علامہ مجلسی اور بحار الانوار
علامہ مجلسی اور بحار الانوار
0 Vote
158 View
شیعی کتب حدیث میں ایک بڑا نام ''بحار الانوار '' کا ہے جو حدیث کا انسائیکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے ۔اس عظیم الشان کتاب کے مئولف علامہ محمد باقر مجلسی رحمة اللہ علیہ ہیں جو شیعہ محدثین میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔بحار الانوار کے مکمل تعارف سے پہلے علامہ مجلسی کے مختصر حالات ذکر کئے جاتے ہیں جو اُن کی علم حدیث میں مقام ومنزلت کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔ علامہ محمد باقر مجلسی کے حالات زندگی رئیس محدثین ،علامہ ذوالفنون ملا محمدباقر بن محمد تقی بن مقصود علی اصفہانی المعروف علامہ مجلسی ١٠٣٧ ھ میں اصفہان میں پیدا ہوئے ۔اُن کی تاریخ پیدائش کے بارے میں تذکرہ نویسوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، اکثر مئورخین نے اُن کی تاریخ پیدائش یہی لکھی ہے ۔١لیکن بعض نے ١٠٣٨ ھ بھی ذکر کی ہے ۔لیکن خود علامہ مجلسی سے منقول ہے کہ اُن کی تاریخ پیدائش ''جامع کتاب بحار الانوار '' کے اعداد کے مطابق ہے کہ جو ١٠٣٧ ہی بنتی ہے اور اس چیز کو اُنہوں نے عجائب میں سے قرار دیا ہے ۔٢ اُن کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی اختلاف نظر پایا جاتا ہے ؛بعض نے اُن کی تاریخ پیدائش ١١١١ ھ اور بعض نے ١١١٠ ھ لکھی ہے ۔٣ وہ اور اُن کے والد محمد تقی دونوں ''مجلسی '' کے لقب سے مشہور تھے ،چونکہ اُن کے دادا ملامقصود علی کا شعر وشاعری میں تخلص'' مجلسی'' تھا جس کی وجہ سے یہ خاندان اسی لقب سے مشہور ہوگیا تھا ۔ علامہ مجلسی کے اساتذہ علامہ مجلسی ابھی چودہ سال کے ہی تھے کہ اپنے والد سے تعلیم حاصل کر نے لگے تھے اور مسجد میں نماز میں شرکت کرتے تھے اور اپنے ہم عمر بچوں کو درس دیتے اور موعظہ کرتے تھے اور یہ اُن کی بچپن سے علمی استعداد کی علامت ہے ۔اُنہوں نے بہت کم عرصے میں بہت سے اسلامی علوم وفنون پر دسترس حاصل کر لی تھی ۔ نامور محدث حاجی میرزا حسین نوری نے ''الفیض القدسی '' میں علامہ مجلسی کے ١٨ مشایخ کا ذکر کیا ہے اور آیت اللہ ربانی مرحوم نے بحار الانوار کی جلد اول کے مقدمے میں ٢١ اساتذہ ذکر کئے ہیں جن میں سے چند نامور شخصیات کے نام ہم یہاں ذکر کرتے ہیں ۔ ١۔علامہ محمد تقی مجلسی (والد محترم علامہ مجلسی ) ٢۔مولی محمد صالح مازندرانی (صاحب شرح الکافی) ٣۔مولی حسن قلی شوشتری ٤۔حکیم امیر رفیع الدین محمدبن حسین حسنی طباطبائی ٥۔امیر محمد قاسم قھپانی ٦۔مولی محمد شریف بن محمد رویدشتی اصفہانی ٧۔امیر شرف الدین علی بن حجة اللہ شولستانی ٨۔امیر محمد مئومن بن دوست محمد استر آبادی ٩۔سید میرزا جزائری ١٠۔شیخ عبد اللہ بن جابر عاملی ١١۔محمدبن الحسن عاملی ١٢۔ملامحسن فیض کاشانی (صاحب الشافی) ١٣۔سید علی حسینی شیرازی (صاحب ریاض السالکین ) ١٤۔محمد محسن بن محمد مئومن استر آبادی ١٥ ۔ملا خلیل غازی قزوینی ١٦ ،قاضی ابو الشرف اصفہانی علامہ مجلسی کے شاگرد کسی عالم دین کی علمی حیثیت کا اندازہ اُس کے اُن شاگردوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جن کی وہ اپنی آغوش علمی میں تربیت کرتا ہے ۔لہذا علامہ مجلسی کے علمی مقام ومرتبے کا اندازہ ہم اُن کے شاگردوں سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اُنہوں نے کس قدر جلیل القدر علماء کی تربیت کی ہے اور اُن کے شاگردوں نے عالم اسلام کی کس قدر خدمات انجام دی ہیں ۔چونکہ علامہ مجلسی نے حوزہ علمیہ اصفہان میں اپنا حلقہ درس قائم کیا ہوا تھا اور گیارہوں صدی ہجری میں یہ حوزہ علمیہ اسلامی دنیا میں ایک جانا پہچانا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس سے عظیم علماء اور فلاسفہ پیدا ہورہے تھے اس لحاظ سے اس حوزہ علمیہ میں علامہ مجلسی کے درس اور اس میں شرکت کر نے والوں کی اہمیت کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔محققین کے مطابق علامہ مجلسی کے بلا واسطہ شاگردوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی ۔ ٤ علامہ مجلسی کے مکتب درس میں تربیت پانے والے چند نامور علماء یہ تھے : ١۔سید نعمت اللہ جزائری ٢۔امیر محمد صالح بن عبد الواسع (داماد علامہ مجلسی ) ٣۔امیر محمد حسین بن امیر محمد صالح ٤۔محمد بن علی اردبیلی ٥۔میرزا عبدا للہ افندی ٦۔مولی محمد رفیع بن فرج گیلانی المعروف ملّا رفیعا ٧۔میرزا محمد مشھدی صاحب ''کنز الدقائق '' ٨۔سید ابراہیم بن امیر محمد معصوم قزوینی ٩۔محمد بن عبد الفتاح تنکابنی ١٠۔محمد بن محمد بن مرتضیٰ نور الدین علامہ مجلسی کے علمی مقام ومنزلت کے بارے میں علماء کی آراء علامہ مجلسی کے محدّث ہو نے کا مطلب یہ نہیں کہ اُنہو ں نے فقط روایات اور احادیث کا ایک مجموعہ ترتیب دیا ہے اور اُن روایات میں درایت سے کام نہیں لیا بلکہ علامہ مجلسی نے بہت سے عقلی علوم میں بھی بزرگ اساتذہ سے کسب فیض کیا ہے اور وہ بزرگ فلاسفہ کی آراء اور نظریات سے بھی آگاہ تھے ۔اس لحاظ سے اُن کا علمی مقام تمام علماء اور تذکرہ نویسوں کے نزدیک مسلّم حیثیت رکھتا ہے ۔اُن کے علمی کام کو تمام شخصیات نے سراہا ہے اور اُن کے بارے میں اپنی آراء بیان کی ہیں جن میں سے چند شخصیات کی آراء یہاں ذکر کی جاتی ہیں : الف :امیر محمد صالح حسینی (داماد علامہ مجلسی ) مولانا محمد باقر مجلسی قدس اللہ سرہ عظیم ترین فقہا اور محدثین میں سے تھے وہ سب علمائے دین میں برتر تھے اور علم فقہ ،تفسیر ،حدیث ،رجال ،اصول ،کلام ،اصول فقہ میں تمام دانشوروں پر ترجیح رکھتے تھے اور گذشتہ اور حال کے علماء میں سے کوئی بھی اُن کے بلند مرتبے اور جامعیت کو نہیں پہنچ سکتا ۔وہ بارگاہ خدا وند رحمن میں مقرب تھے۔٥ ب :عظیم محدث شیخ یوسف بحرانی ''محمد باقر مجلسی تمام علوم خصوصاً علم حدیث میں اپنے زمانے کے پیشوا تھے ۔وہ ا صفہان کے شیخ الاسلام اوردینی و دنیوی ریاست کے مالک تھے ،جمعہ وجماعت کی امامت بھی کراتے تھے ۔یہی علامہ مجلسی تھے کہ جنہوں مملکت ایران میں حدیث کی نشر واشاعت کی ہے اور اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے ۔ وہ امر بالعروف اور نہی عن المنکر میں بہت زیادہ محکم تھے ،اسی طرح اُن کا جود وکرم بھی سب کے شامل حال ہو تا تھا۔شاہ سلطان حسین صفوی کی حکومت اپنی تمام تر نا اہلی کے باوجود علامہ مجلسی کی وجہ سے محفوظ تھی لیکن جونہی علامہ مجلسی فوت ہوئے اس مملکت پر بھی کمزوری اور سستی پھیل گئی اور اُسی سال قندھار بادشاہ کے ہاتھوں سے نکل گیا اور اس کے بعد بہت سے شہر یکے بعد دیگرے اُس کے ہاتھوں سے نکلتے گئے ''۔٦ ج:حاج میرزا حسین نوری مذہب کی ترویج اور کلمة الحق کو بلند کر نے میں اسلام میں کوئی بھی اس طرح کامیاب نہیں ہوا جس طرح شیخ معظم اور بحر ضخیم (علامہ مجلسی ) کامیاب ہوئے ہیں ۔٧ علامہ مجلسی کی تالیفات علامہ مجلسی کی تالیفات عربی اور فارسی میں ہیں ؛ان میں سے ہرایک کتاب اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہے اور اس کے مفصل تعارف کی ضرورت ہے چونکہ ہمارا موضوع علامہ کی اہم ترین کتاب ''بحار الانوار الجامعة لدرراخبار الائمةالاطہار علیہم السلام '' کا مفصل تعارف پیش کرنا ہے لہذا ہم علامہ کی دوسری کتابوں کی فہرست پیش کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں : الف :عربی تالیفات (١)۔