وسائل الشیعة کے مصنف محدث شیخ حُر عاملی
وسائل الشیعة کے مصنف محدث شیخ حُر عاملی
0 Vote
136 View
مذہب امامیہ اثنا عشریہ کی کتب اربعہ کے بعدحدیث کے موضوع پر اپنی ترتیب اور تہذیب کے حوالے سے ایک منفرد کتاب ''وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة'' ہے کہ جس کے مئولف گیارہویں صدی ہجری کے معروف محدث شیخ حُر عاملی ہیں کہ جن کی یہ کتاب اپنے زمانہ تالیف سے لیکرآج تک تمام شیعہ فقہاء اور مجتہدین عظام کے نزدیک مورد اعتماد سمجھی جاتی ہے اور تمام فقہاء اجتہاد میں اس کتاب سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس کتاب کے تفصیلی تعارف سے پہلے مئولف کتاب کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ شیخ حُر عاملی کے حالات زندگی شیخ حر عاملی شب جمعہ ،٨ رجب المرجب ١٠٣٣ ھ(١٦٢٤ ئ) کو لبنان کے علاقے جبل عامل کے ایک گائوں مشغرہ میں پیدا ہوئے ہیں ۔جبل عامل کا علاقہ صحابی رسول ۖ حضرت ابو ذر غفاری کے ہاتھوں شیعہ ہوا تھا اور انہی بزرگ صحابی کی وجہ سے اہل بیت اطہار کے عقیدت مند میں شامل ہو ا ۔شیخ حر عاملی نے بھی ایک مذہبی اور اہل بیت رسول ۖ سے عقیدت رکھنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی اور اُن کے والد نے اُن کا نام ''محمد '' رکھا ۔١ نسب : شیخ حر عاملی حر بن یزید ریاحی کی نسل سے ہیں ۔جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حر بن یذید ریاحی کربلا میں یزیدی فوج کا سپا ہ سالار تھا کہ جو توفیق الہٰی سے روز عاشور امام حسین علیہ السلام کے ساتھ آملا تھا اور حضرت امام عالی مقام کے رکاب میں درجہ شہادت پر فائز ہوا تھا ۔امام حسین علیہ السلام نے اس کے بارے میں فرمایا تھا :''تیر بہت اچھا نام رکھا گیا ہے تو دنیا اور آخرت میں حُر اور آزاد ہے''۔شیخ حر عاملی ایک بامعرفت گھرانے میں بڑے ہوئے ہیں ۔آل حر کا خاندان اس علاقے کا ایک علمی اور فقہی خاندان تھا جس سے بہت سے علمائے دین اور فقہائے عظام نکلے ہیں ۔شیخ حر عمالی کے والد شیخ حسن بن علی بھی ایک فاضل ،عالم ادیب اور ثقہ وحافظ شخصیت تھی ۔٢ شیخ حُر عاملی کے اساتذہ : حر عاملی نے تقریباً چالیس سال اپنے وطن میں گذارے ہیں اور اس دوران پنے والد گرامی ،اپنے چچا شیخ محمد حر ،اپنے نانا شیخ عبد السلام بن محمد اور اپنے والد کے ماموں شیخ علی بن محمود سے کسب فیض کیا ۔اسی طرح اپنے چچا شیخ حسین ظہیر ،شیخ زین الدین بن محمد بن حسن بن زین الدین شہید ثانی کے سامنے بھی زانوئے تلمذ طے کئے ۔٣ شیخ حر عاملی کے سفر : وہ دو بار حج کے لئے اور کربلا ونجف کی زیارات کے لئے گئے تھے اور پھر خراسان کے شہر مشہد مقدس کا سفر کیا جہاں اُن کا بہت زیادہ احترام کیا گیا اور بہت سے علماء ودانشوروں نے اُن کا استقبال کیا اور اُنہیں قاضی القضاة مشہد کا عہدہ پیش کیا گیا ۔