اسلامی حکومت ایک دینی فریضہ

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم اقوام کی تقدیر سازی حکمران کرتے ہیں۔حاکم اگر خود دار،شجاع ،منصف مزاج،مفکر اور رعایا پرور ہو تو قوم اس کی یادوں کو صدیوں تک سینے سے لگائے رکھتی ہے۔ایسے حکمران اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی عوام کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں،ان کے واقعات کو شاعر اشعار میں پروتے ہیں،مائیں لوریوں میں اپنے بچوں کو سناتی ہیں اور بوڑھے اپنی کہانیوں میں نسلِ نو کو منتقل کرتے ہیں۔لوگ نسل در نسل ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی محبت کے گن گاتے ہیں چونکہ محبت غیرت مندوں،بہادروں اور جرات مندوں سے کی جاتی ہے بزدلوں اور ظالموں سے نہیں۔ ہماری اس دنیا میں ہر گروہ اور پارٹی کی خواہش ہے کہ حکومت اسے سونپی جائے۔قرآن مجید نے بھی حکومت کے بارے میں اپنے نظریے کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنّ الارْضَ يَرِثُها عِباديَ الصّالِحُونَ اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔[1] اسی طرح سورہ نور کی آیت ۵۵ میں ارشاد فرمایاہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ۔۔۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں اسی طرح جانشین بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنایا تھا۔ سورہ قصص کی آیت ۵ میں ارشادِ پروردگار ہے کہ وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ اور ہم نے چاہا کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کر دیئے گئے تھے اور انہیں رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنا دیں، اسی طرح سورہ قصص کی آیت ۶ میں فرمایا ہے کہ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِي فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُم مَّا كَانُوا يَحْذَرُونَ اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھے۔[2] مندرجہ بالا آیات کے مطالعے سے  چند چیزوں کاپتہ چلتاہے :۔ ۱۔زمین پر حکومت کا قیام دین اسلام کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے۔ ۲۔قرآن مجید زمین پر حکومت قائم کرنے سے غافل نہیں ہے ۳۔اللہ نے نیک لوگوں کو حکومت دینے کا وعدہ کیا ہے ۴۔اللہ ظالم حکمرانوں کے خلاف مظلوم اقوام کے ذریعے انقلاب برپا کرتا ہے۔ قرآن مجید کے مذکورہ ہدف یعنی حکومت سازی کو پورا کرنے کے دوطریقے ہیں :ایک منفی اور دوسرا مثبت منفی طریقہ یہ ہے کہ  ہاتھ پر دھرے بیٹھا جائے  اور مثبت طریقہ یہ ہے کہ مزکور ہدف کو پورا کرنے کے لئے قرآنی اصولوں کے مطابق سعی اور کوشش کی جائے۔ظہورِ اسلام کے بعد اسلامی مفکرین کے ہاں اسلامی نظام حکومت کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیاہے  خصوصاً الماوردی،ابن خلدون اور غزالی نے اس ضمن میں مدلل بحثیں کی ہیں۔ تاریخی سفر میں ایک اسلامی اور قرآنی نظامِ حکومت کے حوالے سے  کئی نظریات سامنے آتے رہے اور متعدد حکومتیں اپنے آپ کو قرآنی و اسلامی کہتی رہیں۔قطع نظر اس کے کہ  اسلامی مفکرین کے مطابق یہ حکومتیں کتنے فی صد اسلامی تھیں۔انہوں نے آپ کو اسلامی کہلوایاہے۔ ان حکومتوں میں سے چند ایک یہ ہیں: ۱۔خلافتِ راشدہ ۲۔خلافت بنو امیہ ۳۔خلافت بنو عباس ۴۔فاطمی خلافت ۵۔خلافت عثمانیہ ۶۔افغانستان میں طالبان کی حکومت قابل ِ ذکر ہے پاکستان کے قیام کا مقصد بھی ایک اسلامی حکومت کا قیام ہی ہے۔