بحار الانوار الجامعة لدرراخبار الائمةالاطہار علیہم السلام(٢) مراة العقول فی شرح اخبار الرسول درشرح اصول کافی(٣) ملا ذالاخبار فی شرح التہذیب(٤) شرح اربعین،(٥) الو جیزہ فی الرجال، (٦) الفوائد الطریقہ فی شرح الصحیفتہ السجادیہ،(٧) رسالہ الاوزان،(٨) المسائل الھندیہ(اجوبة المسائل الھندیہ)(٩) رسالہ فی الاعتقادات ؛ اسے ایک رات میں لکھا گیا ہے''(١٠) رسالة فی الشکوک ب:فارسی تالیفات (١) حق الیقین (٢) عین الحیاة (٣) حلیتہ المتقین (٤) حیات القلوب (٥) مشکوة الانوار (٦) جلاء العیون(٧) زاد المعاد(٨) تحفتہ الزائر(٩) مقیاس المصابیح (١٠) ربیع الاسابیع(١١) رسالہ در شکوک، (١٢)رسالہ دیات،(١٣) رسالہ دراوقات (١٤) رسالہ در جعفر (١٥) رسالہ در بہشت، دوزخ (١٦) رسالہ اختیارات ایام(١٧) ترجمہ عہد نامہ امیر المومنین بہ مالک اشتر(١٨) مشکوة الانوار و آداب قرات قرآن و دعا (١٩) شرح دعائے جوشن کبیر(٢٠) رسالہ در رجعت (٢١) رسالہ در آداب نماز(٢٢) رسالہ در زکوة۔ ان کے علاوہ تیس سے زائدرسالے مختلف مسائل و دعاؤں کے ترجمے اور عقائد و احکام میں بھی لکھے ہیں ۔ ''بحار الانوار الجامعة لدرراخبار الائمةالاطہار علیہم السلام '' جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ علامہ مجلسی کی سب سے اہم تالیف'' بحار الانوار ''ہے جو علم حدیث اور مختلف اسلامی علوم وفنون کا انسائیکلو پیڈیا شمار ہوتی ہے ۔یہ کتاب علامہ مجلسی کی تمام تالیفات میں ''اُم الکتاب'' کی حیثیت رکھتی ہے ۔جو تاریخ میں ابدیت کی حامل ہو گی اور جہاں بھی احادیث اور روایات کا تذکرہ ہو گا وہاں ''بحار الانوار'' کا نام بھی زندہ رہے گا ۔ بحار الانوار ایک ایسی کتاب ہے کہ جو شخص بھی مکتب اہل بیت علیہم السلام کے وسیع وعریض علمی میدان کا مطالعہ اور تحقیق کرنا چاہے گا اُسے اس کتاب میں ہر موضوع کے بارے میں معلومات مل جائیں گی اور کوئی بھی محقق اس کتاب کی طرف رجوع کئے بغیر اپنا علمی کام مکمل نہیں کر سکے گا ۔یہ کتا ب اپنے زمانہ تالیف سے لیکر اب تک علماء اور محققین کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور تمام اسلامی علوم وفنون کے ماہرین نے اس کتاب کو اپنی تحقیقات کا منبع ومآخذ قرار دیا ہے ۔ موضوع اس کتاب کا موضوع تمام اسلامی موضوعات منجملہ تفسیرقرآن ،علوم قرآن ،فقہ ،کلام سیرت و تاریخ وغیرہ پر احادیث اور روایات ہیں جن کو علامہ مجلسی نے ایک مجموعے میں جمع کر دیا ہے ۔اس کتاب کی قدر ومنزلت میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ جتنی بھی کتب حدیث لکھی گئی ہیں اور ان میں مختلف عناوین اور ابواب کے تحت روایات واحادیث جمع کی گئی ہیں اُن سب میں یہ کتاب کامل ترین مجموعہ ہے ۔علامہ مجلسی نے روایات کی تفسیر اور شرح میں لغت ،تفسیر ، فقہ ،کلام ، تاریخ وسیرت اوراخلاق کے تمام اہم منابع سے استفادہ کیا ہے ۔علامہ مجلسی نے اس کتاب کے مطالب ومضامین کو جمع کرنے کے لئے ہر ممکنہ وسیلے سے استفادہ کرتے ہوئے معتبرترین نسخوں سے مطالب اکھٹے کئے ہیں اُنہوں نے مطالب نقل کرتے ہوئے ممکنہ حد تک باریک بینی سے کام لیا ہے اور مطالب ومضامین کے نقل کر نے میں مکمل دیانت داری سے کام لیا ہے اور کہیں بھی تقطیع نہیں کی اور کوئی بھی بات نہ کاٹی ہے نہ اُس میں اضافہ کیا ہے اس لحاظ سے کتاب ''بحار الانوار الجامعة لدرراخبار الائمةالاطہار علیہم السلام ''معتبر شیعہ کتابوں اور تالیفات کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ جس میں منطقی نظم کے ساتھ مختلف موضوعات پر مشتمل روایات واحادیث کو تالیف کر دیا گیا ہے ۔اس کتاب میں مکررات کو بھی حذف کردیا گیا ہے اور جہاں بھی کسی مطلب کو مکرر ذکر کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے تو فقط اس کا منبع اور ماخذ ذکر کر دیا ہے ۔ بحار الانوار کی تالیف کا محرک علامہ مجلسی نے جب تمام اہم ترین اور مشہور ترین کتب حدیث کا مطالعہ کر لیا اور اُن کے مطالب بزرگ اساتذہ سے حاصل کرلئے تو پھر اپنے ذوق اور خداداد استعداد کے ذریعے بعض غیر معروف اور فراموش شدہ کتب حدیث اور خطی نسخوں کی طرف رجوع کرنا شروع کیا جو کتابیں بزرگ علماء کی عدم توجہ کا نشانہ بنی ہوئی تھیں چونکہ بزرگان فقط کتب اربعہ جیسے منابع حدیث پر ہی اکتفا کر لیتے تھے جس کی وجہ سے یہ کتابیں فراموش ہوتی جارہی تھیں اور ان میں موجود علمی مطالب ومضامین فراموش ہوتے جارہے تھے ۔علامہ مجلسی نے جب یہ حالت دیکھی تو مشہور کتب حدیث کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے غیر معروف کتابوں کو بھی دیکھنا شروع کر دیا جو ''بحارالانوار '' جیسی عظیم کتاب کا باعث بنا ۔ علامہ نے اس کام کے لئے اپنے کچھ شاگردوں کو مختلف اسلامی ممالک اور شہروں کی جانب بھیجا اور دور دراز کے مختلف مقامات سے معروف اور غیر معروف کتب حدیث جمع کرنی شروع کر دیں ۔علامہ مجلسی نے ان نادر کتب کا مطالعہ کر نے کے بعد ان کی نسخہ برداری کا کام شروع کر دیا اور ان سے بہت سے علمی مضامین نقل کر کے اُنہیں اپنے اس عظیم دائرة المعارف میں جمع کیا ۔یہی وجہ ہے کہ بحار الانوار کی تالیف کی وجہ سے بہت سی نادر اور غیر معروف کتب حدیث بھی زندہ ہو گئی ہیں ورنہ یہ فراموش شدہ کتابیں بالکل ہی ختم ہو جاتیں ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو علامہ مجلسی کا سب سے بڑا محرک احادیث کے نادراور فراموش شدہ ذخیروں کو محفوظ کرنا تھا ۔ بحا ر الانوار کے بارے میں علماء کی آراء ١۔امام خمینی '' بحار الانوار جو محدث عالی قدر و عالم بزرگوار محمد باقر مجلسی کی تالیف ہے وہ تقریبا چار سوکتب و رسائل کا مجموعہ ہے درحقیقت وہ چھوٹا سا کتاب خانہ ہے جس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔اس کتاب کے مولف و مرتب نے جب یہ دیکھا کہ مرو رزمانہ سے حدیث کی بہت سی کتابیں نابود ہو رہی ہیں تو صحت کا التزام کئے بغیر سب کو ایک مجموعہ بنام '' بحارالانوار '' میں جمع کردیا''۔٨ ٢۔آیت اللہ شعرانی ''عظیم عالم اور جلیل القدر محدث علامہ محمد باقر بن محمدتقی مجلسی۔قدس سرہ۔کی کتاب بحار الانوارعلمائے شیعہ میں سے تمام صاحب نظرلوگوں کے نزدیک مختلف احادیث کے موضوع پر ایک کامل ترین کتا ب ہے ،جس میں تمام دینی مقاصد اور موضوعات موجود ہیں جنہیں رجوع کر نے والوںکے سامنے بطور احسن پیش کیا گیا ہے اور بزرگان کے اقوال کو کامل انداز میں نقل کیا گیا ہے اور یہ کتاب معرفت کے متلاشیوں کے لئے بہترین سر چشمہ ہے ۔یہ کتاب ایسی ہے کہ کوئی بھی دیندار شخص اس سے بے نیا زنہیں رہ سکتا خواہ وہ فقیہ ہو یا محدث ،واعظ ہو یا مورخ ،مفسر ہو یا متکلم بلکہ وہ فیلسوف الہٰی ہی کیو ں نہ ہو ،یہ سب طبقات بلا استثنیٰ اس کے محتاج ہیں ۔چونکہ اس میں تمام دینی موضوعات موجود ہیں ''۔٩ ٣۔میرزا حسین نوری تم اعتقادات ،فروع دین ،تاریخ اور اخلاق وغیرہ کے بارے میں کوئی بھی ایسی آیت ،حدیث نہیں پائو گے کہ جس کے بارے میں علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں وضاحت اور تحقیق پیش نہ کی ہو ''۔ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں :شیعہ امامیہ کے علم و فرہنگ کے موضوع پر جو بہترین کتاب لکھی گئی ہے وہ ''بحارالانوار '' ہے میں اپنے دین کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابھی تک اس قدر جامع کی حامل کتاب نہیں لکھی گئی ۔ بحار الانوار میں روایات جمع کر کے اُن کے متن کی تصحیح کی گئی ہے ''۔١٠ ٤۔آیت اللہ حسن زادہ آملی مجلسی دوم ، بحار اور مرّة العقول کے مئولف اُن نابغہ ہستیوں کی صف میں شامل ہیں کہ جن کے قلمی آثارہمارے لئے ایک طرح کی کرامت ہیں ۔١١ ٥۔امیر محمد صالح حسینی (داماد ،شاگرد علامہ مجلسی ) علامہ مجلسی نے تمام شیعہ روایات کو اپنی کتاب بحار الانوار کی جلدوں میں جمع کردیا ہے ۔کتب اربعہ کی روایات اس کے سامنے، سمندر کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہیں ۔