شیعت کے آغاز کی کیفیت
شیعت کے آغاز کی کیفیت
0 Vote
91 View
شیعوں کے آغاز کی کیفیت شیعہ:لغت اور قرآن میں لفظ شیعہ لغت میں مادہ شیع سے ہے جس کے معنی پیچھے پیچھے چلنے اور کامیابی اور شجاعت کے ہیں۔(١) اسی طرح اکثر لفظ شیعہ کا اطلاق حضرت علی کی پیروی کرنے والوںاور ان کے دوستوں پر ہوتا ہے۔(٢) جیساکہ ازہری نے کہا ہے: شیعہ یعنی وہ گروہ جو عترت اور خاندان رسولۖ کو دوست رکھتا ہے۔(٣) ابن خلدون نے کہا ہے : لغت میں شیعہ دوست اور پیروکار کو کہتے ہیں، لیکن فقہااور (١)اس شعر کی طرح: والخزرجی قلبہ مشیع لیس من الامر الجلیل یفزع ترجمہ: خزرجی لوگ شجاع اور بہادر ہیں اور بڑے سے بڑا کام انجام دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔ الفراہیدی'الخلیل بن احمد' ترتیب کتاب العین'انتشارات اسوہ'تھران، ج٢،ص٩٦٠ (٢)فیروزہ آبادی'قاموس اللغة'طبع سنگی ص ٣٣٢۔ (٣)الحسینی الواسطی الزبیدی الحنفی،ابو فیض السید مرتضیٰ،تاج العروس ،ج١١ص٢٥٧ گذشتہ متکلمین کی نظر میں علی اور ان کی اولاد کی پیروی کرنے والوںپراطلاق ہوتاہے (١)لیکن شہرستانی نے معنا ی شیعہ کے سلسلے میں دائرہ کو تنگ اور محدودکرتے ہوئے کہاہے : شیعہ وہ ہیں جو صرف علی کی پیروی کرتے ہیںاور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ علی کی امامت اور خلافت نص سے ثابت ہے اور کہتے ہیں کہ امامت ان سے خارج نہیں ہو گی مگر ظلم کے ذریعہ ۔(٢) قرآن میں بھی لفظ شیعہ متعدد مقامات پر پیروی کرنے والوںاور مدد گار کے معنی میں آیا ہے جیسے''انّ من شیعتہ لابراھیم،،(٣) (نوح کی پیروی کرنے والوں میں ابراہیم ہیں)دوسری جگہ ہے ''فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ،،(٤) موسیٰ کے شیعوں میں سے ایک شخص نے اپنے دشمن کے خلاف جناب موسیٰ سے نصرت کی درخواست کی ،روایت نبوی میں بھی لفظ شیعہ پیروان اور علی کے دوستوں کے معنی میں ہے(٥) لفظ شیعہ شیعوں کے منابع میں صرف ایک ہی معنی اور مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ شیعہ، علی اور ان کے گیارہ فرزندوںکی جانشینی کے معتقدہیں جن میں پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد سے لے کر غیبت صغریٰ تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، جس طرح سے تیسری ہجری کے دوسرے حصہ کے نصف میں مکمل بارہ اماموں پر یقین (١)ابن خلدون،عبدالرحمٰن بن محمد،مقدمہ ،دار احیا التراث العربی بیروت ١٤٠٨ھ ص١٩٦ (٢)شہرستانی،الملل والنحل ،منشورات الشریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش،ج١ص١٣١ (٣)سورہ صافات٣٧،٨٣ (٤)سورہ قصص٢٨،١٥ (٥)بعد والی فصل میں اس روایت پر اشارہ کیا جائے گا۔ رکھتے تھے ،پہلے دور کے شیعہ جو پیغمبرۖ کے اصحاب تھے و ہ بھی اس بات کے معتقد تھے۔ اس لئے کہ انہوںنے بارہ اماموںکے نام حدیث نبوی سے یاد کئے تھے اگرچہ ستمگار حاکموں کے خوف کی بنا پر کچھ شیعہ ان روایات کو حاصل نہیں کر پائے جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے جیسا کہ پیغمبر ۖ نے فرمایا:(من مات لایعرف امامہ مات میتة جاھلیة) (١)جو اپنے زمان کے امام کو نہ پہچانے اور مر جائے تو ا س کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اس رو سے ہم دیکھتے ہیں جس وقت امام جعفرصادق ـ کی شہادت واقع ہوئی (١)ابن حجر ہیثمی جو اہل سنت کے دانشمندوں میں سے ایک ہیں انہوں نے اس حدیث کوجو بارہ اماموں کے بارے میں آئی ہے ذکر کیا ہے اور اس حدیث کے صحیح ہو نے پر اجماع کا دعویٰ بھی کیا ہے جو مختلف طریقوں سے نقل ہوا ہے، وہ اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے اہل سنت کے علماء اور دانشوروں کے متضاد و متناقض اقوال پیش کرتے ہیں کہ جو اس سلسلہ میں وارد ہوئے ہیں اور آخر میں کسی نتیجہ تک نہیں پہونچتے ہیں ،ان میں سے قاضی عیاض نے کہا :شاید اس سے مراد بارہ خلیفہ ہیں کہ جو اسلام کی خلافت کے زمانہ میں حاکم تھے کہ جو ولیدبن یزید کے زمانہ تک جاری رہا ،بعض دوسروںنے کہا: بارہ سے مراد خلیفہ بر حق ہیں کہ جو قیامت تک حکومت کریں گے جن میںسے چند کا دور گزر چکا ہے جیسے خلفائے راشدین ،امام حسن ،معاویہ عبداللہ بن زبیر ،عمر بن عبد العزیز اور مھدی عباسی، دوسرے اورجو دو با قی ہیںان میں سے ایک مھدی منتظر ہیں جو اہل بیت میں سے ہوں گے،نیز بعض علما ء نے بارہ ائمہ کی حدیث کی تفسیربارہ اماموںسے کی ہے کہ جو مہدی کے بعد آئیں گے ان میں سے چھ امام حسن کے فرزندوں میں سے اور پانچ امام حسین کے فرزندوں میںسے ہوںگے(الصواعق المحرقہ ، مکتبةقاہرہ، طبع دوم، ١٣٨٥،ص٣٧٧) زرارہ جو کہ بوڑھے تھے انہوںنے اپنے فرزند عبید کو مدینہ بھیجا تاکہ امام صادق کے جانشین کا پتہ لگائیں لیکن اس سے پہلے کہ عبید کوفہ واپس آتے،زرارہ دنیا سے جاچکے تھے، آپ نے موت کے وقت قرآن کو ہاتھ میں لے کر فرمایا : اے خدا !گواہ رہنا میں گواہی دیتاہوں اس امام کی امامت کی جس کو قرآن میں معین کیا گیا ہے۔(٢) البتہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا معنی اور مفہوم اپنی اصلی شکل اختیار کرنا ہو گیا اور اس کے حدو د مشخص ہوگئے ،اسی لئے ائمہ اطہار نے باطل فرقوں اور گروہوں کی طرف منسو ب لوگوں کو شیعہ ہونے سے خارج جانا ہے ، چنانچہ شیخ طوسی حمران بن اعین سے نقل کرتے ہیں، میں نے اما م محمد باقر سے عرض کیا:کیا میں آپ کے واقعی شیعوں میںسے ہوں؟امام نے فرمایا:ہاں تم دنیااورآخرت دونوںمیں ہمارے شیعوں میںسے ہواورہمارے پاس شیعوں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ،مگر یہ کہ وہ ہم سے روگردانی کریں ،پھر وہ کہتے ہیں، میں نے کہا : میں آپ پر قربان ہوجاؤں کیا کوئی آپ کا شیعہ ایسا ہے کہ جو آپ کے حق کی معرفت رکھتا ہو اور ایسی صورت میں آپ سے روگردانی بھی کر ے ؟امام نے فرمایا: ہاں حمران تم ان کو نہیں دیکھو گے ۔ حمزہ زیّات جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ہے ،وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے سلسلہ میں بحث کی لیکن ہم امام کے مقصد کو نہیں سمجھ سکے لہذاہم نے امام رضاکو خط لکھا اور امام سے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو امام نے فرمایا : امام صادق (١) کلینی ،اصول کافی ،دارالکتب ا لاسلامیہ طبع پنجم تھران ،١٣٦٣ش،ج١ ص٣٧٧ (٢)شیخ طوسی ، اختیارمعرفةالرجال ،مؤسسہ آل البیت لاحیا ء التراث ،قم ١٤٠٤ ھ، ص،٣٧١ کا مقصود، فرقہ واقفیہ تھا(١) اس بنا پر رجال شیعی میں صرف شیعہ اثنا عشری پر عنوانِ شیعہ کا اطلاق ہوتا ہے،اورفقہا کبھی کبھی اس کو اصحابنا یا اصحابناالامامیہ سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ لوگ جو صحیح راستہ یعنی راہ تشیع سے منحرف ہوگئے تھے ان کوفطحی ،واقفی ،ناؤوسی وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر ان کا نام شیعوں کی کتب رجال میں آیا بھی ہے توانہوں نے منحرف ہونے سے قبل روایتیںنقل کی ہیں ،چنانچہ اہل سنت کے چند راویوں کے نام اس کتاب میں آئے ہیںجنہوں نے ائمہ اطہار سے روایتیں نقل کی ہیں لیکن اہل سنت کے دانشمندوں اور علماء رجال نے شیعہ کے معنی کو وسیع قرار دیا ہے اور تمام وہ فرقے جو شیعوںسے ظاہر ہوئے ہیں جیسے غلاة وغیرہ ان پر بھی شیعہ کا اطلاق کیا ہے، اس کے علاوہ اہلبیت پیغمبرۖ کے دوستوں اور محبوں کو بھی شیعہ کہا ہے جب کہ ان میں سے بعض اہل بیت کی امامت اور عصمت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے ،جیسے سفیان ثوری جومفتیان عراق میں سے تھا اور اہلسنت کے مبنیٰ پر فتویٰ دیتاتھا لیکن ابن قتیبہ نے اس کو شیعوں کی فہرست میں شمار کیا ہے۔( ٢) ابن ندیم کہ جو اہل سنت کے چار فقہامیں سے ایکہے شافعیوں ان کے بارے میں یوں کہتا ہے کہ شافعیوں میں تشیع کی شدت تھی(٣)البتہ دوسری ا ور تیسری صدی ہجری میں شیعہ اثناعشری کے بعد شیعوں کی زیادہ تعداد کو زیدیوں نے تشکیل دیا ہے، وہ لوگ اکثر سیاسی معنیٰ (١) شیخ طوسی،معرفة الرجال موسسہ آل البیت لاحیاء التراث ، ج٢ص٧٦٣۔ (٢) ابن قتیبہ ،المعارف منشورات شریف الرضی ،قم ،طبع اول ،١٤١٥،١٣٧٣،ص ٦٢٤۔ (٣)ابن ندیم ،ا لفہرست ،دارالمعرفة للطبع والنشر ،بیروت،ص٢٩٥،(کان الشافعی شدیداًفی التشیع) میں شیعہ تھے نہ کہ اعتقادی معنیٰ میں، اس لئے کہ فقہی اعتبار سے وہ فقہ جعفری کے پیروی نہیں کرتے تھے بلکہ فقہ حنفی کے پیرو تھے، (٢)اصول اعتقادی کے اعتبار سے شہرستانی نقل کرتا ہے، زید ایک مدت تک واصل بن عطا کا شاگرد تھا جس نے مذہب معتزلہ کی بنیاد ڈالی اور اصول مذہب معتزلہ کو زید نے پھیلایا ہے، اس وجہ سے زیدیہ اصول میں معتزلی ہیں اسی باعث یہ مفضول کی امامت کوافضل کے ہوتے ہوئے جائز جانتے ہیں اور شیخین کو برا بھی نہیں کہتے ہیں اور اعتقادات کے اعتبار سے اہل سنت سے نزدیک ہیں۔(٣) چنانچہ ابن قتیبہ کہتا ہے: زیدیہ رافضیوں کے تمام فرقوں سے کم تر غلو کرتے ہیں۔(٤) اس دلیل کی بنا پر محمد نفس زکیہ کے قیام(جو زیدیوں کے قائدین میں سے ایک تھے) کو بعض اہل سنت فقہاکی تاکید اور رہنمائی حاصل تھی اور واقدی نے نقل کیا ہے، ابوبکر بن ابیسیرہ(٥)ابن عجلان(٦) عبد اللہ بن جعفر(٧)مکتب مدینہ کے بڑے محدثین میں سے تھے اور خود واقدی نے ان سے حدیث نقل کی ہے ،وہ سب محمد نفس زکیہ کے قیام میں شریک تھے ،اسی طرح شہرستانی کہتاہے محمد نفس زکیہ کے شیعوں میں ابوحنیفہ بھی تھے ۔ (٨) بصرہ کے معتزلی بھی محمد کے قیام کے موافق تھے اور ابو الفرج اصفہانی کے نقل کے مطابق بصرہ میں معتزلیوں کی ایک جماعت نے جن میں واصل بن عطا اور عمرو بن عبید تھے ان لوگوںنے ان کی بیعت کی تھی (١)اس لحاظ سے زیدیہ صرف سیاسی اعتبار سے شیعوں میں شمار ہوتے تھے اگر چہ وہ اولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت واولویت کے معتقد بھی تھے ۔ (٢)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص١٤٣ (٣)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٦٤ھ ش ،ج ١، ص ١٣٨ (٤)ابن قتیبہ ،المعارف ،ص ٦٢٣ (٥)ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٣٧٤ص٢٥١ (٦)گزشتہ حوالہ ص،٥٤ (٧)گزشتہ حوالہ ص،٢٥٦ ٢ (٨ )شہرستانی ،ملل و نحل ،منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ش مج ١ ص١٤٠ آغاز تشیّع آغاز تشیع کے سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، جنہیںاجمالی طور پر دو طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (١)وہ صاحبان قلم اور محققین جن کا کہنا ہے: شیعیت کا آغاز رسول اعظمۖ کی وفات کے بعد ہوا، خود وہ بھی چند گروہ میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ (الف )پہلے گروہ کا کہنا ہے : شیعیت کا آغاز سقیفہ کے دن ہوا ، جب بزرگ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے کہا :حضرت علی علیہ السلام امامت و خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں ۔(٢) (١)ابوالفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین، ص ٢٥٨ . (٢)یعقوبی بیان کرتے ہیں :چند بزرگ صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کیااور کہا: حضرت علی خلافت کے لئے اولویت رکھتے ہیں، تاریخ یعقوبی، جلد ٢،ص ١٢٤،طبع، منشورات الشریف الرضی قم ١٤١٤ھ (ب)دوسرے گروہ کا کہنا ہے : آغاز تشیع خلافت عثمان کے آخری زمانے سے مربوط ہے اور یہ لوگ اس زمانہ میں ، عبد اللہ بن سبا کے نظریات کے منتشر ہونے کوآغاز تشیع سے مربوط جانتے ہیں۔(١) (ج)تیسرا گروہ معتقد ہے کہ شیعیت کا آغاز اس دن سے ہوا جس دن عثمان قتل ہوئے ،اس کے بعد حضرت علی کی پیروی کرنے والے شیعہ حضرات ان لوگوں کے مدمقابل قرار پائے ،جو خون عثمان کا مطالبہ کررہے تھے ، چنانچہ ابن ندیم ر قم طراز ہیں:جب طلحہ و زبیر نے حضرت علی کی مخالفت کی اور وہ انتقام خون عثمان کے علاوہ کسی دوسری چیز پر قانع نہ تھے ، نیز حضرت علی بھی ان سے جنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ حق کے سامنے تسلیم ہوجائیں ،اس دن جن لوگوں نے حضرت علی کی پیروی کی وہ شیعہ کے نام سے مشہور ہوگئے اور حضرت علی بھی خود ان سے فرماتے تھے:یہ میرے شیعہ ہیں ،(٢) نیز ابن عبدربہ اندلسی ر قم طراز ہیں : ''شیعہ وہ لوگ ہیں جو حضرت علی کو عثمان سے افضل قرار دیتے ہیں۔(٣) (د)چوتھا گروہ معتقد ہے کہ شیعہ فرقہ روز حکمیت کے بعدسے شہادت حضرت علی تک وجود میں آیا۔ (٤) (١)مختار اللیثی، سمیرہ ، جہاد الشیعہ ، دار الجیل ، بیروت ، ١٣٩٦ھ، ص :٢٥ (٢)ابن ندیم الفہرست ''دار المعرفة''طبع،بیروت(بی تا) ص٢٤٩ (٣)ابن عبدربہ اندلسی احمد بن محمد ، العقد الفرید ،دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ١٤٠٩ھ ج٢ ص٢٣٠ (٤)بغدادی ، ابو منصور عبد القادر بن طاہر بن محمد ''الفرق بین الفرق'' طبع،قاہرہ،١٣٩٧، ص١٣٤ (ھ )پانچواں گروہ آغاز تشیع کو واقعہ کربلا اور شہادت امام حسین سے مربوط قرار دیتاہے۔(١) (٢)دوسرا طبقہ ان محققین کا ہے جو معتقد ہیںکہ شیعیت کا ریشہ رسول خدا ۖکی حیات طیبہ میں پایا جا تا تھا،تمام شیعہ علما بھی اس کے قائل ہیں ۔(٢) بعض اہل سنت دانشوروں کابھی یہی کہنا ہے ،چنانچہ محمد کردعلی جو اکابرعلمائے اہل سنت سے ہیں ،کہتے ہیں :''رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں بعض صحابہ کرام شیعیان علی کے نام سے مشہور تھے۔