امام زمانہ کے چالیس فرمودات

ان فرامین کوآپٴ کی توقیعات مبارکہ سے لیاگیاہے ١۔ زمین کی آبادی اَنَاالْمَہْدِیُّ(وَ)اَنَاقٰائِمُ الزَّمٰانِ،اَنَاالَّذی آَمْلَآُھٰاعَدْلاًکَمٰامُلِئَتْ جَوْراً،اِنَّ الْاَرْضَ لٰاتَخْلُومِنْ حُجَّۃٍوَلٰایَبْقَی النّٰاسُ فی فَتْرَۃٍوَھٰذِہِ اَمٰانَۃ�لٰاتُحَدَّثْ بِھَااِلاَّاِخْوٰانَکَ منْ اَھْلِ الْحَقَّ۔ (کمال الدین ،ص٤٤٥) ’’میں مہدی(علیہ السلام) ہوں اور میں ہم قائم الزمان (علیہ السلام)ہوں ،میں زمین کوعدالت کے نفاذ سے اس طرح آبادکردوں گاجس طرح وہ مجھ سے پہلے ظلم وستم سے ویران ہوچکی ہوگی،بلاشک زمین حجت (ایسی ہستی جواللہ کے بندگان میں اللہ کی طرف سے ہدایت دینے کے واسطہ موجودہو)سے خالی نہیں ہوتی،اورلوگ بے سرپرست کسی بھی لمحہ کے لئے نہیں رہتے یہ بات امانت ہے اسے تم اپنے بھائیوں میں پہچاناجواہل حق ہیں (حق کاساتھ دینے والے ہیں)‘‘۔ ٢۔ اللہ کابقیہ اَنَابَقِیَّۃُ اللّٰہِ فی اَرْضِہِ،وَالْمُنْتَقِمُ مِنْ اَعدٰائِہِ۔(بحارالانوار،ج٥٢،ص٢٤،کمال الدین) ’’میں اللہ کااللہ کی زمین میں بقیہ (ذخیرہ)ہوں اوراللہ کے دشمنوں سے انتقام لینے والاہوں‘‘۔ اَ ٣۔ قائم آل محمد۰نَاالْقٰائِمُ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ’’صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ‘‘اَنَاالَّذی اَخْرُجُ فی آخَرِالزَّمٰانِ بِھٰذَاالسّٰیْفِ۔وَاَشٰارَاِلَیْہِ۔فَآَ مْلَآُ الْاَرْضَ عَدْلاًوَقِسْطاًکَمٰامُلِئَتْ جَوْراًوَظُلْماً۔ (بحارالانوار،ج٥٢،ص٤١،کمال الدین) ’’میں قائم آل محمد۰ ہوں �میں آخری زمانہ میں اس تلوارکے ہمراہ خروج کروں گا(یعنی میرا قیام مسلحانہ ہوگا)میں زمین کوعدالت اورانصاف کے نفاذسے بھردوں گا(آبادکردوں گا) جس طرح زمین ظلم وجورسے بھرچکی ہوگی (ویران ہوچکی ہوگی)‘‘۔ ٤۔ شیعوں کی مشکلات اَنَاخٰاتَمُ الْاَوْصِیٰائِ وَبی یَدْفَعُ اللَّہُ عَزَّوَجَلَّ الْبَلٰائِ عَنْ اَھْلیٰ وَ شیعَتی۔(کمال الدین ،ص٤٤١) ’’میں خاتم الاوصیائ ٴ ہوں اللہ عزوجل میرے وسیلہ سے میرے خاندان اورمیرے شیعوں کے مصائب اورمشکلات کوٹال دے گا‘‘۔ ٥۔ اللہ سے رشتہ دار ی لَیْسَ بَیْنَ اللَّہِ عَزَّوَجَلَّ وَبَیْنَ اَحَدٍقَرٰابَۃ�وَمَنْ اَنْکَرَنی فَلَیْسَ مِنّی وَسَبیلُہُ سَبیِلُ ابْنِ نُوح ٍ ٴ (کمال الدین ص٤٨٤) ’’اللہ عزوجل اور (اس کی مخلوق میں سے)کسی ایک کے درمیان کسی قسم کی رشتہ داری موجود نہیں ہے بس جس کسی نے میراانکارکیا(مجھے امام ٴ تسلیم نہ کیا)وہ مجھ سے نہیںہے(اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے)اس کاانجام وہی ہوگاجوحضرت نوح(علیہ السلام) کے بیٹے کاہوا(بظاہریہ فرمان سادات برادری کے لئے ہے کیونکہ سادات ہی آپ کاخاندان ہے اور ان کی آپ سے رشتہ داری ہے اورآپ سادات