عام طور پر کوئی ایک عالم دین بحار الانوار کی جلدوں کی مانند ایک جلد بھی تالیف نہیں کر سکتا ۔نیز اس سے پہلے شیعوں میں اس جیسی دقیق ،مفید اور جامع کتاب نہیں لکھی گئی ''۔١٢ ٦۔علامہ محسن امین جبل عاملی بحار الانوار ایک'' دائرة المعارف ''ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔اس کتاب میں شیعہ اور علوم اہل بیت علیہم السلام کی اکثر روایات جمع کی گئی ہیں ''۔١٣ بحا ر الانوار کا اسلوب بحار الانوارمتعدد کتابوں پر مشتمل ہے جن میں سے ہر کتاب ایک کلی موضوع کے تحت تالیف کی گئی ہے اور ہر کتاب بہت سے کلی ابواب پر مشتمل ہے اور پھر ہر باب کے تحت کچھ جزئی ابواب منعقد کئے گئے ہیں ۔بعض جزئی ابواب کی بھی کئی فصلیں ہیں ،بحار الانوار کا یہ اسلوب۔شیخ کلینی کی کتاب ''الکافی '' سے لیا گیا ہے البتہ ان دونوں کتابوں میں کچھ فرق بھی ہیں :علامہ مجلسی نے ''بحار الانوار'' میں بعض ابواب ایسے بھی منعقد کئے کہ جو ان سے پہلے کسی اور کتاب میں نہیں ملتے۔مثلاً ''کتاب السماء والعالم '' اور ''تاریخ انبیاء ''کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتے ۔ اسی طرح ہر موضوع کے تحت سب سے پہلے اُس موضوع سے متعلق آیات قرآن ذکر کی گئی ہیں اور اگر علامہ مجلسی نے ان آیات کی تفسیر کر نے کی ضرورت محسوس کی ہے تو ان کی تفسیر بھی پیش کردی گئی ہے ۔البتہ آیات کی تفسیر میں علامہ مجلسی نے اکثر علامہ طبرسی کی تفسیر ''مجمع البیان '' اور فخر رازی کی تفسیر ''مفاتیح الغیب '' سے استفادہ کیا ہے اس کے بعد ہر باب کی روایات کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے البتہ ہر روایت پوری سند اور مکمل ماخذ کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اگر کوئی روایت مکرر ذکر ہوئی ہے تو اس کے حوالہ کے طور پر ایک یا چند منابع ذکر کئے گئے ہیں اور سند اور متن کے اختلاف کی صورت میں مختلف قسم کی کتابوں کے حوالے دیئے گئے ہیں ۔بہت سے مقامات پر علامہ مجلسی نے ''بیان '' کے عنوان سے روایات کے بارے میں کچھ توضیحات اور شرحیں بھی ذکر کی ہیں کہ جنہوں نے موضوع اور مطالب کے لحاظ سے بحارالانوار کو بہت ہی متنوع بنا دیا ہے ۔اگر خود انہی توضیحات اور شرحوں کو جمع کیا جائے تو شاید چند جلد وں پر مشتمل ایک الگ کتاب تیار ہو جائے ۔ بحار الانوار میں اپنے اسلوب اور روش کے بارے میں علامہ بحار الانوار کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ! ''میں نے آغاز کار میں معروف و رائج کتب کا مطالعہ کیا اس کے بعد دوسری وہ کتابیں جو زمانے کے گزارے یا دیگر مختلف اسباب سے متروک و مہجور ہو گئی تھیں ان کو ڈھونڈ نکالا، جہاں بھی حدیث کی کتاب کا سراغ ملتا اسے ہر قیمت پر حاصل کرتا تھا، مشرق و مغرب ہر جگہ تلاش کرتا رہا یہاں تک کہ بہت سے نسخے جمع کرلئے، اس دینی فہم میں دینی برداروں کی ایک جماعت نے میری مدد کی اور وہ ہر شہر، ہر قبضے نیز دور دراز کے مقامات تک پہنچے اور خد ا کے فضل سے لازم و ضروری مصادر و مآخذ ہمارے پاس آگئے …اس کے بعد میں نسخوں کی تصحیح میں مشغول ہو گیا پھر اس کی نقول تیار کی گئیں اور اسی تصحیح و تنقیح کتب کے دوران ان کے مواد و مطلب سے آشنا ہوا مگرکتب کی ترتیب و نتظیم کو مناسب پایا نہ تحقیق کرنے والوں کے لئے احادیث کی فصل و مختلف ابواب میں تقسیم ہی پائی، …اس لئے میں نے ترتیب فہرست پر کمر ہمت باندھی جو ایسی ہو کہ ہر طرح سے دلچسپ و قابل توجہ ہو…مگر ١٠٧٠ھ میں اس فہرست کو ناتمام چھوڑ دیا بلکہ تمام کتابوں کی فہرست سازی سے ہاتھ کھینچ لیا، کیونکہ مقبولیت عامہ بھی نہیں نظر آئی دیگر یہ کہ معاشرہ کے سربراہوں کو بد عنوان و ناپسندیدہ پایا …مجھے خوف ہوا کہ کہیں میرے بعد تکثیر شدہ نسخے متروک و مہجور نہ ہو جائیں یا غارت گروں کی لائی ہوئی مصیبت میری محنت