حقیقت ِتقوی نہج البلاغہ میں

لغت میں تقوی کے معانی تقوی کا لفظ مادہ وقی سے ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی حفاظت کرنا ،اس کا بچائو اور دیکھ بھال ۔اتقا کے معنی ہیں محفوظ رکھنا ،لیکن آج تک اردو میں اس کے معنی حفاظت ،بچائواور دیکھ بھال نہیں کیا گیا بلکہ جب یہ اسم کے طور پر استعمال ہوتاہے تو تقوی کا ترجمہ پرہیز کار ی اور متقی کا ترجمہ پرہیزکار کیاجاتاہے جیسے ھدی للمتقین یہ ہدایت ہے پرہیزکاروں کے لئے ۔ البتہ آج تک کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ تقوی کا ڈر اور خوف سے پرہیز اور اجتناب ہے لیکن چونکہ کسی چیزسے خوف کا نتیجہ اس چیز کا ترک اور اس سے اپنا بچائو لازم ملزوم ہیں ۔ راغب اصفہانی نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں لکھتے ہیں: وقایة کے معنی ہیں کسی چیز کو نقصان دینے والی باتوں سے محفوظ رکھنا اور تقوی کا مطلب ہے ان باتوں سے بچنا جن کا خوف ہو لھذا شریعت کی اصطلاح میں تقوی کے معنی ہیں نفس کو گناہ سے محفوظ رکھنا (مفردات راغب مادہ وقی) قرآن میں تقوی میں تقوی کا تذکرہ بہت زیادہ ہواہے اور اسی طرح نہج البلاغہ میں جن الفاظ کا زیادہ تکرار ہواہے ان میں سے ایک تقوی ہے بلکہ ایک پورا خطبہ جس کانام خطبہ متقین ہے جس میں متقین کی ایک سو صفات کاذکر ہے ۔ جب ہمام بن شریح نے امام المتقین حضرت علی سے باربار درخواست کی کہ متقین کے اوصاف بیان فرمائے اور اس کی سو سے زائد خصوصیات کا نقشہ کھینچا اور اس کے فکری ،اخلاقی اور عملی اوصاف پر جب بیان ختم ہوا تو مورخین نے لکھا ہے ہمام بن شریح نے ایک چیخ ماری اور وہی جاں بحق ہوگیا ۔ تقوی کے جو لغوی معانی ذکر کیے گئے ان سے کسی حد تک یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے تقوی کی حیثیت ایک روحانی طاقت کی مانند ہے کیونکہ تقوی کا ملکہ بڑی مشق کے بعدپیداہوتاہے لیکن پھر بھی تقوی از خو د ان باتوں سے مختلف چیز ہے ۔دراصل تقوی وہ بلند اور پاک روحانی طاقت ہے اس لیے اس بات کی کوشش کی جائے کہ تقوی کی حقیقی روح پیدا ہوجائے۔ عِبَادَ اللّٰہِ! أُوصِیْکُمْ بِتَقْوَیٰ اللّٰہِ فَاِنَّھَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ، وَالْمُوجِبَةُ عَلَیٰ اللّٰہِ حَقَّکُمْ، وَأَنْ تَسْتَعِیْنُوا عَلَیْھَا بِاللّٰہِ، وَتَسْتَعِیْنُوا بِھَا عَلَیٰ اللّٰہِ: فَاِنَّ التَّقْوَیٰ فِی الْیَوْمِ الْحِرْزُ وَالْجَنَّةُ، وَفِی غَدٍ الطَّرِیْقُ اِلَیٰ الْجَنَّةِ۔ مَسْلَکُھَا وَاضِح، وَسَالِکُھَا رَابِح، وَمُسْتَوْدَعُھَا حَافِظ۔ لَمْ تَبْرَحْ عَارِضَةً نَفْسَھَا عَلَیٰ الْأُمَمِ الْمَاضِیْنَ مِنْکُمْ وَالْغَابِرِیْنَ لِحَاجَتِھِمْ اِلَیْھَا غَدًا، اِذاَ أَعَادَ اللّٰہُ مَا اَبْدَیٰ، وَأَخَذَ مَا أَعْطَیٰ وَسَالَ عَمَّا اَسْدَیٰ، فَمَا اَقَلَّ مَنْ قَبِلَھَا وَحَمَلَھَا حَقَّ حَمْلِھَا! أُوْلٰئِکَ الْأَقَّلُونَ عَدَدًا، وَھُمْ اَھْلُ صِفَةِ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ اِذْ یَقُولُ: (وَقَلِیْل مِنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ)(خطبہ ١٠) بندگان خدا! میںتمہیں تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس سے تمہارا ١حق پروردگار پیدا ہوتا ہے۔