اسی طرح اُنہوں نے اصفہان کا سفر بھی کیا اورحدیث کی عظیم الشان کتاب'' بحار الانوار ''کے مئولف علامہ محمد باقر مجلسی سے ملاقات کی ۔وہاں بھی اُن کا بہت احترام کیا گیا اور شاہ سلیمان صفوی نے انہیں خصوصی اہمیت دی ۔حر عاملی نے علامہ مجلسی سے اور مجلسی نے اُن سے روایت نقل کی ہے اور علامہ مجلسی نے اُنکو جو اجازہ روایت دیا ہے وہ ابھی بھی موجود ہے ۔حر عاملی علم حدیث میں مہارت کے ساتھ ساتھ ذوق شاعری سے بھی بہرہ مند تھے ۔اُن کے اشعار کا دیوان تقریباً بیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے ۔جس میں مدح اہل بیت کی گئی ہے ۔٤ شیخ حُر عاملی کے شاگرد بہت سے علما نے شیخ حر عاملی کے درس میں شرکت کی اور اُن سے حدیث ودوسرے علوم میں کسب فیض کیا جن میں سے چند علما ء کے نام یہ ہیں : ١۔شیخ مصطفی بن عبد الواحد بن سیار حوبز ٢۔شیخ محد رضا ٣۔سید محمد بن محمد حسینی اعرجی نائینی ٤۔سید محمدبن محمد بدیع رضوی مشہدی ٥۔محمد فاضل بن محمد مہدی مشہدی ٦۔سید محمد بن علی بن محی الدین موسوی عاملی ٧۔محمد صالح بن محمد باقر قزوینی المعورف روغنی ٨۔محمد تقی بن عبد الوہاب استر آبادی مشہدی ٩۔محمد تقی دھخوار قانی قزوینی ١٠ ۔سید محمد بن احمد حسینی گیلانی وفات حر عاملی نے ١١ یا ٢١ رمضان المبارک ١١٠٤ھ (١٦٣٩ئ)کو اس دنیا سے عالم آخرت کی طرف سفر کیا ۔اُن کو خراسان کے علم پرور شہر مشہد مقدس میں امام رضا ـ کی بار گاہ کے جوار میں دفن کیا گیا جہان اُن کی قبرپر آج بھی اہل بیت اطہار عقیدت مندحاضر ہوتے ہیں ۔٥ تالیفات شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعة کے علاوہ کہ جس کا تفصیلی تعارف انہی صفحات میں کرایا جائے گا کچھ اور کتابیں بھی لکھی ہیں جن کی تفصیل ہے : ١۔ھدایة الامة الیٰ احکام الائمہ ؛٨ جلد ،تحقیق :مجمع البحوث الاسلامیہ (مطبوعہ آستان قدس رضوی مشہد ١٤١٤ھ) اس کتاب میں شیخ حر عاملی نے فقہی روایات کا ایک دورہ وسائل الشیعہ ہی کے طریقے پر تالیف کیا ہے لیکن احادیث کی سند کو اختصار کے پیش نظر حذف کر دیا ہے درحقیقت یہ کتاب وسائل الشیعہ کی تلخیص ہی ہے کہ جو خود مئو لف نے کی ہے ۔ ٢۔جواھر السنییہ فی الاحادیث القدسیة (مطبوعہ مکتبہ المفید ،قم ) یہ کتاب ٢٣ ابواب پر مشتمل ہے جس میں روایات اور احادیث قدسی کو جمع کیا ہے اور یہ کتاب چند بار شائع ہو چکی ہے اس کا اُردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے ۔ ٣۔اثبات الھداة بالنصوص والمعجزات: ٣ جلد ۔یہ کتاب ابو طالب تجلیل تبریزی کے تعلیقہ کے ساتھ مطبعة العلمیہ قم سے چھپی ہے اور اس میں شیعہ وسنی منابع سے ائمہ معصومین سے متعلق روایات اکٹھی کی گئی ہیں ۔اس کے ٣٥ باب ،٩٦٢ فصلیں اور ٧١٣٨احادیث ہیں ۔