بہارِ عربی یا اسلامی انقلاب
بہارِ عربی یا اسلامی انقلاب
Author :
نذر حافی
0 Vote
86 View
نذر حافی [email protected] ہمارے ہاں عام طور پر کسی نظریے، شخصیت یا تحریک کو کسی مسلمہ معیار اور میزان پر پرکھنے کے بغیر ہی اس کے بارے میں رائے قائم کردی جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ عرب دنیامیں چلنے والی موجودہ اسلامی تحریکوں کے ساتھ بھی ہورہاہے۔ کچھ کو تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیاکہہ رہے ہیں ، کبھی قذافی کو مردمومن ، کبھی صدام کو سو سلام، کبھی تونس کو مصر نواز، کبھی القائدہ کو سپاہِ اسلام، کبھی بن لادن کو غازی علم دین، کبھی طالبان کو کربلا کے جانشین، کبھی مصر یوں کو قوم پرست، کبھی حماس کو حزب اللہ نواز، کبھی حزب اللہ کو ایران نوازاور کبھی اخوان المسلمین کواسلام مخالف اور موجودہ انقلابی لہر کو بہارِ عربی کہے جارہے ہیں۔ اپنی اس حواس باختگی کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرناچاہیے کہ موجودہ صدی میں سائنسی اور نظریاتی تحریکوں کے تیزی سے رشد کرنے کے باعث کوئی میزان اور معیار قائم کئے بغیر موجودہ صورتحال کو سمجھنا کسی کے بس کی بات ہی نہیں۔ اس صدی میں دوستی اور دشمنی کے معیار ، سوچ کے انداز، فکر کے محور اور نظریات کے قطب تبدیل ہوگئے ہیں جس کے باعث موجودہ صدی میں کئی ممالک ٹوٹے، صاحبانِ تخت ، تختہ دار پر جھولے، تاج تاراج ہوئے اور بادشا گدا بنے۔ تاہم یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں اسلامی دنیامیں جو تحریکیں ابھر کر سامنے آئیں ، انہوں نے جتنا مشرق میں رہنے والوں کی فکر کو جھنجھوڑا اتناہی اہل مغرب کی فکر کو بھی بیدارکیاہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں مشرقی و مغربی ہر کوئی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے عرب دنیاکی صورتحال سے متاثر ہے۔ ہمیں عرب دنیا میں اسلامی بیداری کی موجودہ لہر کو جانچنے کے لئے سب سے پہلے مرحلہ وار اسلام، مسلمانوں اور انقلاب کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام، مسلمان اور انقلاب یوں تو دین اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی لوگوں کی سیاسی و سماجی فکر، دینی نظریات، حکومتی ڈھانچے حتی کہ عبادات اور رسوم و رواج کو بھی تبدیل کردیاتھا۔ اس دین کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ یہ دین ، دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں انسان کی بھلائی چاہتاہے۔ اس کی تعلیمات میں کشش، اس کے پیغام میں جاذبیّت، اس کے احکامات میں حکمت، اس کے معارف میں نو آوری اور اس کی شریعت میں خلاقیت پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ خاص کرخودمسلمان اس دین کی قدروقیمت کو ماضی میں اس قدر نہیں سمجھتے تھے جتنا کہ اس صدی میں سمجھنے لگے۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال سے اسلامی دنیا کو جو دھچکالگا تھا اس کے بہت سارے نقصانات کے باوجود ایک فائدہ مسلمانوں کو یہ پہنچاکہ ہر مسلمان کو انفردای طور پر اپنی دینی شناخت اور خودی کی فکر لاحق ہوئی۔ خلافتِ عثمانیہ تک اسلام "بادشاہت" کے پھریرے کے نیچے کھڑا ہونے پر مجبور تھا، خلافتِ عثمانیہ کے بعداسلام کے تحفظ کی ذمہ داری براہِ راست دنیائے اسلام ، خصوصاًعلمائے اسلام کے کاندھوں پر آپڑی۔ اس صدی میں جہاں اسلام کی تبلیغ اور نشرواشاعت میں اضافہ ہوا وہیں اسلام دشمنی اور مسلمان کشی نے بھی باقاعدہ ایک مکتب اور سکول آف تھاٹ کی حیثیت اختیار کرلی۔ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے درمیان کبھی روشن فکری اور کبھی شدت پسندی کے نام پر ایسےٹولے اور گروہ بنائے گئے جن کا مقصد صرف اور صرف اسلام کی شناخت کو مسخ کرنا تھا لیکن خدا کی کرنی دیکھیں، اس عمل کا ردّ عمل بھی بہت جلد اور شدت کے ساتھ سامنے آیا۔ دشمنوں کی طرف سے اسلام کے عقائد پر جتنے زیادہ حملے ہوتے گئے مسلمان اپنے دین کی حفاظت کے لئے اتنے ہی زیادہ فکرمند ہوتے گئے۔ دشمنانِ اسلام نے جتنا بھی اسلام کو محدود کرنے کی کوشش کی عالم بشریت کو اس کی تشنگی اتنی زیادہ محسوس ہوئی اور خصوصاً موجودہ صدی میں جب دین کو افیون کہاجانے لگاتھا تو دنیامیں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں نے دشمنانِ اسلام کے مفروضوں کو باطل ثابت کردیا۔ چنانچہ قیام پاکستان سے لے کر انقلابِ اسلامی ایران تک اور افغانستان سے لے کرعرب دنیامیں موجودہ تحریکوں کے دوران لوگوں نے لاالہ الاللہ کا نعرہ ہی لگایااوراپنی اسلامی شناخت اور دین کی بالادستی کی ہی بات کی۔ اگرچہ یہ حقیقت اظہرمن الشّمس ہے کہ دینِ اسلام جہاں پر بھی گیا اپنے ہمراہ ایک مکمل انقلاب لے کر گیا لیکن اس کے باوجودہم فقط نعروں اور ریلیوں کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں جگہ پر اسلامی انقلاب ہے اور فلاں جگہ پر غیر اسلامی۔ اب کہاں پر اسلامی انقلاب ہے اور کہاں قومی یا علاقائی ، اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں خود انقلاب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انقلاب کہتے کسے ہیں۔۔۔ ؟ انقلاب کی گھسی پٹی تعریفوں کو جمع کرنے کے بعد پھر پرانی اور کتابی باتوں کو دہرانے کے بجائے ہم انقلاب کے بارے میں مختصرا عرض کئے دیتے ہیں کہ عام طور پر کہیں بھی اجتماعی تبدیلی کو انقلاب کہاجاتاہے۔ (1)یہ لفظ انگریزی کے کلمے"revolution" اور عربی کے کلمے "ثورہ"کے مترادف ہے۔ محقیقین کے مطابق " لفظِ انقلاب" شروع میں صرف علم نجوم میں استعمال ہوتاتھا اور ستاروں کی حرکت کو انقلاب کہاجاتاتھا۔ یہ اصطلاح یورپ میں سترہویں صدی عیسوی میں اور ایران میں انقلابِ مشروطہ کے دور میں استعمال کی جانے لگی۔ (2) لغت میں انقلاب: لغت میں ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہونے، بنیادی تبدیلی، گردش ، دور، پرانے سیاسی یامعاشی نظام کی جگہ نئے نظام کا نفاذ نیزمتغیّر ہونے، تہہ و بالاہونے اور پلٹنے وغیرہ کو انقلاب کہتے ہیں۔ (3) اصطلاح میں انقلاب: ارسطو کا نظریہ انقلاب ارسطو کے نزدیک انقلاب کے دو معنی ہیں: ﴿۱﴾ریاست کے مروّجہ آئین میں تبدیلی﴿۲﴾اقتدار کی منتقلی اسی طرح ارسطو نے انقلاب کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں: ﴿۱﴾مکمل انقلاب ﴿۲﴾نامکمل انقلاب ارسطو کے نزدیک ایک مکمل انقلاب وہ ہے جو معاشرے کے عمومی سماجی ڈھانچے ، سیاسی نظام کے ڈھانچے اور سیاسی اصولوں میں تبدیلی لائے جبکہ ایک نامکمل انقلاب وہ ہے جس میں مذکورہ تین نکات میں سےکسی ایک نکتے میں تبدیلی آئے۔ (4) ارسطو کے مطابق انقلاب کبھی حکومت کو تبدیل کرنے کا باعث بنتاہے اور کبھی حکومتی ڈھانچے کے اند رہی وقوع پذیر ہوتاہے اور فقط انتقالِ اقتدار کا سبب بنتاہے۔ (5) اصطلاح میں کی گئی انقلاب کی مختلف تعریفوں کو اگر جمع کیاجائے تو کہیں پر بھی ایک اجتماعی تبدیلی کو انقلاب کہاجاتاہے۔ (6) انقلاب شناسی کے سلسلے میں دوسری اہم بحث یہ ہے کہ انقلاب آتا کیسے ہے۔۔۔ ؟ انقلاب آتاکیسےہے۔۔۔ ؟ یوں تو انسانی زندگی ازل سے ہی مسلسل انقلابات کی زد میں ہے اور اس دنیا میں آج تک ان گنت انقلابات رونما ہو چکے ہیں۔ ارسطو کے مطابق انقلاب کے عمومی طور پر تین سبب ہیں : ۱۔ مادی ۲۔ فاعلہ ۳۔ غائی مادی سبب: انقلاب کا مادی سبب یہ ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ اپنے حقوق کا استحصال ہوتے دیکھتاہے تو وہ حکومت سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑاہوتاہے۔ سبب فاعلہ: کچھ لوگ اپنے زیان کے ازالے کے لئے ار اپنے نقصانات کی تلافی کے لئے حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ سبب غائی: یہ سبب دراصل ۹ وجوہات کا مجموعہ ہے۔ وہ نو وجوہات مندرجہ زیل ہیں: حکومتی ادروں کی من مانی، لوگوں کی بے حرمتی، لوگوں کا ذہنی و علمی لحاظ سے مضبوط ہوجانا، لوگوں کا عدم تحفظ کا احساس،۔۔۔۔ (7) راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق بنیادی طور پر انقلاب کسی تبدیلی کی خواہش سے جنم لیتاہے اور اس خواہش کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں: ﴿۱﴾انسان فطری طور پر تبدیلی، نوآوری اور خلّاقیّت کادلدادہ ہے چنانچہ وہ ایک مدت کے بعدکسی بھی مروجہ نظام سے اکتاجاتاہے اور اسے تبدیل کرنے کے بارے میں سوچنے لگتاہے۔ ﴿۲﴾کوئی بھی مروّجہ نظام جب انسان کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہوجاتاہے تو انسان اس کاطوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کی فکر کرنے لگتاہے۔ (8) اس کے بعد اہم بات یہ ہے کہ انقلاب کو ن لاتاہے۔ انقلاب کون لاتاہے۔۔۔ ؟ کسی بھی معاشرے میں جب فساداور بگاڑ اپنے وجود کااظہار کرنے لگے، عوام کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہوجائے تو اصلاح کی ضرورت خود بخود محسوس ہونے لگتی ہے۔ دنیامیں جہاں بھی کرپشن، لوٹ کھسوٹ، ماردھاڑ، دھونس دھاندلی اور استحصال عام ہوجائے وہاں پرلوگوں میں انقلاب کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے اورتبدیلی کی آرزومحسوس ہونے لگتی ہے۔ انقلاب کی خوہش اور تبدیلی کی آرزوجتنی بھی شدیدہوکوئی بھی ملّت اس وقت تک انقلاب برپانہیں کرسکتی جب تک اس کے صاحبانِ فکرودانش اس کی مہار پکڑکرانقلاب کی شاہراہ پراس سے آگے آگے نہ چلیں۔ اگرکسی قوم کی صفِ اوّل دانشمندوں سے خالی ہو توایسی قوم وقتی طور پر بغاوت تو کرسکتی ہے یاپھر کوئی نامکمل یابے مقصد انقلاب تولاسکتی ہے لیکن ایک حقیقی تبدیلی اور بامقصد انقلاب نہیں لاسکتی۔ کسی بھی معاشرے میں دانشمندوں کی حیثیت، بدن میں دماغ کی سی ہوتی ہے، دماغ اگراچھائی کاحکم دے تو بدن اچھائی کاارتکاب کرتا ہے ، دماغ اگر برائی کاحکم دے تو بدن برائی انجام دیتاہے، دماغ اگر دائیں طرف مڑنے کاحکم دے توبدن دائیں طرف مڑجاتاہے اور اگر دماغ بائیں طرف مڑنے کا کہے توبدن۔۔۔ کسی شخص کا اگر دماغ مفلوج ہوجائے تو اس کا باقی بدن باہمی ربط کھو دیتاہے اور وہ الٹی سیدھی حرکات شروع کردیتاہے ، جسکی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ شخص باگل ہوگیاہے۔ بالکل اسی طرح اگرکہیں پر دانشمند حضرات اچھائیوں کی ترغیب دیں تو لوگ اچھائیوں کی طرف آنے لگتے ہیں اور اگر برائیوں کی تبلیغ کریں تو لوگوں میں برائیاں عام ہونے لگتی ہیں۔ جس ملت کے دانشمند حضرات اپناکام چھوڑدیں اور اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں تووہ ملت پاگلوں کی طرح الٹی سیدھی حرکات کرنے لگتی ہے اور اس ملت کے کسی بھی فرد کو کچھ پتہ نہیں چلتاکہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے اور اسے کیا کرناچاہیے۔ چنانچہ ایسی ملتیں غیروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتی ہیں لیکن اگرکسی ملت کے دانشمند افراد اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے انجام دیں توایسی ملت ہر مشکل سے ٹکرانے اور ہرناممکن کو ممکن بنانے کیلئے تیارہوجاتی ہے۔ یعنی جس ملت کے دانش مند افراد میدان میں رہتے ہیں وہ ملت میدان میں قدم جمائے رکھتی ہے اور جس ملت کے دانشمند افراد میدان خالی چھوڑدیں اس ملت کے قدم میدان سے اکھڑجاتے ہیں۔ المختصریہ کہ اصلاح یا تخریب کا عمل کبھی بھی دانشمندوں کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔ دانشمند نظریات پر کام کرتے ہیں۔ آپ معاشرے میں جیسے نظریات پروان چڑھائیں گے ویسی ہی تحریک چلے گی۔ پس ہر تحریک کے پیچھے ایک اجتماعی شعور موجود ہوتاہے جسے نظریہ کہاجاتاہے دوسرے لفظوں میں کسی بھی تحریک کی قوتِ متحرکہ کانام نظریہ ہے اور ہرنظریے کے پیچھے ایک خاص طبقہ سرگرمِ عمل ہوتاہے جو"دانشمند طبقہ"کہلاتاہے۔ یہ طبقہ ایک خاص قسم کے شعور کو پروان چڑھاتاہے۔ جس معاشرے میں اجتماعی سطح پرمختلف قسم کے نظریات پروان چڑھ رہے ہوں وہاں پر مختلف نظریاتی طبقات جنم لیتے ہیں۔ یہ نظریاتی طبقات رفتہ رفتہ عوام الناس کو اپنے اندر سمونا شروع کردیتے ہیں اور خود ایک نظریاتی طاقت کے طور پر ابھرنے لگتے ہیں۔ پس انقلاب خواہ مثبت ہوں یا منفی، حادثاتی یا اتفاقی نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے ایک دانشمد طبقہ موجود ہوتاہے جو منصوبہ بندی کرتاہے۔ ایک اسلام اور کئی انقلاب۔۔۔ ؟ جب ہم اسلامی انقلاب کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ہر خطے میں ایک مختلف شکل کا انقلاب دیکھنے کو ملتاہے۔ مثال کے طورپرقیام پاکستان، انقلابِ افغانستان اور ایران کے اسلامی انقلاب کا موازنہ کرکے دیکھ لیں، آپ باآسانی اس حقیقت تک پہنچ جائیں گے کہ اگرچہ ان خطوں کے رہنے والوں نے پورے خلوص کے ساتھ قربانیاں دیں لیکن اسلامی انقلاب کی جو جامع ترین شکل ہمیں ایران میں نظرآتی ہے وہ پاکستان یا افغانستان میں نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان یا افغانستان میں جو انقلاب آیا وہ اسلامی نہیں تھا۔ چونکہ اس کے لانے والے فکراور عقائد کے اعتبار سے اسلامی تھے ، انہوں نے اپنی منزل اسلامی حکومت کو ہی قراردیاتھالیکن پاکستان یا افغانستان میں انقلاب اسلامی اس طرح سے پر رنگ نہیں ہوا جس طرح ایران میں ہوا۔ مسلمانوں نے تینوں ممالک میں مروجہ سماجی و سیاسی نظام اور اصولوں کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ، صرف چہرے نہیں تبدیل ہوئے بلکہ حکومتی ڈھانچہ، لوگوں کا طرزِ فکر اور اندازِ زندگی سب کچھ تبدیل ہوا۔ لادینیت کے کالے قانون کے بجائے اسلام کے قانون کامطالبہ کیاگیا نیز بدمعاش، کرپٹ اور اوباش لوگوں کی جگہ دیندار ، نیک اور صالح قیادت وجود میں لانے کی مہم چلائی گئی۔ ان ممالک میں اسلامی انقلاب کی تڑپ کا اندازہ ہم ایرانی، پاکستانی اور افغانی عوام کے دینی نیز ملی و قومی افکارات و اجتماعات اور تہواروں سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔ عید الفطر سے لے کر عاشورہ تک کے تمام تہواروں کویہاں کے لوگ دینی لگاو اور عقیدتی جوش و خروش سے بناتے ہیں۔ اب جاننے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجہ ہے جس کے باعث ایک ہی کلمہ پڑھنے والے اور ایک ہی پرچم اٹھانے والے مسلمان تینوں ممالک میں ایک جیسا انقلاب نہیں لاسکے۔ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی تشخیص کے لئے ہمارے پاس ایک معیار کا ہونا ضروری ہے۔ معیار قائم کئے بغیر ہم جو نظریہ بھی قائم کریں گے وہ یقیناً غلط ہوگا۔ جب ہمیں اسلامی انقلاب کا معیار پتہ چل جائے گا تب ہمیں یہ معلوم کرنے میں آسانی ہوجائے گی کہ انقلاب اسلامی کے کہیں پر کم رنگ اور کہیں پر پر رنگ کیوں ہے۔ عرب دنیامیں چلنے والی موجودہ تحریکوں کے حوالے سے ہمارے سامنے اب تک بین الاقوامی طور پر دو معیار سامنے آچکے ہیں۔ ایک معیار مغربی دنیا اور امریکی بلاک نے دیا ان کے مطابق ان تحریکوں کے پیچھے جمہوریت کی طلب، معاشی ناہمواری اور اقتصادی مشکلات کا ہاتھ ہے جبکہ اسلامی بلاک کی طرف سے ۴فروری ۲۰۱۱ کو تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے اجتماع سے ایران کےاسلامی انقلاب کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے خطاب کرتے ہوئے مغربی دنیا اور امریکی بلاک کے معیار کو مسترد کرتے ہوئے ایک اور معیار دیا۔ ان کے بقول دنیامیں جہاں بھی کسی انقلابی تحریک میں مندرجہ زیل عناصر پائے جائیں وہ اسلامی انقلاب کی حامل ہے۔ ۱۔ اسلامی ہو[مسلمان چلارہے ہوں] ۲۔ عوامی اور مقامی ہو ۳۔ امریکہ اور صہیونزم کے مخالف ہو اس معیار کاذکر کرنے کے بعدجب ہم اسلامی تحریکوں کے چلنے کے حوالے سے ایران، پاکستان اور افغانستان جیسےممالک کا موازنہ کرتے ہیں تو آسانی کے ساتھ ہمیں پتہ چل جاتاہے کہ مذکورہ تینوں ممالک میں چلنے والی تحریکوں میں پہلی دو شرائط تو پائی جاتی ہیں۔ یعنی ان تحریکوں کوچلانے والے مسلمان ہی تھے اور یہ تحریکیں مقامی بھی تھیں لیکن تیسری شرط کے اعتبارسے پاکستان اور افغانستان کی صورتحال بالکل ایران کے بر عکس ہے۔ یعنی امریکہ اور دیگر غیر اسلامی طاقتوں کا اثر و رسوخ پاکستان و افغانستان میں بہت زیادہ ہے جبکہ ایران میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ پس اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلاہے کہ ایران کی طرح پاکستان اور افغانستان میں اسلامی انقلاب مضبوطی سے اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرسکا اور پُررنگ نہیں ہوسکا۔ بہار عربی یا اسلامی انقلاب عرب دنیا میں چلنے والی موجودہ تحریکوں کے بارے میں مختلف قسم کے خدشات کا اظہار کیاجاتاہے۔ کوئی ان تحریکوں کو علاقائی اور عرب تحریکیں قراردیتے ہوئے اس تبدیلی کو بہارِ عربی اور کوئی انقلابِ اسلامی قراردیتاہے۔ ہمیں اس بارے میں اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے انقلاب اسلامی کے معیار کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے۔ جب ہم سید علی خامنہ ای کے دیے ہوئے معیار کو دیکھتے ہیں تو یعنی اسلامی ہونے کے ساتھ ساتھ انقلاب عوامی اور مقامی ہونیزامریکہ اور دیگر غیر اسلامی طاقتوں کے مخالف ہو تو ہمیں جو مشکل پاکستان اور افغانستان میں اسلامی انقلاب کی نظر آتی ہے وہی دنیائے عرب میں بھی موجود ہے۔ پس عرب دنیا میں آنے والا یہ اسلامی انقلاب بھی ممکن ہے ایران کی طرح ہمیں زیادہ پر رنگ نظر نہ آئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ انقلاب سرے سے اسلامی ہی نہیں۔ کوئی بھی عقلمند انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتاکہ تحریکیں چلانے والے مفکرین اور رہبروں کے فیصلوں پر زمینی حقائق، فقہی عقائد، منافقین کی چالوں، بیرونی دشمنیوں ، داخلی صورتحال اور بین الاقومی دباوکا اثر پڑتاہے۔ جیساکہ ایران کے حوالے سے مرحوم آیت اللہ منتظری کی روشن مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ وہ ایران میں اسلامی انقلاب لانے کے حوالے سے صف اوّل کے رہنماوں میں شمارہوتے تھے لیکن بعد ازاں مختلف وجوہات کی بناپر اسی انقلاب کے مخالف ہوگئے۔ اب کیا آیت اللہ منتظری کے کچھ کہنے اور ان کے اقدامات سے ایران کا انقلاب، اسلامی نہیں رہے گا۔ تحریکوں کے اسلامی یا غیراسلامی ہونے کافیصلہ ملتوں کے قائدین کے وقتی اقدامات کو دیکھ کر کرنے کے بجائے ، ان کے عقائد ، جدوجہد اور فکری بنیادوں کی اساس پر کیاجانا چاہیے۔ ہم یہاں پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ عرب دنیا میں اسلامی انقلاب کی دستک کو سننے والوں میں ایک اہم نام علامہ عارف حسین الحسینی (رحمۃاللہ علیہ) کابھی ہے۔ آپ نے متعدد خطبات میں اس انقلاب کی آمد آمد کی خبر دی ہے۔ نمونے کے طور پر چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں: ہمیں امید ہے کہ انشاءاللہ جس طریقے سے ایران سے استعمار کا جنازہ نکل گیاہے۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک چاہے پاکستان ہو مصر ہو ، مراکش ہو، تونس ہو۔ ان ممالک سے بھی انشاءاللہ استعمار کے جنازے کو باہر پھینک دیا جائے گا۔ (9) اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: آج اگر مصر کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اسلامی نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ انقلاب اسلامی ایران کی برکت سے ہے۔ اگر مراکش، اردن، افغانستان، ترقی اور ملائیشیا میں اسلامی تحریکیں چل رہی ہیں تو ان کی وجہ انقلاب اسلامی ایران ہے۔ یقین کریں کے انقلاب اسلامی ایران کامیاب نہ ہوتا تو انقلاب اسلامی افغا نستان کی یہ پوزیشن نہ ہوتی۔ اسی طریقے سے فلسطین میں جو اسلامی حرکت شروع ہوئی ہے اس سے پہلے وہ زمین کی بات کرتے تھے۔ عربوں کی بات کرتے تھے ایک عصبی تحریک تھی۔ ایران کے انقلاب کی وجہ سے وہاں لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انقلاب مسجد سے شروع ہوا ہے۔ اللہ اکبر کے نام سے شروع ہوا ہے۔ (10) آپ نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ اور دوسری طاغوتی طاقتوں کو اسلامی انقلاب سے خطرہ ہے۔ شیعوں سے خطرہ نہیں ہے۔ ایران سے بھی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جو اسلامی انقلاب کی لہر ایران کی سر زمین سے اٹھی ہے۔ اس کے اثرات مراکش میں بھی پائے جاتے ہیں۔ تونس میں بھی پائے جاتے ہیں، مصر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ (11) آج عراق، تونس، مصر ، لیبیا، فلسطین، کشمیر، افغانستان، یمن، بحرین اور سعودی عرب میں اسلامی انقلاب کی موجیں عالمِ بشریّت کو یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اب تو اپنی آنکھوں سے تعصّب کے پردے ہٹادو اور اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ حقیقی فتح صرف اور صرف حق کی ہوتی ہے۔ اب عرب دنیامیں اس تبدیلی کو بہارِ عربی یا اسلامی انقلاب کہنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھ لینا چاہیے کہ ہمارے پاس معیار کونسا ہے اور کس میزان پر ہم ان انقلابات کو تول رہے ہیں۔ اگر ہمارے پاس معیار مغربی دنیا اور امریکی بلاک کا قائم کردہ ہے تو ہمیں یہ انقلاب بہارِ عربی ہی نظر آئے گا اوراگر ہمارے پاس معیار سید علی خامنہ ای کا دیاہوا ہے تو یہ تحریکیں اسلامی ہیں۔ یادرہے کہ ممکن ہے ان تحریکوں کے قائدین عالمی دباو کے باعث وقتی طور پر درست فیصلے نہ کرپائیں لیکن اس کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ عرب دنیامیں فی الحال پاکستان اور افغانستان کی مانند اسلامی انقلاب نسبتاً کم رنگ نظر آئے گا لیکن بالاخریہ پر رنگ ہوہی جائے گا چونکہ نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا۔ (12) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ استفادہ از وکی پیڈیا http://fa.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8 2۔ تاثیرانقلاب اسلامی برسیاست بین الملل از محسن مجرّد ص ۶۳۔ لغت نامہ دہخدا از علی اکبر دہخدا ص ۳۶۵، فرہنگِ فارسی از محمد معین چاپ ہفتم ص ۳۸۷، (فیروزاللغات اردو ص۱۳۱3) 4۔ [استفادہ از سیاسیات ارسطواقتباسات] مترجم پروفیسرتنویر بخاری و استفادہ ازمغربی سیاست ص ۲۱۵ عمانویل یونس و از کتب ہای متفاوت و متفرق 5۔ص ۲۰۳ ارسطوسیاست کتاب پنجم مترجم دکترحمید عنایت 6۔یادرہے کہ اجتماعی تبدیلی سے مراد یکمشت تبدیلی نہیں ہے بلکہ تمام شعبہء حیات میں تبدیلی مقصودہے جو کہ تدریجی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یکمشت حادثہ ہوتاہے انقلاب نہیں۔ انقلاب کے لئے " ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔ نظریہ مولف 7۔ وہی کتاب ص۲۰۵ 8۔ نظریہ مولف 9۔ {اسلوب سیاست ص۲۵۰} 10۔ {اسلوب سیاست ص ۲۴۱} 11۔ {اسلوب سیاست ص ۲۶۴} 12۔ کلیاتِ اقبال