اسلامی اور عوامی جہاد میں فرق
اسلامی اور عوامی جہاد میں فرق
Author :
گروہ محقیقین ابنا
0 Vote
144 View
موضوع کی اہمیت:۔
جہاد کا نعرہ لگانے والے طالبان اور القاعدہ جیسےدھشتگرد گروپوں کے نظریات کو قریب سے بھانپنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے شدت پسندانہ کارناموں کی توجیہ کے لیے اسلامی جہاد کی اصطلاح کا سہارا لیتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ اسلام میں جہاد کے واقعی معنی اور مفہوم کو پہچاناجائے اور اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ کیا فریضہ جہاد اس طرح کے دہشت گردانہ اور تشدد پسندانہ اقدامات انجام دینے کا جواز فراہم کرتا ہے یا نہیں؟
ہم اس مقالے میں کوشش کریں گے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں شیعہ و سنی علماء کے نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاد کے واقعی معنی اور مفہوم کو پہچانیں اور دھشتگرد گروپوں کے جہادی دعووں کی صحت یا عدم صحت کی علمی تحقیق کریں۔
مفہوم شناسی:۔
الف: جہاد کے معنیجہاد لغت میں مادہ " جھد" سے مشتق ہے کہ جس کے معنی "نہایت مشقت اور کوشش کرنا" کے ہیں۔ فقہ کی اصطلاح میں اس کی یوں تعریف ہوئی ہے:" کلمہ اسلام کی سر بلندی اور شعائر ایمان کی سرفرازی کے راستے میں جان و مال قربان کر دینا"۔مجاہد اسے کہتے ہیں جو اپنی تمام تر طاقت، توانائی اور قدرت کو آخری لمحہ تک اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف کر دے۔
بطور کلی جہاد کی صورتیں:۔
بطور کلی جہاد کی دو صورتیں ہیں:پہلی صورت: تمام امکانات اور سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان اور مال و ثروت کو صرف کرنے کے تلاش و کوشش کرنا۔ دوسری صورت: کسی مقصد کو حاصل کرنے کی راہ میں مشکلات کا تحمل کرنا اور اپنی طاقت و توانائی کو صرف کرنا۔لیکن ہر صورت میں شرعی لحاظ سے جہاد یہ ہے کہ انسان اپنی جان و ثروت کو قربان کرنے کےساتھ کلمہ توحید اور اسلام کی سر بلندی اور اسلامی رسالت اور شریعت کے نفاذ کی راہ میں ممکنہ تلاش و کوشش کرے۔ ب: جہاد کی اقسامکلی طور پر جہاد کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے: جہاد اکبر اور جہاد اصغر۔ اسلام کی سربلندی اور کلمہ حق کی سرفرازی کی خاطر کفار و مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کو جہاد اصغر کہتے ہیں جبکہ معنوی درجات کی بلندی کے لیے اپنے نفس امارہ اور لوامہ کے ساتھ جہاد کرنے کو جہاد اکبر کہا جاتا ہے۔
پیغمبر اکرم (صلّي الله عليه و آله و سلّم) سے مروی اس روایت کے مطابق جو آپ نے ایک غزوہ سے کامیابی کے ساتھ واپس آئے بعض اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائی: “ رجعتم من الجهاد الاصغر عليكم بالجهاد الاكبر”. قاہرہ یونیورسٹی کے سابقہ چانسلر علامہ شیخ محمود شلتوت ان قرآنی آیات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے جو جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جنگ کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک مسلمانوں کی مسلمانوں سے جنگ اور دوسری مسلمانوں کی غیر مسلمانوں سے جنگ۔ان کی نظر میں مسلمانوں کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ امت کے داخلی اور حیاتی امور میں سے ہے اور قرآن نے طغیان اور سر کشی کے وقت سزا معین کی ہے تا کہ سماج میں نظم و انتظام باقی رہے اور ملک کی طاقت کمزور نہ ہو اور ظلم و ستم کا سد باب کیا جائے۔ قرآن میں سورہ حجرات کی نویں اور دسویں آیتوں میں آیا ہے کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو انہیں صلح کی طرف دعوت دو اور اگر ان میں سے ایک ظلم کی جانب بڑھے اور قتل و غارت سے باز نہ آئے تو اس کے ساتھ جنگ کرو جب تک کہ صلح کے طرف نہ لوٹ آئیں۔
