شيعي تاريخ ميں تحول وتغير
شيعي تاريخ ميں تحول وتغير
0 Vote
92 View
شيعي تاريخ ميں تحول وتغير
(1)شيعہ خلفا کے زمانے ميں
شيعہ پہلے تينوں خليفہ ،ابوبکر،عمر، عثمان کے زمانے ميں حسب ذيل خصوصيات کے حامل تھے
(الف)شيعہ ان تين خلفا کے دور ميں سقيفہ کے ابتدائي دنوں کے علاوہ بہت زيادہ فشار ميں نہيں تھے اگر چہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے شيعہ، شيعہ ہونے کي وجہ سے اہم منصبوں سے محروم تھے? (ابو بکر نے پہلي بارخالد بن سعيد کو شام کي جنگ کا سردار بنايا عمر نے ان سے کہا: کيا آپ اس بات کو بھول گئے ہيںکہ خالد نے بيعت نہيںکي ہے اور بني ہاشم کے ساتھ اتحاد کرليا ہے؟ اس وجہ سے ابو بکر نے خالد سے سرداري اور فرمان روائي کو واپس لے ليا اور خالد کي جگہ کسي اور کو معين کرديا،ابن واضح ،احمد بن ابي يعقوب تاريخ يعقوبي،منشورات الشريف الرضي،قم، 1414ہجري، ج2، ص133 )
(ب)سقيفہ کے بعد مسلمانوں کي قيادت کا مسئلہ انتشار کا شکار ہوگيا اور مسلمان دو اہم گروہوں ميں تقسيم ہوگئے، اہل سنت علمي فقہي و اعتقادي مشکلات ميں خلفاء زمانہ کي طرف اور شيعہ حضرت علي کي طرف رجوع کرتے تھے، شيعہ اپنے علمي اور فقہي مشکلات بلکہ بطورکلي معارف اسلامي سے متعلق امور ميںحضرت علي کي شہادت کے بعدائمہ طاہرين کي طرف رجوع کرتے رہے اورشيعہ و اہل سنت کے درميان فقہ و حديث و تفسير کلام وغير ہ ميں اختلاف کي وجہ يہي ہے کہ ان دونوں گروہوں کي ديني درسگاہ اورپناہ گاہ ايک دوسرے سے عليحدہ تھي
(ج) اسي طرح حضرت علي نے قانوني طور پر خلفاء وقت کے ساتھ فوجي اور سياسي شعبہ ميں عالم اسلام کي حفا ظت اور مصلحت کي خاطر کافي حد تک طرفداري وحمايت کي (1)چند بزرگ شيعہ صحابہ نے بھي امام کي موافقت سے فوجي او رسياسي منصوبوں کو قبول کرليا تھا مثلاً حضرت علي کے چچازاد بھائي فضل بن عباس جو سقيفہ ميں حضرت علي کے مدافع تھے شام ميں فوجي منصب پر فائز تھے اور 18 ھ ميں فلسطين ميںدنيا سے رخصت ہوگئے?(جيسے حضرت علي کي رائے ابو بکر کے لئے ،فوج کو شام کي طرف بھيجنے کے بارے ميں، ابن واضح ، احمد بن ابي يعقوب ،تاريخ يعقوبي،منشورات الشريف الرضي،قم، 1414ہجري، ج2، ص133 ،اور حضرت علي کا عمر کو رہنمائي کرناکہ جب انہوں نے روميوں سے جنگ کرنے کے لئے جانے پر آپ سے مشورہ کيا تو آپ نے فرمايا : اگرآپ خود ان دشمنوں کے مقابلے ميں جائيںگے تو مغلوب ہوجائيں گے اورمسلمانوں کے لئے کسي دور دراز شہر ميں بھي کوئي پناہ گاہ نہيں ہوگي نيز آپ کے بعد کوئي نہيںہے کہ جس کي طرف لوگ رجوع کريں ، لہ?ذا جنگ کے ماہر اور بہادرافراد کو ان کي طرف بھيجيں اور ايسے لوگوں کو ساتھ انہيں بھيجيںکہ جو سختي کو برداشت کر سکيں اور نصيحت کو قبول کريں، اگر خدا وند متعال نے کامياب و کامران کر ديا تو يہ وہي ہے کہ جس کي آپ آرزو رکھتے ہيں اور اگر کوئي دوسرا واقعہ پيش آگيا توآپ مسلمانوں کے مددگار اور پناہ دينے والے ہوںگے ( نہج البلاغہ ، ترجمہ فيض الاسلام ، خطبہ : 134) ونيز جب عمر نے بنفس نفيس ايرانيوں سے جنگ کرنے کے بارے ميںآپ سے پوچھا …
(2)احمد بن ابي يعقوب ، تاريخ يعقوبي ، منشورات الشريف الرضي، قم 1414ھ ج2ص151)
حذيفہ ا ور سلمان ترتيب وار مدائن کے حاکم تھے،عمار ياسر ،سعد بن ابي وقاص کے بعد خليفہ دوم کي طرف سے کوفہ کے حاکم ہوئے،ہاشم مرقال جو حضرت علي کے مخلص شيعوں ميں تھے اور جنگ صفين ميں علي کے لشکرميں شہيد ہوئے ، تينوں خلفا کے زمانے ميںبڑے افسر تھے 22 ھميںآذر بائيجان کو فتح کيا ،عثمان بن حنيف اور حذيفہ بن يمان عمر کي طرف سے عراق کي زمين کي پيمائش پر مامور تھے?عبداللہ بن بديل بن ورقہ خزاعي،شيعيان علي ميں سے تھے جن کا بيٹا جنگ جمل ميں سب سے پہلے شہيد ہوا،يہ فوجي افسروںميں سے تھا اور اس نے اصفہان اور ہمدان کو فتح کياتھا
اسي طرح سے دوسرے افراد بھي جيسے جرير بن عبد اللہ بجلي قرظہ بن کعبانصاري يہ لوگ امير المومنين کي خلافت ميں اہم افراد شمار کئے جاتے تھے جب کہ تينوں خلفا کے زمانے ميں ملکي اور لشکري عہدوں پر فائز تھے جرير نے کوفہ کا علاقہ فتح کيا اور زمانہ? عثمان ميں ہمدان کے حاکم تھے،قرظہ بن کعب انصاري نے بھي عمر بن خطاب کے زمانے ميںشہر ري کو فتح کيا
اظہار تشيّع ( اميرالمومنين کي خلافت ميں)
اگر چہ تشيّع کا سابقہ پيغمبر کے زمانہ سے ہے، ليکن قتل عثمان کے بعد خلافت علي کے دورميں علي الاعلان اظہار ہو ااس زمانہ ميں صف بندي ہوئي اور پيروان علي نے آشکار ا اپنے شيعہ ہونے کا اعلان کيا ،شيخ مفيد نقل کرتے ہيں کہ ايک جماعت حضرت علي کے پاس آئي اور کہا:''اے امير المومنين! ہم آپ کے شيعہ ہيں ،حضرت نے ان کو غور سے ديکھا اور فرمايا :آخرميں تمہارے اندر شيعہ ہونے کي علامت کيوںنہيں ديکھ رہا ہوں؟اس جماعت نے کہا:اے اميرالمومنين شيعوںکي کياعلامت ہوني چاہيے حضرت نے فرمايا:
راتوں ميں کثرت عبادت سے ان کارنگ زردپڑ جائے،(خوف خدا ميں) گريہکرنے سے ان کي بينائي ضعيف ہوگئي ہومسلسل قيام عبادت سے ان کي کمر خميدہ ہوگئي ہو اور ان کا پيٹ روزہ رکھنے کي وجہ سے پيٹھ سے لگ گيا ہو اور خضوع اور خشوع ميں ڈوبے ہوئے ہوں اسي طرح بہت سے اشعار حضرت علي کي خلافت کے دور ميں کہے گئے ہيں کہ جو امام کے بر حق نيز پيغمبر ?کے بعدپيغمبر?کے جانشين اور بلا فصل خليفہ ہونے کي طرف اشارہ کرتے ہيں ،قيس بن سعد نے کہا :
و علي امامنا و امام لسوانااتي بہ التنزيل
علي ہمارے اورہمارے علاوہ لوگوں کے امام ہيں اس بات کو قرآن نے بيان کيا ہے
خزيمہ بن ثابت ذوالشہادتين کہتے ہيں :
فديت علياً امام الوري سراج البريّہ ماوي التّقي
ميں علي پر قربان ہو جاؤںوہ لوگوں کے امام اور چراغ خلق اور متقين کي پناہ گاہ ہيں
وصي الرّسول وزوج البتول
امام البريّہ شمس الضّحي
وہ پيغمبر? کے وصي اورحضرت فاطمہ زہرا کے شوہرنيز خلائق کے امام اور خورشيد تاباں ہيں
تصدق خاتمہ راکعا
فاحسن بفعل امام الوري
وہ اما م خلق ہيںانہوں نے ہيں رکوع کي حالت ميںاپني انگوٹھي زکوة ميں دے کر کتنا بڑا نيک کارنامہ انجام ديا
ففضّلہ اللّہ رب العباد
و انزل في شانہ ھل اتي
اللہ نے ان کو دوسروںپر برتري عطا کي اور ان کي شان ميں سورہ ہل اتي نازل کيا
حضرت کے شيعوں نے بھي اپنے بعض اشعار ميںخود کو علي کے دين پر ہونے کو ثابت کيا ہے عمار ياسر نے جنگ جمل ميں عمرو بن يثربي کے سامنے يہ اشعار پڑھے:
لا تبرح العرصة يا ابن يثربي
حتي اقاتلک علي دين عل
نحن وبيت اللّہ اولي بالنّبي
اے يثربي کے بيٹے! ميدان سے فرار نہ کرناتاکہ ميں دين علي کے دين پر رہ کر تجھ سے جنگ کروں ،خانہ کعبہ کي قسم !ہم نبي کے حوالے سے تم سے اولي ہيں
جيسا کہ عمر بن يثربي کہ جو دشمن علي تھا،محبان علي کو قتل کر کے افتخار کرتا تھا وہ شعر ميں کہتاہے:
ان تنکروني فانا ابن يثربي قاتل علبائ
و ھند الجملي ثم ابن صوحان علي دين عل
اگر مجھے نہيں پہچانتے تو پہچان لو ميں يثربي کا فرزند ہوںاورعلبا و ہندجملي کا قاتل ہوں( يہ دو لوگ علي کے دوستوں اور شيعوں ميںسے تھے ) اور ميں نے علي کي دوستي کے جرم ميں صوحان کے بيٹے کو بھي قتل کيا ہے
(2) شيعہ، بني اميہ کے زمانہ ميں
بني اميہ کا زمانہ شيعوں کے لئے بہت دشوار زمانہ تھا جو چاليس ہجري سے شروع ہوتا ہے اور ايک سو بتيس ہجري تک جاري رہتا ہے، عمر بن عبد العزيز کے علاوہ تمام خلفائے اموي شيعوں کے سخت ترين دشمن و مخالف تھے، البتہ ہشام اموي کے بعد سے وہ داخلي اختلافات وشورش کا شکار ہوگئے تھے اور عباسيوں سے مقابلہ ميں لگ گئے تھے اور گذشتہ سختيوں ميں کمي آگئي تھي خلفائے بني اميہ شام کے علاقہ ميں وہاںکے حاکموں کے ذريعہ شيعوںکے اوپر فشار لاتے تھے اور تمام اموي حکام، شيعوں کے دشمنوں ميں سے منتخب ہوتے تھے جو شيعوں کو اذيت دينے سے گريز نہيں کرتے تھے ليکن ان کے درميان زياد، عبيداللہ بن زياد اور حجاج بن يوسف نے ظلم کرنے ميںدوسروں پر سبقت کي، اہل تسنن کا مشہور دانشمند ابن ابي الحديد لکھتا ہے : شيعہ جہاں کہيں بھي ہو تے تھے ان کو قتل کر ديا جاتا تھا، بني اميہ صرف شيعہ ہونے کے شبہ کي وجہ سے لوگوںکے ہاتھ پير کاٹ ديا کرتے تھے جو بھي خاندان پيغمبر سے محبت کرتا تھااس کو زندان ميں ڈال ديتے تھے يا اس کے مال لوٹ ليا کرتے تھے يا اس کاگھر ويران کر ديا جاتا تھا، اس ناگفتہ بہ صورت حال کي شدت اس حدتک پہنچ چکي تھي کہ علي سے دوستي کي تہمت لگانا کفر و بے ديني سے زيادہ بد تر شمار کيا جاتا تھااور اس کے نتائج بڑے سخت ہوتے تھے، اس خشونت آميز سياست ميں کوفہ کے حالات کچھ زيادہ بدتر تھے کيونکہ کوفہ شيعيان علي کا مرکز تھا معاويہ نے زياد بن سميہ کوکوفہ کا حاکم بنادياتھا، بعد ميں بصرہ کي سپہ سالاري بھي اس کے حوالہ کردي گئي، زيادچونکہ پہلے کبھي علي کے دوستوں کي صفوں ميں تھاجو شيعيان علي کو اچھي طرح پہچانتا تھا اس نے شيعوںکا تعاقب کيا، شيعہ جہاں کہيں گوشہ و کنار ميں مخفي تھے ان کو ڈھونڈکر قتل کرديا ان کے ہاتھ پير کاٹ ديئے اور ان کو نا بينا بناديا اور انہيں کھجور کے درخت پرپھانسي دے دي نيز انہيں شہر بدر کر ديا يہاں تک کہ کوئي بھي مشہور شيعہ شخصيت عراق ميں باقي نہيں رہي?(ابن ابي الحديد ، شرح نہج البلاغہ ، دار احياء الکتب العربية ، قاہرہ ، 1961 ء ، ص 43?45)
ابو الفرج عبد الرحمن بن علي بن الجوزي کہتا ہے:
زيادمنبر پر خطبہ دے رہا تھا کچھ شيعوں نے اس پر اعتراض کيا اس نے حکم ديا اسي80 افراد کے ہاتھ پير کاٹ ديئے جائيں وہ لوگوں کو مسجد ميں جمع کرتا تھا اوران سے کہتا تھا کہ علي پر تبر اکرو اور جو بھي تبرانہيں کرتا تھا ،حکم ديتا کہ اس کا گھر کو منہدم کر ديا جائے?(ابن جوزي ،عبد الرحمن بن علي ، المنتظم في الامم والملوک،دارالکتب العلميہ، بيروت، طبع اول، 1412ہجري،ج5،ص227)
زياد ہ چھ مہينہ کوفہ ميں اور چھ مہينہ بصرہ ميں حکومت کرتا تھا، سمرہ ابن جندب کو بصرہ ميںاپني جگہ رکھتا تھا تاکہ اس کي غير موجودگي ميں وہ امور حکومت کي ديکھ بھال کرتا رہے ، سمرہ نے اس مدت ميں آٹھ ہزار افراد کو قتل کيا تھازياد نے اس سے کہا :کيا تجھے خوف نہيں ہوا کہ تونے ان ميں سے کسي ايک بے گناہ کو بھي قتل کيا ہو؟ سمرہ نے جواب ديا : اگر اس کے دو برابر بھي قتل کرتا تب بھي اس طرح کي کوئي فکرلاحق نہيں ہوتي
ابو سوارعدوي کہتا ہے: سمرہ نے ايک دن صبح ميں 47 ،افراد کو قتل کيا جوميرے قبيلہ سے وابستہ تھے اور سب کے سب حافظ قرآن تھے
معاويہ نے خط ميں اپنے کارندوں کو لکھا کہ شيعيان او رخاندان علي ميں سے کسي کي گواہي قبول نہ کرنا ،اور دوسرے خط ميں لکھا کہ اگر دو افرادگواہي ديںکہ اس کا تعلق شيعيان علي اور دوستداران علي سے ہے تو اس کانام بيت المال کے دفتر سے حذف کردو اور اس کے وظائف اورحقوق کو قطع کردو
حجاج بن يوسف جو بني اميہ کا انتہائي درجہ سفاک و بے رحم عامل تھا مکہ و مدينہ ميں لوگوں کو بني اميہ کا مطيع بنانے کے بعد 75ہجري ميں خليفہ اموي عبد الملک بن مروان کي جانب سے عراق کي حکومت پر مامور ہوا جو شيعوں کا مرکز تھا، حجاج چہرہ کو چھپائے ہوئے مسجد کوفہ ميں داخل ہوا صفوں کو چيرتا ہوا منبر پر بيٹھ گيا کافي دير تک خاموش بيٹھا رہا لوگوںميںچہ مي گوئياں ہونے لگيں کہ يہ کون ہے؟ايک نے کہا: نيا حاکم ہے دوسرے نے کہا اس پرپتھر مارے جائيں کچھ نے کہا: نہيں صبر سے کام ليا جائے ديکھتے ہيں کہ يہ کيا کہتا ہے؟ جب سب لوگ خاموش ہو گئے تواس نے اپنے چہرہ سے نقاب ہٹائي اور چند جملوںکے ذريعہ سے ايسا ڈرايا کہ جس کے ہاتھ ميں مارنے کے لئے پتھر تھے ہاتھ سے چھوٹ کر زمين پر گر گئے اس نے اپنے خطبہ کي ابتدا اس طرح کي:
''اے کوفہ والو! برسوں سے آشوب و فتنہ برپا ہے تم نے نا فر ماني کو اپنا شعار بنا ليا ہے ميں ايسے سروں کو ديکھ رہا ہوں جو پھلوں کي طرح بالکل تيار ہيں انہيں جسمو ںسے جدا کر دينا چاہئيے، ميں اتنے سروں کو قلم کروں گا کہ تم فرمانبرداري کا راستہ ياد کرلو گے''
حجاج نے پورے عراق ميں اپني حکومت قائم کي اور کوفہ کے نيک اور بے گناہ بہت سے لوگوں کا قتل کيا
مسعودي حجاج کے مظالم کے بارے ميں لکھتا ہے :
حجاج کي بيس سال کي حکومت ميں جو لوگ اس کي شمشير کے ذريعہ شکنجوں ميں رہ کر جاں بحق ہوئے ہيںان کي تعداد ايک لاکھ بيس ہزار ہے، اس کے علاوہ کچھ وہ افراد ہيں جو حجاج کے ساتھ جنگ ميں اس کي فوج کے ہاتھوں قتل کئے گئے حجاج کي موت کے وقت اس کے مشہور زندان ميں پچاس ہزار مرد اورتيس ہزار عورتيں قيدتھيں، ان ميں سولہ ہزار عرياں اور بے لباس تھے حجاج مرد اور عورتوں کو ايک جگہ قيد کرتا تھا، اس کے تمام زندان بغير چھت کے تھے اس وجہ سے زندان ميں رہنے والے گرمي اور سردي سے امان ميں نہيں تھے?(مروج الذہب،منشورات موسسةالاعلمي،للمطبوعات ،بيروت،1411ہجري ج3،ص187)
