قرآن کریم میں حضرت مہدی علیہ السلام کاذکر

قرآن کریم نے اسلام کا بنیادی قانون ہونے کے عنوان سے بہت سے مقامات پر اسلام کے کلی مسائل کو بیان کیا گیاہے اور اپنے بہت سے حقائق کے بیان کو پیغمبر اور ان کے جانشینوں کے سپرد کیا ہے اور و اضح طور پر پیغمبراکرم ﷺ کا مفسر قرآن کے طور پر تعارف کروایا گیاہے: (وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم) (سورہ نحل، آیہ۴۴.)ہم نے قرآن کو آپ کی طرف نازل کیاہے تاکہ آپ ان کے لئے وہ بیان کریں جو لوگوں کی طرف نازل ہوا ہے۔ اس آیت میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہاں پر لفظ '' تبیین‘‘ سے استفادہ کیاہے جو وضاحت اورتفسیر کے معنی میں ہے نہ کہ لفظ ' لتقرأ ولتتلو‘‘ جو پڑھنے کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں افراد کے تعارف کے لئے مختلف طریقوں سے استفادہ کیا ہے مثال کے طور پر: الف: نام کے ذریعے تعارف: ( ما کان محمد أبا أحد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین و کان اللہ بکل شیءٍ علیماً)(احزاب،آیہ۴۰.)ترجمہ:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اوراللہ ہر شی کاخوب جاننے والا ہے۔ ب: عدد کے ذریعے تعارف: (ولقد أخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منھم اثنی عشرنقیباً)( مائدہ ، آیہ۱۲.)ترجمہ:اور بے شک اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نقیب بھیجے۔ ج: صفت کے ذریعے تعارف: (الذین یتبعون الرسول النبی الاُمیّ الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراۃ والاِنجیل یأمرھم بالمعروف وینھاھم عن المنکر ویحل لھم الطبیات و یحرم علیھم الخبائث ویضع عنھم اِصرھم والأغلال التی کانت علھیم...) ( اعراف، آیہ ۱۵۷.)ترجمہ:جو لوگ کہ رسول نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا پاتے ہیں کہ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہےاور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے احکام کے سنگین بوجھ اور قید وبند کو اٹھا دیتا ہے۔ لہذا امام مہدی علیہ السلام کے مقدس وجود کے علاوہ کئی اور ایسے موارد ہیں جن کے بارے میں قرآن نے واضح گفتگو نہیں فرمائی ہے ۔اس نکتے کی طرف توجہ بھی لطف سے خالی نہیں ہے کہ ایسے متعدد مسائل ہیں جو صدیوں سے اختلاف پیدا کرنے کا موجب رہے ہیں حتی کہ مسلمانوں کے درمیان جنگ اور خونریزی کا سبب بنے ہیں لیکن قرآن کریم میں ان کے بارے میں واضح طور پر ذکر نہیں ہواہے۔جیسے کلام خدا کا احادیث یا قدیم ہونا جبر و اختیار وغیرہ ۔ پیغمبراکرم ﷺ کا تورات میں واضح طور پر نام آنا اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کانام بھی قرآن میں واضح طور پر ہونا چاہئے۔کیونکہ ممکن ہے کہ جس طرح وہاں پر آنحضرت ؐ کے ذکر کو بیان کرنے میں حکمت ہویہاں پر امام مہدی علیہ السلام کے نام کی وضاحت نہ کرنے میں مصلحت ہو۔ اگرچہ نام کے ذکر کرنے سے بھی حق کا مقابلہ کرنے والوں کی مشکل حل نہیں ہوتی، جیساکہ تورات اور انجیل میں پیغمبر کی بشارت تھی لیکن بہت سے اہل کتاب ایمان نہ لائے، اس کے علاوہ بنی اسرائیل کی اپنے دور کے پیغمبر کی طالوت کے مسئلہ میں مخالفت بھی اس بات پر دلیل( سورہ بقرہ، آیات۲۴۶۔۲۴۷.)ہے ہمیشہ اور ہر جگہ نام کا ذکر کرنا اختلاف کو ختم نہیں کرتا۔اس نبی نے انکے کمانڈر کا نام بتا دیا تھا مگر بنی اسرائیل نے اپنے پیغمبر کی واضح طور پر مخالفت میں کہا تھا:'' أنّی یکون لہ الملک علینا و نحن أحقّ بالملک منہ ولم یؤت سعہ من المال‘‘(سورہ بقرہ، آیت۲۴۷.)ان لوگوں نے کہا کہ یہ کس طرح ہم پر حکومت کریں گے ان کے پاس کو مال کی فراوانی نہیں ہے ان سے زیادہ تو ہمیں حقدار حکومت ہیں۔ علماء نے کہا ہے کہ اگر امام مہدی علیہ السلام یا دوسرے آئمہ علیھم السلام کا نام واضح طور پر قرآن میں ہوتا تو مخالفین میں قرآن کو تحریف کرنے کا جذبہ زیادہ پیدا ہوتا اور یہ الہی کتاب تحریف کے خطر ے سے دچار ہوجاتی ۔ اس کے علاوہ ، حقائق کو بیان کرنے کا واحد راستہ فقط نام کی وضاحت میں منحصر نہیں ہے، بلکہ بہت سے مقامات پر ایک حقیقت کی خصوصیات کو واضح طور پر بیان کرکے اس حقیقت کا تعارف کرایا جاسکتاہے۔ قرآن کریم نے مسئلہ امامت و ولایت نیز مہدویت اور عالمی عدل کی حکومت کو بھی اس روش کے تحت بیان کیاہے اور متعدد آیات میں پیغمبر کے بعد ولایت(مائدہ، آیہ ۵۵) اور امام مہدی علیہ السلام کی عالمی حکومت (نورآیہ۵۵)کو انہیں صفات اور خصوصیات کے قالب میں بیان کیا ہے۔ مفسرین قرآن نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے قرآن کی ۲۵۰ سے زائد آیات کو امام مہدی علیہ السلام اور ان کی عالمی حکومت کے بارے میں ذکر کیا ہے اس بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں( سیمای امام مہدی علیہ السلام قرآن ترجمہ حائری قزوینی اور علی اکبر مہدی پور کی کتاب امام زمان در آینہ قرآن) ۔ ان آیات میں سے بعض درج ذیل ہیں :(ولقد کتبنا فی زبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون ان فی ھذا لبلاغاً یقوم عابدین)( انبیاء آیات ۱۰۵و ۱۰۶.)''اور ہم نے ذکر کے بعدزبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے *یقیناً اس میں عبادت گزار قوم کے لئے ایک پیغام ہے۔‘‘ (وعد اللہ الذین آمنوا منکم و عملوالصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیکمنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم آمناً یعبدوننی لایشرکون بی شیئاً و من کفر بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون)(نور آیہ۵۵.) ''اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے وعد ہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیاہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کرد ے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو در حقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں‘‘۔ منبع : http://www.shiastudies.net