وزحمت پر پانی نہ پھیر دے اس لئے میں نے اپنا راستہ بھی بدل دیا خدا سے مدد مانگی اور کتاب بحار الانوار کو مرتب کیا … اس پر ثمر کتاب میں تمہیں٨ ٤ علمی کتب کے ٣٠٠٠ ابواب ملیں گے جو ہزارہا احادیث پر مشتمل ہیں تم اس کے ذریعے سے بہت سی علمی کتابوں سے واقف ہو گے جس کا اسلوب بالکل جدید ہے اور علمی پایہ بے سابقہ ہے لہٰذا اے میرے دینی بھائیو ! جو دل میں اماموں کی ولایت اور زبان پر ان کی مدح و ثنا رکھتے ہو اس نعمت کی طرف جلد آؤ اور اعتراف و یقین کے ساتھ میری کتاب ہاتھوں ہاتھ لو اور کامل اعتماد کیساتھ اسے پکڑو اور ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ کہ جو کسی بات کو زبان پرتو لاتے ہیں مگر ان کے دل خالی ہوتے ہیں''۔١٤ بحار الانوار کی خصوصیات اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ روایات میں زندگی کے تمام موضوعات ملتے ہیں چونکہ چہاردہ معصومین انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے اور انسانی ضروریات کے تحت ہرموضوع کے بارے میں اپنے فرامین اور احادیث میں عظیم الشان تعلیمات بیان فرمائی ہیں ۔اس لحاظ سے شیعہ روایات اسلامی تعلیمات کا ایک عظیم ترین ورثہ ہے جو ہمارے محدثین کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے ۔بحار الانوار سے پہلے جتنی بھی کتب حدیث لکھی گئی ہیں ،اُن میں زیادہ تر فقہی احادیث کو ہی اہمیت دی گئی ہے اور دوسرے موضوعات طاق نسیاں کی نذر ہو گئے ؛ اگرچہ شیخ کلینی نے ''الکافی'' میں فقہ کے علاوہ دوسرے موضوعات کو بھی اہمیت دی ہے لیکن پھر بھی معاد اور اصول دین سے متعلق دوسرے عناوین اُن سے بھی رہ گئے ہیں ۔ بہرحال ان بزرگوں کی اصل توجہ فقہ کی طرف تھی جس کی وجہ سے اُنہوں نے فقہی روایات کو ہی جمع کیا ہے یہ فقط علامہ مجلسی ہیں کہ جنہوں نے فقہ کے علاوہ دوسرے موضوعات کو بھی مد نظر رکھا ہے اور بحار الانوار میں جامعیت پید اکرتے ہوئے زندگی کے تمام اہم موضوعات کے بارے میں روایات جمع کی ہیں ۔یہ بحار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اسے دوسری کتب حدیث سے ممتاز بنا دیتی ہے ۔ اس کے علاوہ بحار الانوار ،انواع واقسام کے علمی نکات سے بھری پڑی ہے جو علامہ نے مشکل روایات کو حل کر نے میں پیش کئے ہیں ۔یہ نکات اور باریک بینیاں بھی اس کتا ب کو ممتاز بنادیتی ہیں ۔لہذا ہمیں اس کتاب میں بے شمار ادبی ،رجالی، لغوی اور کلامی وفقہی نکات ملیں گے جن سے علامہ مجلسی نے مشکل اور نادر وغریب روایات کو حل کر نے میں استفادہ کیا ہے ۔ ایک اور خصوصیت جو اس کتاب میں دیکھی گئی ہے وہ علامہ کا ایسی کتابوں اور خطی نسخوں سے استفادہ کرنا ہے کہ جو اس وقت ہمارے پا س نہیں ہیں اور فقط بحار الانوار ہی کے ذریعے ان کے مضامین اور مطالب محفوظ رہ گئے ہیں ،اگر علامہ مجلسی یہ کتاب نہ لکھتے تو شاید ہم ان نادر کتب کے مضامین سے محروم رہ جاتے ۔١٥ اس نکتے کے بارے میں بہت سے علماء اور محققین نے توجہ مبذول کرائی ہے اور اسے بحار کی سب سے بڑی خصوصیت قراردی ہے ۔چونکہ علامہ مجلسی کے پاس بہترین خطی نسخے تھے جن سے اُنہوں نے بھر پور استفادہ کیا ہے چونکہ یہ قیمتی خطی نسخے ہر جگہ نہیں ملتے اور نہ ہی ہر شخص کی دسترس میں ہوتے ہیں ۔١٦ ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ علامہ نے بحار الانوار میں ہر مطلب سے متعلق اکثر روایات کو ایک ہی جگہ جمع کردیا ہے جسے انسان آسانی کے ساتھ جان لیتا ہے کہ اس موضوع سے متعلق روایات متواتر ہیں یا مستفیض یا خبر واحد ہیں ۔ بحا ر الانوار کے منابع بحار الانوار کے منابع اور مصادر کے بارے میں علامہ مجلسی نے کتاب کے مقدمے میں کچھ وضاحتیں بیان کی ہیں وہ مقدمے کی پہلی فصل میں ٣٧٥ کتب کو بحار الانوار کے منابع کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں یہ منابع انواع واقسام کے موضوعات پر مشتمل ہیں جن میں کتب حدیث ،فقہ ،اصول ،تفسیر،رجال ،انساب ،تاریخ ،کلام ،فلسفہ اور لغت شامل ہیں ۔