واضح ہے کہ اس جنگ کا فلسفہ مطلقہ عدالت کی برقراری، آزادی اور حریت کو پامال ہونے سے بچانا اور ظلم و سرکشی سے روکنا اور سماج میں نظم و نسق قائم کرنا ہے۔انہوں نے جنگ کی دوسری قسم یعنی مسلمانوں کی غیر مسلمانوں سے جنگ کے بارے میں، مکہ میں مسلمانوں کی سختیوں اور ظالم حکمرانوں کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام کا تذکرہ کرنے اور پیغمبر اکرم (ص) کے صبر و بردباری سے کام لینے کے بارے میں سفارشات بیان کرنے اور جنگ کے سلسلے میں سورہ حج کی ۴۰ ویں اور ۴۱ ویں آیات میں خدا کی طرف سے بیان شدہ سب سے پہلے حکم جنگ کے ذیل میں لکھا ہے کہ یہ آیتیں جنگ کو جائز قرار دینے پر دلالت کرتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا، انہیں جلا وطنی کیا گیا اور انہیں اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ جوازیت دفاعی سنت اور ظالم حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ سازگار ہے۔
اس جنگ کا مقصد یہ ہے کہ اجتماعی توازن برقرار رہے اور سرکش افراد کو سرنگوں کیا جائے اور لوگوں کو عقیدے اور ایمان کے اعتبار سے آزاد رہنے کا حق دیا جائے۔ انہوں نے قرآن کریم کی کچھ دوسری آیتوں سے جنگ کے بارے میں مثالیں پیش کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ آیات اس کے باوجود کہ ان میں جنگی اصول، جنگی وجوہات اور اغراض و مقاصد کا تذکرہ ہوا ہے لیکن ہر گز جنگ کے ذریعے دین کو زبردستی قبول کرنے کی دعوت نہیں دی رہی ہیں اور جنگ کی جوازیت کا عمدہ سبب مسلمانوں پر کیے جانے والا ظلم و ستم کا دفاع ہے۔انہوں نے جنگ اور جہاد کو قرآن اور اسلام کی نگاہ سے بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات اور نتائج اخذ کئے ہیں: قرآن کریم میں ایک آیت بھی تلاش نہیں کی جا سکتی جو یہ کہتی ہو کہ جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کا قتل عام کر کے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرو۔ اسلام میں جنگ کی جوازیت صرف ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے دفاعی حیثیت رکھتی ہے ۔جہاں کہیں بھی اسلام نے جنگ کو جائز قرار دیا ہے صرف مستضعفین کی حمایت میں استعمار اور استکبار کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے جائز قرار دیا ہے اور جنگ کے دوران بھی ضعیف افراد کو دبانے سے منع کیا ہے اور تاکید کی ہے کہ آپس میں صلح کو ترجیح دی جائے اور کافروں سے ان کے خون کے بدلے جزیہ اسی وجہ سے قرار دیا گیا ہے تا کہ اسلامی سماج میں کوئی ان کی طرف انگلی نہ اٹھائے اور انہیں اذیت و آزار نہ پہنچائے۔ یہ اسلامی حکومت کا اصول ہے کہ سماج میں رہنے والے کسی طبقہ کو کسی قسم کی اذیت نہ دی جائے۔ ہر انسان عقیدہ کے اعتبار سے آزاد رہے۔
ایک اور اعتبار سے جہاد کی اقسام:۔
ایک اور اعتبار سے جہاد کو نیز دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں؛ ۱: دفاعی جہاد: یعنی جب اسلامی معاشرہ دشمنوں کی طرف سے تہدید یا حملے کا نشانہ بنے تو اس صورت میں اپنا دفاع کرنا واجب ہے اسے دفاعی جہاد کہتے ہیں۔ ۲: ابتدائی جہاد : یعنی جہاد میں پہل کرنا بغیر اس کے کہ دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہو۔ اسلام کو وسعت دینے، مذہبی شعائر کو دنیا میں پھیلانے اور بشریت کو ضلالت اور گمراہی سے نجات دینے کی غرض سے جنگ کی جائے۔ جہاد کی صورت صرف حکم نبی یا امام معصوم(ع) سے لازم الاجرا ہے ان کے علاوہ کوئی دوسرا ابتدائی جہاد کرنے کا حکم نہیں دے سکتا۔استاد شہید مطہری جہاد کی حقیقت اور ماہیت کو دفاعی صورت میں سمجھتے ہیں۔ آپ معتقد ہیں کہ محققین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جہاد کی ماہیت دفاعی ہے۔ یعنی اسلام میں کسی عنوان سے جنگ و جدال، مد مقابل کا مال و ثروت چھیننے یا دشمن پر حکومت کرنے کی غرض سے ہر گز جائز نہیں ہے۔ اس طرح کی جنگ اسلام کی نظر میں تشدد اور جارحیت کہلاتی ہے۔ وہ جہاد جو صرف دفاع کے عنوان سے ہو اور تجاوز کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہو اسلام میں مشروعیت رکھتا ہے۔ آپ اس کے باوجود کہ دفاع کو ایک مقدس امر سمجھتے ہیں لیکن تقدس کا ملاک حق و حقاینت کا دفاع اور انسانی حقوق اور انسانی آزادی کا دفاع قرار دیتے ہیں۔
مسلمان مفکرین کے نظریات:۔
