مرحوم آیت اللہ اراکیؒ اور انکی کتاب‘‘اصول الفقہ’’کا تعارف

مرحوم آیت اللہ  العظمیٰ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ۱۳۱۲ ھ ۔ ق کو شھرِ‘‘اراک ’’ میں(جو اس زمانے میں ‘‘عراق’’ کے نام سے شہرت رکھتا تھا) مقیم ایک مذھبی گھرانے میں پیدا ھوئے،انھوں نے بچپن ھی سے دینی تعلیم کا آغاز کیا اور ۱۳۴۰ ھ ۔ ق  میں مرحوم آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری(حوزہ علمیہ قم کے بانی) کے ساتھ اراک سے قم کی طرف ھجرت کی اور حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھی،آپ نے تقریباً ۳۰ برس اساتید کے محضر سے استفادہ کیاجس میں ۱۵ سال کی مدت آپ نے اراک میں تحصیل علم کی اور باقی ۱۵ سال حوزہ علمیہ قم المقدس میں مرحوم حضرت آیت اللہ حائری کی حیات یعنی ۱۳۵۵ ھ۔ ق تک آپ کے شاگرد رہے ،اس طرح آپ نے ایک صدی علوم اسلامی کی تحصیل، تحقیق،تدریس کے بعد۱۴۱۵ ھ ۔ ق کو وفات پائی۔۱ مرحوم آیت اللہ اراکی بھت بڑے عارف اور تقوی کے مجسم پیکر تھے،اگر یہ کھا جائے کے ھم نے اپنی زندگی میں اُن کی مانند آداب اسلامی سے آراستہ شخصیت کو نھیں دیکھا تو غلو نھیں ،آپ اخلاق میں مرحوم آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزی کے شاگرد تھے اور اپنے استاد کی مکمل جھلک دکھائی دیتے تھے۔ حوزہ علمیہ میں آنے والے ھر ابتدائی طالب علم کو اس حدیث شریف کی تعلیم دی جاتی ہے: ‘‘عن رسول الله صلّی‏ اللہ علیہ و الہ: اول العلم معرفۃ ‏الجّبار، و آخرالعلم تفویض الامر الیہ’’ ترجمہ: علم کی ابتدا پروردگار کی شناخت و پھچان اور علم کی انتھاء توکل اوراپنے امورمادی ومعنوی(مادی و معنوی رزق)معاملات کو اس کے سپرد کر دینا ہیں۔ جی ھاں! علم کی ابتداءحضرت حق متعال کی معرفت کا عارف ھونا ھے، مرحوم آیت اللہ اراکی ‘‘عالم باللہ’’  اور ‘‘عالم بامر اللہ’’  کے مصادیق میں بھترین مصداق تھے،آپ عارف باللہ بھی تھے اور فقیہ بھی،اور اگر علم کی انتھاء توکل  ہے(اپنے امور کو حضرت حق متعال کے سپرد کرنا ھو) تو مرحوم آیت اللہ اراکی دور حاضر میں اسکے بارز ترین مصداق تھے۔ مرحوم آیت اللہ اراکی نے فقہ و اصول کادرس خارج مرحوم آیت اللہ حاج شیخ عبد الکریم حائری سے حاصل کیا اور پھرخود مجتھد مسلم اور مرجعیت کے مقام پر فائز ھوئے۔آپ نے چندین سال حوزہ علمیہ قم میں تدریس کی اور متعددمفید و  دیقیق کتابیں تألیف کیں۔ تصانیف آپ کی کتب میں سے بعض درج ذیل ہیں۔۲ ۱۔  کتاب الطهارة۲جلد (عربی،مؤلف عروۃ الوثقی کی حیات میں ھی ان کی کتاب عروۃ الوثقی پر لکھی جانے والی ۷۱۲صفحات پر مشتمل یہ کتاب شاید عروۃ الوثقی کی پھلی شرح ہو جو ۱۴۱۵ ھ۔ق میں مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی) ۲۔  کتاب البیع ۲جلد (عربی، یہ کتاب مرحوم شیخ حائری کی زندگی میں تألیف ھوئی اور ۱۴۱۵ھ۔ق مؤسسہ در راہِ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی) ۳۔ المکاسب المحرمہ (۲۶۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۳۵۵ھ ۔ ق شیخ عبد الکریم حائری کی میں تألیف ھوئی اور ۱۴۱۳ ھ قمری  میں مؤسسہ در راہِ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی) ۴۔ رسالۃ فی الخمس (عربی، یہ کتاب مرحوم شیخ عبدالکریم حائری کی زندگی میں تألیف کی گئی اور ۱۴۱۳ ھ۔ق کوضمیمہ کے ساتھ پرنٹ ھوئی) ۵۔ رسالۃ فی الارث (عربی، ۲۴۵ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۴۱۳ ھ ۔ ق مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی) ۶۔ رسالۃ فی نفقہ الزوجہ (عربی، ۵۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۴۱۳ ھ ۔ ق کو ضمیمہ کے ساتھ پرنٹ ھوئی) ۷۔  الخیارات (عربی، ۶۱۹ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۳۴۵شمسی کو تألیف ھوئی اور ۱۴۱۴ ھ ۔ ق کو کتاب البیع کے ساتھ مؤسسہ در راہ حق کی جانب سے پرنٹ ھوئی) ۸۔  کتاب النکاح (یہ کتاب شیخ عبد الکریم حائری کے دروس پر مشتمل ھے جو مرحوم آیت اللہ اراکی نے لکھی لیکن پرنٹ نھیں ھوئی) ۹۔  رسالہ ای در صلاة الجمعہ ۱۰۔  رسالۃفی الارث  (جو ۱۴۱۳ ھ ۔ ق میں مؤسسہ در راہِ حق قم کی جانب سے پرنٹ ھوا) ۱۱۔ رسالۃ فی نفقۃالزوجۃ (۵۰ صفحات پر مستمل یہ رسالہ ۱۴۱۳ ھ ۔ ق رسالہ ارث کے ساتھ ضمیمہ ھو کر پرنٹ ھوا) ۱۲۔  رسالۃفی الاجتهاد والتقلید (عربی، ۸۵ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ کتاب البیع کی ساتھ ضمیمہ ھو کر پرنٹ ھوا) ۱۳۔  تعلیقۃ علی الدرر الفوائد (عربی، یہ کتاب ۱۴۰۸ ھ۔ ق کو جامعہ مدرسیں قم کی جانت سے خود کتاب درر الفوائد سے ساتھ پرنٹ کروائی گئی) ۱۴۔ رسالہ فی دماء الثلاثہ و احکام الاموات والتیمّم (یہ رسالہ۱۳۶۶ شمی کو تألیف کیا گیا) ۱۵۔  رسالۃ فی اثبات ولایۃ الامام علی بن ابیطالب علیہ‏السلام (یہ رسالہ شیخ عبد الکریم حائری کی اصول عقائد پر مشتمل تقاریر کا مجموعہ ھے) ۱۶۔ دورہ اصول فقہ (عربی ، مرحوم شیخ حائری کی کتاب ‘‘دررالاصول’’ کی ترتیب پر لکھی جانے والی اس کتاب کی دو جلدیں ھیں جو‘‘مؤسسہ درراہ حق قم’’ کی جانب سے پرنٹ ھوئیں اوراس کتاب کی دوسری جلد کے ساتھ کچھ تعلیقات بھی ضمیمہ ھو کر پرنٹ کروائے گئے) ۱۷۔  اصول الفقہ (عربی ، کفایۃ الاصول کی ترتیب پر ۲ جلدوں میں لکھی جانے کتاب ھے) ۱۸۔ رسالہ توضیح المسائل (مرحوم آیت اللہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی توضیح المسائل میں مندرج فتاوا کے ساتھ آیت اللہ اراکی کے فتاوا کو تطبیق کر کے پرنٹ کروایا گیا) ۱۹۔ رسالہ‏ای در ولایت تکوینی (فارسی زبان میں لکھا جانے والا یہ رسالہ مرحوم آیت اللہ اراکی کے حالات زندگی پر لکھی جانے والی کتاب میں ۱۳۷۵ شمسی کو ‘‘انجمن علمی،فرھنگی و ھنری آستان مرکزی’’کی جانب سے پرنٹ ھوا ہے) کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کا تعارف اجتھاد اور علم فقہ کی اھمیت واضح اور روشن ھے،چونکہ اجتھاد کے بغیر قدیمی و (سنتی) طرز کے مطابق جدید فقھی مسائل کا جواب دینا اور لوگوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نھیں،جبکہ اجتھاد اصول فقہ میں مھارت حاصل کیے بغیرممکن نھیں ، لھذا جو کوئی بھی دین کے بارے میں اظھار نظر(فتوی) دینا چاھے تو اسے اصول فقہ میں ماہر ھونا ضروری ھے۔ بہرحال ‘‘اصول فقہ’’ ،‘‘فقہ’’ تک پہنچنے کے لیے مقدمہ ہے لہٰذا یہ علم بھی ‘‘فقہ’’ کی شرافت ،ارزش و اہمیت سے برخوردار ہو گا۔طول تاریخ میں سینکڑوں علماء نے اس موضوع پرکتابیں تدوین کی ہیں جن میں سے ایک بہترین اور جدیدترین کتاب مرحوم آیت اللہ العظمیٰ اراکی کی لکھی ہوئی کتاب‘‘اصول الفقہ’’ ہے۔ کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کی خصوصیات اس کتاب کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اور اس سے بہتر استفادہ کرنے کے لیے ہم اس کتاب کی خصوصیات کو ذکر کرتے ہیں: ۱۔علم اصول فقہ کا تعلق مقدماتی علوم سے ہے لہٰذا اسے استقلالی طور پر نہیں پڑھناچاہیے یعنی ایسا نہ ہو کہ محقق طالب علم  اپنی تمام عمر اس مقدمے کو حاصل کرنے میں گذار دے اور اپنے اصلی ہدف ‘‘فقہ’’سے غافل رہے۔ حقیقت پر مبنی اس قسم کا طرز تفکرمرحوم آیت اللہ اراکی کی تمام تألیفات میں قابل مشاہدہ ہے۔لہٰذا آپ نے اپنی کتاب میں ایسی اضافی ابحاث کو ‘ جن کا علمی نتیجہ نہ ہو’ ذکر نہیں کیا۔ ۲۔ مرحوم آیت اللہ العظمیٰ اراکی نے اپنے استاد مرحوم آیت اللہ العظمیٰ حائری سے متاثر ہوتے ہوئے اس کتاب میں  یہ کوشش کی ہے کہ بے جا نقل اقوال کو ذکر کرکے طالب علموں کے قیمتی اوقات  کوتلف ہونے سے بچا یا جائے،لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں علم اصول کے ماہرین کے اختلافی نظریات دیکھنے کو نہیں ملتے بلکہ تمام موارد میں مؤلف نے فقط اپنی تحقیقات و نظریات کو بیان کیا ہے۔ ۳۔اس کتاب میں مؤلف کتاب کا فقہاء کے لیےخاص احترام دیکھنے کو ملتا ہے،جس بارے میں مفصل مقالہ لکھا جاسکتا ہےجبکہ بعض نادر مقامات پر کچھ بزرگان کا نام ان کے القابات اور ان کے لیے دعائیہ کلمات کے ساتھ ان کی تعریف کی گئی ہے.۳ ۴۔اس کتاب کی تینوں جلدیں مرحوم شیخ عبدالکریم حائری کی زندگانی میں ہی لکھی گئی ہیں لہٰذا تمام مقامات پر اُن کے لیے یہ کلمات «شیخنا الاستاد دام بقاءه» و«طال عمره الشریف»  لکھے گئے ہیں ۔ ۴ اور تمام وہ مطالب جو مرحوم اراکی نے اپنے استاد سے نقل کیے ہیں وہ تمام کے تمام انھوں نے ان کی محفل درس سے  استفادہ کرتے ہوئےنقل کیے ہیں لہٰذا استاد کےبعض اشارات جو انھوں نے استاد سے اس کتاب میں نقل کیے ہیں وہ خود استاد کی کتاب ‘‘درد الاصول’’ سے تفاوت رکھتے ہیں یا فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں پہلے استاد محترم کی نظر  یہ تھی لیکن ابھی تبدیل ہو چکی ہے اس جہت سے اس کتاب کی بہت اہمیت ہے مراحظہ فرمائیں۔ ۵ ۵۔اس کتاب میں مبتکرانہ طور پر جدید اصولی ابحاث مباحث کو بیان کیا گیا ہے بطور مثال مسئلہ«مقدمہ واجب» جیسی مباحث کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے. ۶ ۶۔ وافر فقہی مثالوں کے ساتھ بحث کی تفصیل اور علم اصول کو پریکٹیکلی طور پر پیش کرنا بھی اس کتاب کی خصوصیات میں سے ہے مثلاً فرماتے ہیں کہ اگر مباح پانی غصبی برطن میں پایا جائے تو اس صورتحال میں وظیفہ وضو کرنا ہے یا تیمم کرنا؟۔۷ ۷۔کتاب خود آیت اللہ اراکی کے قلم سے تحریر ہوئی ہے لہٰذا دقیق اور استحکام رکھتی ہے جیسے متن کتاب کا سلیس ہونا ،ادبیات عرب کے قواعد کی مراعات کرنا اور محتویات متن کا درست ہونا قابل ذکر ہیں جبکہ بعض دوسری اصولی کتب جن کو شاگروں نے تقریر کیا ہے ان میں یہ خوبیاں نہیں پائی جاتیں۔ ۸۔ کتاب کی پہلی جلد ‘‘وضع’’ کی بحث سے شروع ہوتی ہے اور علم اصول کے موضوع کوبھی بیان کرتے ہوئے دلیل انسداد کی بحث کو تمام کرتے ہوئے پہلی جلد ختم ہو جاتی ہے، مؤلف فرماتے ہیں کہ : ہم نے پہلے علم اصول کے موضوع کو بیان کردیا ہے‘‘اس جملہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف نے یہ بحث پہلے ذکر کردی ہے لیکن ناشر نے اسے حذف کردیا ہے یا اسے اسکی جگہ پر ذکر نہیں کیا۔۸ ۹۔مرحوم آیت اللہ اراکی نے اس تین جلدی کتاب میں اصول فقہ کے دو دورے بیان کیے ہیں یعنی کتاب کی دوسری جلد اسی پہلے دورے کی مباحث کا تسلسل ہے جو برائت کی بحث سے شروع ہوتی ہے اور تعادل و تراجح کی بحث کے اختتام تک ہے۔پھر اسی کے آگے دوبارہ استصحاب کی بحث کی طرف لوٹ آتے ہیں جہاں بعض عبارات تکراری ہیں۔ پھر اس کتاب کی تیسری جلد(ضمیمہ جات) علم اصول کو ابتدائی بحث‘‘تعریف،موضوع’’سے شروع ہوتی ہے اور پھر وضع کی بحث دوبارہ تکرار ہوئی ہے۔۹ ۱۰۔بہتر یہ تھا کہ ناشر محترم اس کتاب کی ترتیب کو رعایت کرتے اور ہر بحث کو اس کی جگہ پر درج کرتے مخصوصاً دوسری جلد کے آخر میں درج تعلیقات کو،او ر آیات و روایات کے ایڈریس کو نیچے حاشیے میں درج کرتے، ثالثاً  کتابی اغلاط(اگرچہ کم ہیں)اصلاح کرتے۔ نتیجہ آخر میں ہم تمام محققیق کو اس کتاب‘‘اصول الفقہ’’ کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔ منابع و مأخذ ۱۔ رضااستادی،شرح احوال حضرت آیت اللہ العظمیٰ اراکی،ناشر انجمن علمی،فرہنگی،و ہنری استان مرکزی،۱۳۷۵ش،ص۱۴۱ ۲۔ایضاً ص۱۶۵ ۳۔  اراکی محمدعلی،اصول الفقہ،۳ جلدی وزیری، قم، مؤسسہ در راه حق، ۱۳۷۵ش،ج۱، ص۱۶۸۔ ۴۔ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج ۱ ، ص ۵۹۶ و ج ۳ ، ص ۲۴۶ . ۵۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۳۷ ص۲۴۶ و ص۳۵۸ ۶۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۱ ص۱۳۰۔ ۷۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج۱، ص۱۴۳۔ ۸۔ ایضاً ملاحظہ فرمائیں ج1، ص۵۵۲۔ ۹۔ ایضاً جلد ۳ص۳۹۶۔ منبع:http://rizvia.net