذکر کرتے ہیں بعد میں داخلی مسائل اور آخر میں ان کا حل ذکر کریں گے۔ بیرونی مسائل ۱۔ حکومتی پالیسی مدارس دینیہ کو خارجی طور پر جس سب سے بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ حکومتی پالیسی ہے۔چونکہ حکومتیں مدارس کی طاقت سے آگاہ ہوتی ہیں لہذا حاکمان وقت مدارس کی علمی و افرادی قوت کا زور توڑنے کے لئے مذہبی شخصیات کوبعض اوقات بلیک میل کرتے ہیں، ان کے مالی و جنسی سیکنڈ لز سامنے لاتے ہیں، دینی مدارس کے طلاب کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اور عوام کے دلوں میں مدارس کا وقار گرانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ضیاء الحق نے جہاد کے نام پر ایک مخصوص مکتب فکر کے دینی مدارس کو استعمال کیا پھر انہی کے ذریعے مختلف دہشتگرد گروہوں کو منظم کیا اور بعد میں پرویز مشرف نے ضیاء الحق کے پالتو دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے بہانے مدارس پر یلغار کی۔ان ساری کاروائیوں سے دینی مدرسے بدنام ہوئے اور لوگ دہشتگردی کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل سمجھنے لگے ۔ حالانکہ نہ ہی تو ضیاء الحق کو جہاد اور اسلام سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی پرویز مشرف کو اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت درکار تھی۔ دونوں نے اپنے اپنے حکومتی مفادات کے لئے دینی مدارس کے "دینی جذبے" سے سوء استفادہ کیا۔ [12] ۲۔ میڈیا کا کردار دینی مدارس کے خلاف منفی ماحول کی تشکیل میں، میڈیا بھی حکومتوں کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ میڈیا پر چھائی ہوئی لابیاں حکومتی خفیہ اداروں کے اشاروں پر ایسے پروگرامز اور فیچرز تیار کر تی ہیں جن سے اصل حقائق چھپ جاتے ہیں اور دینی مدارس پر بدنامی کا دھبہ لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ابھی پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے تمام تر واقعات کا تانہ بانہ بالآخر جہادی گروپوں سے اور جہادی گروپوں کا تعلق دینی مدارس کے طلاب سے جوڑا جاتا ہے۔ ہمارے بھولے بھالے لوگ ان ساری باتوں کو سچ سمجھتے لگتےہیں حالانکہ میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام پر واضح کرے کہ سارے دینی مدارس کے طلاب ان دہشت گردانہ گروپوں کا حصہ نہیں ہیں اور جو بیچارے ان گروپوں کا حصہ بنے بھی ہیں وہ سی آئی اے کی سازشوں کے باعث بنے ہیں۔ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیسے دہشت گردی کی کڑیاں دینی مدارس سے جوڑتا ہے اسی طرح سی آ اے سے بھی جوڑے اور لوگوں کو امریکہ ، ملا عمر اور اسامہ بن لادن کے گٹھ جوڑسے آگاہ کرے۔ ۳۔ بعض علاقائی و مقامی با اثر شخصیات کا کردار بعض علاقوں میں جب دینی مدارس اپنی دینی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہیں تو اس علاقے میں موجود بعض بدعنوان عناصر کے مفادات کو زَک پہنچتی ہے اورلوگوں میں بدعات اوراخلاقی وسماجی برائیوں مثلاًرشوت ،شراب خوری ،سیاسی کرپشن،عقائد اسلامیہ میں تحریف وغیرہ کے خلاف شعور پھیلنے لگتاہےاور لوگوں میں بیداری آنے لگتی ہے۔اگر کہیں پر مقامی بااثر شخصیات کے دامن پر بدعات یا اخلاقی و سماجی برائیوں کے دھبے ہوں تو یہ لوگ مدارس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ۴۔ عوامی رائے عامہ اور حکومت میڈیا اور کرپٹ عناصر عوام کی سادہ لوحی سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت سنی سنائی باتوں پر اپنی رائے قائم کر لیتی ہیں۔