تلاش حق(تلخیص المراجعات)

تلاش حق(تلخیص المراجعات)

تلاش حق(تلخیص المراجعات)

Publication year :

2003

Publish location :

قم ایران

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

تلاش حق(تلخیص المراجعات)

فن مناظرہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی باتمدن ملتیں، یہ فن ان ملتوں میں رائج تھا اس کے بعد اسلامی معاشرے میں بھی نظر آنے لگا، قرآں مجید میں اس کے لیے مجادلۂ احسن کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔

مناظرہ عموماً دو مختلف نظریات کے حامل افراد کے درمیان ہوتا ہے اگر دونوں چاہتے ہیں کہ مفید اور سودمند ہو تو پھر عدل و انصاف و حق جوئی کا دامن تھامنا ضروری ہے اور اگر عدل و انصاف و حق جوئی جیسی خصوصیات نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور دوری کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

اس سلسلے میں بے انتہاء کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں لیکن المراجعات جیسی عمدہ کتاب کم ہی منظر عام پر آسکی ہے۔

اس کتاب کے مؤلف ممتاز شیعہ عالم دین حضرت آیت اللہ علامہ سید عبد الحسین شرف الدین موسوی کاظمین میں ؁۱۲۹۰ بمطابق  ؁۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے، کاظمین اور نجف میں تعلیم حاصل کی اور اس زمانے کے انتہائی بلند مرتبہ عالم دین حضرت آیت اللہ شیخ محمد کاظم خراسانی (صاحب کفایہ) سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

آپ کی متعدد موضوعات پر نہایت قیمتی کتابیں موجود ہیں، آپ نے علمی کاموں کے ساتھ ساتھ دینی و اجتماعی منصوبوں میں بھی خدمات انجام دیں، آپ نے ۱۳۷۷ ہجری بمطابق ۱۹۵۷ عیسوی میں رحلت فرمائی۔

جبکہ دوسری طرف جناب شیخ سلیم البشری مالکی مسلک رکھتے تھے آپ ۱۲۴۸ہجری بمطابق ۱۸۳۲عیسوی ضلع بحیزہ کے محلہ بشر میں پیدا ہوئے اور جامعة الازھر میں تعلیم حاصل کی بعد میں دو مرتبہ اس عظیم الشان یونیورسٹی کے رئیس بھی قرار پائے، آپ نے جامعة الازھر کو پورے نظم و ضبط سے چلایا، رئیس ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں آپ پر عائد تھیں انہیں عمدگی کے ساتھ نبھایا۔آپ کی قلمی نگارشات بہت ہیں جن کا زیادہ تر حصہ قدیم علماء کی کتابوں پر حاشیہ اور گفتار مقدم کے عنوان سے ہے۔

حضرت آیت اللہ علامہ سید شرف الدین موسوی صاحب جب ۱۳۲۹ ہجری کو عازم مصر ہوئے تو ان کی الازھر یونیورسٹی کے رئیس شیخ سلیم بشری صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی، شیخ صاحب کو حضرت علامہ کی بلند نظری اور تاریخ، حدیث اور تفسیر کے وسیع مطالعے نے بہت متاثر کیا۔

انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے سے سوال و جواب کا سلسلہ جاری کریں تاکہ حقیقت حال واضح ہوجائے، لہٰذا اس طرح ’’مناظرات قلمی‘‘ کا سلسلہ شروع ہوکر (چھ ماہ کے اندر) ۱۱۲ خطوط پر اختتام پذیر ہوا جو المراجعات کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

المراجعات عربی زبان میں دسیوں مرتبہ چھپ چکی ہے اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی منظر عام پر آئے ہیں حتیٰ کہ اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے لیکن اس کتاب کی چند ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتابوں میں کم نظر آتی ہیں مثلاً: (۱) یہ کتاب ’’گفت و شنید‘‘ کی طرز پر منظّم کی گئی ہے۔ (۲) ہر گفتگو سے پہلے اس کا خلاصہ عناوین کی شکل میں ذکر کردیا گیا ہے۔ (۳) تکراری مباحث کو نہیں لکھا گیا ہے۔ (۴) زیادہ رجالی ابحاث سے صرف نظر کی گئی ہے۔ (۵) عمدہ حواشی اور بہترین تحقیقی موارد کو حاشیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ (۶) ہر بات کو حوالوں سے منظم کردیا گیا ہے۔ (۷) نوجوانوں کے لیے اس کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ (۸) ان تمام خصوصیات کے باوجود اصل کتاب سے مطالب نقل کرنے میں امانت داری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

اس کتاب کی تلخیص جناب حجة الاسلام والمسلمین علامہ علی اصغر مروّج خراسانی نے فرمائی ہے اور نظرِ ثانی کے فرائض حجة الاسلام والمسلمین مولانا سید محمد تقی نقوی نے انجام دیئے ہیں۔ زیر نظر کتاب اور ’’المراجعات-خلیفہ بلا فصل‘‘ نامی کتاب کے مطالب ایک ہی ہیں۔