حجاج معمولاً شيعوں کو زنداني اور شکنجہ کرتا تھا اور انہيں قتل کرتا تھا شيعوں کي دردناک وضعيت کا پتہ اس سے لگا يا جا سکتا ہے جس کو انہوں نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کو اموي دور ميں امام سجاد سے بيان کيا ہے ،مرحوم علامہ مجلسينے نقل کياہے :کچھ شيعيان علي امام زين العابدين کے پاس آ ئے اورمصيبتوں پر آہ و گريہ کيا نيز اپنے درد ناک حالات کو بيان کيا: فرزند رسول، ہم کو ہمارے شہر سے نکال ديا گيا قتل و غارت کے ذريعہ ہم کو نابودکرديا گيا امير المومنين پر شہروں ميں مسجد نبوي ميں منبروںسے سب و شتم کيا گياليکن کوئي مانع نہيں ہوا، اور اگرہم ميں سے کسي نے اعتراض کيا تو کہتے تھے کہ يہ ترابي ہے جب اس کا علم حاکم کو ہوتا تھاتو اس شخص کے بارے ميںحاکم کے پاس لکھ بھيجتے تھے کہ اس نے ابوتراب کي تعريف کي ہے وہ حکم ديتا تھا کہ اس کو زندان ميں ڈال ديا جائے اور قتل کرديا جائے
اموي دور ميں تشيع کي وسعت
اموي خلفا کے دور ميں شيعوں پر ظلم و ستم ہونے کے باوجود تشيع کي ترويج و فروغ ميں کوئي کمي نہيںآئي پيغمبر و خاندان پيغمبر ?کي مظلوميت لوگوں کے دلوں کو ان کي طرف کھينچتي رہي اور نئے نئے لوگ شيعہ ہوتے گئے، يہ مطلب اموي حکومت کے آخري زمانہ ميں پورے طور سے ديکھا جا سکتا ہے اموي زمانہ ميں تشيع کے پھيلنے کے کئي مراحل تھے ہر مرحلہ کي ايک خصوصيت تھي کلي طور پر شيعوں کي کثرت کو تين مرحلوں ميں تقسيم کيا جا سکتا ہے
(الف) 40ھ سے 61ھ تک، دوران امام حسن اور امام حسين
(ب) 61ھ سے 110 ھ تک، دورا ن امام سجاد و امام باقر عليہما السلام
(ج) 110 ھ سے 132ھ يعني اموي حکومت کے اختتام تک، دوران اما م صادق
(الف) عصر امام حسن 1و امام حسين عليہما السلام
امير المومنين کے زمانہ ميں شيعيت نے آہستہ آہستہ ايک گروہ کي شکل اختيار کر لي تھي اور شيعوں کي صف بالکل نماياں تھي اسي بنياد پر امام حسن نے صلح نامہ کے شرائط ميں ايک شرط شيعوں کي امنيت کي رکھي تھي کہ ان پر تجاوز نہ کيا جائے
شيعہ رفتہ رفتہ عادت ڈال رہے تھے کہ جو امام اور خليفہ حکومت سے وابستہ ہو اس کي اطاعت ضروري نہيں ہے، اسي وجہ سے جس وقت لوگ دھيرے دھيرے امام حسن کے ہاتھ پر بيعت کررہے تھے حضرت نے ان سے شرط رکھي تھي کہ وہ جنگ و صلح ميں آپ کي اطاعت کريں گے اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ امامت لازمي طور پر حاکميت کے مساوي نہيں ہے اور معاويہ جيساظالم حاکم امام نہيں ہو سکتا اور اس کي اطاعت واجب نہيں ہے ،چنانچہ امام نے جو خطبہ صلح کے بعد معاويہ کے فشار کي وجہ سے مسجدکوفہ ميں ديا، اس ميں فرمايا :
خليفہ وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پيغمبر? پر عمل کرے ،جس کا کام ظلم کرناہے وہ خليفہ نہيں ہوسکتا بلکہ وہ ايک بادشاہ ہے جس نے ايک ملک کو اپنے ہاتھ ميں لے ليا ہےمختصر سي مدت تک اس سے فائدہ اٹھائے گا بعدميں اس کي لذتيں ختم ہو جائيں گي ليکن بہر حال اسے حساب و کتاب دينا پڑے گا
اس دور کے تشيع کي دوسري خصوصيت شيعوں کے درميان اتحاد ہے جس کا سرچشمہ بہترين رہبر کا وجود ہے امام حسين کي شہادت تک شيعوں ميں کوئي فرقہ نہيں تھاامام حسن اور امام حسين عليہ السلام کو مسلمانوں کے درميان ايک خاص اہميت حاصل تھي ان کے بعد ائمہ طاہرين ميں سے کسي کوبھي يہ مقام حاصل نہيں ہوسکايہي دونوں فرزندتنہا ذريت پيغمبر?تھے ، امير المومنين نے جنگ صفين ميں جس وقت ديکھا کہ اما م حسن تيزي کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہيں فرمايا:ميرے بجائے تم اس جوان کي حفاظت کرو (ان کو جنگ سے روکومجھے مضطرب نہ کرو مجھے ان دونوں کي بہت فکر ہے) يہ دونوں جوان (امام حسن وامام حسين) قتل نہ ہوں کيونکہ ان کے قتل ہونے سے پيغمبر ?کي نسل منقطع ہوجائے گي
حسنين کا مقام اصحاب پيغمبر? کے درميان بھي ايک خاص اہميت کا حامل تھااس کي دليل يہ ہے کہ لوگوں نے امام حسن کي بيعت کي اور صحابہ? پيغمبر ? نے حضرت کي خلافت کو قبول کيايہي وجہ ہے کہ خلافت امام حسن ميں کوئي مشکل ديکھنے ميں نہيں آتي کسي نے اعتراض تک نہيں کيا ،صرف شام کي حکومت کي طرف سے مخالفت کي گئي جس وقت حضرت نے صلح کي اور کوفہ سے مدينہ جانا چاہا تو لوگوں نے شدت سے گريہ کيا مدينہ ميں قريش کي طرف سے کسي نے معاويہ کو جو خبر دي اس سے حضرت کي اہميت و عظمت کا اندازہ ہوتا ہے قريش کے کسي آدمي نے معاويہ کو لکھا :يا امير المومنين!! امام حسن نماز صبح مسجد ميںپڑھتے ہيں، مصلي? پر بيٹھ جاتے ہيں اور سورج طلوع ہونے تک بيٹھے رہتے ہيں، ايک ستون سے ٹيک لگائے ہوتے ہيں اور جو لوگ بھي مسجد ميں ہوتے ہيں ان کي خدمت ميں جاتے ہيںاور ان سے گفتگو کرتے ہيںيہاں تک کہ کچھ حصہ دن کا چڑھ جاتا ہے اس کے بعددو رکعت نماز پڑھتے ہيںاور آگے بڑھ جاتے ہيں اور پيغمبر ? کي بيو يوںکي احوال پرسي کرتے ہيں اور اس کے بعد اپنے گھر تشريف لے جاتے ہيں
امام حسين کا بھي اپنے بڑے بھائي کي طرح اقبال بہت بلند تھا يہاں تک کہ عبداللہ بن زبير جو اہل بيت کاسر سخت دشمن تھا وہ بھي امام حسين کي عظمت سے انکار نہ کرسکا،جب تک حضرت مکہ ميں تھے لوگوں نے ابن زبير کي طرف کوئي توجہ نہ دي اسي بنا پر وہ چاہتا تھا کہ امام جلدي مکہ سے چلے جائيں لہذاا مام سے کہتاہے کہ اگر ميرا بھي آپ کي طرح عراق ميں بلند مقام ہوتا توميں بھي وہاں جانے ميں جلدي کرتا
حضرت کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ جب آپ نے بيعت سے انکار کرديا تو حکومت يزيدزير بحث آگئي اور يہي وجہ ہے کہ حضرت سے بيعت لينے کا اصرار و فشار اس قدر زيادہ تھا ،بني ہاشم کے ان دو بزرگوں کاايک خاص احترام واکرام تھا اس طرح سے کہ ان کےزمانے ميں، بني ہاشم ميں سے نہ ہي کسي نے رہبري کا دعوي? کيا اور نہ ہي کوئي (بني ہاشم کي)سرداري کا مدعي ہوا،جس وقت امام حسن معاويہ کے زہر دينے کي وجہ سے دنيا سے رخصت ہوگئے تو شام ميں معاويہ نے ابن عباس سے کہا :اے ابن عباس !امام حسن وفات کر چکے ہيںاور اب تم بني ہاشم کے سردار ہو، ابن عباس نے جواب ديا: جب تک امام حسين موجود ہيں اس وقت تک نہيں?( مسعودي علي بن حسين ، مروج الذھب ، موسسہ ا لاعلمي ،للمطبوعات، بيروت،ج3 ص 9)
ابن عباس بلند مقام ،مفسر قرآن ا ور حبرالامة تھے اور سن ميںبھي امام حسن اور امام حسين دونوں سے بڑے تھے اس کے باوجود ان دوبزرگواروںکي خدمت کرتے تھے مدرک بن ابي زياد نقل کرتا ہے:
ابن عباس امام حسن امام حسين کي رکاب سنبھالتے تھے تاکہ يہ دو حضرات سوار ہوجائيں، ميں نے کہا : آپ ايساکيوںکرتے ہيں توانہوںنے فرمايا: احمق! تو نہيں جانتا کہ يہ کون لوگ ہيں يہ رسول? کے فرزند ہيں کيا يہ ايک عظيم نعمت نہيں ہے جس کي خدانے مجھے توفيق دي ہے کہ ميں ان کي رکاب پکڑوں؟( ابن شہر آشوب،مناقب آل ابي طالب،موسسةانتشارات علامہ،ج3 ص400)
تشيع کي وسعت ميں انقلاب کربلاکا اثر
امام حسين کي شہادت کے بعد شيعہ اپني پناہ گاہ کھو دينے کے بعد کا في خوف زدہ تھے اور دشمن کے مقابلہ ميں مسلحانہ تحريک اوراقدام سے نا اميد ہو گئے تھے دل خراش واقعہ
عاشورہ کے بعد مختصر مدت کے لئے انقلاب شيعيت کو کافي نقصان پہونچا،اس حادثہ کي خبر پھيلنے سے اس زمانے کي اسلامي سر زمين خصوصاً عراق و حجاز ميں شيعوں پر رعب و وحشت کي کيفيت طاري ہوگئي تھي کيونکہ يہ مسلّم ہو گيا کہ يزيد فرزند رسو?ل کو قتل کرکے نيز ان کي عورتوں اور بچوں کو اسير کرکے اپني حکومت کي بنيادمستحکم کرنا چاہتا ہے اور وہ اپني حکومت کوپائيدار کرنے ميں کسي بھي طرح کے ظلم سے گريز نہيں کرنا چاہتا ہے اس وحشت کے آثار مدينہ اور کوفہ ميں بھي نماياں تھے ،واقعہ حرّہ کے ظاہر ہوتے ہي لوگوں کي بے رحمانہ سرکوبي ميں يزيد کي فوج کي جانب سے شدت آگئي تھي عراق و حجازکے شيعہ نشين علاقے خاص کر کوفہ اور مدينہ ميں سانس لينابھي دشوارہو گيااور شيعوں کي يکجہتي و انسجام کا شيرازہ يکسر منتشر ہوگيا تھا امام صادق اس ابتر اورناگفتہ بہ وضعيت کے بارے ميں فرماتے ہيں: امام حسين کي شہادت کے بعد لوگ خاندان پيغمبر? کے اطراف سے پرا گندہ ہو گئے ان تين افراد کے علاوہ ابو خالد کابلي، يحيي? ابن ام الطويل ، جبير ابن مطعم?(شيخ طوسي ،اختيار معرفة الرجال ،معروف بہ رجال کشي،موسسہ آل البيت لاحياء التراث، 1404ہجري، ج 1،ص 238)
مورخ مسعودي بھي ا س بارے ميں کہتا ہے : ''علي بن حسين مخفي اور تقيہ کي حالت ميںبہت دشوار زمانے ميں امامت کے عہدے دار ہوئے ،،(اثبات الوصية، مکتبة الحيدرية ، نجف ، طبع چہارم ، 3173ھ ص 167)
يہ وضعيت حکومت يزيد کے خاتمہ تک جاري رہي ،يزيد کے مرنے کے بعد شيعوں کا قيام شروع ہوا اور اموي حکومت کے مضبوط ہونے تک يعني عبد الملک کي خلافت تک يہ سلسلہ جاري رہا، يہ مدت تشيع کے فروغ کے لئے ايک اچھي فرصت ثابت ہوئي، قيام کربلا کي جو اہم ترين خاصيت تھي وہ يہ کہ لوگوں کے ذہنوں سے بني اميہ کي حکومت کي مشروعيت يکسرختم ہوگئي تھي اور حکومت کي بدنامي اس حد تک پہنچ چکي تھي کہ خلافت بالکل سے اپني حيثيت کھوچکي تھي اور لوگ اسے پاکيزہ عنوان نہيں ديتے تھے يزيد کي قبر سے خطاب کر کے جو شعر کہا گيا اس سے بخوبي اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے :
ايھا القبر بحوارينا
قدضمنت شر الناس اجمعينا
اے وہ قبرکہ جو حوارين کے شہر ميں ہے لوگوں ميںسے سب سے بد ترين آدمي کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے
اس زمانہ ميںسوائے شاميوں کے شيعہ و سني سب کے سب، حکومت بني اميہ کے مخالف تھے، شيعہ اور سني کي جانب سے بغاوتيں بہت زيادہ جنم لے رہي تھيں
يعقوبي لکھتا ہے:'' عبد الملک بن مروان نے اپنے حاکم حجاج بن يوسف کو لکھا تک تو مجھے آ ل ابي طالب کا خون بہانے ميںملوث نہ کر کيونکہ ميںنے سفيانيوں( ابوسفيان کے يٹے)کا نتيجہ ان کے قتل کرنے ميں ديکھا کہ کن مشکلات سے دوچار ہوئے تھے''
آخرکار خون اما م حسين عليہ السلام نے بني اميہ کے قصر کو خاک ميں ملا ديا
مقدسي کہتا ہے :'' جب خدا وند عالم نے خاندان پيغمبر ?پر بني اميہ کا ظلم و ستم ديکھا تو ايک لشکر کو کہ جو خراسان کے مختلف علاقوں سے اکٹھا ہواتھا شب کي تاريکي ميں ان کے سروں پر مسلط کرديا?(مقدسي، احسن التقاسيم ، ترجمہ منذوي ، شرکت مولفان و مترجمان ايراني، ج 2 ص 426?427)
دوسري طرف سے امام حسين عليہ السلام اور شھداء کربلا کي مظلوميت کي وجہ سے خاندان پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي محبت لوگوںکے دلوں ميں بيٹھ گئي اور ان کے مقام کو اولاد پيغمبر? اوراسلام کے تنہا سرپرست ہونے کے عنوان سے مستحکم کرديا ،بني اميہ کے دور ميں جگہ جگہ لوگ يالثارات الحسين کے نعرہ کے ساتھ جمع ہوتے، يہاں تک کہ سيستان ميں ابن اشعث کاقيام ،(عبد الرحمن بن محمد بن اشعث حجاج کي جانب سے سيستان ميں حاکم تھا ، سيستان کا علاقہ مسلمانوں اور ہندئوں کے درميان سر حدواقع ہوتا تھا يہاں مسلمانوں اور ہندوستان کے حاکموں کے درميان جھڑپيں ہوتي رہتي تھيں ، حجاج کو عبد الرحمن سے جو دشمني تھي اس کي بنا پر اس نے يہ منصوبہ بنايا کہ اسے اس طرح ختم کر دے ، عبد الرحمن جب اس سازش سے آگاہ ہوا تواس نے 82ھ ميں حجاج کے خلاف بغاوت کردي ، چونکہ عوام حجاج سے نفرت کرتي تھي لہذابصرہ و کوفہ کے کافي لوگ عبد الرحمن کے ساتھ ہوگئے، کوفہ کے بہت سے قاريان قرآن ا ور شيعہحضرات قيام کرنے والوں کے ساتھ ہوگئے، اس طرح عبد الرحمن سيستانسے عراق کي جانب روانہ ہوا ، اس کا پہلا )
حسن مثني فرزند اما م حسن عليہ السلام کے نام سيتشکيل پايا ،اسي بنياد پر امام مہدي کي احاديث انتقام آل محمد ?کے عنوان سے پھيلي،اور لوگ بني اميہ سے انتقام لينے والے کا بے صبري اور شدت سے انتظار کرنے لگے،کبھي مہدي کے نام کو قيام اور تحريک کے قائدين پر منطبق کرتے تھے
دوسري طرف ائمہ اطہار اور پيغمبر ? کے خاندان والے شہدائے کربلاکي يادوںکو زندہ رکھے ہوئے تھے ،امام سجاد جب بھي پاني پيناچاہتے تھے اور پاني پر نظر پڑتي تھي تو آنکھوںميں آنسو بھر آتے تھے، جب لوگوں نے اس کا سبب معلوم کيا تو آپ نے فرمايا : کيسے گريہ نہ کروں اس لئے کہ انہوںنے پاني جنگلي جانوروں اور پرندوںکے لئے آزاد رکھاتھا اور ميرے بابا کے لئے بند کرديا تھا؛ايک روز امام کے خادم نے دريافت کيا، کيا آپ کا غم تمام نہيں ہوگا؟امام نے فرمايا: ''افسوس تجھ پر يعقوب کے بارہ بيٹوں ميں سے ايک آنکھوںسے اوجھل ہوگيا تھا اس کے فراق ميں اتنا گريہ کيا کہ نابينا ہوگئے اور شدت غم سے کمر جھک گئي حالانکہ ان کا فرزند زندہ تھا ليکن ميںنے اپنے باپ بھائي ،چچا نيز اپنے خاندان کے سترہ افراد کو قتل ہوتے ہوئے ديکھا ہے ان کے لاشے زمين پر پڑے ہوئے تھے لہذا کس طرح ممکن ہے کہ ميرا غم تمام ہوجائے ؟!''?
