امام مہدي علیہ السلام پر ايک نگاہ

آغاز سخن:تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پيغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمايا: “جو شخص بھي اس حالت ميں مرجائے کہ اس نے اپنے وفت کے امام کي معرفت حاصل نہ کي ہو تو وہ جاہليت کي موت مرا۔”[1] آئمہ معصومين عليھم السلام سے بہت سي احاديث منقول ہيں جو“معرفت امام” کي حقيقت اور اہميت کو بيان کرتي ہيں حتي کہ تاکيد کي گئي ہے کہ اس راہ ميں خدا سے مدد کا تقاضا کيا جائے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمايا : کہ دوران غيبت ميں اس طرح دعا کيا کرو“اللھم عرّفني ...حجتک فانک ان لم تعرفني حجتک ضللت عن ديني”.[2] ترجمہ: خدايا …. مجھے اپني حجت کي معرفت عطا فرما کيونکہ اگر تو نے مجھے اس کي معرفت عطا نہ فرمائي تو ميں اپنے دين سے گمراہ ہوجاؤں گا ۔ لہذا امام کي معرفت کا مسئلہ انسان کي آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور امام ميں ہي راہ سعادت منحصر ہے اور وہي راہ خدا کا مصداق کامل ہے۔ “السلا م عليک يا سبيل اللہ الذي من سلک غيرہ ھلک”[3] ترجمہ: اے راہ خدا تجھ پر سلام ہو کہ جو بھي اس کے علاوہ کسي راستے پر چلا وہ ہلاک ہوجائے گا۔ اے ميرے محترم بہن بھائيو! ہم جو اپنے آپ کو امام زمانہ علیہ السلام کا شيعہ کہلواتے ہيں اور يہ چاہتے ہيں کہ ہم ان کے بہترين چاہنے والے قرار پائيں اور ان کي دوري اور فراق ميں روتےہيں اور ان کے نور افروز ظہور کے لئے ہميشہ دعا گوہيں ہم اس حجت خدا کي کس حد تک معرفت اور شناخت رکھتے ہيں؟ آئيے اسے ايک عظيم الہي ذمہ داري سمجھتے ہوئے اپنے امام کي معرفت کے راستے مزيد جدوجہد کريں۔ امام مہدي علیہ السلام کا اجمالی تعارف: بارہويں امام معصوم علیہ السلام کا ۱۵ شعبان المعظم ۲۲۵ ھ ق کو (عراق کے ) سامرا شہر ميں ميلاد و مسعود ہوا آپ کا مبارک نام وہي پيغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا نام (م۔ ح ٬ م ٬ د) ہے اور آپ کي کنيت بھي پيغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کي کنيت (ابوالقاسم) ہے آپ کے والد ارجمند گيارہويں امام حسن عسکري علیہ السلام اور مادر گرامي نرجس خاتون ہيں کہ جو آپ کو اپنے خاندان کي عظيم ہستي اورخود کو آپ کا خدمت گزار سمجھتي تھيں۔[4] آ پ علیہ السلام کے القاب: (۱)“مہدي” يہ آنحضرت علیہ السلام کا مشہور ترين لقب ہے “جس کا معني خدا کي طرف سے ہدايت کيا گيا”ہے۔ (۲)۔ “قائم” يعني حق کا قائم کرنے والا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا ارشاد گرامي ہے: “قائم کو اس لئے قائم کہا جاتاہے کيونکہ اس کے نام کو فراموش کيے جانے کے بعد وہ قيام کرے گا۔”[5] (۳)۔ “بقيۃ اللہ ” يعني خدا کے باقي ماندہ، آپ اس لقب سے بھي مشہور ہيں کيونکہ آپ آخري حجت اور کل عالم کے لئے ذخيرہ الہي ہيں۔ آپ علیہ السلام کے ديگر القاب مندرجہ ذيل ہيں: حجۃ اللہ ٬ خلف صالح٬ منتقم٬ صاحب الامر٬ صاحب الزمان٬ منصور و منتظر۔ آپ کی ظاہری اور اخلاقي صفات: محدثين اور مؤرخين نے کئي احاديث کي بناپر آپ کے شمائل اور صفات کو يوں قلمبند کياہے: حضرت مہدي علیہ السلام کا چہرہ شاداب٬ گندمي ٬ چوڑے شانے٬ داندان مبارک گشادہ اور براق ٬ چوڑي اور تابندہ پيشاني ٬ قدو قامت استوار٬ رخسار مناسب٬ دائيں رخسار پر تل٬ مستحکم اعضاء ٬ انتہائي خوش منظر اور خوش ربا صورت ہے۔[6] آپ کے اخلاقي صفات کے بار ے ميں پيغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا ارشاد گرامي ہے کہ وہ لوگوں ميں سب سے زيادہ ميرے مشابہہ ہے٬ صورت ميں ٬ گفتار اور کردار ميں۔[7] آپ کی ديگر صفات ميں شب زندہ داري ٬ جانماز اور مناجات پروردگار سے انس ہے، جيسا کہ بيان کيا گياہے : “آپ کا گندمي چہرہ عبادت اور شب بيداري کي وجہ سے زردي مائل ہے۔” آپ اہل جہاد وپيکار ہيں کسي بھي ظالم اور ستمگر کا لحاظ نہيں کريں گے اور ان سے جنگ کريں گے حتي کہ ظلم و ستم کو زمين کے کونے کونے سے جڑ سے اکھاڑ ديں گے۔ امام صادق علیہ السلام اس آيت “وقاتلوھم حتي لايکون فتنہ ويکون الدين کلہ و...”[8] کے بارے ميں ارشاد فرماتے ہيں اس آيت کي تاويل ابھي لباس عمل ميں نہيں آئي جب ہمارے قائم قيام کريں گے جو لوگ اس زمانے کو پائيں گے وہ اس آيت کي تاويل اور ( اسکا باطن معني) اپني آنکھوں سے ديکھيں گے۔[9] آ پ دشمنوں کے مقابلے ميں جہاد ٬ استقامت اور جنگ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لیے انتہائي مہربان اور شفيق ہونگے۔ امام رضا علیہ السلام کا ارشاد گرامي ہے کہ “آپ علیہ السلام لوگوں کي بابت ان کے ماں باپ سے بھي زيادہ شفيق اورمہربان ہيں۔[10] حضرت مہدي علیہ السلام خود شيعوں کو مخاطب کرتے ہوے فرماتے ہيں: “ہم ہر گز آپ (شيعوں) کو اپنے حال پر نہيں چھوڑتے اور آپ کي ياد ميں رہتےہيں اوراگر ايسا نہ ہوتا تو ہر طرف سے آفات و بليات آپ پر نازل ہوئيں اور دشمن تمہيں نابود کرديتا۔[11] آپ کي ايک اور صفت يہ ہے کہ آپ زاہد اور ساد ہ زندگي بسر کرتے ہيں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامي ہے “خدا کي قسم حضرت مہدي کا لباس معمولي اور ان کي غذا انتہائي سادہ ہے” [12] ايک اور روايت ميں امام صادق علیہ السلام نے حضرت مہدي علیہ السلام کے ديگر صفات اس انداز سے بيان فرمائے ہيں: وہ خدا کے مقابل سب سے زيادہ فروتن٬ وہ جس بات کا لوگوں کو حکم ديتے ہيں خوداس پر سب سے زيادہ عمل کرتے ہيں اور جس سے لوگوں کو منع کرتے ہيں خود دوسروں سے کہيں زيادہ اس سے اجتناب کرتے ہيں ۔ وہ لوگوں ميں دانا ترين ٬ با حکمت ترين ٬ پرہيزگار ترين ٬ بردبار ترين٬ سخي ترين٬ اورعابد ترين ہيں …..۔ آپ کي آنکھيں سوجاتي ہيں ليکن دل ہميشہ بيدار رہتاہے ۔فرشتگا الہي آپ سے تکلم کرتے ہيں آپ کے مبارک و جود کي خوشبو دنيا کے عطر سے کہيں زيادہ بہتر ہے۔[13] حضرت امام مہدي اور قرآن: قرآن کريم ميں کائنات کے مستقبل کے مسائل٬ آخر الزمان کے واقعات اور صالحان کو وارث حکومت بنانے کي بات کي گئي ہے ۔ مفسرين نے ايسي آيات کو احاديث پيغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اور اہلبيت عليھم السلام کي روشني ميں حضرت مہدي کے مقدس وجود اور آپ کے وفا اصحاب کے دوران حاکميت سے تفسير کياہے۔ قرآن کريم ميں ارشاد خداوندي ہے “خداوند متعال نے ان لوگوں کو جو تم ميں سے ايمان لائے اور اعمال صالح انجام ديتے رہے يہ وعدہ ديا ہے کہ وہ حتماً انہيں زمين پر خلافت عطا کرے گا۔ جس طرح کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو خليفہ بنايا اور ان کے دين کو پسند فرما کر استوار اور پائدار بنايا او ر انہيں خوف و ڈر کے بعد امن و امان عطا کرے گا…۔[14] خداوند متعال نے اس آيت ميں نيک اور صالح مؤمنين کو تين عظيم وعدے ديئے ہيں : (۱):۔ خلافت (۲):۔زمين پر حاکميت (۳): دين الہي کا پوري دنيا پر حاکم ہونا اور پوري دنيا کے مؤمنين کے لئے امن و امان کے قيام[15] خدا کا وعدہ غلط ہونا ناممکن ہے اوريہ وعدہ ابھي تک واقع نہيں ہوا اور يہ وعدہ ظہور کے وقت جيسا کہ احاديث ميں بھي ہے وقوع پذير ہوگا۔ حيات حضرت مہدي علیہ السلام کے مراحل: دسويں اور گيارہويں امام کے دورميں خلفائے بن عباس ميں ايک عجيب پريشاني پائي جاتي تھي اور يہ پريشاني ان کثير احاديث کي بنا پر تھي جن ميں امام حسن عسکري علیہ السلام کے فرزند کے ميلاد کي خوشخبري دي گئي تھي جو باطل حکومتوں کو نابود کرے گا۔ يہي وجہ تھي کہ امام مہدي علیہ السلام کا دوران حمل اور ولادت لوگوں کي نظروں سے پنہان تھي اور ولادت کے بعد بھي پانچ سال تک حضرت مہدي علیہ السلام اپنے والد ماجد کے ہمراہ رہے اور مخفيانہ زندگي کي اور سوائے امام عسکري علیہ السلام کے اصحاب اور خاص انصار کے کسي کو اس کا علم نہ تھا۔ امام حسن عسکري علیہ السلام کے دوش مبارک پر اس عرصہ ميں دو بنيادي ذمہ دارياں تھيں ايک خلفائے عباسي کے گزند سے اپنے فرزند ارجمند کي جان کا تحفظ اور دوسرا ان کے وجود کا اثبات اور شيعيان کے لئے ان کي امامت کا اعلان اس بنا پر آپ مناسب مواقع پر آنحضرت کا خاص اصحاب اور راز دار ساتھيوں سے تعارف کرواتے۔ گيارہويں امام کے چند خاص اصحاب سے منقول ہے کہ : ہم چاليس شيعہ افراد امام حسن عسکري علیہ السلام کي خدمت ميں حاضر ہوئے تو آنحضرت علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند کی زیارت کروایی اورفرمايا ميرے بعد یہ تمہارا امام ہے اور يہي ميراجانشين ہے اس کي پيروي کرو اور ا س سے الگ نہ ہونا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اورتمہارا دين تباہ ہوجائے گا۔