علمدار کربلا حضرت عباسؑ

علمدار کربلا حضرت عباسؑ

علمدار کربلا حضرت عباسؑ

Publication year :

2007

Publish location :

لاہور پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

علمدار کربلا حضرت عباسؑ

مجھے تو تاریخ کے اوراق میں ایک ایسی ہستی نظر آرہی ہے جس کی ولادت کی تمنا حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کر رہے ہیں۔ جس کی شجاعت کی بشارت حضرت محمدمصطفیﷺ دے رہے ہیں، حضرت فاطمہؑ اپنا فرزند فرمارہی ہیں، جس کو امام حسنؑ اپنامدگار بتا رہے ہیں اور امام حسینؑ "نفسی انت" فرمارہے ہیں اور جس کے بلند مدارج کی شہادت امام زین العابدینؑ دے رہے ہیں اور جسے امام جعفر صادق نافذ البصیرت اور عبد صارح فرمارہے ہیں، اور جس پر امام آخرالزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، سلام بھیج  رہے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ حضرت عباس علیہ السلام امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی تمناوں سے پیدا ہوئے اور وحدانیت کا کمال کمسنی میں اقرار کیا۔ آپ کا بچپن معصومینؑ کی آغوش میں گزرا۔ جوانی اسلام اور ذمہ دارانِ اسلام کی امداد میں گزری شہادت راہ خدا میں واقع ہوئی۔ 

اسلام اور امام حسینؑ کی حمایت میں شہادت نصیب ہوئی، بچپن سے جوانی اور جوانی سے یوم شہادت تک جو اسلامی خدمات کئے ہیں وہ تاریخ کے صفحات میں روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ کسے خبر نہیں کہ معرکۂ صفین کے سر کرنے میں آپ نے سروتن کی بازی لگا دی تھی، ولید بن عقبہ والئ مدینہ منورہ کے دربار میں آپ کا دلیرانہ عمل اور کردار ناقابل فراموش ہے، مدینہ منورہ سے روانگی مکۂ معظمہ میں قیام، کربلا میں ورود، نصب خیام کا واقعہ، طلب آب اور سقّائی غرضیکہ اس عظیم سفرمیں تادم آخر آپ نے وہ شاندار کردار پیش فرمایا ہے جو تاریخ کربلا میں نمایاں جگہ کا مالک ہے۔

پیش نظر کتاب کی تالیف میں سوانح نگاری کا جو طریقہ اپنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو واقعات معلوم الكذب نہ ہوں اور جن واقعات سے ممدوح یا مخاطب کی شان نہ گھٹتی ہو انھیں حوالۂ کتب سے پڑھا اور لکھا جاسکتا ہے اس ضمن میں حجت الاسلام حضرت علامہ سید حسین صاحب قبلہ علیین مکان تحریر فرماتے ہیں کہ بیان واقعہ میں "اثارۃ الاحزان علی القتیل العطشان" میں اسناد مؤثقہ کی پابندی نہیں ہے "ولیس الامر منحصراً فی الاحادیث المرویۃ عن اھل العصمۃ" یہ ضروری نہیں ہے کہ اس معاملہ میں جو احادیث آئمہ معصومینؑ سے مروی ہوں بس انھیں پر اعتماد کیا جائے اور مؤرخین کے قول کو نظر انداز کر دیا جائے۔ "فالامر موسع في الروایات کما فی سائر المندوبات" بس سمجھنا چاہیئے کہ بیان روایات میں سائر مندوبات کی طرح آزادی ہے۔ یہی وجہ ہے جناب شیخ مفیدؒ جیسی شخصٰت نے کلبی، مدائنی، اربلی اور ابومخنف وغیرھم کے بیانات سے تمسک فرمایا ہے۔

پیش نظر کتاب میں جن چیزون پر خصوصی تبصرہ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں (۱) حضرت عباسؑ کی تاریخ ولادت (۲) آپ کی تعداد اولاد (۳) آپ کا جنگ صفین میں کارنامہ اور تبدیلئ لباس کی بحث (۴) علمداری کی تاریخ (۵) آپ کی عصمت کی بحث (۶) آپ کا وقار ائمۂ طاہرین کی نظر میں (۷) واقعۂ کربلا کا پس منظر (۸) مدینہ منورہ سے روانگی کے وجوه و اسباب (۹) تاریخ کوفہ اور کوفہ میں خفیہ سازش (۱۰) کوفہ سن ۶۱ہجری میں شیعیان علی سے تقریباً خالی تھا(۱۱) ایّام عشرہ کی ہر تاریخ کا علیٰحدہ بیان (۱۴) حضرت عباسؑ کے کنواں کھودنے کا شمار (۱۳) حضرت عباسؑ سے شمر کے رشتہ کی حقیقت (۱۴) ایک شب کی مہلت طلبی کے وجوہ اور جمہور مؤرخین کی رائے سے اختلاف (۱۵) مؤرخ طبری کی تنگ نظری پر تبصرہ (۱۶) حضرت عباسؑ کی تدفین (۱۷) حضرت عباسؑ کا مدفن اور تاریخ کربلا (19) حضرت عباسؑ کی عمر شریف (۲۰) حضرت عباسؑ کی نذر،حاضری اور سبیل کی وجہ۔

پیش نظر کتاب کو اپنے مطالعے کا حصہ ضرور قرار دیں۔