امام صادق امام حسين کي مدح ميں اشعارکہنے والے شاعروں کي تشويق کرتے تھے اور فرماتے:'' جو بھي امام حسين کي شان ميں شعر کہے اور گريہ کرے اور لوگوں کو رلائے اس پر جنت واجب ہے اور اس کے گناہ معاف کر دئے جائيںگے
امام حسين تشيع کي بنياداور علامت ٹھہرے اسي بنا پربہت سے زمانوں ميںجيسے متوکل کے دور ميں آپ کي زيارت کو ممنوع قرار ديا گيا
(ب) عصر امام سجّاد عليہ السّلام
امام سجّاد کے دور کو دو مرحلوں ميں تقسيم کيا جا سکتا ہے
پہلا مرحلہ: شہادت امام حسين اوربني اميہ کي حکومت کے متزلزل ہونے کے بعدسے اورسفيانيوں(ابو سفيان کے بيٹوں اور پوتوں ) کے خاتمہ اور مروانيوں کے برسراقتدار آنے نيز بني اميہ کے آپس ميںجھگڑنے اور مختلف طرح کي شورشوں اور بغاوتوں ميں گرفتار ہونے تک يہاں تک کہ مروانيوں کي حکومت برقرار ہوگئي
دوسرا مرحلہ: حجاج کي حکمراني اورمکہ ميں عبداللہ بن زبير کي شکست،سے لے کر امام محمد باقر کا ابتدائي زمانہ اور عباسيوں کے قيام تک
امام حسين کي شہادت کے بعدايک طرف سے تو بني اميہ عراق و حجاز کے علاقہ ميں برپا ہونے والے انقلابات ميں گرفتار تھے تو دوسري طرف سے ان کے اندر اندروني اختلاف تھا جس کي بنا پرحکومت يزيد زيادہ عرصہ تک قائم نہيں رہ سکي يزيد تين سال کي حکومت کے بعد 64 ھ ميں مر گيا،اس کے بعداس کا بيٹا معا ويہ صغير بر سر اقتدار آيا ا س نے چا ليس روز سے زيادہ حکومت نہيں کي تھي کہ خلافت سے الگ ہو گيا اور بلا فاصلہ دنياسے رخصت ہو گيا،اس کے مر تے ہي خاندان بني اميہ کے درميان اختلاف شروع ہو گيا ، مسعودي نے اس کے مرنے کے بعد پيش آنے والے واقعات کہ جس سے بني اميہ کي رياست طلبي کي عکاسي ہوتي ہے يوں بيان کيا ہے: معاويہ دوّم 22 سال کي عمر ميں دنيا سے چلا گيااوردمشق ميں دفن ہوا وليد بن عتبہ بن ابي سفيان خلافت کي لالچ ميں آ گے بڑھا تا کہ معاويہ دوم کے جنازہ پر نماز پڑھے نماز تمام ہونے سے پہلے ہي اسے ايسي ضرب لگي کہ وہيں پر ڈھير ہوگيا اس وقت عثمان بن عتبہ بن ابي سفيان نے نماز پڑھائي ليکن لوگ اس کي خلافت پربھي راضي نہيں ہوئے اور وہ ابن زبير کے پاس مکہ جانے پر مجبور ہوگيا
امام حسين کي شہادت کو ابھي تين سال بھي نہ گزرے تھے کہ سفيانيوں کي حکومت کا خاتمہ ہو گيا، اسلامي سر زمين کے لوگ يہاںتک کہ بني اميہ کے کچھ بزرگ افراد جيسے ضحاک بن قيس ا و رنعمان بن بشير،ابن زبير کي طرف مائل ہو گئے تھے، اسي وقت ابن زبير نے مدينہ سے اموي ساکنين منجملہ مروان کونکال باہرکيا وہ سب وہاں سے نکل کرر اہي شام ہو گئے چونکہ دمشق ميں کوئي خليفہ نہيں تھا ،امويوں نے جابيہ ميں مروان بن حکم کوخليفہ بنا د يااور خالد بن يزيد اور اس کے بعد عمرو بن سعيد اشدق کو اس کا ولي عہد قرار ديا ، کچھ مدّت کے بعد مروان نے خالد بن يزيد کو بر طرف کر ديا اور اس کے بيٹے عبدالملک کو اپنا ولي عہد بنايا اسي وجہ سے خالد کي ماں جو مروان کي بيوي تھي اس نے اس کو زہر ديا اور مروان مر گيا ، عبدالملک نے بھي عمرو بن سعيد کو اپنے راستے سے ہٹاکر اس کے فرزند کو اپنا ولي عہد بنايا
دوسري طرف سے امويوں کو بہت سي شورشوں اور بغاوتوں کا سامنا تھا يہ قيام دوحصّوں ميں تقسيم ہوتا ہے،ايک وہ قيام جو شيعہ ما ہيت نہيں رکھتا تھا جيسے حرّہ کا قيام اور ابن زبير کا قيام، ابن زبيرکے قيام کي حقيقت معلوم ہے اس قيام کا قائد ابن زبير تھا جو خاندان رسول?کا سخت ترين دشمن تھا ،جنگ جمل ميں شکست کے بعدہي اس کا دل (اہل بيت کے ) بغض و کينہ سے بھر گيا تھا ليکن اس کا بھائي مصعب شيعيت کي طرف مائل تھا اس نے امام حسين کي بيٹي سکينہ سے شادي کي تھي، اسي بنا پر عراق ميں اس کو ايک حيثيت حاصل تھي، امويوں کے مقابلہ ميں شيعہ اس کے ساتھ تھے، جناب مختار کے بعد ابراہيم بن مالک اشتر ان کے ساتھ ہوگئے تھے اور انہيں کے ساتھ شہيد ہوئے
دوسر ے وہ قيام جو ماہيت کے اعتبار سے شيعہ فکر رکھتے تھے
قيام حرّہ کو بھي شيعي حمايت حاصل نہيں تھي ،اس قيام ميں امام سجاد کي کسي قسم کي مداخلت نہ تھي جس وقت مسلم بن عقبہ لوگوں سے بيعت لے رہا تھااور يہ کہہ رہا تھا غلام کي سے جنگ کروں گا اس نے مجھے تحفے دئے اکرام کيا ميں نے اس کے ہديہ و تحفہ کو قبول نہيں کيا جگہ يزيد کي بيعت کريںاس وقت وہ امام سجاد کا احترام کر رہا تھا اور حضرت پر کسي قسم کا دبائو نہيں ڈالا?( ابي حنيفہ ، دينوري ، احمد بن دائود ، الاخبار الطوال ، منشورات الشريف الرضي ، قم ، ص 266)
شيعي قيام
شيعي قيام درج ذيل ہيں : قيام توّابين اور قيام مختار، ان دو قيام کا مقام ومرکز عراق ميں شہر کوفہ تھا اور جو فوج تشکيل پائي تھي وہ شيعيان اميرالمو منين کي تھي سپاہ مختار ميںشيعہ غير عرب بھي کافي موجود تھے
توابين کے قيام کي ماہيت ميں کوئي ابہام نہيں ہے يہ قيام صحيح ہدف پر استوار تھا جس کا مقصد صرف خون خواہي امام حسين اور حضرت کي مدد نہ کرنے کے گناہ کو پاک کرنے اور ان کے قاتلوں سے مقابلہ کے علاوہ اور کچھ نہيں تھا، . توابين کوفہ سے نکلنے کے بعد کربلا کي طرف امام حسين کي قبر کي زيارت کے لئے گئے اور قيام سے پہلے اس طرح کہا:
پروردگارا!ہم فرزند رسول ? کي مدد نہ کر سکے ہمارے گنا ہوں کو معاف فرما، ہماري توبہ کو قبول فرما ، امام حسين کي روح اور ان کے سچّے ساتھيوں پر رحمت نازل کر، ہم گواہي ديتے ہيں کہ ہم اسي عقيدہ پر ہيں جس عقيدہ پر امام حسين قتل ہوئے، پروردگارا!اگر ہمارے گناہوں کو معاف نہيں کيا اور ہم پر لطف وکرم نہيں کيا تو ہم بد بخت ہو جائيں گے?(ابن اثير ،الکامل في التاريخ ، ج 4 ص 158?186)
مختار نے مسلم بن عقيل کے کوفہ ميں داخل ہونے کے بعد ان کي مدد کي جس کي وجہ سے عبيد اللہ بن زيادکے ذريعہ دستگير ہوئے اور زندان ميں ڈال د يئے گئے اور واقعہ عاشورہ کے بعداپنے بہنوئي عبداللہ بن عمر کے توسط سے آزاد ہوئے وہ 64ھ ميں کوفہ آئے اور اپنے قيام کو قيام توابين کے بعد شروع کيا اور يا لثارات الحسين کے نعرہ کے ذريعہ تمام شيعوں کو جمع کيا وہ اس منصوبے اور حوصلہ کے ساتھ ميدان عمل ميں وارد ہوئے کہ امام حسين کے قاتلوں کوان کے عمل کي سزاديں اور اس طرح سے ايک روز ميں (280) ظالموں کو قتل کيا اور فرار کرنے والوں کے گھروں کو ويران کيا، من جُملہ محمّد بن اشعث کے گھر کو خراب کيا اور اس کي باقيات (ملبہ و اسباب) سے علي کے وفادار ساتھي حجر بن عدي کا گھر بنوايا جس کو معاويہ نے خراب کر ديا تھا
جناب مختار کے بارے ميں اختلاف نظرہے بعض ان کو حقيقي شيعہ اور بعض انہيں جھوٹا جانتے ہيں، ابن داؤد نے رجال ميں مختار کے بارے ميں اس طرح کہا ہے:
مختار ابو عبيدثقفي کا بيٹا ہے بعض علماء شيعہ نے ان کو کيسانيہ سے نسبت دي ہے اور اس بارے ميں امام سجّاد کا مختار کا ہديہ رد کرنے کوبطور دليل پيش کيا گيا ہے ليکن يہ اس کي رد پر دليل نہيں ہو سکتي ،کيونکہ امام محمّد باقر نے ان کے بارے ميں فرما يا : مختار کو برا نہ کہو کيونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کيا ہے اور اس نے نہيں چاہا کہ ہمارا خون پامال ہو ،ہماري لڑکيوں کي شادي کرائي اور سختي کے موقع پر ہمارے درميان مال تقسيم کيا
جس وقت مختار کا بيٹا ابو الحکم امام باقر کے پاس آيا امام نے اس کا کافي احترام کيا ابو الحکم نے اپنے باپ کے بارے ميں معلوم کيا اور کہا :لوگ ميرے باپ کے بارے ميں کچھ باتيں کہتے ہيں ليکن آپ کي جو بات ہو گي وہ صحيح ميرے لئے معيار ہوگي اس وقت امام نے مختار کي تعريف کي اور فرمايا :
'' سُبحان اللہ ميرے والد نے مجھ سے کہا: ميري ماں کا مہر اس مال ميں سے تھا جو مختار نے ميرے والد کو بھيجا تھا اور چند بار کہا: خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل کرے اس نے ہمارے حق کو ضائع نہيں ہونے ديا ہمارے قاتلوں کو قتل کيا اور ہمارا خون پامال نہيں ہونے ديا ''
امام صادق نے بھي فرمايا : ''جب تک مختار نے امام حسين کے قاتلوں کے سرقلم کر کے ہم تک نہيں بھيجااس وقت تک ہمارے خاندان کي عورتوں نے بالوں ميں کنگھا نہيں کيا اور بالوں کو مہندي نہيں لگائي ''
روايت ميں ہے جس وقت مختار نے عبيد اللہ ابن زياد ملعون کا سر امام سجّاد کے پاس بھيجا امام سجدہ ميں گر پڑے اور مختار کے لئے دعائے خير کي، جو روايتيں مختار کي سرزنش ميں ہيں وہ مخالفين کي بنائي ہوئي روايتيں ہيں
مُختار کي کيسانيہ سے نسبت کے بارے ميں يا فرقہ? کيسانيہ کي ايجادميں، مختار کے کردار کے بارے ميں آيةاللہ خوئي مختار کے دفاع اور کيسانيہ سے ان کي نسبت کي رد ميں لکھتے ہيں:
بعض علماء اہل سنّت مختار کو مذہب کيسانيہ سے نسبت ديتے ہيں اور يہ بات قطعاً باطل ہے کيونکہ محمد حنفيہ خود مدعي امامت نہيں تھے کہ مختار لوگوں کو ان کي امامت کي دعوت ديتے مختار مُحمّد حنفيہ سے پہلے قتل ہو گئے اور محمّد حنفيہ زندہ تھے، اور مذہب کيسا نيہ محمّد حنفيہ کي موت کے بعد وجود ميں آيا ہے ليکن يہ کہ مختار کو کيسانيہ کہتے تھے اس وجہ سے نہيں کہ ان کا مذہب کيساني ہے اور بالفرض اس لقب کو مان ليا جائے تو يہ وہ روايت ہے کہ اميرالمومنين نے ان سے دو مرتبہ فرمايا:( ياکيس يا کيس) اسي کو صيغئہ تثنيہ ميں کيسان کہنے لگے ? (آية اللہ سيد ابو القاسم خوئي ،معجم رجال الحديث، بيروت، ج 18، ص 102?103)
مروانيوں کي حکومت ( سخت دور)
جيسا کہ بيان کر چکے امام سجّاد کے دور کا دوسرامرحلہ مرواني حکومت دور تھا بني مروان نے عبداللہ بن زبير کے قتل کے بعد 73 ھ( 1) ميں اپني حکومت کومستحکم کر ليا تھا ، اس نے اور اس دور ميں ظالم و جابرحجّاج بن يوسف کے وجود سے فائد ہ اُٹھاياوہ دشمن کو ختم کرنے ميں کوئي کوتاہي نہيں کي يہاں تک کہ کعبہ کو بھي مورد حملہ قرار ديا اس پر آگ کے گولے برسائے اور اس کو ويران کرديا اور بني اميہ کے مخالفين کوچاہے وہ شيعہ ہو ںيا سُنّي جہاں کہيں بھي پايا فوراان کو قتل کرديا80 ھ ميںابن اشعث نے قيام کيا مگر اس قيام سے بھي حجاج کو کوئي نقصان نہيں پہونچا ، 95 ھ تک حجاز اور عراق ميں اس کي ظالمامام سجّاد نے ايسے حالات ميں زندگي گذاري اور دعائوں کے ذريعہ اسلامي معارف کو شيعوں تک منتقل کيا، ايسے وقت ميںشيعہ يا تو فرار تھے يا زندان ميں زندگي بسر کر رہے تھے يا حجاج کے ہا تھوں قتل ہورہے تھے يا تقيہ کرتے تھے اس بنا پر لو گو ں ميں امام سجّاد سے نزديک ہو نے کي جرا?ت نہيں تھي اورحضرت کے مددگار بہت کم تھے ، مرحوم علّا مہ مجلسي نقل کرتے ہيں: حجّاج بن يو سف نے سعيد بن جبير کو اس وجہ سے قتل کيا کہ اس کا ارتباط امام سجّاد سے تھا
البتہ اس زمانے ميں شيعوں نے سختيوں کي وجہ سے مختلف اسلامي سر زمينوں کي
طرف ہجرت کي جو تشيع کے پھيلنے کا سبب بني، اسي زمانے ميں کوفہ کے چند شيعہ قم کي طرف آئے اور يہا ں سکونت اختيار کر لي اور وہ تشيع کي ترويح کا سبب بنے
امام محمد باقرکي امامت کا ابتدائي دور بھي حکومت امويان سے متصل تھا اس دور ميں ہشّام بن عبد الملک حکومت کرتا تھاجو صاحب قدرت اور مغرور بادشاہ تھا، اس نے ا مام محمدباقر کو امام صادق کے ساتھ شام بلوايا اور ان کو اذيت وآزار دينے ميں کسي قسم کي کو تاہي نہيں کي
اسي کے زمانے ميں زيد بن علي بن الحسين نے قيام کيا اور شہيد ہو گئے اگرچہ عمر بن عبد العزيز کے دور ميں سختيوں ميںبہت کمي آگئي تھي ليکن اس کي مدت خلافت بہت کم تھي وہ دو سال اور کچھ مدت کے بعدسرّي طور پر(اس کو موت ايک معمہ رہي ) اس دنيا سے چلا گيا ، بني اميہ اس قدر فشار اور سختيوں کے باوجود نور حق کو خاموش نہ کر سکے اور علي ابن ابي طالب کے فضائل ومناقب کومحو نہ کر سکے چونکہ يہ خدا کي مرضي تھي، ابن ابي الحديد کہتا ہے : ''اگر خدانے علي ميں سر(راز) قرار نہ ديا ہوتاتوايک حديث بھي ان کي فضيلت و منقبت ميں موجودنہ ہوتي''اس لئے کہ حضرت کے فضائل نقل کرنے والوں پر مروانيوں کي طرف سے بہت سختي تھي?(محمد عبدہ ، شرح نہج البلا غہ، دار احياء الکتب العربيہ، قاہرہ، ج 4 ص 73)
عباسيوں کي دعوت کا آغاز اورشيعيت کا فروغ
سن 111ھ سے عباسيو ں کي دعوت شروع ہو گئي يہ دعوت ايک طرف تو اسلامي سر زمينوں ميںتشيع کے پھيلنے کا سبب بني تو دوسري طرف سے بني اميہ کے مظالم سے نجات ملي جس کے نتيجہ ميں شيعہ راحت کي سانس لينے لگے ،ائمہ معصومين عليہم السّلام نے اس زمانے ميں شيعہ فقہ وکلام کي بنياد ڈالي تشيّع کے لئے ايک دور کا آغاز ہوا ، کلّي طور پرامويوں کے زمانے ميںفرزندان علي اور فر زندان عبّاس کے درميان دو گا نگي کا وجود نہيں تھا کوئي اختلاف ان کے درميان نہيں تھا جيسا کہ سيّد محسن امين اس سلسلے ميں کہتے ہيں: ''ابنائِ علي اور بني عباس، بني اميہ کے زمانے ميں ايک راستے پر تھے، لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ بني عباس، بني اميہ سے زيادہ خلافت کے سزا وار ہيں اور ان کي مدد کرتے تھے کہ نبي عباس لوگ شيعيان آل محمد کے نام سے ياد کئے جاتے تھے اس زمانے ميں فر زندان علي و فرزندان عبّاس کے درميان نظريات و مذہب کا اختلاف نہيں تھا ليکن جس وقت بني عباس حکومت پر قابض ہوئے شيطان نے ان کے اور فرزندان علي کے درميان اختلاف پيدا کر ديا، انہوںنے فرزندان علي پر کا في ظلم وستم کيا، اسي سبب سے داعيان فرزندان عبّاس لوگوں کو آل محمّد کي خشنو دي کي طرف دعوت ديتے تھے اور خاندان پيغمبر کي مظلوميت بيان کرتے تھے
ابو الفرج اصفہاني کہتا ہے: وليد بن يزيد کے قتل اور بني مروان کے درميان اختلاف کے بعد بني ہاشم کے مبلّغين مختلف جگہوں پرتشريف لے گئے اورانہوں نيجس چيز کا سب سے پہلے اظہار کيا وہ علي ابن ابي طالب اور ان کے فرزندوں کي فضيلت تھي،وہ لوگوں سے بيان کرتے تھے کہ بني اميہ نے اولاد علي کو کس طرح قتل کيا اور ان کو کس طرح دربدر کيا ہے،جس کے نتيجہ ميں اس دور ميںشيعيت قابل ملاحظہ حد تک پھيلي يہا ں تک امام مہدي سے مربوط احاديث مختلف مقامات پر لوگوں کے درميان کافي تيزي سے منتشر ہوئي داعيان عبّاسي کي زيادہ تر فعاليت وسر گرمي کا مرکز خراسان تھا اس بنا پر وہاں شيعو ں کي تعداد ميں کافي اضافہ ہوا