خاندان کے بزرگ اور سربراہ ہیں ،تمام طورپرسادات کے ہاں یہ بات سمجھی جاتی ہے ،آج بھی ایساہے اورکل بھی ایساتھا بلکہ روایات سے واضح ہوتاہے کہ خودآئمہ (علیہم السلام) کے اپنے زمانہ بھی ایسی سوچ موجودتھی کہ جوسید ہے خاندان اہل البیت (علیہم السلام) سے ہے جس کی آئمہ معصومین (علیہم السلام)سے رشتہ داری ہے وہ توبخشاجائے گا،اس نے توجنت ہی میں جاناہے ،جہنم اس پرحرام ہے چاہے وہ منکرخداہو، فقط خاندانی نسبت اسے ہلاکت سے بچالے گی،حضرت ولی العصر امام زمانہ (عج)نے اسی بات کوواضح کیاہے کہ نسبت کافی نہیں،وگرنہ حضرت نوح(علیہ السلام) کابیٹاغرق نہ ہوتا،عقیدہ ناقص ہونااورپھرعقیدہ کے تقاضا پرپورا اترنا ضروری ہے اس لئے آپ(علیہ السلام) نے فرمایاکہ جس نے میرا انکارکردیایعنی مجھے امامٴ تسلیم نہیں کیاچاہے وہ سیدہی کیوں نہ ہواس کامجھ سے تعلق نہیں ہے اس کاانجام نوح (علیہ السلام)کے بیٹے والاہے ، اس مضمون کی روایت اورآئمہ ٴ سے بھی ہے)‘‘۔ اِ ٦۔ سرکشوں کی بیعت نّیِ اَخْرُجُ حینَ اَخْرُجُ وَلٰابَیْعَۃَ لِاَحَدٍمِنَ الطَّوٰاغیِتِ فیِ عُنُقیِ(کمال الدین ،ص٤٨٥) ’’میراخروج اورقیام جس وقت ہوگااورجس میں حکومت الٰہیہ قائم کرنے کے لئے اٹھوں گاتو اس وقت میرے اوپرسرکشوں اورظالموں میں سے کسی ایک کی بیعت نہ ہوگی یعنی میں کسی ظالم حکمران کی حکومت کے تابع نہ رہاہوں گا،کسی سرکش کاحکم میرے اوپرلاگونہ رہاہوگا،اور نہ ہی کسی ظالم کاحکم وفیصلہ میرے اوپرجاری ہوگا(جیساکہ میرے آباؤ اجدادکے بارے ہوتارہاہے)‘‘۔ اَ ٧۔ غیبت کے دوران مّٰاوَجْہُ الْاِنْتِفٰاعِ بی فی غَیْبَتیِ فَکَالْاِنْتِفٰاعِ بِاالشَّمْسِ اِذٰاغَٰیَّبَھٰاعَنِ الْاَبْصٰارِ السَّحٰابُ�(کمال الدین ،ص٤٨٥) ’’البتہ میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے عوام کوفائدہ اس طرح پہنچے گاجس طرح سورج بادلوں کی اوٹ میں چلاجائے تواس کے فوائد زمین والوں کوحاصل ہورہے ہوتے ہیں‘‘۔ اِ ٨۔ زمین والوں کے لئے امان نّیِ لَآَمٰان� لِاَھْلِ الْاَرْضِ کَمٰااَنَّ النُّجُومَ اَمٰان� لِاَھْلِ السَّمٰائِ۔(کمال الدین ،ص٤٨٥) ’’بلاشک میں زمین والوں کے واسطے اس طرح امان ہوں جس طرح ستارے آسمان والوں کے لئے امان ہیں )‘‘۔ ٩۔ حجت کاوجود اِنَّ الْاَرْضَ لاٰتَخْلُومِنْ حُجَّۃٍ اِمّٰاظٰاہِراًوَاِمَّامَغْمُوراً۔(کمال الدین، ص٥١١) ’’بتحقیق زمین حجت سے خالی نہیں ہوتی یاتووہ حجت ظاہراورموجودہوگی یاوہ غائب و پوشیدہ ہوگی‘‘۔ ١٠۔ مشیت خدا قُلُوبُنٰااَوْعِیَۃ� لِمَشِیَّۃِ اللَّہِ فَِاذٰاشٰائَ شِئْنٰا۔(بحارلانوار،ج٥٢،ص٥١،غیبت شیخ) ’’ہمارے دل اللہ کی مشیت اور ارادے کے ظروف ہیں پس جب اس کاارادہ ہوتاہے تو ہم ارادہ کرتے ہیں جووہ چاہتاہے توہم ہم وہی چاہتے ہیں جواس کی مرضی ہوتی ہے تو ہماری وہی مرضی ہوتی ہے ‘‘۔ ١١۔ حق وَلْیَعْلَمُوااَنَّ الْحَقَّ مَعَنَاوَفینَالاٰیَقُولُ ذَلِکَ سِوٰانٰااِلاَّکَذّٰاب� مُفْتَرٍوَلاٰیَدَّعیِہِ غَیْرُنَااِلاَّضَالُّ غَوِیَ�(کمال الدین ،ص٥١١) ’’آپ سب پریہ بات واضح رہے کہ بتحقیق حق ہمارے ساتھ اورہمارے اندر ہے ہمارے علاوہ حق کسی جگہ پرنہیں ہے ہمارے علاوہ جوبھی یہ بات کرے کہ حق اس کے پاس ہے توایسا شخص جھوٹاہے افتدائ پردانو ہے،اورہمارے سواجوبھی اس بات کا دعویدار ہوگا وہ گمراہ اور دوسروں کوگمراہی سے دھکیلنے والاہوگا‘‘۔ ١٢۔ حق کاغلبہ اور باطل کاخاتمہ وَاِذَااَذِنَ اللَّہُ لَنَافِی الْقَوْلِ ظَہَرَالْحَقُّ وَاضْمَحَلَّ الْبَاطِلُ۔(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٩٦،غیبت شیخ) ’’جس وقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بات کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی تواس وقت حق واضح ہو جائے گااور باطل ویران ہوجائے گا‘‘۔ ١٣۔ لاتعلقی کانتیجہ کُلُّ مَنْ نَبْرَآُمِنہُ فَاِنَّ اللَّہَ یَبْرَآُمِنْہُ وَمَلٰائِکَتَہُ وَرُسُلَہُ وَاَوْلِیَائَہُ(احتجاج ،ج٢،ص٤٧٤) ’’ہروہ شخص جس سے ہم برآت کردیں اوراس سے اپنی لاتعلقی کااظہارکردیں تو بلاشک اللہ تعالیٰ فرشتے،اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اس کے سارے اولیائ بھی ایسے شخص سے بیزار ہوں گے اور سب اس سے ایساتعلق وربط توڑدیں گے‘‘۔ ١٤۔ ازالہ شک زَعَمَتِ الظَّلَمَۃُ اَنَّ حُجَّۃَ اللَّہِ دٰاحِضَۃ� لَوْاُذِنَ لَنَافِی الْکَلَامِ لَزَالَ الشَّکُّ(کمال الدین ،ص٤٣٠) ’’ظالموں کاخیال یہ ہے کہ اللہ کی حجت (نمائندگی)ختم ہوچکی ہے اگرہمیں گفتگوکی اجازت دے دی جائے تویہ ساراشک دورہوجائے اور تمام پروپیگنڈے دم توڑدیں ‘‘۔ ١٥۔ ہمارے اوپرظلم کرنے والے فَمَنْ ظَلَمَنٰاکَانَ مِنْ جُمْلَۃِ الظَّالِمیٰنَ وکَانَ لَعْنَۃُ اللّٰہ عَلَیْہِ(کمال الدین ،ص٥٢١) ’’پس جس کسی نے ہمارے اوپرظلم وستم کیاہے تووہ ظالموں اورستمگروں میں شامل ہے اور اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔ اِ ١٦۔ مخلوق پرہمارااحسان ہے نَّ اللَّہَ مَعَنَافَلَافَاقَۃَ بِنَااِلیٰ غَیْرِہِ وَالْحَقُّ مَعَنٰافَلَنْ یُوحِشَنٰامَنْ قَعَدَعَنَّاوَنَحْنُ صَنٰائَِعُ رَبَّنٰاوَالْخَلْقُ بَعْدُصَنٰائِعُنٰا۔(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٨،احتجاج) ’’بلاشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے میں اللہ کے سواکسی اورکی ضرورت بھی نہیں ہے اسی طرح حق ہمارے ہمراہ ہے لہٰذاہمیں اگرکوئی چھوڑکرچلاجائے تواس سے ہمیں وحشت نہیں ہوتی ہم سب اللہ کی مخلوق اوراللہ کاہمارے اوپراحسان ہے جب کہ ہمارے بعداللہ کی ساری مخلوقات ہماری پروردہ احسان ہیں‘‘۔ اَ ١٧۔ فرج وکامیابی کاوقت مّٰاظُہُورُالْفَرَجِ فَاِنَّہُ اِلَی اللَّہِ’’ تَعٰالیٰ ذِکْرُہُ‘‘ وَکَذِبَ الْوَقّٰاتُونَ۔(کمال الدین،ص٤٨٤) ’’بہرحال فرج(ہمارے حکومت کاظہور)کاظہوراورہمارے کامیابی وکامرانی تواس کامعاملہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جب وہ چاہے گاتوہوگاظہورکے وقت کومعین کرنے والے لوگ جھوٹ ہیں‘‘۔ ١٨۔ ظہورکی نشانی عَلٰامَۃُ ظُہُورِاَمْریِ کَثْرَۃُ الْھَرْجِ وَالْمَرْجِ وَالْفِتَنِ(بحارالانوار،ج٥١،ص٣٢٠،غیبت شیخ) ’’ظہورکی نشانی یہ ہے کہ بدامنی ہوگی،بے چینی ہوگی،پریشانی ہوگی،فتنے ہوں گے،فساد ہوگا، دہشت گردی عام ہوگی‘‘۔ ١٩۔ دعائ اَکْثِرُواالدُّدٰائَ بِتَعْجیلِ الْفَرَجِ فَاِنَّ ذَلِکَ فَرَجُکُمْ(کمال الدین ،ص٤٨٥) ’’فرج جلدی ہونے کے واسطے دعابہت زیادہ کروکیونکہ اسی میں تمہارے لئے فرج (کامیابی ،سکون،آرام)ہے ‘‘۔ ٢٠۔ سوال کرنا فَاَغْلِقُوااَبْوٰابَ السَئٰوالِ عَمّٰالاٰ یَعْنیِکُمْ وَلاَتَتَکَلَّفُواعِلْمَ مَاقَدْکَفَیْتُم ْ(بحارالانوار،ج٥٢،ص٩٢،احتجاج) ’’جن باتوں کاتم سے تعلق نہیں ہے اورتمہارے فائدے میں نہیں ہیں ان کے متعلق سوال کرنے کاسلسلہ بندکردو،لایعنی اوربے مقصد سوالات کرنے سے گریزکرو،اوراپنے آپ کوایسے معلومات حاصل کرنے کی زحمت میں نہ ڈالوجن کی ذمہ داری تمہارے اوپرنہیں ڈالی گئی یعنی جس کاچاہناتمہارے لئے ضروری نہیں تم ان کے بارے معلومات حاصل کرنے کے لئے خودکومصیبت میں نہ ڈالو‘‘۔ ٢١۔ اسوہ فِی ابْنَۃِ رَسُولِ اللَّہِ’’ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ‘‘ لیِ اُسْوَۃ�حَسَنَۃ�(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٨٠،احتجاج ) ’’رسول اللہ۰ حلم کی دخترگرامی قدرکے عمل وکردارمیں میرے کئے اسوہ ہے بھی وہی ذات میرعملی زندگی کے لئے ماڈل اورنمونہ ہیں اورمیرا�وہی ذات ہے‘‘۔ ٢٢۔ نئے مسائل اَمَّاالْحَوٰدِثُ الْوٰقِعَۃُ فَارْجِعُوافیِہٰااِلیٰ رُوٰاۃِ حَدیِثِنَافَاِنَّھُمْ حُجَّتیِ عَلَیْکُمْ وَاَنَاحُجَّۃُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ(کمال الدین ،ص٤٨٤) ’’بہرحال جونئے نئے مسائل تمہیں درپیش ہوں اورجدیدمسائل سامنے آئیں تو ان کے بارے ہماری رائے معلوم کرنے کے لئے ان افرادکی طرف رجوع کرو جوہمارے بیانات سے آگاہیں اورہمارے پیغامات اوراقوال کوسمجھتے ہیں،کیونکہ ان ہی افرادکو (جوہماری کلام سے واقف ہیں اورہمارے بیانات کوروایت کرتے ہیں)میں تمہارے اوپر حجت(واجب اطاعت،الٰہی نمائندہ)قراردیاہے اورمیں ان پراللہ کی طرف سے حجت (اللہ کانمائندہ) ہوں‘‘۔ ٢٣۔ اللہ تعالیٰ کاتقویٰ فَاتَّقُواللَّہَ وَسَلَّمُو الَنٰا وَرُد ُّوالْاَمْرَ اِلَیْنٰا فَعَلَیْنَا الْا ِصْدٰارُُکَمَاکَانَ مِنَّا الْا یِرَاد ُوَلَاتُحٰاوِلُواکَشْفَ مَاغُطَّی عَنْکُمْ۔