علیؑ تو علیؑ ہے
علیؑ تو علیؑ ہے
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
علیؑ تو علیؑ ہے
دنیا میں ایسے انسان خال ہی خال نظر آتے ہیں جن میں ایک آدھ صفت کمال کے علاوہ کوئی اور بھی فضیلت کاملہ ہو چہ جائیکہ تمام متضاد صفتیں کسی کے دامن میں جمع ہو جائیں۔ لیکن حضرت علیؑ ایسے عظیم ہیرو ہیں۔ جن میں متضاد صفات پائی جاتی ہیں اور ایسی صفات نتضادّہ کا بشر اولاد آدم میں پیدا نہیں ہوا۔ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی طبیعت ہر فضیلت سے پوری مناسبت اور ہر کمال سے پورا لگاؤ رکھتی ہے۔ کوئی صفت حسن کمال ایسی نہ تھی جس سے آپ کا دامن خالی رہا۔ کوئی خلعت و خوبی کوئی جمال ایسا نہ تھا جو ان کے قد و قامت پر راس نہ آیا ہو۔ جب آپ منبر پر علم و فصاحت و بلاغت کے موتی بکھیرتے ہیں تو عرب دم بخود بت بن کر کھڑے رہ جاتے ہیں لیکن جب تلوار سونت کر جنگ کی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں تو گردنیں کاٹ کر رکھ دیتے ہیں اور شہ زوروں کو زمین پر بچھاڑ دیتے ہیں۔ تلوار لیکر اس طرح پلٹتے ہیں کہ اس سے لہو برستا ہے اور خون دل کی بوندیں ٹپک رہی ہوتی ہیں اس کے باوجود آپ زاہدوں میں ممتاز اور ولیوں میں فائق تھے۔ آپ دن رات کی لڑائیوں اور چپقلشوں کے باوجود نشر علوم و معارف کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ کبھی تلواروں کی جھنکار اور خون کی بارش میں علم و حکمت کے رموز بتائے اور کبھی ذہنی الجھاؤ اور افکار کے ہجوم میں ارشاد و فرائض انجام دیئے۔ سخاوت اور شجاعت کے متضاد تقاضے بھی ان میں پہلو بہ پہلو نظر آتے تھے۔ اگر وہ داد و دہش میں ابر باراں کی طرح برستے تھے تو پہاڑ کی طرح جم کر لڑتے اور داد شجاعت بھی دیتے تھے چنانچہ ان کے جود و قرب کی یہ حالت تھی کہ فکر و اخلاص کے زمانے میں بھی جو دن بھر کی مزدوری سے کماتے تھے ان کا بیشتر حصہ ناداروں اور فاقہ کشوں میں بانٹ دیتے تھے۔ اور بھی سائل کو اپنے گھر سے ناکام واپس نہ جانے دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر میدان جنگ میں دشمن نے تلوار مانگ لی تو آپ نے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے تلوار اس کے آگے پھینک دی اور ہمت کا یہ عالم تھا کہ فوجوں کے ریلے آپ کے ثبات قدم کو جنبش نہ دے سکتے تھے اور ہر معرکہ میں کامیابی کا سہرا آپ کے سر پر رہتا تھا اور بہادر سے بہادر نبرد آنا بھی آپ کے مقابلے میں آ کر جان کو صحیح و سالم بچا کر جانے میں کامیاب نہ ہو سکتا تھا۔ ایسے بھاری بھرکم پتھروں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتے جنہیں بیک وقت کئی آدمی مل کر ہلا نہیں سکتے تھے۔ قلعوں کے بڑے بڑے دروازوں کو اپنے بازوؤں کی قوت سے اکھاڑ پھینکتے تھے۔ آواز کی گھن گرج کا یہ عالم تھا کہ جب نعرو بلند کرتے تو بڑے بڑے سورماؤں کا زہرہ آب ہو جاتا، اپنی جسمانی اور طبعی خصوصیات کے ساتھ ساتھ علی ابن ابي طالبؑ دل کے بہادر بے باک اور نڈر بھی تھے اور طاقتور سے طاقتور حریف کا سامان کرتے ہوئے مطلقا گھبراہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ جن سے لڑے اسے پچھاڑے بغیر نہیں چھوڑا۔۔۔۔ آپ میں تین صفتیں ایسی تین صفات کے ساتھ جمع تھیں جو کسی بشر میں جمع نہیں ہوئیں۔ فقر کے ساتھ سخاوت، شجاعت کے ساتھ تدبر و رائے اور علم کے ساتھ عملی کارگزاریاں آپ کی ذات نے متضاد صفتوں کو سمیٹ لیا اور بکھرے ہوئے کمالات کو پیوند لگا کر جوڑ دیا۔
انہیں سب مطالب کو سمیٹے پیش نظر کتاب ہے اسے اپنے مطالعے کا حصہ ضرور قرار دیں۔