حضرت ولی عصر علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل کا فلسفہ

شان نزول یا اسباب نزول ایک ایسے امور میں سے ہے کہ آیت کو سمجھنے کے لئے ان سے تمسک کرنا ضروری ہے البتہ شرط یہ ہے کہ نقل ہونے والا شان نزول ، سند کے لحاظ سے معتبر ہو یا نقل کرنے والے نے شان نزول پہنچانے میں گمان اور حدس پر اعتماد نہ کیا ہو بلکہ اس نے مشاہدہ کے ساتھ عینی گزارش دی ہو۔سورہ نحل کی ابتدائی آیات کے شان نزول کے بارے میں جو کچھ بیان کیا گیاہے وہ یہ ہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد والی آیات، مکہ میں پیغمبر اکرم (ص)  کی بت پرستوں سے شدید مخالفت کے ایام میں نازل ہوئی تھیں ۔ بت پرست ہر دن مختلف حیلوں کا سہارا لیتے تھے، مثال کے طور پر جب پیغمبر (ص) انہیں عذاب الہی کی دھمکی دیتے تو ان میں سے بعض کہتے '' اگر یہ دھمکی سچی ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں ہوتا‘‘۔ اس آیت کے ظاہر سے استفادہ ہوتاہے کہ اس آیت میں مشرکین کو خطاب کیا جارہاہے، اس لئے کہ بعد والی تمام آیات ان کے خلاف احتجاج کررہی ہیں ۔ لہذا یہ آیت شریفہ مشرکین کے خیالات کے باطل ہونے اور ان کی کوششوں کے بے فائدہ ہونے اور ان پر جلدی عذاب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ استعجال''عجلہ‘‘ سے نکلا ہے، راغب اصفہانی اس کے معنی کے بارے میں کہتے ہیں: ''عجلہ‘‘ ایک شئے کو اس کے وقت سے پہلے طلب کرنا ہے، استعجال جلدی طلب کرنے کے معنی میں ہے :(اتی امراللہ فلا تستعجلوہ) (سورہ نحل، آیہ ۱.)سورہ اسراء میں آیاہے : (کان الانسان عجولا) (سورہ اسراء، آیت ۱۱)کہ یہ آیت انسان کے جلدی کرنے میں مبالغہ سے کنایہ ہے۔ قرآن میں استعجال: یہ با ت صحیح ہے کہ قرآن کریم میں مؤمنین سے جلدی کرنے کی نفی کئی گئی ہے جیسا کہ فرماتاہے:(یستعجل بھا الذین لایؤمنون بھا والذین آمنوا مشفقون منھا و یعلمون انھا الحق) (سورہ شوریٰ آیہ ۱۸.)''اس کی جلدی صرف وہ لوگ کرتے ہیں جن کا اس پر ایمان نہیں ہے ورنہ جو ایمان والے ہیں وہ تو اس سے خوفزدہ ہی رہتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ وہ ہر حال پر حق ہے۔‘‘ لیکن اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ مؤمنین سے عجلت کی نفی کرنا ، اس صورت میں ہے کہ جب عذاب یا اس کے مشابہہ موارد ہوں یا کوئی چیز جہالت اور نادانی کی بنیاد پر قائم ہونی ہو، لیکن اگر جلدی کرنا نیک کام سے مربوط ہو اور آگاہی اور جذبہ کی بنا پر ہو تو قرآن میں ایسی عجلت کی مؤمنین سے نفی نہیں کی گئی ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کی داستان کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں : (وما أعجلک عن قومک یا موسیٰ) (سورہ طہ، آیات۸۳۔ ۸۴.)''اور اے موسی تمہیں قوم کو چھوڑ کر جلدی آنے پر کس شئے نے آمادہ کیا ۔‘‘ موسی علیہ السلام نے فوراً عرض کیا : وہ سب میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے راہ خیر میں اس لئے عجلت کی ہے کہ تو خوش ہوجائے‘‘۔ اس دعوی کی تائید میں مندرجہ ذیل آیات کو بھی مشاہد کے طور پر پیش کیا جاسکتاہے: (سارعوا الی مغفرۃ من ربکم)( سورہ آل عمران، آیہ ۱۳۳.) (فاستبقوالخیرات)( سورہ بقرہ، ۴۸.وسورہ مائدہ۴۸.) اسلامی احادیث میں '' تعجیل فعل الخیر‘‘ کے عنوان سے ایک باب ذکر ہوا ہے ۔ پیغمبراکرم  سے نقل ہوا ہے '' ان اللہ یحب من الخیر ما یعجل‘‘ اللہ تعالی نیک کے کام میں جلدی کرنے کو پسند کرتاہے( الكافي، ج‏2 ص:142 ؛ باب تعجيل فعل الخير) امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: '' نیکی کے کام سے ارادہ کرنے والے شخص کو جلدی کرنا چاہئے، کیونکہ جس کام میں تأخیر ہوجائے شیطان اس میں مکروحیلہ کرتاہے۔‘‘( سفینۃ البحار، ج۱، ص۱۲۹.) ان احادیث میں عجلت سے مراد، بے جا تأخیر اور آج کا کام کل پر چھوڑ نے اور سستی کرنے کے مقابلے میں جلدی کرنا ہے۔ کیونکہ سستی اور آج کا کام کل پر چھوڑنا روحی اور نفسیاتی مشکلات کا سبب بنتاہے، لہذا کہنا چاہئے کہ امور میں جلدی کرنا اور سنجیدہ ہونا تو صحیح ہے لیکن بے جا جلدی اور عجلت صحیح نہیں ہے ۔ یہیں سے ہم یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ امام عصر علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرنا اس آیت سے منافات نہیں رکھتااور یہ معصومین(ع) کے فرامین سے بھی ہم آہنگ ہے امام علیہ السلام کے ظہور کو آسان بنانے میں سے ایک تعجیل فرج کو طلب کرنا ہے اگر امام کے ظہور کے متعدد اسباب ہوں تو یہ تقاضا اور مدد طلب کرنا بھی انہیں مقدمات اور اسباب میں سے ایک ہے بالفاظ دیگر تعجیل فرج کے لئے دعا کرنا استعجال نہیں ہے، بلکہ دعا کے ذریعے ہم اللہ تعالی سے ظہور کے دیگر اسباب کے جلدی فراہم ہونے کو طلب کرتے ہیں اورجب یہ سب فراہم ہوگئے تو پھر ظہور بھی واقع ہوجائے گا۔علاوہ بر این کہ خود دعا، انسان کی روح میں تاثیر رکھتی ہے، اسے خدااور امام کے نزدیک کرتی ہے اور دعا خود ایک قسم کی عبودیت کی علامت اور آمادگی کا اظہار بھی ہے۔   منبع : http://www.shiastudies.net