(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩،احتجاج ) ’’بس تم سب اللہ کاتقویٰ اختیارکرواورہمارے سامنے تسلیم رہو،خودکوہمارے سپردکردو ، ہماری ہربات کومان لو،اورتمام اموراورمعاملات کوہمارے سپردکردوبس یہ ہماراکام ہے کہ ہم تمہیں ہدایت کے چشمہ سے سیرات کریں ،تمہیں بھٹکنے سے بچائیں احکام جاری کرناہمارکام ہے تمہیں ہدایت کے سرچشمہ پرلے جانابھی ہماراکام ہے وہاں سے سیرات کرکے نکالنابھی ہماراکام ہے،اورتم اس بات کوکھولنے کی ہرگزکوشش نہ کروجسے تم سے چھپا لیاگیاہے یعنی جس بات کوتم سے مخفی رکھاگیاہے اسے کھولنے کی کوشش مت کرو‘‘۔ قَ ٢٤۔ اذیت دْاَذٰانَاجُھَلٰائُ الشّیِعَۃِ وَحُمَقَاوُھُمْ وَمَنْ دیِنُہُ جَنَاحُ الْبَعُوضَۃِ اَرْجَحُ مِنْہ ۔(احتجاج ،ج٢،ص٤٧٤) ’’تین قسم کے شیعوں نے ہمیں اذیت پہنچائی ہے ١۔ جاہل،نادان ،کم علم ۔ ٢۔ احمق،بے وقوف ،نفع ونقصان سے ناواقف ۔ ٣۔ وہ حضرات جن کے نزدیک دین کی قدر وحیثیت مچھرکے پرسے بھی کم ترہے‘‘۔ ٢٥۔ دائیں ،بائیں وَلَاتَمیِلُواعَنِ الْیَمیِنِ وَلَاتَعْدِلُوااِلَی الْیَسَارِوَاجْعَلُواقَصْدَکُمْ اِلَیْنَابِالْمَوَدَّۃِ عَلَی السُّنَّۃالْوٰضِحَۃِ (بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩،احتجاج ) ’’نہ توتم دائیں طرف جاؤاورنہ ہی بائیں بازوکواپناؤتمہارارخ اورقصدہماری جانب رہے تمہارسیدھارخ ہماری جانب ہو،اس کی بنیادہم سے مودت اوردوستی کوقراردو،یہی راستہ سیدھا ہے جوروشن اورواضح ہے،دائیں بائیں مت جاؤ،صراط مستقیم جوکہ ہماری مودت پر قائم ہے اسی پرباقی رہو‘‘۔ ٢٦۔ وحدت ٢٦۔ لَوْاَنَّ اَشْیٰاعَنَاوَفَّقَہُمُ اللّہُ لِطَاعَتِہِ عَلَی اجْتِمٰاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِی الْوَفَائِ بِالْعِہْدِعَلَیْھِمْ لَمَاتَآَخَّرَعَنْہُمُ الْیُمْنُ بِلِقَائِنَاوَلَتَعَجَّلَتْ لَھُمُ السَّعَادَۃُ بِمُشَاہَدَتِنَاعَلیَ حَقَّ الْمَعْرِفَۃِ وَصِدْقِہٰامِنْھُمْ بِنَافَمَایَحبِسُنَاعَنْھْم اِلاّٰمَایَتَّصِلُ بِنَامِمّٰا نُکْرِہہُ وَلَانُوْثِرُہُ مِنْھُمْ۔(بحارالانوارج٥٣،ص١٧٧،احتجاج) ’’اگرہماراشیعہ (خداانہیں اپنی اطاعت کی توفیق عطائ فرمائے )یکجان ہوتے اور اس بات پر سب کااتفاق ہوتاکہ جوعہدوپیمان(ہماری طرف سے)ان پرہے تو پھر ہماری ملاقات کی برکات ان سے موخرنہ ہوجاتیں اور ان کے واسطے ہمارے حضوری دیدار اورمشاہدہ کی سعادت بہت جلدی انہیں نصیب ہوتی اوروہ دیداربھی اس طرح جس طرح معرفت کا حق ہے اوروہ ہمارے حق کاعرفان رکھتے ہیں ان کی ہمارے ساتھ صدق ووفاہے�ہمیں ان سے ملاقات کیلئے کوئی بات نہیں روکتی مگران کی جانب سے انجام پائے جانے والے ایسے اعمال رکاوٹ ہیں جن اعمال کوہم ان سے ناپسندکرتی ہیں اورہم نہیں چاہتے کہ وہ اس قسم کے اعمال بجالائیں ان کے اسی قسم کے اعمال ہیں جوحقیقت ہمارے اوران کے درمیان ملاقات اورحضوری مشاہدہ سے رکاوٹ لیں ‘‘۔ ٢٧۔ محبت کاحصول فَلْیَعْمَلْ کُلُّ امْرِی ئٍ مِنْکُم! مَایَقْرُبُ بِہِ مِنْ مَحَبَّبِنَاوَلْیَتَجَنَّبْ مَایُدْنیِہِ مِنْ کَرٰاھِیَّتِنَاوَسَخَطِنَا۔(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٦احتجاج ) ’’تم میں سے ہرایک پریہ فرض ہے کہ وہ ایساعمل انجام دے جواسے ہماری محبت کے قریب کردے،(یعنی عمل ایساکریں کہ وہ عمل ہماری محبت کے حصول کاذریعہ بن جائے)اور دوری اختیارکریں ایسے عمل بجالانے سے جوہماری ناپسندیدگی اورناراضگی کا سبب بنے(یعنی ایساعمل بجانہ لاسکیں کہ جس کی وجہ سے اسے ہماری ناراضگی اورناپسندیدگی کا سامناکرناپڑے ‘‘۔ ٢٨۔ حالات کاعلم فَاِنَّایُحیِطُ عِلْمُنَابِاَنْبَائِکُمْ وَلاَیَعْزُبُ عَنَّاشَیْئ� مِنْ اَخْبَارِکُمْ(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٥احتجاج ) ’’ہم آپ کے حالات بارے مکمل طورپرآگاہیں اورہم سے تمہاری خبریں بالکل مخفی نہ ہیں ، ہم آپ کے ہرمسئلہ بارے آگاہیں اورآپ سے متعلق ہرچیزکوجانتے ہیں ہم سے آپ کا کچھ بھی مخفی نہ ہے ‘‘۔ اِ ٢٩۔ رعایت وحفاظت نَّاغَیْرُمُھْمِلیِنَ لِمُرَاعَاتِکُمْ وَلَانَاسیِنَ لِذِکْرِکُمْ وَلَوْلَاذَلِکَ لَنَزَلَ بِکُمُ اللَّآوٰائُ وَاصْطَلَمَکُمْ الْاَعْدَائُ فَاتَّقُوااللّٰہِ جَلَّ جَلالُہُ وَظَاہِرُوْنَالِاِنْتِیاَشکُمْ مِنْ فِتْنَۃٍ قَدْ اَنَاخَتْ عَلَیْکُمْ۔ (بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٥،احتجاج ) ’’بلاشک ہم نے تمہاری حفاظت اوررعایت کے معاملہ کوایسے نہیں چھوڑدیااورنہ ہی ہم تمہارے ذکرکوبھولے ہیں یعنی ہم تمہاری یادرکھے ہیں اورتمہاراخیال بھی ہے،تمہیں ہم نے بے سہارانہیں چھوڑدیا۔ اگرایسانہ ہوتاتوتمہارے اوپرہرطرف سے مصیبت اترتی،پریشانیوں میں تم گھرجاتے اور ستمگروں کے مظالم کی چکی میں پسے جاتے ،تمہارے دشمن تم پرغالب آجاتے اورتمہیں نابود کردیتے پس تم سب پرلازم ہے کہ اللہ’’جل جلالہ‘‘کاتقویٰ اختیارکرنا‘‘۔ ٣٠۔ رحمت اورمہربانی لَوْلَامَاعِنْدَنَامِنْ مَحَبَّۃِ صَلَاحِکُمْ وَرَحْمَتِکُمْ وَالْاِشْفَاقِ عَلَیْکُمْ لَکُنّٰاعَنْ مُخٰاطَبَتِکُمْ فی شُغْلٍ�(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٧٩) ’’اگرہمیں تم سے محبت نہ ہوتی اوررتم پرہم مہربان اورشفیق نہ ہوتے اورہمیں تم سے ہمدردی نہ ہوتی اورہم تمہاری بہتری کانہ سوچتے توہم تم سے بات کرناہی چھوڑدیتے یعنی ہماراتم سے بات کرنااس بات کی نشانی ہے کہ ہم تم سے محبت کرتے ہیں تمہیں چاہتے ہیں،تمہاری خیر مانگتے ہیں،ہم تمہارے ہمدردہیں‘‘۔ سَ ٣١۔ مشاہدہ یَآْتیِ(اِلیٰ)شیِعَتیِ مَنْ یَدَّعِی الْمُشَاہَدَۃَ اَلاَفَمَنِ ادَّعَی الْمُشَاہَدَۃَ قَبْلَ خُرُوجِ السُّفْیَانی وَالصَّیْحَۃِ فَھُوَ کَاذِب� مُفْتَرٍ۔