دین حق مذہب اہل بیتؑ(المراجعات)

دین حق مذہب اہل بیتؑ(المراجعات)

دین حق مذہب اہل بیتؑ(المراجعات)

Publication year :

1987

Publish location :

ممبئی ہندوستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

دین حق مذہب اہل بیتؑ(المراجعات)

شام کے علاقے حلب میں شافعی مذہب کے دو بزرگ علماء تبلیغ دین میں مشغول تھے۔یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ بڑے بھائی کا نام شیخ محمد امین الانطاکی اور چھوٹے بھائی کا نام شیخ احمد امین الانطاکی تھا۔ ان دونوں علماء نے اپنے علاقے کے بزرگ علماء سے کسب فیض کرنے کے علاوہ مصر کے جامعہ الازہر سے بھی اعلی تعلیم حاصل کی تھی۔ انہیں جامعہ الازہر میں بطور استاد درس و تدریس کی پیش کش ہوئی تھی، مگر دونوں یہ کہہ کر اپنے علاقے میں واپس آئے کہ ان کے اپنے علاقے کو ان کی ضرورت زیادہ ہے۔

ان دونوں علماء کو متعدد بار علمائے شیعہ سے مناظرہ و مباحثہ کرنے کا موقعہ بھی ملا۔ مگر یہ اپنے نظریات کا دفاع کرتے رہے اور ان مناظروں کا ان کے اعتقادات پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایک مرتبہ عشاء کی نماز کے بعد ایک نوجوان نے شیخ محمد امین انطاکی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک جاننے والے نے شیعوں کی ایک کتاب مطالعہ کیلئے دی ہے. کیا وہ اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یہ سن کر شیخ محمد امین کو سخت غصہ آیا. شیخ نے اس نے اس جوان کو سخت الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ شیعوں کی کتابیں گمراہ کن ہوتی ہیں . اس نے یہ کتاب کسی سے لیا ہی کیوں؟ اس پر اس نوجوان نے کہا کہ شیخ صاحب ! میں نے یہ کتاب ابھی تک پڑھی نہیں ہے، میں تو آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ آیا اس کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں۔ اس پر آپ مجھ پر غصہ کیوں ہورہے ہیں؟

نوجوان کی یہ معقول بات سن کر شیخ محمد امین انطاکی کو احساس ہوا کہ اس نے غصے میں بچارے نوجوان کو بے جا برا بھلا کہا ہے۔ اس پر اپنی جھینپ مٹانے کے لئے اس جوان سے کہا کہ وہ یہ کتاب انہیں دیدے۔ وہ رات کو اس کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں گے کہ یہ کتا ب کیسی ہے۔ شیخ صاحب نے کتاب تو لے لی، مگر انہوں نے دل میں یہ طے کیا کہ شیعوں کی کتاب پڑھنا تو نہایت غلط کام ہے، اس لئے وہ اگلے دن کتاب کو پڑھے بغیر ہی اس جوان کو واپس کریں گے، اور کہیں گے کہ یہ کتاب ٹھیک نہیں ہے اس لئے اسے پھاڑ کر پھینک دے۔

رات کو جب سونے کیلئے اپنے بستر پر گئے تو انہیں وہ کتاب یاد آئی ۔ پھر انہوں نے سوچا کہ کتاب کو پڑھے بغیر اس نوجوان کو یہ کہنا کہ میں نے پڑھی ہے یہ تو جھوٹ ہے، اس لئے جھوٹ سے بچنے کیلئے اس کا سرسری سا مطالعہ کرتا ہوں۔ یہ سوچ کر انہوں نے کتاب اٹھائی اور اس کا مطالعہ شروع کیا۔ لیکن اس کتاب نے اسے اس طرح اپنی طرف جذب کیا کہ انہیں کسی چیز کا ہوش نہ رہا ۔ انہیں ہوش تب آیا جب آذان صبح کی آواز آئی۔ تب تک وہ پوری کتاب ختم کرچکا تھا، اور شیعہ ہوگیا تھا۔

