دو عظیم کتابیں
دو عظیم کتابیں
0 Vote
178 View
شیعوں کے اہم ماٴخذ (جو انکے عظیم ورثے کا ایک حصہ محسوب ہوتے ہیں)میں سے ایک نھج البلاغہ ہے جس میں تقریبا ایک ہزار سال پہلے شریف رضی مرحوم نے تین حصوں حضرت علی (ع) کے خطبات،خطوط اور مختصر فرمودات جمع کئے ہیں ۔اس کتاب کے مضامین اس قدر بلند اور الفاظ اتنے خوب صورت ہیں کہ کسی بھی مکتب فکرکا پیروکار جب اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے مفاہیم سے متاٴثر ہو جاتا ہے۔ اے کاش نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اس سے آشنا ہوتے تاکہ وہ توحید ، مبداٴ اور معاد کے علاوہ اخلاقی و سیاسی و معاشرتی مسائل کے بارے میں اسلام کی عظیم تعلیمات سے آگاہ ہوتے۔ ان عظیم ورثوں میں سے ایک عظیم ورثہ ”صحیفہ سجادیہ“ہے جو بہترین ،فصیح ترین اور زیباترین دعاؤں کا ایسا مجموعہ ہے جو بڑے عمیق اور بلند معانی پر مشتمل ہے ۔حقیقت میں یہ کتاب نھج البلاغہ والا کردار دوسرے انداز میں انجام دے رہی ہے۔ اس کے ایک ایک فقرے میں انسان کے لئے ایک نیا سبق پوشیدہ ہے ۔حقیقت میں یہ کتاب ”خدا کے حضور ہر انسان کو دعا اور مناجات کرنے کاسلیقہ سکھاتی ہے اور انسان کی روح اور دل کو نورانیت اور پاکیزگی عطا کرتی ہے۔ جیسا کہ اس کتاب کے نام سے واضح ہے یہ کتاب شیعوں کے چوتھے امام حضرت علی ابن الحسین علیہما السلام ،جن کا لقب سجاد ہے کی دعاؤں پر مشتمل ہے ۔ جب بھی ہم اپنے اندر دعا کی روح ،کدا کی طرف زیادہ توجہ اور اس کی ذات پاک سے زیادہ عشق پیدا کرنا چاہتے ہیں تویہ دعائیں پڑھتے ہیں اور اس نوخیز پودھے کی طرح جو بہار کے بابرکت بادلوں سے سےراب ہوتا ہے اس کتاب سے سےراب ہوتے ہیں۔ شیعہ احادیث جن کی تعداد دسیوں ہزار سے زیادہ ہے کا بیشتر حصہ پانچویں اور چھٹے امام یعنی امام محمد ابن علی الباقر(ع)اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق (ع) سے مروی ہے۔بہت سی احادیث آٹھویں امام حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے بھی مروی ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تین عظیم ہستیوں کو زمان و مکان کے اعتبار سے ایسا ماحول ملا جس میں ان پر دشمنوں اور اموی اور عباسی حکمرانوں کا دباؤ کم تھا ۔اسی وجہ سے یہ ہستیاں رسول اکرم (ص) کی بہت ساری احادیث جو ان تک اپنے آباء و اجداد کے ذریعہ پہنچی تھی بیان کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔یہ احادیث اسلامی فقہ کے تمام ابواب سے متعلق تھیں۔مذہب شیعہ کو مزہب جعفری کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی اکثر روایات چھٹے امام جعفر صادق (ع) سے مروی ہیں ۔ امام صادق (ع) کے دور میں بنی امیہ کی حکومت کمزور ہو چکی تھی اور بنی عباس کو ہنوز لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی طاقت نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ ہماری کتابوں کی رو سے مشہور ہے کہ اس امام نے حدیث ، معارف اور فقہ کے میدانوں میں چار ہزار شاگردوں کوو تربیت دی۔حنفی مذہب کے مشہور امام ابو حنیفہ نے ایک مختصر سے جملہ میں امام صادق علیہ السلام کا تعارف اس طرح پیش کیاہے”ما راٴیت افقہ من جعفر ابن محمد “یعنی میں نے جعفر ابن محمد (ع) سے برا فقیہ نہیں دیکھا۔(تذکرة الحفاظ ذہبی ،جلد ۱ صفحہ۱۶۶) اہل سنت کے ایک اور امام مالک بن انس نے کہا :میں کچھ عرصہ تک جعفر(ع) ابن محمد (ع) کے پاس آتا جاتا رہا۔میں نے انہیں ہمیشہ ان تین حالتوں میں سے ایک میں پایا:یا نماز کی حالت میں یا روزہ کی حالت میںیا قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے۔ میرے عقیدہ کے مطابق علم و عبادت کے حوالے سے کسی نے جعفر ابن محمد (ع) الصادق (ع)سے بڑھکر کسی شخص کو نہ دیکھا اور نہ کسی کے بارے میں سنا ہے ۔( تہذیب التہذیب جلد ۲ صفحہ ۱۰۴،کتاب الامام الصادق (ع)جلد ۱ صفحہ ۵۳ میں اسد حیدر کے بقول)۔چونکہ اس کتاب میں نہایت اختصار کے ساتھ مطالب کو بیان کرنا مقصود ہے لہٰذا آئمّہ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں دوسرے علمائے اسلام کے تبصروں کا تذکرہ نہیں کرتے۔