تفسیر عیاشی

تفسیر عیاشی

تفسیر عیاشی

Publication year :

2009

Publish location :

لاہور پاکستان

Number of volumes :

0

(1 پسندیدگی)

QRCode

(1 پسندیدگی)

تفسیر عیاشی

تفسیر عَیّاشی قرآن کریم کی احادیث کے ذریعے تفسیر یعنی تفسیر روایی ہے جسے شیعہ مفسر محمد بن مسعود عیاش السلمی السمرقندی معروف بہ عیاشی (متوفی سنہ 320 ھ) نے تحریر کیا ہے۔ عیاشی عصر غیبت صغری میں شیخ کلینی کا ہم عصر شیعہ متقدم محدثین میں سے ہیں اور یہ کتاب شیعوں کے حدیثی منابع میں شمار ہوتی ہے۔

بعد والی تفاسیر میں اس تفسیر سے جو مطالب ذکر کئے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفسیر پورے قرآن کی تفسیر پر مشتمل تھی لیکن اس وقت جو چیز اس تفسیر میں سے ہمارے پاس موجود ہے وہ سورہ حمد کی ابتداء سے سورہ کہف کے آخر تک ہے۔

تفسیر عیاشی کا تفسیر قمی اور تفسیر فرات کوفی (پہلی صدی ہجری کی دیگر روایی تفاسیر) سے وجہ تمایز یہ ہے کہ تفسیر عیاشی کو فقہی جہات سے آیات الاحکام قرار دیا گیا ہے۔ عیاشی نے علم کلام، شیعہ اور غیر شیعہ فرقوں سے بھی بحث کی ہے اور اس حوالے سے مختلف روایات کو بھی ذکر کیا ہے۔ ان تمام خصوصیات کے باوجود اس کتاب کو نقل اور اسے تدوین کرنے والوں کی طرف سے احادیث کے اسناد کو حذف کرکے بطور مرسل ذکر کرنے کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت میں کمی آئی ہے۔

تفسیر عَیّاشی عصر غیبت صغرا (260ـ329 ھ) سے متعلق شیعہ قدیمی تفاسیر میں سے ہے اور اس زمانے کے دوسرے شیعہ علمی آثار کی طرح اس میں بھی احادیث کا پہلو نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن مصنف کی آیات الاحکام پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے اس کا فقہی پہلو دوسرے شیعہ قدیمی تفاسیر جیسے تفسیر فرات کوفی اور تفسیر علی بن ابراہیم قمی کی فقہی پہلو سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔

کتاب کے بعض اجزاء کا مفقود ہونا

بعد والی تفاسیر میں اس تفسیر سے جو مطالب ذکر کئے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفسیر پورے قرآن کی تفسیر پر مشتمل تھی لیکن اس وقت جو چیز اس تفسیر میں سے ہمارے پاس موجود ہے وہ سورہ حمد کی ابتداء سے سورہ کہف کے آخر تک ہے۔ یہ تفسیر اصل میں دو جلدوں پر مشتمل علم تفسیر کے ماہرین کے ہاں موجود تھی جس سے وہ روایت نقل کرتے تھے۔ حاکم حسکانی اپنی کتاب شواہد التنزیل میں تقریبا 30 روایت اس کتاب سے نقل کرتے ہیں۔ شیخ طبرسی نے بھی اس کتاب کے دونوں جلدوں سے تقریبا 70 احادیث نقل کئے ہیں۔علامہ مجلسی فرماتے ہیں: اس تفسیر کے دو قدیم نسخوں کو میں نے دیکھا ہے۔

علامہ مجلسی کے زمانے کے بعد سے پھر اس کتاب کے دوسرے حصے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں اور آقا بزرگ تہرانی نے اس کتاب کے پہلے حصے کے خطی یا چاپ شدہ نسخوں کی تعداد کو چھ نسخوں تک شمار کرتے ہیں۔

مصنف اور اس تفسیر کی اہمیت

تفصیلی مضمون: محمد بن مسعود عیاشی

شیخ عیاشی علم رجال کے ماہرین میں سے تھے اور شیعہ اور اہل سنت مورخین نے اگرچہ آپ کی تعریف و تمجید کی ہے او آپ کو ایک فقیہ، محدث اور شیعہ بزرگان میں شمار کیا ہے؛ لیکن کہتے ہیں کہ آپ ضعیف افراد سے بھی بہت زیادہ احادیث نقل کرتے تھے۔

بہت سارے شیعہ بزرگان جیسے سید ہاشم بحرانی نے تفسیر البرہان میں، علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اور فیض کاشانی نے تفسیر صافی میں اس تفسیر سے بہت زیادہ احادیث نقل کی ہیں۔ علامہ طباطبایی نے اس کتاب پر ایک مقدمہ‌ لکھا ہے جس میں اس کتاب کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت کو بیان فرمایا ہے۔