اس کے لئے الہ سے مدد مانگو اور اس کے ذریعہ اسی سے مدد طلب کرو کہ یہ تقویٰ آج دنیا میں سپر اورحفاظت کاذریعہ اور کل جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے۔اس کا مسلک واضح اور اس کا راہر و فائدہ حاصل کرنے والا ہے۔ اس کا امانت دار حفاظت کرنے والا ہے۔یہ تقویٰ اپنے کو ان پر بھی پیش کرتا رہا ے جو گزرگئے اور ان پر بھی پیش کر رہا ہے جو باقی رہ گئے ہیں کہ سب کو کل اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ جب پروردگار اپنی مخلوقات کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو کچھ عطا کیا ہے اسے واپس لیلے گا اور جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا سوال کرے گا۔کس قدر کم ہیں وہ افراد جنہوں نے اس کو قبول کیا ہے اور اس کا واقعی حق اداکیا ہے۔یہ لوگ عدد میں بہت کم ہیں لیکن پروردگار کی اس توصیف کے حقدار ہیں کہ'' میرے شکر گزر بندے بہت کم ہیں ''۔ مَنْ رَفَعَتْہُ التَّقْوَیٰ ، وَلاَ تَرْفَعُوا۔جسے تقویٰ بلند کردے اسے پست مت بنائو اور جسے دنیا اونچا بنادے اسے بلند مت سمجھو۔ فَاِنَّ تَقْوَیٰ اللّٰہِ مِفْتَاحُ سَدَادٍ، وَذَخِیْرَةُ مَعَادٍ، وَعِتْق مِنْ کُلَّ مَلَکَةٍ، وَنَجَاة مِنْ کُلَّ ھَلَکَةٍ بِھَا یَنْجَحَ الطَّالِبُ، وَیَنْجُو الْھَارِبُ،وَتُنَالُ الرَّغَائِبُ۔یقینا تقویٰ الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا ذخیرہ ہے۔ہر گرفتاری سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔اس کے وسیلہ سے طلب گار کامیاب ہوتے ہیں۔عذاب سے فرار کرنے والے نجات پاتے ہیں اوربہترین مطالب حاصل ہوتے ہیں۔(خطبہ ٢٣٠) نہج البلاغہ میں تقوی کی حقیقت مذہبی روایات خصوصا نہج البلاغہ میں تقوی پر بہت زور دیاگیاہے ۔ہر جگہ تقوی اس مقدس ملکہ کے معنی میں استعمال ہواہے جوایسی روحانی طاقت پیداکرتاہے جس سے نفس امارہ اور سرکش نفسانی خواہشات خود بخود مغلوب ہوجاتی ہیں ۔ خطبہ نمبر ١٢ میں امام المتقین حضرت علی فرماتے ہیں: توقی اللہ کے دوستوں کو برائیوں سے بچاتاہے اور ان کے دل میں خوف خدا پیداکرتاہے یہاںتک کہ وہ صائم النہار اور قائم اللیل بن جاتاہے ۔اس جملہ کی وضاحت میں تقوی کو ایک روحانی طاقت کہاگیاہے جو گناہوں سے محفوظ رکھتاہے اور خوف خدا کو تقوی کا ثمرہ کہاگیاہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ خود تقوی کے معنی خوف نہیں بلکہ تقوی کا ایک اثر یہ ہے کہ وہ دل میں خوف ِخدا پیداکرتاہے اور نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ١٦ میں امام فرماتے ہیں میں جو کچھ کہتاہوں پوری ذمہ داری سے کہتاہوں اور اس کی صحت کاضامن ہوں ۔اگر گذشتہ واقعات سے عبرت کسی آدمی کے لیے واقعات کاآئینہ بن سکے تو تقوی اسے مشتبہ کاموں کے ارتکاب سے روکے گا۔ اسی خطبہ میں ایک جگہ یہ فرماتے ہیں: یاد رکھو !غلط روی کی مثال سر کش گھوڑوں کی سی ہے جو لگام کو توڑ کر سوار کو بے بس کردیں اور بالآخر اسے آتش ِجہنم میں گرادیں اور تقوی کی مثال ایسے گھوڑوں کی ہے جو رام ہوں اور سوار کے اشارہ پر چلیں اور اسے باغ جنت تک پہنچادیں۔ ہاں جوشخص ہواوہوس ،شہرت طلبی ،حرس ولالچ اور جاہ پسندی کے سر گھوڑے پر سوار ہو اور ان ہی باتوں کے درپے ہو،زمام اختیار اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے وہ ان ہی باتوں کا ہوکر رہ جاتاہے اور دیوانہ اس کے پیچھے دوڑتاہے ،مصلحت بینی اور مآل اندیشی سے اسے کوئی واسطہ نہیں رہتا لیکن جو توقی پر بھروسہ کرتاہے اور اپنے نفس کو قابو میں رکھتا ہے اسے اپنے آپ پر پورا اختیار رہتاہے اور وہ اپنے نفس کو جدھر چاہے موڑسکتاہے ۔ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ١٩ میں امام نے فرمایا: فان التقوی فی الیوم الحرز والجنة فی غد الطریق الی الجنة۔ انسان کے لیے آج تقوی بمنزلہ ایک حصا ر اور ایک ڈھال کے ہے اور کل جنت کا راستہ ہوگا اور خطبہ نمبر ٥٥ میں تقوی کو بلند ومستحکم پناہ سے تعبیر کیاگیاہے ۔ پس متقی واقعی وہی کہلائے گا جوتقوی کے ہتیار سے اپنے نفس پر قابو پاسکتاہو اور اسے رام کرسکتاہو نفس اسکے تابع نہ یہ کہ وہ نفس کا اسیر ہو۔ تقوی کا اثر تقوی کا اثر جو انسان کی اخروی زندگی پر مترتب ہوتاہے اس سے قطع نظر انسان کی دنیوی زندگی میں تقوی بڑی قدر ومنزلت ہے حضرت علی نے تقوی کے آثار اور اس کی طرف ترغیب دلائی اور فرمایا: عتق من کل ملکة نجاة من کل ھلکة۔ یعنی یہ آزادی ہے ہر قسم کی غلامی سے اور ہر قسم کی ہلاکت سے نجات ہے اور پھر فرمایا: دواء داء قلوبکم ...وشفاء مرض اجسادکم وصلاح فساد صدورکم وطھور دنس انفسکم ۔خطبہ ١٩٨) تقوی تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے دواہے اور تمہارے جسمانی امراض کے لیے شفاہے ،تمہارے سنیوں کی خرابی کی اصلاھ کرتاہے اور تمہارے نفسوں کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے ۔تقوی انسان کو براہ راست روحانی اور اخلاقی آزادی عطاکرتاہے اور ہواوہوس کی غلامی سے نجات دیتاہے ،حرص ،حسد اور غنم وغصہ کی زنجیروں سے اس کی گردن کو چھڑاتاہے اور معاشرتی غلامی سے روحانی غلامی کی طرف منتقل کرتاہے جو آدمی دولت وعذت کا غلام ہے معاشرتی اعتبار سے بھی آزادانہ زندگی نہیں گزار سکتاہے اس لیئے امام المتقین حضرت علی نے فرمایا: عقت من کل ملکة،تقوی نہ صرف یہ کہ کسی قسم کی پابندی نہیں بلکہ عین حریت اور آزادی ہے کہ جو اسلام کے دائرے میں اسے لاکر کھڑا کرتی ہے ۔ تقوی کی حفاظت امام المتقین امیر المومنین فرماتے ہیں: اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ فانھا حق اللہ علیکم والموجبة علی اللہ حقکم وان تستعینوا علیھا با اللہ وتستعینوا بھا علی اللہ۔خطبہ نمبر ١٩١ ) اے اللہ کے بندو! میں تمہیں تقوی اختیار کرنے کی نصیحت کرتاہوں کیونکہ تقوی تمہارے اوپر اللہ کا حق ہے اور اس کی وجہ سے تمہارا بھی اللہ پر حق ہے تم اللہ سے مدد طلب کرو کہ وہ تمہیں تقوی کی توفیق دے اور تقوی کے ذریعہ اللہ تک پہنچنے میں مدد حاصل کرو ۔ دین کی بنیاد تقوی پر ہے حقیقتا تقوی کی بنیاد محض دین پر ہے اور دین کی بنیاد پر مستحکم اور اصولی تقوی وجود میں آتاہے ۔ایمان بااللہ کی مضبوط بنیاد کے علاوہ تقوی کے لئے اور کوئی مستحکم اور قابل اعتماد بنیاد موجود ہی نہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: کیا وہ شخص بہتر ہے کہ جس نے اپنی زندگی کی بنیاد تقوی اور رضائے الہی پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی بنیاد کھوکھلی اور غیر مستحکم کگر پر اٹھائی اور وہ اسے لے کر سیدھی جہنم میں جاگری ۔