حدیث معراج میں خواتین کے عذاب کا ذکر
حدیث معراج میں خواتین کے عذاب کا ذکر
0 Vote
115 View
لکھنے والے:آیت اللہ انصاریان میں آپ لوگوں کے سامنے ایک بہت اہم روایت کو بیان کررہا ہوں جسےشیخ صدوق اور علامہ حلی جیسے بزرگ شیعہ علماء نے بحارالانوار جیسی عظیم کتابوں میں نقل کیا ہے اس کے علاوہ عالم بزرگوار مرحوم تویسرکانی نے اپنی کتاب لئالی الاخبار میں اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ شیخ صدوق نے وراق سے نقل کیا ہے اور وراق نے ایک شیعہ اسدی نامی شخص سے نقل کیا ہے اور اسدی نے سہل نامی شیعہ راوی سے نقل کیا ہے اور سہل نے شاہ عبدالعظیم حسنی سے اور انھوں نے امام جواد علیہ السلام سے اور انھوں نے امام رضا علیہ السلام سے اور انھوں نے اپنے اٰباء اجداد سے اس طرح نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "دخلت انا و فاطمۃ علیٰ رسول اللہ"میں اور میری زوجہ فاطمہ سلام اللہ علیھا پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے راویان حدیث نے نو اماموں سے اس روایت کو نقل کیا ہےاور حضرت عبدالعظیم سے امام علی تک ہر امام نے اس روایت کو اپنے زمانہ کے لوگوں کے سامنے بیان کیا ہے"فوجدتہ یبکی بکاء شدیدا "پیغمبر شدت کے ساتھ گریہ کررہے تھے امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں۔ آپ کے اس گریہ و زاری کی کیا وجہ ہے؟ پیغمبر اکرم نے فرمایا: یا علی جس رات مجھے معراج پر لے جایا گیا میں نے بہت سی چیزیں دیکھی جو آپ کے لئے بیان کرتا ہوں ۔میں نے اپنی امت کی خواتین کومعمولی عذاب میں نہیں بلکہ سخت عذاب میں مبتلا دیکھا۔میری امت پر ہونے والا عذاب میرے لئےتکلیف کا سبب بنا اور شدت عذاب کی وجہ سے میں گریہ کرنے لگا۔آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ جسے اس کے بالوں کے ذریعہ جہنم کی دیوار سے لٹکا رکھا تھا اور اس کا بھیجا ابل رہا تھا۔ ایک عورت کو دیکھا جسے اس کی زبان کے ذریعہ لٹکا رکھا تھا اور جھنم کا گرم پانی اس کے حلق میں ڈالا جا رہا تھا۔ ایک عورت کو دیکھا جسے اس کے سینہ کے ذریعہ لٹکا رکھا تھا۔ ایک عورت کو دیکھا کہ جو اپنے بدن کا گوشت نوچ کر کھا رہی تھی اور جہنم کی آگ اس کی شرم گاہ میں داخل ہوکر اس کے منھ سے خارج ہورہی تھی۔ ایک عورت کو دیکھا جس کے دونوں ہاتھ پیر بندھے ہوۓ تھے اور سانپ اور بچھو اس کے بدن سے چپکے ہوئے تھے۔ایک عورت کو دیکھا کہ جو اندھی، بہری اور گونگی تھی اس کا بدن ااگ کے تابوت میں رکھا ہوا تھا اور اس کا مغز اس کی ناک کے راستہ سے بہہ رہا تھا اس کا بدن جہنم میں برص اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے پارہ پارہ ہورہا تھا ایک عورت کو دیکھا جسے اس کے دونوں پیروں کے ذریعہ آگ کے تنور میں لٹکا رکھا تھا ایک عورت کو دیکھاکہ جس کے بدن کا گوشت اس کے بدن سے جدا ہورہا تھا اور جہنم کی آگ چاروں طرف سے اس کے اوپر حملہ کررہی تھی اور جہنم کی قینچی سے اس کے گوشت کو کاٹ رہے تھے۔