کتب اربعہ ( الکافی ،تہذیب ،من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار ) کے مشہور ہو نے کی وجہ سے علامہ اُن سے زیادہ مطالب نقل نہیں کرتے البتہ کافی سے ٣٥٠٠حوالے نقل کئے گئے ہیں اور من لایحضرہ الفقیہ سے ایک سو سے بھی کم حوالے نقل ہو ئے ہیں ۔ان منابع میں سوائے کتاب ''شھاب الاخبار '' کے ،سب منابع شیعی ہیں علامہ نے قاضی نعمان بن محمد صاحب دعائم الاسلام کو بھی شیعہ کہا ہے ۔ اہل سنت کی کتب کو علامہ مجلسی اکثر اوقات روایات کی تائید یا توضیح کے لئے ذکر کرتے ہیں یا اُن کے مطالب کے رد میں لاتے ہیں ۔ علامہ مجلسی تمام منابع سے یکساں استفادہ نہیں کرتے یعنی؛ بعض منابع سے زیادہ استفادہ کیا گیا ہے اور بعض سے کم ۔وہ بحار الانوار کے تقریباً٨٠ منابع کے رمز مشخص کرتے ہیں اور یہی کتاب بحار الانوار کے اصلی منابع شمار ہوتے ہیں ۔بعض کتابیں مثلاً طب الرضا علیہ السلام ،توحید مفضل ،مسائل علی بن جعفر علیہ السلام ،فہرست شیخ منتجب الدین وغیرہ بطور کامل بحار الانوار کے متن میں نقل ہوئی ہیں ۔ان منابع کے علاوہ دوسری کتابوں سے بہت کم استفادہ کیا گیا ہے اور اکثر مواقع پر ان کتابوں سے روایات کی تفسیر اور شرح کے لئے استفادہ کیا گیا ہے ۔ بحار الانوار کے عناوین اور موضوعات بحار الانوار کی جامعیت کو سمجھنے کے لئے اسکی کتب اور ابواب کے عناوین اور موضوعات کی ایک فہرست پیش کی جاتی ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ علامہ مجلسی نے اس کتاب میں کس قدر موضوعات زندگی کو اہمیت دی ہے اور روایات معصومین علیہم السلام کے کیسے کیسے موتی چن کر اس کتاب میں جمع کر دیئے ہیں : ١۔کتاب العلم والعقل والجھل ٤١ باب ٢۔کتاب التوحید ١٣ باب ٣۔کتاب العدل والمعاد ٦٢ باب ٤۔کتاب الاحتجاجات و المناظرات ٣٠ باب ٥۔کتاب النبوةو قصص الانبیائ ٨٢ باب ٦۔ کتاب تاریخ خاتم النبیین ٨٤ باب ٧۔ کتاب الامامة ١٥٠ باب ٨۔ کتاب ماوقع من الجور علی الائمہ (المحن و الفتن) ٦٩ باب ٩۔ کتاب تاریخ امیر المومنین ١٢٩ باب ١٠۔ کتاب تاریخ فاطمةو الحسن و الحسین ٥٠ باب ١١۔کتاب تاریخ السجاد و الباقر و الصادق و الکاظم ٤٦ باب ١٢۔ کتاب تاریخ الرضا و الجواد و النقی و العسکری ٤٠ باب ١٣۔ کتاب تاریخ الحجة المہدی ٣٧ باب ١٤۔ کتاب السماء و العالم ٢٢٣ باب ١٥۔ کتاب الایمان و الکفر ١٤٤ باب ١٦/١۔ کتاب العشرہ ١٠٧ باب ١٦/٢۔ کتاب الآداب و السنن ٦٧ باب ١٧۔ کتاب المواعظ ٣٤ باب ١٨۔کتاب الطہارة و الصلوة ١٨٨ باب ١٩۔کتاب القرآن و الدعا ١٣١ باب ٢٠۔کتاب الزکوة و الصدقہ و الخمس و الصوم ١١٥ باب ٢١۔کتاب الحج و العمرةو احوال المدینہ ٨٧ باب ٢٢۔ کتاب المزار ٦٩ باب ٢٣۔ کتاب العقود و الایقات ١٢٨ باب ٢٤۔ کتاب الاحکام ٤٩ باب ٢٥۔ کتاب الاجازات ١٦٣ باب بحار کی تاریخ تالیف بحار الانوار کی تالیف کا آغاز ١٠٧٠ ھ میں ہوا ہے اور ١١٠٣ ھ تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔گویا یہ عظیم کتاب ٣٣ سال کے طولانی عرصے میں لکھی گئی ہے ۔البتہ بحار الانوار کی تمام جلدیں ترتیب وار نہیں لکھی گئیں بلکہ بطور متفرق تیار ہوئی ہیں ۔مثلاً ١٠٧٧ ھ میں بحار الانوار کی دوسری جلد ختم ہوتی ہے اور اس کے بعد پانچویں جلداور پھر گیارہویں جلد لکھی جاتی ہے ۔دسویں جلد ١٠٧٩ میں مکمل ہوتی ہے اور اس کے بعد نویں جلد مکمل کی جاتی ہے اور تیسری جلد ١٠٨٠ ھ میں اختتام کو پہنچتی ہے ۔چودہویںجلد بحار کی آخری جلد تھی جو ١١٠٣ ھ میں پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے (یہ ترتیب بحا ر الانوار کی قدیم اشاعت کے مطابق ہیں ) بحار الانوار کی جلدوں کی تعداد خود علامہ مجلسی نے بحا ر الانوار کو ٢٥ بڑی جلدوں میں تالیف کیا تھا البتہ پندرہویں جلد کے طولانی ہو نے کی وجہ سے یہ جلد دو مجلدات میں تقسیم ہوئی ہے اور اس طرح بحا ر الانوار کی مجلدات کی تعداد ٢٦ ہوجاتی ہے ۔