يعقوبي نقل کرتا ہے : 121ھ ميںزيد کي شہادت کے بعدشيعہ خراسان ميں جوش وحرکت ميں آگئے اور اپني شيعيت کو ظاہرکرنے لگے بني ہاشم کے بہت سے مبلّغين ان کے پاس جاتے تھے اور خاندان پيغمبر ? پر بني اميہ کي طرف سے ہونے والے مظالم کو بيان کرتے تھے، خراسان کاکوئي شہر بھي ايسا نہيں تھا کہ جہاں ان مطالب کو بيان نہ کيا گيا ہواس بارے ميں اچھے اچھے خواب ديکھے گئے ،جنگي واقعات کو درس کے طور پر بيان کيا جانے لگا
مسعودي نے بھي اس طرح کے مطلب کو نقل کيا ہے جس سے يہ پتہ چلتا ہے کہ خراسان ميں کس طرح شيعيت پھيلي وہ لکھتا ہے کہ125ھميں يحيي? بن زيد جو زنجان ميں قتل ہوئے تو لوگوں نے اس سال پيدا ہونے والے تمام لڑکوں کا نا م يحيي? رکھا
اگر چہ خراسان ميں عبّاسيوں کا زيادہ نفوذتھا چنانچہ ابو الفرج، عبداللہ بن محمد بن علي ابي طالب کے حالات زندگي ميں کہتا ہے: خراسان کے شيعو ں نے گمان کيا کہ عبداللہ اپنے باپ محمّد حنفيہ کے وارث ہيںکہ جو امام تھے اور محمد بن علي بن عبداللہ بن عبّاس کو اپنا جانشين قرار ديا اورمحمدکے جانشين ابراہيم ہوئے اور وراثت کے ذريعہ امامت عباسيوں تک پہونچ گئي? (ابو الفرج اصفہاني ،مقا تل الطالبين ، منشورات ؛شريف الرضي ، قم 1416 ص 133)
يہي وجہ ہے کہ عباسيوں کي فوج ميں اکثر خراساني تھے اس بارے ميں مقدسي کا کہنا ہے : جب خدا وند عالم نے بني اميہ کے ذريعہ ڈھائے جانے والے مظالم کو ديکھا تو خراسان ميں تشکيل پانے والے لشکر کو رات کي تاريکي ميں ان پر مسلط کرديا حضرت مہدي کے ظہور کے وقت بھي آپ کے لشکر ميں خراسانيوں کے زيادہ ہونے کا احتمال ہے ?(مقدسي ، احسن التقاسيم في معرفة الاقاليم ، ترجمہ دکتر علي نقي منزوي ، شرکت مولفان و مترجمان ايران ، ج2 ص 426?427)
بہر حال اہل بيت پيغمبر ? کالوگوں کے درميان ايک خاص مقام تھا چنانچہ عباسيوں کي کاميابي کے بعد شريک بن شيخ مہري نامي شخص نے بخارا ميںخانوادہ پيغمبر پر عباسيوں کے ستم کے خلاف قيام کيا اور کہا :ہم نے ان کي بيعت اس لئے نہيں کي ہے کہ بغير دليل کے ستم کريں اورلوگوں کا خون بہائيں اور خلاف حق کام انجام ديںچنانچہ يہ ابومسلم کے ذريعہ قتل کرديا گيا ?(تاريخ يعقوبي، منشورات الرضي ، قم 1414ھ ج 2 ص 345 )
(ج) تشيع عصرامام باقر اور امام صادق عليہما السّلام ميں
امام محمد باقر ـ کي امامت کا دوسرا دور اور امام صادق عليہما السّلام کي امامت کا پہلا دور عباسيوںکي تبليغ اور علويو ں کے قيام سے متصل ہے علويوں ميں جيسے زيد بن علي ، يحيي? بن زيد ، عبداللہ بن معاويہ کہ جوجعفر طيّار کے پوتے ہيں
عباسيوں ميں رہبري کا دعوي کرنے والے ابو مسلم خراساني کا خراسان ميں قيام جو لوگوں کو بني اميہ کے خلاف ابھاررہے تھے
دوسري طرف بني اميہ آپس ميںاپنے طرفداروںکے درميان مشکلات واختلافات کاشکار تھے اس لئے کہ بني اميہ کے طرفداروں ميں مصريوں اور يمنيوں کے درميان بہت زيادہ اختلاف تھا، يہ مشکلات اور گرفتاريا ں سبب واقع ہوئيں کہ بني اميہ شيعوں سے غافل ہو گئے جس پر شيعيوں نے سکون کا سانس ليا اور شديد تقيہ کي حالت سے باہر آئے تاکہ اپنے رہبروں سے رابطہ برقرار کر يں اور دوبارہ منظم ہوں،يہ وہ دور تھا کہ جس ميں لوگ امام باقر کي طرف متوجہ ہوئے اور ان نعمتوں سے بہرہ مند ہوئے کہ جس سے برسوں سے محروم تھے، حضرت نے مکتب اہل بيت کو زندہ رکھنے کے لئے قيام کيا اور لوگوں کي ہدايت کے لئے مسجد نبي ? ميں درسي نششتيں اورجلسے تشکيل ديئے جو کہ لوگوں کے رجوع کرنے کا محل قرار پايا ان کي علمي اور فقہي مشکلات کواس طرح حل کرتے تھے کہ جو ان کے لئے حجت ہو ،قيس بن ربيع نقل کرتے ہيں کہ ميں نے ابواسحاق سے نعلين پرمسح کرنے کے متعلق سوال کيا اس نے کہا :ميں بھي تمام لوگوں کي طرح نعلين پر مسح کرتا تھا يہاں تک کہ بني ہاشم کے ايک شخص سے ملاقات کي کہ ميں نے ہر گز اس کے مثل نہيں ديکھا تھا اوراس سے نعلين پر مسح کرنے کے بارے ميں معلوم کيا تو اس نے مجھے اس کام سے منع کيا اور فرمايا امير المو منين نعلين پر مسح نہيںکرتے تھے اس کے بعد ميں نے بھي ايسا نہيں کيا ، قيس بن ربيع کہتے ہيں : يہ بات سننے کے بعد ميں نے بھي نعلين پر مسح کرنا ترک کرديا
خوارج ميں سے ايک شخص امام مُحمّد باقر کي خدمت ميں آيا اور حضر ت کو مخاطب کر کے کہا: اے ابا جعفر !کس کي عبادت کرتے ہيں؟ حضرت نے فرمايا: خُدا کي عبادت کرتا ہوں،اس شخص نے کہا :کيا اس کو ديکھا ہے؟ فرمايا: ہاں ليکن ديکھنے والے اس کا مشاہدہ نہيں کر سکتے بلکہ بہ چشم قلب حقيقت ايمان سے اس کو ديکھا جا سکتا ہے، قياس سے اس کي معرفت نہيں ہو سکتي حواس کے ذريعہ اس کو درک نہيں کياجا سکتا،وہ لوگوں کي شبيہ نہيں ہے،وہ خارجي شخص امام کي بارگا ہ سے يہ کہتا ہوا نکلا کہ خُدا خوب جانتا ہے کہ رسالت کو کہاں قرار دے
عمر و بن عبيد ،طاؤس يماني ،حسن بصري ، ابن عمرکے غلام نافع ،علمي وفقہي مشکلات کے حل کے لئے امام کي خدمت ميں حاضر ہو تے تھے?(حيدر ، اسد،امام صادق و مذاہب اربع، دار الکتاب العربي ، طبع سوم ، ج1 ص 452?453 )
امام محمد باقر عليہ السلام جس وقت مکہ ميں آتے تھے تو لو گ حلال و حرام کو جاننے کے لئے امام کے پاس آتے تھے اور حضرت کے پاس بيٹھنے کي فرصت کو غنيمت شمار کرتے تھے اور اپنے علم ودانش ميں اضافہ کرتے تھے? سر زمين مکہ پر آپ کے حلقہ درس ميں طالب علموں کے علاوہ اس زمانہ کے دانشمند بھي شريک ہوا کرتے تھے
جس وقت ہشام بن عبد الملک حج کے لئے مکہ آيااور حضرت کے حلقہ درس کو ديکھا تو اس پر يہ بات گراں گذري اس نے ايک شخص کو امام کي خدمت ميں بھيجا تاکہ وہ امام سے يہ سوال کرے کہ لوگ محشر ميں کيا کھائيں گے؟ امام نے جواب ميں فرمايا: محشر ميں درخت اور نہريں ہوںگي جس سے لوگ ميوہ کھائيںگے اور نہر سے پاني پئيں گے يہاںتک کہ حساب و کتاب سے فارغ ہوجائيں،ہشام نے دوبارہ اس شخص کو بھيجا کہ وہ امام سے سوال کرے کہ کيامحشر ميں لوگوں کو کھانے پينے کي فرصت ملے گي ؟ امام نے فرمايا:جہنم ميں بھي لوگوں کو کھانے پينے کي فرصت ہوگي اور اللہ سے پاني اور تمام نعمتوں کي درخواست کريں گے
زُرارہ کا بيان ہے امام باقرکے ہمراہ کعبہ کے ايک طرف بيٹھا ہوا تھا امام روبقبلہ تھے اور فرمايا: کعبہ کي طرف ديکھنا عبادت ہے اس وقت ايک شخص آيا اور اس نے کہا کہ کعب الاحبارکا کہنا ہے کہ کعبہ بيت المقدس کو ہر روز صبح کو سجدہ کرتا ہے، حضر ت نے فرمايا: تم کيا يہ کہتے ہو اس شخص نے کہا :کعب سچ کہتا ہے، ا مام ناراض ہو گئے اور فرمايا: تم اور کعب دونوں جھو ٹ بو لتے ہو
حضرت کے محضراقدس ميں بزرگ علمائ،فقہا اور محدّثين نے تربيت پائي ہے جيسے زُرارہ بن اعين کہ جن کے بارے ميں امام صادق نے فرماياہے: اگر زُرارہ نہ ہوتے تو مير ے والد کي احاديث کے ختم ہو جانے کا احتمال تھا
محمدبن مسلم نے امام محمد باقرسے تيس ہزار حديثيں سني تھيں ، ابو بصير جن کے بارے ميں امام صادق ـنے فرمايا:اگر يہ لوگ نہ ہوتے تو آثار نبوت پرانے ہو جاتے يا قطع ہو جاتے،اور دوسرے بزرگ جيسے يزيد بن معاويہ عجلي ،جابر بن يزيد ، حمران بن اعين ، ہشّام بن سالم حضر ت کے مکتب کے تربيت يافتہ تھے ، شيعہ علماء کے علاوہ بہت سے علمائے اہل سنّت بھي امام کے شاگرد تھے اور حضرت سے روايتيں نقل کي ہيں، سبط ابن جوزي کہتا ہے :جعفر اپنے باپ کے حوالے سے حديث پيغمبر ? نقل کرتے تھے، اسي طرح تا بعين کي کچھ تعداد نے جيسے عطا بن ابي رباح، سفيان ثوري ، مالک بن انس (مالکي فرقہ کے رہنما) شعبہ اور ابو ايوب سجستاني نے حضرت کي طرف سے حديثيں نقل کي ہيں،خلاصہ يہ کہ حضرت کے مکتب سے علم فقہ وحديث کے ہزاروںعلماء و ماہرين نے کسب فيض کيا اور ان کي حديثيں تمام جگہ پھيليں بزر گ محدّث جابر جعفي نے ستّر ہزارحديثيں حضرت سے نقل کي ہيں ، حضرت نے 114ھ ميں ساتويں ذي الحجہ کوشہادت پائي ? (کليني، اصول کافي ،دار الکتب الاسلاميہ ، تہران ، 1363ھ ش، ج1 ص 72)
جعفريہ يونيورسٹي
امام صادق کوايک مناسب سياسي موقع فراہم ہوا تھا کہ جس ميں انہوںنے اپنے والد کي علمي تحريک کو آگے بڑھايا اور ايک عظيم يونيورسٹي کي داغ بيل ڈالي کہ جس کي آوازپورے آفاق ميں گونج گئي ?
شيخ مفيد لکھتے ہيں : حضرت سے اتني مقدار ميں علوم نقل ہوئے کہ زبان زدخلائق تھے امام کي آواز تمام جگہ پھيل گئي تھي، خاندان پيغمبر ? ميں سے کسي فرد سے اتني مقدار ميں علوم نقل نہيں ہوئے ہيں
امير علي حضرت کے بارے ميں لکھتے ہيں : علمي مباحث اور فلسفي مناظروں نے تمام مراکز اسلامي ميں عموميت پيدا کرلي تھي اور اس سلسلے ميںجو رہنمائي اور ہدايت دي جاتي تھي وہ فقط اس يونيورسٹي کي مرہون منت تھي جو مدينہ ميں حضرت امام صادق عليہ السلام کے زير نظر تھي ،آپ امير المومنين کي اولاد ميں سے تھے نيز ايک عظيم وبزرگ دانشور تھے کہ جن کي نظر دقيق اور فکر عميق تھي اس دور ميں تمام علوم کے متبحرتھے، در حقيقت اسلام ميں دانشکدئہ شعبہ? معقولات کے باني تھے
اس بنا پر علم و دانش کے چاہنے والے اور معارف محمدي کے تشنہ لب افراد جوق در جوقمختلف اسلامي سر زمينوں سے امام کي طرف آتے اور تمام علوم و حکمت کے چشمہ سے بہرہ مند ہوتے تھے ، سيد الاہل کہتے ہيں : کوفہ، بصرہ، واسط اور حجاز کے ہر قبيلہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوںکو جعفر بن محمد کي خدمت ميں بھيجا عرب کے اکثر بزرگان اور فارسي دوست بالخصوص اہل قم حضر ت کے علم کدے سے شرفياب ہوئے ہيں
مرحوم محقق، معتبر ميں لکھتے ہيں:امام صادق کے زمانے ميں اس قدر علوم منتشر ہوئے کہ عقليں حيران ہيں، رجا ل کي ايک جماعت ميں چار ہزار افراد نے حضرت سے روايتيں نقل کي ہيں اور ان کي تعليمات کے ذريعہ کافي لوگوںنے مختلف علوم ميں مہارت پيدا کي ، يہا ں تک کہ حضر ت کے جوابات اورلوگوںکے سوالات سے چارسو کتابيںمعرض وجود ميں آگئيںکہ جن کو اصولاربعہ ماة کا نام ديا گيا
شہيد اوّل بھي کتاب ذکري? ميں فرماتے ہيں: امام صادق عليہ السلام کے جوابات لکھنے والے عراق و حجاز اور خُراسان کے چار ہزار افراد تھے
حضرت کے مکتب کے برجستہ ترين دانشمند جو مختلف علوم منقول و معقول کے ماہر تھے جيسے ہشّام بن حکم ، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم ، مومن طاق مفضل بن عمر ،جابر بن حيا ن و غيرہ ?
ان کي تصنيف جو اصول اربع مائةکے نام سے مشہور ہے جو کافي، من لا يحضر ہ الفقيہ،تہذيب،استبصار کي اساس و بنياد ہے
امام صادق کے شاگر د صرف شيعہ ہي نہيں تھے بلکہ اہل سنّت کے بزرگ دانشوروں نے بھي حضرت کي شاگردي اختيارکي تھي، ابن حجر ہيثمي اہل سنّت کے مصنف اس بارے ميں لکھتے ہيں: فقہ وحديث کے بزرگ ترين پيشوا جيسے يحيي? بن سعد ، ابن جريح مالک ، سفيان ثوري ، سفيان بن عيينہ، ابو حنيفہ، شعبي وايوب سجستاني وغيرہ نے حضرت سے حديثيں نقل کي ہيں
ابو حنيفہ حنفي فرقہ کے پيشوا کہتے ہيں : ايک مدت تک جعفر بن محمد کے پاس رفت و آمدکي، ميں ان کوہميشہ تين حالتوں ميں سے کسي حالت ميں ضرور ديکھتا تھا يا نماز ميں مشغول ہو تے تھے يا روزہ دار ہواکرتے تھے يا تلاوت قرآن کريم ميں مصروف رہتے تھے ميں نے کبھي نہيں ديکھا کہ انہوں نے بغير وضو کے حديث نقل کي ہو ،علم وعبادت اور پرہيزگاري ميں جعفر بن محمد سے بر تر نہ آنکھوں نے ديکھا اور نہ کانوں نے سنا اور نہ کسي کے بارے ميں دل ميںايسا تصور پيدا ہوا
آپ کے درس ميں صرف وہي لوگ شريک نہيں ہوئے کہ جنہوں نے بعد ميں مذاہب فقہي کي بنيا د رکھي بلکہ دور ودراز کے رہنے والے فلاسفرا ور فلسفہ کے طالب علم آپ کے درس ميں حاضرہوتے تھے، انہوں نے اپنے امام سے علوم حاصل کرنے کے بعداپنے وطن ايسي درسگاہيں تشکيل ديں کہ جس ميں مسلمان ان کے گرد جمع ہوتے تھے
اور يہ لوگ معارف اہل بيت سے لوگوں کو سيراب کرتے تھے اور تشيع کو فروغ ديتے تھے، جس وقت ابان بن تغلب مسجد بني? ميں تشريف لاتے تو لوگ اس ستون کو کہ جس سے پيغمبر? تکيہ لگا تے تھے ان کے لئے خالي کرديتے تھے اور وہ لوگوں کے لئے حديث نقل کرتے تھے، امام صادق نے ان سے فرمايا: آپ مسجد نبوي ميں بيٹھ کے فتوي? ديجيے ميں دوست رکھتا ہو ں کہ ميرے شيعوں کے درميان آپ جيسے شخص ديکھنے ميں آئيں
ابان پہلے شخص ہيں جنہوں نے علوم قرآن کے بارے ميں کتاب تاليف کي ہے اور علم حديث ميں بھي انہيں اس قدر مہارت حاصل تھي کہ آپ مسجد نبوي ? ميں تشريف فرما ہوتے اور لوگ آآکر آپ سے طرح طرح کے سوالات کرتے تھے اور مختلف جہت سے ان کے جوابات ديتے تھے مزيد احاديث اہل بيت کوبھي ان کے درميان بيان کرتے تھے ،
ذہبي ميزان الاعتدال ميں ان کے بارے ميںلکھتے ہيں: ابان کے مثل افراد جو تشيع سے متہم ہيں اگر ان کي حديث رد ہو جائے تو کافي آثار نبوي? ختم ہو جائيں گے
ابو خالد کابلي کا بيان ہے: ابو جعفر مومن طاق کو مسجد نبي ميں بيٹھے ہوئے ديکھا مدينہ کے لوگوں نے ان کے اطراف ميں ہجوم کر رکھا تھا، لوگ ان سے سوال کر رہے تھے، اور وہ جواب دے رہے تھے
شيعيت اس دور ميں اس قدر پھيلي کہ بعض لوگوں نے اپني اجتماعي حيثيت کے چکر ميں اپني طرف سے حديث جعل کرنا شروع کرديا اور احاديثِ ائمہ طاہرين کي بيجاتاويل کرنے لگے نيزاپنے نفع ميں روايات ائمہ کي تفسير کر نے لگے ،جيسا کہ امام صادق نے اپنے صحابي فيض ابن مختار سے اختلاف احاديث کے بارے ميں فرمايا :وہ ہم سے حديث اور اظہار محبت ميں رضائے خُدا طلب نہيں کرتے بلکہ دنيا کے طالب ہيں اور ہر ايک اپني رياست کے چکر ميں لگا ہوا ہے
شيعہ عبّاسيو ں کے دور ميں
شيعيت 132 ھ يعني عباسيوں کے آغازسے غيبت صُغري? کے آخريعني 321 ھ تک امويوں کے دور کي بہ نسبت زيادہ پھيلي، شيعہ دور و دراز کے علاقہ ميں منتشر اوربکھرے ہوئے تھے جيسا کہ ہارون کے پاس امام موسي? کاظم عليہ السلام کي شکايت کي جاتي تھي کہ دنيا کے مشرق ومغرب سے آپ کے پاس خُمس آتا ہے، (شيخ مفيد ،الارشاد،ترجمہ محمد باقر ساعدي ، خراساني ، کتاب فروشي اسلاميہ ، 1376ھ، ص 581)جس وقت امام رضا نيشا پورآئے دو حافظان حديث جن ميں ابو زرعہ رازي اور محمد بن مسلم طوسي اور بے شما رطالبان علم حضرت کے ارد گرد جمع ہو گئے اور امام سے خواہش ظاہرکي کہ اپنے چہرئہ انور کي زيارت کرائيں اس کے بعد مختلف طبقات کے لوگ جو ننگے پائوں کھڑے ہوئے تھے ان کي آنکھيں حضرت کے جمال سے روشن ہوگئيں، حضرت نے حديث سلسلة الذہب ارشاد فرمائي بيس ہزار کاتب اور صاحبان قلم نے اس حديث کو لکھا?(شيخ صدوق ، عيون اخبار الرضا ،طبع قم ، 1377 ھ ق، ج2 ص 135)