[16] الف): غيبت صغري: امام حسن عسکري علیہ السلام کي شہادت جو ۲۶۰ ھ ق ميں ہوئي اسي سے غيبت صغري کا دور شروع ہوگيا جو ۳۲۹ ھ ق تک جاري رہا اس دورانيے نے شيعوں ميں غيبت کبري کے لئے آمادگي کے حوالے سے بہت بڑا کردار ادا کيا۔ غيبت صغري کے دوران اگرچہ امام لوگوں کي نظروں سے اوجھل تھے ليکن کچھ لوگ (نائبين خاص) آپ علیہ السلام سے ملتے تھے اورشيعہ حضرات ان افراد کے ذريعہ اپنے مسائل و مشکلات امام علیہ السلام کي خدمت ميں پہنچاتے تھے اور جواب وصول کرتے تھے اور بعض مواقع پر انہي نائبين کے ذريعہ امام کے ديدار سے بھي مشرف ہوتے تھے ان کے نام اور ان کے مشرف ہونے کے واقعات معتبر کتب ميں ذ کر کيے گئے ہيں۔ وہ خاص نائبين جو علماء اور شيعوں کے عظيم رہنما تھے ان کا دوران نيابت مندرجہ ذيل ہے: (۱)۔ ابوعمرو عثمان بن سعيد عمري جو پانچ سال تک آنحضرت علیہ السلام کے نائب رہے اور ۲۶۵ ھ ق ميں وفات پائي۔ (۲)۔ ابوجعفر محمد بن عثمان عمر جو نائب اول کے فرزند تھے ۳۰۵ ھ ق تک زندہ رہے اورچاليس سال تک امام علیہ السلام کے نائب رہے ۔ (۳)۔ابوالقاسم حسين بن روح نوبختي جو ۳۲۶ ھ ق تک زندہ رہے اور ۲۱ سال تک امام عصر علیہ السلام کے نائب رہے۔ (۴)۔ ابوالحسن علي بن محمد سمري جو ۳۲۹ ھ ق تک زندہ رہے اور تين سال تک امام عصر کے نائب خاص رہے ۔ ب) غيبت کبري: غبيت صغري کے بعد غيبت کبري کا دور شروع ہوا جو آج تک جاري ہے اور خد اوند متعال کے حکم سے ظہور حضرت تک جاري رہے گا۔ البتہ جس طرح دوران غيبت صغري ميں آنحضرت علیہ السلام کے شيعہ بغير سرپرست کے نہ رہے اور خاص نائبين کے ذريعہ آپ سے فيضياب ہوتے رہے اور اپني ذمہ دارياں ادا کرتے رہے اسي طرح غيبت کبري کے دور ميں بھي نائبين عام کے ذريعہ اپني ذمہ دارياں سے آشنا ہوتے رہے ہيں اور رہيں گے۔ نائب خاص اور عام ميں فرق يہ ہے کہ نيابت خاص ميں امام خاص افراد کو اپني نيابت کے لئے متعين کرتے ہيں اور انہيں ان کے نام و لقب وغيرہ سے متعارف کروايا جاتاہے اورہر ايک کو اس سے پہلے والے نائب کے ذريعہ لوگوں سے متعارف کرواياجاتاتھا ليکن نيابت عامہ ميں ايک قانون کلي کے ذريعہ نائبين کے تعارف کروايا گياہے اورجو شخص بھي اس قانون پر ہر لحاظ سے پورا اترے گا وہ امام کا نائب سمجھا جائے گا اور آپ علیہ السلام کي نيابت ميں مسلمانوں کے ديني اور دنيوي امور ميں ولي ہوگا اور يہ مقام خود حضرت امام مہدي علیہ السلام کے ذريعہ ہي صاحب شرائط علماء کو ديا گياہے ٬ شيخ طوسي٬ شيخ صدوق ٬ شيخ طبرسي٬ نے اسحاق بن عمار سےنقل کياہے کہ ہمارے آقا حضرت مہدي علیہ السلام (عصر غيبت ميں شيعوں کي ذامہ داريوں کے بارے ) فرماتے ہيں :“واما الحوادث الواقع فارجعوا فيھا الي رواۃ حديثنا فانھم حجتي عليکم و انا حجۃ اللہ عليھم”[17] “اور وہ حوادث اور واقعات جو واقع ہونگے تو ان ميں آپ ہماري احاديث کے راويوں کي طرف رجوع کريں۔ کيونکہ وہ تم پر ميري حجت ہيں اور ميں ان پر حجت خدا ہوں” راويان حديث سے مراد وہي فقہا اورمجتہدين ہيں جيسا کہ ايک اور روايت ميں آياہے :“واما من کان من الفقھا صائنا لنفسہ حافظًا لدينہ مخالفاً لہواہ مطيعاً لامر مولاہ فللعوام ان يقلّدوہ”[18] فقہاء ميں سے جو بھي انپے نفس کي تربيت کرچکا ہو دين کا محافظ اورھوي و ھوس کے مخالف اور اپنے مولي کے فرامين کے تابع ہو تو لوگوں پر ضروري ہے کہ وہ اس کي تقليد کريں (يعني اپني ذمہ داريوں کو اس سے پوچھيں) لہذا زمانہ غيبت کبري ميں امور مسلمين “مجتہدین عظام اور مراجع کرام” کے ہاتھ ميں ہيں اور ان کے نقطہ نظر سے ہي انجام پانے چاہيں۔ انتظار کي فضيت اورمنتظر کا مقام: ہم اس وقت آپ(عجل اللہ فرجہ الشریف) انتظار ميں ہيں اور يہ انتظار حضرت مہدي علیہ السلام کي آمد اور ان کي حکومت حق کا ہے روايات ميں انتظار فرج کے بارے ميں کئي احاديث وارد ہوئي ہيں اور حضرت مہدي علیہ السلام کے منتظرين کا بہت مرتبہ بيان کياگياہے پيغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا ارشاد گرامي ہے “ميري امت کي بہترين عبادت انتظار فرج ہے”۔ [19] اور امام صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمايا: ہمارے امر (حکومت) کا منتظر اس شخص کي مانند ہے جو راہ خدا ميں اپنے خون ميں غلطان ہے۔”[20] بےشک “انتظار ”وہ حقيقت ہے جس کے کچھ آثار اور لوازمات ہيں اور منتظر کي اپني کچھ ذمہ دارياں اوروظائف ہيں انتظار فرج کا مطلب ايک تابناک مستقبل کے لئے اميدوار ہونا ہے جو منتظر کي زندگي کو چار چاند اورنشاط بخشتاہے۔اور اسے مایوسی کی حالت اور نا اميدي سے خارج کرديتاہے۔ قائد انقلاب اسلامي آيۃ اللہ خامنہ اي نے فرمايا: موجود کيفيت پرراضي نہ ہونا اور نيک اعمال کي انجام دہي کے ذريعہ بھر پور جدو جہد کرنا انتظار کا ايک اہم پہلو ہے۔[21] اگر دنيا کو کسي خورشيد نے آکر نوراني کرنا ہے توآیا اس نوراني آفتاب کي آمد سے پہلے ہم تاريکي ميں بيٹھے رہیں؟ يا ضروري ہے کہ کوئي قدم اٹھائيں اور کوئي چراغ روشن کريں؟ لہذا جو شخص ظہور کا حقيقي منتظر ہے وہ ظہور امام کے لئے ضروري تياري بھي کرتاہے تاکہ ان کي آمد کا پيش خيمہ بن سکے۔ وہ خود سازي اخلاقي کي مدت اور معنويت و ايمان کي تقويت کے ذريعہ آنحضرت کي نصرت کے لئے خود کو تيار کرتاہے اور امر بالمعروف اور نہي المنکر کے ذريعہ ہميشہ ثقافتي انداز سے افراد کو تيار کرتا ہے۔ اوردوسروں کي تربيت کے لئے کوشاں رہتاہے۔ لہذا منتظر نہ تو اپني بابت بلا تکليف ہے اورنہ ہي اپنے ماحول کي بابت اپني ذمہ داريوں سے غافل ہے ايسا شخص ہميشہ اپنے امام کے اھداف کو آگے بڑھاتا ہے اور اپني توانائيوں کو اسي سمت خرچ کرتاہے لہذا يہ وہ فرد ہے جس کي حيثيت اورمقصد واضح ہے۔ البتہ اس کے بالمقابل دشمن ہميشہ اپنے اہداف تک رسائي کے لئے مایوسی اور نااميدي کي فضا قائم کرنا چاہتاہے اور اقوام کے درميان وہ ہر اس چيز سے بر سرپيکار ہوتاہے جو مؤمن کو اميد ديتي ہو۔ اورچونکہ امام مہدي علیہ السلام کا عقيدہ اور “انتظار فرج” اميدوار حرکت کے لئے بنيادي سبب ہے لہذا دشمن مختلف انداز سے اس کا مقابلہ کرتاہے کبھي وہ مہدويت کا انکار کرتاہے تو کبھي تحريف اورخرافات ايجاد کرتاہے تاکہ اس اہم اسلامي اورالہي عقيدہ کو خراب کرسکے۔ قائد انقلاب اسلامي آيۃ اللہ خامنہ اي اس بارے ميں فرماتے ہيں: “آج استکباري طاقتوں کے سياستدان اورمفکرین اس چيز کو اپنا اہم مقصد سمجھتے ہيں کہ اقوام عالم کے درميان مایوسی اور نا اميدي کي فضا ايجاد کريں اور ان کي کوشش ہے کہ اقوام کو يہ بات باور کروادیں کہ ان کي تہذيب٬ عقاید اور ان کي مذہبي و قومي حيثيت ان کے لئے کارساز نہيں ہے جبکہ اس کے مقابلے ميں انتظار فرج کا نظريہ آسودگي ٬ اميدواري اورتحرک کي دعوت ديتاہے۔”[22] اور آنحضرت کي حرکت جس سمت بھي ہوگي ان کے پيروکاروں کي بھي اس سمت حرکت ہوني چاہئے۔”[23] لہذا انتظار حضرت مہدي علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کانام ہے اور منتظر وہ ہے جو ہميشہ ظلم و ستم اور ناانصافي کے خلاف سربکف ہے۔ اور اپنے آپ کو بے راہ روي سے دور رکھے ٬ کيونکہ وہ ايسے امام٬ کا منتظر ہے کہ جس کے قيام کي وجہ سے پوري دنيا کو عدل و انصاف ملے گا اور وہ اس جہان کو ہر قسم کے ظلم و ستم سے پاک کرديں گے۔ -------------------------------------------------------------------------------- [1] ۔ صحيح بخاري ٬ ج۵ ٬ ص۱۳ ٬ کافي ج۱ ٬ص۳۰۳. [2] ۔ بحارالانوار٬ ج۵۲ ٬ ص۱۴۶ ٬ مفاتيح الجنان دعا در غيبت امام زمانہ . [3] ۔مفاتيح الجنان ٬ دعائے حضرت صاحب الزمان  [4] ۔ بحارالانوار٬ ج۵۱ ٬ ص۱۲. [5] ۔ معاني الاخبار٬ ص۶۵. [6] ۔منتخب الاثر باب ۴ تا باب ۲۵. [7] ۔کمال الدين و تمام النعمۃ ٬ ج۲٬ ص۱۱۸. [8] ۔“اور ان سے جنگ کرو حتي کہ فتنہ باقي نہ اور دين سب کا سب خدا کے لئے ہوجائے۔ سورہ انفال آيہ ۳۹. [9] ۔تفسير الميزان ٬ ج۹ ص۸۷ ذيل آيہ ۳۹ انفال. [10] ۔ الزام الناصب ٬ ص۱۰. [11] ۔ بحارالانوار٬ ج۵۲٬ ص۳۱۷. [12] ۔ايضاً ٬ ج۵۲ ٬ ص۳۱۷. [13] ۔الزام الناصب٬ ص۱۰. [14] ۔ سورہ نور٬ آيہ ۵۵. [15] ۔مجمع البيان ٬ ج۷٬ ص۱۵۲. [16] ۔کمال الدين و تمام النعمۃ (شيخ صدوق)ص۴۳۵ و بحارالانوار٬ ج۵۲ ٬ ص۲۵. [17] ۔طبرسي ٬ الاحتجاج ٬ ص۲۸. [18] ۔ايضاً ٬ ص۴۵۹. [19] ۔ بحارالانوار٬ ج۵۲. [20] ۔ کمال الدين و تمام النعمۃ٬ ج۲٬ ص۶۴۵. [21] ۔ روزنامہ جمہوري اسلامي ٬ ۱۲/۱۲/ ۱۳۶۹. [22] ۔ايضاً ٬ ۱/ ۱۲/ ۱۳۷۰. [23] ۔ ايضاً ٬ ۱۵/۱ ٬ ۱۳۶۷. http://alhassanain.com/