خدا کی صفات

مقدمہ گذشتہ دروس میں ہم نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ فلسفی دلائل کا نتیجہ ایک ایسے موجود کا ثابت کرنا ہے جو بعنوان (واجب الوجود) ہے اور دوسرے دلائل کے ذریعہ اس کی سلبی اور ثبوتی صفات کو ثابت کیا جاتا ہے تاکہ خدا وندعالم اپنے مخصوص صفات کے ذریعہ مخلوقات کے دائرے سے الگ ہو کر پہچانا جائے ، اس لئے کہ معرفت کے لئے صرف واجب الوجود کی حثیت سے جاننا کافی نہیں ہے، کیوں ؟ اس لئے کہ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ مادہ یا انرجی (قوت و طاقت) بھی واجب الوجود کا مصداق بن سکتے ہیں، لہٰذا اس کی سلبی صفات ثابت ہونا چاہیے تا کہ اس طرح یہ معلوم ہو جائے کہ واجب الوجو د کی ذات ، اُن صفات سے منزہ ہے جو مخلوقات میں پائی جاتی ہیں اور اس کی صفات مخلوقات پر صادق نہ آ سکتی اسی طرح اس کی صفات ثبوتیہ کا بھی ثابت ہونا ضروری ہے تا کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ لائق پرستش و عبادت ہے، اور دوسرے عقائد، نبوت، معاد ا ور فروع کے اثبات کا راستہ آسان ہوجائے۔ گذشتہ برہان و دلیل سے یہ ثابت ہوگیا کہ واجب الوجود کو علت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ ممکنات کے لئے خود علت ہے، یا دوسری تعبیر کے مطابق واجب الوجود کے لئے دو صفت ثابت ہیں ایک یہ کہ وہ ہر شی سے بے نیاز ہے، اس لئے کہ اگر اس میں معمولی سے احتیاج بھی پائی گئی تو وہ جس شی کا محتاج ہوگا وہ شیء اس کی علت بن جائے گی، کیونکہ بخوبی ہمیں معلوم ہے کہ (فلسفی اصطلاح ) میں علت کے معنی یہی ہیں کہ تمام موجودات اس کے محتاج ہوں اور دوسرے یہ کہ ممکن الوجودشی اس کی طرف نسبت دیتے ہوئے معلول ہیں، اور اس کی ذات تمام اشیاء کی پیدائش کی سب سے پہلی علت ہے۔ ان دو نتیجوں کے بعد ان کے لوازمات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، صفات سلبیہ اور صفات ثبوتیہ کو پیش کریں گے، البتہ انھیں ثابت کرنے کے لئے فلسفی اور کلامی کتابوں میں متعدد دلیلیں ذکر کی گئیں ہیں، اسی لئے ہم یہاں صرف یہاں بات کو آسانی سے سمجھنے کے لئے اور سلسلہ کلام کو ربط دیتے ہوئے انھیں دلائل کو ذکر کریںگے جو گذشتہ براہین سے مربوط ہوں۔ خدا کا ازلی و ابدی ہونا۔ اگر کوئی موجود کسی دوسرے موجود کا معلول اور اس کا محتاج ہو تو پھر اس کا وجود اسی کا تابع کہلائے گا اور علت کے جاتے ہی اس کا وجود مٹ جائے گا، یا دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ کسی بھی موجود کا معدوم ہوجانا ،اس کے ممکن الوجود ہونے کی علامت ہے، اور چونکہ واجب الوجود کا وجود خود بخود ہوتا ہے اور وہ اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں ہوتا ہے لہٰذا وہ ہمیشہ ہمیشہ باقی بھی رہے گا۔ اس طرح واجب الوجود کے لئے دو صفتیں اور ثابت ہوتی ہیں، ایک اس کا ازلی ہونا، یعنی گذشتہ ادوار میں بھی تھا ،اور دوسرا ابدی ہونا یعنی وہ مستقبل میں بھی باقی رہے گا، اور کبھی کبھی ان دونوں اصطلاحوں کو ایک کلمہ (سرمدی) کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔ لہذا ہر وہ موجود جس میں سابقۂ عدم یا امکان زوال ہو وہ کبھی بھی واجب الوجود نہیں ہو سکتا لہذااس طرح سے تمام مادی قضایا کے واجب الوجود ہونے کا مفروضہ باطل ہو جاتا اور اس کا باطل ہونا بہت زیادہ واضح و روشن ہے۔ صفات سلبیہ۔ واجب الوجود کے لوازمات میں سے ایک صفت بساطت اور اس کا مرکب نہ ہونا ہے، اس لئے کہ ہر مرکب شی کا اس کے اجزا کی جانب محتاج ہونا واضح ہے، جبکہ واجب الوجود ہر قسم کی احتیاج سے مبرا ہے۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ واجب الوجود کے اجزا بالفعل نہیں ہیں ،بلکہ ایک لکیر کے ضمن میں دو لکیروں کا فرض کرنا ہے، تو یہ فرض بھی باطل ہے، اس لئے کہ وہ چیز جو بالقوہ اجزا کی مالک ہو وہ عقلاً تجزیہ کے قابل ہوگی، اگر چہ وہ خارج میں متحقق نہ ہو اور تجزیہ کے ممکن ہونے کا مطلب تمام امکان کا زائل ہونا ہے، چنانچہ اگر ایک میٹر لمبی لکیر کو دوحصوں میں تقسیم کردیا جائے تو اس کے بعد وہ ایک میٹر لمبی لکیر نہیں رہ سکتی، اور یہ مطلب ہمیں پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ واجب الوجود کے لئے زوال نہیں ہے۔ اور چونکہ بالفعل اجزا سے مرکب ہونا اجسام کا خاصہ ہے، لہٰذا اس سے یہ مطلب بھی واضح جاتا ہے کہ کوئی بھی جسمانی موجود واجب الوجود نہیں ہو سکتا یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اس کے ذریعہ خدا کا مجرد ہونا اور جسمانی نہ ہونا ثابت ہوجاتا ہے، نیز یہ مطلب بھیروشن ہوجاتا ہے کہ ذات خداوند متعال کو آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا اور ظاہر ی وسائل سے محسوس نہیں کیا جاسکتا، ا س لئے کہ محسوس ہونا اجسام و جسمانیات کے خواص میں سے ہے جسمانیت کی نفی کے ذریعہ اجسام کے اپنے تمام خواص جیسے مکان و زمان سے متعلق ہونا بھی واجب الوجود سے سلب ہوجاتا ہے، اِس لئے کہ مکان اُس کے لئے متصور ہے جس میں حجم و امتداد ہو، اسی طرح ہر وہ شی جس میں زمانہ پایا جاتا ہو وہ لحظہ اور امتداد زمانہ کے لحاظ سے قابل تجزیہ ہے اور یہ بھی ایک قسم کا امتد اد اور اجزا بالقوہ کی ترکیب ہے، لہٰذا خدا کے لئے مکان و زمان کا تصور باطل ہے اور کوئی بھی مکان و زمان سے متصف موجود واجب الوجود نہیں ہوسکتا۔ سر انجام، واجب الوجود سے زمان کی نفی کے ذریعہ حرکت و تغیر اور تکامل( کمال کی طرف جانے ) کا تصور بھی باطل ہوجاتا ہے، اس لئے کہ زمان کے بغیر کوئی بھی حرکت اور تغیر غیر ممکن ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو خدا کے لئے مکان ،جیسے عرش کے قائل ہوئے ہیں، یا اس سے حرکت اور آسمان سے نزول کی نسبت دی ہے یااُ سے آنکھوں سے قابل دید سمجھا ہے ،یا اسے قابل تغیر اور حرکت جانا ہے، در اصل ان لوگوں نے خدا کو بخوبی درک نہیں کیا ہے۔(١) کلی طور پر ہر وہ مفہوم جو کسی بھی انداز میں نقص، محدودیت یا احتیاج پر دلالت کرے خدا کے لئے منتفی ہے، اور صفات سلبیہ کا مطلب بھی یہی ہے۔ موجودات کو وجود بخشنے والی علت۔ گذشتہ دلیل کے ذریعہ جو مطلب واضح ہو چکا ہے وہ یہ ہے کہ واجب الوجود ممکنات کی پیدائش کا سبب ہے، اب اس کے بعد اس مطلب کے دوسرے پہلو کے سلسلہ میں بحث کریں گے، پہلے مرحلہ میں علت کی اقسام کی ایک مختصر وضاحت کرنے کے بعد علیّت الٰہی کی خصوصیات بیان کریں گے۔ علت اپنے عام معنی میں ہر اس موجود کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی دوسرے موجود سے وابستہ اور اس کے مد مقابل ہو، یہاں تک کہ یہ شروط اور مقدمات(٢) کو بھی شامل ہے اور خدا کے علت نہ رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی بھی موجود سے وابستہ نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کے لئے کسی قسم کی شرط یا معدی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ………………………… (١)مکان رکھنا، آسمان سے نازل ہونا اور آنکھوں سے دیکھائی دینے کا عقیدہ بعض اہل سنت کا ہے، تغیر و تکامل کا نظریہ فلاسفہ غرب کی ایک جماعت کا ہے جن میں سے ھگل، برگسوں اور ویلیام جیمز ہیں، لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تغیر اور حرکت کی نفی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ساکن ہے بلکہ اس کی ذات کے ثبات کے معنی میں ہے اور ثبات، تغیر کی نقیض ہے، لیکن سکون حرکت کے مقابلہ میں عدم ملکہ ہے، اور اس چیز کے علاوہ کہ جس میں حرکت کی قابلیت ہو کسی دوسری شی کے لئے نہیں بولا جاتا (٢)علل اعدادی کو کہا جاتا ہے۔ لیکن مخلوقات کے مقابلہ میں خدا کے علت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خلقت کووجود بخشنے والا ہے، جو علیت فاعلی کی ایک خاص قسم ہے، اس مطلب کی وضاحت کے لئے ہم مجبور ہیں کہ علت کی اقسام کو اجمالاً بیان کریں ،اور اس کی تفصیلی وضاحت کو فلسفی کتابوں کے حوالہ کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ ایک سبرے کے اُگنے اور بڑھنے کے لئے مناسب بیج، زمین، خاک، آب و ہوا وغیرہ کی ضرورت ہے،اوریہ بھی طبیعی ہے کہ اسے کوئی زمین میں بوئے، اور اس کی آبیاری کرے، مذکورہ علّت کی تعریف کے مطابق جو کچھ ذکر کیا گیا وہ سبزے کے رشدو نمو کی علتیں ہیں۔ ان مختلف علتوں کو مختلف نظریات اور عقائد کے تحت چند اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جیسے علتوں کا وہ مجموعہ کہ جس کا وجود معلول کے لئے ہمیشہ ہونا ضروری ہے (علت حقیقی) اور علتوں کا وہ مجموعہ کہ جس کی بقا ،معلول کی بقا کے لئے لازم نہیں ہے (جیسے سبزہ کے لئے کسان) ( علت اعدادی) یا( معدات) کہا جاتا ہے، اسی طرح جانشین پذیز علتوں کو ( علت جانشینی) اور بقیہ علتوں کو ( کلت انحصاری) کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن ایک علّت اور بھی ہے جو ان تمام علتوں سے متفاوت ہے جسے سبزہ کی رشد کے لئے ذکر کیا گیا ہے، جسے بعض نفسانی قضایا میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، جب انسان اپنے ذہن میں کسی کی صورت کو خلق کرتا ہے یا کسی امر کے انجام دینے کا ارادہ بناتا ہے تو ا س کے ساتھ فوراً ہی ایک نفسانی اثر بنام (صورت ذہنی) اور (ارادہ) متحقق ہوتا ہے کہ جس کا وجود، نفس کے وجود سے وابستہ ہے اسی وجہ سے ا ُسے اس کا معلول مانا جاتا ہے، لیکن معلول کی یہ قسم ایسی ہے کہ جو اپنی علت سے کسی بھی اعتبار سے مستقل و بة نیاز نہیں ہے