اسي طرح امام رضا نے ولي عہدي قبول کر نے کے بعد مامون سے کہ جو حضرت سے بہت کچھ توقع رکھتاتھا،اس کے جواب ميں فرمايا: اس ولي عہد ي نے ميري نعمتو ں ميں کوئي اضافہ نہيں کيا ہے جب ميں مدينہ ميں تھا تو ميرالکھاہوا شرق وغرب ميں اجر ا دہوتا تھا
اسي طرح ابن داؤد جو فقہا ئے اہل سنّت ميں سے تھا اور شيعوں کا سرسخت مخالف اور دشمن تھا اس کا اعتراف کر نا بھي اہميت کا حامل ہے اس سے پہلے کہ معتصم عباسي چور کے ہاتھ کاٹنے کے بارے ميں امام جواد کي رائے کو فقہا ئے اہل سنت کے مقابلہ ميںقبول کرے ،ابن داؤد تنہائي ميں اس کومشورہ ديتا ہے کہ کيوں اس شخص کي بات کو کہ آدھي امت جس کي امامت کي قائل ہے درباريوں، وزيروں ،کاتبوں اور تمام علما ئے مجلس کے سامنے ترجيح ديتے ہيں ،يہا ں تک کہ شيعيت حکومت بني عباس کے فرمانروائوں اور حکومت کے لوگوں کے درميان بھي پھيل گئي تھي جيسا کہ يحيي? بن ہر ثمہ نقل کرتا ہے
عباسي خليفہ متوکل نے مجھے امام ہادي کو بلانے کے لئے مدينہ بھيجا جس وقت ميں حضرت کو لے کر اسحاق بن ابراہيم طاہري کے پاس بغداد پہنچا جو اس وقت بغداد کا حاکم تھاتو اس نے مجھ سے کہا: اے يحيي?! يہ شخص رسول ? خُدا کا فرزند ہے ،تم متوکل کو بھي پہچانتے ہو اگر تم نے متوکل کو ان کے قتل کے لئے برانگيختہ کيا تو گويا تم نے رسول? خُدا سے دشمني کي، ميں نے کہا: ميں نے اس سے نيکي کے علاوہ کچھ نہيں ديکھا ،اسکے بعد ميں سامرہ کي طرف روانہ ہو ا جس وقت ميں وہاں پہونچا سب سے پہلے وصيف ترکي کے پاس گيا اس نے بھي مجھ سے کہا، اگر اس شخص کے سر کا ايک با ل بھي کم ہو گيا تو تم ميرے مقابلہ ميں ہو
سيّد محسن امين نے اپني کتاب کي پہلي جلد ميں عباسي حکومت کے چند افراد کو شيعوں ميں شمار کيا ہے منجملہ ان ميں سے ابو سلمہ خلال ہيںکہ جو خلافت عباسي کے پہلے وزير تھے اور وزير آل محمد کے لقب سے مشہور تھے ، ابو بجير اسدي بصري منصور کے زمانے ميں بزرگ فرمانروائوں ميںمحسوب ہوتے تھے، محمد بن اشعث ہارون رشيدکے وزير تھے اور امام کاظم کي گرفتاري کے وقت اسي شخص سے منسوب داستان ہے جو اس کے شيعہ ہونے پر دلالت کرتي ہے، علي بن يقطين ہارون کے وزيروں ميں سے تھے،اسي طرح يعقوب بن داؤد مہدي عباسي کے وزير اور طاہر بن حسين خزاعي مامون کے دور ميں خراسان کے حاکم اور بغداد کے فاتح تھے ،اسي وجہ سے حسن بن سہل نے ان کو ابي السرايا کي جنگ ميں نہيں بھيجا? (اعيان الشيعہ،دارالتعارف للمطبوعات ، بيروت ،ج 1 ص 191 )
اسي طرح بني عباس کے دور ميںمن جملہشيعہ قاضيوں کي فہرست يوں ہے: شريک بن عبداللہ نخعي کوفہ کے قاضي اورواقدي مشہور مورّخ جو مامون کے دور ميں قاضي تھے ،يہاں تک کہ تشيع ان مناطق ميں کہ جہاںپر عباسيوں کارسوخ و نفوذ تھااس قدر پھيل گئي تھي کہ ان کو بڑا خطرہ لا حق ہونے لگاتھا جيسا کہ امام کاظم کي تشييع جنازہ کے موقع پر سليمان بن منصورکہ جوہارون کا، چچا تھااس نے شيعوں کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جوکافي تعداد ميں جمع تھے آپ کے جنازہ ميں پا برہنہ شرکت کي
اسي طرح جس وقت امام جواد شہيد ہوئے وہ چاہتے تھے کہ ان کو مخفي طور پر دفن کرديں ليکن شيعہ باخبر ہو گئے اور بارہ ہزار افراد مسلح ہوکرہاتھوں ميں تلوار لئے گھروں سے باہر آگئے اور عزت و احترام کے ساتھ حضرت کے جنازہ کي تشييع کي امام ہادي کي شہادت کے موقع پر بھي شيعوں کي کثرت کي بنا پر اور بہت کافي گريہ و بکا کي وجہ سے مجبور ہوئے کہ حضرت کو ان کے گھر ميں دفن کرديں
امام رضاعليہ السلام کے دور کے بعدعباسي خُلفا نے فيصلہ کيا کہ ائمہ طاہرين کے ساتھ اچھي رفتار سے پيش آئيں تاکہ شيعوں کے غصّہ کا سبب نہ بنيں، اسي بنا پرمام رضا کو ہارون کے دور ميں نسبتاً آزادي حاصل تھي اور آپ نے شيعوں کے لئے علمي ا و رتبليغي
فعاليت وسر گرمياںبھي انجام ديںنيز اپني امامت کا کھل کر اعلان کيا اور تقيہ سے باہر آئے مزيد دوسرے تمام فرق و مذاھب کے اصحاب سے بحث وگفتگو کي، اور ان ميں سے بعض کوجواب سے مطمئن کيا جيسا کہ اشعري قمي نقل کرتا ہے: امام کاظم اور امام رضا کے زمانے ميں اہل سنّت فرقہ سے مرحبہ? اور زيديوں کے چند افراد شيعہ ہو گئے اور ان دو اماموں کي امامت کے قائل ہوگئے
بعض خُلفائے عباسي کي کوشش يہ تھي کہ ائمہ طاہرين کو اپني نظارت ميں رکھيں تاکہ ان پر کنٹرول کر سکيں، ان حضرات کو مدينہ سے لاتے وقت اس بات کي کوشش کي کہ ان کو شيعہ نشين علاقہ سے نہ گذارا جائے ،اسي وجہ سے امام رضا کو مامون کے دستور کے مطابق'' بصرہ'' ،''اہواز'' اور'' فارس'' کے راستے سے مرو لے گئے نہ کہ کوفہ،جبل ا ور قم کے راستے سے کيونکہ يہ شيعوں کے علاقے تھے
يعقوبي کے نقل کے مطابق جس وقت امام ہادي عليہ السلام کو متوکل عباسي کے دستور کے مطابق سامرّہ لے جايا گيا توجس وقت آپ بغداد کے نزديک پہنچے تب اس بات سے باخبر ہوئے کہ کافي تعداد ميں لوگ امام کے ديدار کے منتظر ہيں يہ لوگ وہيںٹھہر گئے اور رات کے وقت شہر ميں داخل ہوئے اور وہاں سے سامرہ گئے ،
عباسيوں کے دور ميں شيعہ حضرات ،دور د ر از اور مختلف مناطق ميں پراگندہ تھے ائمہ طاہرين نے وکالت کے نظام کي داغ بيل ڈالي اور مختلف مناطق اور شہروں ميں اپنے نائب اور وکيل معين کئے تاکہ ان کے اور شيعوں کے درميان رابطہ قائم ہوسکے، يہ مطلب امام صادق کے زمانے سے شروع ہوا اس وقت خلفا کا کنٹرول ائمہ طاہرين پر جتنا شديد ہو تا گيا اتني ہي شيعو ں کي دسترسي اماموں تک مشکل ہوتي گئي اور اسي اعتبار سے وکالت اور وکيلوں کے نظام کي اہميت ميں اضافہ ہوتاگيا ، کتاب تاريخ عصر غيبت ميں آيا ہے کہ مخفي کميٹيو ں کے پھيلنے اورتقويت پانے کا سب سے اہم ترين سبب وکلا ہيں،يہ نظام امام صادق کے زمانے سے شروع ہوا اور عسکريين کے دور ميںاس ميں بہت زيادہ ترقي اور وسعت ہوئي
استاد پيشوائي اس بارے ميں لکھتے ہيں : شيعہ ائمہ جن بحراني شرائط سے عباسيوں کے زمانے ميں رو برو تھے وہ سبب بناکہ ان کي پيروي کرنے والوں کے درميان رابطہ برقرار کرنے کے لئے نئے وسائل کي جستجوکي جائے اور ان کي بروئے کار لايا جائے اور يہ وسائل وکالت کے ارتباط اور نمائندوںسے رابطہ نيز وکيلوںکا تعين کرنا مختلف مناطق ميں امام کے توسط سے تھا، وکلا اورنمائندوں کے معين کرنے کا مقصد مختلف مناطق سے خمس و زکو?ة،ہدايا اورنذورات کي رقم کا جمع کرنا تھا اور وکلاکے توسط سے لوگوں کي طرف سے ہونے والي فقہي مشکل اور عقيدتي سوالات کا امام کو جواب دينا تھا چنانچہ اس طرح کي کميٹياں امام کے مقاصدکوآگے بڑھانے ميں کافي مؤثر رہيں
وہ مناطق اور علاقے کہ جہاں امام کے وکيل ا و ر نائب ہوا کرتے تھے وہ مندرجہ ذيل ہيں، کوفہ ، بصر ہ ، بغداد قم،و ا سط، اہواز ،ہمدان ،سيستان ، بست ،ري ، حجاز ، يمن ، مصر ا و رمدائن ?
شيعہ مذہب چوتھي صدي ہجري ميں ،شرق وغرب اور اسلامي دنيا کے تمام مناطق ميں اتني اوج اور بلندي پيدا کر چکا تھا کہ اس کے بعد اور اس سے پہلے ايسي وسعت ديکھنے ميں نہيں آئي… مقدسي نے شيعہ نشين شہروں کي فہرست اس دور کے اسلامي سر زمين ميں جو پيش کي ہے وہ اس مطلب کي طرف نشاندہي کرتي ہے ، ہم اس کي کتاب سے وہ عبارت نقل کرتے ہيں جس ميں اس نے ايک جگہ کہا ہے: يمن ، کرانہ ، مکہ اور صحار ميں اکثر قاضي معتزلي اور شيعہ تھے
جزيرة العرب ميں بھي کافي شيعيت پھيلي ہوئي تھي، اہل بصرہ کے ارد گردرہنے والوں کے بارے ميں ملتا ہے کہ اکثر اہل بصرہ قدري ،شيعہ ، معتزلي ياپھر حنبلي تھے کوفہ کے لوگ بھي اس صدي ميں کناسہ کے علاوہ سب شيعہ تھے ، موصل کے علاقوں ميں بھي کچھ شيعہ موجود تھے ،اہل نابلس ، قدس اور عُمان ميں بھي شيعوں کي اکثريت تھي ،قصبہ فسطاط او ر صند فا کے لوگ بھي شيعہ ہي تھے سندہ کے شہر ملتان ميں بھي شيعہ تھے کہ جو اذان واقامت ميں ہرفقرے کو دو بار پڑھتے ہيں
اہواز ميں شيعہ اور سني کے درميان حالات کشيدہ رہے اورجنگ تک نوبت پہونچ گئي
مقريزي نے بھي حکومت آل بويہ اور مصري فاطميوںکي طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے رافضي مذہب مغرب کے شہروں ميںشام ، ديار بکر ، کوفہ ، بصرہ ، بغداد ، پورے عراق، خراسان کے شہر، ماوراء النہراور اسي طرح حجاز، يمن، بحرين، ميں پھيل گيا ، ان کے اور اہل سنت کے درميان اس قدر جنگيں ہوئيںکہ جن کو شمارنہيں کيا جا سکتا ، (6) اس صدي ميں بغداد ميں بھي اکثر شيعہ ہي تھے جب کہ بغدادبني عباس کي خلافت کا مرکز تھا اور جتنا ہو سکتا تھا روز عاشو را کھل کر آزادانہ طور پر عزاداري کرتے تھے ،جيسا کہ ابن کثير کا بيان ہے شيعوں کي کثرت اورحکومت آل بويہ کي حمايت کي بنا پر اہل سنت ان کو اس عزاداري سے نہيں روک سکے، اس زمانے ميں شيعوںکے لئے اتنا زيادہ راستہ ہموار ہو گيا تھا کہ اکثر اسلامي سرزمينيں شيعہ حاکموں کے زير تسلط تھيں، ايران کے شمال ميں، گيلان اور مازندران ميں طبرستان کے علوي حکومت کرتے تھے ،مصر ميں فاطمي ، يمن ميں زيدي ، شمال عراق او ر سوريہ ميں حمداني اور ايران وعراق ميں آل بويہ حکومت کرتے تھے ، البتہ بعض عباسي خلفا جيسے مھدي ، امين ، مامون، معتصم واثق اور منتصر ان کے زمانے ميں شيعہ نسبتاً عملي طورسے آزاد تھے، ان خلفا کے زمانے ميں پہلے کي بہ نسبت سخت گيري کم ہو گئي تھي ، يعقوبي کے نقل کے مطابق مھدي عباسي نے طالبيان او ر شيعوں کو کہ جو زندان ميں تھے آزاد کر ديا تھا
امين کي پنج سالہ دور حکومت ميں بھي عيش ومستي اور اپنے بھائي مامون سے جنگ ميں مشغول ہونے کي وجہ سے شيعوں پر سختي کم تھي مامون ، معتصم، واثق ، اور معتضدعباسي بھي شيعيت کي طرف مائل تھے ،ليکن متوکل خاندان پيغمبر ? اور شيعوں کا سخت ترين دشمن تھا اگر چہ اس کے دور ميں شيعہ کنٹرول کے قابل نہيں تھے اس کے باو جود بھي و ہ زيارت قبر امام حسين عليہ السلا م سے روکتا تھا
ابن اثيرکا کہناہے: متوکل اپنے سے پہلے خلفا، جيسے مامون ، معتصم ، واثق جو علي ا و ر خاندان علي سے محبت کا اظہار کرتے تھے ان سے دشمني رکھتا تھا اور جن کا شمار دشمنان علي ميں ہوتاتھا مثلاً شامي شاعر علي بن جہم ، عمر بن فرج ، ابو سمط اور مروان بن ابي حفصہ کي اولاديں کہ جو بني اميہ کا دم بھرتي تھيں اسي طرح عبداللہ بن محمد بن داؤد ھاشمي کہ جو ناصبي اور دشمن علي تھا اس کے ساتھ اس کا اٹھنا بيٹھنا تھا? اس دور ميں ناصبي اور بے دين شاعروں ميں متوکل سے نزديکي کي وجہ سے يہ جرا?ت پيدا ہوگئي تھي کہ خاندان پيغمبر? کے خلاف اشعار کہنے لگے، ليکن متوکل کے جانشين منتصر نے اس روش کے خلاف کام کيا اور شيعوں کو عملي آزادي دي اور قبر امام حسين کي تعمير کرائي اور زيارت کي ممانعت کو بر طرف کر ديا
اس دور کے شاعر بحتري نے اس طرح کہا ہے:
انّ علياًلاولي بکم
وازکي يداًعند کم من عمر .
عمر کي بہ نسبت حضرت علي عليہ السلام زيادہ مقرب و مقدس ہيں
عبّاسي خلفاء کي شيعہ رہبروں پرکڑي نظر
عباسي حکومت نے 329ھ تک کلي طور پر ايراني وزرا ء اور افسروں نيزترک فوجيوں کي برتري کے دو دور گذارے ہيں، اگر چہ ترکوں کے دور ميں خلافت کي باگ ڈور ضعيف رہي اورزيادہ تر عباسي خلفاکے افسر اور نمائندے ترک تھے ،اور کلي طور پر حکومت کي سياست شيعوں کے خلاف تھي عباسيوں کے دور ميں تشيّع کے زيادہ پھيلنے کي بنا پر عباسي خُلفا کي سياست يہ تھي کہ شيعہ قائدين پر سخت نظر رکھي جائے ،اگر چہ شيعوں کے سلسلہ ميں خلفاکا رويہ ايک دوسرے سے مختلف تھا بعض ان ميں سے جيسے منصور ،ہادي ،رشيد ، متوکل ، مستبدحددرجہ سخت گير اور خون بہانے والے تھے ان ميں سے بعض دوسر ے جيسے مہدي عباسي ، مامون واثق اپنے پہلے خلفا کي طرح بہت زيادہ سخت گير نہيں تھے اور ا ن کے زمانہ ميں شيعہ کسي حد تک آرام کي سانس لے رہے تھے،جس وقت منصور عباسي نے محمد نفس زکيہ اور ان کے بھائي ابراہيم کي طرف سے خطرہ کا احساس کيا تو اس نے ان کے باپ ، بھائيوں اور چچاؤں کو گرفتار کيا اور زندان ميں ڈال ديا ?(مسعودي ، علي بن حسين ، مروج الذھب ،منشورات الاعلمي للمطبوعات ، بيروت ، ج 3 ،ص 324 )
منصور نے بارہا امام صادق ـ کو دربار ميں بلوايا اور حضرت کے قتل کا ارادہ کيا ليکن خُدا کاارادہ کچھ اور ہي تھا ،(تذکرة الخواص ، منشورات المطبعة الحيدريہ ومکتبتھا ، النجف الاشرف ،1383 ھ ،ص 344 )
خلفائے عباسي کي کوشش يہ ہوتي تھي کہ وہ شيعہ رہنمائوں کو جو ان کے رقيب ہوا کرتے تھے ان کو راستے سے ہٹاديا جائے يہاں تک کہ منصور نے ابن مہاجر نام کے ايک شخص کو کچھ رقم ديکر مدينہ بھيجا تاکہ وہ عبداللہ ابن حسن اور امام صادق عليہ السّلام اور بعض دوسرے علويوںکے پاس جائے اور ان سے کہے کہ ميں خراسان کے شيعوں کي طرف سے آيا ہوں اور اس رقم کو ان کے حوالہ کر کے ان سے دستخط لے لے، امام صادق نے اس کو اس بات کي طرف متوجہ کيا کہ تم کو منصور نے بھيجا ہے اور اس سے تاکيد کي کہ منصور سے جاکرکہنا :علويوں کو ابھي کچھ عرصہ سے مرواني حکومت سے نجات اور راحت ملي ہے اورانہيں ابھي اس کي ضرورت ہے، ان کے ساتھ حيلہ اور فريب نہ کر
اسدحيدر کہتے ہيں: منصورنے اما م صا دق کو ختم کرنے کے لئے مختلف وسيلوں کا سہارا ليا اور شيعوں کي طرف سے ان کو خط لکھوايا اور ان کي طرف سے آپ کي خدمت ميں کچھ مال بھيجا ليکن ان ميںسے کسي ايک ميں بھي کامياب نہيں ہو سکا
جس وقت منصور کوامام صادق عليہ السّلام کي شہادت کي خبر ملي تو اس نے مدينہ کے حاکم محمد بن سليمان کوخط لکھا کہ اگر جعفر بن محمد نے کسي معين شخص کو اپنا وصي قرار ديا ہے تو اس کو پکڑ ليا جائے اور اس کي گر دن اُڑادي جائے، تو مدينہ کے حاکم نے اس کے جواب ميں لکھا : جعفر بن محمد نے ان پانچ افراد کو اپنا وصي قرار ديا ہے ، ابو جعفر منصور ،محمد بن سليمان عبداللہ ، موسي? اور حميدہ ،اس وقت منصور نے کہا:تب ان کو قتل نہيں کيا جاسکتا ،مہدي عباسي اپنے باپ کي طرح شيعو ں اور علويوں کے لئے سخت گير نہيں تھا
