محمد بن قولویہ قمی کی شخصیت اور مزار مبارک
محمد بن قولویہ قمی کی شخصیت اور مزار مبارک
Author :
گروہ محقیقین ابنا
0 Vote
163 View
شہرِ قم کی عظمت کے بارے میں کیا کہنے۔قم المقدسہ کا چپّہ چپّہ بزرگان دین کی نشانیوں سے معمور ہے۔ کبھی تو اس شہر میں گھومتے ہوئے انسانی ضمیر کو صدائے "فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی" کی صدا سنائے دینے لگتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ جوتے اتار کر ادب سے قدم رکھ کر اس شہر کی زیارت کی جائے؛ اس شہر کا سورج کریمہ اہل بیت سیدہ فاطمہ معصومہ بنت موسی بن جعفر (علیہم السلام) کا حرم شریف ہے جو قم رود نامی نالے کے کنارے پر واقع ہے اور حرم کی دوسری جانب خیابان آیة الله مرعشی نجفی(ره) (خیابان ارم) نامی سڑک ہے جس کے بائیں کنارے پرانے بازار کی جانب چلتے ہوئے بازار غدیر تک پہنچنے سے پہلے ایک مقبرہ واقع ہے جس میں بزرگ محدث محمد بن قولویہ قمی آرام کررہے ہیں اور ساتھ دفاع مقدس کے شہیدوں کی چند قبریں واقع ہیں۔ ویسے تو حرم کے میدان آستانہ میں ابن قولویہ کے مزار تک پہنچنے سے پہلے ہی ایک قبرستان واقع ہے جس کو "شیخان" کہا جاتا ہے اور اس میں امام رضا(ع) کے صحابی زکریا بن آدم، بعض اشعری علمائے کرام، میرزائے قمی، ملکی تبریزی اور متعدد بزرگ علماء اور شہداء کی قبریں واقع ہیں اور بازار غدیر کے بیچ میں بھی محدث جلیل القدر علی بن ابراہیم قمی(رح) کا مزار ہے اور ان کے مقبرے کے بالکل سامنے علی بن بابویہ قمی کا مزار واقع ہے؛ لیکن اس حقیر نے ابن قولویہ کے مزار پر وعدہ کیا ہے کہ پہلے ان کے سلسلے میں تعارفی جملے اردو پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کئے جائیں چنانچہ یہاں ان ہی کے مختصر سے تعارف ـ بقلم "محمد رضا حیدریان" ـ کا اردو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ محمد بن قولویہ قمی عالی قدر محدث ہیں جن کی شان و منزلت اہل نظر پر پوشیدہ نہیں ہے۔ اکابرین و علماء نے اس محدث عظیم القدر کو اچھے الفاظ میں یاد کیا ہے اور اگر قارئین گرامی ان کے اساتذہ اور شاگردوں سے روشناس ہوجائیں تو ان کی عظمت کے مراتب سے مزید آگاہ ہونگے، امید ہے یہ بھی ایک ـ ہرچند ناچیز ـ قدم ہو علمائے شیعہ سے شیعیان آل رسول(ص) کو روشناس کرانے کی طرف اور پھر بھی امید ہے کہ ہماری یہ کوشش درگاہ احدیت میں مقبول حق تعالی، ٹہرے۔ خاندان پاکنام محمد، کنیت ابو جعفر یا ابوالقاسم، والد کا نام جعفر بن قولویہ (1) ہے۔ وہ نامدار شیعہ فقہاء اور موثق علماء میں سے ہیں۔ محمد بن جعفر بن قولویہ، سعد بن عبداللہ اشعری کے شاگرد خاص اور راوی خاص ہیں اور برسوں تک ان کے سرچشمہ دانش و معرفت سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں اور اس کے بعد خود شاگردوں کی تربیت میں مصروف ہوئے ہیں۔ ان کا خاندان اپنے زمانے کے عالم پرور اور عالم خاندانوں میں سے ہیک تھا اور اس شریف خاندان نے عالم تشیع کو بہت زیادہ خدمات پیش کیں۔ محمد بن قولویہ نے نے اپنی زندگی میں احادیث اہل بیت(ع) کو جمع کرکے انہیں اقوال معصومین(ع) کے شیدائیوں تک پہنچانے کی غرض سے طویل سفر اختیار کئے۔ انہیں ہجرتوں کے دوران ان کو اہل سنت کے اکابرین سے ملاقاتوں کے مواقع بھی ملے اور ان سے بھی احادیث سننے کا اہتمام کیا۔ (2)استاد کے حضور محمد بن قولویہ کے اساتذہ میں سے ایک سعد بن عبداللہ اشعری قمی تھے۔ سعد بن عبداللہ اشعری قمی تیسری صدی ہجری کے اخری بزرگ شیعہ عالم دین تھے جو عظیم الشان اشعری خاندان کے چشم و چراغ تھے جنہوں نے اپنے بعد گرانقدر علمی آثار چھوڑے ہیں اور عظیم شاگردوں کی تربیت کی۔ (3) نامور رجال شناس مرحوم نجاشی(رح) ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ابوالقاسم سعد بن عبداللہ ابی خلف اشعری قم، اشعری خاندان کے زعیم اور ان کے نامی گرامی فقیہ ہیں۔ انھوں نے عامہ (اہل سنت) سے کثیر احادیث سنی ہیں اور احادیث اہل بیت(ع) کی تلاش میں شہر بشہر اور دیار بدیار ہجرت کرتے رہے ہیں اور اہل سنت کے بزرگوں سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں حسن بن عرفہ، محمد بن عبدالمالک دقیقی، ابو حاتم رازی اور عباس برفقی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ (4) سعد بن عبداللہ اشعری قمی کے اعزازات میں سے یہ ہے کہ امام حسن عسکری(ع) کی خدمت میں شرف حضور پاچکے ہیں اور اکابرین علماء نے اپنی کتب میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (5) سعد بن عبداللہ نے نہایت عمدہ اور نفیس کتب بھی لکھیں جن میں سے تین کتابوں کے نام کچھ یوں ہیں: 1۔ "کتاب الرحمة" جو درحقیقت کئی کتابوں کا مجموعہ ہے؛ جیسے کتاب الطہارہ، کتاب الصلوة، کتاب الزکوة، کتاب الصوم اور کتاب الحج۔2۔ کتاب الضیاء (فی الامامة)۔ 3۔ کتاب "مقالات الامامیة۔ (6)سعد بن عبداللہ نے تیسری صدی ہجری کے نصف دوئم کے کئی اکابرین علماء کے حضور زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان سے فیض اٹھایا۔ انھوں نے متعدد شیعہ اور سنی علماء سے نقل حدیث کے اجازت نامے حاصل کئے۔ ان کے سنی اساتذہ میں حسن بن عرفه، محمد بن عبدالملک دقیقی، ابوحاتم رازی اور عباس برفقی شامل ہیں اور شیعہ فقہاء اور محدثین میں سے ان کے اساتذہ میں احمد بن حسین بن سعید اهوازی، احمد بن محمد بن عیسی، احمد بن اسحاق قمی، سهل بن یسع، عبدالله بن جمعفر حمیری اور محمد بن اسماعیل بن بزیع شامل ہیں۔ (7) سعد کے شاگردوں میں محمد بن قولویہ قمی، علی بن بابویہ قمی (شیخ صدوق کے والد ماجد شیخ ابوالحسن علی بن حسین بن موسی بن بابویه قمی)، محمد بن موسی بن المتوکل وغیرہ شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ عالم تشیع کے آسمان پر چمکتے ستارے ہیں۔ (8) اس عظیم الشان محدث کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے؛ بعض نے لکھا ہے کہ وہ سنہ 299 ہجری میں وفات پاچکے ہیں اور بعض دوسروں کی رائے ہے کہ ان کا انتقال سنہ 301 میں ہوا ہے۔ ابن قولویہ کے نامی گرامی شاگرد ابن قولیوہ کے گرانقدر شاگردوں میں سے بھی ہر ایک نے اہل بیت(ع) کی حدیثیں مشتاقان مکتب تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جن میں دو افراد کے مختصر حالات زندگی قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں: 1۔ محمد بن عمرو بن عبدالعزیز کشی: محمد بن عمرو بن عبدالعزیز چوتھی صدی کے کے نصف اول کے نامی گرامی علماء میں سے ہیں جو ماوراء النہر (وسطی ایشیا) کے شہر "کشہ" میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے بیشتر اساتذہ کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ رجال کے نامور عالم ابوالعباس نجاشی نے انہیں قابل اعتماد قرار دیا ہے اور لکھا ہے: وہ عیاشی (9) کے مصاحب اور ہم نشین تھے اور ان سے فیض کامل حاصل کرتے رہیں ہیں اور درحقیقت کشی نجاشی کے مکتب سے اٹھے۔ (10) شیخ ابوعمرو کشی نے اپنی کتاب رجال (رجال کشی) میں اپنے متعدد اساتذہ کا تعارف کرایا ہے اور ان سے روایات بھی نقل ہیں جن میں محمد بن مسعود عیاشی سمرقندی (صاحب تفسیر عیاشی)، محمد بن قولویہ قمی، جعفر بن محمد بن قولویہ، عثمان بن حماد کشی، سعد بن صباح کشی، احمد بن قرشی وغیرہ شامل ہیں جو تیسری صدی ہجری کے اواخر اور چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے اکابرین اور فقہاء میں شمار ہوتے ہیں۔ (11)اس نامور عالم رجال کے نمایاں شاگردوں میں ہارون بن موسی تلعکبری اور ابو احمد حیدر بن محمد بن نعیم سمرقندی، شامل ہیں۔ 2۔ جعفر بن محمد قولویہ: محمد بن قولویہ قمی کے دوسرے نامی گرامی شاگرد ان کے اپنے بیٹے جعفر بن محمد بن قولویہ تھے جو سنہ 224 ہجری میں شہر سر من رأی (سامرا) میں پیدا ہوئے۔ (12) اور علمائے رجال میں اپنے والد سے سبقت لے گئے اور ان کی شہرت والد سے بھی بڑھ کر ہے۔ وہ بھی ابن قولویہ ہی کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے فقہاء اور محدثین سلف کے مفاخر میں شمار ہوتے ہیں اور محمد بن محمد بن نعمان تلعکبری بغدادی، یعنی "شیخ مفید(رح)" کے استاد ہیں۔ انھوں نے بےشمار کتابیں لکھیں جن سے شیعیان آل رسول(ص) آج تک مستفیض ہورہے ہیں۔ جعفر بن محمد اپنے فاضل و عالم والد کی آغوش میں پروان چڑھے تھے اور ابن شہر آشوب ان کے بارے میں لکھتے ہیں: جعفر جن محمد بن قولویہ ابوالقاسم نے محمد بن یعقوب کلینی (صاحب کتاب شریف الکافی) اور عبد عقدہ سے حدیث نقل کی ہے اور ذیل کی کتب ان کی گرانقدر کاوشوں میں شمار ہوتی ہیں: مداواة الحسد الحیاة الابد، الجمعة والجماعة، الفطرة، کتاب الصرف وغیرہ۔ (13)جعفر بن محمد بن قولویہ قمی کی ایک ذیقیمت اور شریف کتاب "کامل الزیارات" ہے۔ مرحوم علامہ عبدالحسین امینی(رح) (صاحب کتاب الغدیر) اپنی کتاب کے دیباچے میں کامل الزیارات کےبارے میں لکھتے ہیں: کامل الزیارات معروف اور قدیم کتب میں سے ہے اور شیخ طوسی نے "کتاب التہذیب" ـ جو کتب اربعہ میں سے ایک ہے ـ میں نیز دوسرے محدثین نے اس کتاب سے احادیث نقل کی ہیں۔ شیخ حر عاملی نے اس کتاب کو اپنی گران قدر کتاب "وسائل الشیعہ" کے مصادر و مآخذ میں قرار دیا ہے اور اس کو قابل اعتماد کتاب کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔ (14) کامل الزیارات 108 ابواب پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے پہلا باب رسول اللہ(ص)، امیرالمؤمنین(ع) اور حسنین کریمین(ع) کی زیارت کے ثواب کے لئے مختص کیا ہے اور اس کا آخری باب "نوادر الزیارات" پر مشتمل ہے۔ یہ گرانقدر کتاب واحد کاوش ہے جو جعفر بن محمد سے یاد گار کے طور پر ہم تک پہنچی ہے اور ان کی شہرت کا سبب بنی ہے؛ اور وہ یوں کہ کامل الزیارات کا نام سامنے آتے ہیں "ابن قولویہ" (جعفر بن محمد قولویہ) کا نام ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا سبب وہ احادیث ہیں معتبر سند کے ساتھ اس کتاب میں نقل ہوئی ہیں اور اہلیان قلم اس سے قابل اعتماد ماخذ کے عنوان سے استفادہ کرتے ہیں۔ جعفر بن محمد قولویہ کے اساتذہ میں ان کے والد ماجد محمد بن قولویہ، محمد بن یعقوب کلینی رازی، علی بن بابویہ قمی اور ان کے اپنے بھائی علی بن محمد قولویہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ (15) شاگردشیخ جعفر بن محمد نے ابو عبداللہ محمد بن محمد نعمان (شیخ مفید)، حسین بن عبیدالله غضائری اور احمد بن عبدل جیسے اکابرین کی تربیت کرکے زرین صفحات اپنی زندگی کی کتاب میں رقم کئے جو بعد میں اسلامی کے مفاخر میں شمار ہوئے۔ (16) وفات بالآخر سنت الہیہ کے عین مطابق اس عظیم محدث (جعفر بن محمد بن قولویہ قمی) کا چراغ زندگی بھی سنہ 368 یا 369 ہجری کو گل ہوگیا اور کاظمین کے بقعہ متبرکہ میں حضرت امام موسی بن جعفر الکاظم(ع) کے قدموں کی جانب سپرد خاک کئے گئے۔ موجودہ زمانے میں ان کی قبر ان کے شاگرد شیخ مفید کی قبر کے برابر میں واقع ہوئی ہے۔ (17) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دعوت حق کو لبیکشیخ محمد بن قولویہ قم احادیث اہل بیت(ع) کی تلاش میں مسلسل سفر کرنے کے بعد قم المقدسہ میں ہی آبسے تھے اور اسی شہر میں سنہ 299 یا 301 کو ان کا انتقال ہوا۔ نتیجہ:۔ اس وقت اس عالمی جلیل القدر کی قبر شریف شہر قم کے خیابان آیة الله مرعشی نجفی(ره) (خیابان ارم) پر مدرسہ آیت اللہ العظمی سید محمد رضا گلپایگانی(رح) اور مزار علی بن بابویہ قمی(ع) کے سامنے واقع ہوا ہے جو نہایت سادگی کے ساتھ، علماء اور دانشوروں اور عام زائرین کی زیارت گاہ ہے۔ ان کے مقبرے کی سادگی معنوی لحاظ سے جاذب قلب و نظر اور سکون بخش ہے۔ ان کی قبر کے اوپر کتبے پر یہ عبارت کندہ ہے: هو الحي الذي لايموت قدرا تحل عن دار الغفلة و الغرور الي عالم البهحة و السرور و العطريف المعتمد و منبع العلم و الحکم و مجمع الفضل و الکرم الامام العالم و الف