اور وہ کبھی بھی اس سے جدا ہو کر مستقل نہیں رہ سکتی، اس کے علاوہ نفس کی فاعلیّت، صورت ذہنی یا ارادہ کی طرف نسبت دیتے ہوئے ان شرائط سے مشروط ہے کہ جس کی وجہ سے نقص، محدودیّت اور ممکن الوجود ہونا لازم آتا ہے، لہٰذا جہان کے لئے واجب الوجود کی فاعلیت قضایا ئے ذھنی کے لئے نفس کی فاعلیت سے بالا تر ہے کہ جس کی نظیر تمام فاعلوں میں نہیںملتی اس لئے کہ وہ کسی بھی احتیاج کے بغیر اپنے اس معلول کو وجود میں لاتا ہے کہ جس کی تمام ہستی اس سے وابستہ ہے۔ وجود بخشنے والی علت کی خصوصیات۔ اب تک جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق وجود آ)فرین علت (وجود بخشنے والی علت) کی چند خصوصیات بیان کی جاسکتی ہیں۔ ١۔ علت وجود آفرین کو اپنے معلولات کے تمام کمالات سے بنحو احسن و اکمل متصف ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ہر موجود میں اس کی ظرفیت کے مطابق اضافہ کر سکے برخلاف علت ٫٫مادی،، وعلت٫٫معدی،، کة وہ فقط اپنے معلولات میں تغیر و تحول ایجاد کرتی ہے، اس کے لئے لازم نہیں ہے وہ ان تمام کمالات کے مالک ہوں جیسے کہ خاک کے لئے یہ لازم نہیں ہے کہ اس میں سبزہ کی تمام خصوصیات ہوں،یا ماں باپ اپنی اولاد کی خصوصیات سے متصف ہوں، لیکن وجود آفرین خدا کا اپنی بساطت کے باوجود تمام کمالات وجودی سے متصف ہونا ضروری ہے۔(١) ٢ ۔ علّت وجود آفرین اپنے معلول کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور اس کی خلقت کے ساتھ اس میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، لیکن فاعل طبیعی کاحال بالکل اس سے متفاوت ہے کہ جن کا کام صرف معلول کے میں تغیر ایجاد کرنا اور قوت و طاقت صرف کرنا ہے اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مخلوقات کی خلقت سے واجب الوجود سے کوئی چیز کم ہوجاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذات الٰہی میں تجزیہ پذیری ممکن ہے جبکہ اس کا باطل ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ ٣۔علت وجود آفرین ایک حقیقی علت ہے جسکا معلول کی بقا کے لئے باقی رہنا ضروری ہے لیکن علت اعدادی میں معلول کی بقا، علت کی بقا سے وابستہ نہیں ہے۔ ……………………… (١)یہ معلوم ہونا چا ہیے کہ مخلوقات کے کمالات کے حاصل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے مفاہیم (جیسے مفہوم جسم و انسان) بھی خدا پر قابل صدق ہوں، اس لئے کہ ایسے مفاہیم محدود اور ناقص موجودات پر دلالت کرتے ہیں، اسی وجہ سے خدا پر قابل صدق نہیں ہیں کہ جو بے نہایت کمالات کا مالک ہے۔ لہٰذا جو کچھ بھی بعض اہل سنت کے متکلمین سے نقل ہوا ہے کہ عالم اپنی بقا میں خدا کا محتاج نہیں ہے، یا بعض اقوال جو غربی فلاسفہ سے نقل ہوئے ہیں کہ جہان طبیعت کی مثال ایک گھڑی کی طرح ہے ہمیشہ کے لئے اس میں چابی بھر دی گئی ہے جسے اپنی حیات کو جاری رکھنے کے لئے خدا کی ضرورت نہیں ہے یہ سب کچھ حقیقت کے بر خلاف ہے بلکہ جہان ہستی ہمیشہ ہر دور اور تمام حالات میں خدا کی محتاج ہے، اور اگر وہ( حق تعالی )ایک لحظہ کے لئے بھی افاضہ ہستی سے نظر پھیر لے، تو اس کا وجود مٹ جائیگا۔