(٣) مذکورہ بالا نظریات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ روز سقیفہ ، خلافت عثمان کا آخری دور،جنگ جمل ، حکمیت اور واقعہ کربلا وغیرہ وہ موارد ہیںجن میں رونما ہونے والے کچھ حادثات تاریخ تشیع میں مؤثر ثابت ہوئے ،چونکہ عبداللہ بن سبا نامی کے وجود کے بارے میں شک و ابہام پایا جاتاہے،لہٰذا ان ادوار میں شیعیت کا تشکیل پا نا بعید ہے ۔ کیونکہ اگر احادیث پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر محققانہ نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی بہت سی احادیث میں لفظ شیعہ حضرت علی کے چاہنے والوں کے لئے استعمال ہوا ہے ،جن میں سے ہم بعض کی طرف اشارہ کررہے ہیں، نیز یہ تمام احادیث اہل سنت و الجماعت کے نزدیک مقبول ہیںاور منابع احادیث میں ہیں ،جیسا کہ سیوطی جو کہ اہل سنت والجماعت کے مفسروں (١)مختار اللیثی، ڈاکٹر سمیرہ '' جہاد الشیعہ '' ٣٥ ۔ نقل از برنا '' رولویس '' اصول الاسماعیلیہ ص٨٤ (٢)دفاع از حقانیت شیعہ، ترجمہ غلام حسن محرمی ، مومنین ، طبع اول ١٣٧٨ ص ٤٨، اورشیعہ در تاریخ،، ترجمہ محمد رضا عطائی ، انتشارات آستانہ قدس رضوی ، طبع دوم ، ١٣٧٥ ، ش ، ص ، ٣٤ (٣)خطط الشام ، مکتبة النوری ، دمشق ، طبع سوم ، ١٤٠٣ ھ ۔ ١٩٨٣ ، ج ٦ ، ص ٢٤٥ میں سے ہیں اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ ھم خیر البریة '' کی تفسیر میں پیغمبر اکرم ۖسے حدیث نقل کرتے ہیں ، منجملہ یہ حدیث کہ پیغمبرۖ اسلام نے فرمایا : اس آیۂ کریمہ: ''اولٰئکٔ ھم خیر البریة '' میں خیرالبریہ سے مراد حضرت علی اور ان کے شیعہ ہیں اور وہ قیامت کے دن کامیاب ہیں۔(١) ر سول اکرم ۖ نے حضرت علی سے فرمایا : خداوند کریم نے آپ کے شیعوں کے اور شیعوں کو دوست رکھنے والے افراد کے گناہوں کو بخش دیا ہے ،(٢)نیز پیغمبر اسلامۖنے حضرت علی سے فر مایا :آپ اور آپ کے شیعہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے در حالانکہ آپ حوض کوثر سے سیراب ہوںگے اور آپ کے چہرے (نور سے ) سفیدہوں گے اور آپ کے دشمن پیاسے اور طوق و زنجیر میں گرفتا رہوکر میرے پاس آئیںگے (٣)رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک طولانی حدیث میں حضرت علی کے فضائل بیان کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے فاطمہ! علی اور ان کے شیعہ کل (قیامت میں ) کامیاب(نجات پانے والوں میں) ہیں۔(٤) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اے علی ! خداوند عالم نے آپ کے اور آپ کے خاندان اور آپ کے شیعوں کو (١) الدر المنثور فی التفسیر بالمأ ثور،ج :٦ ،ص :٣٧٩، منشورات مکتبةآیة اللہ مرعشی نجفی ، قم ١٤٠٤ھ (٢) ابن حجر ھیثمی المکی صواعق محرقہ ،ص ٢٣٢ طبع دوم مکتب قاہرہ، ١٣٨٥ (٣)ابن حجرمجمع الزوائد، نورالدین علی ابن ابی بکر ۔ ج ٩ ، ص ١٧٧ ، دار الفکر ١٤١٤ھ (٤) المناقب ، ص ٢٠٦ ، اخطب خوارزمی منشورات مکتبةالحیدریہ ، نجف ١٣٨٥ دوست رکھنے والوں کے گناہوں کو بخش دیا ہے ۔(١) نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اے علی !جب قیامت برپا ہوگی تو میں خدا سے متمسک ہوں گا اورتم میرے دامن سے اورتمہارے فرزندتمہارے دامن سے اورتمہاری اولاد کے چاہنے والے تمہاری اولاد کے دامن سے متمسک ہوں گے۔ (٢) نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا : تم قیامت میں سب سے زیادہ مجھ سے نزدیک ہو گے اور (تمہارے) شیعہ نورکے منبر پر ہوں گے ۔(٣) ابن عباس نے روایت کی ہے کہ جناب جبرئیل نے خبر دی کہ (حضرت) علی اور ان کے شیعہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنت میں لے جائے جائیں گے ۔(٤) جناب سلمان فارسی نقل کرتے ہیںکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا : اے علی !سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہنو تاکہ مقرب لوگوں میں قرار پاؤ، حضرت علی نے پوچھا : مقربین کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : (١) مذکورہ مصدر کے علاوہ، ینابیع المودة ، قندوزی حنفی ، منشورات مؤسسہ اعلمی طبع اول، ١٤١٨ ھ ج ١، ص ٣٠٢ (٢) المناقب ، ص ٢١٠ ، اخطب خوارزمی (٣) المناقب ، ص ١٥٨، ١٣٨٥ھ ( ٤) مذکورہ مصدر ،ص ٣٢٢ ۔ ٣٢٩ حدیث کے ضمن میں، فصل ١٩ جبرئیل و میکائیل، پھر حضرت علی نے پوچھا :کون سی انگوٹھی ہاتھ میں پہنوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : وہ انگوٹھی جس میں سرخ عقیق ہو ، کیونکہ عقیق وہ پہاڑ ہے ،جس نے خدائے یکتا کی عبودیت ، میری نبوت ، آپ کی وصایت اور آپ کے فرزندوں کی امامت کا اقرار و اعتراف کیا ہے اور آپ کو دوست رکھنے والے اہل جنت ہیںاور آپ کے شیعوں کی جگہ فردوس بریں ہے ،(١)پھر رسول خدا ۖ نے فرمایا :ستر ہزار (٧٠٠٠٠)افراد میری امت سے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ،حضرت علی نے دریافت کیا : وہ کون ہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:وہ تمہارے شیعہ ہیں اورتم ان کے امام ہو۔ (٢) انس ابن مالک حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:''جبرئیل نے مجھ سے کہا :خدائے کریم حضرت علی کواسقدر دوست رکھتا ہے کہ ملائکہ کو بھی اتنا دوست نہیں رکھتا ،جتنی تسبیحیں پڑھی جاتی ہیں، خدائے کریم اتنے ہی فرشتوں کو پیدا کرتا ہے تاکہ وہ حضرت علی کے دوستوں اور ان کے شیعوں کے لئے تاقیامت استغفار کریں۔(٣) جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیںکہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :خدائے یکتا کی قسم جس نے مجھے پیغمبر بنا کر مبعوث کیاکہ خدا وند عالم کے مقرب بارگاہ (١) مذکورہ مصدر ص ٢٣٤ (٢) مذکورہ مصدر ص ٢٣٥ (٣) ینابیع المودة ، القندوزی الحنفی ، شیخ سلمان ،ص ٣٠١ فرشتے حضرت علی کے لئے طلب مغفرت کرتے ہیں نیز ان کے اور ان کے شیعوں کے لئے باپ کی طرح الفت و محبت اور اظہارہمدردی کرتے ہیں۔ (١) خود حضرت علی روایت کرتے ہیںکہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے علی!اپنے شیعوں کو خوش خبری دیدوکہ میں روز محشر(ان کی ) شفاعت کروں گا جس دن میری شفاعت کے علاوہ مال و فرزند کوئی فائدہ نہیں دیں گے ۔(٢) رسالت مآبۖ نے فرمایا: اے علی ! سب سے پہلے جنت میں جو چار افراد داخل ہوں گے وہ میں ،تم اور حسن و حسین ،ہیں ،ہماری ذریت ہمارے پیچھے اور ہماری ازواج ہماری ذریت کے پیچھے اور ہمارے شیعہ دائیں،بائیں ہوں گے۔(٣) خلاصہ، بہت سے محققین اور مؤرخین اہل سنت، منجملہ ابن جوزی ، بلاذری ، شیخ سلیمان قندوزی حنفی ، خوارزمی اور سیوطی نے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا : '' یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''(٤) حتیٰ بعض شیعہ حضرات (١) ینابیع المودة ص ٣٠١ (٢) ینابیع المودة ص ٣٠٢ (٣)مجمع الزوائد ص١٧٨، ھیثمی نور الدین علی بن ابی بکر (٤) تذکرة الخواص ص ٥٤ ، ابن جوزی ، منشورات المطبعة الحیدریہ نجف ١٣٨٣ ھ، ص ٥٤، بلا ذری انساب الاشراف ،تحقیق محمد باقر محمودی ، موسسہ اعلمی بیروت ، ج ٢ ،ص ١٨٢ ، قندوزی حنفی ینابیع المودة منشورات اعلمی للمطبوعات ،طبع بیروت ،طبع اول ١٤١٨ ھ ج ١، ص٣٠١، اخطب خوارزم المناقب، منشورات المطبعة الحیدریہ ، نجف ، ١٣٨، ص٢٠٦، سیوطی جلا ل الدین ، الدر المنثور فی تفسیر بالمأ ثور ، مکتبة آیة اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی ، قم ، ١٤٠٤ھ ، ج ٦، ص ٩ا٣٧ کے بارے میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایات منقول ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ شیعوں کے مخالفین کی زبانی روایات نقل ہوئی ہیں ،جیسے جناب عائشہ سے حجر بن عدی کے بارے میں روایت منقول ہے ،جب معاویہ حجر اور ان کے دوستوں کے قتل کے بعد حج کرکے مدینہ آیاتو عائشہ نے اس سے کہا: ''اے معاویہ ! جب تم نے حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کو قتل کیا توتمہاری شرافت کہاں چلی گئی تھی؟آگاہ ہوجاؤ کہ میں نے رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے ،آنحضرت صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :ایک جماعت ''مرج عذرائ''نام کی جگہ قتلہوگی، ان کے قتل کی وجہ سے اہل آسمان غضب ناک ہوں گے۔(١) چونکہ یہ احادیث قابل انکار نہیں ہیں اور انہیں بزرگان اہل سنت نے نقل کی ہیں، لہٰذا بعض صاحبان قلم نے ان میں بیجا و نارواتاویلیں کی ہیں،چنانچہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں : ''بہت سی روایات میں ان شیعوں سے مراد جن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ افراد ہیں جو حضرت علی کو تمام مخلوق میں سب سے افضل و برتر سمجھتے ہیں ،اس وجہ سے ہمارے معتزلی علمانے اپنی تصانیف اور کتابوں میں لکھا ہے کہ در حقیقت ہم شیعہ ہیں اور یہ جملہ قریب بہ صحت اور حق سے مشابہ ہے ''(٢) نیز ابن حجر ہیثمی نے اپنی کتاب '' الصواعق محرقہ فی الرد علی اھل البدع والزندقة''میں جوکہ شیعوں کے اصول و اعتقادکے خلاف لکھی گئی ہے،اس حدیث کو نقل (١ ) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٤ھ ج٢، ص٢٣١ (٢) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ۔دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، ج ٢٠ ، ص ٢٢٦ کرتے وقت بیان کیا : اس حدیث میں شیعوں سے مراد موجودہ شیعہ نہیں ہیں بلکہ ان سے مراد حضرت علی کے خاندان والے اوران کے دوست ہیںجو کبھی بدعت میں مبتلا نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اصحاب کرام کو سب و شتم کیا ''(١) مرحوم مظفر ان کے جواب میں بیان کرتے ہیں : بڑے تعجب کی بات ہے کہ ابن حجر نے گمان کیا ہے کہ یہاں شیعوں سے مراد اہل سنت حضرات ہیں مجھے نہیں معلوم کہ یہ مطلب لفظ شیعہ و سنی کے مترادف ہونے کی وجہ سے ہے یا اس وجہ سے کہ یہ دونوں فرقے ایک ہی ہیں ؟یا یہ کہ اہل سنت حضرات شیعوں سے زیادہ خاندان پیغمبر اسلام ۖ کی اطاعت و پیروی کرتے ہیں اور انہیں دوست رکھتے ہیں۔(٢) مرحوم کاشف الغطاء کہتے ہیں : لفظ شیعہ کو شیعیان حضرت علی سے منسو ب کرنے ہی کی صورت میں یہ معنیٰ سمجھ میں آتے ہیں ،ورنہ پھر اس کے علاوہ شیعہ کے کوئی دوسرے افراد ہیں۔(٣) احادیث اور اقوال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میںشیعہ معنیٰ کا ظہور روز روشن کی طرح واضح وآشکار ہے اور یہ حضرات اس طرح کی بے جا تاویلات کے ذریعہ حقیقت سے روگردانی کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے خود اپنے نفسوں کو دھوکا دیا،کیونکہ لفظ شیعہ کے (١)ہیثمی مکی ،ابن حجر ، صواعق محرقہ، مکتبة قاہرة، ١٣٨٤، ص ٢٣٢ (٢)مظفر ، محمد حسین تاریخ الشیعہ ، منشورات مکتبة بصیرتی ، ص٥ (٣) دفاع از حقانیت شیعہ ، ترجمہ غلام حسن محرمی ،مؤمنین، طبع اول ١٣٧٨ھ،ص٤٨۔٤٩ مصادیق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں موجود تھے اور کچھ اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم شیعیان علی کے نام سے مشہورتھے ۔ (١) اصحاب پیغمبر اسلام صلی ٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو شیعہ کہتے تھے ، ہاشم مرقال نے 'حضرت علی سے''محل بن خلیفہ طائی ''نامی شخص کے بارے میں کہا: ''اے امیرالمؤمنین!وہ آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔''(٢) اور خود شیعہ بھی آپس میں ایک دوسرے کو شیعہ کہتے تھے ،چنانچہ شیخ مفید نقل کرتے ہیں کہ ایک جماعت نے حضرت علی کی خدمت میں شرفیاب ہوکر عرض کی:''اے امیرالمومنین!''ہم آپ کے شیعوں میں سے ہیں ۔ نیز حضرت علی نے فرمایا : (١) سعد بن عبد اللہ اشعری اس بارے میں کہتے ہیں :سب سے پہلا فرقہ شیعہ ہے اوریہی فرقہ علی بن ابی طالب کے نام سے مشہورہے کہ جس کے افراد زمانہ ٔ پیغمبر ۖمیں شیعیان علی کہے جاتے تھے اور وفات پیغمبرۖ کے بعد بھی مشہور تھا کہ یہ افرادحضرت علی کی امامت کے معتقد ہیں ،جن میں مقداد بن اسود کندی ، سلمان فارسی اور ابوذر و عمار ہیں ،یہ حضرات حضرت علی کی اطاعت و پیروی کو ہر چیز پر ترجیح دیتے تھے اور آنجناب کی اقتدا کرتے تھے ،دیگر کچھ افراد ایسے تھے کہ جن کا نظریہ حضرت علی کے موافق تھا اور یہ اس امت کا پہلا گروہ ہے ، جس کو شیعیت کے نام دیا گیا،نیز شیعہ ایک قدیم نام ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی لفظ شیعہ کا استعمال ہوا ہے مثلا، شیعۂ نوح ، شیعۂ ابراہیم ، شیعۂ موسیٰ اور شیعۂ عیسیٰ نیزدیگر انبیا کے سلسلہ میں بھی ملتا ہے''المقالات والفرق ، مرکز انتشارات علمی ، فرہنگی ، تہران ص٣۔ (٢)شیخ مفید محمد، بن محمد نعمان ''الجمل ''مکتبة العلوم الاسلامی ، مرکز نشر ط دوم ١٤٢٦ھ ص٢٤٣ ''ہمارے شیعوں کے چہرے راتوں میں عبادت کی وجہ سے زرد پڑجاتے ہیں اور گریہ و زاری کی وجہ سے ان کی آنکھیں کمزور ہوجاتی ہیں…،(١)مذکورہ بالا روایت کی طرح حضرت علی نے بہت سے مقامات پر اپنی پیروی کرنے والوں کو شیعوں کے نام سے یاد کیا ہے ،مثلا جب طلحہ وزبیر کے ہاتھوں بصرہ میں رہنے والے شیعوں کی ایک جماعت کی خبر شہادت پہنچی تو حضرت نے (ان قاتلوں) کے حق میں نفرین کرتے ہوئے فرمایا : خدایا !