ایسے ظالم لوگوں کو اللہ تعالی کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا (سورہ توبہ آیت ١٠٩) اہلبیت علیھم السلام نے تقوی کو حصار ،قلعہ اور اسی طرح کی چیزوں سے تشبیہ دی ہے اور تقوی بھی روح کے لئے ایساہی ہے جیسے زندگی بسر کرنے کے لئے گھر اور بدن کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے قرآن مجید میں چند کپڑوں کا نام لے کر اللہ تعالی فرماتاہے: ولباس التقوی ذلک خیر ۔(سورہ اعراف آیت ٢٦) یعنی توقی جو روح کا لباس ہے سب سے بہتر ہے ۔حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں: الا فصونوا ھا وتصونواَ۔(خطبہ ١٩١)یعنی تقوی کی حفاظت کرو او ر اس کے زریعہ سے خود اپنا تحفظ کرو ۔حضرت امام المتقین علی اس سے بڑھ کر تقوی کی تعبیر یوں فرماتے ہیں: تقوی راہ راست کی کنجی اور آخرت کی پونجی ہے ۔اس سے ہرقسم کی غلامی سے آزادی اور ہر مصیبت سے نجات ملتی ہے ۔تقوی کے ذریعہ آدمی اپنا مقصد حاصل کرتاہے اور دشمن سے چھٹکارا پاتاہے اور اس کے ذریعہ اس کی خواہشیں پوری ہوتی ہیں(خطبہ ٢٢٨) شہید مطہری اپنی کتاب دہ گفتار میں فرماتے ہیں: موجودہ دور میں ہم بے شمار معاشرتی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن کے متعلق لوگوں میں واویلا مچاہواہے ۔لوگ پوچھتے ہیں کہ طلاق کے واقعات کیوں روز بروز بڑھ رہے ہیں ؟قتل وچوری کے جرائم میں اضافہ کیوں ہورہاہے؟ ملاوٹ،سود اور دھوکہ بازی کیوں عام ہے؟ بے حجابی وفحاشی کیوں بڑھ رہی ہے ؟ بلاخوف وتردید یہ کہا جاسکتاہے کہ ان خرابیوں کا ایک ہی بڑا سبب ہے وہ ہے ایمان وتقوی کی کمزوری اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ لوگ خود ہمیشہ یہ سوال اٹھاتے ہیں ،ا ن مسائل پر لکھتے ہیں لیکن چونکہ ایمان وتقوی کے عناصر سے محروم ہیں اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ ان مسائل کے اصل اسباب کی طرف لوگوں کو متوجہ نہ ہونے دیں اور ان میں اخلاقی انتشار پیدا کرتے رہیں ۔نعوذ باللہ اگر ایمان وتقوی کی حقیقت چھپی رہے تو یہ ممکن ہے کل کچھ لوگ یہ بھی پوچھنے لگیں گے کہ ہم چوری کیوں نہ کریں ،دھوکہ کیوں نہ دیں ملاوٹ کیوں نہ کریں....؟(دہ گفتار ص ٥٤) متقین کی صفات  خطبہ ہمام سے کچھ فرازیہاں پر ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوںکہ جس میں ایک سو صفات ِمتقی کو امام المتقین حضرت علی نے ہمام سے بیان فرمایا: کہاجاتاہے امیر المومنین کے ایک عابد و زاہد صحابی جس کانام ہمام تھا ایک دن حضرت سے عرض کرنے لگے کہ حضور مجھ سے متقین کے صفات کچھ اس طرح بیان فرمائیں کہ گویا میں ان کو دیکھ رہاہوں ۔ آپ نے جواب سے گریز کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمام اللہ سے ڈرد اور نیک عمل کرد کہ اللہ تقوی اور حسن عمل والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ہمام اس مختصر بیان سے مطمئن نہ ہوئے تو حضرت نے حمد و ثنائے پروردگارا اور صلوات وسلام کے بعد ارشاد فرمایا : پروردگا ر نے تمام مخلوقات کو اس عالم میں پیدا کیاہے کہ وہ ان کی اطاعت سے مستغنی اور ان کی نافرمانی سے محفوظ تھا ۔ لانہ لا تضرہ معصیة من عصاہ ، ولا تنفعہ طاعة من اطاعہ . فقسم بینھم معایشھم ، ووضھم من الدنیا مواضعھم نہ اسے کسی نافرن کی معصیت نقصان پہونچا سکتی تھی اور نہ کسی اطاعت گذار کی اطاعت فائدہ دے سکتی تھی ۔ اس نے زندگی کا سرو سامان اوردنیا میں ایک منزل قراردے دی ۔ فالمتقون فیھا ھم اھل الفضائل : منطقھم الصواب ، وملبسھم الاقتصاد ، ومشیھم التواضع .