یہ کتاب ٧ جلدوں میں احمد جنتی اور محمد نصر اللھی کے قلم سے فارسی میں بھی ترجمہ ہو چکی ہے ۔ ٤۔الفصول المھمة فی اصول الائمة(مطبوعہ مشہدی اسد آقا ،١٣٠٤ ھ) یہ کتاب اصول دین اور اصول فقہ سے متعلق روایات پر مشتمل ہے ۔ ٥۔الصحیفة الثانیة من ادعیة علی بن الحسین ـ:یہ کتاب اُن دعائوں پر مشتمل ہے کہ جو صحیفہ کاملہ میں نہیں آئی ہیں ۔ ٦۔من لایحضرہ الامام :یہ وسائل الشیعہ کی فہرست ہے ٧۔الفوائد الطوسیة: ١جلد اور سو فائدوں پر مشتمل ہے ۔ ٨۔امل الآمل: کہ جس میں جبل عامل کے متاخر علما کے نام اور حالات ہیں ۔ ٩۔الایقاظ من الھجعة بالبرہان علی الرجعة ۔رجعت کے بارے میں ایک چھوٹی سی کتاب جو ٦٠٠ احادیث پر مشتمل ہے اور ٦٤ آیات قرآن سے استفادہ کی گیا ہے ۔ ١٠۔رسالة فی الرد علی الصوفیة کہ جو ہزار حدیث پر مشتمل ہے سوفیہ کی رد میں ١١۔تواتر القرآن ١٢۔بدایة الھدایة : واجبات ومحرمات منصوصہ پر مشتمل ہے ١٣۔العربیة العلویة واللغة المرویة ١٤۔دیوان شعر کہ جو بیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے ١٥۔دیوان الامام زین العابدین ـ ١٦۔تحریر وسائل الشیعة وتحبیر مسائل الشریعة: یہ درحقیقت وسائل الشیعة کی شرح ہے ١٧۔الاخلاق ١٨۔مقتل الامام حسین ـ ١٩۔وسائل الشیعة جس کا تفصیلی تعارف دیا جارہا ہے ۔٦ وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة شیعہ امامیہ کی حدیث کی ایک اہم کتاب ''وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة '' ہے کہ جو شیخ حر عاملی کی سب سے مشہورتالیف ہے۔ موضوع: اس کتاب میںتمام فقہی ابواب پرمشتمل روایات کو جمع کیا گیا ہے اور مئولف نے کتب اربعہ کے علاوہ دوسری ١٨٠کتب حدیث سے بھی استفادہ کیا ہے اور اس کی حدیثوں کی تعداد ٣٥٨٦٨ ہے ۔ قدر منزلت: وسائل الشیعہ،شیعوں کی بہترین کتب حدیث میں شمار ہوتی ہے ۔جس میں پیغمبر اسلا م ۖ اور ائمہ طاہرین کی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔یہ کتاب تقریباً ٣٦ہزار روایات پر مشتمل ہے جن میں محرمات ،واجبات اور مستحبات ومکروہات شرعی اور آداب وسنن پر مشتمل روایات اکٹھی کی گئی ہیں ۔ مدت تالیف : وسائل الشیعہ ،الکافی کی طرح بیس سال کے عرصے میں لکھی گئی ہے ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ حر عاملی نے اس کتاب کو لکھنے میں بہت زیادہ محنت ومشقت کی ہے اور اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس پر صرف کیا ہے ۔تاکہ اہل بیت عصمت وطہارت کے علمی ورثہ کی حفاظت کی جاسکے ۔ طریقہ تالیف: شیخ حر عاملی نے اس کتاب کی روایات کو شرعی مسائل کی ترتیب کے مطابق جمع کیا ہے ۔