انہوں نے میرے شیعوںکو قتل کردیا ،تو بھی انہیں قتل کر''(٢) حتیٰ دشمنان حضرت علی بھی اس زمانہ میں آپ کی پیروی کرنے والوں کو شیعہ کہتے تھے ،چنانچہ جب عائشہ و طلحہ و زبیر نے مکہ سے سفر عراق کی طرف سفر کیا تو آپس میں گفتگوکی اور کہا : ''بصرہ چلیں گے اور حضرت علی کے عاملین کو وہاں سے باہر نکالیں گے اور ان کے شیعوں کو قتل کریں گے۔(٣) بہر حال حقیقت تشیع وہی حضرت علی سے دوستی و پیروی اور آ پ کو افضل وبرتراور مقدم قرار دینا ہے جوکہ زمانہ پیغمبر ۖسے مربوط ہے،آنحضر ت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی احادیث و اقوال میں لوگوں کو حضرت علی اورآپ کے خاندان کی دوستی و پیروی کا حکم دیا ۔ منجملہ غدیر خم کا واقعہ ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں :یہ روایات، ان (١) شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ، ''الارشاد'' ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی ، کتاب فروشی اسلامیہ ، طبع دوم ، ص٢٢٨ (٢) شیخ مفید، محمد بن محمد نعمان''الجمل ''ص٢٨٥ (٣) شیخ مفید ،محمد بن محمد نعمان ص٢٣٥ لوگوں نے نقل کی ہیں جنہیں رافضی اور شیعہ ہونے سے کسی نے بھی متہم نہیں کیاہے یہاں تک کہ وہ دوسروں کی نسبت حضرت علی کی افضلیت و برتری اور تقدم کے قائل بھی نہیں تھے ۔(١) ہم اس سلسلہ کی بعض احادیث کی طرف( مزید) اشارہ کرتے ہیں : بریدہ اسلمی کہتے ہیں : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : خدائے تعالیٰ نے مجھے چار لوگوں سے دوستی کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھ سے فرمایا ہے : میں بھی انہیں دوست رکھتا ہوں ، لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ۖ!ان کا نام بتائے؟ آنحضرت نے تین بار فرمایا: ''علی ''اور پھر ابوذر ، مقداد اور سلمان فارسی کا نام لیا۔(٢) طبری جنگ احد کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں کہ رسو ل خدا ۖ نے فرمایا : ''میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہیں''(٣) جناب ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا : ''جب کبھی حضرت رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ ہوتے تھے تو حضرت علی کے علاوہ کوئی ان سے گفتگو کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا،سعد ابن ابی وقاص نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : (١)شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید معتزلی ،ج ٢، ص٣٤٩،طبع دار الاحیاء التراث العربی (٢)ہیثمی مکی صواعق المحرقہ، ص١٢٢، مکتبة القاہرہ، طبع دوم ١٣٥٨ (٣)تاریخ طبری، ج٢ ص٦٥ طبع سوم، دار الکتب العلمیة ، بیروت، تیسری طباعت ١٤٠٨ھ ''جس نے علی کو دوست رکھا ، اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ، اس نے خدا کو دوست رکھا اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی گویااس نے خدا سے دشمنی کی۔(١) ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : ''اے علی ! تم جنت اور جہنم کو تقسیم کرنے والے ہو، تم جنت کے دروازہ کوکھولوگے اور بغیر حساب داخل ہوجاؤ گے ،(٢) کتاب مناقب خوارزمی میں جناب ابن عباس سے نقل ہواہے کہ رسو ل خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : ''جب مجھے معراج پر لے جا یا گیا ،تو میں نے جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا:لاالہ الااللّہ ، محمد رسول اللّہ ،علی حبیب اللّہ ،الحسن والحسین صفوة اللّہ،فاطمة امة اللّہ،علیٰ مبغضھم لعنة اللّہ ''(١) زبیر بن بکار جو زبیر کے پوتے ہیں اور حضرت علی سے انحراف اختیار کرنے میں مشہور ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : '' جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور میری نبوت کو قبول کیا ،میں انہیں علی بن ابیطالب علیہماالسلام کی ولایت اور دوستی کی وصیت کرتا ہوں ، جس نے انہیںدوست رکھا، اس نے مجھے (١)صواعق محرقہ ص١٢٣، ہیثمی مکی (٢)ہیثمی مکی الصواعق المحرقہ ، ص ١٢٣،تذکرة الخواص،ص ٢٠٩، سبط ابن جوزی طبع ، منشورات مطبعہ حیدریہ نجف اشرف ١٣٨٣ (٣) مناقب ، ص ٢١٤ ، اخطب خوارزمی ١٣٨٥ دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا ،اس نے خدا کود وست رکھا''(١) ابن ابی الحدید ، زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیںکہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ''میں تمہیں اس چیز کی طرف راہنمائی کررہا ہوں کہ اگر جان لو گے تو ہلاک نہیںہوگے ، تمہارے امام علی بن ابی طالب( علیہماالسلام )ہیں ،ان کی تصدیق کر وکہ جناب جبرئیل نے مجھے اس طرح خبر دی ہے ''۔ ابن ابی الحدید معتزلی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں اگرلوگ کہیں کہ یہ حدیث صریحی طور پر حضرت علی کی امامت پر دلالت کرتی ہے توپھر معتزلہ کس طرح اس اشکال کو حل کریں گے ؟ ہم جواب میں کہتے ہیں :ہوسکتاہے کہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ ہو کہ حضرت علی فتویٰ دینے اور احکام شرعی میں لوگوں کے امام ہیں ، نہ کہ خلافت کے سلسلہ میں ، جس طرح ہم نے بغدادی علمائے معتزلہ کے اقوال کی شرح میںجو بات کہی ہے وہ (اس اشکال کا ) جواب ہوسکتی ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے: در حقیقت امامت و خلافت حضرت علی کا حق تھا ، اس شرط کے ساتھ کہ آنجناب اس کی طرف میل و رغبت کا اظہار کرتے اور اس کی خاطر دوسروں کے مد مقابل آجاتے لیکن چونکہ آپ نے اس عہدہ امامت و خلافت کو دوسروں پر چھوڑکر سکوت اختیار کیا،لہذا ہم نے ان کی ولایت و سر براہی کو قبول کرتے ہوئے ان کی خلافت کے صحیح ہونے کا اقرار (١) الاخبار الموفقیات ، انتشارات الشریف الرضی ، قم، ١٤١٦ھ ص٣١٢ واعتراف کرلیا ،چنانچہ حضرت علی نے خلفائے ثلاثہ کی مخالفت نہیں کی اور ان کے مقابلہ میں تلوار نہیں اٹھائی اور نہ ہی لوگوں کو ان کے خلاف بھڑ کایا ، پس آپ کا یہ عمل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے ان کی خلافت کی تصدیق کی، اسی وجہ سے ہم ان کو قبول کرتے ہیں اور ان کے بے قصور ہونے اور ان کے حق میں خیر وصلاح کے قائل ہیں،ورنہ اگر حضرت علی ا ن حضرات سے جنگ کرتے اور ان کے خلاف تلوار اٹھا لیتے اور ان سے جنگ کرنے کے لئے لوگوں کو دعوت دیتے تو ہم بھی ان کے فاسق و فاجر اور گمراہ ہونے کا اقرار و اعتراف کرلیتے'' (١) شیعوں کے دوسرے نام: حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بعد جب تشیع وسیع تر ہوئی تو شیعہ نام کے علاوہ آہستہ آہستہ اور دوسرے عناوین جیسے علوی ،امامی ،حسینی ،اثنا عشری ،خاصہ، جعفری ترابی ، رافضی، خاندان رسالت کے دوستوں کے لئے استعمال ہونے لگے اگر چہ عام طور پر اہل بیت کے دوستوں کو شیعہ ہی کہتے تھے، یہ القاب اور عناوین مختلف مناسبتوں سے شیعوں کے متعلق کہے گئے کبھی مخالفین یہ القاب شیعوں کی سرزنش اور ان کو تحقیر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے، چنانچہ معاویہ کے زمانے میں بنی امیہ اور اہل شام علی کے القاب اور کنیت میںسے آپ کو ابو تراب اور آپ کے شیعوں کو ترابی کہتے تھے ،معاویہ نے صفین (١)شرح نہج البلاغہ ،ج ٣ ، ص ٩٨ ابن ابی الحدید معتزلی ،طبع ، دار الاحیاء الکتب العربیة مصر،طباعت اول، ١٣٧٨ھ ق اورحکمیت کے بعد جب عبداللہ بن خزرمی کو بصرہ بھیجنا چاہاتو تمام قبیلوں کے بارے میں اس نے بہت تاکید کی لیکن قبیلہ ربیعہ کے بارے میں کہا کہ:ربیعہ کو چھوڑواس لئے کہ اس کے تمام افراد ترابی ہیں۔(١) مسعودی کے بقول ابو مخنف کے پاس ایک کتاب تھی جسکا نام'' اخبار الترابیین'' تھا، مسعودی اس کتاب سے نقل کرتا ہے کہ جس میں ( عین الورد کے حوادث)کا تذکرہ کیا گیا ہے۔(٢) رافضی عنوان کو مخالفین، شیعوں پر اطلاق کرتے تھے اور اکثر جب کسی کو چاہتے تھے کہ اس پر دین کو چھوڑنے کی تہمت لگائیں تو اس کورافضی کہتے تھے ۔ چنانچہ شافعی کہتے ہیں: ان کان رفضاً حب آل محمدٍ فلیشہد الثقلان انی رافضی یعنی اگر آل محمد علیہم السلام کی دوستی رفض ہے تو جن وانس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں ۔(٣)(٤) تاریخ میں آیا ہے کہ زید بن علی کے قیام کے بعد شیعوں کو رافضی کہا جاتا تھا، (١) بلاذری ،انساب الاشراف ،منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ،بیروت ،١٣٩٤ھ ج ٢ ص٤٢٣ (٢)مسعودی ،مروج الذہب ،منشورات موسسة الاعلمی للمطبوعات،بیروت، ١٤١١ھ ج٣ ص١٥ (٣)ہیثمی مکی ،الصواعق المحرقہ ص ١٢٣، (٤)الامین ،سید محسن ،اعیا ن الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت ،ج١، ص٢١ شہرستانی کہتا ہے: جس وقت شیعیان کوفہ نے زید بن علی سے سنا کہ وہ شیخین پر تبرّا نہیں کرتے اور افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کی امامت کو جائز جانتے ہیں تو ان کو چھوڑ دیا اوروہ اسی وجہ سے رافضی کہلانے لگے، کیونکہ رفض کے معنیٰ چھوڑنے کے ہیں۔(١) علوی لقب کے بارے میں سید محسن امین لکھتے ہیں :عثمان کے قتل نیز معاویہ کے حضرت علی سے برسر پیکار ہونے کے بعد معاویہ کی پیروی کرنے والوں کو عثمانی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ عثمان کو دوست رکھتے تھے اورحضرت علی سے نفرت کرتے تھے اور حضرت علی کے چاہنے والوں پر شیعہ کے علاوہ علوی ہونے کا بھی اطلاق ہوتا ہے اور یہ طریقۂ کار بنی امیہ کے دور حکومت کے آخر تک جاری رہا اور عباسیوں کے زمانے میںعلوی اور عثمانی نام منسوخ ہو گئے اور صرف شیعہ اور سنی استعمال ہو نے لگا،(٢) شیعوں کے لئے دوسرا نام امامی تھا جو زیدیوں کے مقابلے میں بولا جاتا تھا۔ چنانچہ ابن خلدون لکھتا ہے: بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ روایات صریح دلالت کرتی ہیں کہ امامت صرف علی کی ذات میں منحصر ہے اور یہ امامت ان کے بعد ان کی اولاد میں منتقل ہو جائے گی ،یہ لوگ امامیہ ہیں اور شیخین سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں کیوںکہ انہوںنے علی کو مقدم نہیں کیا اور ان کی بیعت نہیں کی ،یہ لوگ ابو بکر اور عمر کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیںاور بعض شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر ۖ نے اپنی جگہ پر کسی کو معین نہیں کیا بلکہ (١)شہرستانی ،ملل و نحل، منشورات شریف الرضی ،قم ،١٣٦٤ ھ ج: ١، ص١٣٩ (٢) امین ،سید محسن ،اعیان الشیعہ ص١٩ امام کے اوصاف بیان کردیئے کہ جوصرف امام علی پر منطبق ہوتے ہیں اور یہ لوگوں کی کو تاہی تھی کہ انہوںنے ان کو نہیں پہچانا ،وہ لوگ جو شیخین کو برا نہیںکہتے ہیں وہ فرقہ زیدیہ میں سے ہیں۔(١) امام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے بعد جوا شعار کہے گئے ہیں اور ابھی تک باقی ہیں ان سے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ امام مظلوم کی شہادت کے بعد ان کے شیعوں کو حسینی بھی کہا جاتا تھا، ان لوگوں نے اپنے کو اکثر اشعار میں حسینی اور دین حسین پر اپنے آ پ کو پہچنوایاہے۔(٢) ابن حزم اندلسی اس بارے میں کہتے ہیں : رافضیوں میں سے کچھ حسینی ہیں کہ جو ابراہیم (ابن مالک)اشتر کے اصحاب میں سے ہیں کہ جو کوفہ کی گلیوں میں گھومتے پھرتے تھے اور ''یا لثارات الحسین'' کا نعرہ لگاتے تھے ان کو (حسینی) کہا جاتا تھا۔(٣) لیکن قطعیہ کانام امام موسیٰ کاظم کی شھادت کے بعد واقفیہ کے مقابلہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھایعنی ان لوگوں نے امام موسیٰ کاظم کی شہادت کا قاطعیت کے ساتھ یقین کرلیا تھا اور امام رضا اور ان کے بعد آنے والے اماموں کی امامت کے قائل ہوگئے تھے جب کہ واقفیہ امام موسیٰ کاظم کی شہادت کے قائل نہ تھے۔(٤) (١)ابن خلدون ،مقدمہ ،دار احیاء ا لتراث العربی،بیروت،١٤٠٨ھ ص١٩٧ (٢)ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ،مؤسسہ انتشارات علامہ ،قم ،ج٤،ص١٠٢ (٣)عبد ربہ اندلسی ،العقد الفرید، دار احیاء التراث العربی، بیروت ،١٤٠٩ھ ج٢ ،ص٢٣٤ (٤)شہرستانی ،ملل و نحل ،ص ١٥٠ آج جعفریہ کالقب،فقہی اعتبار سے زیادہ تر اہل سنت کے چار مذاہب کے مقابل میں استعمال ہوتا ہے کیو نکہ فقہ شیعہ امام جعفر صادق کے توسط سے زیادہ شیعوں تک پہنچی ہے اور زیادہ تر روایتیں بھی امام جعفرصادق سے نقل ہوئی ہیں، لیکن سید حمیری کے شعر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلمۂ جعفری کانہ صرف فقہی لحاظ سے امام صادق کے زمانہ میں شیعوں پر اطلاق ہوتا تھا بلکہ اصولی لحاظ سے بھی تمام فرقوں کے مقابلہ میںیہ نام استعمال ہوا ہے، سیدحمیری اپنے شعر میں کہتے ہیں۔ ''تجعفرت باسم اللہ واللہ اکبر'' میں خدا کے نام سے جعفری ہو گیا ہوں اور خدا وند متعال بزرگ ہے ۔(١) سید حمیری کا مقصد جعفری ہونے سے فرقۂ حقہ شیعہ اثنا عشری کے راستہ پر چلنا ہے کہ جو کیسانیہ کے مقابلہ میں ذکر ہوا ہے۔ (١)مسعودی ،علی بن حسین ،مروج الذھب منشورات مؤسسةالاعلمی،ج:٣،ص٩٢ صحابہ کے درمیان حضرت علی کا مقام حضرت علی کا اصحاب پیغمبر ۖکے درمیان ایک خاص مقام ہے ،مسعودی کہتا ہے: وہ تمام فضائل و مناقب جو اصحاب پیغمبرۖ میں تھے جیسے اسلام میں سبقت ، ہجرت ،نصرت پیغمبرۖ،آنحضرتۖ کے ساتھ قرابت ،قناعت ،ایثار ، کتاب خدا کا جاننا ،جھاد، تقویٰ، ورع پرہیز گاری ، زہد،قضا،فقہ وغیرہ یہ تمام فضیلتیں حضرت علی میں بدرجہ اتم موجود تھیں بلکہ ان کے علاوہ بعض فضیلتیں صرف آپ کی ذات گرامی سے مختص ہیں جیسے پیغمبر ۖ کابھائی ہونا اور پیغمبر ۖ کا آپ کے بارے میں فرمانا: یا علی: تم کومجھ سے و ہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی، اور یہ بھی کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں ، اے اللہ !علی کے دوستوں کودوست رکھ اور علی کے دشمن کو دشمن قراردے اور جب انس بھنے ہوئے پرندے کو لے کر حاضر ہوئے تو پیغمبر ۖنے دعاکی: پرور دگار ا!پنی محبوب ترین مخلوق کو بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے اس وقت حضرت علی وارد ہوئے اورآپ نے پیغمبر ۖ کے ساتھ کھانا کھایا ، جب کہ پیغمبر ۖکے تمام اصحاب ان فضائل سے محروم تھے۔(١) بنی ہاشم میں بھی حضرت علی پیغمبر ۖسے سب سے زیادہ نزدیک تھے بچپنے ہی سے آپ نے پیغمبرۖ کے گھر اور انھیں کے زیر نظر تربیت پائی۔(٢) آپ شب ہجرت پیغمبرۖ کے بستر پر سوئے اور پیغمبرۖ کی امانتوں کو صاحبان امانت تک پہنچایااور مدینہ میں آپ سے ملحق ہوئے ۔(٣) ان سب سے اہم بات یہ ہے کہ رسول خدۖا نے اسلام میں حضرت علی کے مقام کو آغاز پیغمبری ہی میں معین فرمادیاتھا، جس وقت پیغمبر ۖ کوحکم ہو ا کہ اپنے قرابت داروں کو ڈرائیں اس جلسہ میں جو پیغمبرۖ کی مدد کے لئے حاضر ہوئے وہ صرف علی تھے اس کے بعد رسول ۖنے اسی جلسہ میں خاندان کے بزرگوں کے درمیان یہ اعلان کردیا کہ (١)مسعودی ، علی بن حسین مروج الذھب ، موسسة الاعلمی ، للمطبوعات ، بیروت ، ١٤١١ھج ٢ ص٤٤٦ (٢)ابوالفرج اصفہانی ،مقتل الطالبین ،منشورات شریف الرضی ،قم ١٤١٦ھ ص٤١ (٣)مسعودی ،علی بن حسین ، مروج الذہب ،ص٢٩٤ علی میرے وصی وزیر ،خلیفہ اور جا نشین ہیں جب کہ حضرت علی کا سن تمام حاضرین سے کم تھا(١) پیغمبر اکرمۖ نے مختلف مقامات پر مناسبت کے لحاظ سے حضرت علی کی موقعیت اور ان کے مقام کو لوگوںکے سامنے بیان کیا ہے اور ان کے مقام کے لئے خاص تاکید کی ہے، خاص طور پر اسلام کے پھیلنے کے بعد کافی لوگ جو مسلمانوں کے لباس میں آگئے تھے خصوصاًقریش کا حسد خاندان بنی ہاشم و رسالت سے کافی زیادہ ہوچکا تھا ، ابن شہر آشوب نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں علی کو اذیت دے رہا تھا کہ پیغمبر ۖسے ملاقا ت ہوگئی تو آپ نے فرمایا: اے عمر! تونے مجھے اذ یت دی ہے عمر نے کہا : خدا کی پناہ کہ میں اللہ کے رسول کو اذیت دوں،آپ نے فرمایا تونے علی کو اذیت دی ہے اور جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔ مصعب بن سعدنے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے : میںاور ایک دوسرا شخص مسجد میںعلی کو برا بھلا کہہ رہے تھے، پیغمبر ۖ غضب ناک حالت میں ہماری طرف آئے اورفرمایا :کیو ں مجھ کو اذیت دے رہے ہو جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔ ہیثمی نقل کرتا ہے: بریدہ اسلمی ان لو گوںمیںسے ہے کہ جو حضرت علی کی سپہ سالاری میں یمن گئے تھے وہ کہتا ہے کہ میں لشکر سے پہلے مدینہ واپس آگیا لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا خبر ہے؟میں نے کہا : خبریہ ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو کامیاب کردیاہے پھر لوگوں (١)یوسفی غروی ،محمد ہادی ،موسوعة التاریخ الاسلامی ،مجمع الفکرالاسلامی ،قم ،طبع اول ١٤١٧ھ ج١ ص٤١٠ نے دریافت کیا کہ تو تم کیوں پہلے واپس آگئے؟میں نے کہا : علی نے ایک کنیز خمس میں سے اپنے لئے مخصوص کرلی ہے میںآیاہوں تاکہ اس بات کی خبر پیغمبر ۖ کو دوں ، جس وقت یہ خبر پیغمبرۖ تک پہنچی تو پیغمبرۖ ناراض ہوئے اور آپۖ نے فرمایا: آخرکیوں کچھ لوگ علی کے بارے میں چوںچرا کرتے ہیں جس نے علی پر اعتراض کیا اس نے مجھ پر اعتراض کیا ہے جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہو ا، علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،وہ میری سرشت سے خلق ہوئے ہیں اور میں سرشت ابراہیم سے، اگرچہ میںابراہیم سے افضل ہوں،اے بریدہ! کیا تم نہیں جانتے کہ علی ایک کنیزسے زیادہ کے مستحق ہیںاور وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں۔(١) ابن شہر آشوب نے بھی اس طرح کی حدیث محدثان اہل سنت سے نقل کی ہے جیسے تر مذی ،ابو نعیم ،بخاری و موصلی وغیرہ۔(٢) ابن شہر آشوب انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں : رسول اسلام ۖکے زمانہ میں اگر کسی کو پہچاننا چاہتے تھے کہ کون حرام زادہ ہے اور کون حرام زادہ نہیںہے تو اس کو علی بن ابی طالب کے بغض سے پہچانتے تھے ،جنگ خیبر کے بعد لوگ اپنے بچوں کو اپنی آغوش میںلئے ہوئے جاتے تھے جب راستہ میں علی کو دیکھتے تھے اوروہ ہاتھوں سے حضرت علی کی طرف اشارہ کرتے تھے اور بچہ سے پوچھتے تھے کہ اس شخص (١)ہیثمی ،نورالدین علی بن ابی بکر ،مجمع الزوائد، دار الفکر للطباعةوالنشر التوزیع،بیروت ١٤١٤ھ ، ج٩، ص١٧٣ (٢) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،ص،١١ ٢۔٢١٢ کو دوست رکھتے ہو اگر بچہ نے کہا: ہاں تو اس کا بوسہ لیتے تھے اور اگروہ کہتاتھا نہیں ، تو اس کو زمین پراتاردیتے اور کہتے کہ اپنی ماں کے پاس چلے جائو،عبادہ بن صامت کا بھی کہناہے: ہم اپنی اولادکو بھی علی بن ابی طالب کی محبت پر آزماتے تھے اگر دیکھتے تھے کہ ان میںسے کوئی ایک بھی حضرت علی کو دوست نہیں رکھتاتو سمجھ لیتے تھے کہ یہ نجات یافتہ نہیں ہو سکتا ۔(١) پیغمبر اکرمۖ کی عمر کے آخری سال گزرنے کے ساتھ ساتھ مولا علی کی جانشینی کا مسئلہ عمومی تر ہوتا گیا اور اس قدر عام ہو ا کہ لقب وصی حضرت علی سے مخصو ص ہو گیا جس کو دوست و دشمن سبھی قبول کرتے تھے خاص کر رسول اکرم ۖ نے تبوک جانے سے پہلے حضرت علی سے فرمایا: اے علی !تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حجةالوداع کے موقع پر بھی پیغمبر ۖ نے منیٰ و عرفات کے میدان میں اپنی تقریر وں کے ذریعہ لوگو ں کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی تھی کہ میرے بارہ جانشین ہوں گے جو سب کے سب بنی ہاشم سے ہوں گے۔(٢) بالآخر مکہ سے واپسی پرغدیر خم کے میدان میں خدا کا حکم آیاکہ تمام مسلمانوں کے درمیان علی کی جانشینی کا اعلان کردیں ،رسول اکرم ۖنے ،مسلمانوں کو ٹھہرنے کا حکم دیا اور اونٹ کے کجاؤںکے منبر پر تشریف لے گئے اورمفصل تقریر کے بعد فرمایا: (١) ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ،ص،٢٠٧ (٢)مرتضیٰ عاملی ،سید جعفر ،الغدیروالمعارضون ،دار السیر، بیروت ،١٤١٧ھ ص٦٢۔٦٦ (من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ) اس کے بعد لوگوں کو حکم دیا کہ علی کی بیعت کریں اس مطلب کی تفصیل علامہ امینی نے الغدیر کی پہلی جلد میں بیان کی ہے ،رسول خداۖ نے مسلمانوں میں اعلان کر دیا کہ کون میرا جانشین ہے اسی بنا پر لوگوں کو یقین تھا کہ پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد علی ان کے جانشین ہوں گے، زبیر بن بکار اس سلسلے میں لکھتا ہے : تمام مہاجرین اور انصار کو اس بارے میں بالکل شک نہیں تھا کہ رسول خدۖا کی وفات کے بعد حضرت علی خلیفہ اور صاحب الامر ہوںگے۔(١) یہ مطلب زمانۂ سقیفہ کے اشعار سے بخوبی آشکار ہے اور یہ اشعار اس مطلب پر دلیل ہیں جب کہ ان اشعار میں مختصر سی تحریف ہوئی ہے عتبہ بن ابی لہب نے سقیفہ کے واقعہ کے بعداور ابوبکر کے خلیفہ بن جانے کے بعد اس طرح اشعار پڑھے ہیں ۔ ما کنت احسب ان الأمر منصرف عن ہاشم ثم منہا عن ابی حسن میں نے اس بات کا گمان بھی نہیں کیا تھا کہ خلافت کو بنی ہاشم اور ان کے درمیان ابوالحسن یعنی حضرت علی سے چھین لیںگے۔ الیس اول من صلّی لقبلتکم و اعلم الناس بالقرآن و السنن (١) زبیر بن بکار، الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی،قم ،١٤١٦ھ ،ص٥٨ کیاوہ سب سے پہلے شخص نہیں ہیںجنہوںنے تمہارے قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور لوگوں میں قرآن و سنت کو سمجھنے میں سب سے دانا ہیں۔ و اقرب الناس عہداً باالنبی ۖ و من جبرئیل عون لہ فی الغسل و الکفن وہ لوگوں میں سب سے آخری شخص ہیںجس نے پیغمبر ۖ کے چہرے پر نگاہ کی ، جبرئیل آنحضرت کے غسل و کفن میں ان کی مدد کر رہے تھے۔ ما فیہ ما فیہم لا یمترون بہ و لیس فی القوم ما فیہ من الحسن جوکچھ ان کے پاس ہے اور جو کچھ دوسروں کے پاس ہے اس کے بارے میں فکر نہیںکرتے در حالانکہ قوم میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس کی نیکیاں ان کے برابر ہوں ماذا الذی ردہم عنہ فتعلمہ ہا ان ذا غبننا من اعظم الغبن کون سی ایسی چیز ہے جس نے ان کو ان سے برگشتہ کردیا ہے ،جان لو کہ یہ ہمارا ضرر بہت بڑا نقصان ہے ۔ ان اشعار کے کہنے کے بعد حضرت علی نے اس سے سفارش کی کہ دوبارہ ایسا نہیں کرنا اس لئے ہمارے لئے دین کی سلامتی سب سے زیادہ اہم نکلے ۔(١) (١)زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی قم ،١٤١٦ھ ص ا٥٨ ابن ابی عبرہ قرشی نے بھی یہ شعرپڑھے : شکراً لما ہو باالثنا ء حقیق ذہب الّجاج و بویع الصدیق اس کا شکر جو تعریف کے لائق ہے ،صدیق کی بیعت کی گئی اور ہمارے درمیان جھگڑا ختم ہو گیا ۔ کنّا نقول لہا علی و الرضا عمر و اولاہم بذاکٔ عتیق ہم کہتے تھے کہ علی خلافت کے حقدار ہیں اور ہم عمر سے بھی راضی تھے لیکن اس مورد میں ان کے درمیان سب سے بہتر ابو بکر نکلے۔(١) خلافت کے موقع پر وہ اختلاف جو سقیفہ کی بنا پر قریش و انصار کے درمیان پیدا ہوا اور عمرو عاص نے انصارکے خلاف گفتگو کی نعمان بن عجلان جو انصار کے شعراء میں سے ایک تھے انہوں نے عمرو عاص کے جواب میں اشعار کہے جو علی کے حق کی وضاحت کرتے ہیں۔ فقل لقریشٍ نحن اصحاب مکة و یوم حنین والفوارس فی بدر قریش سے کہو ہم فتح مکہ کے لشکر، جنگ حنین اور بدر کے سواروں میں سے ہیں (١) زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی، قم ،١٤١٦ھ ص ٥٨٠ و قلتم حرام نصب سعد و نصبکم عتیق بن عثمان حلال ابا بکر تم نے کہا سعد کو خلافت پر منصوب کرنا حرام ہے اور تمہارا عتیق بن عثمان، (ابوبکر) کو نصب کرنا جائز ہے۔ و اہل ابو بکر لہا خیر قائم و ان علیاً کان اخلق بالامر اور تم نے کہا ابو بکر اس کے اہل ہیں اور اس کو انجام دے سکتے ہیں جبکہ علی لوگوں میں سب سے زیادہ خلافت کے حقدارو سزاوار تھے۔ وکان ہوانا فی علیّ و انہ لاہل لہا یا عمرو من حیث لاتدری ہم علی کے طرفدار تھے اور وہ اس کے اہل تھے لیکن اے عمر و !تو اس بات کو نہیںسمجھتا . فذاکٔ بعون اللّہ یدعواالی الھدیٰ و ینہیٰ عن الفحشاء و البغی و النّکر یہ علی ہیں جو خدا کی مدد سے لو گوں کی ہدایت کرتے ہیں ،علی ہیں جو ظلم و فحشا سے روکتے ہیںاور نہی عن المنکر کرتے ہیں ۔ وصی النبی المصطفیٰ وابن عمہ وقاتل فرسان الضلالة والکفر یہ علی ہیںجو وصی مصطفیۖ اور ان کے بھائی ہیں جو کفر و ضلالت کے پہلوانوں کو قتل کرنے والے ہیں ۔(١) حسان بن ثابت نے بھی فضل بن عباس کے شکریہ کی وجہ سے کہجنہوںنے حضرت علی کے حکم سے انصار کا دفاع کیا، ان اشعار کو پڑھا: جزیٰ اللّہ عنا و الجزابکفّہ ابا حسن عنا و من کان کابی حسن خدا ہماری طرف سے ابوالحسن کو جزائے خیر دے کیوں کہ جزا اسی کے ہاتھ میں ہے اور کون ہے جو کہ علی کے مانند ہے؟ سبقت قریش بالذی انت اہلہ فصدرکٔ مشروح و قلبک ممتحن علی ہی اس کے اہل تھے قریش پر سبقت لے گئے آپ کا سینہ کشادہ اور قلب امتحان شدہ (پاک و پاکیزہ )ہے ۔ حفظت رسول اللّہ فینا و عہدہ الیکٔ و من اولیٰ بہ منکٔ من و من پیغمبرۖ کی سفارش کو ہمارے بارے میں حفظ کیا آپ کے علاوہ کون ہے جو رسولۖ کا ولی اور جانشین ہو؟ الست اخاہ فی الہدیٰ و وصیّہ واعلم منہ باالکتاب و السّنن (١)زبیر بن بکار ،الاخبار الموفقیات ،منشورات شریف الرضی، قم ،١٤١٦ھ ص٥٩٢ کیا آپ وہ نہیں ہیں جو ہدایت میں پیمبرۖ کے بھائی اور ان کے وصی اور لوگوں میں کتاب و سنت کے سمجھنے میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں؟ (١) ابو سفیان بھی شروع میں(سقیفہ کی) خلافت کا مخالف تھا اور حضرت علی کی طرف سے دفاع کرتا تھا ،تقریر کے علاوہ جو اس نے سلسلہ میں کہے ہیں وہ ذیل کے اشعار کہ جس کی نسبت اس کی طرح دی گئی ہے : بنی ہاشم لاتطمعوا الناس فیکم ولا سیّما تیم بن مرّة اوعدی(٢) اے بنی ہاشم! تم اس بات کی اجازت نہ دو کہ دوسرے تمھارے کام میں لالچ کریں بالخصوص تیم بن مرہ یا عدی ۔ فما الأمر الأ فیکم و الیکم و لیس لہا الّا ابوالحسن علیّ خلافت فقط تمہارا حق ہے اور صرف ابوالحسن علی اس کے اہل اور سزاوار ہیں۔(٣) غدیر کے دن حسان بن ثابت جو شاعر پیغمبر ۖ کہے جاتے تھے رسول اسلام ۖ سے اجازت مانگی اور غدیر کے واقعہ کو اپنے اشعار میں اس طرح پیش کیا : (١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف الرضی ،قم ،طبع اول ١٤١٤ ھ ج ٢ ص ١٢٨ (٢)تیم ابو بکر کا اور عدی عمر کا قبیلہ تھا ۔ (٣)ابن واضح، تاریخ یعقوبی ص١٢٦ ینادیھم یوم ا لغدیر نبیھم بخم واسمع بالنبی منادیاً مسلمانوں کا پیغمبرۖغدیر خم کے دن ان کو آواز دیتا ہے لوگو آئو پیغمبر ۖ کی آواز کو سنو وقد جاء جبرئیل عن امر رب بانکّ معصوم فلاتکٔ وانیا جبرئیل خدا کی طرف سے پیغام لائے کہ(اے رسولۖ) تم خدا کی حفظ و امان میں ہو لہذا اس سلسلہ میں سستی وغفلت نہ برتو۔ و بلّغھم ما انزل اللّہ ربھم الیکٔ ولا تخش ھناکّ الاّ عادیا جو کچھ تمہارے خدا نے تم پر نازل کیا ہے اس کو پہنچا دواور اس موقع پر دشمنوں سے نہ ڈرو۔ وتقام بہ اذ ذاکٔ رافع کفّہ بکف علیّ معلن الصوت عالیا علی کو اپنے ہاتھوں سے اٹھایااس طرح سے کہ علی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر بلندکیا اور بلند آواز سے اعلان کیا۔ فقال فمن مولاکم و ولیکم فقالوا ولم یبدوا ھناکّ تعامیا اس کے بعد لوگوں سے کہا: کون ہے تمہارا مولا و ولی؟ پس انہوں نے بے توجہی کا ثبوت دئے بغیر کہا۔ الھک مولانا وانت ولینا ولن تجدن فینا لکٔ الیوم عاصیا آپ کا خدا ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارے ولی ہیں؟ ہم میں سے کوئی بھی سرکش نہیں ہے۔ فقال قم یا علی فاننی رضیتک من بعدی اماماً و ھادیاً اس کے بعد آپ نے فرمایا: اے علی ! اٹھو میں راضی ہوںاس بات سے کہ تم میرے بعد امام اور ہادی ہوگے۔ فمن کنت مولا ہ فھذا ولیّہ فکونو لہ انصار صدق موالیاً اس کے بعد کہا جس شخص کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں تم لوگ ا ن کے حقیقی اور سچے دوست بنو۔ ھناک دعا اللھم وال ولیہ وکن للذی عادی علیاً معادیاً اس مقام پر رسولۖ نے دعا کی: خدایا !علی کے دوست کو دوست رکھ اور علی کے دشمن کو دشمن قرار دے۔ فیارب انصر ناصریہ لنصرھم امام ھدی کالبدر یجلوا الدیا جیا(١) پرور دگارا!علی کی مدد کرنے والوںکی مدد کرکیونکہ جس طرح تاریک شب میں چاند ہدایت کرتا ہے اسی طرح وہ اپنے چاہنے والوں کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان اشعارمیں حسان نے پیغمبر اسلامۖ کی تقریر جو علی کے بارے میں تھی ان کو امام، ولی اور ہادی جاناکہ جو امت کی رہبری اور زعامت کی وضاحت کرتی ہے ہاں !عام مسلمان اس بات کا گمان نہیں کرتے تھے کہ پیغمبر ۖکے بعدکوئی بھیپیغمبرۖ کی جانشینی اور خلافت کے بارے میں علی سے جھگڑا کرے گاجیسا کہ معاویہ نے محمد بن ابی بکر کے خط کے جواب میں تحریر کیا کہ رسول ۖکے زمانہ میں میں اور تمہارے باپ ابوطالب کے بیٹے کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم سمجھتے تھے اور ان کے فضل کو اپنے اوپر آشکار جانتے تھے پیغمبر ۖ کی رحلت کے بعد تمہارے باپ اورعمر سب سے پہلے وہ شخص تھے کہ جنہوںنے علی کے مرتبہ کو گھٹا یا اور لوگوں سے اپنی بیعت لی ۔(٢) یہی وجہ ہے وہ لوگ جو پیغمبرۖ کی زندگی کے آخری مہینوںمیں مدینہ میںنہیں تھے انہیں بعد وفات پیغمبرۖ بعض انجام دی جانے والی سازشوں کا علم نہیں تھا، جیسے خالدبن سعید (١)امینی ، عبد الحسین،الغدیر ،دارالکتب الاسلامیہ ،تہران،١٣٦٦ہجری شمسی ج،١ ص١١،و ج٢،ص ٣٩ (٢)بلاذری ،احمد بن یحییٰ بن جابر ،انساب الاشراف ،منشورات مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت ١٣٩٤ھ ،ج٢،ص٣٩٦ اور ابوسفیان پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد جب مدینہ آئے تو انے دیکھاکہ ابوبکر پیغمبر ۖ کی جگہ بیٹھے ہیں اور خود کو پیغمبر ۖ کا خلیفہ بتا رہے ہیںتو ان لوگوں کو بہت تعجب ہوا ۔( ١) حتیٰ کہ جب ابو سفیان سفر سے واپس آیا اور ان حالات کو دیکھا تو عباس بن عبدالمطلب اور علی کے پاس گیا اور ان سے درخواست کی کہ اپناحق لینے کے لئے قیام کریں لیکن انہوں نے اس کی بات کو قبول نہیں کیا، البتہ ابو سفیان کی نیت میں خلوص نہیں تھا۔(٢) اگر چہ پیغمبر اکرم ۖکے اکثر صحابہ نے ابو بکر کی خلافت کو قبول کرلیا لیکن علی کے کی فضلیت وبرتری کو نہیں بھولے جب آپ مسجد میںہوتے تھے شرعی مسائل میںآپ کے علاوہ کوئی فتویٰ نہیں دیتا تھا کیونکہ آپ کو رسول ۖ اکرم کی صاف و صریح حدیث کی بنا پر امت میںسب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والا جانتے تھے۔(٣) حضرت عمر کا کہنا تھا کہ خدانہ کرے کوئی مشکل پیش آئے اور ابوالحسن نہ ہوں ۔(٤) نیزاصحاب پیغمبرۖ سے کہتے تھے ؛ جب تک علی مسجد میںموجودر ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی فتویٰ دینے کا حق نہیں رکھتا۔(٥) (١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی منشورات شریف الرضی، قم ،طبع اول ،١٤١٤ھ، ج٢، ص١٢٦ (٢) ابن اثیر، عزالدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم ،اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ ، داراحیاء التراث العربی بیروت ،ج٣ ،ص١٢، ابن واضح، تاریخ یعقوبی ۔ج٢ ،ص١٢٦ (٣)بلاذری ،انساب الاشراف ،ص٩٧ (٤)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،دار احیاء التراث االعربی ،ج ١ ،ص١٨ (٥)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ،دار احیاء التراث االعربی ،ج ١ ،ص١٨ اگر چہ علی نے پیغمبر کی وفات کے بعد سیاسی اقتدارحاصل نہیں کیالیکن آپ کے فضائل ومناقب کویہی اصحا ب پیغمبر ۖبیان کرتے ہیں، ابن حجر ہیثمی جو اہل سنت کے متعصب عالموں میں سے ہیں انہوںنے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد تیس افراد بتائی ہے۔(١) لیکن ابن شہر آشوب نے حدیث غدیر کے اصحاب میںراویوں کی تعداد اسی(٨٠) بیان کی ہے۔(٢) لیکن علامہ امینی نے حدیث غدیر کے راویوں کی تعداد جو صحابہ سے نقل ہوئی ہے ایک سو دس ذکر کی ہے کہ جس کی تفصیل یوں ہے:۔(٣) ابو ہریرہ، ابو لیلیٰ انصاری ،ابو زینب انصاری، ابو فضالہ انصاری، ابو قدامہ انصاری، ابو عمرہ بن عمرو بن محصن انصاری، ابوالہیثم بن تیّہان، ابو رافع، ابو ذؤیب، ابوبکر بن ابی قحافہ، اسامہ بن زید،ا بی بن کعب ،اسعد بن زراۂ انصاری، اسماء بنت عمیس،ام سلمہ، ام ہانی، ابو حمزہ انس بن مالک انصاری، براء بن عازب، بریدہ اسلمی، ابوسعید ثابت بن ودیعہ انصاری، جابر بن سمیرہ، جابر بن عبد اللہ انصاری، جبلہ بن عمرو انصاری، جبیر بن مطعم قرشی، جریر بن عبد اللہ بجلی ، ابوذر جندب بن جنادہ، ابو جنیدہ انصاری ،حبہ بن جوین عرنی، حبشی بن جنادہ سلولی ،حبیب بن بدیل بن ورقاء خزاعی، حذیفہ بن اسید غفاری، ا بو ایوب خالد زید انصاری، خالد بن ولید مخزومی، خزیمہ بن (١)صواعق المحرقہ ،مکتبہ قاہرہ ،طبع١٣٨٥،ص١٢٢ (٢)مناقب آل ابی طالب ،مؤسسہ انتشارات علامہ ،ج٣،ص٢٥و٢٦ (٣)الغدیر ،دارالکتب الاسلامیہ ،تہران،ج١،ص١٤۔٦١ ثابت، ابو شریح خویلد بن عمرو خزاعی، رفاعہ بن عبد المنذر انصاری، زبیر بن عوام، زید بن ارقم ،زید بن ثابت ،زید بن یزید انصاری ،زید بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، سعد بن جنادہ،سلمہ بن عمرو بن اکوع، سمرہ بن جندب، سہل بن حنیف، سہل بن سعد انصاری، صدی بن عجلان، ضمیرة الاسدی، طلحہ بن عبید اللہ، عامر بن عمیر، عامر بن لیلیٰ، عامر بن لیلیٰ غفاری،عامر بن واثلہ،عائشہ بنت ابی بکر ،عباس بن عبدالمطلب، عبد الرحمن بن عبدربہ انصاری،عبد الرحمن بن عوف قرشی، عبدالرحمن بن یعمر الدیلی ، عبداللہ بن ابی عبد الاثر مخزومی، عبد اللہ بن بدیل، عبد اللہ بن بشیر، عبد اللہ بن ثابت انصاری،عبد اللہ بن ربیعہ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن ابی عوف، عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن یامیل، عثمان بن عفان، عبید بن عازب انصاری، ابو طریف عدی بن حاتم، عطیہ بن بسر، عقبہ بن عامر، علی بن ا بی طالب، عمار بن یاسر، عمارہ الخزرجی، عمر بن عاص، عمر بن مرہ جہنی، فاطمہ بن رسول ۖ فاطمہ بنت حمزہ، عمربن ابی سلمہ، عمران بن حصین خزاعی ،عمر و بن حمق خزاعی، عمر و بن شراحیل، قیس بن ثابت انصاری ،قیس بن سعد انصاری، کعب بن عجرہ انصاری، مالک بن حویرث لیثی،مقداد بن عمرو، ناجیہ بن عمرو خزاعی، ابو برزہ فضلہ بن عتبہ اسلمی، نعمان بن عجلان انصاری، ہاشم مرقال، وحشی بن حرب، وہب بن حمزہ، ابو جحیفہ، وہب بن عبد اللہ و یعلی بن مرہ۔(١) حدیث غدیر کے راویوں کے درمیان وہ لوگ جو علی سے دشمنی رکھتے تھے جیسے ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ،عبدالرحمن بن عوف،زیدبن ثابت،اسامہ بن زید،حسان بن ثابت، (١) الغدیر، درالکتب الاسلامیہ،تہران،ج١،ص١٤ـ ٦١۔ خالد بن ولید،اور عائشہ کا نام لیا جاسکتا ہے حتیٰ کہ یہی صحابہ جوحضرت علی کے موافق بھی نہیں تھے لیکن اس کے باوجودکبھی آپ کی طرف سے آپ کے دشمن کے مقابلے میں دفاع بھی کرتے تھے جیسے سعد بن وقاص ،یہ ان چھ لوگوں میں سے تھے جو عمر کے مرنے کے بعد انتخاب خلافت کے لئے چھ رکنی کمیٹی بنی تھی اورانہوںنے علی کے مقابلے میں عثمان کو ووٹ دیا نیز خلافت کے مسئلہ میں حضرت علی کی طرفداری اور حمایت بھی نہیں کی اور بے طرفی اختیار کی، وہ باتیں جو ان کے اور معاویہ کے درمیان ہوئیں تو انہوں نے معاویہ سے کہا: تونے اس شخص سے جنگ و جدال کیا ہے جو خلافت میں تجھ سے زیادہ سزاوار تھا، معاویہ نے کہا: وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا : میرے پاس دلیل یہ ہے کہ ایک تو رسولۖ نے علی کے بارے میں فرمایا جس کا میں مولاہوں اس کے علی مولاہیں بارالہاٰ! علی کے دوستوں کو دوست اورعلی کے دشمنوں کو دشمن رکھ اوردوسرے ان کے فضل و سابقہ کی وجہ سے(١) اسی طرح عمرو عاص کا بیٹا عبد اللہ جنگ صفین میں اپنے باپ کے ساتھ معاویہ کی طرف تھا ،جب عمارقتل ہوگئے اور ان کے سر کو معاویہ کے پاس لایا گیا تو دو شخص آپس میں جھگڑنے لگے ہر ایک یہ دعویٰ کرنے لگا کہ عمار کو اس نے قتل کیا ہے عبد اللہ نے کہا :بہتر یہ ہے کہ تم میں سے ایک اپنا حق دوسرے کو بخش دے اس لئے کہ میں نے رسولۖ اسلام سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: عمار کو ایک ظالم گروہ قتل کرے گا معاویہ نا راض ہوا اور اس نے کہا: (١)بلاذری،انساب الاشراف،موسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، طبع اول، ١٣٩٤ ہجری، ج٢،ص ١٠٩،اخطب خوارزمی ،المناقب، منشورات، المکتبة الحیدریہ، نجف، ١٣٥٨، ہجری ص٥٩۔٦٠ تو یہاںپر کیا کر رہا ہے عبد اللہ نے کہا :کیونکہ رسولۖ نے مجھ کو باپ کی اطاعت کا حکم دیا ہے اس لئے میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن جنگ نہیں کروںگا۔(١) جناب عمار کا امیر المومنین کی رکاب میں موجود ہونا کہ رسولۖ اسلام نے عمار کے قاتلوںکو ایک ستم گار گروہ بتایا ہے اس پر آشوب دور میں یہ علی کی حقانیت کی بہترین گواہی تھی جس کا عمرو عاص کے بیٹے نے بھی اعتراف کیا ۔ سقیفہ کی تشکیل میں قریش کاکردار علی کی جانشینی کے بارے میںپیغمبر ۖ کی تمام کوششوں اور واقعہ غدیرکے باوجودسقیفہ کا اجتماع واقع ہوا خدا کافرمان زمین میں دھرارہ گیا اور رسول اکرم ۖ کا خانوادہ خانہ نشین ہو گیا ، اس سلسلہ میں ضروری ہے کہ قریش کے کردارکی نشاندہی کی جائے اس لئے کہ قریش ہی چاہتے تھے کہ پیغمبر ۖ کی عترت کا حق غصب کریں ،حضرت علی نے مختلف مقامات پر قریش کے مظالم اور خلافت حاصل کرنے کی کوشش کو بیان کیا ہے ۔(٢) (١)بلاذری،انساب الاشراف،ص٣١٢۔٣١٣ (٢)بطور نمونہ نہج البلاغہ ، خطبہ ١٧،میں فرماتے ہیں خدایا قریش اور ان لوگوں کے مقابلے میں جو ان کی مدد کرتے ہیں تجھ سے مدد چاہتا ہوں کیوں کہ انہوں نے میرے مرتبہ کو کم کیا اور وہ خلافت جو مجھ سے مخصوص تھی اس کے بارے میں میرے خلاف متفق ہوگئے، نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، ص ٥٥٥، اس طرح اپنے بھائی عقیل کے خط کے جواب میں فرماتے ہیں:قریش سخت گمراہی میں ہیں ، ان کی دشمنی اور نا فرمانی معلوم ہے انہیں سر گردانی میں ہی چھوڑ دو اس لئے کہ انہوں نے مجھ سے جنگ ٹھان لی ہے جس طرح رسول اللہ ۖ سے جنگ پر تلے ہوئے تھے مجھ کو سزا دینے سے پہلے ، انہیں چاہئے کہ وہ قریش کو سزا دیں اورانہیں مزہ چکھائے کیونکہ انہوں نے رشتہ داری توڑ دی اور میرے بھائی کی حکومت مجھ سے چھین لی۔ امام حسن نے جو خط معاویہ کو لکھا تھا اس میں سقیفہ کی تشکیل میںقریش کے کردار کو اس طرح بیان فرمایا : پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد قبیلۂ قریش نے اپنے آپ کواس حیثیت سے پہچنوایا کہ ہم لوگ پیغمبرۖ سے زیادہ نزدیک ہیں اور اسی دلیل کی بنا پر تمام عربوں کوکنارے کردیا اور خلافت کواپنے ہاتھ میں لے لیا ہم اہل بیت محمدۖ نے بھی یہی کہاتو ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا اور ہم کو ہمارے حق سے محروم کردیا۔(١) امام باقر نے بھی اپنے ایک صحابی سے فرمایا : قریش نے جو ستم ہمارے اور ہمارے دوستوں اور شیعوں پر کئے ہیں اس کے بارے میں کیا کہوں؟ رسول خداۖ کی وفات ہوئی جب کہ پیغمبر ۖنے کہا تھاکہ لوگوں کے درمیان(خلافت کے لئے) اولیٰ ترین فردکون ہے؟ لیکن قریش نے ہم سے روگردانی کی اور خلافت کو اس کی جگہ سے منحرف کردیا ہماری دلیلوں کے ذریعہ انصار کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے بعد خلافت کو ایک دوسرے کے حوالے کرتے رہے اور جس وقت ہمارے پاس واپس آئی توبیعت شکنی کی اور ہم سے جنگ کی ۔(٢) قریش کافی مدت پہلے ایسا عمل انجام دے چکے تھے جس سے لوگ سمجھ گئے تھے کہ یہ (١) ابو الفرج اصفہانی ،مقاتل الطالبین ، منشورات شریف الرضی ، قم ١٤١٦ھ ص ٦٥ (٢)کتاب سلیم بن قیس العامری، منشورات دار الفنون ، بیروت ، ١٤٠٠ھ ص ١٠٨، شیرازی السید علی خان، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة ، مؤسسة الوفاء ، بیروت ،ص خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہیں اسی لئے انصار سقیفہ کی طرف دوڑے تاکہ قریش تک حکومت پہنچنے سے مانع ہوں ، اس لئے کہ قریش فرصت طلب تھے۔ خاندان پیغمبر ۖسے قریش کی دشمنی کے اسباب اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیوں قریش خاندان پیغمبرۖ سے دشمنی رکھتے تھے؟ کیاان کا دین اور ان کی دنیا اس خاندان کی مرہون منت نہیں تھی؟ کیاانہوںنے اسی خاندان کی برکت کی وجہ سے ہلاک ہونے سے نجات نہیں پائی تھی ؟اس سوال کا جواب دینے کے لئے چند امور کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ (١) قریش کی ریاست طلبی قریش زمانہ جاہلیت میں پورے جزیرة العرب پر تمام عربوں میں ایک امتیاز رکھتے تھے، ابوالفرج اصفہانی کا اس بارے میں کہنا ہے : تمام عرب قومیں قریش کو شعر کے علاوہ ہر چیز میں مقدم جانتی تھی(١)یہ موقعیت اورحشیت ان کو دوجہتوں سے حاصل ہوئی تھی۔ (الف) اقتصادی قوت : قریش نے پیغمبر ۖ کے جد جناب ہاشم کے زمانہ ہی سے پڑوسی ممالک جیسے یمن، شام ،فلسطین ، عراق، حبشہ سے تجارت کرنی شروع کردی تھی اور اشراف قریش اس تجارت کی وجہ سے بہت زیادہ ثروتمند ہو گئے تھے۔(٢) (١) اصفہانی، الاغانی، دار الاحیاء تراث العربی ، ج ١ ص ٧٤ (٢) مہدی پیشوائی، تاریخ اسلام ، دانشگاہ آزاد اسلامی ،واحد اراک ، ص ٥٠۔٥١ خداوند عالم اس تجارت کو قریش کے لئے سرمایہ افتخار اور عیش و مسرت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے :ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا کرنے گرمیوں اور سردیوں میں آپس میں رابطہ رکھنے کے لئے اللہ کی عبادت کریں وہی پروردگارکہ جس نے بھوک سے انہیں نجات دی اورخوف و ہراس ان سے دور کیا۔ (١) (ب) معنوی حیثیت :قریش کعبہ کے وجود کی بنا پر کہ جو عرب دنیامیں ، عرب قبائل کے درمیان ایک مشہورزیارت گاہ تھی نیز اسے عربوں کے درمیان ایک خاص معنوی حیثیت حاصل تھی خاص طور پر ہاتھیوں کے لشکر ابرہہ کی شکست کے بعد قریش کا احترام لوگوں کی نظر میں زیادہ ہو گیاتھا اور یہ کعبہ کے کلید دار بھی تھے،قریش نے اس واقعہ سے فائدہ اٹھایا اور خود کو آل اللہ ، جیران اللہ اور سکان حرم اللہ کہلواناشروع کر دیا ، اسی وسیلہ کی بنیاد پر انہوں نے اپنے مذہبی مقام کو استوار کرلیا ۔(٢) اسی احساس برتری و اقتدار کی وجہ سے قریش نے کوشش شرو ع کی کہ اپنی برتری کو ثابت کریں چونکہ مکہ کعبہ کی وجہ سے عرب کے لئے مرکز تھا جزیرةالعرب کے اکثر ساکنین وہاں آتے جاتے تھے،قریش اپنی رسومات کو مکہ آنے والوں پرتھوپتے تھے طواف کعبہ کے وقت لوگوں کو متوجہ کرتے تھے کہ حاجی ان سے خریدے ہوئے لباس میں طواف کریں(٣) لیکن رسول اکرم ۖکے ظاہر ہونے کے بعد انہوں نے احساس کیا کہ تعلیمات اسلامی ان کی برتری اور انحصار طلبی کے منافی ہے ،قریش نے ان کو قبول نہیں کیا اور اپنی تمام (١)سورہ قریش (٢)تاریخ اسلام ،مہدی پیشوائی ، ص ٥٢ (٣)ابن سعد ، الطبقات الکبری ، دار صادر ، بیروت ، ج١ ،ص ٧٢ طاقت کے ساتھ مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور جو بھی اسلام کی نابودی کے لئے ممکن تھا اس کوانجام دیا لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے، آخر کار پیغمبرۖنے قریش پرکامیابی حاصل کرلی ،آٹھویں ہجری میں قریش کے کچھ افراد مدینہ آئے اور مسلمانوں سے مل گئے لیکن دشمنی سے باز نہ آئے مثلاًحکم بن عاص نے پیمبرۖ کا مذاق اڑایا آنحضرتۖ نے ا سے طائف کی جانب شہر بدر کردیا۔(١) جب قریش میں رسول اکرم ۖسے مقابلے کی طاقت نہیں رہی تو انہوں نے ایک نیا فارمولہ بنا یاکہ آنحضرتۖ کے جانشین سے مقابلہ کریں عمر نے ہمیشہ ابن عباس سے کہا: عرب نہیں چاہتے کہ نبوت اور خلافت تم بنی ہاشم کے درمیان جمع ہواسی طرح مزید کہا:(٢) اگر بنی ہاشم میںسے کوئی امر خلافت کا ذمہ دار بن گیا تو اس خاندان سے خلافت باہر نہیں جائے گی اور ہمارا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا لیکن اگر بنی ہاشم کے علاوہ کوئی اس کا ذمہ دار ہوگیا تو وہ لوگ اپنے ہی درمیان ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہیں گے۔(٣) اس زمانے کے لوگ بھی قریش کے اس رویہ سے آگاہ تھے جیسا کہ براء بن عازب نے نقل کیا کہ میں بنی ہاشم کے چاہنے والوں میںسے تھا جس وقت رسول اکرم ۖ دنیا سے گئے تو مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ قریش بنی ہاشم سے خلافت کو نہ چھین لیں اور میں کافی حیران وسر گردان تھا۔(٤) (١) ابن اثیر، اسد الغابة فی معرفة الصحابہ،دار احیا التراث العربی،ج٢،ص٣٤ (٢) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١٩٤ (٣)ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١٩ (٤) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج٢،ص٥١ قریش کا ابو بکر اور عمر کی خلافت پر راضی ہونا خود ان کے فائدے میں تھا جیساکہ ابوبکر نے مرتے وقت قریش کے کچھ لوگوں سے کہ جو اس کی عیادت کے لئے آئے تھے کہا: میں جانتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک یہ خیال کرتا ہے کہ میرے بعد خلافت اس کی طرف منتقل ہوگی لیکن میں نے تم میں سے بہترین شخص کو اس کے لئے چنا ہے۔(١) ابن ابی الحدید کہتا ہے: قریش عمر کی طولانی خلافت کی وجہ سے ناراض تھے اور عمربھی اس بات سے آگاہ تھے لہذاوہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ مدینہ سے باہر جائیں۔(٢) (٢) قبیلوں کی رقابت و حسادت عربوں میں قبیلوں کے درمیان رقابت اور حسادت بہت تھی خدا وند عالم نے قرآن مجید میں سورہ تکاثر(٣)اور سورہ سبائ( ٤)میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے، زمانۂ جاہلیت (١) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج١،ص١١٠ (٢) ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ،دار احیا التراث العربی،ج٢ ،ص١٥٩ (٣)تمہاری سرگرمی کا باعث زیادہ طلبی ہے یہاں تک کہ تم اپنے مرنے والوں کی قبروں سے ملاقات کرو۔ (٤)تم نے کہا : ہمارے پاس مال اور بیٹے زیا دہ ہیں اسی وجہ سے ہم سزا نہیں پاسکتے ان سے کہہ دوکہ میراخدا جب کسی کو چاہے گا اس کی روزی کم کردے اور جب چاہے زیادہ کردے گا لیکن زیادہ تر لوگ نہیں جانتے ہیں کہ اولاد اور مال کا زیادہ ہونا ان کو مجھ سے نزدیک نہیں کرے گا مگر یہ کہ وہ لوگ جو ایمان لائیں اور عمل صالح انجام دیں میں بنی ہاشم اور دوسرے تمام قبائل کے درمیان رقابت موجود تھی، زمزم کھودتے وقت جناب عبدالمطلب کے مقابلہ میں قریش کے تمام قبائل جمع ہوگئے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ افتخار صرف عبد المطلب کو حاصل ہو ۔(١) یہی وجہ ہے کہ ابو جہل کہتا تھا ہم بنی ہاشم سے ان کے شرف کی وجہ سے رقابت کرتے تھے وہ بھی لوگوں کو کھانا دیتے تھے توہم بھی لوگوںکو کھانا دیتے تھے ، وہ لوگوں کو سواری مہیاکرتے تھے تو ہم بھی لوگوں کو سواری مہیا کرتے تھے تو وہ لوگوں کو پیسے دیتے تھے ہم بھی لوگوں کو پیسے بانٹتے تھے اور ہم ان کے ساتھ اس طرح شانہ بشانہ بڑھ رہے تھے جیسے گھوڑوں کی دوڑمیں دو گھوڑے ساتھ چل رہے ہوں ، یہاں تک کہ ان لوگوں نے کہا : ہم میں ایک ایسا پیغمبرمنتخب ہوا ہے کہ جس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اب ہم ان تک کیسے پہونچتے ؟ خدا کی قسم !ہم اس پر ہرگز ایمان لائے اور نہ ہی ان کی تصدیق کی۔ (٢) امیہ بن ابی ا لصلت جو طائف کے اشراف میں سے تھا اس نے اسی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیااور پیغمبرۖ موعودکا سالہا سال انتظار کرتا رہاتاکہ اس انتطارمیں خود کو اس منصب تک پہنچا دے جب اس کو بعثت رسول ۖکی خبر ملی پیروی کرنے سے اجتناب کیا اور اس کی علت یہ بتائی کہ مجھ کو ثقیف کی عورتوں سے شرم آتی ہے، اور اس کے بعد کہتا ہے : کافی عرصہ تک میںان سے یہ کہتا رہاکہ وہ پیغمبر موعود میںہوگااب کس طرح تحمل کروں کہ وہ مجھے بنی عبد مناف کے ایک جوان کا پیرو دیکھیں۔(٣) (١)ابن ہشام ،السیرة النبویہ ،دارالمعرفة،بیروت ،ج ١ ،ص١٤٣،١٤٧ (٢)ابن ہشام ،سیرةالنبویہ، دار المعرفة ، بیروت (بی تا) ج١ ص ١٤٣۔١٤٧ (٣) ابن قتیبہ، المعارف ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٥ھ ص ٦٠، اور تاریخ اسلام ، مہدی پیشوائی ، زمانہ جاہلیت سے حجة الوداع تک ، دانشگاہ آزاد اسلامی ، واحد اراک ، ص ٨٨ لیکن اس حسد ورقابت کے باوجود خدا نے پیغمبر ۖ کو کامیاب کیا اور قریش کی شان و شوکت کو خاک میں ملادیا ،آٹھویں ہجری کے بعد اکثر اشراف قریش مدینہ منتقل ہو گئے اور وہاں بھی خاندان پیغمبر ۖ کو تکلیف دینے سے باز نہ آئے۔ ابن سعد نے نقل کیا ہے کہ مہاجرین میں سے ایک نے عباس بن عبدالمطلب سے چند بار کہا : آپ کے والد عبدالمطلب اور بنی سہم کاہنہ غیطلہ دونوں جہنم میں ہیں، آخر کار عباس غصہ ہو گئے اور اس کے منھ پر طمانچہ مارا اور اس کی ناک سے خون نکل آیا، اس شخص نے پیغمبر ۖ سے آکر عباس کی شکایت کی رسول ۖنے اپنے چچا عباس سے اس با ت کی وضاحت چاہی ،عباس نے سارا قضیہ بیان کیا تو پیغمبر ۖ نے فرمایا : کیوں عباس کو اذیت دیتے ہو؟(١) حضرت علی اپنے مخصوص کمال کی بنا پر زیادہ مورد حسد قرار پائے امام باقر فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اکرم ۖ علی ـ کے فضا ئل بیان کرناچاہتے تھے یا اس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے تھے جو علی کی شان میں نازل ہوئی تھی تو کچھ لوگ مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے، اس طرح کی روایت نبی اکرم ۖ سے بہت زیا دہ وارد ہوئی ہیں۔ (٢) آپ ۖنے فرمایا: جس نے علی سے حسد کیا اس نے مجھ سے حسد کیا اور جس نے مجھ سے حسد کیا وہ کافر ہوگیا ۔(٣) (١)طبقات الکبریٰ داربیروت ١٤٠٥ھ ، ج ٤ ،ص٢٤ (٢)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج ٣ ،ص٢١٤ (٣)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج ٣ ص، ٢١٣۔٢١٤ یہاں تک کہ پیغمبرۖکے زمانہ میںبعض افراد علی سے حسد کرتے تھے اور آ پ کو اذیت پہونچاتے تھے جیسا کہ سعد بن وقاص سے نقل ہواہے کہ میں اور دوسرے دو آدمی مسجد میں بیٹھے علی کی برائی کر رہے تھے کہ پیغمبر ۖ غصہ کی حالت میں ہم لوگو ں کی طرف آئے اورفرمایا : علی نے تمہارا کیا بگاڑاہے؟ جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی ۔(١) (٣)حضرت علی سے قریش کی دشمنی علی کی محرومیت اورمظلومیت کی اہم ترین دلیل قریش کی مخالفت اور دشمنی تھی کیونکہ وہ حضرت علی سے زک کھا چکے تھے حضرت نے رسول ۖ خدا کے زمانے میںجنگوں میں ان کے باپ،بھائیوںاور عزیزوں کو قتل کیا تھا ،چنانچہ یعقوبی حضرت علی کی خلافت کے شروع کے حالات کے بارے میںلکھتا ہے :قریش کے مروان بن حکم ،سعید بن عاص اور ولید بن عقبہ کے علاوہ تمام لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھوںپر بیعت کی ، ولید نے ان لوگوں کی طرف سے حضرت علی سے کہا:آپ نے ہم لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے، بدرکے بعد میرے باپ کی گردن اڑائی سعیدکے باپ کو جنگ میں قتل کیا اور جب عثمان نے مروان کے باپ کو مدینہ واپس بلا نا چاہا تو آپ نے اعتراض کیا ۔(٢) اسی طرح خلافت علی کے وقت عبید اللہ بن عمر نے امام حسن سے سفارش کی (١)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، مؤسسہ انتشارات ١٤٦،قم ،ج :٣ ،ص٢١١ (٢)ابن واضح ، احمد بن ابی یعقوب ،تاریخ یعقوبی ،منشورات شریف رضی ، قم ،٤١٤١ھ، ج٢،ص ١٧٨ کہ آپ مجھ سے ملاقات کریں مجھے آ پ سے کام ہے، جس وقت دونوں کی ملا قات ہوئی تو عبید اللہ بن عمرنے امام حسن سے کہا : آپ کے والد نے شروع سے آخر تک قریش کو نقصان پہنچایا لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں آپ میری مدد کریں تاکہ ان کو ہٹا کر آ پ کو ان کی جگہ بٹھادیا جائے۔(١) جب ابن عباس سے سوال کیاگیا: کیوں قریش حضرت علی سے دشمنی رکھتے ہیں؟ تو انہوںنے کہا : پہلے والوں کو حضرت علی نے واصل جہنم کیا اور بعد والوںکے لئے باعث عار ہو گئے ،حضرت علی کے دشمن قریش کی اس ناراضگی سے فائدہ اٹھاتے تھے اورقضیہ کو مزید ہوا دیتے تھے۔(٢) عمر بن خطاب نے سعد بن عاص سے کہا : تومجھے اس طرح دیکھ رہا ہے جیسے میںنے ہی تیرے باپ کو قتل کیا ہو میں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ علی نے ان کو قتل کیا ہے۔(٣) خود حضرت علی نے بھی ابن ملجم کے ہا تھوں سے ضربت کھانے کے بعد ایک شعر کے ضمن میں قریش کی دشمنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ تکلم قریش تمنا ی لتقتلنی فلا و ربکٔ ما فازوا وما ظفروا(٤) قریش کی خود تمنا تھی کہ وہ مجھے قتل کریں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ (١) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلا غہ ،ج١،ص٤٩٨ (٢) ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ، ص ٢٢٠ (٣) ابن سعد ، طبقات الکبریٰ ، دار بیروت ، ١٤٠٥ھ ، ج ٥ ،ص ٣١ (٤)ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ،ص٣١٢ (٤)حضرت علی کا سکوت : اب یہ دیکھناچاہیے کہ حضرت علی نے سقیفہ اور ابوبکر کی حکومت کے آغا ز کے بعد کیوں اپنے حق سے صرف نظر کیا ؟