نہج البلاغہ کی حیرت انگیز جاذبیت

پیروان اہل سنت علماء شیعہ اورتمام علماء و دانشمند اور مسیحی علماء و دانشمند حضرات اور وہ تمام افراد جو نہج البلاغہ سے وابستگی اور دلچسپی رکھتے ہیں اور اسکا توجہ سے مطالعہ کرتے ہیں سب کے سب نہج البلاغہ کی جاذبیت کے قائل اور اس سے انتہائی متاثر ہوئے ہیں۔ اور اس کشش اور عظیم جاذبیت نے جو امام علی کے خطبات و خطوط اور کلمات قصار میں پائی جاتی ہے، بعض دانشمندوں کو نہج البلاغہ کی شرح اور امام علی کی شخصیت پر مقالے لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ہم ذیل میں وہ اہم ترین اسباب جو اس جاذبیت کے بارے میں ہیں پیش کر رہے ہیں: (۱)اخلاقی و عرفانی جاذبیت کو اگر نہج البلاغہ میں دیکھا جائے تو معرفت کی پیاسی روح کی سیرابی کے لئے آب حیات ہے۔ بہت سارے خطبات جیسے پہلا خطبہ اور خطبہ نمبر ۹۱ اور اسی طرح خطبہ اشباح میں جس طرح سے معرفت خداوندی کے سلسلہ میں مولا نے گفتگو فرمائی ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ گفتگو اتنی بلندی پر ہے کہ پڑھنے والا یہ احساس کرتا ہے فرشتوں کے پروں پر سوار ہو کر اس اعلی منزل پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں تک انسان کی رسائی ممکن نہیں ہے مولا نے خالق کائنات کا ایسا تعارف کرا یا ہے جس سے انسان چشم دل سے خدا کو ہر جگہ آسمانوں میں زمین میں اور آفاق میں اور خود اپنے نفس میں مشاہدہ کر لیتا ہے۔ (۲)نہج البلاغہ میں تفریباً ہر جگہ ہر طبقہ کے محروم اور مظلوم افراد سے ہمدردی کی تاکید کی گئی ہے۔ اجتماعی عدالت کو ہر موقع پر رائج کرنے اور ہر طرح کے ظلم اور جانبداری سے بچنے اور بیت المال کی عادلانہ تقسیم اور اپنوں کو بے جا برتری نہ دینے کی تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ خطبہ نمبر ۲۲۴ میں پڑھا جا سکتا ہے کہ جناب عقیل جو آپ کے بھائی تھے کہ ان سے حق سے تین کلو گہوں زیادہ مانگنے پر آپ نے گرم لوہا قریب کر کے یہ احساس دلایا کہ آخرت میں اسکا انجام کیا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۲۲۴، ص ۳۶۰ چاپ دار الثقلین، قم) اور امیر المومنین علی نے لوگوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ جہاں کہیں نعمتوں کا انبار جمع ہو تو وہاں لوگوں کے حقوق کی پامالی ضرور نظر آئے گی۔مَا رَاَیْتُ نِعْمَةً مَوْفُوْرَةً اِلاَّ وَ بَجَنْبِہَا حَقًّا مُضِیْعًا(نہج البلاغہ) (۳)نہج البلاغہ ہر مقام پر انسان کو ہوا وہوس کی بدبختی کی زنجیروں میں جکڑے رہنے سے آزادی کی رہنمائی کرتی ہے۔ (۴)نہج البلاغہ میں علی کا بیان راہ حق پر چلنے والوں کے دلوں میں نفوذ کر جاتا ہے اور نہ مٹنے والے اثرات چھوڑتا ہے جیسے کہ جناب (ہمام) وہ نیک نفس انسان جنہوں نے حضرت سے متقیوں کے صفات بیان کرنے کی گذارش کی پہلے تو آپ نے منع فرمایا مگر اصرار کیا تو امام نے ایک عجیب و غریب اور بے مثال خطبہ بیان فرمایا کہ جس میں متقین کی ایک سو سے زیادہ صفات بیان فرمائیں ہیں جناب ہمام نے جب یہ خطبہ سنا تو ایک چیخ مار کر زمین پر گرے اور اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۹۳ (خطبہ متقین) ص ۳۱۳-۳۱۷ چاپ دار الثقلین، قم۔