چونکہ فقہی کتابوں میں کتاب طہارت سے لیکر کر کتاب دیا ت تک ایک خاص ترتیب کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ،لہذ اشیخ حر عاملی نے بھی اسی فقہی ترتیب کا خیال رکھا ہے تاکہ اس کتاب سے استفادہ کر نے والے محققین اور مجتہدین کو اس کی روایات سے مسائل شرعی استنباط کر نے میں آسانی ہو اور اُن کا کام پراگندہ صورت میں انجام نہ پائے ۔اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ کتا ب ایک خاص علمی ہدف کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہے ۔٧ وجہ تالیف : اس کتاب کو لکھنے کی وجہ کیا تھی اس بارے میں خود شیخ حرعاملی لکھتے ہیں :''قد کنت کثیراً ما اُطالب فکری وقلمی وھممی الی تالیف کتاب کامل ببلوغ الامل کاف فی العلم والعمل یشتمل علی احادیث المسائل الشرعیة ونصوص الاحکام الفرعیة المرویة فی الکتب المعتمدة الصحیحة التی نص علی صحتھا علماء نا نصوصاً صریحة یکون مفزعاً لی فی مسائل الشریعة وممرجعاً یھتدی بہ من شاء من الشیعةواکون شریکاً فی ثواب کل من اقتبس من انوارہ۔۔۔ ''٨ ''ایک عرصے سے میں اپنی فکر اور قلم سے تقاضا مند تھا اور اس بات کا عزم کئے ہوئے تھا کہ ایک ایسی کتاب لکھوں جو میری آرزو کو بھی پورا کرتی ہو اور علم وعمل میں بھی سرآمد ہو اور شرعی احکام ومسائل پر مبنی ایسی احادیث پر مشتمل ہو کہ جو ہماری معتبر وصحیح کتب حدیث میں ہوں اور بڑے بڑے علماء نے اُن کی صحت کی تصریح کی ہو تاکہ وہ خود میرے لئے شرعی مسائل میں ایک پناہ گاہ بن جائے اور شیعوں کی ہدایت کے لئے ایک مرجع قرار پائے ۔اور جو بھی اس کے نور سے بہرہ مندہو اور اس کے مناروں کے پرچم سے ہدایت حاصل کرے ؛ اس کے ثواب میں ،میں بھی شریک ہو جائوں ، یہ کس قدر عظیم ثواب کا گنجینہ ہے کہ جو قیامت تک جاری رہے گا ۔انشاء اللہ ''۔ وسائل ا لشیعہ کی سند : شیخ حر عاملی نے اس کتاب کے خاتمہ پر جن کتابوں سے اُنہوں نے استفادہ کیا ہے ،اُن تک اپنی سند کو ذکر کیا ہے تاکہ یہ کتاب مرسلہ ہو نے سے بچ جائے اور اس کی تمام روایات مستند قرار پائیں ۔اور یہ بات بھی اس کتاب کے معتبر ہو نے کی ایک دلیل ہے ۔ فہرست کتاب : شیخ حر عاملی نے اس کتاب کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے جس کا نام ''من لایحضرہ الامام '' رکھا ہے ۔اس فہرست میں کتاب کے تمام ابواب کے عناوین ہیں ۔چونکہ اس کتاب میں فقہ کے تمام ابواب کو جدا جدا ذکر کیا گیا ہے ۔لہذا یہ فہرست فقہی موضوعات ومباحث کا ایک چھوٹا سا دائرة المعارف اور وسائل الشیعہ کا ایک خلاصہ بن گیا ہے ۔او ر بقول مئولف یہ فہرست خود ایک فقہی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے اور تمام منصوص فتاویٰ پر مشتمل ہے کہ جن کے بارے میں کوئی نہ کوئی روایت نقل ہو ئی ہے ۔ خلاصہ کتاب : شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ کا ایک خلاصہ بھی لکھا ہے جس کا نام ''ھدایة الامة الیٰ احکام الائمہ '' ہے ۔