چند ماہ کے استدلال اور احتجاجات کے بے اثر ہونے کا یقین کر لینے کے بعد حکومت کے خلاف مسلحانہ جنگ کیوں نہیں کی؟ جب کہ بعض بزرگ اصحاب پیغمبر ۖ آپ کے واقعی طرفداروں میں تھے اور عمومی طور سے مسلمان بھی آپ سے مخالفت نہیں رکھتے تھے، بہ طورکلی کہا جا سکتا ہے کہ امیر المومنین نے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کو مد نظر رکھا اور سکوت اختیار کیا جیساکہ خطبہ شقشقیہ میں آپ نے فرمایا: ''میں نے خلافت کی قباکو چھوڑ دیا اور اپنے دامن کو اس سے دور کر لیا حالانکہ میں اس فکر میں تھا کہ آیا تنہا بغیر کسی یاورومدد گار کے ان پر حملہ کردو ںیا اس دم گھٹنے والی تنگ و تاریک فضا میں جوان کی کار ستانیوںکانتیجہ تھی اس پر صبر کروںایسی فضاجس نے بوڑھوں کو فرسودہ بنادیا تھا، جوانوں کو بوڑھا اور با ایمان لوگوں کو زندگی کے آخری دم تک کے لئے رنجیدہ کردیا تھامیں نے انجام پر نگاہ کی تو دیکھا کہ بردباری اور حالات پر صبر کرنا ہی عقل و خرد سے زیادہ نزدیک ہے اسی وجہ سے میں نے صبر کیا لیکن میں اس شخص کی طرح رہا کہ جس کی آنکھ میں کانٹا اور گلے میں کھردری ہڈی پھنسی ہوئی ہو میں اپنی میراث کو اپنی آنکھ سے لٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ (١) (١)نہج البلاغہ ،فیض الا سلام، خطبہ ، ٧٤ ((فَسَد َلْتُ دُونھا ثوباً و طَویتُ عنھا کَشحاً و طفِفتُ ارتئی بین ان اصُول بِیَدٍ جذّٰائَ اَو أَصبِرَ علیٰ طَخیَةٍ عَمیٰا ء یَھْرَمُ فیھا الکبیر ، و یَشِیبُ فیھا الصّغیرُ ، و یَکْدَحُ فیھا مُوْمِن حتّیٰ یلقی ربَّہ ! فَرَاَیْتُ انَّ الصَّبْرَ علیٰ ھٰاتا اَحجیٰ فَصَبَرتُ وَ فی المعین قَذیٰ ، و فی الحلْقِ شجی ٰأَرَیٰ تُراثِی نَھْباً)) حضرت علی کے کلام سے خاموشی کے دوسرے اسباب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے (اگرچہ وہ اسباب جزئی ہیں جیسے :) (١)مسلمانوں کے درمیان تفرقہ امیر المومنین فرماتے ہیں: جب خدا نے اپنے پیغمبر ۖکی روح قبض کی قریش نے اپنے کو ہم پر مقدم کیا اور ہم (جو امت کی قیادت کے لئے سب سے زیادہ سزاوار تھے)کو ہمارے حق سے بازر کھا لیکن میں نے دیکھا کہ اس کام میں صبر و برد باری کرنا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور ان کے خون بہنے سے بہتر ہے کیونکہ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے دین کی مثال بالکل دودھ سے بھری ہوئی اس مشک کی سی تھی کہ جس میں جھاگ بھر گیا ہوکہ جس میں ذرا سی غفلت اور سستی اسے نابود کر دے گی اور تھوڑا سا بھی اختلاف اسے پلٹ دے گا۔(١) (١) انّ اللّہ لمّا قبض نبیّہ استاثرث علینا قریش بالامر ودفعتنا عن حقٍّ نحن احقُّ بہ مِن النّاسِ کافّةً فرایْتُ انَّ الصّبر علیٰ ذلکٔ افضَلُ مِن تفیقِ کلمةِ المُسلمین َ و سفْکِٔ دِمائِھم و النّاسُ حد یثو عھدٍ بالاسلام والدین ِ یُمخَص مخْصَ الوطب ، یُفسَدہُ ادنیٰ و ھَنٍ و یعکسہ خُلفٍ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،دار الجیل بیروت،طبع اول،١٤٥٧ہجری ،ج١،ص٣٠٨ (٢)مرتد ہونے کا خطرہ پیغمبر اکرم ۖکی وفات کے بعد، عرب قبائل کی بڑ ی تعداد کہ جنہوںنے پیغمبر اسلام ۖکی آخری زندگی میں اسلام قبول کیا تھا وہ دین سے پلٹ گئے اور مرتد ہوگئے تھے کہ جس کی وجہ سے ،مدینہ کے لئے خطرہ بہت بڑھ گیا تھاان کے مقابلہ میں مدینہ کی حکومت کمزورنہ ہو نے پائے اس لئے حضرت علی نے سکوت اختیار کیا حضرت علی نے فرمایا: خدا کی قسم! میں نے یہ کبھی نہیں سوچا اور نہ میرے ذہن میں کبھی یہ بات آئی کہ پیغمبرۖ کے بعدعرب منصب امامت اور رہبری کو ان کے اہل بیت سے چھین لیں گے اور خلافت کو مجھ سے دور کر دیں گے تنہا وہ چیز کہ جس نے مجھے نا راض کیا وہ لوگوں کا فلاں (ابو بکر ) کے اطراف میں جمع ہوجانا اور اس کی بیعت کرنا تھا میں نے اپناہاتھ کھینچ لیامیں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کچھ گروہ اسلام سے پھر گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دین محمد ۖ کونابودکردیں، میں نے ا س بات کا خوف محسوس کیا کہ اگر اسلام اور اس کے اہل کی مددد نہ کروںنیز اسلام میں شگاف اور اس کے نابود ہونے پر شاہد رہوں تو میرے لئے اس کی مصیبت حکومت اور خلافت سے محروم ہونے سے زیادہ بڑی تھی کیونکہ دنیا کا فائدہ چند روزہ ہے جو جلدہی ختم ہوجائے گا جس طرح سراب تمام ہوجاتا ہے یا بادل چھٹ جاتے ہیںپس میں نے اس چیز کو چاہا کہ باطل ہمارے درمیان سے چلا جائے اور دین اپنی جگہ باقی رہے۔(١) (١)فواللّہ ما کان یلقی فی روعی و لا یخطر ببالی ، انّ العرب تزعج ھذا الامر من بعدہ عن اہل بیتہ ولا انھم منحّوہ عنّی من بعدہ فما راعنی الّا انثیال النّاس علی فلان یبایعونہ، فامسکت یدی حتّی رایت رجعة النّاس قد رجعت عن الاسلام یدعون الی محق دین محمد ٍۖ فخشیتُ ان لم انصر الاسلام و اہلہ ان اری فیہ ثلماً او ھدماً تکون المصیبة بہ علیَّ اعظم من قوت ولا یتکم الّتی انّما ھی متاع ایّام قلائل یزول منھا ما کان یزول السَّراب او کما یتقشّع السحاب فنھضت فی تلکٔ الاحداث حتی زاح الباطل و زھق ،واطمانّ الدین و تنھنہ ( نہج البلاغہ ، فیض الاسلام، مکتوب ٦٢ امام حسن نے بھی معاویہ کو خط میں لکھا :میں نے منافقوں اور عرب کے تمام گروہ کہ جو اسلام کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے ان کی وجہ سے اپنے حق سے چشم پوشی کی(١) حتیٰ کہ ان لوگوں میں کچھ ایسے تھے جن کے لئے قرآن نے شہادت دی ہے: ان کے قلوب میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا تھا اور انہوں نے زبردستی اسلا م قبول کیا تھا اور اپنے نفاق کی وجہ سے علی کی ولایت کے منکر تھے حتیٰ کہ رسولۖ کے دور میں بھی اس مطلب پر اعتراض کرتے تھے۔ طبرسی نے آیۂ ''سئل سائل بعذاب واقع'' کی تفسیرمیںحضرت امام صادق سے نقل کیا ہے : غدیر خم کے واقعہ کے بعد نعمان بن حارث فھری پیغمبر ۖ کے پاس آیا اور کہنے لگا:آپ کے حکم کے مطابق ہم نے خداکی وحدانیت اور آ پ کی رسالت کی گواہی دی اورآپ نے جہاد ، روزہ ،حج ، زکوٰ ة، نماز کا حکم دیا ہم نے قبول کیا ان تمام باتوں پر آپ راضی اور خوش نہیں ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ جس کامیں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، کیا یہ آپ کی طرف سے ہے یا خداکی جانب سے ؟تو رسول ۖ خدا نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے یہ حکم خدا کی طرف سے ہے ،نعمان بن حا رث وہاں سے یہ کہتا ہوا واپس ہوا کہ اگر یہ مطلب حق ہے تو آسمان سے میرے اوپر پتھر نازل فرما ،اسی وقت آسمان سے اس کے اوپر پتھر نازل ہو ااور وہ وہیں پر ہلا ک ہوگیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔(٢) (١)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، منشورات الشریف الرضی ، قم ١٤١٦ھ ص ٦٥ (٢)مجمع البیان ،دارالمعرفة للطباعة ،١٤٠٨ھ ،ج١٠،ص٥٣٠ سقیفہ میں بھی یہ لوگ قریش کے حامی اورطرف دار تھے جیسا کہ ابو مخنف نے نقل کیا ہے کہ کچھ صحرائی عرب مدینہ کے اطراف میںکار وبار کے لئے آئے ہوئے تھے اور پیغمبرۖ کی وفات کے دن مدینہ میںموجود تھے ان لوگوں نے ابو بکر کی بیعت کرنے میںاہم کردار ادا کیا تھا۔(١) (٣) عترت پیغمبر ۖ کی حفاظت پیغمبر ۖ کے اصلی وارث اور دین کے سچے حامی نیز خیر خواہ رسولۖ کے خا ندان والے تھے یہ لوگ قرآن کے ہم پلہ اورہم رتبہنیز پیغمبر ۖکے دوسری عظیم یاد گارنیز قرآن وشریعت کی تفسیر کرنے والے تھے انہوںنے پیغمبرۖ کے بعد اسلام کا صحیح چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کیاتھا ان لوگوں کا قتل ہوجانا ناقابل تلافی نقصان تھا امیر المؤمنین فرماتے ہیں: میںنے سوچا اور فکر کی کہ اس وقت اہل بیت کے علاوہ کوئی میرا مدد گار نہیں ہے میں راضی نہیں تھا کہ یہ لوگ قتل کر دئیے جائیں۔(٢) سقیفہ کے بعد شیعوں کے سیاسی حالات اگرچہ سقیفہ تشکیل پانے کے بعد حضرت علی سیاسی میدان سے دور ہوگئے تھے، شیعہ مخصوص گروہ کی صورت میں سقیفہ کے بعدسیاسی طور پر وجود میں آئے اور انفرادی یا جماعت (١) شیخ مفید ، محمد بن محمد بن نعمان ،الجمل ،مکتب الاعلام الاسلامی، مرکز نشر ،ص١١٨،١١٩ (٢)فَنَظَرتُ فاِذَا لَیْسَ لِی مُعِینُ اِلّا اَہل بَیْتِی فَضَنَنْتُ بِھِمْ عَن المُوْت ( نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، خطبہ : ٢٦ ) جماعت کی صورت میں حضرت علی کی حقانیت کادفاع کرتے رہے پہلے حضرت فاطمہ ۖ زہراکے گھر جمع ہوئے اور بیعت سے انکار کیا اور سقیفہ کے کارندوں سے روبروہوئے۔(١) لیکن حضرت علی تحفظ اسلام کی خاطر خشونت اور سختی کا رویہ ان کے ساتھ اپنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ بحث و منا ظرہ کے ساتھ مسئلہ کا تصفیہ کریںچنانچہ براء بن عازب نقل کرتا ہے:میں سقیفہ کے قضیہ سے دل برداشتہ رات کے وقت مسجد نبی ۖ میں گیا اور دیکھا: مقداد، عبادہ بن صامت ، سلمان فارسی ،ابوذر ، حذیفہ اور ابوالہیثم بن تیہان پیغمبر ۖ کے بعد رونما ہونے والے حالا ت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ہم سب ایک ساتھ ابی بن کعب کے گھر گئے تو اس نے کہا: جو بھی حذیفہ کہیں اس کی رائے بھی وہی ہوگی۔(٢) آخر کار شیعان علی نے جمعہ کے دن مسجد نبیۖ میں ابو بکر کے ساتھ مناظرہ کیا اور اس کو ملامت کیا ، طبرسی نقل کرتے ہیں: ابا ن بن تغلب نے امام صادق سے پوچھا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں،جس وقت ابو بکر رسول خدا ۖکی جگہ پر بیٹھے تو کیا کسی نے اعتراض نہیں کیا ؟امام نے فرمایا : کیوں نہیںانصار و مہاجرین میںسے بارہ افرادنے مثلاًخا لد بن سعید ،سلمان فارسی ، ابوذر ، مقداد، عمار، بریدہ اسلمی ،ابن ا لہیثم بن تیھان ، سہل بن حنیف ،عثمان بن حنیف ،خزیمہ بن ثابت (ذوالشہادتین)،ابی بن کعب ،ابو ایوب انصاری ایک جگہ پر جمع ہوئے اور (١)ابن واضح ،تاریخ یعقوبی،منشورات شریف رضی ،قم، ١٤١٤ھ، ج٢،ص١٢٦ (٢)ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ، دار احیاء التراث العربی ،بیروت ،ج٢ص٥١ انہوں نے سقیفہ کے متعلق آپس میں گفتگو کی، بعض نے کہا : مسجد چلیںاور ابوبکر کو منبر سے اتارلیں لیکن بعض لوگوں نے اس سے اتفاق نہیںکیا یہ لوگ امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا چلتے ہیں اور ابوبکر کو منبر سے کھینچ لیتے ہیں حضرت نے فرمایا: ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اگرسختی کرو گے اور یہ کام انجام دوگے تو وہ لوگ آئیں گے اور مجھ سے کہیں گے کہ بیعت کرو ورنہ تمہیںقتل کردیں گے بلکہ اس کے پاس جائوجو کچھ رسول خدا ۖ سے سنا ہے اس سے بیان کرو، اس طرح سے اتمام حجت ہوجائے گی ،وہ لوگ مسجد میںآئے اور سب سے پہلے خالد بن سعید اموی نے کہا : اے ابوبکر! آپ جانتے ہیں کہ پیغمبرۖ نے جنگ بنی نضیر کے بعد کیاکہا تھا : یاد رکھو! اور میری وصیت کو حفظ کرلو تمہارے درمیان میرے بعد میرے جانشین اور خلیفہ علی ہیں ، اس کے بعد جناب سلمان فارسی نے اعتراض کیا اس کے بعد جب دوسرے لوگوں نے احتجا ج کیا تو ابوبکر منبر سے نیچے اترے اور گھر چلے گئے اور تین دن تک گھر سے باہر نہیں نکلے ،خالد بن ولید ، ابو حذیفہ کا غلام سالم اور معاذبن جبل کچھ افراد کے ساتھ ابو بکر کے گھر آئے اور اس کے دل کو قوت دی، عمر بھی اس جماعت کے ساتھ مسجد میں آئے اور کہا کہ اے شیعیان علی اور دوستداران علی، جان لو اگر دوبارہ ان باتوںکی تکرار کی تو تمہاری گردنوں کو اڑا دوں گا۔(١) اسی طرح وہ چند صحابہ جو وفات پیغمبر ۖ کے وقت زکوٰ ة وصول کرنے پر مامور تھے جب وہ اپنی ماموریت سے واپس آئے جن میں خالد بن سعید اوراس کے دو بھائی (١) طبرسی،ابی احمد منصور بن علی بن ابی طالب ،الاحتجاج ، انتشارات اسوہ،ج١ ،ص٨٦ا ٢٠٠١ئ ابان اور عمر وتھے، ان حضرات نے ابو بکر پر اعتراض کیا اور دوبارہ زکوٰ ة وصول کرنے سے انکار کیا اور کہا: پیغمبر ۖکے بعد ہم کسی دوسرے کے لئے کام نہیں کریں گے۔(١) خالد بن سعید نے حضرت علی سے یہ درخواست کی آپ آئیے تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں کیونکہ آپ ہی پیغمبر اکرم ۖکی جگہ کے لائق و سزاوار ہیں۔(٢) خلفاء ثلاثہ کی حکومت کے پورے ٢٥ سالہ دور میں شیعیان علی آپ کو خلیفہ اور امیر المومنین کے عنوان سے پہچنواتے رہے،عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں : قرآن کی فرمائش کے مطابق خلیفہ چار ہیںآدم،داؤد ،ہارون اور علی ۔(٣) (١) ابن اثیر، ابی الحسن علی بن ابی اکرام ،اسد الغابہ فی معرفةالصحابہ،قاہرہ، ،دار احیاء التراث العربی بیروت ،ج٢،ص٨٣ (٢) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، منشورات مؤسسةا لاعلمی للمطبوعات ،بیروت ،طبع اول ،ج٢ ص١١ (٣)خدا وند عالم حضرت آدم کے لئے قرآن میں فرماتا ہے ،( انّی جاعل فی الارضِ خلیفة)(سورہ بقرہ ، آیت ٣٠) خدا وند عالم حضرت دائود کے لئے فرماتا ہے :(یا داؤد انّا جعلناکٔ خلیفة فی الارض )سورہ ص ٣٨،آیت: ٣٦ خدا وند عالم حضرت ہارون کے لئے موسیٰ کی زبانی نقل فرماتا ہے (اخلفنی فی قومی ) سورہ اعراف آیت ١٤٢ خدا وند عالم حضرت علی کے لئے فرماتا ہے :(وعد اللّہ الذین آمنوا منکم و عملوا الصّالحات لیستخلفنّھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم )سورہ نور : ٢٤،آیت ٥٥، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، دارالاضواء ، بیروت ، ١٤٠٥ھ، ج ٣ ،ص ٧٧۔