سیرت امام رضاؑ

سیرت امام رضاؑ

سیرت امام رضاؑ

Publication year :

2004

Publish location :

لاہور پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

سیرت امام رضاؑ

آفتاب امامت اپنے بُرج میں ایک خاص اور جداگانہ شان رکھتا ہے، آفتاب جس افق سے بھی طلوع کرے، آفتاب ہے۔ اس کا نور اس کی چمک آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے، اس کی گرمی، اس کی تابناکی زندگی عطا کرتی ہے، لق و دق صحراؤں کے خاروں سے لے کر چمنستان کے فلک بوس درختوں تک ہر ایک اس سورج کا محتاج ہے کوئی بھی پتّہ اس کی شعاعوں کے بغیر نمو نہیں کرسکتا، کوئی بھی شاخ اس کی تابناکی سے استفادہ کیے بغیر پھل دار نہیں ہوسکتی ہاں آفتاب، آفتاب ہے۔ اگر ہماری اس دنیا میں آفتاب نہ ہو تو موت ہے، فنا ہے، نیستی ہے۔

ہمارے معصوم ائمہ علیہم السلام کی امامت، معنوی  دنیا کے نظام میں اور حیات اسلام کی بقار کے لئے بالکل آفتاب، اس کے نور اور اس کی شعاعوں کے مانند ہے، یہ بزرگ ہستیاں، مخصوص شرائط میں، مختلت حالات میں، وقت کی گوناگوں ضرورتوں میں، آفتاب کی طرح چمکتی دمکتی رہیں۔ اور اپنے پیروکاروں کی ہدایت و پرورش میں منہمک رہیں ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے دور کے مخصوص تقاضوں کے لحاظ سے نور پھیلاتی رہیں۔ اس طرت کہ بعض  نے میدان کارزار میں دلیرانہ کارنامے انجام دیئے اور خون سے ساری دنیا تک پیغام پہنچا دیا ،بعض نے منبرِ درس سے  سے معارف اسلامی کے نشرواشاعت کی ذمے داری سنبھالی، بعض نے ظالم و جابر بادشاہوں اور حکمرانوں کے قید خانوں میں قید و بند کی زندگی گزاری ، مگر اپنی پیکار سے دست بردار نہیں ہوئےیہ اشخاص ہر حال میں اور ہر جگہ آفتاب کی طرح رہے اورمسلمانوں کی بیداری اور پرورش میں مسلسل کوشاں رہے۔ اگر حالات اور وقت کی مناسبت کی بنا پر ان افراد کے عمل میں کچھ تفاوت نظر آتا ہے تو  وہ افراد جنھیں بصیرت کا کچھ بھی حصہ ملا ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ  سب مقصد و ہدف میں متحد تھے۔ ہر ایک کا مقصد صرف خدا تھا اور اس کا راستہ اور  اس کے دین کی ترویج اور اس کی کتاب کی تبلیغ اوراس کے بندوں کی ہدایت و پرورش!

ہمارے ائمہ علیہم السلام با اعتبار عصمت و امامت جو انہیں سے مخصوص تھیں اور علم  وحکمت، جوامامت کا لازمہ  اور عطیۂ خداوندی ہےاور خدا وند عالم کی تائید اور خاص عنایت کی بنا پر تمام حضرات اپنے زمانے کی ضرورتوں اور اس کی خصوصیات کو ہر ایک سے بہتر جانتے تھے اور عہد میں ہر ایک سے زیادہ رہبری کی راه و رسم سے واقف تھے اور اس حقیقت سے وہ لوگ بخوبی واقف ہیں جو حقیقی اور غیر تحریف شدہ  اسلام کے معتقد ہیں ، اور امامت کے بارے میں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ امام کا تعیّن فرمان خدا اور ارشاد پیغمبرﷺ سے ہوتا ہے، اور جو واقعۂ غدیر پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارے ائمہ عليہم السلام کی پوری زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو ان کے علم و حکمت کی حکایت کرتے ہیں ۔

سماج  کے تمام اطراف و جوانب  پرگہری نظر ،رفتار زمانہ  کی مکمل معرفت روز قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کا احاطہ۔ یہ وہ باتیں تھیں جن کی بنا پر ہمارے ائمہ علیہم السلام وقت کی نزاکتوں کے مطابق مقصد الٰہی کی حفاظت اور تبلیغ کے لئے صحیح ترین اور دقیق ترین راہ کا انتخاب فرماتےتھے ۔ نمونے کے لئے یہ مثال بہت مناسب ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے تمام خطرات سےبے پروا ہوکر اپنی امامت و خلافت  کا اعلان فرمایا ۔ وہ افراد جو امامؑ کے اعلان سے امام علیہ اسلام کے بارے میں خوف زردہ تھے۔ امام علیہ السلام نے ان سے ارشادفرمایا تھا کہ:

"اگر ابوجہل نے پیغمبراسلام ﷺکا ایک بال بیکا کرلیا ہوتا تو ہارون مجھے بھی نقصان پہنچاسکتا ہے"