يعقو بي نقل کرتا ہے: مہدي جب خليفہ ہوا تواس نے دستور ديا جتنے بھي علوي زندان ميں ہيں ان کو آزاد کرديا جائے ،اس وجہ سے اس کے زمانے ميں کوئي بھي علوي قيام وجود ميں نہيں آيا ، ابوالفرج اصفہاني نے فقط دو کا ذکر کيا ہے کہ جو اس کے زمانے ميں مارے گئے ايک علي عبّاس حسني کہ جن کو زہر کے ذريعہ قتل کيا گيا دوسرے عيسي? بن زيدکہ جن کي نا معلوم طريقہ سے موت واقع ہوئي وہ منصور کے زمانے سے پوشيدہ طور پر زندگي بسر کررہے تھے
ہادي عباسي کے زمانے ميں علويوں اور شيعوں کے بڑے قائدين پر شديد فشار تھا جيسا کہ يعقوبي نے لکھا ہے:ہادي نے شيعوں اور طالبيوں پر بہت سختي کر رکھي تھي اور ان کو بہت زيادہ ڈرا رکھا تھا اور وہ وظائف او رحقوق کہ جو مہدي نے اپنے زمانے ميں ان کے لئے مقرر کئے تھے ان کو قطع کر ديا اور شہروں کے حاکم ا و ر فرمانروائوں کو يہ لکھ بھيجا کہ طالبيوں کا تعاقب کريں اور ان کو گرفتار کر ليں ، اس غلط رويے کے خلاف اعتراض کرتے ہوئے حسين بن علي کہ جو سادات حسني سے تعلق رکھتے تھے( شہيد فخ ) نے قيام کيااور اس جنگ ميں حسين کے علاوہ بہت سے علوي قتل ہوئے
يہ جنگ امام کاظم عليہ السلام پرشديد فشارکا باعث بني ،ہادي عباسي نے حضرت کوڈرايا اور اس طرح سے کہا :خُدا کي قسم حسين (شہيد فخ ) نے موسي? بن جعفر کے دستور کي بنا پر مير ے مقابل قيام کيا ہے اوروہ اس نے ان کے تابع اور پيروہيں کيوں کہ اس خاندان کا امام او ر پيشوا موسي? بن جعفر کے سوا کوئي اورنہيں ہے، خُدا مجھے موت ديدے اگر ميں ان کو زندہ چھوڑدوں،ليکن وہ اپني موت کا وقت قريب آنے سے اپنے ارادہ کو نافذ نہ کر سکا
دوسر ي صدي ہجري ميں منصور کے بعد ہارون رشيد علويوں اور شيعہ قائدين کے لئے سخت تر ين خليفہ تھا ،ہارون علويوں کے ساتھ بے رحمانہ رفتار رکھتا تھا اس نے يحيي بن عبداللہ محمد نفس زکيہ کے بھائي کو امان دينے کے بعد بے رحمانہ طريقہ سے زندان ميں ڈالا اور قتل کر وا د يا
اسي طرح ايک داستان عيون اخبار الرضا ميں ذکر ہوئي ہے جو ہارون رشيد کي بے رحمي کي حکايت کرتي ہے، حميد بن قحطبہ طائي طوسي نقل کرتا ہے : ہارون نے ايک شب مجھ کو بلوايا اور حکم ديا کہ اس تلوار کو پکڑو اور اس خادم کے دستور پر عمل کرو خادم مجھے ايک گھر کے پاس لايا جس کا دروازہ بند تھا ، اس نے دروازہ کو کھولا اس گھر ميں تين کمرے اور ايک کنواں تھا اس نے پہلے کمرہ کو کھولا او ر اس ميں سے بيس سيّدوں کو باہرنکا لا جن کے بال بلند اور گھنگھريلے تھے ،ان کے درميان بوڑھے اور جوان دکھائي دے رہے تھے ان سب کو زنجير وں ميں جکڑا گيا تھا ہارون کے نوکر نے مجھ سے کہا: امير المومنين کا دستور ہے کہ ان سب کو قتل کردو يہ سب اولاد علي ا و راولاد فاطمہ ? سے ہيں ، ميں ايک کے بعد دوسرے کو قتل کرتا گيا اور نو کر ان کے بدن کو سروں کے بل کنويں ميں ڈالتا رہا ،اس کے بعد اس نے دوسر ے کمرہ کو کھولا اس کمرہ ميں بھي بيس افراد اولاد علي او راولاد فاطمہ ميں سے تھے ميں نے ان کو بھي پہلے افراد کي طرح ٹھکانے لگاديا،اس کے بعد تيسرے کمرہ کو کھولا اس ميں دوسرے بيس افراد اہل سادات تھے ميں نے ان کو بھي پہلے والے چاليس افراد کے ساتھ ملحق کرديا ، صرف ايک بوڑھا شخص باقي رہ گيا تھا وہ ميري طرف متوجہ ہوا اور اس نے مجھ سے کہا: اے منحوس آدمي! خُدا تجھے نابود کرے روز قيامت ہمارے جد رسول ? خُدا کے سامنے کيا عذر پيش کرے گا اس وقت ميرے ہاتھ کانپنے لگے تو نوکر نے غضبناک آنکھوں سے مجھے ديکھا اور دھمکي دي تو ميں نے بوڑھے آدمي کوبھي قتل کرديا اور نوکر نے اس کا بدن بھي کنويں ميں ڈال ديا
آخر کا ر ہارون رشيد نے امام کاظم عليہ السلام کو باوجود اس کے کہ وہ ان کے مقام و مرتبہ کاقائل تھا گرفتار کيا اور زندان مين ڈال ديا اور آ خر ميں ز ہر دے کر آپ کو شہيد کرديا? (طبرسي ، ابو علي فضل بن حسين، اعلام الوري? ، موسسئہ آل البيت لا حياء التراث ، قم ، 1417 ، ھ ج2، ص 34)
امام کاظم عليہ السّلام کي شہادت کے بعد ہارون رشيد نے اپنے سرداروں ميں سے
ايک جلودي نامي شخص کو مدينہ بھيجا تاکہ آل ابي طالب کے گھروں پر حملہ کرے، اورعورتوں کے لباس لوٹ لے ہر عورت کے لئے صرف ايک لباس چھوڑدے امام رضادروازے پر کھڑے ہوگئے اور آپ نے عورتوں کو حکم ديا کہ تم اپنے اپنے لباس ان کے حوالے کر دو? مامون ،عباسي خلفا ميں سب سے زيادہ سياست مدارتھا کہ جس نے شيعہ اماموںاور رہبروں پر پابندي کے لئے ايک نئي روش اختيار تاکہ ائمہ اطہار کو زير نظر رکھ سکے، مامون کے مہم ترين انگيزوں ميں سے ايک انگيزہ امام رضا کي ولي عہدي اسي مقصد کے لئے تھي جيسا کہ مامون نے اِس سياست کو دوسري بار امام جواد کے لئے بھي انجام ديا اور اپني بيٹي کي شادي آپ کے ساتھ کردي تاکہ مدينہ ميں آپ کي فعاليت وسر گرمي پر نظر رکھ سکے مامون کے بعد والے خُلفانے بھي اس روش کو اختيار کيا اور ہميشہ ائمہ معصومين عليہم السلام حکومت کے جبر سے مرکز خلافت ميں زندگي بسر کرتے رہے يہاں تک کہ دسويں اور گيارہويںامام سامرہ ميں زندگي گذارنے کي وجہ سے جو ايک فوجي شہر تھا عسکريين کے نام سے مشہور ہو گئے
عباسيوں کے زمانے ميں شيعوں کي کثرت کے ا سباب
شيعيت عباسيوں کے دور ميں روز بروز بڑھتي گئي اس مسئلہ کے کچھ عوامل واسباب ہيں کہ ان ميں سے بعض کي طرف ہم اشارہ کرتے ہيں:
(1)ہاشمي اور علوي بني اميہ کے زمانے ميں:
بني اميہ کے دور ميں ہاشمي چاہے علوي ہوں يا عباسي متحد تھے اور ہشام کے زمانے سے عباسيوں کي تبليغ شروع ہوگئي تھي وہ زيد اور ان کے فرزند يحيي? کے قيام کے ساتھ ہم آہنگي رکھتے تھے انہوں نے تشيع کي بنياد پر اپنے کام کا آغاز کر ديا تھا جيساکہ ابو الفرج اصفہاني کا بيان ہے :
جس وقت اموي خليفہ وليد بن يزيد قتل ہوااور مروانيوں کے درميان اختلاف پيدا ہوگيا تو بني ہاشم کے مبلغين مختلف علاقے ميں ہجرت کر گئے اور سب سے پہلے جس چيز کا اظہار کيا وہ حضرت علي کي افضليت اور ان کے فرزندوں کي مظلوميت تھي
منصور عباسي جو حديث غدير کے راويوں ميں سے ايک تھاجس وقت عباسي سپاہيوںنے علويوں کے مقابلہ ميں ان کي سياست کو ديکھا تواس کو قبول نہيں کيا اوران کا عباسيوں کے ساتھ اختلاف پيدا ہوگيا، ابو سلمہ خلال جو عراق ميں عباسيوںکي جانب لوگوں کو دعوت دينے والا تھا
علويوں کي طرف ميلان کي وجہ سے عباسيوں کے ہاتھوں قتل ہوگيااگر چہ يہ شخص عقيدہ کے اعتبار سے شيعہ نہيں تھا مگر خاندان پيغمبر ? سے جواس کو لگائو تھا اس سے
انکار نہيں کيا جا سکتا، خاص کرقبيلہ? حمدان سے اور کوفہ کا رہنے والا تھا
قحطاني قبائل کے درميان قبيلہ? حمدان تشيع ميں سب سے آگے تھا چنانچہ سيد محسن امين نے اس کو وزراء شيعہ ميں شمار کيا ہے،حتي? شروع ميںخود عباسيوں نے بھي ذريت پيغمبر? کي محبت سے انکار نہيں کيا ہے جيسا کہ لکھا ہے :جس وقت بني اميہ کے آخري خليفہ مروان بن محمد کا سر ابوالعباس سفاح کے سامنے لايا گيا تو وہ طولاني سجدہ بجالايا اور اس نے سر کو اٹھا کر کہا: حمد اس خدا کي جس نے مجھے تيرے اوپر کاميابي عطا کي، اب مجھے اس بات کاغم نہيں ہے کہ ميں مر جائوں کيونکہ ميں نے حسين اوران کے بھائي اور دوستوں کے مقابلہ ميں بني اميہ کے دو سوافراد کو قتل کرديا، اپنے چچا کے بيٹے زيد بن علي کے بدلے ميں ہشام کي ہڈيوں کو جلا ديااور اپنے بھائي ابراہيم کے بدلے ميں مروان کو قتل کرديا
جب عباسيوں کي حکومت مضبوط و مستحکم ہوگئي توان کے نيز خاندان پيغمبر اور شيعوں کے درميان فاصلہ ہوگيا،منصور عباسي کے زمانے سے عباسيوں نے پيغمبر کي ذريت کے ساتھ بني اميہ کي روش اختيا ر کي، بلکہ خاندان پيغمبر سے دشمني ميں بني اميہ سے بھي آگے بڑھ گئے
(2)بني اميہ کا خاتمہ اور عباسيوں کا آغاز
اموي دور حکومت کے ختم ہونے اور عباسيوں کي حکومت آنے کے بعداور ان کے درميان جنگ و جدال کي وجہ سے امام باقر و امام صادق کو فرصت مل گئي انہوں نے تشيع کے مباني کوپہچنوانے ميںغير معمولي فعاليت وسر گرمي انجام ديں ،خاص طور پر امام صادق نے مختلف شعبوں اور مختلف علوم ميں بہت سے شاگردوں کي تر بيت کي ممتاز دانشور جيسے ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ،ابان بن تغلب،ہشام بن سالم مومن طاق ، مفضل بن عمر، جابر بن حيان وغيرہ نے حضرت کے محضر ميں تر بيت پائي تھي ،شيخ مفيدکے قول کے مطابق ان کے موثقين (معتمدين )کي تعداد چار ہزار تھي،مختلف اسلامي سر زمين کے لوگ امام کے پاس آتے تھے اور امام سے فيض حاصل کرتے تھے اور اپنے شبہات کو برطرف کرتے تھے ،حضرت کے شاگرد مختلف مناطق اور شہروںميں پھيلے ہوئے تھے، فطري بات ہے کہ يہ لوگ مختلف مناطق ميں تشيع کے پھيلانے کا سبب بنے.
(3)علويوں کي ہجرت
عباسيوں کے دور ميںتشيع کے پھيلنے کے سلسلہ ميں ،سادات اور علويوں کا مختلف مقامات پر ہجرت کرجانا بھي ايک اہم سبب بنا ،ان ميں اکثر تشيع نظريات کے حامل تھے اگر چہ ان ميں سے کچھ زيدي مسلک کي طرف چلے گئے تھے يہاں تک کہ بعض منابع کے نقل کے مطابق سادات کے درميان ناصبي بھي موجود تھےيقين کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سادات ميں اکثر شيعہ تھے اورشيعہ مخالف حکومت کے ذريعہ ان پرجو مصيبتيںپڑيںان کي وجہ بھي واضح ہے،اکثراسلامي سرزمينوںميںسادات تھے، ماوراء النہر اور ہندوستان سے لے کر افريقہ تک پھيلے ہوئے تھے اگر چہ يہ ہجرت حجاج کے زمانے سے شروع ہوگئي تھي عباسيوں کے زما نے ميں علويوں کي طرف سے جو قيام ہواان ميںسے زيادہ تر ميںشکست ہوئي اور بہت نقصان ہوا ، شمال ايران، گيلان ،مازندران نيز خراسان کے پہاڑي اور دور افتادہ علاقہ علويوں کے لئے امن کي جگہ شمار ہوتے تھے ،سب سے پہلي بار ہارون رشيد کے زمانے ميں يحيي? بن عبد اللہ حسني مازندران کي طرف گئے کہ جو اس زمانے ميں طبرستان کے نام سے مشہور تھا ،جب انہوںنے قدرت حاصل کرلي اور ان کے کام ميں کافي ترقي پيدا ہوگئي توہارون نے اپنے وزير فضل بن يحيي? کے ذريعہ امان نامہ لکھ کر صلح کے لئے وادار کيا?(ابوالفرج اصفہاني ،مقاتل الطالبين،منشورات شريف الرضي ،قم ، پہلي اور دوسري طبع،1416، 1374، ص389،395)
اس کے بعدوہاں کافي تعداد ميں علوي آباد ہوگئے اور روز بروز شيعيت کو فروغ ملتا گيا اور وہاںکے لوگوں نے پہلي بار علويوں کے ہاتھوں اسلام قبول کيا اورتيسري صدي ہجري کے دوسرے حصہ ميں علويوں کي حکومت طبرستان ميں حسن بن زيد علوي کے ذريعہ تشکيل پائي اس زمانے ميں سادات کے لئے يہ جگہ مناسب سمجھي جاتي تھي، جيسا کہ ابن اسفند يار کا بيان ہے کہ اس موقع پر درخت کے پتوں کے مانند علوي سادات اور بني ہاشم حجازنيز اطراف عراق وشام سے ان کي خدمت ميں جمع ہوگئے سبھي کو عزت و شرف سے بہت بہت نوازااور ايساہوگيا تھاکہ جب وہ کہيں جاناچاہتا تھا تين سو شمشير بکف علوي اس کے ارد گرد صف بستہ ہوتے تھے
جس وقت امام رضا مامون کے ذريعہ ولايت عہدي کے منصب پر پہنچے، حضرت کے بھائي اور ان کے قريبي افرادايران کي طرف روانہ ہوئے جيسا کہ مرعشي نے لکھا ہے: سادات نے ولايت کي آواز اور اس عہد نامہ پر کہ جو مامون کي طرف سے آنحضرت کي امامت کا پروانہ تھا اس طرف رخ کياآنحضرت کے اکيس دوسرے بھائي تھے يہ تمام بھائي اور چچا زاد بھائي حسني اور حسيني سادات ميں سے تھے جہوںنے ري اور عراق ميں حکومت کي ، جب سادات نے يہ سنا کہ مامون نے حضرت امام رضا سے غداري کي ہے تو انہو ںنے کوہستان ديلمستان اور طبرستان ميں جاکر پناہ لي اور بعض لوگ وہيں شہيد ہوگئے ، ان کي قبريں اور مزار مشہور ہيں،جيسياہل اصفہان مازندران کہ جنہوںنے شروع ميں اسلام قبول کيا تھا وہ سب کے سب شيعہ تھے اور اولاد رسول ? سے حُسن عقيدت رکھتے تھے اور سادات کے لئے وہاں قيام کرنا آسان تھا?(مرعشي ،تاريخ طبرستان و رويان و مازندران ،نشتر گسترہ ،تھران 1363،277 و278)
شہيد فخ کے قيا م کي شکست کے بعد ہادي عباسي کے دور خلافت ميں حسين بن علي حسني، ادريس بن عبد اللہ محمد نفس زکيہ کا بھائي افريقہ گئے تو وہاں پرلوگ ان کے اطراف ہيں جمع ہوگئے اورانہوں نے حکومت ادريسيان کي مغرب ميں بنياد ڈالي، چند روز نہيں گذرے تھے کہ خلافت کے کارندوں کے ذريعہ انہيں زہر دے ديا ہوگيا، ليکن ان کے بيٹوں نے وہاں پرتقريباً ايک صدي حکومت کي،اس طرح سادات نے اس طرف کا رخ کيا اسي وجہ سے متوکل عباسي نے ايک نامہ مصر کے حاکم کو لکھا کہ سادات علوي ميں مردوں کوتيس دينار اور عورتوں کو پندرہ دينارکے بدلے نکال باہر کرے لہذايہ لوگ عراق منتقل ہوگئے اور وہاں سے مدينہ بھيج دئے گئ
منتصر نے بھي مصر کے حاکم کو لکھا کہ کوئي بھي علوي صاحب ملکيت نہ ہونے پائے اور گھوڑے پر سوار نہ ہونيز پائے تخت سے کسي دوسرے علاقہ ميں کوچ نہ کرنے پائے اور ايک غلام سے زيادہ رکھنے کا انہيں حق حاصل نہ ہو
علويوں نے تيزي سے لوگوں کے درميان خاص مقام پيدا کر ليا اس حد تک کہ حکومت سے مقابلہ کر سکيں جيسا کہ مسعودي نقل کرتا ہے: 270ھ کے آس پاس طالبيوں ميں سے ايک شخص بنام احمد بن عبد اللہ نے مصر کے منطقہ صعيد ميں قيام کيا ليکن آخر ميں احمد بن طولان کے ہاتھوں شکست کھائي اور قتل ہوگيايہي وجہ ہے کہ عباسي دور خلافت ميںان کے اہم ترين رقيب اور دشمن علوي شمار ہوتے تھے 284ھ ميں معتضد خليفئہ عباسي نے ارادہ کيا کہ يہ دستورصادر کرے کہ منبر پر معاويہ کو نفرين(لعنت )کي جائے اور اس بارے ميں اس نے حکم لکھا ليکن اس کے وزير نے ہنگامہ ہونے سے ڈرايا،معتضد نے کہا: ميں ان کے درميان شمشير سے کام لوں گاوزير نے جواب ديا: اس وقت ان طالبيان کے ساتھ کيا کرے گا جو ہر طرف سے نکل رہے ہيں اور خاندان پيغمبر? سے دوستي کي بنا پرلوگ ان کے حامي ہيں ،يہ تيرا فرمان ان کے لئے لائق ستائش اور قابل قبول ہوگا اور جيسے ہي لوگ سنيں گے ان کے طرفداراور حامي ہو جائيںگے
علوي جس منطقہ ميں بھي رہتے تھے مورد احترام تھے اسي وجہ سے لوگ ان کے دنيا سے چلے جانے کے بعد ان کي قبروں پر مزار اور روضے تعمير کرتے تھے اور ان کي زندگي ميں ان کے اطراف جمع ہوتے تھے جس وقت محمد بن قاسم علوي معتصم کے دور ميں خراسان تشريف لے گئے مختصر سي مدت ميں چاليس ہزار افراد اس کے اطراف جمع ہوگئے اور ان کوايک مضبوط قلعہ ميں جگہ دي