ایک عورت کو دیکھا جسے جہنم کی آگ نے گھیر رکھا تھا اور وہ اپنے ہاتھ کے ذریعہ اپنے معدہ اور آنتوں کو کھا رہی تھی ایک عورت کو دیکھا کہ جس کا سر سور کے مثل اور بدن گدھے کی طرح تھا اور وہ لاکھو قسم کے عذاب میں مبتلا تھی۔ ایک عورت کو دیکھا جس کا سر کتے کی طرح تھا اور جہنم کی آگ اس کے نیچہ سے داخل ہو رہی منھ سے خارج ہو رہی تھی اور ملائکہ آگ کے گرز اس کے سر پر مار رہے تھے۔ پیغمبراسلام کی گفتگو ختم ہونے کے بعد حضرت زہراء سلام اللہ علیھا نے عرض کیا اے میرے حبیب میرے مہربان بابا جان ان عورتوں نے کون سا گناہ کیا تھا ان کا طریقۂ زندگی کیا تھا جس کی وجہ سے پروردگار متعال نے ان پر اس طرح کے عذاب کو مسلط کیاپیغمبر اسلام نے فرمایا بیٹی وہ عورت جسے اس کے سر کے بالوں کے ذریعہ جہنم کی دیوار سے لٹکا رکھا تھا وہ عورت اپنے سر کے بالوں کو لوگوں ے نہیں چھپاتی تھی اور وہ کسی طرح کا پردہ نہیں کرتی تھی۔ وہ عورت جسے اس کی زبان کے ذریعہ لٹکا رکھا تھا وہ عورت تھی جو بلا وجہ اپنی زبان اور غلط باتوں کے ذریعہ اپنے شوہر کو تکلیف پہونچاتی تھی۔اور وہ عورت جسے اس کے سینہ کے ذریعہ لٹکا رکھا تھا وہ تھی جو اپنے شوہر کی خواہشات نفسانی کو پورا نہیں کرتی تھی یہاں تک کہ اسے اپنے پاس تک نہیں سونے دیتی تھی اب چاہے وہ خاتون مقدس ہی کیوں نہ ہو اور اس نے شوہر کو یہ کہہ کر دور کیا ہو کہ مجھے نماز شب پڑھنا ہے یا اس کے مزاج میں ٹھنڈک ہو ہر صورت میں پیغمبرکی حدیث کے مطابق اگر اپنے شوہر کی جنسی ضرورتوں کو پورا نہ کرے تو اس کو جہنم میں اس کے سینہ کے ذریعہ لٹکایا جاے گا۔ اور وہ عورت جسے اس کے دونوں پیروں کے ذریعہ لٹکا رکھا تھا وہ عورت ہے جو بغیر کسی شرعی عذر اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلتی ہے اگر عورت نیک امور یا حلال و حرام کو جاننے کے لئے گھر سے باہرنکلتی ہے مثلا مسجد جاتی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر عورت گھر سے باہر نکلے جس کے نتیجہ میں مرد کے حقوق پامال ہوں تو اس صورت میں اس کا گھر سے باہر نکلنا گناہ ہے۔ اور وہ عورت جو آگ میں اپنا گوشت کھا رہی تھی ، وہ تھی جو اپنے گھر میں اپنے آپ کو آراستہ کرتی تھی اور اس کے بعد خوش نما لباس پہن کر لوگوں کے سامنے اپنے جسم کی نمایش کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلتی تھی اگر چہ اس کا کسی مرد کے ساتھ غیر شرعی رابطہ نہیں تھا۔ وہ عورت جس کے ہاتھ اور پیر بندھے ہوۓ تھے اور سانپ و بچھو اس کے بدن سے چپکے ہوۓ تھے، وہ عورت تھی جو اعضاء وضو کو پاک کئے بغیر وضو کرتی تھی اور نجس لباس پہنتی تھی اور غسل جنابت اور غسل حیض نہیں کرتی تھی اور نماز کو ہلکا سمجھتی تھی۔اور وہ عورت جو گونگی، بہری اور اندھی تھی وہ تھی جس کے یہاں زنا کے ذریعہ ولادت ہوئی تھی اور اس نے اس کاالزام شوہر کے اوپر لگایا تھا اور شوہر کو بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ بچہ اس کا نہیں ہے اور آخر عمر تک اس کے دوسروں کے ساتھ غیر شرعی روابط تھے۔ اور وہ عورت جس کے بدن کو ملائکہ جہنم کی قینچی کے ذریعہ کاٹ رہے تھے وہ تھی جو خط اور دوسرے وسائل سے نامحرموں سے روابط رکھتی تھی اور وہ عورت جس کو جہنم کی آگ نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور وہ اپنے معدہ اور آنتوں کو کھا رہی تھی، وہ عورت تھی جو نامحرم مرد اور عورت کے درمیان دلال کا کام کرتی تھی کہ جس کے پاس اس کے بوڑھی ہونے کی وجہ سے کوئی نہیں آتا تھا اور وہ دلالی کرتی تھی۔ اور وہ عورت کہ جس کا سر سور کی طرح اور بدن گدھے کی طرح تھا وہ تھی جو میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرکے ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیتی تھی اور ان کا چین و سکون چھین لیتی تھی اور جھوٹ بولتی تھی اور وہ عورت جس کا چہرہ کتے کا تھا اور جہنم کی ااگ اس کے نیچہ سے داخل ہوکر منھ کے راستہ سے باہر نکل رہی تھی وہ ناچنے گانے والی عورتوں کی سردار تھی اور مردوں کی محافل میں ناچتی گاتی تھی ، پیغمبر کے زمانہ میں ریڈیو ٹیلیویزن نہیں تھے لیکن پیغمبر نے جو لفظ استعمال کیا ہے "فانہا کانت قیننۃ" کہ جو گانا گاتی تھی اور ناچنے والی عورتوں کی سردار تھی اور لوگ اس کی محفلوں میں شرکت کرتے تھے ۔ پیغمبر کو ان کے حال پر اس طرح تڑپ تڑپ کر گریہ کرنے کا حق حاصل تھا، وہ خواتین جو ان مسائل کو پڑھ رہی ہیں اور ان عورتوں میں سے ہیں جن کا تذکرہ حدیث میں کیا گیا ہے اور جو ہیغمبر اسلام کو اذیت پہونچا رہی ہیں کہ جس کو علی اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کہتے ہیں کہ پیغمبرشدت کت ساتھ گریہ کررہے تھے۔ میں تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا ہے میں ان تمام بی حجاب عورتوں سے کہنا چاہتا ہوں کے تیئیس سال مکہ اور مدینہ میں پیغمبر کو لوگوں نے بہت اذیتیں پہونچائیں اب آپ ان کو تکلیف نہ پہونچائیں۔ پیغمبر کو علاوہ ایک غم اور تھ جس کی وجہ سے آپ ہمیشہ گریہ کرتے تھے ایک دن ااپ سے سوال کیا گیا کیوں آپ اس قدر گریہ کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: بیٹا حسین اب تم نے سوال کرہی لیا ہے تو بتاتا ہوں، میرے بعد تمہارے بابا علی ،ماں فاطمہ اور بھائی حسن اور تمہارے لئے عجیب و غریب حوادث پیش آئیں گے اور یہ امت تم لوگوں کے اوپر طرح طرح کے مظالم ڈھاۓ گی بیٹا حسین میرا بہت دل چاہتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کومرنے کے بعد میرے کنارے دفن کیا جاۓ لیکن یہ لوگ میرے مرنے کے بعد تم سب کو مجھ سے دور کردیں کے میں کیوں گریہ نہ کروں جبکہ میں تمہاری ماں کو در و دیوار کے درمیان روتے دیکھ رہا ہوں، اور محراب دیک رہا ہوں جہاں تمہارے باپ کے سر کو شکافتہ کیا جاۓ گا اور تمہارے بھائی حسن کے جنازے پر میری قبر کے نزدیک حملہ کیا جاۓ گا کہ جس نے اپنی شہادت کے وقت امام حسین سے فرمایا: "لا یوم کیومک یا اباعبد اللہ " اے حسین آپ کی شہادت کے دن جیسا کوئی دن نہیں ہے،آقا حسین پوری کائنات میں آپ کی شہادت کے دن جیسا کوئی دن نہ ہوگا۔ [1] بحار الانوار ج ۴۵ ص ۲۱۸ باب ۴۰ حدیث ۴۴ ۔ الامالی، شیخ صدوق۱۱۵ حدیث ۳ مجلس ۲۴