غضوا ابصارھم اس دنیا میں متقی افراد وہ ہیں جوصاحبان فضائل وکمالات ہوتے ہیں کہ ان کی گفتگو حق و صواب ، ان کا لباس معتدل ، ان کی رفتار متواضع ہوتی ہے ۔ عما حرم اللہ علیھم ، ووقفوا اسماعھم علی العلم النافع لھم . نزلت انفسھم منھم فی البلاء کالتی نزلت فی الرخاء . جن چیزوں کو پروردگا نے حرام قراردے دیا ہے ان سے نظروں کو نیچار کھتے ہیں اور اپنے کانوں کو ان کے نفوس بلاء و آزمائش میں ایسے ہی رہتے ہیں جیسے راحت وآرام میں ۔ ولو لا الاجل الذی کتب اللہ علیھم لم تستقر ارواحھم فی اجسادھم طرفة عین شوقا الی الثواب ، وخوفا من العقاب ۔ اگرپروردگار نے ہر شخص کی حیات کی مدت مقررنہ کردی ہوتی تو ان کی روحیں ان کے جسم میں پلک جھپکنے کے برابر بھی ٹھہر نہیں سکتی تھیں کہ انھیں ثواب کا شوق ہے اور عذاب کا خوف ۔ عظم الخالق فی انفسھم فصغر مادونہ فی اعینھم فھم والجنة کمن قد رآھا . فھم فیھا منعمّون ، وھم والنار کمن قد رآھا ، فھم فیھا معذبون . خالق ان کی نگاہ میں اسقدر عظیم ہے کہ ساری دنیا نگاہوں سے گرگئی ہے ۔ جنت ان کی نگاہ کے سامنے اس طرح ہے کہ نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ، ہوں اور جہنم کو اس طرح دیکھ رہے جیسے اس کے عذاب کو محسوس کررہے ہوں ۔ قلوبھم محزونة ، وشرورھم مامونة ، واجسادھم نحیفة ، وحاجاتھم خفیفة ، وانفسھم عفیفة۔ ان کے دل نیکیوں کے خزانے ہیں اور ان سے شرکا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ان کے جسم نحیف اور لاغر اور ان کی ضروریات نہایت درجہ مختصر اور ان کے نفوس بھی طیب و طاہر ہیں ۔ صبروا ایاما قصیرة اعقبتھم راحة طوایلة . تجارة مربحة یسرھالھم ربھم۔ انھوں نے دنیا میں چنددن تکلیف اٹھا کرابدی راحت کا انتظام کرلیااور ایسی فائدہ بخش تجارت کی ہے جس کا انتطام پروردگار نے کردیاتھا۔ ارادتھم الدنیا فلم یریدوھا ، واسرتھم ففدوا انفسھم منھا . دنیا نے انھیں بہت چاہا لیکن انھوں نے اسے نہیں چاہا اور اس نے انھیں بہت گرفتار کرنا چاہا لیکن انھوں نے فدیہ دے کراپنے کو چھڑالیا۔ اما الیل فصافون اقدامھم ، تالین لاجزاء القرآن یرتلونھا ترتیلا ؛یحزنون بہ انفھم ، ویستثیرون بہ دواء دائھم ؛ راتوں کے وقت مصلی پر کھڑے رہتے ہیں ۔ خوش الحانی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے رہتے ہیں ۔ اپنے نفس کو محزون رکھتے ہیں اور اسی طرح اپنی بیماری دل کا علاج کرتے ہیں ۔ فاذا مروا بآیة فیھا تشویق رکنوا الیھا طمعا ، وتطلعت نفوسھم الیھا شوقا ، وظنوا انھا نصب اعینھم . واذا مروا بآیة فیھا تخویف اصغوا الیھا مسامع قلوبھم ، وظنوا ان زفیر جھنم و شھیقھا فی اصول آذانھم جب کسی آیت ترغیب سے گذرتے ہیں تو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور جب کسی آیت ترہیب تخویف سے گذرتے ہیں تو دل کے کانون کو اس کی طرف یوں مصروف کردیتے ہیں جیسے جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار مسلسل ان کے کانوں تک پہونچ رہی ہو ۔ فھم حانون علی اوساطھم ، مفترشون لجباھھم واکفھم ورکبھم ، واطراف اقدامھم ، یطلبون الی اللہ تعالی فی فکاک رقابھم ۔ یہ رکوع میںکمر خمیدہ اور سجدہ میں پیشانی ۔ ہتھیلی ۔ انگلیوں اور گھٹنوں کو فر ش خاک کئے رہتے ہیں پروردگار سے ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ ان کی گردنوں کو آ