چونکہ ايک طرف علوي پاک دامن اور پرہيز گار افراد تھے جب کہ اموي اور عباسي حاکموں کا فسق و فجور لوگوں پر روشن تھا دوسري طرف ان کي مظلوميت نے لوگوں کے دلوں ميں جگہ بنالي تھي جيساکہ مسعودي نے نقل کيا ہے :جس سال يحيي? بن زيد شہيد ہوئے اس سال خراسان ميں جو بھي بچہ پيدا ہوا اس کا نام يحيي يا زيد رکھاگيا
سادات کي ہجرت کے اسباب
سادات کے مختلف اسلامي علاقے ميں ہجرت کرنے اور پھيلنے کے تين اسباب بيان کئے جاسکتے ہيں :جنگوںميں علويوں کي شکست ،حکومتي دبائو،ہجرت کے لئے مناسب موقع کا فراہم ہونا
(1)علويوں کے قيام کي شکست
جنگوں ميں شکست کھانے کي وجہ سے ان کے لئے عراق اور حجاز ميں زندگي بسر کرنا مشکل ہوگيا تھا جو اس وقت مرکز خلافت بغداد کے کنٹرول ميں تھا لہ?ذا وہ مجبور ہوئے کہ دور دراز کے علافوں ميں ہجرت کرجائيں اور اپني جان بچائيں جيسا کہ محمد نفس زکيہ کے بھائيوں کے منتشر کے بارے ميںمسعودي کا کہنا ہے: محمد نفس زکيہ کے بھائي اور بيٹے مختلف شہروں ميں منتشرگئے اور لوگوں کو ان کي رہبري کي طرف دعوت دي ان کا بيٹا علي بن محمد مصر گيا اور وہاں قتل کردياگيا ان کا دوسرا بيٹا عبداللہ خراسان گيا اور وہاں سے سندھ کي طرف کوچ کيا اور سندھ ميں اسے قتل کردياگيا،ان کا تيسرا بيٹا حسن يمن پہونچازندان ميں ڈال ديا گيا اوروہيں دنيا سے چل بسا ، ان کے ايک بھائي موسي? جزيرہ گئے او ر ايک بھائي يحيي ري اور وہاں سے طبرستان تشريف لے گئے نيز ايک دوسرے بھائي ادريس مغرب کي طرف روانہ ہوئے تولوگ ان کے اطراف جمع ہونا شروع ہو گئے
(2)حکومتي دبائو
حجاز و عراق کے علاقہ جو مر کز حکومت سے نزديک تھے جس کي وجہ سے يہاں کے علوي افراد ہميشہ حکومت کے فشار ميں تھے مسعودي کے بقول محمد بن قاسم کا کوفہ سے خراسان کي جانب کوچ کرنامعتصم عباسي کے دبائو کي وجہ سے تھا
(3)مناسب موقع کا فراہم ہونا
علويوں کي ہجرت کے اسباب ميں سے ايک سبب قم اور طبرستان کے علاقے ميں ان کے لئے اجتماعي لحاظ سے بہترين موقعيت کا پايا جانا ہے
شيعوں اور علويوں کا قيام
بني اميہ کے زمانے ميں شيعوں اور علويوںکا قيام
شيعوں کاقيام او ر ان کا مسلحانہ بر تائوکربلا اور قيام عاشورہ سے شروع ہوتا ہے ليکن ہم في الحال کربلا کي بحث کو دوسري جگہ کے لئے چھوڑتے ہيں 60ھ امام حسين کي شہادت کے بعد دو شيعہ قيام، قيام توابين اور قيام مختار،وجود ميںآيا، ان دونوں قياموں کے رہنما علوي نہيں تھے بلکہ پاک دامن شيعہ تھے ( ہم اس بارے ميں اس سے پہلے تفصيل کے ساتھ بيان کر چکے ہيں)ان دونوں قيام کي ماہيت جيسا کہ ان کے نعروں سے خود معلوم ہے مکمل طور پرشيعي تھا ،توابين کے رہبروں کے بارے ميں اس بات ميںکوئي اختلاف نہيں پايا جاتا کہ وہ اصحاب پيغمبر? اور شيعيان علي ميں سے تھے(دکتر سيد حسين جعفري ،تشيع در مسير تاريخ،ترجمہ،دکتر سيد محمد تقي آيت اللہي:ص268?273)
جناب مختار کے بارے ميں بھي علمائے رجال اور بزرگوں کے نظريہ کوتفصيل سے بيان کيا جا چکا ہے سب ان کي حسن نيت کے قائل ہيںاور ان کے خلاف جو روايات ذکر ہوئي ہيں انہيں جعلي تصورکيا گياہے
تشيع کے فروغ کے حوالے سے انقلابات کے موثر ہونے کے بارے ميں کہا جاسکتا ہے کہ قيام توابين کا زمانہ بہت کم تھاجس کي وجہ سے تشيع کو ترويج کي فرصت نہيں ملي اگر چہ کيفيت کے لحاظ سے تشيع کے مقاصدبہت زيادہ اہميت کے حامل تھے اس قيام کي وجہ سے محبت اہل بيت دلوں ميں راسخ ہوگئي اور شيعہ اپنے عقيدہ ميں شديد اورمستحکم تر ہوگئے ليکن اس بات کي بہ نسبت قيام مختار شيعيت کي توسيع ميں زيادہ مؤثر ثابت ہوا اور مختار نے مواليان اور غير عرب کو بھي شيعوں کي صف ميں داخل کرديا حالانکہ اس سے پہلے ايسا نہيں تھا
اس زمانے ميں شرق اسلام ميں تشيع کي نبياد پڑي کہ جس کا عروج ہميں عباسيوں اور سپاہ جامگان کي تحريکوں ميں نظر آتا ہے ،بني اميہ کے آخري دور ميں علويوں کي جانب سے جو قيام عمل ميں آيا اس کا عباسيوں کے قيام کے ساتھ ايک طرح کارابطہ تھا اس لئے کہ علوي خواہ بني ہاشم ہو ں يا عباسي ،بني اميہ کے دور ميں متحد تھے اور ان کے درميان اختلاف نہيں تھا، يہاں تک کہ سفاح اور منصور ان دونوں خليفہ نے محمد نفس زکيہ سے پہلے امام حسن کي اولاد کے ہاتھوں پر بيعت کي تھي ليکن عباسيوں کي کاميابي کے بعد يہي محمد اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ منصور عباسي کے ہاتھوں قتل کرديئے گئے، دوسري صدي ہجري ميں علويوں کي جانب سے جو قيام وجودميں آئے وہ زياد ہ تر زيدي نظريات و عقائد پر استوار تھے ،اگر چہ عباسيوں نے زيد کے قيام سے زيادہ فائدہ اٹھايا ، جيسا کہ مؤرخ معاصر امير علي اس بارے ميں بيان کرتاہے:''زيد کي موت نے عباسي مبلغين کو تقويت بخشي اور وہ تبليغيںجو اولاد عباس کي خلافت کے سلسلے ميںجاري تھي اس کي تائيد کي کيونکہ اس نے احتمالي خطروں کو بھي راستے سے دور کرديا اس ماجرا کو ابو مسلم کے حالات کے ذيل ميں بيان کياگيا ہے جو بني اميہ کي حکومت کو اکھاڑ نے کے لئے بنائي گئي تھي ''?(تاريخ عرب اسلام ، امير علي ،ترجمہ : فخر داعي گيلاني، انتشارات گنجينہ ، تہران ، طبع سوم ، 1366ھ ص 162?163)
(الف) قيام زيد
امام سجاد کے فرزند ارجمند اور امام باقر کے بھائي زيد نے اموي خليفہ ہشام او ر اس کے ظلم کے مقابلے ميں قيام کيا، زيد عراق کے حاکم يوسف بن عمرو کي شکايت کرنے ہشام کے پاس دمشق گئے تھے، ہشام کے يہاںان کي توہين کي گئي اور شام سے کوفہ واپس آنے کے بعدبہت سے شيعہ ان کے ارد گرد اکٹھا ہوگئے اور بني اميہ کے مقابلہ ميں قيام کرنے کي انہيںتر غيب کي ليکن جنگ ميں تير کھانے کي وجہ سے ان کا قيام شکست کھاگيا اور خود شہيدہوگئے(مسعودي ،علي بن حسين،مروج الذہب،منشورات موسسة الاعلمي للمطبوعات،بيروت،1411ھ ج3، ص228?230)
زيد کي شخصيت اور قيام کے بارے ميں متعدد روايتيں وارد ہوئي ہيں ان ميں سے بعض روايتيں ان کي سر زنش پر دلالت کرتي ہيں، ليکن شيعہ علماء اور صاحبان فکر ونظر کا عقيدہ يہ ہے کہ زيدايک مردوارستہ اور قابل ستائش فردتھے اور ان کے منحرف ہونے کا ثبوت ہماري دسترس ميں نہيں ہے شيخ مفيد کا ان کے بارے ميںکہنا ہے کہ بعض مذہب شيعہ ان کو امام جانتے ہيںاور اس کي علت يہ ہے کہ زيد نے خروج کيااور لوگوں کو رضائے آل محمد ? کي طرف دعوت دي، لوگوں نے اس سے يہ مطلب نکالا کہ يہ اپنے بار ے ميں کہہ ر ہے ہيںحالانکہ ان کا مقصد يہ نہيں تھا کيونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائي محمد باقر امام برحق ہيں اور خودانہوں نے اپنے بيٹے امام صاد ق کي امامت کي تاکيد کي ہے?(شيخ مفيد محمد بن نعمان، ارشاد ،ترجمہ محمد باقرمساعدي خراساني،کتاب فروشي اسلاميہ ص520)
علامہ مجلسي بھي زيد سے مربوط روايتيں نقل کرتے ہيں کہ زيد کے بارے ميں گوناگوںا وراختلافي روايتيںموجودہيں ليکن وہ روايات جوان کي عظمت و جلالت کي حکايت کرتي ہيں اور يہ کہ ان کا کوئي غلط ارادہ نہيں تھا،وہ بہت زيادہ ہيںاکثر علمائے شيعہ نے زيد کي بلندعظمت اور شخصيت کے بارے ميںاپنے آرا و نظريات کا اظہار کيا ہے، اس بنا پر مناسب يہ ہے کہ ان کے بارے ميں حسن ظن رکھا جائے اور ان کي مذمت نہ کي جائے?(علامہ مجلسي ، محمد باقر ،بحار الانوار،ج46،ص250)
آيةاللہ خوئي زيد کے بارے ميں فرماتے ہيں :روايات زيد کي مدح ان کي قدر و منزلت کے بارے ميں نيز يہ کہ انہوں نے امر بالمعروف و نہي از منکر کے لئے قيام کيا ہے مستفيض ہيں اور ان کي مذمت ميں تمام روايات ضعيف ہيں?( خوئي ،سيد ابو القاسم ،معجم رجال حديث،طبع بيروت ،ج 18ص؛102?103)
کافي شواہد و ادلہ گواہي ديتے ہيں کہ زيد کا قيام امام صادق کي خفيہ اجازت و موافقت سے تھا، ان شواہد ميں سے امام رضاکامامون کے جواب ميں يہ فرمانا کہ ميرے والدامام موسي بن جعفر عليہما السلام نے نقل کيا کہ انہوںنے جعفر بن محمد سے سناتھا کہ زيد نے اپنے قيام سے متعلق مجھ سے مشورہ ليا تھاتو ميں نے ان سے کہا : اے عمو جان ! اگر آپ چاہتے ہيں کہ آپ کو کناسہ ميں پھانسي دي جائے تو آپ کا راستہ صحيح ہے
جس وقت زيد امام کے حضور سے باہر چلے گئے تو امام نے فرمايا: افسوس ہے اس پرجو زيد کي آواز کو سنے اور اس کي مدد کو نہ جائے
زيد حقيقي شيعہ اور امام صادق کي امامت کے معتقد تھے جيسا کہ آپ نے فرمايا: ہر زمانہ ميں ہم اہل بيت ميں سے ايک شخص لوگوں پر خدا کي حجت ہے اور ہمارے زمانے ميں يہ حجت ميرے بھائي کے فرزند جعفر بن محمد ہيں جو شخص بھي ان کي پيروي کرے گا وہ گمراہ نہيں ہوگا اور جو بھي ان کي مخالفت کرے گا وہ ہدايت نہيں پائے گا?(شيخ صدوق ،الامالي،المطبعہ،قم ،1373ہجري قمري ،ص325 )
زيد خود کو امام نہيں سمجھتے تھے اور لوگوں سے بھي منع کرتے تھے اس بارے ميںامام صادق فرماتے ہيں خدا ميرے چچا زيد پر رحمت نازل کرے وہ جب بھي کامياب ہوتے اپنے وعدے کو وفا کرتے زيد نے جن آل محمد ? کي طرف دعوت دي ہے وہ ميں ہوں
امام صادق نے زيد کي شہادت کے بعد ان کے خاندان کي سر پرستي فرمائي(2) جس خاندان کے افراد زيد کے ساتھ شہيد ہوگئے تھے ان کي نصرت و مدد کي اورايک دفعہ تو ايک ہزار دينار ان کے درميان تقسيم کيا
اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ زيد کا قيام توابين و مختار کے قيام کي طرح پوري طرح شيعي او ردرست موقعيت پر استوار تھا نيز ظلم کے مقابلے ميں امر بالمعروف و نہي عن المنکر کے لئے تھا ان کي روش فرقہ زيديہ سے بالکل جداتھي
(ب)قيام يحيي بن زيد
زيد کي شہادت کے بعد 121ھ ميں ان کے فرزند يحيي? نے اپنے والد کي تحريک کو آگے بڑھايا اور مدائن کے راستے سے خراسان آئے اور شہر بلخ ميں ايک مدت تک ناآشنا طريقہ سے زندگي بسر کي، يہاں تک کہ نصر بن سيار نے ان کو گرفتار کرليا اور ايک عرصہ تک زندان ميں رہے يہاں تک کہ اموي خليفہ ہشام کے مرنے کے بعد جيل سے فرارہوگئے، خراسان کے شيعہ کافي تعداد ميں ان کے اطراف ميں جمع ہوگئے وہ نيشاپور آئے اور وہاںکے حاکم عمر بن زرارہ قسري کے ساتھ جنگ کي اوراس کو شکست دي ليکن آخر کار 125 ھ ميں جوزجان ميں بني اميہ کي افواج سے جنگ کرتے ہوئے آپ کي پيشاني پر تير لگا اور ميدان جنگ ميں قتل ہوگئے اور ان کي فوج منتشر ہوگئي
قيام زيد کے بر خلاف ان کے بيٹے يحيي? کا قيام کاپوري طرح زيديہ فرقہ کے مطابق اور اس سے ہماہنگ تھا يہ مطلب متوکل بن ہارون کے درميان ہونے والي گفتگو سے ظاہر ہے کہ جو امام صادق کے اصحاب ميں سے تھے وہ ايک طرح سے اپنے باپ کي امامت کے قائل تھے اور خود کو اپنے باپ کا جانشين سمجھتے تھے، امامت کے تمام شرائط کے ساتھ وہ تلوار سے جنگ کرنے کو بھي امامت کے شرائط ميںسے جانتے تھے
يہاں سے فرقہ زيديہ کي بنياد پڑتي ہے ان کا راستہ اور شيعہ اثنا عشري سے بالکل جدا ہوجاتا ہے يہاں تک کہ وہ فقہي مسائل ميں بھي ائمہ معصومين کي طرف رجوع نہيں کرتے تھے
عباسيوںکے زمانے ميں شيعوں او رعلويوں کا قيام
چوتھي صدي ہجري کے اوائل تک عباسيوں کے دوران حکومت قيام کو دو حصوں ميں تقسيم کيا جا سکتا ہے:
( 1)منظم اور پلاننگ کے ساتھ قيام جيسے زيديوں کا قيام
(2)پراگندہ اور نا منظم قيام
(1)زيديوں کا قيام
زيديوں نے پہلي تين صديوںميں شيعوں کي بہت زيادہ آباديوں کو تشکيل ديا اور خلافت وامامت کو فرزندان فاطمہ کا حق جانتے تھے اور عباسيوں کو غاصب جانتے تھے انہوںنے بعض مناطق جيسے طبرستان،مغرب ويمن ميں حکومت تشکيل دينے کے لئے پہلے ہي سے پلان بنا رکھا تھا، فرقہ ?زيديہ محمد نفس زکيہ اور ابراہيم کو زيديوں کا امام شمار کرتے ہيں کيونکہ يحيي? بن زيد نے ان کو اپنا جانشين قرار ديا تھا يہيںسے زيديوں اور اولاد زيد کا امام حسن کے پوتوں کے ساتھ يا دوسري اصطلاح ميں بني حسن کے ساتھ گہرارابطہ وجود ميں آيا ، ابراہيم بن عبداللہ جو اپنے بھائي محمد نفس زکيہ کے جانشين تھے کہ جنہوں نے بصرہ ميںعباسيوں کے مقابلے ميں پرچم انقلاب بلند کيا اورزيد کے دوسرے فرزندعيسي? کو اپنا جانشين قرار ديا ،عيسي? ابراہيم کے قتل کے بعدفرار ہو گئے اور مہدي عباسي کے دور خلافت ميں بطور مخفي دنيا سے رخصت ہوگئے
زيديوں نے محمد نفس زکيہ اور ابراہيم کے قتل کے بعدکسي ايک کي رہبري پر اتفاق نہيں کيا اور اولاد فاطمہ ميں سے ايسے امام کو تلاش کرتے رہے جو جنگ کے لئے شجاعت رکھتا ہو اور ان کي رہبري کو اپنے کاندھوں پر اٹھاسکے ،ليکن 301ھ تک کسي ايک امام پربھي اتفاق نہ کر سکے يہاں تک کہ حسن بن علي حسني کہ جواطروش کے لقب سے جانے جاتے تھے اس سال خراسان ميں قيام کيا اور گيلان ومازندران کي طرف کوچ کياتاکہ زيديوں کي تحريک کو آگے بڑھا سکيں
يہي وجہ ہے کہ عباسي حکام زيديوں سے کافي خوف زدہ رہتے تھے اور کوششيں کرتے تھے کہ جس ميں بھي رہبريت ہے اس کو قتل کرديا جائے خصوصاً اولاد زيد کو ختم کرنے کي کوشش کرتے تھے اور ايسے افراد کو گرفتار کرنے کے لئے جاسوس معين کرتے اور انعامات کا اعلان کرتے تھے
جيسا کہ عيسي? بن زيد مخفي طريقہ سے دنيا سے چلے گئے اورہارون نے ان کے بيٹے احمد بن عيسي? کو صرف بدگماني کي بنياد پرگرفتار کرليا اور زندا ن ميں ڈال ديا
ا لبتہ اس دوران بني حسن کے بعض بزرگان کہ جو بعض تحريکوں کے رہنما شمار ہوتے تھے زيديوں کے راستے پر نہيں چلے اور زيديوں کے اصول کے پابند نہيں تھے اسي وجہ سے جب جنگ ميں کوئي مشکل پيش آتي اور شکست کا احتمال ہوتاتھاتو زيدي ان کو تنہا جنگ ميں چھوڑ کر فرار ہوجاتے تھے اور ان کا قيام شکست کھا جا تا تھا (جيسے يحيي? بن عبداللہ) ان کے درميان يحيي? کا بھائي ادريس تنہاوہ شخص ہے جوکسي حد تک کامياب ہوا،اور وہ بھي اس وجہ سے کہ وہ افريقہ ميں عباسيوں کي دسترس سے دور تھا ،وہاں اس نے عباسيوں کے خلاف جد وجہد کي اور حکومت تشکيل دينے ميں کامياب ہوگيا?منجملہ ان رہبروں ميں کہ جنہوں نے زيد يوں کے اصول اور مبني? کو قبول نہيں کيا اور اہل بيت کے راستہ کو اختيا ر کيا، ان ميںيحيي? بن عبداللہ محمد نفس زکيہ کے بھائي تھے کہ جو محمد کي شکست کے بعد خراسان چلے گئے اور وہاں سے سرزمين ديلم جو آج گيلان و مازندران کے نام سے مشہور ہے منتقل ہوگئے،ليکن وہاں کا حاکم جو ابھي مسلمان نہيں ہواتھا ہارون رشيدکي دھمکي پر اس نے چاہاکہ ان کو گرفتا رکرکے ہارون کے کار ندوں کے حوالہ کردے اس وقت يحيي? ہارون کے وزير فضل بر مکي سے امان چاہنے پر مجبور ہوئے وزير نے ان کو امان بھي دي ليکن امان کے بر خلاف انہيںبغداد ميںجيل ميں ڈياگيا اور زندان ہي ميں دنيا سے رخصت ہوگئے،يہ امام صادق کے تربيت يافتہ شاگردوں ميں سے تھے اور جب بھي امام صادق سے حديث نقل کرتے تھے تو کہتے تھے ميرے حبيب جعفر بن محمد نے اس طرح فرمايا ہےکيونکہ ان کے اہل بيت کے راستے پر چلنے اور فقہ پر عمل کرنے کي وجہ سے زيديوں نے ان کي مخالفت کي اور ان کے اطراف سے دور ہو گئے لہذاوہ مجبور ہوئے کہ خود کو ہارون کے وزير فضل بن يحيي? کے سامنے تسليم ہو جائيں