اس لئے وہ اکثر اوقات عوامی رائے عامہ کو مدارس کے خلاف اکسانے میں مصروف رہتے ہیں، جس سے عوام ایک تو مدارس کے بارے میں ہمدردانہ غور و فکر نہیں کرتے اور دوسرے حکومت یا بدعنوان عناصر کے خلاف مدارس کی پشت پناہی بھی نہیں کرتے۔ ۵۔ دینی مدارس میں باہمی رابطے کا فقدان دینی مدارس کے لئے ایک بڑی مشکل ان کے درمیان باہمی رابطے کا فقدان ہے۔ ہمارے ہاں دینی مدارس،دین اسلام کی ترجمانی کے بجائے فرقہ وارانہ تفرقہ وارانہ بنیادوں پرشیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی اور بریلوی وغیرہ میں تقسیم ہیں۔ ایک فرقے کا دینی مدرسہ دوسرے فرقے کے دینی مدرسے سے ایٹم بمب کا سا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سازشی عناصر جب کسی ایک مدرسے کے خلاف کاروائی کا آغاز کرتے ہیں تو دیگر مدارس خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں۔یاپھراپنی مخصوص تنگ نظری اور فرقہ وارنہ سوچ کی بنیاد پر دوسرے فرقے کے مدارس کے خلاف سازشی عناصرکی ممکنہ مدد بھی کرتے ہیں۔ اس کا عملی نمونہ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں بارہا دیکھا ہے ۔ مثلاً اگر دینی مدارس کا باہمی رابطہ مضبو ط ہوتا تو ضیاء الحق ایک مخصوص مکتب فکر کے دینی مدارس میں دہشت گردی کی تربیت دینے میں کامیاب نہ ہوپاتا ۔چونکہ دینی مدارس کا باہمی رابطہ مضبوط نہیں ہوتااسی لئے وہ آپس میں عدم اعتماد کے بھی شکار رہتے ہیں اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے بجائے سیکولر عناصر اور کرپٹ حکمرانوں کے نعروں پر اعتماد کر کے ان کی سازشوں کےشکار ہوجاتے ہیں۔ [13] ۶۔ وزارت تعلیم کی پالیسیاں پاکستانی وزارت تعلیم ہمیشہ سے دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ جو لوگ وزارت تعلیم میں بیٹھے ہوتے ہیں انہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ دینی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ یہ دینی نصاب کو توعصرحاضرسے ہم آہنگ [اپ ڈیٹ] کرنا چاہتے ہیں لیکن خوددینی علوم کےحوالے سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں۔ انہیں نہ ہی تو دین کی اہمیت اور دینی مدارس کے تعلیمی ڈھانچےکی کچھ خبر ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دینی تعلیمی نصاب میں تغیر و تبدیلی کے صحیح مفہوم کو سمجھتےہیں۔ چنانچہ یہ کچھ علماء کی ٹیمیں بناکر انہی کے مشوروں پر منصوبے بناتے رہتے ہیں اور بعد میں ان منصوبوں کو بھی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ۷۔ ٹرسٹیز کی صورتحال کچھ جگہوں پریہ دیکھنے میں آیاہے کہ مدارس کو چلانے کے لئے ٹرسٹ بنائے جاتے ہیں ۔بعض اوقات یہ ٹرسٹ ایسے افرادپرمشتمل ہوتےہیں جن کا شعبہ تعلیم سے کسی طرح کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے افراد ٹرسٹ میں اپنی اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں اور مدیرِ مدرسہ کو اپنی پالیسوں کے تحت چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس سے مدرسے کے قیام کے مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے اور اسی طرح بعض مقامات پر جان بوجھ کرمحض فنانس اکٹھاکرنے کے لئے ہر طرح کے افراد کو ٹرسٹ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اس طرح کے ٹرسٹ بنانے سے بڑی بڑی عمارتیں تو بن جاتی ہیں لیکن کو ئی علمی و فکری پیش رفت نہیں ہو پاتی۔ ۸۔ عصر جدید کے تقاضے جو مدارس عصر جدید کے تقاضوں سے چشم پوشی کرتے ہیں ان کے طالب علم کسی بھی علمی حلقے میں خصوصاً کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کے سامنے اپنے آپ کو دینی طالب علم بتانے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح کے احساس کمتری میں مبتلا افراداپنی عملی زندگی میں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ایسے افراد عموماً کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے خلاف کمر کس لیتے ہیں۔ ان کے مدارس میں جو بچہ بھی داخلہ لیتا ہے وہ جلد ہی محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس کا علمی رشد اور ارتقاء رک گیا ہے۔ چنانچہ بہت سے داخلہ لینے والے طالب علم دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں یاپھر ایسے مدارس کا رخ کرتے ہیں جہاں پر دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی ہو۔ بعض مقامات پر یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ بعض طالب علم کسی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لے کر دینی تعلیم کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیتے ۔احساس کمتری میں مبتلا افراد اگر مدارس میں اساتذہ کے مقام تک پہنچ جائیں تو اگروہ خود پرائمری، مڈل، میٹرک یا ایف اے وغیرہ ہوں تو کوشش کرتے ہیں کہ اِن کا طالب علم اُن سے سکول یاکالج کی تعلیم میں ایک آدھ کلاس آگے نہ نکل جائے۔ اسی طرح بعض مدارس میں آج بھی اخبار پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے یا کسی دینی و ملی ریلی وغیرہ میں شرکت کرنے کو وقت کے زیاں کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ ۹۔علماء سو اورنام نہاد مفکرین کاکردار بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر اپنے چہروں پر دینداری کاماسک چڑھایاہواہوتاہے۔یہ صرف اور صرف اپنے نام و نمود اور رقم بٹورنےکے چکرمیں ہوتے ہیں۔فتویِ بازی اور دین میں بدعات کو فروغ دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔اسی طرح بعض حضرات فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ٹھگوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ "ڈاکٹر"اور"پروفیسر"لگاکربھی لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہاں تک تو دینی مدارس کے خارجی مسائل کا ذکرتھا، آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے دینی مدارس کے داخلی مسائل کیا ہیں۔ داخلی مسائل ۱۔ تعلیمی نظام کی مشکلات مدارس میں مقدمات اور علوم اصلی تو پڑھائے جاتے ہیں لیکن علوم عملی پر خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ مقدمات سے لے کر علوم اصلی سمیت تمام طالب علموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ مثلاً جو طالبعلم، ایم۔ اے کر کے مدرسے میں داخلہ لیتا ہے اور جو مڈل پاس کر کے آتا ہے دونوں کے ہاتھ میں ایک ہی کتاب تھما دی جاتی ہے۔ کتابوں کو تبدیل کرنے، مطالب کو نئے انداز میں ڈھالنے یا نئی کتابیں لکھنے کو گویا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ مدارس کے تعلیمی نظام میں طلاب کی ذہنی سطح کی درجہ بندی کے مطابق اُنہیں تعلیم دینے کا کوئی خاص نظام موجود نہیں۔ جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک طلاب ،قدیم کتابوں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں اور جب معاشرے میں عملی خدمت انجام دینے کے لئے قدم رکھتے ہیں تو جدید علمی تقاضوں کو نبھانے کے سلسلے میں ان کا ہاتھ خالی ہوتا ہے۔ مقدماتی علوم پڑھانے کے بعد طالب علم کو اسیر مقدمات کرنے کے بجاے علومِ حقیقی و معارف قرآن و سنت کی طرف بڑھانا ضروری ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کی فنی تربیت بھی ضروری ہے۔خصوصاً ابتدا سے ہی طالب علموں کی زہنی ساخت کا جائزہ لے کرتدریس ،تحقیق،خطابت۔۔۔وغیرہ کی باقاعدہ تربیّت دی جائے اورتربیتی معیار پر پورا اترنے والے طلّاب کواسناد دی جائیں اور سند یافتہ و تربیت شدہ شخص کو ہی مدارس کے تعلیمی و تبلیغی امور میں ترجیح دی جائے۔ ۲۔ تربیتی نظام کا فقدان ارباب علم و دانش پر واضح ہے کہ مدارس فقط تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ تعلیمی و تربیتی ادارے ہیں۔ ایک مدرسے میں تعلیمی نظام بدن کی جبکہ تربیتی نظام روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ تعلیمی نظام کے حوالے سے مدارس کے پاس کسی حد تک ایک لائحہ عمل موجود ہے لیکن تربیتی حوالے سے نمازِ شب، تلاوت قرآن، دعاوں اور مناجات کو ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے پھر زیادہ سے زیادہ اخلاقی دروس کا اہتمام کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ طالب علموں کی تربیت ہو رہی ہے حالانکہ تربیت ،فکری سے بڑھ کر عملی چیز کا نام ہے۔ ۳۔ اساتذہ کےانتخاب، ترقی اور علمی رُشد کا انتظام نہ ہونا دینی مدارس کی ساکھ اور فعالیت کو متاثر کرنے والی ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ عام طور پر دینی مدارس کے پاس اساتذہ کے تعیّن، ترقی اور علمی رشد کا کوئی انتظام نہیں۔ اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ جس شخص نے جو کتاب پڑھی ہوتی ہے وہ بعد میں وہی کتاب پڑھانے لگ جاتا ہے۔ ایسا شخص ممکن ہے کہ "کتاب" تو پڑھا لے لیکن چونکہ بطورِ استاد اُس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی لہذا اُسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک دینی مدر سے کے استاد کو کن اخلاقی و معنوی اوصاف اور جدید و قدیم فنون سے آراستہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ برس ہا برس کی محنت کے باوجود ایسے استاد کے حلقہ درس سے خود اس کی سطح کے طالب علم بھی نہیں نکلتے۔ ایسے اساتذہ کے وجود میں آنے کے باعث ایک تو دیگر طلاب کی علمی ترقی رک جاتی ہے اور دوسرے خود ایسے اساتذہ بھی علمی طور پر ترقی نہیں کر پاتے اور انہی کتابوں کو جن کی تدریس کر رہے ہوتے ہیں لگے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے تعلیمی سلسلے کوآگے جاری نہیں رکھتے حالانکہ اسلام میں علمی ارتقاء کے رُکنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ اکثر طالب علم اس مغالطے کا شکار رہتے ہیں کہ مطالعہ و مباحثہ اور خود پڑھنے سے کلاس پڑھانے کا تجربہ ہو جاتا ہے۔حالانکہ کلاس پڑھانے کانہ صرف یہ کہ فن مباحثے سے بالکل مختلف ہے بلکہ دونوں کے اغراض و مقاصد میں بھی قطعی طور پر فرق ہے۔ مباحثہ بنیادی طور پر خود سیکھنے کے لئے کیاجاتاہے جب کلاس میں دوسروں کو سکھانا اصلی ہدف ہوتاہے۔اسی طرح بعض اوقات تربیتی دورہ یعنی تربیتی کورس کرنے کو ہی تدریس کے لئے کافی سمجھ لیاجاتاہے اور پھراسی کورس کے مفروضات کی بنیاد پر ہی طالب علموں کو تختہ مشق بنایاجاتاہے۔اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ تدریس کا تعلق تعلیمی مفروضات سے نہیں بلکہ عملی پہلو سے ہے۔ممکن ہے بہت سارے تعلیمی نظریے عملی میدان میں غلط ثابت ہوجائیں یا قابلِ عمل نہ ہوں۔لہذا کورسز پر اکتفاء کرنے کے بجائے عملی طور پر تدریس کی باقاعدہ مشق اور تمرین ضروری ہے۔ ۴۔ مدارس کی سماجی سرگرمیاں بعض مدارس تو سماجی سرگرمیوں کو حرام سمجھتے ہیں اور بعض ان سرگرمیوں میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ ان کی طالبات ڈنڈے لے کراسلام آباد کی لال مسجد کے سامنے لوگوں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔سماجی سرگرمیاں اہم ضرور ہیں لیکن سماج کی تربیت کرنے کی خاطر نہ کہ سماج پر تسلط اور دھونس جمانے کی خاطر۔ ۵۔ طلاب کے انتخاب کے سلسلے میں مشکلات مدارس کے قیام کے وقت مکمل منصوبہ بندی نہیں کی جاتی جس کی بناپر پنجاب کے اکثر مدارس میں شمالی علاقہ جات کے طلاب ہی نظر آتے ہیں جبکہ مقامی طلاب کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض جگہوں پر مڈل، میٹرک یا ایف۔اے کا معیار بھی نہیں رکھا جاتااور یہ معیار نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو لوگوں کا دینی مدارس کی طرف رجحان پہلے سےہی کم ہے پھراگر میرٹ پربھی سختی کی جائے تو آنے والے افراد پر بھی دینی تعلیم کے دروازے بند ہونے کی مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔ ۶۔ مدارس میں طلباء تنظیموں کا غیر فعال ہونا مدارس کی ایک داخلی مشکل یہ بھی ہے کہ مدارس کے طلاب کو کسی تنظیمی لڑی میں پرویا نہیں جاتا جس سے ان کی اجتماعی،علمی اور سیاسی شخصیت میں نکھار نہیں آتا۔ زیادہ تر مدارس میں سکولوں کی بزم ادب کمیٹیوں کی طرز پر چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا دی جاتی ہیں اور ان بزم ادب نما کمیٹیوں میں کام کرنے والے حضرات اپنی عملی زندگی میں بھی اسی اندازمیں کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح بزم ادب کی کمیٹیوں میں کیا جاتاہے۔یعنی کچھ مقدار میں چندہ اکٹھا کر لیا،مٹھائی لے لی،کچھ سنانے [حمد،نعت،قصیدہ،تقریر،دعا،قرآن خوانی،قوالی وغیرہ] کے بہانے کچھ لوگوں کواپنے پاس جمع کرلیا اور پھر یہ سمجھ لیا کہ ہم نےدین کی خدمت کا حق اداکردیاہے۔ ۷۔ دینی اساتذہ اور مدیران کی یونین کا نہ ہونا پاکستانی مدارس کی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ اور مدیران کوئی فعال یونین نہیں اور اِن کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں جس پر جمع ہوکر یہ دینی مدارس کو درپیش مشکلات سے نکالنے کے لئے غوروفکرکرسکیں۔ ۸۔ دینی و دنیوی تعلیم کا دھندہ بعض جگہوں پر مدارس ذریعہ آمدن کے طور پر کھولے جاتے ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ خود جدید تعلیم سے آشنا نہیں ہوتے وہ بھی مخیر حضرات کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے جدیدتعلیم کا نعرہ لگا کر مدرسہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر اِن حضرات سے جدید تعلیم کی تعریف پوچھی جائے تو اِن کے نزدیک انگریزی پڑھا جانے اور کمپیوٹر پرسی ڈی چلانے کا نام جدید تعلیم ہے۔اس طرح کے مدارس کے وجود میں آنے سے حقیقی معنوںمیں دین کی خدمت کرنے والے مدارس کی طرح بھی لوگ مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ یہاں تک تو ذکر تھامسائل کا،آئیے اب ان مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ مدارس کی مشکلات کو حل کرنے کے سسلسلے میں ہماری جمع کردہ تجاویز اور مشوروں کا خلاصہ کچھ اس طرح سے ہے:[14] ہماری جمع کردہ تجاویز اور مشورے الف۔مدارس کی شناخت مدارس اپنی فرقہ وارانہ شناخت [شیعہ،سنی،وہابی،دیوبندی وغیرہ]کے بجائے تعلیمی و تربیتی شناخت کی طرف قدم بڑھائیں ۔ ب۔ اسلامک ایجوکیشنل ٹیم علماء اور دانشوروں پر مشتمل ایک اسلامک ایجوکیشنل ٹیم تیارکی جائے جودینی نظام تعلیم کے حوالے سے پہلے سے فعال اداروں کی فعالیت و کارکردگی کا جائزہ لے کر اُنہیں بے لاگ رپورٹ لکھے اورپھر ان تعلیمی پروگراموں کے اجراء کے لئے منصوبہ بندی کرے جن کے اجراء کرنے میں دوسرے ادارے ناکام رہے ہیں۔ ج۔ فنانشل سپورٹ فنڈ ملت کے مختلف ماہر ین اقتصادیات کو جمع کر کے مدارس کے لئے فنانشل سپورٹ فنڈ کاپروگرام بنایا جائے۔ د۔ اساتذہ کا انتخاب اور ان کی علمی ترقی اساتذہ کے انتخاب اور ان کی علمی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے لائحہ عمل بنایاجائے۔ ز۔ تربیتی نظام تعلیمی نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام سے ہم آہنگ تربیتی نظام بھی نصاب میں شامل کیا جائے۔ ر۔ بین الاقوامی دینی حوزہ پاکستان میں ملکی سطح پر حقیقی معنوںمیں ایک بین الاقوامی دینی حوزے کی تشکیل کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے۔ س۔ دور افتادہ علاقوں کے لئے دینی ادارے پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں جہاں لوگ بچوں کو ابتدائی تعلیم دلوانے سے بھی قاصر ہیں وہاں پر بھی ایسے مدارس قائم کئے جائیں جو دینی و بنیادی تعلیم کو پہلے مرحلے میں مقدمات کی حد تعلیم تک فراہم کرسکتے ہوں۔ ص۔نصابِ تعلیم میں تبدیلی اور تیاری آج جب مادی مشکلات کو انسان وسیع پیمانے پر دیکھتاہے تو اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر لمحے جدید اور نیا نصاب بنانے کی ضرورت محسوس کرتاہے۔اس مقصد کے لئے ادارے بناتا ہے ،کانفرنسیں منعقدکرتاہے ،مقالے لکھتاہےلیکن اس کے باوجود مضطرب،بے چین اور بے قرار نظر آتاہے۔ بالکل اسی طرح ہمیں اپنی معنوی مشکلات کو بھی پہچاننا چاہیے اور روحانی ضروریات کی بھی فہرست تیار کرتے ہوئےمدارس میں رائج دینی نصاب کے اعتبار سے اپنے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے فکرمند اور بے قرار ہوناچاہیے۔ موجودہ دور میں دینی مدارس اور یونیورسٹی کے درمیان ایک حسین امتزاج قائم کرنے کے لئے متوازن نصاب کی تشکیل کے لئےسنجیدہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب ہی وہ محرک ہے جو کسی بھی طالب علم کو ایک خاص سمت اور ہدف کی طرف حرکت دیتاہے۔طالب علم مدرسے میں آتا ہے کہ ہدف یعنی "کمالِ مطلق" تک پہنچے اوراسے جو چیز ہدف کی طرف لے جاتی ہے وہ نصاب ہے۔ ہمیں یہ بات ہر صورت میں یاد رکھنی چاہیے کہ مدرسے اور ہدف کے درمیان فاصلہ ہے۔مدرسہ وسیلہ ہے خود ہدف نہیں۔ جب مدرسہ وسیلے کے بجائے ہدف بن جاتاہے تو پھر معاشرے کی تشنگی نہیں بجھاسکتا۔ بیج کو جب زمین میں دفن کرتے ہیں تو ماہرین حیاتیات کے مطابق زمین کے نیچے بیج ، قدرتی طورپر ایک مکمل درخت بننے کی ٹریننگ مکمل کرتاہے،پھرزمین سےباہر آکر درخت بنتا ہے۔اگر بیج کو وہاں ٹریننگ نہ ملے تو زمین کے اوپر طوفانی موسموں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ مدرسہ زمین کی اور طالبِ علم بیج کی مانندہے۔مدرسے میں طالب علم کو باقاعدہ آئیڈیل اور رول ماڈل بننے کی تمرین کرائی جائے۔ ایسی تربیت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب دینی تعلیم کے نصاب کو تشکیل دیتے ہوئےماہرین کے سامنے تین محورموجود ہوں۔ دینی مدارس کے نصاب کے محور الف۔علوم، ب۔نظریات، ج۔تربیت۔۔۔ {یہ بحث ہمارے مدارس میں متمرکز نہیں البتہ پراگندہ طورپرموجود ہے} یہاں پر علوم اور نظریات کے درمیان فرق بھی ملاحظہ فرمائیں: علوم و نظریات میں فرق۔ علوم غیر مسلم ذرائع سے بھی لیے جا سکتے ہیں لیکن نظریات غیر مسلم افراد سے نہیں لیے جا سکتے۔مثلا ادبیات عرب کو کسی غیرمسلم استاد یا یونیورسٹی سے بھی پڑھاجاسکتاہے مگر اسلامی افکار کی سوجھ بوجھ ،دینی نکتہ نگاہ سے تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت نیز سیاسی،اجتماعی اور اقتصادی نظریات میں پختگی غیرمسلم ذرائع سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ علوم و نظریات کے بعد دینی تربیت ضروری ہے۔ دینی تربیت دینی تربیت کے بغیر علوم و نظریات کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی غیر مہذب شخص کے پاس اقتدار آجائے۔علم سے انسان مہذب نہیں ہوتا اور نظریات سے کمال حاصل نہیں کرتابلکہ علم اور نظریات دونوں کو تربیت ثمر آور بناتی ہے۔ علم و نظریات انسان کو قوت،غلبہ اور اقتدار عطاءکرتے ہیں جبکہ تربیت انسان کو مطلوبِ واقعی تک پہنچاتی ہے۔ جس طرح تعلیم کے لیے ایک نصاب کی ضرورت ہے اسی طرح نظریات اور تربیت کے لیے بھی ایک نصاب کی ضرورت ہے۔ دینی تکامل کے ساتھ ساتھ نظریاتی اور و تربیتی تکامل بھی مدارس کی ذمہ داری ہے۔یعنی جس طرح مدارس کا علمی جغرافیہ مشخص ہے اسی طرح ان کا نظریاتی اور تربیتی جغرافیہ بھی مشخص ہونا چاہیے۔دینی مدارس کا علمی ،نظریاتی اورتربیتی نصاب بالکل الگ الگ اور مشخص ہونا چاہیے۔ ض۔ ریسرچ سنٹرز مدارس کے اندر علوم کو عملی طور پر قابل استفادہ بنانے کے لئے ریسرچ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے جو مندرجہ ذیل شعبوں پر کام کریں۔ ۱۔ ترجمہ ۲۔ تصنیف ۳۔ تالیف ۴۔ تحقیق ۵۔ تبلیغ ۶۔ تقریر۷۔ تحریر ۸۔ تکلم [اردو،فارسی، عربی، انگلش]۔ ۹۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ۱۰۔تدریس ۱۱۔مدیریت ۱۲۔علوم سیاسی ۔ ط۔طالب علموں کی کیفیّت مدارس کی تعداد بڑھانے کے بجائے طالب علموں کی کیفیّت بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔مثلاًآئندہ ۴۰ سالوں میں دس نئے مدارس کھولنے پر ۱۰ نئے مجتہدین کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دی جائے۔مدارس میں سے باصلاحیّت اور ذہین افراد کو منتخب کرکے ان کی بھرپور طریقے سے اقتصادی اور تعلیمی سرپرستی کی جائےتاکہ پاکستانی معاشرے کو مستقل طور پر برجستہ علماء و فقہا کی سرپرستی نصیب ہو۔ اسی طرح سستے اور مفید طریقوں سے دینی تعلیمات کو عام کیاجائے،خصوصا انٹرنیٹ اوردینی سوفٹ وئیرز کے استعمال کا لوگوں کو عادی بنایاجائے تاکہ کم وقت اور کم پیسے سے بہترین فوائد حاصل ہوں۔ ع۔ آئیڈیل کشی بعض اوقات مدارس میں علامہ حلّی،امام خمینی اور سید جمال الدین جیسی شخصیات کے بجائے چھوٹی موٹی شخصیات کو آئیڈیل بناکر پیش کیاجاتاہے اورطالب علموں کو غیرموثر قسم کےلوگوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، جس سے آغازِ طلبگی میں ہی طلبہ کی ہمت پست ہوجاتی ہے اور اہداف گھٹیا ہو جاتے ہیں ایسے طالب علموں کی اگر صحیح رہنمائی نہ ہوتووہ اپنی ساری زندگی اپنی تعریفیں کرنے میں یا اپنے جیسے افراد کی تعریفیں کرنے میں صرف کردیتے ہیں۔ جیساکہ بہت سارے طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ اس لئے میٹرک نہیں کرسکے چونکہ ان کے اساتذہ ان کی حوصلہ شکنی کرتے تھے اور انہیں کہتے تھے کہ دیکھو فلاں نے بھی میٹرک نہیں کی اور فلاں نے بھی اور۔۔۔ہم نے بھی۔[15] ف۔