امام علیہ السلام  کو اس بات کا علم تھا کہ امامؑ کی  شہادت ہارون کے نجس ہاتھوں سے واقع نہیں ہوگی، انہیں علم تھا کہ ان کی عمر کا کافی حصّہ ابھی باقی ہے۔ یہ تاریخی حقائق ائمۂ معصومین علیہم السلام  کی شناخت اور معرفت کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام اس زمانے میں زندگی گذار رہے تھے جس وقت بنی عباس کی ناپاک سیاست اپنے عروج پر تھی کیونکہ خاندان بنی عباس کے سلسلۂ حکومت  میں ہارون و مأمون سے  بڑھ کر کوئی اور اتنا عظیم بادشاہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بنی عباس کی سیاست ائمۂ معصومین علیهم السلام کے زمانے میں اور خاص کر امام رضا علیہ السلام کے بعد مکر و فریب، نفاق  اور ظاہرداری سے بھر پور ہے ۔ یہ افراد اگرچہ خاندان رسالت کے خون کے پیاسے تھے ، لیکن علویوں کی شورش اور ہنگاموں سے محفوظ رہنے کے لئے شیعوں اور ایرانیوں کی موافقت حاصل کرنے کے لئے یہ ظاہر کرتے تھے کہ ان کے تعلقات خاندان امیرالمؤمنین علیہ السلام سے کافی گہرے اور صمیمانہ ہیں تاکہ اس طرح ان کی  حقّانیت بھی ثابت ہوتی رہے ۔ مکر و فریب کی اس سیاست کا عروج مامون کے دورانِ حکوت میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔

مامون  کی مکر و فریب سے بھرپور سیاست کے مقابلے میں امام رضا علیہ السلام نے اپنے عمل سے وہ بے مثال روش اختیار کی جس  سے مامون کی ساری امیدوں پر پانی پھر جائے اور ساری ملّتِ اسلامیہ حقیقت سے نزدیک بھی ہو جائے ، اور ہر ایک پر یہ حقیقت روشن  ہو جائے کہ  خدا وند عالم کی صحیح خلافت اور حقیقی نمائندگی کے حقدار صرت ائمہ علیہم السلام ہیں کسی اور کے لئے یہ منصب اور عہدہ  زیب نہیں دیتا ہے۔

جیسا کہ ہم دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے حالات زندگی کے بارے میں جانتے ہیں، اگر ہم ان باتوں پر غور کریں تو یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفاءائمہ عليهم السلام پر کڑی نظر رکھتے تھے، اور لوگوں کو ان سے ملنے سے روکتے تھے اور ان کی مسلسل کوشش یہ رہتی تھی کہ ائمہ علیہم السلام ہمیشہ گمنام رہیں اور کہیں پر ان کا  تذکرہ بھی نہ ہونے پائے۔ لہذا جب بھی کسی امام کو شہرت حاصل ہوجاتی  تھی، یا عوام کی توجہات کا مرکز امام کی ذات ہوجاتی تھی تو فورا ً اس امام کوقتل کر دیا جاتا تھا یا پھر زہر دے دیا جاتا تھا۔

امام علیہ السلام نے دلیعہدی مجبورا قبول فرمائی تھی اور جن شرائط کے ساتھ امام علیہ السلام نے ولی عہدی قبول فرمائی تھی وہ قبول نہ کرنے کے برابر تھی۔ بہرحال ساری ملّتِ اسلامیہ میں یہ بات باقاعدہ مشہور ہوئی تھی کہ مامون نے خود اس بات کا اعترافت کیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام سے بہتر کوئی اور خلافت و امامت کا سزاوار نہیں ہے ۔ مامون نے امامؑ کی خدمت میں خلافت کی پیش کش کی تھی لیکن امام نے خلافت قبول کرنےسے انکار کر دیا ہے، اور مامون کے بے پناہ اصرار کے بعد شارائط کے ساتھ دلیعہدی قبول فرمالی ہے ۔ اگر ان تمام باتوں کو غور سے دیکھا جائے تو یہ ساری باتیں روشِ امام کے مطابق تھیں اور خلفاء کی سیاست کو ناکام بنا رہی تھیں۔

بہت مناسب ہوگا اگر امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی کو مسئلۂ شوریٰ سے تشبیہ دی جائے جس میں خلیفۂ دوم نے زبردستی امیرالمؤمنین علیہ السلام کو شریک کیا تھا اور جس کے فیصلے کو امت پر تھونپ دیا گیا تھا، اور حُسنِ اتفاق یہ کہ خود  امام رضا عليہ السلام  نے ولی عہدی کے مسئلے کو مسئلۂ شوریٰ سے تشبیہ دی ہے۔

