واجب الوجود کا اثبات
واجب الوجود کا اثبات
Author :
تحریر آیة اللہ مصباح یزدی
1 Vote
208 View
مقدمہ ہم نے گذشتہ دروس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اسلامی فلاسفہ اور متکلمین نے خدا کے وجود کے ثابت کرنے کے لئے بہت سے دلائل اور براہین ذکر کئے ہیں جو فلسفہ وکلام کی بسیط کتابوں میں موجود ہیں، ہم ان تمام براہین میں سے ایک ایسے برہان کو بیان کریں گے کہ جسے سمجھنے کے لئے معمولی مقدمات کی ضرورت ہے ،اور جس کا سمجھنا آسان ہے۔ لیکن یہ مطلب واضح رہے کہ یہ دلیل صرف خدا کے وجود کو (واجب الوجود) ہونے کے اعتبار سے ثابت کرتی ہے یعنی وہ ایسا موجود ہے کہ جس کا وجود ضروری اور کسی پیدا کرنے والے سے بے نیاز ہے، اور ہم بقیہ صفات (ثبوتیہ و سلبیہ) جیسے علم و قدرت جسم کا نہ ہونا، زمان و مکان سے بے نیاز ہونا وغیرہ کو دوسرے دلائل کے ذریعہ ثابت کریں گے۔ متن برہان۔ کوئی بھی موجودعقلی،فرض کی بنیاد پر یاواجب الوجود ہے یا ممکن الوجود، ان دو صورتوں سے خارج نہیں ہے لہٰذا تمام موجودات کو ممکن الوجود نہیں کہا جاسکتا، اس لئے کہ ممکن الوجود کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے اور اگر تمام علتیں ممکن الوجود ہوں اور یہ سب کی سب کسی دوسری علت کی محتاج ہوں تو پھر کبھی کوئی موجود متحقق نہیں ہوسکتا، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق علتوں کا تسلسل محال ہے لہذا مجبوراً علتوں کا تسلسل ایک ایسے موجود پر تمام ہونا چاہیے کہ جو کسی دوسرے موجود کا معلول نہ ہو یعنی وہ واجب الوجود ہو۔ یہ دلیل اثبات خدا کے لئے تمام دلیلوں میں ہر ایک سے آسان ہے جو چند عقلی مقدمات پر مشتمل ہے، جسے سمجھنے کے لئے کسی بھی حسی اور تجربی مقدمہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن چونکہ اس دلیل میں فلسفی مفاہیم اور اصطلاحات کا استعمال ہوا ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ ان اصطلاحات اور مقدمات کہ جن سے یہ دلیل مرتب ہوئی ہے وضاحت کر دی جائے۔ امکان اور وجوب۔ ایک معمولی قضیہ آسان ہونے کے باوجود، دو اساسی مفہوم (موضوع و محمول) سے تشکیل پاتا ہے، جیسے یہ قضیہ٫٫ خورشید منور ہے،، خورشید کے منور ہونے پر دلالت کرتا ہے اس میں٫٫خورشید،، موضوع اور٫٫منور،،محمول ہے۔ موضوع کے لئے محمول کا ثابت ہونا تین حالتوں سے خارج نہیں ہے یا محال ہے جیسے یہ کہا جائے ٫٫تین کا عدد چار کے عدد سے بڑا ہے،، یا ضروری ہے جیسے یہ جملہ ٫٫دوچار کا نصف ہے ،،یا پھر نہ ہی محال ہے اور نہ ہی ضروری جیسے کہ ٫٫خورشید ہمارے سروں پر پہنچ چکا ہے،،منطقی اصطلاح کے مطابق صورت اول میں نسبت قضیہ وصف ٫٫امتناع،، اور دوسری صورت میں وصف ٫٫ضرورت،، یا ٫٫وجوب،، اور تیسری صورت میں وصف ٫٫امکان،،٫٫اپنے خاص مضامین،، سے متصف ہے۔ لیکن چونکہ فلسفہ میں (وجود) کے سلسلہ میں بحث کی جاتی ہے اور جو، شیٔ ممتنع و محال ہو کبھی بھی وجود خارجی سے متصف نہیں ہو سکتی، لہٰذا فلاسفہ نے موجود کو فرض عقلی کی بنیاد پر واجب الوجود اور ممکن الوجود میں تقسیم کردیا ہے، واجب الوجود یعنی ایک ایسا موجود جو خود بخود وجود میں آجائے اور کسی دوسرے وجود کا محتاج نہ ہو، لہٰذا ایسا موجود ہمیشہ ازلی و ابدی ہوگا اس لئے کہ کسی چیز کا معدو م ہونا اور کسی زمانہ میں نہ ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا وجود خود سے نہیں ہے بلکہ موجو دہونے کے لئے اُسے کسی دوسرے موجود کی ضرورت ہے جو اس کے متحقق اور موجود ہونے کی شرط ہے یا اس کے فاقد ہوتے ہی اس کا مفقود ہونا ضروری ہے اور ممکن الوجود یعنی ایک ایسا موجود کہ جس کا وجود خود سے نہ ہو بلکہ اسے موجود ہونے کے لئے کسی دوسرے موجود کی ضرورت ہو۔ یہ تقسیم جوفرض عقلی کی بنیاد پر کی گئی ہے ایک ایسے وجود کی نفی کرتی ہے کہ جو ممتنع الوجود بالضرورة ہو، لیکن یہ اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ خارجی موجودات ممکن الوجود ہیں یا واجب الوجود یا دوسرے الفاظ کے مطابق اس قضیہ کا صادق ہونا تین صورتوں میں تصور کیا جاسکتا ہے، ایک یہ کہ ہر موجود واجب الوجود ہو، دوسرے یہ کہ ہر موجود ممکن الوجود ہو ، تیسرے یہ کہ بعض موجودات ممکن الوجود اور بعض واجب الوجود ہوں، پہلے اور تیسرے فرض کی بنیاد پر واجب الوجود کا پایا جانا ثابت ہے لہذا اس فرضیہ کے سلسلہ میں تحقیق کرنا ہوگی کہ کیا ممکن ہے کہ تمام موجودات ممکن الوجود ہوں یا ایسا ہونا غیر ممکن ہے؟ اس فرضیہ کو باطل کرنے کے ذریعہ واجب الوجود کا وجود بطور قطعی ثابت ہو سکتاہے، اگر چہ وحدت اور بقیہ صفات کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضروت ہے ۔ لہٰذا دوسرے فرضیہ کو باطل کرنے کے لئے ایک دوسرے مقدمہ کو اس برہان میں شامل کرنا ہوگا، اور وہ یہ ہے کہ تمام موجود کا ممکن الوجود ہونا محال ہے، لیکن چونکہ یہ مقدمہ بدیہی اور آشکار نہیں ہے لہٰذا اس طرح اسے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ممکن الوجود کو علت کی ضرورت ہے اور علتوں میں تسلسل محال ہے لہذا اس صورت میں علتوں کے تسلسل کو ایک ایسے موجود پر ختم ہونا ہوگا کہ جو کسی دوسری علت کا محتاج نہ ہو یعنی واجب الوجود ہو ،یہیںسے فلسفی مفاہیم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جس کی وضاحت کرنانہایت ضروری ہے۔ علت اور معلول۔ اگر کوئی موجود کسی دوسر ی موجود کا محتاج ہو، اور اس کا وجود دوسرے کے وجود پر منحصر ہو تو اسے فلسفہ کی اصطلاح میںمحتاج موجود کو ٫٫معلول،، اور دوسرے کو٫٫علت،، کہا جاتا ہے، لیکن علت کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ مطلقاً محتاج نہ ہو ، بلکہ وہ خود بھی کسی دوسری علت کی طرف نسبت دیتے ہوئے معلول اور اس کی محتاج ہو،اگر علت کسی بھی نیاز مندی سے مبرّا ہو تو اسے علت مطلق کہا جاتا ہے۔ یہاں تک ہم فلسفی اصطلاح علت و معلول اور ان کی تعریفوں سے آشنا ہوئے ہیں، اب اس کے بعد اس مقدمہ کی وضاحت ضرور ی ہے (کہ ہر ممکن الوجود کو علت کی ضرورت ہے)چونکہ ممکن الوجود کا وجود خود سے نہیں ہوتا لہٰذا وہ اپنے متحقق ہونے کے لئے کسی دوسرے موجود کا محتاج ہے، اس لئے کہ یہ قضیہ بدیہی اور آشکار ہے کہ ہر وہ محمول جسے موضوع کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے یا تو،وہ خود بخود (بالذات) ثابت ہے، یا کسی دوسرے کی وجہ سے (بالغیر) اس کا ثبوت ہے جیسے کہ ایک شی یا تو خود بخود روشن ہے یا پھر کسی دوسری شی کی وجہ سے روشن ہوتی ہے، اور اس طرح ایک جسم یا تو خود بخود روغنی ہے یا پھر کسی دوسری شی کے ذریعہ اسے روغنی بنایا گیا ہے، لہٰذا یہ امر محال ہے کہ کوئی شئینہ تو خود بہ خود روشن ہو ،نہ ہی کسی شی کی وجہ سے روشن ہوئی ہو، در آں حالیکہ وہ روشن ہے ،اسی طرح ایک جسم نہ خود بہ خود بالذات روغنی ہو اور نہ ہی کسی دوسری شی کی وجہ سے روغنی ہوا ہو، اور اس کے باوجود بھی روغنی ہو تو یہ محال ہے ۔ پس ایک موضوع کے لئے وجود کا ثابت ہونا یا تو بالذات ہے یا بالغیر، اگر بالذات نہیں ہے تو ضرور بالغیر ہے، لہٰذا ہر ممکن الوجود جو خود بخود وجود سے متصف نہیں ہوا ہے وہ حتماً دوسری شی کے ذریعہ فیض وجود سے مستفیض ہوگا ، پس یہ وہی مسلمہ حقیقت کہ جسکوہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہے لیکن بعض لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اصل علیت کا معنی یہ ہے کہ (ہر موجود علت کا محتاج ہے) لہٰذا ان لوگوں نے یہ اشکال کیا ہے کہ پھر خدا کے لئے بھی علت ہونی چاہیے، لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ اصل علیت (موجود) بطور مطلق نہیں ہے بلکہ اس کا مو ضوع (ممکن الوجود) اور (معلول) ہے یا دوسری تعبیر کے مطابق ہر موجود محتاج علت کا محتاج ہے نہ ہر موجود۔ علتوں کے تسلسل کا محال ہونا۔ اس مقدمہ میں وہ آخری برہان جس کا استعمال ہوا ہے وہ یہ ہے کہ علتوں کا سلسلہ ایک ایسے موجود پر تمام ہو جو خود کسی کا معلول نہ ہو اس لئے کہ علتوں کا یہ نہایت تسلسل محال ہے اور اس طرح واجب الوجود کا وجود ثابت ہو جاتا ہے علت خود بخود موجود ہے اور کسی دوسرے وجود کی محتاج نہیں۔ فلاسفہ نے تسلسل کو باطل کرنے کے لئے متعدد دلیلیں پیش کی ہیں لیکن حقیقیت تو یہ ہے کہ علتوں کے سلسلہ میں تسلسل کا باطل ہونا آشکا رہے جو ایک معمولی تفکر سے سمجھ میں آجاتا ہے، یعنی چونکہ وجود معلول علت سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہے، اگر یہ فرض کرلیں کہ اس کی معلو لیّت عمومی ہے تو اس صورت میں کوئی موجود وجود میں نہیں آسکتا ،اس لئے کہ چند وابستہ موجودات کا ان کے مقابل موجود کے وجود ہونے کے بغیر فرض کرنا معقول نہیں ہے۔ آپ یہ فرض کریں کہ دوڑکے میدان میں ایک ٹیم طے کی جانے والی مسافت کے آغاز میں کھڑی ہے، اور سب کے سب دوڑنے کے لئے بالکل آمادہ ہیں، لیکن ہر ایک کا یہی ارادہ ہے کہ جب تک دوسرا نہیں دوڑتا وہ بھی نہیں دوڑے گا، یہ ارادہ اگر واقعاً عمومیت سے متصف ہو تو پھر ان میں سے کوئی بھی دوڑنے کے لئے قدم نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح اگر ہر موجود کا وجود میں آنا دوسرے موجود کے وجود میں آنے پر منحصر ہو توپھر کبھی بھی کوئی موجود وجود میں نہیں آسکتا، لہذاخارجی موجودات کا وجود میں آنا، اس بات کی علامت ہے کہ کوئی بے نیاز او غنی موجود ہے۔ تکرار دلیل برہان۔ گذشتہ بیان کئے گئے مقدمات کی روشنیمیں ایک بار پھر اسی برہان کا تکرارکرتے ہیں ہر وہ چیز جسے موجود کہا جاسکتا ہو وہ دو حال سے خارج نہیں، یا تو اس کے لئے وجود ضروری ہے یعنی وہ خود بخود موجود ہے کہ جسے اصطلاح میں (واجب الوجود) کہا جاتا ہے یا پھر اس کے لئے وجود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وجود کی برکت سے عالم وجود میں آیا ہے تو اسے اصطلاح میں (ممکن الوجود) کہا جاتا ہے اور یہ بات روشن ہے کہ جس چیز کا وجود محال ہو اس کا موجود ہونا غیر ممکن اور کسی بھی صورت میں اسے موجود کا نام نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ہر موجود یا واجب الوجود ہے یا ممکن الوجود ۔ مفہوم (ممکن الوجود) میں غور و فکر کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جوشی بھی اس مفہوم کی مصداق بنے وہ علت کی محتاج ہوگی، اس لئے کہ جب کوئی موجود خود بخود موجود میں نہ آیا ہو تو مجبوراً کسی دوسرے موجود کے ذریعہ وجود میں آیا ہے جیسا کہ ہر وہ وصف جو بالذات نہ ہو تو اس کا بالغیر ہونا ضروری ہے اور قانون علیّت کا مفاد بھی یہی ہے کہ ہر وابستہ اور ممکن الوجود، کسی نہ کسی علت کا محتاج ہے کیا یہ کہنا درست ہے کہ بے علت خدا پر اعتقاد رکھناقانون علیت کو توڑناہے! اور اگر ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہو تو کسی بھی حال میں کوئی موجود محقق نہیں ہوسکتا، یہ فرض بالکل اسی طرح ہے جسمیں ہر فرد اگر اپنے اقدام کو دوسرے کے آغاز پر مشروط کردے تو پھر کسی قسم کا کوئی اقدام وقوع پذیر نہیں ہوسکتا، لہذا خارجی موجودات کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی واجب الوجود موجود ہے۔