وعظ و نصیحت میں اس قدر تاثیر کہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے ولی خدا و وصی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے علاوہ کسی کے یہاں ایسا نہیں دیکھا گیا۔اس موقع پر امام علی نے فرمایا:بخدا (ہمام) کے بارے میں مجھے یہی خوف تھا۔اس کے بعد فرمایا:اثر رکھنے والا موعظہ کیا ان افراد کے لئے جو اسکے اہل ہوں ایسا ہی اثر چھوڑتا ہے؟سید رضی جو عرب کے ادیبوں میں ایک مشہور ادیب شمار کئے جاتے ہیں بعض خطبوں کو نقل کرنے کے بعد بعض ایسے (نوٹ) لگائے ہیں کہ جس سے اندازہ ہوا کہ لوگ ان خطبوں کے سننے کے بعد کس قدر متاثر اور حیرت زدہ ہوتے ہیں یا وہ خود اپنے کو کتنا زیادہ ان طاقتور امواج سے متاثر پاتے ہیں منجملہ :الف    ذیل میں خطبہ نمبر ۸۳ (خطبہ نمبر ۳) میں نوٹ لگایا ہے:روایت میں ہے کہ جب علی یہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو لوگوں کے بدن لرز رہے تھے۔ آنکھیں اشکبار تھیں اور دل مضطرب و بے چین تھے۔ نہج البلاغہ خطبہ ۸۳، ص ۹۹-۱۱۱ چاپ دار الثقلین، قم۔ (ب) خطبہ نمبر ۲۸ کے ذیل میں فرماتے ہیں:اگر کوئی کلام لوگوں کو زہد اور آخرت کے اعمال کی طرف متوجہ کر سکتا ہے تو وہ یہی کلام ہو سکتا ہے جو انسان کی لمبی لمبی آرزؤں سے اس کی وابستگی کو موڑ دے اور بیداری و آگاہی کا جام پلا کر دل میں برے اعمال سے نفرت کرنے کا مادہ پیدا کردے۔ابن ابی الحدید معتزلی خطبہٴ ۱۰۹ کی شرح میں لکھتے ہیں:اس خطبہ کی جاذبیت، کشش اور اثر اس قدر ہے کہ اگر اسے کسی بے دین یا ملحد کے سامنے پیش کیا جائے جو اپنی پوری طاقت ارادہ سے قیامت کا انکار کر رہا ہے تو وہ اپنے ارادہ سے پلٹ جائے گا اور اس کی ساری قوت و طاقت جاتی رہے گی۔ دل میں وحشت پیدا ہو جائے گی اور اسکی منفی سوچ و فکر اور عقیدہ میں ایک تزلزل پیدا ہو جائیگا۔ خداوند عالم صاحب کلام کو اسلام کی بہترین خدمت کی وہ جزائے خیر عطا کرے کہ وہ اپنے اولیا کے لئے جزاء کے طور سے دیتا رہتا ہے۔ اسلام کے لئے ان کی خدمت کس قدر عظیم اور منفرد رہی ہے کبھی ہاتھوں سے تو کبھی شمشیر سے کبھی زبان و بیان کے ذریعہ تو کبھی فکر و سوچ کے ذریعہ ہمہ وقت نصرت کیلئے تیار رہتے تھے۔ بیشک تمام مجاہدین کے سردار، کلام میں سب سے زیادہ نفوذ رکھنے والے، فقہاء و مفسرین کے امام، عدل و توحید پرستوں کے راہنما انہیں کی ذات مبارک ہے۔(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۳۰۲)وہ حجت خدا ہیں جو اس طرح کفر سے آلودہ قلب و ذہن کو آیات الٰہیہ اور برہان ربانیہ نیز انسانی فطرت کو بیدار کر کے پاک و صاف کرتے ہیں۔اور ہم اسی بات سے یقین کر لیتے ہیں کیونکہ خداوند عالم اپنی حجت کو تمام کر تا ہے اور اسلام اپنے اس حجتِ حق کی ولایت اور امامت کے ذریعہ محفوظ رہے۔(اقتباس از کتاب آشنائی با نہج البلاغہ از سید جعفر حسینی)