خلیفۂ دوم نے آخری وقت یہ حکم دیاکہ ایک مجلسِ شوری ترتیب  دی جائے ، جس میں عثمان ، طلحہ ، عبدالرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص، زبیرا در امیرالمؤمنین علی علیہ السلام شریک ہوں ۔ یہ چھ افراد اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کریں، اور جو مخالفت کرے اسے قتل کردیں۔ منصوبہ کچھ اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ علی علیہ السلام خلافت سے محروم رہ جائیں کیونکہ سب جانتے تھے کہ خلافت صرف علی علیہ السلام کا حق ہے، اور جب دوسرا منتخب ہوجائے گا تو علی علیہ السلام مخالفت کریں گے اور اس طرح وہ قتل کر دیے جائیں گے اور اس طرح ان کا قتل جائز قرار پا جائے گا۔

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بعض اصحاب  نےحضرت سے دریافت کیا کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ خلافت آپ کو نہیں مل سکے گی تو آپ نے اس شوریٰ میں کیوں شرکت فرائی؟حضرت نے ارشاد فرمایا:رسول خدا ﷺکے انتقال کے بعدعمر نے ایک (جھوٹی) حدیث کا سہارا لے کر اعلان کیا کہ پیغمبر ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ:: " نبوت و امامت دونوں ایک گھر میں جمع نہیں ہوسکتی ہیں" (یعنی اپنے خیال میں مجھے خلافت سے دور رکھنا تھا اور وہ مجھے خلافت کے لئے سزاوار نہیں جانتے تھے) اور اس وقت جب عمر نے خود یہ پیش کش کی تھی کہ میں اس شوریٰ میں شرکت کروں یعنی میں  خلافت کیلئے سزادار ہوں ، میں نے صرف اس لئے شوری میں شرکت کی تاکہ یہ ثابت  کر دوں کہ عمر کا یہ اقدام خود اس کی جعل کره حدیث کے مطابق نہیں ہے۔

امام رضا علیہ السلام کی ولی عہدی  سے ایک عظیم فائدہ یہ ہوا  کہ وسیع و عریض  ملّت اسلامیہ کے ہر فرد کو معلوم ہوگیا ک خلافت کے لئے شائستہ تر کون حضرات ہیں، اور مامون نے خود اپنے عمل سے کس عظیم حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ اس سفر میں جو امام نے مدینہ سے "مَرو" تک فرمایا ، اس میں امام علیہ السلام مختلف شہروں سے گذرے اور لوگوں سے ملاقات کی اس زمانے  میں جب آمد ورفت کے وسائل محدود تھے اور ذرائع ابلاغ بھی کافی مخفر تھے، جس کی وجہ سے لوگ بہت سی باتوں سے محروم تھے۔ اس سفر میں لوگوں نے امامؑ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور خود اپنی آنکھوں سے حق کا مشاہدہ کیا۔ جو اثرات نمایاں ہوئے وہ خود اپنی جگہ قابل بحث و گفتگو ہیں ۔ بطور نمونہ شہرِ نیشا پور میں حدیث سُننے کے لئے لوگوں کا اژدہام اور شہر مَرو میں نماز عید کے لئے لوگوں کا اشتیاق سفر کے مثبت اثرات میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔ شہر مَرو میں مختلف مذاہب و مذاق کے علماء اور دانشوروں سے امام کی ملاقات، ان سے علمی گفتگو ، بحث و مناظرہ جس سے امام علیہ السلام کی علمی حیثیت ہر ایک  پر نقش ہوجاتی ہے اور مامون کے وہ تمام منصوبے بیکار ہوجاتے ہیں جو اس نے امام علیہ السلام کی حقارت کے لئے تیار کیے تھے۔ یہ چیزی سیاست امامؑ کے مثبت اثرات ہیں جن کو بیان کرنے کے لیے تفصیل درکار ہے۔

بہرحال ہر ایک امامؑ کی زندگی کے مطالعے کے لئے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر نظر رکھنا نہایت ضروری ہے جس طرح سے پیغمبروں کے حالات اور ان کے اعمال کو جن کا سرچشمہ وحئ الٰہی ہے، بادشاہوں، ظالموں، سیاست دانوں کے حالات زندگی سے موازنہ نہیں کی جاسکتا ہے اور نہ اس معیار پر پرکھا جاسکتا ہے، کیونکہ اوصیاء اور ائمہ علیہم السلام کا رشتہ بھی پیغمبروں ؑ کی طرح خدائے وحدہ لاشریک سے مستحکم تھا۔ یہ حضرات زمین پر خدا کی حجت اور اس کے نمائندے تھے۔

پیش نظر کتاب انہیں مندرجات پر مشتمل اپنے موضوع پر ایک جامع کتاب ہے  یہ کتاب آٹھویں امام سرکار امام رضا علیہ السلام کی زندگی اور شہادت کے بیان سے متعلق ہے اور اس موضوع پر ایک عمدہ اور جامع کتاب ہے۔

پیش نظر کتاب میں مکمل طور پر امام رضاعلیہ السلام کی سیرت اور زندگی کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے اسے اپنے مطالعے کا حصہ ضرور قرار دیں۔

زیر نظر کتاب امام ہشتمؑ کی سیرت پر مشتمل ہے اس کا مطالعہ فرماتے ہوئے اپنے آپ کو اخلاق رضوی سے مزین فرمائیں۔