صبح انہوں نے یہ کتاب اپنے چھوٹے بھائی شیخ احمد امین کو دیدی اور کہا کہ یہ شیعوں کی ایک کتاب ہے، اس کا مطالعہ کرکے مجھے بتانا کہ یہ کیسی کتاب ہے۔ یہ سن کر شیخ احمد کو سخت غصہ آیا اور اس نے اپنے بڑے بھائی کو صاف کہا کہ وہ کوئی گمراہ کن کتاب پڑھنا نہیں چاہتے ۔ اس پر شیخ محمد نے کہا کہ پڑھنے میں کیا ہرج ہے، اس پر عمل نہ کرنا۔ یہ سن کر شیخ احمد لاجوا ب ہوگئے اور انہوں نے کتاب رکھ لی۔ اگلی صبح شیخ احمد اپنے بڑے بھائی شیخ محمد کے پاس آئے اور کہا کہ یہ تو عجیب و غریب کتاب تھی۔ جب میں نے اسے ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا تو بس پڑھتا ہی گیا، اور جب کتاب ختم ہوئی تو صبح کی اذان کی آواز آرہی تھی اور میں شیعہ ہوچکا تھا۔ شیخ محمد نے کہا کہ یہی ان کے ساتھ گزشتہ کل ہوچکا ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب المراجعات تھی۔

اس کے بعد یہ دونوں علماء عراق اور ایران آئے، اور وہاں کے بزرگ علماء و مراجع عظام سے ملاقاتیں کیں۔ پھر انہوں نے مذہب اہلبیتؑ اختیار کرنے کی وجوہات پر متعدد کتابیں اور مقالات لکھے۔ اہلسنت کے علماء اور عوام دونوں نے ان کے اپنے علاقے کے علاوہ دیگر مقامات سے بھی ان کی شدید مخالفت شروع کی۔ لیکن دونوں نے ان مخالفتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اور اپنے علاقے میں مذہب تشیع کی تبلیغ کرتے رہے، اور بہت سارے لوگوں کو مذہب اہلبیت ؑ کی طرف رہنمائی کی۔

صرف یہی دو علماء نہیں، اس کتاب نے بیشمار علماء و دانشوران اہلسنت کو مذہب اہلبیت ؑ کی طرف رہنمائی کی ہے۔

یوں تو مناظرے پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن لبنان کے ایک مجتہد اور جامعۃ الازہر کےمفی اعظم کے درمیاں خط وکتابت کے ذریعے جو مناظرہ ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔اورجب سے یہ مںاظرہ کتابی صورت میں چھپا ہے اس نے علمی ۔ مذہبی حلقوں میں ہل چل مچا رکھی ہے ۔ عربی میں اس کتاب کا نام " المراجعات" ہے اور اس کتاب کا دُنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اورپیش نظر کتاب بھی اسی کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہزاووں کی تعداد میں لوگ مذہب حقہ قبول کر چکےہیں جن میں علما، محققین ، دانشور اور دیگر شعبہ ہاے زندگی سے تعلق والے افراد شامل ہیں ۔

فن مناظرہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی باتمدن ملتیں، یہ فن ان ملتوں میں رائج تھا اس کے بعد اسلامی معاشرے میں بھی نظر آنے لگا، قرآں مجید میں اس کے لیے مجادلۂ احسن کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔

مناظرہ عموماً دو مختلف نظریات کے حامل افراد کے درمیان ہوتا ہے اگر دونوں چاہتے ہیں کہ مفید اور سودمند ہو تو پھر عدل و انصاف و حق جوئی کا دامن تھامنا ضروری ہے اور اگر عدل و انصاف و حق جوئی جیسی خصوصیات نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور دوری کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

اس سلسلے میں بے انتہاء کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں لیکن المراجعات جیسی عمدہ کتاب کم ہی منظر عام پر آسکی ہے۔

اس کتاب کے مؤلف ممتاز شیعہ عالم دین حضرت آیت اللہ علامہ سید عبد الحسین شرف الدین موسوی کاظمین میں ؁۱۲۹۰ بمطابق  ؁۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے، کاظمین اور نجف میں تعلیم حاصل کی اور اس زمانے کے انتہائی بلند مرتبہ عالم دین حضرت آیت اللہ شیخ محمد کاظم خراسانی (صاحب کفایہ) سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

