انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت

انسان شناسی کی ضرورت اور اہمیت کے لئے دو زاویہ نگاہ سے تحقیق کیا جاسکتی ہے :پہلے زاویہ نگاہ میں ، اس مسئلے کی بشری تفکر کے دائرہ میں تحقیق کی جاتی ہے  جبکہ دوسرے زاویہ نگاہ میں ،انسان شناسی کی اہمیت کو دینی تعلیمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے ۔ الف: انسان شناسی ،بشری تفکر کے دائرے میں باہدف زندگی کی تلاش انسان کی زندگی کا بامقصد اور بے مقصد ہونا اس کے مختلف تصورات سے پوری طرح مرتبط ہے اور ان مختلف تصورات کو انسانشناسی کی تحقیقات ہمارے لئے فراہم کرتی ہے ، مثال کے طور پر اگر انسان شناسی میں ہم یہ تصور ذہن میں بٹھا لیں کہ انسان کا کوئی معقول و مناسب ہدف نہیں ہے جس پر اپنی پوری زندگی گذارتا رہے یا اگر انسان کو ایسی مخلوق سمجھا جائے جو زبر دستی الٰہی ، تاریخی ، اجتماعی زندگی گذارنے پر مجبور ہو اور خود اپنی تقدیر نہ بنا سکے تو ایسی صورت میں انسان کی زندگی بے معنی اور کاملاً بے مقصد اور عبث ہوگی ، لیکن اگر ہم نے انسان کو باہدف (معقول و مناسب ہدف) اور صاحب اختیار تصور کیا اس طرح سے کہ اپنے اختیار سے تلاش و کوشش کے ذریعہ اس بہترین ہدف تک پہونچ سکتا ہے تو اس کی زندگی معقول و مناسب اور بامعنی وبا مقصدتصور کی جائے گی ۔ (١) .............. (١)معانی زندگی کی تلاش کا مسئلہ نفسیاتی علاج ( Psychotherapy)میںبہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور نفسیاتی علاج کے موضوعات میں سے ایک با مقصدعلاج ( logotherapy) ہے ،بامقصد علاج کے نفسیاتی ماہرین کا عقیدہ ہے کہ تمام نفسیاتی علاج جس کا کوئی جسمانی سبب نہیں ہے زندگی کو بامقصد بنا کر علاج کیا جاسکتا ہے،بامقصد علاج کا موجد 'وکٹر فرینکل ( Emil Viktor Frankle ) معتقد ہے کہ زندگی کوایسا بامقصد بنانا چاہیئے کہ انسان اپنی زندگی گذارنے میں ایک ہدف نہائی کا تصور حاصل کرلے تاکہ اس کے زیر سایہ اس کی پوری زندگی بامقصد ہوجائے اورایسا کوئی لاجواب سوال جو اس کی زندگی کے بامقصد ہونے کو متزلزل کرے اس کے لئے باقی نہ رہے ، ایسی صورت میں جب کہ اس کی تمام نفسیاتی بیماریوں کا کوئی جسمانی سبب نہیں ہے اس طرح قابل علاج ہیں ۔ با مقصد علاج کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: الف) انسان در جستجوی معنا ، ترجمہ اکبر معارفی ۔ ب)پزشک و روح ، ترجمہ بہزاد بیرشک ۔ ج) فریاد ناشنیدہ معنا ، ترجمہ بہزاد بیرشک ، از وکٹرفرینکل۔ اجتماعی نظام کا عقلی ہونا (١) تمام اجتماعی اور اخلاقی نظام اس وقت قابل اعتبار ہوںگے جب انسان شناسی کے بعض وہ بنیادی مسائل صحیح اور واضح طور سے حل ہوچکے ہوں جو ان نظام کے اصول کو ترکیب و ترتیب دیتے ہیں۔ اصل میں اجتماعی شکل اور نظام کے وجود کا سبب انسان کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا ہے اور جب تک انسان کی اصلی اوراس کی جھوٹی ضرورتوںکو جدا نہ کیا جاسکے اور اجتماعی نظام انسان کے حقیقی اور اصلی ضرورتوں کے مطابق اس کا اخروی ہدف فراہم نہ ہوسکے تواس وقت تک یہ نظام منطقی اور معقول نہیں سمجھا جائے گا ۔ .............. (١) ' اجتماعی نظام'سے ہماری مراد ایسا آپس میں مر تبط مجموعہ اور عقائد ونظرات کا منطقی رابطہ ہے جسے کسی معین ہدف کو حاصل کرنے کے لئے روابط اجتماعی کے خاص قوانین کے تحت مرتب کیا گیا ہو جیسے اسلام کا اقتصادی ، سیاسی ، حقوقی اور تربیتی نظام ، اسی بنا پر اس بحث میں اجتماعی نظام کا مفہوم اس علوم اجتماعی سے متفاوت ہے جومختلف افراد کے منظم روابط اور ایک معاشرہ اور سماج کے مختلف پہلوئوں کو شامل ہوتاہے جس میں اگرچہ کسی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے لیکن اس کا انتزاعی پہلو بہت زیادہ ہے،مذکورہ صراحت کے پیش نظر علمی و اجتماعی نظریہ کے دستور اور اجتماعی نظام کے درمیان فرق روشن ہوجاتا ہے ۔ علوم انسانی کی اہمیت اورپیدائش 'علوم انسانی تبیینی' سے مرادوہ تجربی علوم ہیں جو حوادث بشر کی تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں اورفقط تاریخ نگاری اور تعریف کے بجائے حوادث سے مرتبط قوانین واصول کوآشکار کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ ان علوم کا وجود و اعتبار انسان شناسی کے بعض مسائل کے حل ہونے پر موقوف ہے ، مثال کے طور پر اگرتمام انسانوں کے درمیان مشترکہ طبیعت اور فطری مسائل کے مثبت پہلوؤں کے جوابات تک رسائی نہ ہوسکے اور کلی طور پر انسانوں کے لئے حیوانی پہلو کے علاوہ مشترک امور سے انکار کر دیا جائے تو انسانی علوم کی اہمیت ، حیوانی اور معیشتی علوم سے گر جائے گی ،اور ایسی حالت میں علوم انسانی کا وجود اپنے واقعی مفہوم سے خالی ایک بے معنی لفظ ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے کہ اس صورت میں انسان یا کسی بھی حیوان کا سمجھنا بہت دشوار ہوگا ،اس لئے کہ یا خود اسی حیوانی اور معیشتی علوم کے ذریعہ اور ان پر جاری قوانین کا سہارا لے کر اس تک رسائی حاصل کی جائے گی یا ہر انسان کی ایک الگ اور جدا گانہ حیثیت ہو گی جہاں ایک نمونہ یا بہت سے نمونے کی تحقیق اور ان نمونوں پر جاری قوانین اور ترکیبات کے کشف سے دوسرے انسانوں کی شناخت کے لئے کوئی جامع قانون حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ ان دونوں صورتوں میں علوم انسانی تبیینی اپنے موجودہ مفہوم کے ہمراہ بے معنی ہے،لیکن انسانوں کی مشترکہ فطرت کو قبول کرکے ( مشترکہ حیوانی چیزوں کے علاوہ جو انسانوں کے درمیان مشترک ہیں) راہ انکشاف اور اس طرح کے قوانین ومختلف نظامِ معرفت تشکیل دے کر انسان کے مختلف گوشوں میں علوم انسانی کی بنیاد کو فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسری مشکلات سے چشم پوشی کرلی جائے جو علوم انسانی کے قوانین کو حاصل کرنے میں در پیش ہیں ۔ اجتماعی تحقیقات اور علوم انسانی کی جہت حصیل مزید یہ کہ انسان شناسی کے مسائل علوم انسانی کے اعتبار اور وجود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، علوم انسانی کے اختیارات اور میدان عمل کی حد بندی کا انسان شناسی کے بعض مباحث سے شدید رابطہ ہے ، مثال کے طور پر اگر ہم انسان شناسی کے بابمیں روح مجرد سے بالکل انکار کردیں یا ہر انسان کی اس دنیاوی زندگی کے اختتام سے انسان کی زندگی کا اختتام سمجھا جائے تو انسانی حوادث اور اجتماعی تحقیقوںنیز ہر معنوی موضوع میں ، انسان کی موت کے بعد کی دنیا سے رابطہ اور اس دنیاوی زندگی میں اس کے تأثّرات سے چشم پوشی ہو گی ،اس طرح انسان کے سبھی اتفاقات میں فقط مادی حیثیت سے تجزیہ و تحلیل ہوگی اور انسانی تحقیقیں مادی زاویوں کی طرفمتوجہ ہو کر رہ جائیں گی لیکن اگر روح کا مسئلہ انسان کی شخصیت سازی میں ایک حقیقی عنصر کے عنوان سے بیان ہو تو تحقیقوں کا رخ انسان کی زندگی میںروح و بدن کے حوالے سے تاثیر و تاثّرکی حیثیت سے ہو گا اور علوم انسانی میں ایک طرح سے غیر مادی یا مادی اور غیر مادی سے ملی ہوئی تفسیر و تشریح بیان ہوگی ، اس نکتہ کو آئندہ مباحث کے ضمن میں اچھی طرح سے واضح کیا جائے گا ۔ (١) .............. (١)موجودہ علوم انسانی کی فقط مادی تحلیلوں و معنوی گوشوں اور غیر فطری عناصر سے غفلت کے بارے میں معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: مکتب ھای روان شناسی و نقد آن ( خصوصاً نقد مکتب ھا کا حصہ ) دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