والدین اور مخیّر حضرات کی ذمہ داری جس طرح مدارس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نصابِ تعلیم اورطرزِ تدریس کو "اپ ڈیٹ" کریں اسی طرح والدین کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مدارس میں داخلہ دلانے سے پہلے اچھی طرح صلاح مشورہ اور چھان بین کریں۔نیز مخیّر حضرات کوبھی چاہیے کہ وہ عطیات دینے سے پہلے مدرسے کے نظامِ تعلیم میں ذاتی طور پر دلچسپی لیں اور جہاں پر انہیں اطمینان ہو کہ صحیح معنوں میں خدمتِ دین ہورہی ہے وہیں پر عطیات جمع کرائیں۔ نتیجہ دینی مدارس کے بغیر اسلامی معاشرے کی تشکیل اور دینی تہذیب و ثقافت کا احیاء کسی طور بھی ممکن نہیں۔ایک جامع اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ صرف اور صرف دینی مدارس کے زیرِ سایہ ہی تشکیل پاسکتاہے۔اسلام دشمن طاقتوں نے دینی مدارس کی اہمیت اورطاقت کو بھانپتے ہوئے موجودہ صدی میں جہاد کی آڑ میں دینی مدارس کی پشت میں خنجر گھونپا اور دینِ اسلام کو دینی مدارس کے ذریعے ہی بدنام کرنے کی کوشش کی۔ نام نہاد علماء نے امریکہ اور سعودی عرب کے مفادات کی خاطردینی مدارس کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث کر کے مدارس کو بدنام کیا۔اگر ہم اپنے معاشرے کو جہالت،پسماندگی ،بدحالی اور غربت و افلاس سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے اپنے دینی مدارس کی فلاح و بہبود پر توجہ دیں۔ ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے مدارس میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کریں اور جدید نظامِ تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کو آگے بڑھائیں۔آج دینی مدارس کو درپیش مشکلات کاصحیح سراغ لگائے بغیر اور ان مشکلات کا مقابلہ کئے بغیر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو گمراہی اور ضلالت سے نجات نہیں دلاسکتے۔ ہمیں چاہیے کہ اسلام دشمن طاقتوں کا علمی و فکری مقابلہ کرنے کے لئے تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو دینی مدارس کی علمی و فکری میراث کی حفاظت کرنے کی دعوت دیں۔ اگر ہم خلوصِ نیت کے ساتھ دینی مدارس کو مشکلات سے نجات دلاکر استعمار کے مقابلے میں کھڑاکرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ملت اسلامیہ اس صدی کے ایک بہت بڑے دینی،مذہبی،اقتصادی،ثقافتی اور سیاسی بحران سے نجات حاصل کرلے گی۔ منابع:۔ [1] استفادہ از پاکستان کے امامیہ دینی مدارس از سید محمد ثقلین کاظمی ص ۲۹،۶۰،۱۵۵ [2]،استفادہ از مطلع انوار ،سید مرتضی حسین ص۲۵۰ استفادہ از مقدمہ امامیہ دینی مدارس پاکستان حافظ ریاض حسین نقوی ص ۳۲ [3] میدانی تحقیق [4] روزنامہ آزادی ،کالم نگار پروفیسر سیف اللہ خان کی تحریر سے جو 25فروری 2012ءکو ” اسلامی مدارس کے لیے یونیورسٹیوں کی ضرورت “ کے عنوان سے شائع ہوئی ۔ [5] مولف کا نظریہ [6] نظریہ مولف [7] استفادہ از جہادی از مقبول ارشد ص ۱۳،۱۴،۱۵ [8] پاکستان امریکہ بنتے بگڑتے تعلقات ازمحمدجاوید استفادہ ص ۵۵،تا۶۵ و استفادہ از لال مسجد از طارق اسماعیل ساگر ص ۴۰ تا ۴۵ [9]الخیرماہنامہ، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ’’مدارس کی ضرورت ۔۔۔۔کیوں؟‘‘، جولائی ۲۰۰۹ء ،ملتان (دیوبندی) [10]،اداریہ ’’دینی تعلیم اور معاشرےکی اسلامی تشکیل ‘‘،ماہنامہ ’’محدث ‘‘ اگست ۲۰۰۹ء ،لا ہور (اہلحدیث)] مقدس جنگ از ایم الظواہری ترجمہ ارشد علی [11] [12] استفادہ از لال مسجد از طارق اسماعیل ساگر ص ۱۷۔۲۲،۲۵ [13] استفادہ از جرنیل اور سیاستدان تاریخ کی عدالت میں از قیوم نظامی ص ۲۳،۳۵،۴۵ [14] میدانی تحقیق تحقیق میدانی[15]