٧٨ حذیفہ بھی کہتے تھے: جو بھی امیر المومنین بر حق کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے وہ علی سے ملاقات کرے۔(١) حارث بن خزرج جو پیغمبر ۖ کی جنگوں میں انصار کے علمدار ہواکرتے تھے نقل کرتے ہیں : نبی اکرم ۖنے علی سے فرمایا : اہل آسمان آپ کو امیر المومنین کہتے ہیں۔(٢) یعقوبی لکھتا ہے: عمر کی چھ رکنی کمیٹی کی تشکیل اور عثمان کے انتخاب کے بعد کچھ لوگوں نے یہ ظاہر کیا کہ ہم علی کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور عثمان کے خلاف باتیں کرتے تھے، ایک شخص نقل کرتا ہے کہ میںمسجدالنبی ۖمیں داخل ہوا دیکھا ایک آدمی دوزانو بیٹھا ہے اور اس درجہ بیتاب ہو رہا ہے جیسے تمام دنیا اس کی تھی اور اب پوری دنیا اس سے چھن گئی ہے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے: قریش پر تعجب ہے کہ خلافت کو خاندان پیغمبرۖ سے خارج کردیا حالانکہ ان کے درمیا ن سب سے پہلا مومن اوررسول خدا ۖکا چچا زاد بھائی دین خدا کا دانا ترین عالم ا ور فقیہ ترین شخص صراط مستقیم موجود تھا ،خدا کی قسم! امام ہادی و مہدی اور طاہر و نقی سے خلافت کو لے لیا گیاکیونکہ ان کا ہدف اصلاح امت و دین داری نہ تھا بلکہ انہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی'' راوی کہتا ہے:میں نزدیک ہوا اور دریافت کیا خدا آپ پر رحمت نازل کرے آپ کون ہیں؟ اور یہ شخص جس کے بارے میں بیان کر رہے ہیں وہ کون ہے؟ فرمایا :میں مقداد بن عمر وہوںاور وہ علی بن ابی طالب (١) بلاذری ،محمد بن یحیی ، انساب الاشراف ،منشورات مؤسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت ،١٢٩٤ھ ، ج٣،ص١١٥ (٢)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، موسسہ انتشارات علامہ ، قم ، ج٣، ص ٥٤ ہیں، میں نے کہا : آپ قیام کریںمیں آپ کی مدد کرو ں گا ،مقداد نے کہا: میرے بیٹے یہ کام ایک دو آدمی سے ہونے والا نہیں ہے۔(١) ابوذر غفاری بھی عثمان کی خلافت کے روز مسجد نبویۖ کے دروازہ پر کھڑے کہہ رہے تھے جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا وہ مجھے پہچان لے میں جندب بن جنادہ ابوذر غفاری ہوں ، محمد ۖعلم آدم کے وارث اور تمام فضائل انبیاء کے حامل ہیںاور علی محمدۖکے جانشین اور ان کے علم کے وارث ہیں، اے پیغمبرۖ کے بعد سرگرداں امت! آگاہ ہوجاؤ جس کو خدانے مقدم کیا تھا اس کو اگر تم مقدم رکھتے اور ولایت کو خاندان رسول ۖمیںرہنے دیتے تو خداکی نعمتیں اوپر اور نیچے سے نازل ہوتیں جو بھی مطلب تم چاہتے اس کا علم کتاب خدا اور سنت پیغمبر ۖ سے حاصل کرلیتے لیکن اب تم نے ایسا نہیں کیا تو اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھنا۔ (٢) ہاں شیعیان علی کے پہلے گروہ میںیہی پیغمبر اکرم ۖ کے اصحاب با وفا تھے انہیں کے ذریعہ تشیع تابعین تک منتقل ہوئی اور انہیں کی تلاش و کوشش کی وجہ سے عثمان کی حکومت کے آخری دور میں سیاسی حوالہ سے حضرت علی کی خلافت کے اسباب فراہم ہوئے۔ (١) ابن واضح ،تاریخ یعقوبی ، ص ٥٧ (٢)تاریخ یعقوبی ، ابن واضح ، ص ٦٧ شیعہ صحابی ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے پیروان علی کو شیعہ کہا وہ حضرت محمد مصطفیۖ کی ذات گرامی تھی، رسول اکرم ۖ کے زمانہ میں آپۖ کے کچھ صحابہ شیعیان علی کے نام سے مشہور تھے ،محمدکرد علی خطط الشام میں لکھتا ہے :رسول اللہۖ کے زمانہ میں اصحاب میں سے چند بزرگ، دوستداران علی کے نام سے معروف تھے جیسے سلمان فارسی جوکہتے ہیں ہم نے رسول خدا ۖکے ہاتھوں پر بیعت کی تاکہ مسلما نوں کے ساتھ خیرخواہی کریں اور علی کے دوستوں اور ان کی اقتدا کرنے والوں میں سے رہیں، ابوسعید خدری کہتے ہیں: ہم کو پانچ چیزوں کا حکم ہو الوگوں نے چار پر عمل کیا اور ایک کو چھوڑدیا پوچھا گیا وہ چار چیزیںکون سی ہیں؟ ا نہوں نے کہا: نماز ،زکوٰة ،روزۂ ماہ رمضان اور حج ،پھر پوچھا گیا کہ وہ کیا ہے جس کو لوگوں نے ترک کردیا؟ تو انہوںنے کہا : وہ علی بن ابیطالب کی ولایت ہے لوگوں نے کہا: کیا یہ بھی انہیں چار چیزوں کی طرح واجب ہے؟ کہا: ہاں یہ بھی اسی طرح واجب ہے،یا ابوذر غفاری ، عمار یاسر ، حذیفہ بن یمان ، خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین ابو ایوب انصاری ، خالد بن سعید قیس بن سعدوغیرہ شیعۂ علی کے عنوان سے جانے جاتے تھے۔ (١) ابن ابی الحدید کاپہلے دور کے شیعوں کے بارے میںکہناہے علی کی افضلیت کا قول پرانا قول ہے اصحاب اور تابعین میں سے اکثر اس کے قائل تھے جیسے عمار، مقداد، ابوذر، سلمان، جابر، ابی بن کعب، حذیفہ، بریدہ ،ابو ایوب ،سہل بن حنیف، عثمان بن (١)خطط الشام ، مکتبة النوری، دمشق، طبع سوم ، ١٤٠٣ھ ١٩٨٣ئ ، ج ٦ ص ٢٤٥ حنیف ابولہیثم بن تیھان، خزیمہ بن ثابت ،ابوالطفیل عامر بن واثلہ، عباس بن عبد المطلب اور تمام بنی ہاشم اور بنی مطلب، شروع میں زبیر بھی حضرت علی کے مقدم ہونے کے قائل تھے بنی امیہ میں سے بھی کچھ افراد جیسے خالد بن سعید اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز بھی علی کی افضلیت کے قائل تھے۔ (١) سید علی خان شیرازی نے درجات الرفیعةفی طبقات الشیعہ میںایک حصہ شیعہ صحابیوں سے مخصوص کیا ہے، سب سے پہلے بنی ہاشم کا ذکر کیا ہے اس کے بعد تما م شیعہ صحابیوں کوپیش کیا ہے، پہلا حصہ جو بنی ہاشم سے مربوط شیعہ اصحاب سے ہے اس طرح ذکر کیا ہے: ابوطالب، عباس بن عبدالمطلب، عبداللہ بن عباس ، فضل بن عباس ، عبیداللہ بن عباس، عبدالرحمن بن عباس ، تمام بن عباس، عقیل بن ابی طالب ، ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ،نوفل بن حارث بن عبدالمطلب عبداللہ بن زبیر بن عبد المطلب ،عبداللہ بن جعفر ،عون بن جعفر ،محمدبن جعفر ،ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ،طفیل بن حارث بن عبدالمطلب، مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب ،عباس بن عتبہ بن ابی لھب عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب ،جعفر بن ابی سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ۔(٢) سید علی خان نے دوسرے باب میں شیعیان بنی ہاشم کے علاوہ اصحاب شیعہ کا اس طرح تذکرہ کیا ہے عمربن ابی سلمہ، سلمان فارسی ،مقداد بن اسود ،ابوذر غفاری ، عماربن (١)ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ ، دار احیاء التراث العربی ،بیروت ج٢٠ ص ٢٢١،٢٢٢ (٢)سید علی خان شیرازی ، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة مؤسسة الوفا، بیروت ص١٤١۔١٩٥ یاسر ، حذیفہ بن یمان ،خزیمہ بن ثابت، ابو ایوب انصاری، ابوالہیثم مالک بن تیہان ، ابی ابن کعب ،سعد بن عبادہ ،قیس بن سعد ،سعدبن سعدبن عبادہ ، ابو قتادہ انصاری ،عدی بن حاتم عبادہ بن صامت، بلال بن رباح ، ابوالحمرا ، ابو رافع، ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص ، عثمان بن حنیف ، سہل بن حنیف ،حکیم بن جبلہ العدوی، خالد بن سعید بن عاص، ولید بن جابربن طلیم الطائی، سعد بن مالک بن سنان ، براء بن مالک انصاری ،ابن حصیب اسلمی کعب بن عمرو انصاری ،رفاعہ بن رافع انصاری، مالک بن ربیعہ ساعدی ،عقبہ بن عمربن ثعالبہ انصاری، ہند بن ابی ہالہ تمیمی ،جعدہ بن ہبیرہ ، ابو عمرہ انصاری ، مسعود بن اوس ، نضلہ بن عبید ،ابو برزہ اسلمی ،مرداس بن مالک اسلمی ، مسور بن شدا دفہری، عبداللہ بن بدیل الخزاعی ، حجر بن عدی کندی ، عمر وبن الحمق خزاعی ، اسامہ بن زید ،ابو لیلیٰ انصاری ، زید بن ارقم اوربراء بن عازب اوسی ۔(١) مؤلف رجال البرقی نے بھی شیعیان ا ورمحبان علی جو اصحاب پیغمبر سے تھے انہیںاپنی کتاب کے ایک حصہ میں اس طرح ذکرکیا ہے: سلمان ، مقداد،ابوذر، عمار،اور ان چار افراد کے بعد ابولیلیٰ ،شبیر ،ابو عمرة انصاری ابو سنان انصاری ،اور ان چار افراد کے بعدجابر بن عبداللہ انصاری، ابو سعید انصاری جن کا نام سعد بن مالک خزرجی تھا،ابو ایوب انصاری خزرجی ، ابی بن کعب انصاری ابوبرزہ اسلمی خزاعی جن کا نام نضلہ بن عبید اللہ تھا،زید بن ارقم انصاری بریدہ بن حصیب اسلمی ،عبدالرحمن بن قیس جن کا لقب سفینہ راکب اسد تھا،عبداللہ بن سلام ،عباس بن (١)سید علی خان شیرازی ، الدرجات الرفیعة فی طبقات الشیعة مؤسسة الوفا، بیروت ص١٩٧ ،٤٥٥ عبد المطلب،عبد اللہ بن عباس ،عبد اللہ بن جعفر ، مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب ،حذیفة الیمان جو انصار میں شمار کئے جاتے تھے، اسامہ بن زید ، انس بن مالک ابو الحمرائ،براء بن عا زب انصاری اور عرفہ ازدی ۔(١) بعض شیعہ علماء رجال عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیعہ صحابہ کی تعداد اس سے زیادہ تھی جیسا کہ شیخ مفید نے وہ تمام اصحاب جنہوں نے مدینہ میںحضرت کے ہاتھوں پر بیعت کی خصوصاًوہ اصحاب جو جنگوں میںحضرت کے ساتھ تھے انہیں شیعیان و معتقدین امامت حضرت علی میں سے جاناہے جنگ جمل میں اصحاب میں سے پندرہ سو افراد حاضر تھے۔ (٢) رجال کشی میں آیا ہے :شروع کے اصحاب جو حق کی طرف آئے اور حضرت علی کی امامت کے قائل ہوئے وہ یہ ہیں: ابو الہیثم بن تیہان،ابو ایوب،خزیمہ بن ثابت،جابر بن عبد اللہ ،زید بن ارقم، ابو سعید،سہل بن حنیف،برا ء بن مالک،عثمان بن حنیف،عبادہ بن صامت،ان کے بعد قیس بن سعد ،عدی بن حاتم،عمرو بن حمق،عمران بن حصین،بریدہ اسلمی، اور بہت سے دوسرے جن کو'' بشر کثیرة''سے تعبیر کیا ہے۔(٣) (١) احمد بن محمد بن خالدبرقی، رجال البرقی ،مؤسسةقیوم ص٢٩ ،٣١ (٢)شیخ مفید ، محمدبن محمدبن نعمان ،الجمل ،مکتب الاعلام الاسلامی ، مرکز النشر ، قم ، ص ١٠٩۔١١٠ (٣)شیخ طوسی ، ابی جعفر ، اختیار معرفة الرجال ، رجال کشی ، موسسہ آل البیت التراث،قم ،١٤٠٤ھ ج١، ص١٨١۔١٨٨ مرحوم میر داماد تعلیقہ رجال کشی میں بشر کثیر کی وضاحت و شرح میں کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے بہت سے بزرگان اور تابعین کے چنندہ افراد ہیں ۔(١) سید علی خان شیرازی نے کہا ہے کہ اصحاب پیغمبرۖ کی بیشتر تعداد امیر المومنین کی امامت کی طرف واپس آگئی تھی کہ جس کا شمار کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور اخبار نقل کرنے والوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اکثر صحابہ جنگوں میں حضرت علی کے ساتھ تھے ۔(٢) محمد بن ابی بکر نے معاویہ کو خط لکھا کہ جس میں علی کی حقانیت کی طرف اشارہ اس بات سے کیا ہے کہ اکثر اصحاب پیغمبرۖحضرت علی کے ارد گرد جمع ہیں۔(٣) محمدبن ابی حذیفہ جو حضرت علی کے وفادارساتھی تھے اور معاویہ کے ماموں کے بیٹے تھے حضرت علی سے دوستی کی بنا پرمدتوں معاویہ کے زندان میں زندگی بسر کی اور آخر کار وہیں دنیا سے رخصت ہوگئے ،معاویہ سے مخاطب ہوکر کہا : جس روز سے میں تجھ کو پہچانتا ہوں چاہے وہ جاہلیت کا دور ہو یا اسلام کا تجھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اسلام نام کی کوئی چیز تیرے اندر نہیں پائی جاتی، اس کی علامت یہ ہے کہ تو مجھے علی سے محبت کی بناپر ملامت کرتا ہے حالانکہ تمام زاہد و عابد، مہاجر وانصار علی کے ساتھ ہیں اور تیرے ساتھ آزاد کردہ غلام اور منافقین ہیں۔ (٤) (١)شیخ طوسی ، ابی جعفر ،ا ختیار معرفة الرجال ، رجال کشی ، موسسہ آل البیت التراث ، قم ، ١٤٠٤ھ ج ١ ،ص ١٨٨ (٢)امین،سید محسن،اعیان الشیعہ،دارالتعارف للمطبوعات،بیروت،ج٢،ص٢٤ (٣) بلاذری ، انساب الاشراف، منشورات موسسہ الاعلمی ،للمطبوعات، بیروت،١٣٩٤ھ ج ٢ ، ص٣٩٥ (٤)شیخ طوسی ابی جعفر،رجال کشی،ص٢٧٨ البتہ جو لوگ امیر المومنین کی فوج میں تھے ان سب کا شمار آپ کے شیعوں میںنہیں ہوتا تھا لیکن چونکہ آپ قانونی خلیفہ تھے اس لئے آپ کا ساتھ دیتے تھے اگر چہ یہ بات تمام لوگوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے سوائے ان صحابیوں کے جو علی کے ساتھ تھے اس لئے کہ وہ اصحاب جو حضرت امیر کے ساتھ تھے کہ جن سے وہ اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے مد د لیتے تھے ان کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے جیسا کہ سلیم ابن قیس نقل کرتا ہے: امیر المومنین صفین میںمنبر پر تشریف لے گئے اور مہاجر و انصار کے سبھی افراد جو لشکر میں تھے منبرکے نیچے جمع ہوگئے حضر ت نے اللہ کی حمد و ثنا ء کی اور اس کے بعد فرمایا: اے لوگو!میرے فضائل و مناقب بے شمار ہیں میںصرف اس پر اکتفا کرتا ہوں کہ جب رسولۖخدا سے اس آیت کے بارے میں ''السابقون السابقون اولئک المقربون '' پوچھا گیا توآپ نے فرمایا : خدا نے ا س آیت کو انبیا و اوصیا کی شان میں نازل کیا ہے اور میں تمام انبیا و پیغمبروں سے افضل ہوں اور میرا وصی علی ابن ابی طالب تمام اوصیاء سے افضل ہے اس موقع پر بدر کے ستّر اصحاب جن میں اکثر انصار تھے کھڑے ہو گئے اور گواہی دی کہ رسول ۖ خدا سے ہم نے ایساہی سنا ہے۔ (١) (١)سلیم ابن قیس العامری ، منشورات دار الفنون ، للطبع والنشر والتوزیع ، بیروت ،١٤٠٠ھ ص ١٨٦، طبری، ابی منصور احمد ابن علی ابن ابی طالب ، الاحتجاج ، انتشارات اسوہ ، ج ١ ص ٤٧٢ منبع:shiaarticles.com