اور پھر اس کتاب کو بھی ''بدایة الھدایة '' کے نام سے خلاصہ کیاہے ۔اس کتاب میں ١٥٣٥ واجبات اسلام اور ١٤٤٨١ محرمات اسلا م شمار کئے گئے ہیں۔٩ وسائل الشیعہ کی خصوصیات: اس کتاب کے بارے میں شیخ حر عاملی لکھتے ہیں :میں نے اس کتاب کی روایات کو اُن مشہور اور معتبر کتابوں سے روایت کیا ہے کہ جن کی طرف شیعہ رجوع اور عمل کرتے ہیں۔ہر روایت کے آغاز میں اس کی سند اور اس شخص کا نام بھی لایا ہوں کہ جس کی کتاب سے یہ روایت نقل کی ہے ۔اور اس کتاب کے ساتھ اپنی سند کتاب کے آخر میں ذکر کردی ہے ۔ ٢۔ اسکی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ مئولف نے ایک ہی مسئلہ سے متعلق روایات کو ایک ساتھ ذکر کر دیا ہے تاکہ اس کی طرف رجوع کر نے والے کو ایک ہی موضوع پر سب روایات دلالت وسند اور متن کے ساتھ مل جائیں۔اس سہولت کی وجہ سے ہم ایک ہی باب کی روایات کے درمیان آسانی کے ساتھ موازنہ کر سکتے ہیں اوراُن کے متن اور سند ودلالت کا تحلیل وتجزیہ بھی کر سکتے ہیں ۔ ٣۔ یہ کتاب ایک ہی باب کی مختلف منابع سے نقل ہو نے والی احادیث کے درمیان جمع کر نے میں بھی سہولت فراہم کرتی ہے ۔اس سے محققین کا قیمتی وقت بھی بچتا ہے اور علوم کی پیش رفت میں بھی اضافہ ہو تا ہے۔ ٤۔ شیخ حر عاملی نے روایات کو مختلف نسخوں سے نقل کر نے میںبہت زیادہ سعی اور دقت کی ہے اور اختلاف نسخہ کی صورت میں حاشیہ میں اس کی وضاحت کر دی ہے ۔ ٥۔ دوسری کتابوں کی نسبت اس کتاب کا ایک خاص امتیاز یہ ہے کہ وسائل الشیعہ کتب اربعہ اور دوسری کتب احادیث کے درمیان جامع کی حیثیت رکھتی ہے ۔مثلاً فیض کاشانی کی کتاب ''وافی '' بھی ایک جامع کتاب ہے لیکن اس کی روایات فقط کتب اربعہ تک محدود ہیں ۔ ٦۔ شیخ حر عاملی نے اس کتاب پر دو بار تجدید نظر کی ہے اور اسے اول سے لیکر آخر تک دوبارہ لکھا ہے اور شاید یہ کتاب تین بار لکھی گئی ہے ۔جس کی وجہ سے اس کی روایات بہت زیادہ دقیق اور معتبر بن گئی ہیں ۔١٠ وسائل الشیعہ کے بارے میں علماء کی آرائ سید حسن صدر اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: کتاب وسائل الشیعة ،شرعی احکام کے بارے میں لکھی گئی ہے یہ کتاب اس انداز میں لکھی گئی ہے کہ اس سے آسانی کے ساتھ استفادہ کیا جاسکتا ہے اور اس کے مطالب تک دسترس حاصل کی جا سکتی ہے ۔اس کتاب میں فقہی استدلال اور اقوال فقہاء کو بہترین انداز میں اور معتبر ترین ماخذ سے جمع کیا گیا ہے ۔جب بھی ایک ماہر فقیہ اور مجتہد اس کو دیکھتا ہے تو وہ اس میںجو کچھ چاہتا ہے اُسے پروئے ہوئے موتیوں کی طرح پالیتا ہے ۔ایسا کوئی مشکل مطلب نہیں کہ جس کو اس میں بیان نہ کیا گیا ہو ۔ علامہ امینی اپنی گرانقدر کتاب''الغدیر '' میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں : کسی بھی رجال اور سوانح سے متعلق کتاب میں شیخ حر عاملی کا نام نہیں لیا گیا لیکن اُن کی کتاب وسائل الشیعة کی مدح وستائش کے بارے میں بہت زیادہ جملات ملتے ہیں ۔ وسائل الشیعہ سے متعلق کتابیں : یہاں پر و سائل الشیعہ سے متعلق نشر شدہ آثار کی طرف چندحصوں میں اشارہ کیاجاتا ہے: الف :تعلیقات اور شرحیں: وسائل الشیعہ جب سے تالیف ہوئی ہیاس وقت سے علمائے شیعہ اور فقہائے امامیہ کی توجہ کا مرکز بنی ہو ئی ہے ۔اس لئے اس کتاب کی بہت سی شرحیں اور تعلقات لکھی گئی ہیں۔اس کی سب سے پہلی شرح خود اس کتاب کی مئولف نے لکھی ہے ؛وسائل الشیعہ سے متعلق ان کتابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے : ١۔ تحریر وسائل الشیعة وتحبیر مسائل الشریعة تالیف :شیخ حُر عاملی ٢۔تعلیقہ بر وسائل الشیعة تالیف :شیخ حُر عاملی ٣۔شرح وسائل الشیعة تالیف :شیخ محمدبن شیخ علی بن شیخ عبد النبی بن محمد بن سیلمان بن مقابی جو شیخ یوسف بحرانی کے ہم عصر تھے ۔ ٤۔شرح وسائل الشیعة ، تالیف :حاج مولی محمد رضی قزوینی ،جو فتنہ افاغنہ میں شہید ہو ئے ۔ ٥۔مجمع الاحکام ، تالیف :شیخ محمد بن سلیمان مقابی بحرانی شیخ عبد اللہ سماھیجی کے ہم عصر تھے ٦۔شرح وسائل الشیعة تالیف :سید ابو محمد حسن ببن علامہ ھادی آل صدر الدین موسی ۔ ٧۔الاشارات والدلائل الیٰ ماتقدم او تاخر فی الوسائل تالیف :شیخ عبد الصاحب جو صاحب جواہر کے پوتے تھے ٨۔شرح وسائل الشیعة تالیف :آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی ا س کتاب میں اُن روایات کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے جو شیخ حر عاملی نے ذکر نہیں کیں ۔ ٩۔مستدرک الوسائل تالیف :علامہ محدث شیخ حسین نوری ۔ اس کتاب میں محدث نوری نے بہت سی ایسی روایات ذکر کی ہیں جن کی طرف شیخ حر عاملی نے اشارہ تک نہیں کیا۔یہ کتاب وسائل الشیعہ ہی کی ترتیب پر لکھی گئی ہے ۔لیکن یہ کتاب وسائل الشیعہ کے دو گنابڑی ہوگئی ہے ۔اس کتاب کی اہمیت کے بارے میں آخوند کاظم خراسانی صاحب کفایة الاصول لکھتے ہیں کہ وسائل الشیعة کی طرف رجوع کر نے کے بعد مستدرک الوسائل کی طرف رجوع کر نے سے مجتہد مکمل تحقیق تک پہنچ جاتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس موضوع پر دوسری کو ئی روایت باقی نہیں بچی ورنہ ان دونوں کتابوں میں ضرور آجاتی ۔ ب: معاجم و راہنما ١٠ ۔المعجم المفھرس لالفاظ احادیث وسائل الشیعہ ١٠ جلد تالیف سید حسن طبیبی (منشورات الاعلمی ،تہران) ١١۔المعجم المفھرس لالفاظ احادیث وسائل الشیعہ ٧ جلد زیر نظر :علی رضا برازش (نشر الھادی ،قم ،١٣٧٤ش) ١٢۔مفتاح الوسائل ،سید جواد مصطفوی ( طبع تہران ) ١٣٩٠ھ ج :تلخیص ١٥۔تلخیص وسائل الشیعہ تالیف :میرزا مھدی صادقی تبریزی ، ابھی تک ٦جلد چھپی ہیں ۔ د: تراجم ،فارسی ترجمہ ١٦۔ ترجمہ جھاد النفس وسائل الشیعہ مترجم :علی صحت (دفتر نشر فرھنگ اہل بیت ،قم ) ُاُردو ترجمہ : ١۔ ترجمہ وسائل الشیعہ مترجم مولانا محمد حسین نجفی (ابھی تک ١٣ جلدیں چھپ چکی ہیں ) وسائل الشیعہ کے خطی نسخے : ماہرین نے وسائل الشیعہ کے جن خطی نسخوں کی نشاندہی کی ہے اُن کی تفصیل یہ ہے : ١۔مشہد مقدس میں آستان قدس رضوی کی لائبریری میں موجود خطی نسخہ ۔یہ نسخہ خود مئولف کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اور اسکی تاریخ نگارش :ربیع الاول ١٠٧٢ھجری ہے ۔یہ اس کتاب کا پہلا خطی نسخہ ہے ۔ ٢۔قم مقدس میں حضرت آیت اللہ نجفی مرعشی کی لائبریری میں موجود خطی نسخہ ۔یہ نسخہ بھی مئولف کے اپنے خط سے ہے اور اس کی تاریخ نگارش ١٠٨٢ ھ ہے اور یہ وسائل الشیعہ کا دوسرا نسخہ ہے ۔ ٣۔آستان قدس رضوی کی لائبریری میں موجود ایک دوسر انسخہ کہ جس کی تاریخ نگارش ١١١٤ ھ ہے ۔یہ تیسرے نسخے سے نقل کیا گیا ہے اور اس کی تصحیح اور ملحقات بھی خود مئولف کے ہاتھ سے لکھے ہو ئے ہیں ۔ وسائل الشیعہ کا آخری ایڈیشن : وسائل الشیعہ کئی بار چھپ چکی ہے اور اس کا آخری ایڈیشن مئو سسہ آل البیت کی تحقیق کے ساتھ ٣٠ جلدوں میں چھپا ہے کہ جس پر بہت سے حواشی اور تعلیقات بھی موجود ہیں ۔اسی سے اسکا سوفٹ وئیر بھی تیار کیا گیا ہے ۔١١ ……………………… حوالہ جات ١۔نجف زادہ ،محمد باقر،دانش حدیث ،ص ٩١،سوفٹ ویئر ،نور ،جامع الاحادیث ،نسخہ ٥/٢ ٢۔ایضاً ٣۔عاملی ،محمد بن حسن حر،وسائل الشیعہ ،مقدمہ ج١،ص ٣،٤ ٤۔نجف زادہ ،محمد باقر،دانش حدیث ،ص ٩١ ٥۔عاملی ،محمد بن حسن حر،وسائل الشیعہ ،مقدمہ ج١،ص ٣،٤ ٦۔ شیخ آقا بزرگ تہرانی، الذریعة الی تصانیف الشیعة ، ٧۔ سوفٹ ویئر ،نور ،جامع الاحادیث ،نسخہ ٥/٢ ٨۔عاملی ،محمد بن حسن حر،وسائل الشیعہ ،مقدمہ ج١،ص ٣،٤ ٩۔مہریزی ،مہدی ۔آشنائی با متون حدیث ونہج البلاغہ ۔ص١١٦ ١٠۔قربانی ،زین العابدین ،علم حدیث ،س٣٢٩۔٣٣١ ١١۔سوفٹ ویئر ،نور ،جامع الاحادیث ،نسخہ ٥/٢،مہریزی ،مہدی ۔آشنائی با متون حدیث ونہج البلاغہ ۔ص١١٦ منابع ومآخذ اس مقالے کی تیاری میں درج ذیل منابع اور مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے : ١۔آشنائی با تاریخ ومنابع حدیثی ،دکتر علی نصیری ، مرکز جھانی علوم اسلامی ،قم،١٣٨٥ ش ٢۔آشنایی بامتون حدیث ونہج البلاغہ، شیخ مہدی مھریری۔،مرکز جھانی علوم اسلامی ،قم ٣۔دانش حدیث ،محمد باقر نجف زادہ بار فروش ،مئوسسہ انتشارات جہاد دانشگاہی (ماجد) ،تہران ،١٣٧٣ ش ٤۔سوفٹ ویئر ،نور ،جامع الاحادیث ،نسخہ ٥/٢،مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی ،قم ٥۔علم الحدیث ودرایة الحدیث ،کاظم مدیر شانہ چی ،دفتر انتشارات اسلامی ،جامعہ مدرسین ،قم ،١٣٧٢ ش ٦۔الذریعة الی تصانیف الشیعة ،شیخ آقا بزرگ تہرانی ،المکتبة الاسلامیہ ،تہران منبع: www.ahl-ul-bayt.org