اسکی کچھ جلدیں ہندوستان اور کچھ تبریز سے شائع ہوئی ہیں جن کی تفصیل کے لیے معروف کتاب شناس آغابزرگ تہرانی کی فہرست ''الذریعہ الی ٰ تصانیف الشیعہ '' کی جلد ٣ کی طرف رجوع کیا جائے ۔ دار الکتب الاسلامیہ تہران نے انہی ٢٦ جلدوں کو ١١٠ جلدوں میں شائع کیا ہے ۔اس اشاعت میںجلد نمبر ٥٤ تا ٥٦ ، کتاب کی فہارس پر مشتمل ہیں۔١٤٠٣ ھ میں بیروت کے ایک ادارے ''مئوسسہ الوفا ء وداراحیاء التراث العربی '' نے بحا ر الانوار کے ایرانی ایڈیشن کی آفسٹ اشاعت کی ہے جو بہت ہی خوبصورت ہے ۔ بحا ر الانوار کی جدید اشاعت بہت سی خصوصیات کی حامل ہے جن میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اشاعت علماء اور محققین کے گروہ کے ذریعے تصحیح کے بعد چھاپی گئی ہے اور اس پر علامہ محمد حسین طباطبائی کے حواشی بھی موجود ہیں کہ جو ''ط'' کے رمز کے ساتھ مشخص ہیں ۔اس کی وجہ سے بحار الانوار کی ارزش وقدرومنزلت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ۔اس کے علاوہ اس اشاعت کو اس کے متعددخطی اور شائع شدہ نسخوں کے ساتھ تطبیق کر نے کے بعد چھاپا گیا ہے جس کی وجہ سے غلطیوں کا امکان بہت کم رہ گیا ہے ۔اس کے ساتھ اس ایڈیشن پر آیت اللہ ربانی شیرازی مرحوم کے دو علمی قدمات بھی شائع ہوئے ہیں کہ جن میں سے ایک علامہ مجلسی کے حالات پر مشتمل ہے کہ جو حاجی نوری کی کتاب ''الفیض القدسی '' کا خلاصہ ہے اور دوسرا مقدمہ ''مصادر بحا ر الانوار ''کے مئولفین کے حالات پر مشتمل ہے جو فنی اعتبار سے بہت ہی مفید ہے ۔١٧ ٭٭٭٭٭ حوالہ جات ١۔ مصفی المقال ،ص ٩٣ ،مستدرک الوسائل ،ج ٣،ص ٤٠٩ ،الاعلام زرکلی ،ج ٦ ،٤٨، سفینة البحار ،ج ١،ص ١٧١ ۔اعیان الشیعہ ،ج ٩ ، ص١٨٢ ۔ ٢۔ لئولئو ة البحرین ،ص٥٩۔ ٣۔ روضات الجنات ،ج ٢ص ٧٨ ۔ ٤۔ الانوار النعمانیہ ،ج ٤،ص ٣١٢۔ ٥۔ روضات الجنات ،ج ٢،ص٨٤ ٦۔ لئولئو ة البحرین ،ص٥٥ ٧۔ الفیض القدسی بحوالہ بحار الانوار ،ج ١٠٥ ،ص١٠ ٨۔ کشف الاسرار ،ص٣١٩ ٩۔ بحار الانوار ،ج٥٣ مقدمہ کتاب ١٠۔ الفیض القدسی ،ص٢٩ ١١۔ انسان کامل ،ص ٨٥ ١٢۔ آشنائی با بحار الانوار ،ص ٩١ ١٣۔ اعیان الشیعہ ،ج ٩،ص ١٨٣ ١٤۔ مقدمہ بحار ،ج ١ ١٥۔ مقدمہ آیت اللہ ربانی شیرازی ،جلد اول بحار ،ص ٥ ١٦۔ مقدمہ علامہ شعرانی ،جلد ٥٣ بحار ١٧۔ آشنائی با بحار الانوار ،ص ٢٨٤ ٭٭٭٭٭٭ منابع ومآخذ اس مقالے کی تیاری میں درج ذیل منابع اور مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے : ١۔ آشنائی با تاریخ ومنابع حدیثی ،دکتر علی نصیری ، مرکز جھانی علوم اسلامی ،قم،١٣٨٥ ش ٢۔ آشنایی بامتون حدیث ونہج البلاغہ، شیخ مہدی مھریری۔،مرکز جھانی علوم اسلامی ،قم ٣۔ آشنائی با بحار الانوار ،احمد عابدی، دبیر خانہ ہمایش بزرگداشت علامہ مجلسی ،وزارت فرہنگ وارشاد ،تہران ٤۔ تاریخ حدیث ،کاظم مدیر شانہ چی ،سازمان مطالعہ وتدوین کتب علوم انسانی دانشگاہھا ٥۔ تاریخ حدیث ،ڈاکٹر رضا مئودب ،انتشارا ت مرکز جہانی علوم اسلامی ،قم ٦۔ دانش حدیث ،محمد باقر نجف زادہ بار فروش ،مئوسسہ انتشارات جہاد دانشگاہی (ماجد) ،تہران ،١٣٧٣ ش ٧۔ سوفٹ ویئر ،نور ،جامع الاحادیث ،نسخہ ٥/٢،مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی ،قم ٨۔ علم حدیث ،زین العابدین قربانی ،انتشارات انصاریان ،قم ٩۔ علم الحدیث ودرایة الحدیث ،کاظم مدیر شانہ چی ،دفتر انتشارات اسلامی ،جامعہ مدرسین ،قم ،١٣٧٢ ش ١٠۔ بحار الانوار ،محمد باقر مجلسی ،تہران ،دارلکتب الاسلامیہ والمکتبة الاسلامیہ ،١١٠ جلد ،١٣٧٠ ھ ١١۔ الذریعة الی تصانیف الشیعة ،شیخ آقا بزرگ تہرانی ،المکتبة الاسلامیہ ،تہران