(الف) قيام محمد نفس زکيہ
دوسري صدي ہجري ميں علويوں کے قيام عروج پر تھا ان قياموںميں سے ايک اہم قيام منصور عباسي کے زمانے ميں تھا اس قيام کے رہبر محمد نفس زکيہ تھے کہ ان کي يہ تحريک عباسيوں کي کاميابي سے پہلے شروع ہوچکي تھي اور امام صادق کے سوا تمام بني ہاشم نے ان کي بيعت کرلي تھي، يہاںتک کہ اہل سنت کے فقہاو علماء حضرات جيسے ابو حنيفہ، محمد بن عجلان مدينہ کے فقيہ ابو بکر بن ابي سبرہ فقيہ ،عبداللہ بن جعفر؛ہشام بن عروہ ،عبداللہ بن عمر ، واصل بن عطا،عمرو بن عبيد…سبھي نے ان کي بيعت کرلي تھي اور نبي اکرم ?سے منقول روايات جو امام مہدي کے قيام کے بارے ميں تھيںاس کو ان پر تطبيق کرتے تھے
ليکن عباسيوں کے زمانے ميں اس کا قيام وقت سے پہلے ہونے کي وجہ سے شکست کھا گيا ،بصرہ ميں بھي ان کے بھائي ابراہيم کا قيام زيديوں کي خيانت کي وجہ سے کامياب نہيں ہوسکا ليکن ان کے اور بھائي منتشر ہوگئے تھے، ہارون کے زمانے تک ان کي بغاوت جاري رہي ادريس بن عبداللہ نے مراقش کي طرف فرار کيا اور وہاں کے لوگوں نے اس کو قبول کيا ليکن ہارون کے کارندوں کے ذريعہ انہيں زہر دے دياگيا، اس کے بعد اس کي پير وي کرنے والوں نے ان کے چھوٹے بيٹے کو ان کي جگہ بٹھا ديا اور اس کا ادريس ثاني نام رکھا اور مدتوںتک شمالي افريقہ ميں ادريسيوں کي حکومت بر قرار رہي ،محمد کا دوسرا بھائي يحيي? طبرستان چلاگيا محمد کے ايک اور بھائي نے شمال اور جزيرہ کي طرف سفر کيا ،محمد نفس زکيہ کے اور دوسرے بيٹے بنام علي ،عبد اللہ حسن مصر، ہنداور يمن کي طرف چلے گئے اورمدتوں عباسي حکومت ان سے پريشان تھي
(ب)قيام ابن طبا طبائي حسني
ہارون کي موت کے بعد اس کے دو بيٹے امين و مامون کے درميان حکومت کي خاطر لڑائي کے سبب شيعوں نے فرصت کو غنيمت جانا اور علويوں کے قيام بھي اس زمانے ميںعروج پر تھے اس دور ميں ابوسرايا جيسے لائق و سزوار فوجي کمانڈر کي وجہ سے علويوں کا محاذتمام عراق (سوائے بغداد کے ) حجاز ، يمن اور جنوب ايران تک پھيل گيا اور يہ علاقے عباسيوں کي حکومت سے خارج ہوگئے
لشکر ابو سرايا جس فوج کے مقابلہ ميں بھي جاتا اسے تحس نحس کرديتا اور جس شہر ميں بھي جاتا اس پر قبضہ جما ليتاتھا،کہتے ہيں کہ ابو السرايا کي فوج سے خليفہ کے دولاکھ سپاہي قتل ہوئے حالانکہ اس کے قيام کے روز سے اس کي گردن زني تک دس ماہ سے زيادہ نہيں گزرے تھے يہاں تک کہ بصرہ جو عثمانيوں کا مرکز تھايہاں بھي علويوں کي حمايت کي گئي اس شہرميں زيد النار نے قيام کيا ،مکہ اور اطراف حجاز ميں محمد بن جعفر (جس کا لقب ديباج تھا)نے قيام کيا کہ جس کو امير المو منين کہا جاتا تھا،يمن ميں ابراہيم بن موسي? بن جعفر نے قيام کيا، مدينہ ميں محمد بن سليمان بن دائود بن حسن نے قيام کيا، واسط کہ جہاں اکثر لوگ عثمانيوں کي طرف مائل تھے وہاں جعفر بن زيد بن علي اور حسين بن ابراہيم بن حسن بن علي نے قيام کيا، اور مدائن ميں محمد بن اسماعيل بن محمد نے قيام کيا ،خلاصہ يہ کہ کوئي ايسي سرزمين نہيں تھي جہاں علويوں نے خود سے يالوگوں کے ابھار نے کي وجہ سے عباسيوں کے خلاف قيام نہ کياہو اورنوبت يہاں تک پہنچ گئي کہ اہل شام اور بين النہرين جو اموي اور آل مروان سے دوستي ميں شہرت رکھتے تھے ابو السرا يا کے ساتھي محمد بن محمد علوي کے گرويدہ ہوگئے اور اس کو خط لکھا کہ ہم آپ کے ايلچي کے انتظار ميں بيٹھے ہيں تا کہ آپ کے فرمان کو نافذ کريں?(ابو الفرج اصفہاني ،مقاتل الطالبين،منشورات شريف الرضي،قم ،ص435?436)
(ج)قيام حسن بن زيد حسني ( طبرستان کے علوي )
250ھمستعين عباسي کے دور خلافت ميں حسن بن زيد جو پہلے رے ميں ساکن تھے انہوں نے طبرستان ميں خروج کيا اور لوگوں کو آل محمد کي رضا کي طرف دعوت دي طبرستا ن اور جرجان کے علاقے ميں چھوٹي چھوٹي جھڑپيں کرکے اپنے قبضہ ميں کرليااور طبرستان ميں علوي حکومت کي بنياد قائم کردي جو 345ھ تک جاري رہي
حسن بن زيد نے بيس سالہ حکومت ميں چند مرتبہ ري ،زنجان ،قزوين پر غلبہ حاصل کيا اور اسي سال کہ جس ميں قيام کيا تھا علويوں ميں سے محمد بن جعفر کو ري کي طرف روانہ کياجو طاہر يوں کے ہاتھوں گرفتا رہوگيا
251ھ ميں حسين بن احمد علوي نے قزوين ميں قيام کيا اور طاہريوںکے کارندوں کو وہاں سے نکال باہرکرديا
جيسا کہ حسين بن زيد کے بھائي نے لارجان ، قصران اور موجودہ شمال تہران پر غلبہ حاصل کيا اوروہاں کے لوگوں سے اپنے بھائي کے لئے بيعت لي ?( طبري ،محمد بن جرير،تاريخ طبري،دارالکتب العلميہ،بيروت،دو سري طبع1408ھ ج5،ص 365)
طبري 250ھکے حالات کے بارے ميں کہتا ہے: طبرستا ن کي حکومت کے علاوہ حکومت ري کا علاقہ ہمدان تک حسن بن زيد کے ہاتھ ميں تھا، شمال ايران کے مناطق کے علاوہ جن مناطق ميں حسن بن زيد نے قيام کيا،اس ميں عراق، شام، مصر ?بھي شامل ہيں نيز علويوں ميں جرا?ت پيدا ہوگئي تھي کہ وہ لوگوں کو اپنے پاس جمع کرکے قيام کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے
يہاں تک کہ 270 ھ ميں حسن بن زيد کا انتقال ہوگيا اور ان کے بھائي محمد بن زيد کو ان کا جانشين قرار دياگيا اور انہوں نے 287 ھ تک حکمراني کي، آخر کار محمد بن ہارون سے جنگ کے درميان ايک ساماني کمانڈر کے ہاتھوںشہيد ہوگئے?(ابو الفرج اصفہاني ، مقاتل الطالبين ،منشورات شريف الرضي ، طبع دوم،1416ھ 1374، ص542)
287 ھ ميں محمد بن زيد کي شہادت کے بعد ناصر کبير( جس کا لقب اطروش تھا) نے منطقہ گيلان و ديلم کے علاقہ ميں لو گوں کو اسلام کي دعوت دي اور 14 سال وہاں حکومت کي?(مسعودي ،علي بن حسين ، مروج الذھب ،ص283)
301ھميں طبرستان آيا اور وہاں کي حکومت کو اپنے قبضہ ميں کيا?(مسعودي ،علي بن حسين ، مروج الذھب ،ص 327)
(د)قيام يحيي بن حسين ( يمن کے زيدي)
288ھ ميں يحيي? بن حسين علوي جو'' الھادي الي? الحق ''کے لقب سے مشہور تھا ،اس نے حجاز ميں قيام کيا، زيدي اس کے اطراف جمع ہوگئے اور وہ اسي سال يمني قبائل کي مدد سے صنعاميں داخل ہوا اوراس نے زيديوںکے امام کے نا م سے اس جگہ خطبہ پڑھا، اگرچہ يمني قبائل سے اس کي چھڑپ ہوتي رہي ،مگر پھر بھي وہاں کي زمام حکومت کو اپنے ہاتھ ميں لينے ميں کامياب ہوگيااوراپني حکومت قائم کي آخر کار 298ھميں زہر کي وجہ سے اس دنيا سے چلاگيا، اس کا شمار زيديوں کي بزرگ ترين شخصيتوں ميں ہوتاہے، علم و دانش کے لحاظ سے بھي اسے ايک خاص مقام حاصل تھايہي وجہ ہے کہ زيديہ فرقہ يمن ميں اس کے نام سے معروف ہوا اوراسے'' ہادويہ ''کہا جانے لگا، اس کے فرزند زيديوں کے امام اور حکمراں تھے?(سيوطي جلاالدين، تاريخ الخلفائ،منشورات شريف الرضي،قم ،طبع اول، 1411ھ،ص525)
يمن ميں زيديوں کي امامت و حکومت انقلاب جمہوريہ عرب کے قيام يعني 1382ھ تک قائم تھي حکومت پر ہادي الي الحق کے بيٹے او رپوتوں کي حکمراني تھي
(2)پراگندہ قيام
اس قسم کے قيام بغير کسي پروگرام اور پلاننگ کے ايک فرد کے عزم و ارادے سے وجود ميں آئے ہيں اور اکثر خلفاو حکام کي طرف سے شيعوں اور علويوں پر ہونے والے ظلم وجور کے مقابلے ميں رد عمل کے طور پر متحقق ہوئے ہيں، ان قياموں ميں سے اہم ترين قيا م حسب ذيل ہيں:
(الف)قيام شہيد فخ
آپ حسين بن علي حسني( شہيد فخ) کے نام سے مشہور تھے جنہوںنے ہادي عباسي کے دور حکومت ميں قيام کيا ان کا خروج ،خليفہ وقت کي طرف سے علويوں اور شيعوں پر بے حد ظلم و ستم کے مقابلے ميں تھا ،يعقوبي کا بيان ہے : خليفہ عبا سي موسي? ہادي نے طالبيوں کو تلاش کيا، ان کو شدت سے ڈرايا اور ان کے حقوق کو قطع کر ديا اور مختلف علاقہ ميںيہ لکھ بھيجا کہ طالبيوں پر سختي کي جائے ?( ابن واضح ،تاريخ يعقوبي،منشورات شريف الرضي،قم،طبع1417،ج2،ص404)
ہادي عباسي نے مدينہ ميں عمر کے پوتے کو حاکم بنايا تھا جو کہ طالبيوں پر بے حد سختي کرتا تھا ، اور ہر روز ان کي تلاشي ليتاتھا اس ظلم کے مقابلے ميں حسين بن علي حسني نے قيام کيا اور حکم ديا کہ مدينہ کي اذان ميں'' حي علي? خير العمل'' کہا جائے اور کتاب خدا اور سنت پيغمبر ?کي بنياد پر لوگوں سے بيعت لي اورلوگوں کو'' الرضا من آل محمد?'' يعني اولاد رسول ?سے ايک معين شخص کي رہبري کي طرف دعوت دي، ان کي روش امام کاظم کيمرضي کے مطابق تھي، ان سے امام نے فرماياتھا : تم قتل کردئے جائوگےاس وجہ سے زيدي ان سے دورہوگئے اور وہ پانچ سوسے کم افراد کے ساتھ عباسي سپاہيوں کے مقابلے ميںکہ جن کا سردار سليمان بن ابي جعفر تھا کھڑے ہوگئے آخرکار مکہ اور مدينہ کے درميان ايک جگہ کہ جس کا نام فخ ہے وہاں اپنے دوست اور ساتھيوں کے ہمراہ شہيد ہوگئے?(ابوالفرج اصفہاني،گزشتہ حوالہ،ص380،381)
امام رضانے فرمايا: کربلا کے بعد فخ سے زيادہ عظيم اور بڑي مصيبت کوئي نہيں تھي،(3) بطور کلي علوي رہنمائوں کے قيام ميںمحمد بن عبداللہ نفس زکيہ کے علاوہ عموميت کے ساتھ مقبوليت کے حامل نہيں تھے ،شيعيان اور اصحاب ائمہ اطہار ميں سے چند تن کے علاوہ ان تحريکوں ميں زيادہ شريک نہيں تھے
(ب)قيام محمد بن قاسم
محمد بن قاسم کا خروج 219ھ ميں واقع ہوا وہ امام سجاد کے پوتوں ميں سے تھے اور کوفہ ميں ساکن تھے يہ علو ي سادات ميںعابد و زاہد و پر ہيز گارشمار ہوتے تھے ، معتصم کي جانب سے فشار بڑھا تو مجبور ہوئے کہ کوفہ چھوڑ کر خراسان کي طرف چلے جائيںيہي فشار قيام کا باعث بنا ،جيسا کہ مسعودي کا بيان ہے اس سال يعني 219ھ ميں معتصم نے محمد بن قاسم کو ڈرايا وہ بہت زيادہ زاہد اور پر ہيز گار تھے جس وقت معتصم کي جانب سے جان کا خطرہ ہوا تو آپ نے خراسان کي طرف کوچ کيا اور خراسان کے مختلف شہروں جيسے مرو، سرخس طالقان اور نسا ميں گھومتے رہے
ابوالفرج کے نقل کے مطابق 40 ہزار کے قريب افراد ان کے اطراف ميں جمع ہوگئے تھے ايسے حالات ميں بھي ان کا قيام کسي نتيجہ کو نہيں پہنچا اور يہ جمعيت ان کے اطراف سے منتشر ہوگئي آخر ميں طاہر يوں کے ہاتھوںگرفتار ہوگئے اور اس کے بعد سامرہ کي جانب روانہ ہوئے اور وہيں پران کو زندان ميں ڈال ديا گيا
البتہ شيعوں اور اپنے چاہنے والوں کي وجہ سے آزاد ہوگئے ليکن اس کے بعد کوئي خبر ان کے بارے ميں نہيں ملتي اور گمنام طريقہ سے دنيا سے چلے گئے
(ج)قيام يحيي بن عمر طالبي
يحيي? بن عمر جعفر طيار کے پوتوں ميں سے تھے آپ نے کوفہ کے لوگوں ميں اپنے زہد و تقوي? کي وجہ سے بلند مقام حاصل کرلياتھا ،متوکل عباسي اور ترکي فوجيوں کي طرف سے جو ذلت آميز مظالم آپ پر ہوئے اس کي وجہ سے مجبور ہوئے کہ کوفہ ميں ان کے خلاف قيام کريں، جب تک امور کي زمام آپ کے ہاتھ ميں تھي آپ نے عدل و انصاف سے کام ليا يہي وجہ ہے کہ کوفہ کے لوگوں ميں آپ کو غير معمولي مقبوليت حاصل ہوگئي ليکن آپ کا قيام محمد بن عبداللہ بن طاہر کے ہاتھوں شکست کھا گيا اورلوگوں نے آپ کي مجلس عزا ميں بہت زيادہ رنج وغم کا مظاہرہ کيا
جيسا کہ مسعودي کاکہنا ہے : دور اور نزديک کے لوگوں نے ان کے لئے مرثيہ کہا چھوٹے بڑوں نے ان پر گريہ کيا ?
ابوالفرج اصفہاني کے مطابق وہ علوي جو دوران عباسي شہيد ہوئے تھے ان ميں کسي ايک کے لئے بھي اتنے مرثيہ نہيں کہے گئے
قيام و انقلاب کے شکست کے اسباب
ان قيام کي شکست کے اسباب کو دو حصوں ميں تقسيم کيا جاسکتا ہے :
ايک تو قيادت اور رہبري کا سُست ہونااور دوسرے فوج کا ہم آہنگ نہ ہونا غالباً اس طرح کے انقلاب کے اکثررہنما اور قائد صحيح طريقہ سے پلاننگ نہيں کرتے تھے اور ان کے قيام صحيح طرح سے اسلامي اصول وطريقہ پراستوار نہيں تھے اسي وجہ سے ان ميں سے بہت سے انقلاب ايسے تھے کہ جسے امام معصوم کي طرف سے حمايت اور تائيد حاصل نہيں تھي، دوسرے بعض قيام کي ناکامي، اگر چہ ان کے رہنما قابل اطمينان اور مؤثق افراد تھے، سبب يہ تھا کہ ان کي پلاننگ ايسي تھي کہ جن کي شکست پہلے سے قابل ملاحظہ تھي ايسي صورت ميں اگر امام واضح طور پر ان کي تائيد کر ديتے تو قيام کي شکست کے بعد تشيع کي بنياد اور امامت خطرہ ميں پڑ جاتي.
دوسري طرف يہ قيام آپس ميں ہم آہنگ نہيں تھے اگر چہ ان کے درميان حقيقي اور مخلص شيعہ موجود تھے جو آخري دم تک اپنے مقصدکے حصول کي کوشش کرتے رہے ان ميں سے اکثر لوگوں کا ہدف ايماني نہيں تھا ياتو ان کا علوي رہبروں کے ساتھ توافق نہ ہوسکايازيادہ تر لوگوں نے ميدان جنگ ميں اپنے کمانڈروں کا ساتھ چھوڑ ديا، علامہ جعفر مرتضي? اس بارے ميں لکھتے ہيں: ان کي شکست کي علت اس کے علاوہ کچھ نہيں تھي کہ زيديوں کے قيام سب سے پہلے سياسي محرکات رکھتے تھے ان کي خصوصيت صرف يہ تھي کہ خاندان پيغمبر?ميں سے جس نے بھي حکومت کے مقابلے ميں تلوارکھينچي اس کو دعوت ديتے تھے، ان کے اندرايماني فکر اوراعتمادي وجدان نہيں تھا بغير سوچے سمجھے اٹھ جاتے تھے،اپنے مردہ احساسات اور خشک و فرسودہ ثقافت پراس قدر بھروسہ کرتے تھے کہ احساسات اور وجدان ميں ہم آہنگي باقي نہيں رہ گئي تھي کہ ايک مضبوط ومحکم سر چشمہ سے اپني رسالت و پيغام کو اخذکر سکيں انہيں وجوہ کي بنا پران کي کشتي شکشت کے گرداب ميں پھنس جاتي تھي اور جانيں مفت ميں تلف ہو جاتي تھيں، بلکہ خود اندروني طور پر انقلاب سے روکنے کا جذبہ ان ميں ابھرتا تھا، ايسي طاقتوں پر اتنا ہي اعتماد تھا جتنا پياسے کو سراب پر ہوتا ہے ، يہ وہ نکتہ ہے جو واضح کرتا ہے کہ لوگ حادثات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے اور جب پاني سر سے گذر جاتا تھا اور پھل تيار ہو جاتے تھے تو وہ عيش و آرام کي زندگي گزارتے تھے
http://www.rizvia.net/