قرآن اور مسلمانوں کے وظائف

قرآن سیکھناسکھانا قرآن کے سلسلے میں مسلمان کے فرائض میں سے ایک قرآن کا پڑھنا (علم حاصل کرنا ) اور پڑھانا ( تعلیم دینا ) ہے ۔ امام صادق ؑ کا فرمان ہے کہ مومن مرنے سے پہلے قرآن کے علم کو حاصل کرلے یا مشغول علم رہے ۔ (۱) رسول اسلام ﷺ کا فرمان ہے کہ :خَیرُکُم مَن تَعَلَّمَ القرآن وَ عَلَّمَہ تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔ (۲) باپ پربیٹے کے حقوق میں سے ایک حق تعلیم قرآن ہے ،باپ کا فریضہیہ ہے کہ بیٹے کو قرآن کی تعلیم دے یاتعلیم قرآن کا وسیلہ فراہم کرے ۔(۱) مو من کو چاہئے کہ قرآن پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے ، پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی کو قرآن پڑھاتاہے تووہ اس کا حاکم (ولی) ہے اور پڑھنے والے کو چاہئے کہ قرآن پڑھانے والے استادکو ذلیل و خوار نہ کرے اور دوسروںکواپنے استادپر ترجیح نہ دے یا مقدم نہ کرے ۔ قرآن میں غور و فکر کرنا آیات قرآن سمجھنے کے لئے نازل ہوئی ہیں ،قرآن میں غور و فکر کے بارے میں خود قرآن نے بھی خاص توجہ دی ہے اور اس کے بارے میں آیت نازل ہوئی ہے: کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا آیاتہ و لیتذکراولوا لالباب .... یہ کتاب پر برکت ہے جس کو ہم نے تم پر نازل کی تاکہ لوگ غور و فکر کریں اور صاحبان عقل حضرات اس سے عبرت ودرس حاصل کریں ۔ دوسری آیت میں ان لوگوں کو سخت طریقہ سے جھنجھوڑااورخبردارکیاجارہاہے جو قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں : اَفَلا یَتَدَبَّرُونَ القُرآنَ اَم عَلٰی قُلُوبِ اَقفَالُھا .... کیا وہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالالگا دیا گیا ہے ۔ (۲) قرآن میں غور فکر کرنے کا طریقہ ( الف ) بلاواسطہ اگرہم براہ راست رجوع کریں تب بھی ہم کو چند چیزوں کا جاننا لازم ہے : ۱۔ زبان عربی کا جاننا ۲۔ لغت کا جاننا ۳۔ تاریخ اسلام کا جاننا ۴۔ حدیث کا جاننا ۵۔ قرآن کی آیتوں کا جاننا ( محکم و متشابہ ناسخ ) (ب) بالواسطہ ( استاد یا کسی دوسرے کے ذریعہ ) قرآن کی آیتوں پرعمل کرنا قرا¿ت ،سننے ، حفظ اور غور و فکر کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہے ، یہ سب مقدمہ ہیں تاکہ ہم اس کتاب مقدس سے پوری طرح آشناہوکراسکے عالی مضامین پر عمل کریںاوراس ہدایت بھری اورانسان سازکتاب پرعمل پیراہوکردنیوی اوراخروی سعادت کے کمال پرفائزہوجائیں ۔ اس مطلب کو خود قرآن اور روایت اہل بیت علیھم السلام نے بیان کیاہے ،قرآن میں جس جگہ آیت کی تلاوت کرنے والوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے بلا فاصلہ اعمال کے دو نمونوںکی طرف راہنمائی کی ہے یعنی نماز قائم کرنے اور راہ خدا میں انفاق کرنے کی طرف اشارہ کیاہے اور ان سب کو تلاوت کے ساتھ فائدہ بخش بتایاہے ۔ روایات میں قاریان قرآن مجید کے بعض بے عمل گروہوںکو اہل عذاب شمار کیاگیاہے اور تنہا ان قاریوں کو اہل نجات بتایاکیا گیاہے جو قرآن پہ عمل کرتے ہیں۔ (۱) خلاصہ قرآن مجید کے متعلق ہمارا ایک اہم فریضہیہ ہے کہ قرآن کی تعلیم پر زور دیاجائے پیغمبراکرم اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے۔ ہمارے فرائضمیں سے ایک فریضہیہ بھی ہے کہ قرآن کی آیتوں میںغوروفکر کیا جائے، قرآن مجید نے اس بات کی جانب خاص توجہ دی ہے لہٰذا اس عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کچھ چیزوں کا جاننا ضروری ہے جیسے عربی کا جاننا، تاریخ اسلام کا جاننا، علوم حدیث سے آشنائی، محکم ومتشابہ ، ناسخ ومنسوخ وغیرہ سے آگہییا پھر کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا۔ منبع:http://rizvia.net