(کمال الدین ،ص٥١٦) ’’عنقریب میرے شیعوں کے پاس ایسے افرادآئیں گے جویہ دعویٰ کریں کہ انہوں نے میرا(مشاہدہ)حضوری دیدارکیاہے آگاہ رہو!!جوشخص بھی سفیانی کے خروج(ظہورسے چھ ماہ قبل شام کی سرزمین پرماہ رجب میں سفیانی کاانقلاب آئے گا)اورصیحہ (آسمان)سے یکدم زورداراورمعنی دارآوازکاسنائی دیناآنے سے پہلے مشاہدہ اورحضوری دیدارکادعویٰ کرے توایساشخص جھوٹاہے ،افترائ پرداز ہے‘‘۔ (بعض علمائ نے اس حدیث کے ذیل میں بیان کیاہے کہ اس فرمان سے مرادیہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں جوشخص بھی امام مہدی(علیہ السلام) کی نمائندگی اورنیابت خاصہ کادعویٰ کرے تو وہ جھوٹاہے اس کی بات نہ مانے )۔ ٣٢۔ اموال کھانا مَنْ اَکَلَ مِنْ اَمْوَالِنَاشَیْئاًفَاِنَّمَایَآکُلُ فی بَطْنِہِ نَاراًوَسَیَصْلیٰ سَعیِراً۔(کمال الدین ،ص٥٢١) ’’جوشخص ہمارے اموال سے کچھ کھاجائے (بغیراجازت کے)توگویااس نے اپنے شکم میں آگ بھری ہے ،ہمارامال حلال سمجھ کرکھانے کامطلب آگ کے انگاروں کونگلناہے ، اور ایساشخص بہت جلدجہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالاجائے گا‘‘۔ ٣٣۔ غیرکے مال میں تصرف کرنا فَلاَیَحِلُّ لِاَحَدٍاَنْ یَتَصَرَّفَ مِنْ مَالِ غَیْرِہِ بِغَیْرِاِذْنِہِ فَکَیْفَ یَحِلُّ ذَلِکَ فیِ مَالِنَا(کمال الدین ،ص٥٢١) ’’کسی ایک کے لئے ایساجائزنہیں ہے کہ وہ کسی اورکے مال کواس مال کے مالک کی اجازت کے بغیراسے اپنے تصرف (استعمال)میں لے آئے جب ایساہے توپھرکسی شخص کے لئے یہ کیسے جائزہے کہ وہ(ہماری اجازتت کے بغیر)ہمارے مال میں تصرف کرے اور اسے اپنے استعمال میں لے آئے ‘‘۔ ٣٤۔ طہارت وپاکیزگی اَمَّااَمْوٰالُکُمْ فَلاٰنَقْبَلُھَااِلاَّلِتَطَھَّرُوافَمَنْ شَائَ فَلْیَصِلْ وَمَنْ شَائَ فَلْیَقْطَعْ فَمَاآتَانِی اللَّہُ خَیْر�مِمّٰاآتَاکُم�۔(کمال الدین ،ص٤٨٤) ’’جواموال تم ہمارے پاس پہنچاتے ہوتوہم آپ کے اموال کوفقط اس واسطے قبول کرتے اور وصول کرلیتے ہیں تاکہ تم پاکیزہ ہوجاؤ،طاہربن جاؤ،پس جس کی مرضی آئے وہ اپنے اموال ہمارے پاس پہنچائے اورجس کادل نہ چاہے وہ اپنے اموال ہمارے پاس نہ لائے،کیونکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطائ فرمایاہے وہ اس سب سے بہترہے جوتمہیں اس نے عطائ کیاہے ‘‘۔ ٣٥۔ نمازمغرب مَلْعُون�، مَلْعُون�، مَنْ اَخَّرَالْمَغْرِبَ اِلیٰ اَنْ تَشْتَبِکَ النُّجُومُ ،مَلْعُون� مَلْعُون�، مَنْ اَخَّرَ الْغَدٰاۃَ اِلیٰ اَنْ تَنْقَضِیَ النُّجُومُ۔(بحارالانوار،ج٥٢،ص١٥،غیبت شیخ) ’’ملعون ہے،ملعون ہے،وہ شخص جونمازمغرب کواتناتاخیرمیں ڈال دے کہ تمام ستارے آپس میں جڑجائیں ،یعنی سب ستارے نظرآنے لگیں،اوروہ شخص بھی ملعون ہے ،ملعون ہے جونمازصبح کواتناتاخیرسے پڑھے کہ آسمان سے سارے ستارے غائب ہوجائیں ‘‘۔ ٣٦۔ دعا اورتسبیح کی فضیلت فَاِنَّ فَضْلَ الدُّعَائِ وَالتَّسْبیِحِ بَعْدَالْفَرَائِضِ عَلَی الدُّعَائِ بِعَقیِبِ النَّوَافِلِ کَفَضْلِ الْفَرَائِضِ عَلَی النَّوَافِلِ�(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٦١،احتجاج ) ’’واجب نمازوں کے بعددعائ اورتسبیح کی فضیلت اوربرتری نوافل نمازوں کے بعددعا اور تسبیح پڑھنے سے ایسے ہے جس طرح واجبات کی نوافل پڑھنے پربرتری ہے ،یعنی واجب نمازوں کے بعددعااورتسبیح پڑھ کرنوافل اداکرو،ایساکرنازیادہ فضیلت رکھتاہے‘‘۔ سَ ٣٧۔ سجدہ شکرجْدَۃُ الشُّکْرِ مِنْ اَلْزَمِ السُّنَنِ وَاَوْجَبِہَا۔(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٦١،احتجاج) ’’سجدہ شکرایسی سنتوں سے ہے کہ جس سنت کااداکرناانتہائی ضروری ہے،اورسب سنتوں پراس کی برتری ہے‘‘۔ ٣٨۔ چھینک آنا (اَلْعِطَاسُ)ھُوَاَمَان�مِنَ الْمَوْتِ ثَلَاثَۃَ اَیّٰامٍ۔(بحارالانوار،ج٥٢،٣٠کمال الدین) ’’ایک دفعہ چھینک کاآجاناتین دن کے واسطے موت سے امان ہے‘‘۔ ٣٩۔ شیطان کی تذلیل ورسوائی فَمَااُرْغِمَ اَنْفُ الشَّیْطَانِ بِشَیْئٍ مِثْلِ الصَّلٰوۃِ فَصَلَّھَاوَاَرْغِمْ اَنْفَ الشَّیْطَانِ۔(بحارالانوار،ج٥٣،ص١٨٢احتجاج) ’’نمازسے بہترکوئی اورعمل نہیںہے جوشیطان کوذلیل ورسوائ کرتاہے،یعنی نمازکے ذریعہ شیطان کی ناک زمین پررگڑی جاتی ہے اوراس کی بہت ہی تذلیل ہوتی ہے،پس تم نماز ادا کرواوراس کے ذریعہ شیطان کے تکبرکی ناک کوخاک میں ملادواوراسے ذلیل کرکے رکھ دو‘‘‘۔ ہدایت اِنِ اسْتَرْشَدْتَ اُرْشِدْتَ وَاِنْ طَلَبْتَ وَجَدْتَ۔(بحارالانوار،ج٥١،ص٣٣٩،کمال الدین ) اگرتم راہنمائی کے خواستارہوگے توتمہیں راہنمائی مل جائے گی اوراگرہدایت چاہوگے توتم ہدایت کوپالوگے جو�پرتلاش کرنے والے اپنی گمشدہ متاع کوبالآخرپالیتے ہیں۔ اظہارتشکر خداکالاکھ لاکھ شکرہے کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ میں اپنے زمانہ کے امام حجت خدا کی شان میں بیان کی گئی چالیس احادیث کاآسان وسادہ زبان میں ترجمہ کردوں اوراسی طرح یہ توفیق بھی مجھے نصیب ہوئی کہ چالیس ایسے منتخب بیانات کاتوجمہ بھی کرڈالوں جوخود حضرت ولی عصر(عج)کی طرف سے مختلف اوقات میں اپنے شیعوں کے واسطے مختلف مناسبتوں سے جاری ہوئے ہیں خداوندسے دعاہے وہ میری اس ادنیٰ سی کوشش کوقبول فرمائے اور اسے میرے والدین،میری اولاد اورمیری آخرت کاسرمایہ قراردے اورہم سب کواپنے بغیر وارث انبیائ خاتم الاوصیائ قائم آل محمد۰ مہدی (علیہ السلام)اورصاحب الزمان (علیہ السلام)وابرث علم البلادین والاخرین قرآن حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ناصران اوران کے مشن کے مبلغین سے قراردے