شہید مطہری سورہ بقرہ کی ۱۹۰ ویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ استدلال کرتے ہیں کہ تجاوز کرنے والوں اور شر پھیلانے والوں سے جنگ کرو اس سے پہلے کہ ان کا شر ہم تک پہنچے لیکن اگر غیر متجاوز افراد کے ساتھ جنگ کی جائے تو یہ خود تجاوز اور غیر شرعی عمل اور ظلم ہے۔ آپ اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ قرآن جہاد کو دفاعی صورت میں منحصر کرتا ہے اور کسی پر بھی جارحیت کی اجازت نہیں دیتا۔ البتہ ان کی نظر میں تجاوز اور جارحیت ایک عام معنی رکھتا ہے اور جان و مال عزت و آبرو، زمین اور آزادی میں محدود نہیں ہے۔ اگر انسانی اقدار کو پامال کیا جائے، انسانی قدروں کو روندا جائے تو اسے بھی تجاوز کہاجائے گا۔شیخ محمود شلتوت بھی صدر اسلام کی جنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صدر اسلام میں مسلمانوں نے کبھی ابتداً کسی پر حملہ نہیں کیا اور اپنی آزادی اور استقلال کا دفاع کرنے کے علاوہ انہوں نے کبھی قیام نہیں کیا۔ج: اسلام اور صلحاسلام امن و شانتی کا دین ہے اور اسلام نے ہمیشہ صلح اور سلامتی کو جنگ وجدال پر برتری دی ہے۔
پیغمبر اسلام (ص) اور امیر المومنین (ع) نے ہمیشہ جنگ شروع ہونے سے پہلے دشمنوں کو صلح کی دعوت دی ہے قرآن کریم میں بھی صلح قبول کرنے پر واضح دستورات موجود ہیں:ان جنحوا للسلم فاجنح لها و توكل علي الله انه هوالسميع العليم و ان يريد و ان يخدعوك فان حسبك الله هو الذي ايدك بنصره و بالمومنين(سورہ انفال،۶۱،۶۲)اور اگر یہ لوگ صلح کرنے کی طرف مائل ہوں آپ بھی صلح کی طرف مائل ہو جائیں اور خدا پر توکل کریں بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے اور اگر یہ آپ کو دھوکہ و فریب دینا چاہیں تو خدا آپ کے لیے کافی ہے وہ وہی خدا ہے جس نے اپنی اور مومنین کی مدد سے آپ کو تقویت بخشی۔سورہ نساء، آیت ۹۰ میں بھی آیا ہے کہ اگر " کافر اور ظالم جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور آپ کے ساتھ صلح کی پیشکش کریں تو ان کی طرف جنگ کے لیے ہاتھ نہ بڑھانا ۔۔۔
شیخ محمود شلتوت بھی اس سلسلے میں سورہ انفال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب بھی دشمن جنگ سے ہاتھ کھینچ لے اور قتل و غارت سے پرہیز کرے اور صلح کی پیشکش کرے اور اس پیشکش میں کوئی دھوکا اور فریب نہ ہو تو ان کی پیشکش کو قبول کرنا چاہیے بغیر کسی وجہ کے ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ان کی نظر میں جنگ صرف اس لیے ہے کہ ظلم اور تجاوز کا دفاع کیا جائے اور در حقیقت جنگ کا مقصد صلح اور عدالت قائم کرنا ہوتا ہے انہوں نے سورہ انفال کی ۶۴ ویں آیت کی تفسیر میں لکھا ہے" اور ان کے لیے جتنی طاقت جمع کر سکتے ہیں کریں" جنگ کا ساز و سامان مہیا کرنا صرف ظلم کا مقابلہ کرنے اور صلح اور عدالت برقرار کرنے کی خاطر درست ہے۔
انہوں نے آیت کے لفظ "سلم" کو تاکید کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کلمے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں صلح کا بیج بوئیں تاکہ سماج میں امن و شانتی برقرار رہے۔
مفکر اسلام شہید مطہری نیز آیات صلح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ منجملہ آیات" والصلح خیر (نساء ۱۲۸) یا “يا ايها الذين آمنوا و ادخلو في المسلم كافه (بقره، 208) اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ اسلام میں صلح، جنگ سے کئی گناہ زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ البتہ آپ ظلم و جور کے نیچے دبنے کو صلح نہیں کہتے لہذا اسی وجہ سے آپ کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کبھی بھی ذلت کو تحمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
د: جنگ و جہاد میں انسانی اقدار کا لحاظ اسلام صلح کی تاکید کرنے اور ہر طرح کے تجاوز سے روکنے کے ساتھ ساتھ دفاعی جنگوں میں بھی انسانی اقدار اور حرمتوں کی رعایت کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ انسانی اقدار اور حرمتوں سے مراد وہ اخلاقی اصول اور قواعد ہیں جن کی ہر مذہب و ملت کے افراد کے ساتھ جنگ میں رعایت کرنا ضروری ہے۔
نتیجہ:۔
جہاد ایک اسلامی فریضہ ہے جس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔اپنے معاشرے میں دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں ہمیں چاہیے کہ ہم دینِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جہاد کے معنی بیان کریں تاکہ لوگ دہشت گردی اور جہاد کے مفہوم کو حقیقی طور پر پہچان سکیں اور دہشت گردوں کی چالوں میں نہ آئیں۔