آپ کی متعدد موضوعات پر نہایت قیمتی کتابیں موجود ہیں، آپ نے علمی کاموں کے ساتھ ساتھ دینی و اجتماعی منصوبوں میں بھی خدمات انجام دیں، آپ نے ۱۳۷۷ ہجری بمطابق ۱۹۵۷ عیسوی میں رحلت فرمائی۔

جبکہ دوسری طرف جناب شیخ سلیم البشری مالکی مسلک رکھتے تھے آپ ۱۲۴۸ہجری بمطابق ۱۸۳۲عیسوی ضلع بحیزہ کے محلہ بشر میں پیدا ہوئے اور جامعة الازھر میں تعلیم حاصل کی بعد میں دو مرتبہ اس عظیم الشان یونیورسٹی کے رئیس بھی قرار پائے، آپ نے جامعة الازھر کو پورے نظم و ضبط سے چلایا، رئیس ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں آپ پر عائد تھیں انہیں عمدگی کے ساتھ نبھایا۔آپ کی قلمی نگارشات بہت ہیں جن کا زیادہ تر حصہ قدیم علماء کی کتابوں پر حاشیہ اور گفتار مقدم کے عنوان سے ہے۔

حضرت آیت اللہ علامہ سید شرف الدین موسوی صاحب جب ۱۳۲۹ ہجری کو عازم مصر ہوئے تو ان کی الازھر یونیورسٹی کے رئیس شیخ سلیم بشری صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی، شیخ صاحب کو حضرت علامہ کی بلند نظری اور تاریخ، حدیث اور تفسیر کے وسیع مطالعے نے بہت متاثر کیا۔

انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے سے سوال و جواب کا سلسلہ جاری کریں تاکہ حقیقت حال واضح ہوجائے، لہٰذا اس طرح ’’مناظرات قلمی‘‘ کا سلسلہ شروع ہوکر (چھ ماہ کے اندر) ۱۱۲ خطوط پر اختتام پذیر ہوا جو المراجعات کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

المراجعات عربی زبان میں دسیوں مرتبہ چھپ چکی ہے اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی منظر عام پر آئے ہیں حتیٰ کہ اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے لیکن اس کتاب کی چند ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتابوں میں کم نظر آتی ہیں مثلاً: (۱) یہ کتاب ’’گفت و شنید‘‘ کی طرز پر منظّم کی گئی ہے۔ (۲) ہر گفتگو سے پہلے اس کا خلاصہ عناوین کی شکل میں ذکر کردیا گیا ہے۔ (۳) تکراری مباحث کو نہیں لکھا گیا ہے۔ (۴) زیادہ رجالی ابحاث سے صرف نظر کی گئی ہے۔ (۵) عمدہ حواشی اور بہترین تحقیقی موارد کو حاشیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ (۶) ہر بات کو حوالوں سے منظم کردیا گیا ہے۔ (۷) نوجوانوں کے لیے اس کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ (۸) ان تمام خصوصیات کے باوجود اصل کتاب سے مطالب نقل کرنے میں امانت داری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

اس کتاب کی تلخیص جناب حجة الاسلام والمسلمین علامہ علی اصغر مروّج خراسانی نے فرمائی ہے اور نظرِ ثانی کے فرائض حجة الاسلام والمسلمین مولانا سید محمد تقی نقوی نے انجام دیئے ہیں۔

فن مناظرہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی باتمدن ملتیں، یہ فن ان ملتوں میں رائج تھا اس کے بعد اسلامی معاشرے میں بھی نظر آنے لگا، قرآں مجید میں اس کے لیے مجادلۂ احسن کی تعبیر استعمال ہوئی ہے۔

مناظرہ عموماً دو مختلف نظریات کے حامل افراد کے درمیان ہوتا ہے اگر دونوں چاہتے ہیں کہ مفید اور سودمند ہو تو پھر عدل و انصاف و حق جوئی کا دامن تھامنا ضروری ہے اور اگر عدل و انصاف و حق جوئی جیسی خصوصیات نہ ہوں تو پھر لڑائی جھگڑے اور دوری کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

اس سلسلے میں بے انتہاء کتابیں لکھی گئی ہیں ان کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں لیکن المراجعات جیسی عمدہ کتاب کم ہی منظر عام پر آسکی ہے۔

