بحارالانوار ج ۲ حالات حضرت امام حسین علیہ السلام

بحارالانوار ج ۲ حالات حضرت امام حسین علیہ السلام

بحارالانوار ج ۲ حالات حضرت امام حسین علیہ السلام

Publish number :

3

Publication year :

1980

Publish location :

کراچی پاکستان

Number of volumes :

12

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

بحارالانوار ج ۲ حالات حضرت امام حسین علیہ السلام

مدتوں سے احساس کیا جارہا تھا کہ اردو میں ایک ایسی کتاب ہوتی جس میں اصول و فروع کے متعلق احادیث مذہب جعفری کے مطابق ہوتیں کیونکہ احادیث سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے لوگ دن بہ دن دین سے بیگانے ہوتے جارہے ہیں مسلمانوں کے دوسرے فرقے، جن کے دامن علوم اہل بیت علیہم السلام  سے خالی ہیں انہوں نے دیکھتے دیکھتے اس میدان میں کتنے نمایاں مقام حاصل کر لئے چنانچہ اس وقت تک صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ترندی وغیرہ کے تراجم بڑے شاندار طریقے سے متظرعام پر آچکے ہیں۔ اس کے علاوہ تفاسیر و دیگر کتب احادیث کا تو گویا حساب ہی نہیں مگر ہم ہیں کہ ہمارے گلشن میں خاک اڑ رہی ہے علم حدیث سے ہمارے عوام کی بے خبری کی یہ حالت ہے کہ اصول اربعہ(کافی، من لا یحضر، تهذیب،استبصار) کا نام بھی شاید کسی کو معلوم ہو، اس کی وجہ کیا ہے؟

کسی قوم میں تصنیف و تالیف کے فن کا عروج پانا دو ہی اسباب پر موقوف ہے:

قوم میں شوق مطالعہ ہونا۔

امراء طبقہ کا اہل قلم کی ہمت افزائی کرنا۔

 یہاں خیر سے دونوں کے متعلق التماس دعا ہے، شوق مطالعہ کی یہ کیفیت ہے کہ بعض اوقات ایک کتاب کی نکاسی میں بیس سال لگ جاتے ہیں۔ امراء کایہ حال ہے کہ ان کو اپنی دولت کا صحیح مصرف ہی نہیں معلوم وہ سمجھتے ہیں کہ دولت عیش پرستی اور زینت و تفاخر ہی کے لیے ہے۔

ہماری قوم کی یہ حالت بد نصیبی صرف برّصغیر ہندو پاک کے اردوں داں طبقے میں ہی ہے ورنہ باہر نکل جائیے غیروں کو اگر دیکھیے تو نوبل پرائز کی خطیر رقم کئی دفعہ ان کے اہل قلم حاصل کر چکے ہیں اور اپنوں کو اگر دیکھیے تو اپنے ہمسایہ ملک ایران کو ہی لے لیجیئے جہاں ایک با معرفت امیر نے اعلان کیا تھا کہ جوشخص حضرت علیؑ کے فضائل میں بہتر تالیف پیش کریگا اس کو ایک لاکھ کی گراں قدر رقم پیش کی جائے گی............. ببیں تفاوت ره از کجا است تا به کجا۔

بہرحال ان حوصلہ فرسا حالات میں جن افراد نے اس سنگلاخ وادی میں علوم آل محمدعلیہم السلام  کا عَلَم نصب کیا ہے ان کے مشکلات کافی حد تک واضح و آشکار ہوگئے ہوں گے۔

مختصر الفاظ میں کچھ اس کتاب کے متعلق بھی حوالۂ قلم کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس جلیل القدر کتاب کو حدیث کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو انسب ہے شیعہ تو شیعہ اہل سنت میں بھی اتنی عظیم و مبسوط کتاب کا ملنا محال ہے۔

یہ ملا محمد باقر بن ملا محمد تقی مشہور بہ علامہ محمد تقی رحمة اللہ علیہ ۱۰۳۷ھ کی تالیف منیف ہے جس کو انہوں نے اپنے تلامذہ کے اشتراک سے مرتب فرمایا ہے۔

یہ کتاب ۲۶ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، ملحوظ رہے کہ مصنف علیہ الرحمہ نے اس کتاب کو ۲۵ جلدوں پر تقسیم کیا تھا بعد میں پندرھویں جلد کو زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ سے دو جلدوں پر تقسیم کیا، گویا پندرھویں جلد کے دو حصے ہوگئے مگر اس کے بعد کے مجلدات پر اس تقسیم کے لحاظ سے نمبر نہیں لگائے گئے اس بنا پر بظاہر کتاب ۲۵ جلدوں پر ختم ہوئی ہے مگر فی الواقع اس کی چھبیس جلدیں ہیں۔

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ کتاب بحار الانوار کیا ہے، ایسی عظیم الشان کتاب تالیف کرنے سے مؤلف کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام احادیث کو سمیٹ کر یکجا کردیا جائے تاکہ جس کے پاس یہ ہو گویا ایک کتب خانہ اس کے پاس ہو اور دوسری کتاب کی ضرورت باقی نہ رہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں بہت سی ضعیف و غیر معمول بہ روایات بھی آگئی ہیں کیوں کہ مؤلف کا مقصد تحقیق نہ تھا بلکہ جمع آوری تھا جیسا کہ اس کے نام بحارالانوار سے بھی ظاہر ہے کیوں کہ سمندر میں موتی، گھونگھے، خس و خاشاک سب ہی کچھ ہوتا ہے اور ہر چیز کا ایک مصرف ہے گویا مجلسی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ تمام حدیثیں انکی صحت و سقم سے قطع نظر کرکے اس مجموعہ میں جمع کیے دیتا ہوں، اب تحقیق کی چھننی میں چھان کر درایت کے چھاج میں پھٹک کر حقیقت کے جواہر آبدار ڈھونڈ نکالنا تمہارا کام ہے لہٰذا کوئی کوئی موالف یا موافق سندی اعتبار سے کسی روایت کے ثبوت و معتبر ہونے کی دلیل میں اسکے بحار میں ہونے کو پیش نہیں کرسکتا۔

اردو زبان میں اس کتاب کے ترجمے کا آغاز آیة اللہ سید طیب آغا جزائری نوّراللہ مرقدہ الشریف نے تہذیب و تنقیح کے ساتھ انجام دیا ہے، مترجم محترم نے ترجمے کے آغاز کے لیے بحار الانوار کی دسویں جلد سے ابتدا کی ہے اور فی الوقت مولانا امداد حسین کے ترجمے کے ساتھ ۱۲ جلدوں میں معصومین علیہم السلام کے تذکرے کے ساتھ دستیاب ہے۔

یہ جلد حضرت امام حسین علیہ السلام کے حالات سے متعلق ہے جسمیں تفصیل کے ساتھ آپکی زندگانی کا جائزہ لیا گیا ہے۔

اگر آپ مفصل طریقے سے اسلامی تعلیمات  کا مطالعہ فرمانا چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ اپنے وقت کے ایک حصے میں ضرور قرار دیں۔