اس کے علاوہ عصرِ حاضر میں جو حکو متیں اپنے آپ کو شدّومد کے ساتھ اسلامی کہتی اور کہلاتی ہیں ان میں سرِ فہرست ایران کی اسلامی جمہوری حکومت اور سعودی عرب کی شاہی حکومت ہے۔ ایران میں  اسلامی حکومت کی موجودہ شکل  ـولایت فقیہـ کی تاریخ   ظاہری طور پر صرف ۳۶ سالوں پر مبنی ہے ۔ان چھتیس سالوں میں ایران نے اسلام کے نام پر کھلم کھلا آٹھ سالہ جنگ عالمِ کفر کے خلاف لڑی۔اس کے علاوہ  چھتیس سالوں سےشب و روز اقتصادی اور ثقافتی میدانِ جنگ میں  مغرب اور یورپ کے ساتھ ایران کی مسلسل پنجہ آزمائی جاری ہے۔ البتہ تعجب کی بات یہ ہے کہ  بلا مبالغہ ان چھتیس سالوں میں ایران کو جتنا دبانے کی کوشش کی گئی ایران اتنا ہی ابھرا ہے اور ایران کو شیعہ کہہ کر جس قدر تنہا کرنے کی کوشش کی گئی ایران کی مقبولیت میں اسی قدر اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی حکومت کو جس قدر اسلامی کہا گیا ہے اور اس کے اسلامی ہونے کاجس قدر چرچا کیاگیا ہے،سعودی عرب کی مقبولیت میں اتنی ہی کمی آئی ہے اور لوگ سعودی حکومت کو برائے نام اسلامی کہتے تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ سعودی حکومت کو اسلامی  نہ سمجھنے کی بھی بہت ساری معقول وجوہات  ہیں جن کا ذکر ہم  متعدد تحریروں میں کرچکے ہیں اور اس وقت انہیں دہرانا مقصد نہیں ہے ۔ارباب تحقیق  بخوبی ان لنکس پر ان تحریروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ ۱۔ http://urdu.irib.ir/2010-06-28-08-41-22/مقالات/item/40424-مصر-کے-حالات ۲۔ http://ur.shafaqna.com/all-news/interview/item/6671-بھائیو-میرے-بھائی-کو-سمجھاو.html ۳۔ http://shianet.in/index.php?option=com_content&view=article&id=589:1390-02-06-11-51-24&catid=56:islami-bidari&Itemid=70 ۴۔ http://tvshia.com/urdu/index.php/articles/محرم-الحرام/2878-آخر-اسلام-ہے-کیا؟ مندرجہ بالا لنکس پر موجود شواہد کا مطالعہ کرنے  نیز تحقیق کرنے سے بخوبی معلوم ہوجاتاہے کہ   جنت البقیع میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی آل و انصار کے مزارات منہدم کرنے،مسئلہ فلسطین پر اسرائیل نوازی کا مظاہر کرنے مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کے ساتھ ہمکاری کرنے مسئلہ بحرین میں بادشاہت کی کمر ٹھونکنے اور دنیا بھر میں دہشت گرد ٹولوں کی سرپرستی کرنے کے باعث سعودی عرب کو پوری دنیا میں خصوصا عالم اسلام میں سخت خفت اور ندامت کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ یاد رہے کہ   اس وقت سعودی عرب پر شاہ سلمان  حکومت کررہے ہیں۔شاہ سلمان صوبہ ریاض کے 48 سال تک گورنر رہے اور 2011 میں وزیر دفاع بن گئے اور اس کے ایک سال بعد ہی ولی عہد بن گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ  نئے بادشاہ یعنی شاہ سلمان اس ملک کو کس طرف لے جائیں گے کیا وہ گزشتہ پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے سعودی بادشاہت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکیں گے یا پھر اسلامی جمہوریہ ایران سے درس لیتے ہوئے عزت و استقلال اور تدبر و بصیرت کا مظاہرہ کریں گے!؟ ان کے بارے میں بروکلن انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کی مضبوط شراکت چلتی رہے گی۔ بادشاہ سلمان پچھلے سالوں سے سعودی عرب کی بنیادی پالیسی سازوں میں سے ایک تھے۔ بادشاہ سلمان سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کی مدد کے لیےسعودی عرب سے فنڈ اکٹھے کرنے کے ذمہ دار تھے۔ان پیسوں سے افغان مجاہدین کو بہت مدد ملی۔ پیسوں کے علاوہ بہت سے سعودی رضا کار بھی افغانستان میں لڑنے کی غرض سے گئے۔۱ عرب نیوز کے ایڈیٹر خالد الماینہ کے مطابق اس کا بہت کم امکان ہے کہ بادشاہ سلمان سابق بادشاہ عبداللہ کی جانب سے کی جانی والی اصلاحات کو ختم کریں گے۔۲ ’سعودی عربیہ پولیٹکل افیئرز‘ کتاب کی مصنفہ کیرن ایلیئٹ ہاؤس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ موصوف کی زیادہ کوشش یہ رہے گی کہ مذہبی سختی کو قائم رکھا جائے۔۳[3] مذکورہ بالا آرا کی روشنی میں یہ کہاجاسکتاہے کہ  شاہ سلمان بھی امریکی تربیت یافتہ حکمران ہیں لہذا وہ سابقہ حکومتی پالیسیوں کو ہی جاری رکھیں گے۔اسی طرح چونکہ وہ ماضی میں بھی دہشت گردون کی سرپرستی کرتے رہے ہیں سو وہ بھی جاری رہے گی نیز یہ کہ مذہبی طور پر جہاں سعودی عرب میں دیگر مذاہب کے رہنے والوں پر زمین تنگ کی جائے گی وہیں اس زمین پر دیگر ممالک میں بھی شبخون میں اضافہ ہوگا۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو مستقبل میں جہاں سعودی شہنشاہیت قاروں کے خزانے کی ماننددفن ہوجائے گی وہاں اس منطقے میں سعودی عرب کے زیر سایہ سانس لینے والی  دیگرریاستوں کی جان کنی کا وقت بھی شروع ہوجائے گا۔ عالمِ اسلام میں اٹھنے والے   ان نئے بحرانات اور چیلنجز  کا مقابلہ نہ کرسکنے کی صورت میں دشمنانِ اسلام ہی سار فائدہ اٹھائیں گے۔چنانچہ اس وقت دنیا بھر کی مسلم شخصیات،اسلامی تنظیموں اور مفکرین کی اہم ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دنیائے اسلام کو نئے انقلابات اور تبدیلیوں  کا سامنا کرنے کے لئے تیار کریں۔ گلوبل سطح پر اسلامی سیاسی سوچ و بچار کی فضا تیار کی جائے۔دشمن شناسی اور دوست شناسی کے تقاضوں کے مطابق امت مسلمہ کی فکری تربیت کی جائے۔اسلامی دنیا میں متوقع تبدیلیوں کا سامناکرنے کے لئے سارے مسلمان حکمرانوں خصوصا ً سعودی حکمرانوں  کو ممکنہ حد تک امریکہ اور اسرائیل کے چنگل سے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے۔ حکمرانوں کو یہ باور کروایا جائے اسلامی حکومت ایک دینی فریضہ ہے۔دینی فریضے کو شیاطین کی گود میں بیٹھ کر ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔عالمی اسلامی بینک،عالمی اسلامی فوج اور عالمی اسلامی  وحدت کے منصوبوں پر تیزی سے کام کیاجائے۔ ہمارے خیال میں مسلمان حکمرانوں کو امریکہ اور اسرائیل کی ایما پر آگے بڑھنے سے پہلے اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ  اقوام کی تقدیر سازی حکمران کرتے ہیں۔حاکم اگر خود دار،شجاع ،منصف مزاج،مفکر اور رعایا پرور ہو تو قوم اس کی یادوں کو صدیوں تک سینے سے لگائے رکھتی ہے لیکن حاکم اگر غیروں کے غلام،بزدل اور جابر ہوں تو وقت انہیں تاریخ کے خسدان میں کوڑے کی مانند پھینک دیتاہے۔آئندہ نسلیں ان سے نفرت تو کرتی ہیں محبت نہیں کرتیں۔اس لئے کہ محبت، غیرت مندوں،بہادروں اور جرات مندوں سے کی جاتی ہے بزدلوں اور ظالموں سے نہیں۔ [email protected] نذر حافی [1] ۔انبیاء/105 [2] تراجم:۔ http://ur.quransharif.org/28-surah-al-qasas/1 [3] http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2015/01/150123_king_salman_profile_zz