اس کتاب کے مؤلف ممتاز شیعہ عالم دین حضرت آیت اللہ علامہ سید عبد الحسین شرف الدین موسوی کاظمین میں ؁۱۲۹۰ بمطابق  ؁۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئے، کاظمین اور نجف میں تعلیم حاصل کی اور اس زمانے کے انتہائی بلند مرتبہ عالم دین حضرت آیت اللہ شیخ محمد کاظم خراسانی (صاحب کفایہ) سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

آپ کی متعدد موضوعات پر نہایت قیمتی کتابیں موجود ہیں، آپ نے علمی کاموں کے ساتھ ساتھ دینی و اجتماعی منصوبوں میں بھی خدمات انجام دیں، آپ نے ۱۳۷۷ ہجری بمطابق ۱۹۵۷ عیسوی میں رحلت فرمائی۔

جبکہ دوسری طرف جناب شیخ سلیم البشری مالکی مسلک رکھتے تھے آپ ۱۲۴۸ہجری بمطابق ۱۸۳۲عیسوی ضلع بحیزہ کے محلہ بشر میں پیدا ہوئے اور جامعة الازھر میں تعلیم حاصل کی بعد میں دو مرتبہ اس عظیم الشان یونیورسٹی کے رئیس بھی قرار پائے، آپ نے جامعة الازھر کو پورے نظم و ضبط سے چلایا، رئیس ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں آپ پر عائد تھیں انہیں عمدگی کے ساتھ نبھایا۔آپ کی قلمی نگارشات بہت ہیں جن کا زیادہ تر حصہ قدیم علماء کی کتابوں پر حاشیہ اور گفتار مقدم کے عنوان سے ہے۔

حضرت آیت اللہ علامہ سید شرف الدین موسوی صاحب جب ۱۳۲۹ ہجری کو عازم مصر ہوئے تو ان کی الازھر یونیورسٹی کے رئیس شیخ سلیم بشری صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی، شیخ صاحب کو حضرت علامہ کی بلند نظری اور تاریخ، حدیث اور تفسیر کے وسیع مطالعے نے بہت متاثر کیا۔

انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہم خط و کتابت کے ذریعے ایک دوسرے سے سوال و جواب کا سلسلہ جاری کریں تاکہ حقیقت حال واضح ہوجائے، لہٰذا اس طرح ’’مناظرات قلمی‘‘ کا سلسلہ شروع ہوکر (چھ ماہ کے اندر) ۱۱۲ خطوط پر اختتام پذیر ہوا جو المراجعات کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

المراجعات عربی زبان میں دسیوں مرتبہ چھپ چکی ہے اور اس کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی منظر عام پر آئے ہیں حتیٰ کہ اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے لیکن اس کتاب کی چند ایسی خصوصیات ہیں جو دوسری کتابوں میں کم نظر آتی ہیں مثلاً: (۱) یہ کتاب ’’گفت و شنید‘‘ کی طرز پر منظّم کی گئی ہے۔ (۲) ہر گفتگو سے پہلے اس کا خلاصہ عناوین کی شکل میں ذکر کردیا گیا ہے۔ (۳) تکراری مباحث کو نہیں لکھا گیا ہے۔ (۴) زیادہ رجالی ابحاث سے صرف نظر کی گئی ہے۔ (۵) عمدہ حواشی اور بہترین تحقیقی موارد کو حاشیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ (۶) ہر بات کو حوالوں سے منظم کردیا گیا ہے۔ (۷) نوجوانوں کے لیے اس کتاب کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ (۸) ان تمام خصوصیات کے باوجود اصل کتاب سے مطالب نقل کرنے میں امانت داری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

اس کتاب کی تلخیص جناب حجة الاسلام والمسلمین علامہ علی اصغر مروّج خراسانی نے فرمائی ہے اور نظرِ ثانی کے فرائض حجة الاسلام والمسلمین مولانا سید محمد تقی نقوی نے انجام دیئے ہیں۔

زیر نظر کتاب اور ’’المراجعات-خلیفہ بلا فصل‘‘ اور ’’تلاش حق(تلخیص المراجعات)‘‘ نامی کتب کے مطالب ایک ہی سے ہیں لیکن اس کتاب کو مذکورہ دونوں کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