حسنِ معاشرت ( کتاب و سنّت کی روشنی میں )
حسنِ معاشرت ( کتاب و سنّت کی روشنی میں )
0 Vote
139 View
رسول اکرم ، جس کے ساتھ رہو اس سے اچھا سلوک کرو تا کہ مسلمان کہے جاسکو۔(امالی صدوق (ر) 168 /13، امالی مفید (ر) 350 /1 مناقب الامام امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 276 / 744 روایت اسماعیل بن ابی زیاد عن الصادق (ع) ، روضة الواعظین ص 474 ، مشکٰوة الانوار ص 68)۔ امام علی (ع) ! وقت آخر اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا، دیکھو لوگوں کیساتھ اس طرح معاشرت کرو کہ غائب ہوجاؤ تو تلاش کریں اور مرجاؤ تو گریہ کریں (اعلام الدین ص 215 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 75)۔ امام علی (ع) ! اپنے بھائی کے لئے جان و مال دیدو، دشمن کو عدل و انصاف دو، اور عام لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ ( تحف العقول ص 212)۔ امام علی (ع) اپنے دوست کو نصیحت کرو ، جان پہچان والوں کی مدد کرو اور عام لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آؤ ۔( غرر الحکم 2466)۔ ۔امام صادق (ع) ! منافق کے ساتھ زبان سے احسان کرو، مومن کے ساتھ دل سے محبت کرو اور اگر یہودی کا ساتھ ہوجائے جب بھی حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ۔( الفقیہ 4 ص 404 / 5872 ، امالی صدوق 502 / 8، اختصاص ص 230 روایت اسحاق بن عمار، امالی مفید 58/10) الزہد للحسین بن سعید 22 ص 49 روایت سعد بن طریف عن الباقر (ع) تحف العقول ص 292 عن الباقر (ع) ، مشکوة الانوار ص 82)۔ امام صادق (ع) ! کوفہ سے آئی ہوئی ایک جماعت کو رخصت کرتے ہوئے فرمایا ، میں تمھین نصیحت کرتاہوں کہ تقویٰ الہی اختیار کرو اس کی اطاعت کرو ، معصیت سے پرہیز کرو ، جو امانت رکھے اس کی امانت کو واپس کرو، جس کے ساتھ بیٹھ جاؤ اچھی معاشرت کرو، ہمارے حق میں خاموش داعی بنو۔ ان لوگوں نے عرض کی کہ حضور خاموش رہیں گے تو دعوت کیسے دیں گے ، فرمایا کہ ہم نے جس اطاعت خدا کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرو اور جس معصیت سے روک دیا ہے اس سے روک جاؤ ، لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو ، امانتوں کو واپس کرو ، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو، لوگ تمھارے بارے میں خیر کے علاوہ کچھ نہ جانیں، جب لوگ یہ صورت حال دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ فلاں کی جماعت ہے، خدا اس کے قائد پر رحمت کرے کس قدر حسین ادب سکھایاہے اور اس طرح ہمارے فضل و شرف کو پہچان لیں گے اور ہماری طرف دوڑ کر آجائیں گے ، میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ میرے پدر بزرگوار ( ان پر اللہ کی رحمت و برکت و مرضات) فرمایا کرتے تھے کہ ایک زمانہ تھا ، جب ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ بہترین افراد تھے کہ اگر مسجد کا امام ہوتا تھا تو انھیں میں سے اگر قبیلہ کا موذن ہوتا تھا تو انھیں میں سے اگر کسی کے پاس امانتیں رکھوائی جاتی تھیں تو انھیں میں سے ، اگر کوئی امانت دار ہوتا تھا تو انھیں میں سے ، اگر کوئی عالم و مبلغ ہوتاتھا تو انھیں میں سے ۔ اب تمھارا فرض ہے کہ تم بھی ایسے ہی ہوجاؤ اور لوگوں کے درمیان ہمیں محبوب بناؤ لوگوں کو ہم سے بیزار نہ بناؤ ( دعائم الاسلام 1 ص 56)۔ 767۔ امام عسکری نے اپنے شیعوں سے فرمایا کہ میں تمھیں تقوی الہی ، دین میں احتیاط ، عمل میں جد و جہد ، گفتگو میں صداقت ، امانت میں واپسی ( چاہے صاحب امانت نیک ہویا فاسق و فاجر) سجدوں میں طول اور ہمسایہ کے ساتھ اچھے برتاؤ کی وصیت کرتاہوں یہی وہ دین ہے جو پیغمبر اسلام لے کر آئے تھے، قبیلہ والوں کے ساتھ نماز پڑھو، ان کے جنازوں کی مشایعت کو ، ان کے مریضوں کی عیادت کرو، ان کے حقوق کو ادا کرو کہ جب تمھارا کوئی شخص دین میں محتاط ہوگا ، باتوں میں سچا ہوگا ، امانت کو ادا کرے گا ، لوگوں سے اچھے برتاؤ کرے گا تو کہا جائے گا کہ یہ شیعہ ہے اور اس طرح مجھے مسرت ہوگی ، دیکھو اللہ سے ڈرو ، ہمارے واسطے زینت بنو، باعث عیب نہ بنو، ہماری طرف مودتوں کو کھینچ کر لے آؤ اور ہم سے ہر برائی کو دور رکھو ہمارے بارے میں جو بھی اچھی بات کہی جائے گی ہم اس کے اہل ہوں گے اور جو بری بات کہی جائے گی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، ہمارا کتاب خدا میں ایک حق اور رسول خدا سے ایک قرابت ہے، ہم صاحبان تطہیر ہیں، ہمارے علاوہ جو اس بات کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہوگا، اللہ کا ذکر زیادہ کرو، موت کو برابر یاد رکھو، تلاوت قرآن کرتے رہو، صلوات پڑھتے رہو کہ صلوات دس نیکیوں کے برابر شمار ہوتی ہے، میری وصیتوں کو یاد رکھنا ، میں تمھیں خدا کے سپرد کرتاہوں ۔ والسلام ( تحف العقول ص 487)۔ مسؤلیت علماء امام علی ! آگاہ ہوجاؤ۔ اس مالک کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور زندگی کو ایجاد کیاہے، اگر حاضرین موجود نہ ہوتے اور انصار کی موجودگی سے حجت قائم نہ ہوگی ہوتی اور پروردگار نے علماء سے یہ عہد نہ لیا ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پیاس پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی باگ ڈور پھر اسی کی گردن پر ڈال دیتا اور آخر کو بھی پہلے ہی جام سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمھاری یہ دنیا میری نظر میں ایک بکری کی چھینک سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن کیا کروں ۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 3)۔ امام علی (ع) ، متقین اور فاسقین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے عترت پیغمبر کے صحیح مرتبہ کا تعارف کراکے لوگوں کی غلط فہمیوں کا اس طرح ازالہ فرماتے ہیں ، بندگان خدا ! خدا کے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جس کی خدا خود اس کے نفس کے مقابلہ میں مدد کردے اور وہ حزن کو شعار بنالے اور خوف خدا کی چادر اوڑھ لے، ہدایت کا چراغ اس کے دل کے اندر روشن ہوجائے اور آنے والے دن کے لئے سامان فراہم کرلے، ایسا ہی شخص دین خدا کا معدن اور زمین خدا کا مرکز ہوتاہے، جس نے اپنے نفس پر عدل کو لازم کرلیاہے اور عدل کا آغاز ، یہاں سے کیا ہے کہ خواہشات نفس کو ختم کردیاہے، حق بیان بھی کرتاہے اور اسی پر عمل بھی کرتاہے، خیر کی کوئی منزل نہیں ہے جس کا ارادہ نہ کرتا ہو اور اس کا کوئی احتمال نہیں ہے جس کا قصد نہ کرتا ہو، اپنی زمام کتاب خدا کے ہاتھ میں دیدی ہے، وہ ہی اس کی قائد اور راہنما ہے، جہاں اس کا حکم ہوتاہے ٹھہرجاتاہے اور جس جگہ وہ نازل ہوجائے وہیں نازل ہوجاتاہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جسے لوگوں نے عالم کہہ دیاہے حالانکہ وہ عالم نہیں ہے، ادھر ادھر سے جہالتوں کو جاہلوں سے اور گمراہیوں کو گمراہوں سے حاصل کرلیاہے اور لوگوں کے لئے دھوکہ کے جال بچھادیے ہیں اور مکر و زور کے پھنے تیار کرلئے ہیں، کتاب خدا کو اپنے خیالات پر محمول کرتاہے اور حق کو اپنی خواہشات کی طرف موڑ دیتاہے، لوگوں کو بڑے بڑے جرائم کی طرف سے مطمئن کردیتاہے اور عظیم کبائر کو آسان بناکر پیش کردیتاہے، لوگوں سے کہتاہے کہ میں تو شبہات مین بھی احتیاط کرتاہوں حالانکہ شبہات ہی میں پڑا ہوا ہے۔ دعویٰ کرتاہے کہ میں بدعتوں سے الگ رہتاہوں حالانکہ اسی کے پہلو میں پڑا رہتاہے، اس کی صورت انسان جیسی ہے اور دل جانور جیسا ، نہ راہ ہدایت کو جانتاہے کہ اس کا اتباع کرے اور نہ باب گمراہی کو پہچانتاہے کہ اس سے پرہیز کرے، یہ زندوں میں ایک مردہ ہے۔ لہذا اب تم لوگ کدھر جارہے ہو اور کہاں بھٹک رہے ہو؟ جبکہ نشانباں قائم ہیں، علامات واضح ہیں ، منارہٴ ہدایت نصب ہوچکا ہے تو اب تمھیں کدھر لے جایا جارہاہے اور کیسے اندھے ہوئے جارہے ہو جبکہ تمھارے درمیان عترت پیغمبر موجود ہے اور یہی لوگ حق کی زمام، دین کے پرچم اور صداقت کی زبان ہیں، انھیں قرآن کی بہترین منزلوں پر رکھو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسا چشمہ پر وارد ہوتاہے۔ ایہا الناس ! خاتم النبیین کے ارشاد گرامی پر اعتماد کرو کہ ہم میں سے جب کوئی مرجاتاہے تو وہ مردہ نہیں ہوتا اور کہنہ سال ہوتاہے تو سال خوردہ نہیں ہوتاہے جو بات نہیں جانتے ہو اسے منہ سے مت نکالو کہ حق کا بیشتر حصہ وہی ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو، اسے معذور قرار دو جس پر تمھاری کوئی حجت نہیں ہے یعنی میں … دیکھو کیا میں نے ثقل اکبر پر عمل نہیں کیا ہے اور ثقل اصغر کو تمھارے درمیان نہیں رکھا ہے، میں نے تمھارے درمیان ایمان کا پرچم نصب کردیاہے اور تمھیں حلال و حرام کے حدود سے آگاہ کردیاہے، اپنے عدل کی بناپر لباس عافیت پہنا دیا ہے اور اپنے قول وفعل سے نیکیوں کا فرش بچھا دیاہے اور اپنے نفس سے بلندترین اخلاق کا مشاہدہ کرادیاہے، خبردار ان چیزوں میں اپنی رائے استعمال مت کرو جن کی گہرائیوں تک نگاہیں نہیں جاسکتی ہیں ہے اور جن کے اندر نفوذ کرنے کا یارا فکر کو بھی نہیں ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 87)۔ امام حسین (ع) ! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں ان کلمات کو امیر المومنین (ع) سے بھی نقل کیا گیا ہے ” ایہا الناس ان کلمات سے عبرت حاصل کرو جن کی نصیحت پروردگار نے اپنے دوستوں کو کی ہے اور ان میں یہودی علماء کی مذمت کی ہے کہ یہ لوگ لوگوں کو بری باتوں سے منع نہیں کرتے تھے، اور اسی بناپر قابل لعنت قرار پائے تھے اور یہ ان کا بدترین طرز عمل تھا۔ یہ مذمت اس لئے کی گئی تھی کہ وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ ظالم لوگ منکرات اور فساد میں مبتلا ہیں لیکن انھیں منع نہیں کرتے تھے یا اس لالچ میں کہ ان سے منافع حاصل کرنا چاہتے تھے یا اس خوف سے کہ وہ صاحبان اقتدار تھے جبکہ پروردگار کہہ رہا تھا کہ ” لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو“۔( مائدہ آیت 44)۔ ”صاحبان ایمان آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔( توبہ آیت ص 71) پروردگار نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فریضہ قرار دیاہے کہ اسے معلوم ہے کہ اگر یہ کام ہوجائے تو سارے فرائض قائم ہوسکتے ہیں ، یہ مسئلہ اسلام کی طرف دعوت ، مظالم کی روک تھام، ظالم کی مخالفت حقوق شرعیہ کی صحیح تقسیم ، صدقات کے برمحل صرف کا ذریعہ ہے۔ پھر تم لوگ تو علم کے ساتھ شہرت رکھتے ہیں اور تمھارا ذکر خیر کے ساتھ ہوتاہے، نصیحت کرنے والے ہو، لوگوں کے دلوں میں ہیبت رکھتے ہو، شریف تم سے مرعوب رہتے ہیں ، ضعیف تمھارا احترام کرتے ہیں، وہ لوگ بھی تمھیں مقدم کرتے ہیں جن پر نہ تمھیں کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ تمھارا کوئی احسان ہے، لوگوں کے ضروریات میں سفارش کرکے کام کرادیتے ہو اور لوگوں کے درمیان بادشاہ بن کے رعب و داب اور بزرگوں کی ہیبت کے ساتھ چلتے ہو۔ کیا تمھاری یہ ساری حیثیت و شخصیت اس لئے نہیں ہے کہ لوگ تم سے امید رکھتے ہیں کہ تم حق الہی کے ساتھ قیام کرسکتے ہو اگر چہ تم اکثر حقوق میں کوتاہے کررہے ہو، تم نے ائمہ کے حق مین کوتاہی کی ہے کمزوروں کے حقوق کو ضائع کیا ہے،صرف اپنا حق طلب کرتے رہتے ہو نہ کوئی مال خرچ کرتے ہو اور نہ نفس کے لئے کوئی خطرہ مول لیتے ہو اور نہ خدا کے لئے اپنی قوم سے کوئی مول لیتے ہو ، صرف یہ آرزو رکھتے ہو کہ جنّت مل جائے، انبیاء کرام کے ہمسایہ میں رہیں اور عذاب سے نجات حاصل کرلیں ۔ اے خدا سے بیجا آرزوئیں وابستہ کرنے والو ! مجھے تمھارے بارے میں عذاب کے نازل ہوجانے کا خطرہ ہے کہ تم خدا کی مہربانی سے اس منزل تک پہنچ گئے ہو جہاں بہترین فضیلت دی جاتی ہے ، تم خدا شناسوں کا احترام نہیں کرتے ہو اور بندگان خدا تمھارا احترام کرتے ہیں ، تم عہد الہی کو ٹوٹتے دیکھتے ہو تو بیچین نہیں ہوتے ہو حالانکہ اپنے عہدوں کیلئے ہمیشہ بیچین رہتے ہو، دیکھو پیغمبر اسلام کا عہد حقیر بنایا جارہاہے ، شہروں میں اندھے پن ، گونگے پن اور لنج کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں مگر نہ تمھیں رحم آتاہے اور نہ تم اپنے مقام پر عمل کرتے ہو اور نہ عمل کرنے والوں کی مدد کرتے ہو، صرف ظالموں کی خوشامد اور ان کے ساتھ اچھے تعلقات کی پناہ تلاش کرتے رہتے ہو، پروردگار نے تمھیں برائیوں سے رکنے اور روکنے کا حکم دیا ہے مگر تم سب سے غافل ہو، تمھاری مصیبت سب سے زیادہ عظیم تر ہے کہ کہ تم علماء کی جگہ لئے ہوئے ہو، اگر تمھیں اس بات کا شعور ہو۔ یاد رکھو کہ تمام امور دنیا اور احکام کے تنفیذی راستے ان علماء کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو حلال و حرام کے امین ہوتے ہیں ، اور تمھارے پاس یہ منزلت نہیں ہے، اس لئے کہ تم نے حق سے انحراف کیا ہے اور واضح دلائل کے باوجود سنت میں اختلاف کیا ہے ، حالانکہ اگر تم اذیتوں پر صبر کرلیتے اور خدا کے معاملہ میں دشواریوں کو برداشت کرلیتے تو تمام مذہبی امور تمھارے ہی پاس وارد ہوتے اور تمھارے ہی گھر سے برآمد ہوتے اور پھر بازگشت بھی تمھاری ہی طرف ہوتی۔ لیکن افسوس کہ تم نے ظالموں کو اپنے سارے اختیارات دیدئے اور امورا لہیہ کو ان کے حوالہ کردیا کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات کی راہ میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں ، انھیں سارا اختیار تمھارے موت سے فرار اور دنیاپسندی نے دیدیاہے، اگر چہ یہ دنیا ساتھ دینے والی نہیں ہے، تم نے اللہ کے کمزور بندوں کو ظالموں کو رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے کہ اب کوئی وطن سے دور مقہور ہے اور کوئی کمزور اور روٹی سے محروم ہے اور یہ سب ساری حکومت میں انھیں کی مرضی سے الٹ پلٹ کرتے ہیں اور ذلت و رسوائی کواپنا شعار بنائے ہوئے ہیں کہ انھوں نے اشرار کی اقتداء کرلی ہے اور خدائے جبار کے مقابلہ میں جری ہوگئے ہیں ، ہر شہر کے منبر پر انھیں کا خطیب گرج رہاہے، زمین انھیں کے زیر تصرف ہے اور ان کے ہاتھ بالکل کھلے ہوئے ہیں، لوگ ان کے غلام ہوچکے ہیں اور کسی کے ہاتھ کو روک نہیں سکتے ہیں۔ ان ظالموں میں کوئی دشمن ترین جابر ہے اور کوئی کمزوروں پر ظلم ڈھانے والا صاحب اختیار ہے، ایسا حکمراں ہے جو اس خدا کو پہچانتا ہی نہیں ہے جس نے ایجاد کیا ہے اور پھر واپس بلانے والا ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے اور کس طرح تعجب نہ کیا جائے کہ زمین خدا خیانت کار منحوسوں اور صدقہ دینے والے ظالموں اور مومنین کے حق میں بے رحموں سے بھری ہوئی ہے خیر اب خدا ہی ہمارے اختلاف کا فیصلہ کرے گا اور وہی ان مسائل میں اپنے فیصلہ کو جاری کرے گا ۔ خدایا تجھے معلوم ہے کہ میرا اقدام نہ کسی اقتدار کے حصول کے لئے تھا اور نہ مال دنیا کی تلاش کے لئے، میں صرف یہ چاہتا تھا کہ تیرے دین کے نشانات واضح ہوجائیں، تیرے شہروں میں اصلاح نمایاں ہوجائے، تیرے مظلوم بندے مطمئن ہوجائین اور تیرے فرائض ، سنن ، اور احکام پر عمل ہونے لگے۔ یاد رکھو کہ تم لوگ اگر اب بھی میری مدد نہ کروگے اور انصاف نہ کروگے تو ظالم مزید قوی ہوجائیں گے اور تمھارے پیغمبر کے چراغ ہدایت کو خاموش کردیں گے، اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور اسی پر ہمارا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی بارگاہ میں ہماری بازگشت ہے۔( تحف العقول ص 237)۔ امام زین العابدین (ع) ! آپ نے محمد بن مسلم الزہری کو نصیحت فرماتے ہوئے ایک خط ارسال فرمایا، اللہ ہمیں اور تمھیں فتنوں سے بچائے اور آتش جہنم سے محفوظ رکھے، تم نے اس حال میں صبح کی ہے کہ جو ھی تمھیں پہچان لے گا تمھارے حال پر رحم کرے گا ، تمھارے اوپر اللہ کی نعمتوں کا ایک بوجھ ہے، اس نے تمھارے بدن کو صحت دی ہے، زندگی کو طویل بنایاہے، کتاب دے کر حجت تمام کردی ہے ، دین فہمی کا شعور دیاہے، سنت پیغمبر کا عرفان عطا فرمایاہے اور پھر ہر نعمت کے مقابلہ میں اور ہر اتمام حجت کے نتیجہ میں ایک فرض قرار دیاہے اور وہ فرض یہ ہے کہ ہر فضل و کرم اور ہر نعمت و احسان پر اس کا شکریہ ادا کرو، ارشاد ہوتاہے ” اگر تم میرا شکریہ ادا کروگے تو میں اضافہ کردوں گا اور اگر کفران نعمت کروگے تو میرا عذاب بہت سخت ہوگا۔ تو اب دیکھو کہ کل تمھارا کیا حال ہوگا جب اس مالک کے سامنے کھڑے ہوگے اور وہ ہر نعمت کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس کا کس طرح تحفظ کیا تھا اور ہر حجت کے بارے میں سوال کرے گا کہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ کیا تھا اور یہ یاد رکھو کہ خدا نہ کسی بے ربط عذر کو قبول کرسکتاہے اور نہ کسی تقصیر سے راضی ہوسکتاہے، افسوس ، افسوس، یہ کچھ نہیں ہوسکتاہے، اس نے اپنی کتاب میں علمائے سے عہد لے لیا ہے کہ اسے لوگوں کے لئے واضح کروگے اور اس کے مطالب کو چھپاؤگے نہیں “۔( آل عمران 187)۔ یاد رکھو کہ کم سے کم نعمت خدا کا کتمان اور معمولی سے معمولی تمھاری مسؤلیت یہ ہے کہ تم نے ظالم کی وحشت کو انس میں تبدیلی کیا ہے اور اس کی گمراہی کے راستہ کوآسان کردیا ہے کہ جب اس نے چاہا اس سے قریب ہوگئے اور جب اس نے پکارا لبیک کہہ دی ۔ مجھے کس قدر خوف ہے کہ کل تم منزل عتاب میں اس گناہ کی بناپر خائنوں کے ساتھ محشور ہو اور تم سے ظالموں کی اس اعانت کا حساب لیا جائے کہ تم نے ظالم کے غلط عطیہ کو قبول کرلیا اور حقدار کو حق نہ دینے والے سے قرب اختیار کرلیا ، اس کے باطل کو رد نہیں کیا اور خدا سے مقابلہ کرنے والے کے مطالبہ کو قبول کرلیا۔ کیا ظالم کا تمھیں بلاکر ایسا قطب قرار دیدینا جس پر وہ ظلم کی چکی چلاسکے اور ایسا پل بنادینا جس سے گذر کر مظالم تک پہن سکے اور ایسی سیڑھی کا درجہ دیدینا جس سے گمراہی تک جاسکے… اور مسلسل ضلالت کی دعوت دیتے ہوئے اپنے راستہ پر چلتا رہے جس کا مقصد یہ تھا کہ تمھارے ذریعہ علماء کو مشکوک بنائے اور پھر جہلاء کے دلوں کو ان کی طرف کھینچ کر لے جائے، تو ظالم کے مخصوص ترین وزیر اور مقرب ترین مددگار نے بھی وہ نہیں کیا جو تمھارے ذریعہ ہوگیا کہ ان کے فساد کی تائید کردی اور ان کے پاس عوام و خواص کی آمد و رفت کا ذریعہ بن گئے۔ بھلا کس قدر وہ دولت کم ہے جو انھوں نے تمھیں اس برے کام کے معاوضہ میں دی ہے اور کس قدر معمولی وہ تعمیر تمھارے لئے کی ہے اس تخریب کے مقابلہ میں جو تمھاری آخرت کے سلسلہ میں کردی ہے، اب تم اپنے بارے میں خود غور کرو کہ دوسرا غور کرنے والا نہیں ہے اور تم اپنا حساب اس شخص کی طرح کرو جسے کل حساب دینا ہے۔ اور یہ بھی دیکھو کہ تم نے اس کا کیسا شکریہ ادا کیا ہے جس نے صبح و شام چھوٹی بڑی نعمتوں کی غذا دی ہے ، مجھے تو بیحد خوف ہے کہ تمھارا حال ان لوگوں جیسا نہ ہوجائے جن کے بارے میں ارشاد الہی ہوتاہے“ ان کے بعد وہ لوگ کتاب کے وارث ہوگئے جنھیں صرف اس دنیا کے مال و متاع کی فکر تھی اور آخرت کے بارے میں کہتے تھے کہ عنقریب ہمارے گناہ معاف کردیے جائیں گے “ (اعراف 169)۔ تم قیام والے گھر میں نہیں ہو، تم ایسی منزل میں ہو جہاں سے کوچ کا اعلام ہوچکاہے اور آدمی اپنے ساتھیوں کے بعد رہ بھی کس قدر سکتاہے خوشا بحال جو اس دنیا میں خوف آخرت کے ساتھ زندہ رہیں، اور بدبختئ ان کے لئے ہے جو خود تو مرجائیں لیکن ان کے گناہ باقی رہ جائیں۔ ہوشیار ہوجاؤ کہ تمھیں خبردار کردیا گیاہے اور جلدی عمل کرو کہ وقت کم رہ گیا ہے ، تمھارا معاملہ اس سے ہے جو جاہل نہیں ہے اور تمھارے اعمال کا محافظ وہ ہے جو غافل نہیں ہے، تیاری کرو کہ طولانی سفر قریب آگیا ہے اور اپنے گناہوں کا علاج کرو کہ شدید بیماری کا سامنا ہے۔ خبردار یہ خیال نہ کرنا کہ میں تمھیں تنبیہ اور سرزنش کرنا چاہتاہوں، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہاری جورائے مردہ ہوچکی ہے وہ زندہ ہوجائے اور تمھارا جو دین گم ہوگیاہے وہ پلٹ کر چلا آئے، تمھین تو پروردگار کا یہ ارشاد یاد ہے” یاد دلاتے رہو کہ یاد دہانی صاحبان ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے“ (زیارات 55)۔ کیا تمھیں وہ ساتھی ، ہمسن یاد نہیں ہیں جو یہاں سے چلے گئے اور تمھیں اکیلا چھوڑ گئے، اور تمھیں اکیلا چھوڑ گئے، دیکھو کیا وہ بھی اس مصیبت میں مبتلا تھے جس میں تم مبتلا ہو یا اس مسئلہ میں گر پڑے تھے جس میں تم گرے ہو، یا تمھیں کوئی ایسا خیر یاد آگیا ہے جسے انھوں نے چھوڑ دیا تھا یا ایسی چیز معلوم ہوگئی ہے جس سے وہ ناواقف تھے… تمھیں تو یہ نعمت بھی حاصل ہوگئی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں تمھاری مخصوص جگہ ہے اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں ، تمھاری رائے کا اتباع ہوتاہے، تمھارے احکام پر عمل ہوتاہے، تمھارے حلال و حرام کی پابندی کی جاتی ہے۔ اور عوام کو تمھارے اس اتباع پر صرف اس چیز نے آمادہ کردیا ہے کہ علماء ختم ہوگئے ہیں اور جہل تم پر اور ان پر دونوں پر غالب آگیاہے اور ریاست کی محبت نے غلبہ کرلیا ہے اور یہ تم سے اور حکام سے دنیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اب کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ تم کس جہالت اور فریب میں مبتلا ہو اور عوامل کس بلا اور فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ ان کو سارا شوق ہے کہ تمھارا جیسا علم حاصل ہوجائے اور تمھاری جیسی منزل حاصل کرلیں اور اس کے نتیجہ میں اسی سمندر میں گڑ پڑے ہیں جس کی تھاہ نہیں مل سکتی ہے اور اسی بلاء میں مبتلا ہوگئے ہیں جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتاہے، اللہ ہم دونوں کا نگہبان ہے اور اسی سے مدد کی امید ہے۔ اچھا دیکھو اب ان حالات سے کنارہ کش ہوجاؤ تا کہ صالحین سے ملحق ہوجاؤ جو قبروں میں دفن ہوچکے ہیں، اس عالم میں کہ پیٹھ اور پیٹ ایک ہوگئے ہیں اور اب خدا اور ان کے درمیان کوئی حجاب نہیں رہ گیا ہے، نہ دنیا انھیں دھوکہ دے سکتی ہے اور نہ وہ دھوکہ کھاسکتے ہیں ۔ انھوں نے آخرت کی رغبت پیدا کی، اسے تلاش کیا اور بالآخر منزل تک پہنچ گئے۔ اگر دنیا تمھیں اس قدر بہکا سکتی ہے جبکہ بوڑھے ہوگئے ہو اور شعور پختہ ہوچکاہے اور موت سامنے آچکی ہو تو نوجوان کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں جو علم کے اعتبار سے جاہل ، فکر کے اعتبارسے کمزور اور عقل کے اعتبار سے مشکوک ہیں ۔(انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ بھلا کس پر بھروسہ کیا جائے اور کس کے پاس فریاد کی جائے، اور کس کے پاس فریاد کی جائے، ہم خدا کی بارگاہ میں اپنے غم اور تمہاری حالت کے بارے میں فریاد کرتے ہیں اور اسی کے یہاں اپنی مصیبتوں کا حساب کرتے ہیں۔ اب تم دیکھو کہ جس نے چھوٹی بڑی نعمتوں سے نوازا ہے اس کا شکریہ کس قدر ادا کرتے ہو او راس کی عظمت کا کس قدر خیال رکھتے ہو جس نے اپنے دین کے ذریعہ تمھیں لوگوں میں جمیل بنادیا ہے اس کے لباس عافیت کو کس قدر محفوظ رکھتے ہو جس کے ذریعہ اس نے تمھاری پردہ پوشی کی ہے، اس سے کس قدر قریب یا دور ہو جس نے تمھیں اپنے سے قریب رہنے کا حکم دیاہے۔ آخرت تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ اس غفلت سے ہوشیار نہیں ہوتے ہو ان لغزشوں سے سنبھلتے نہیں ہو کہ یہ اقرار کرو کہ بخدا میں نے ایک مقام پر بھی خدا کے لئے ایسا قیام نہیں کیا ہے جس سے اس کے دین کو زندہ کیا جاسکے یا کسی باطل کو مردہ بنایا جاسکے… اور اسی اقرار کو اس معبود کی نعمتوں کا شکریہ قرار دو، مجھے کس قدر خوف ہے کہ تم ان لوگوں جیسے ہوجاؤ جن کے بارے میں پروردگار نے فرمایا ہے کہ ” ان لوگوں نے نمازوں کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا تو اب عنقریب اپنی گمراہی کا سامنا کریں گے ۔( مریم 59)۔ خدا نے تمھیں اپنی کتاب کا حامل اور اپنے علم کا امانتدار بنایا تھا اور تم نے اسے ضائع کردیا ہے، ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو اس بلا سے محفوظ رکھا ہے جس میں تمھیں مبتلا کردیا ہے ۔ والسّلام (تحف العقول ص 274)۔ یزید بن عبداللہ نے اپنے راوی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ امام ابوجعفر (ع) نے سعد الخیر کے نام لکھا ’ ‘ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ اما بعد میں تمھیں تقویٰ الہی کی وصیت کرتاہوں کہ اسی میں بربادی سے نجات اور آخرت میں فائدہ کی امید ہے، پروردگار نے تقویٰ کے ذریعہ بندوں کو عقل کے گم ہوجانے سے بچایاہے اور ان کی جہالت اور گمراہی کا علاج کیاہے۔ تقویٰ ہی کے ذریعہ نوح اور ان کے اہل سفینہ نے نجات پائی تھی اور صالح اور ان کے ساتھیوں نے بجلی سے امان حاصل کی تھی، تقویٰ ہی کے ذریعہ صابرین اور ان کی جماعت نے ہلاکتوں سے نجات حاصل کی تھی اور ان کے ساتھی اسی راستہ پر چل کر اسی فضیلت کے طلب گار تھے، انھوں نے شبہات میں گرنے کی سرکشی کو چھوڑ دیا تھا کہ کتاب خدا کا پیغام ان تک پہنچ گیا تھا، انھوں نے رزق الہی پر اس کا شکریہ ادا کیا کہ وہ شکریہ کا حقدار تھا اور اپنی کوتاہیوں پر اپنے نفس کی مذمت کی کہ نفس مذمت کے قابل تھا، انھیں یہ معلوم تھا کہ خدا علیم اور حلیم ہے اس کا غضب صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کی رضا کو قبول نہیں کرتے ہیں اور وہ نعمتوں سے محروم بھی انھیں کو رکھتاہے جو اس کے عطا یا کو قبول نہیں کرتے ہیں ، وہ گمراہی میں انھیں کو چھوڑ دیتاہے جو ہدایت کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے گناہگاروں کو توبہ کا موقع دیا تا کہ گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کرلیں اور اپنی تاب میں بلند آوازسے بندوں کو اس امر کی طرف دعوت دی ، اس نے بندوں کو دعاؤں سے روکا نہیں ہے لیکن ملعون وہ لوگ ہیں جنھوں نے تنزیل الہی کو چھپا دیا ہے۔ پروردگار نے اپنے نفس پر رحمت کو لازم قرار دے لیا ہے ، اس کی رحمت غضبت پر سبقت رکھتی ہے اور صدق و عدالت کے ساتھ مکمل ہے وہ بندوں پر اس وقت تک غضبناک نہیں ہوتاہے جبتک وہ خود غضبناک نہ ہوں، یہ علم الیقین ہے اور یہی علم ا لتقویٰ ہے، ہر قوم کا انجام یہی ہوا ہے کہ جب اس نے کتاب کو چھوڑ دیا ہے تو خدا نے علم الکتاب کو چھین لیاہے اور جب دشمنان خدا کو اپنا ولی امر بنالیاہے تو انھیں کے حوالہ کردیا ہے۔ کتاب کو چھوڑ دینے کا مطلب یہ تھا کہ اس کے حروف کو باقی رکھا اور حدود میں ترمیم کردی ۔ اس کی روایت تو برابر کرتے رہے لیکن رعایت نہیں کی، جاہلوں کو ان کی روایت ہی اچھی لگتی ہے اور علماء رعایت و حفاظت کو نظر انداز کردینے کی بناپر ہمیشہ رنجیدہ رہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ کتاب کو چھوڑنے کا یہ تھا کہ جاہلوں کو کتاب کا ولی امر بنادیا اور انھوں نے خواہشات کی منزل میں وارد کردیا اور ہلاک کی طرف پہنچا دیا، دین کے احکام کو تبدیل کردیا اور پھر کتاب کا وارث جاہلوں اور نادان بچوں کو بنادیا، اب امت امر الہی کے بجائے انھیں کے احکام لے کر جاتی ہے اور انھیں کے پاس آتی ہے ، ہائے ظالموں نے کس قدر غلط بدل تلاش کیا ہے، ولایت خد ا کے بعد ولایت بشر اور ثواب الہی کے بدلے معاوضہٴ انسان اور رضائے الہی کے بجائے رضائے مردم ۔ اب امت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ انھیں میں وہ بھی ہیں جو اس گمراہی میں کوشش عبادت کئے چلے جارہے ہیں اپنے حال پر خوش ہیں اور دھوکہ مین مبتلا ہیں، ان کی عبادت خود ان کے واسطے بھی فتنہ ہے اور ان کا اتباع کرنے والوں کے واسطے بھی وجہ گمراہی ہے۔ دیکھو! مرسلین کے زندگی میں عبادت گذاروں کے لئے بہترین نصیحت موجود ہے جب کوئی نبی اطاعت کے درجہ کمال تک پہنچنے کے بعد اگر ایک مرتبہ ترک اولیٰ کردیتا تھا تو کبھی جنت سے باہر نکل آتا تھا اور کبھی مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا جاتا تھا، اس کے بعد توبہ اور اعتراف کے بغیر اس مصیبت سے نجات نہیں پاتا تھا۔ اس کے بعد علماء یہود اور راہبوں کی مثالوں کو دیکھو جو کتاب الہی کو چھپاتے بھی تھے اور اس میں تحریف بھی کرتے تھے لیکن اس تجارت سے کوئی فائدہ نہ ہوا اور ہدایت یافتہ بھی نہ ہوسکے۔ اس کے بعد اس امت کے ان افراد کو دیکھو جنہوں نے کتاب کے حروف کو باقی رکھا اور حدود میں ترمیم کردی، اپنے حکام اور شخصیات کے ساتھ لگے رہے اور جب حکام کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تو ان کے ساتھ لگ گئے جن کے پاس دنیا زیادہ تھی ، یہی ان کے علم کی انتہاء تھی اور اسی طرح دلوں پر مہر لگ گئی اور لالچ میں زندگی گذارتے رہے، ابلیس کے حرف باطل کی آواز ہمیشہ انھیں کی زبانوں سے سنائی دیتی رہی۔ علماء برحق ہمیشہ ان احبار و رہبان جیسے علماء سے اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرتے رہے اور یہ علماء برحق کو حق کی تکلیف دینے پر عیب دار قرار دیتے رہے۔ یاد رکھو یہ علماء خود بھی خائن ہیں اگر نصیحت کو مخفی رکھیں ، گمراہ کو دیکھ کر ہدایت نہ دیں، مردہ دل کو دیکھ کر زندہ نہ بنائیں، یہ بدترین اعمال انجام دینے والے ہیں کہ پروردگار نے اپنی کتاب میں ان سے عہد لیا ہے کہ نیکیوں کا حکم دیتے رہیں اور برائیوں سے روکتے رہیں ، نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کریں اور گناہ اور ظلم پر تعاون نہ کریں ۔ علماء جہلاء کی طرف سے ہمیشہ زحمت و مصیبت میں رہتے ہیں ۔ نصیحت کریں تو کہتے ہیں کہ تم اونچے ہورہے ہو، جس حق کو نظر انداز کردیا گیاہے اس کی تعلیم دیں تو کہتے ہیں کہ جھگڑا ڈال رہے ہو، الگ ہوجائیں تو کہتے ہیں کہ لاپرواہ ہوگئے ہو، ان کی باتوں پر دلیل کا مطالبہ کریں تو کہتے ہیں کہ یہ منافقت ہے اور ان کی اطاعت بھی کرلیں تو کہتے ہیں کہ تم خدا کی معصیت کررہے ہو۔ یہ جہلاء اپنی جہالت کی بناپر ہلاک ہوگئے کہ تلاوت کے بارے میں امّی محض ہیں ، تعریف کے وقت کتاب کی تصدیق کرتے ہیں اور تحریف کے وقت تکذیب کردیتے ہیں اور کوئی انکار کرنیوالا بھی نہیں ہے۔ ان لوگوں کی مثال احبار اور رہبان جیسی ہے جو خواہشات کے میدان کے قائد اور گمراہیوں کے سردار تھے۔ دوسری قسم وہ ہے جو ہدایت اور گمراہی کے درمیان میں ہے اور ایک گروہ کو دوسرے سے الگ نہیں کرپاتی ہے، وہی کہتے ہیں جسے لوگ پہچانتے ہیں اور خود نہیں جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں کی شریعت پیغمبر کو چھوڑنے پر بھی تصدیق کردیتے ہیں، ان پر نہ کوئی بدعت ظاہر ہوتی ہے اور نہ کوئی سنت تبدیل ہوتی ہے نہ کوئی خلاف ہے نہ اختلاف ، مگر جب لوگوں پر غلطیوں کی تاریکی چھا جاتی ہے تو دو طرح کے امام پیدا ہوجاتے ہیں ، ایک اللہ کی طرف دعوت دیتاہے اور ایک جہنم کی طرف ، یہی وقت ہوتاہے جب شیطان کا بیان ظاہر ہوتاہے اور اس کی آواز اس کے چاہنے والوں کی زبان سے بلند ہوجاتی ہے ، اس کے سوار اور پیادہ بکثرت جمع ہوجاتے ہیں اور وہ ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجاتاہے ، وہ لوگ اس کی بدعتوں پر عمل کرتے ہیں اور کتاب و سنت کو چھوڑ دیتے ہیں، ہاں اولیاء خدا حجت کے ساتھ بولتے ہیں اور کتاب و حکمت کو اختیار کرلیتے ہیں ، اور اس طرح اہل حق اور اہل باطل الگ الگ ہوجاتے ہیں، اہل ہدیات کو چھوڑ دیا جاتاہے اور اہل ضلالت سے تعاون کیا جاتاہے یہاں تک کہ جماعت فلاں اور اس کے امثال کے ساتھ ہوجاتی ہے لہذا ان دونوں قسموں کو نگاہ میں رکھو اور جو شریف میں ان کے ساتھ رہو یہاں تک کہ منزل پر پہنچ جاؤ، بیشک خسارہ والے وہی ہیں جنھوں نے اپنے نفس اور اپنے اہل سب کو روز قیامت خسارہ میں مبتلا کردیا اور یہی کھلا ہوا خسارہ ہے، سورہ رمز آیت 5۔ ( کافی 8 ص 52 / 16)۔ جامع وصیتیں عبدالرحمان بن حجاج ! میرے پاس امام موسی کاظم (ع) نے ایک نسخہ امیر المومنین (ع) کی وصیت کا ارسال فرمایا جس کا مضمون یہ تھا۔ ” بسم اللہ الرحمن الرحیم“ یہ علی (ع) بن ابی طالب (ع) کا وصیت نامہ ہے ، علی (ع) اس امر کی شہادت دیتاہے کہ خدا وحدہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں، انھیں پروردگار نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اس دین کو تمام ادیان عالم پر غالب بنائیں چاہے یہ بات مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔( پروردگار ان پر اور ان کی آل پر رحمت نازل کرے) اس کے بعد میری نماز میری عبادتیں، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لئے ہے جو رب العالمین ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی بات کا مجھے حکم دیاگیاہے اور میں اس کے اطاعت گذار بندوں میں ہوں۔ میرے فرزند حسن (ع) ! میں تمھیں اور اپنے تمام اہل خانہ، تمام اولاد اور جہاں تک میرا یہ پیغام پہنچے سب کو وصیت کرتاہوں کہ اپنے پروردگار کا تقویٰ اختیار کرواور خبردار بغیر اسلام کے دنیا سے نہ جانا، ریسمان الہی سے وابستہ رہو آپس میں تفرقہ نہ ہونے پائے کہ میں نے رسول اکرم سے سناہے کہ آپس کی اصلاح تمام نماز روزہ سے بہتر ہے اور دین کو تباہ و برباد کرنے والی شے آپس کی لڑائی اور مخالفت ہے، کوئی طاقت خدائے علی و عظیم کے بغیر نہیں ہے۔ اپنے قرابتداروں پر نگاہ رکھنا اور ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا تا کہ پروردگار تمھارے حساب کو آسان کردے۔ دیکھو یتیموں کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا ، وہ بھوکے نہ رہنے پائیں اور تمھارے سامنے برباد نہ ہوجائیں، میں نے رسول اکرم کی زبان سے سناہے کہ جو شخص کسی یتیم کی کفالت کرے گا یہاں تک کہ وہ مستغنی ہوجائے پروردگار اس کے لئے جنت کو لازم قرار دیدے گا جس طرح کہ مال یتیم کھانے والے کے لئے جہنم لازم ہے۔ اللہ کو یاد رکھنا قرآن کے بارے میں، کہ اس پر عمل کرنے میں دوسرے لوگ تم سے آگے نہ نکل جائیں۔ اور اللہ کو یاد رکھنا ہمسایہ کے بارے میں کہ رسول اکرم نے ان کے بارے میں وصیت فرمائی ہے اور آپ برابر اس قدر زور دیتے تھے کہ یہ خیال ہوتا تھا کہ شائد انھیں میراث میں بھی حصہ دلوادیں گے۔ اللہ کو یاد رکھنا اس کے گھر کے بارے میں کہ جب تک تم باقی رہو کعبہ تم سے خالی نہ ہونے پائے کہ اگر وہ نظر انداز ہوگیا تو تمھاری کوئی اوقات نہ رہ جائے گی۔ اس کا ارادہ کرنے والا کم سے کم یہ برکت لے کر واپس ہوتاہے کہ اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا نماز کے بارے میں کہ یہ بہترین عمل ہے اور تمھارے دین کا ستون ہے۔ اللہ کو یاد رکھنا زکٰوة کے بارے میں کہ اس سے غضب پروردگار سرد پڑ جاتاہے۔ اللہ کو یاد رکھنا ماہ رمضان کے بارے میں کہ اس کے روزے جہنم کی سپر ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا فقراء اور مساکین کے بارے میں کہ انھیں اپنی معیشت میں شریک رکھنا ۔ اللہ کو یاد رکھنا مال اور جان اور زبان سے جہاد کے بارے میں کہ جہاد کرنے والے دو ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں یا امام برحق یا اس کی ہدایت کی اقتدا کرنے والے۔ اللہ کو یاد رکھنا اپنے رسول کی ذریت کے بارے میں کہ تمھارے سامنے ان پر ظلم نہ ہونے پائے جبکہ تم ان سے دفاع کرنے کی طاقت رکھتے ہو۔ اللہ کا خیال رکھنا اپنے رسول کے ان اصحاب کے بارے میں جنھون نے دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی اور نہ کسی بدعتی کو پناہ دی ہے کہ رسول اکرم نے ایسے اصحاب کے بارے میں وصیت فرمائی ہے اور بدعتیں ایجاد کرنے والے اور ان کا اتباع کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اللہ کو یاد رکھنا عورتوں اور کنیزوں کے بارے میں کہ رسول اکرم کے آخری کلمات یہی تھے کہ تمھیں دو کمزوروں کے بارے میں وصیت کررہاہوں ایک عورت اور ایک کنیز۔ الصلٰوة ، الصلٰوة ، الصلٰوہ، دین خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرنا ، اللہ تمھیں ہر اذیت کرنے والے اور ظالم کے شر سے محفوظ رکھے گا، لوگوں سے اچھی باتیں کرنا جس طرح کہ پروردگار نے حکم دیا ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نظر انداز نہ کرنا کہ خدا تمھارے اوپر اشرار کو مسلط کردے اور پھر تم فریاد بھی کرو تو کوئی سننے والا نہ ہو۔ میرے فرزند و! آپس میں تعلقات رکھنا ، ایک دوسرے پر مال صرف کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا اور خبردار قطع تعلق ، تفرقہ اور منھ پھیر لینے کی پالیسی پر عمل نہ کرنا ، نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرنا، گناہ اور تعدی پر ہرگز تعاون نہ کرنا ، اللہ سے ڈرو کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے خدا تم سب گھر والوں کو سلامت رکھے اور تمھارے درمیان نبی کی یادگار کو زندہ رکھے، میں تمھیں خدا کے حوالہ کرتاہوں اور آخری سلام کررہاہوں، اللہ کی رحمت و برکت تمھارے شامل حال ہے۔( کافی 7 ص 51 / 7)۔ 774۔ امام باقر (ع) جابر بن یزید الجعفی کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تم اس وقت تک میرے دوست نہیں ہوسکتے ہو جب تک اس قدر استقلال نہ پیدا ہوجائے کہ سارے شہر والے اس راہ میں تمھاری مذمت کریں تو کوئی تکلیف نہ ہو اور تعریف کریں تو کوئی مسرت نہ ہو، دیکھو اپنے نفس کو تعریفوں پر نہیں ، کتاب خدا پر کھو، اگر دیکھو کہ اس کی راہ پر چل رہے ہو، اس کے فرمان پر دنیا سے کنارہ کش ہوجاتے ہو اور اس کے ثواب کی رغبت رکھتے ہو اور اس کے ڈرانے سے ڈرتے ہو تو اسی راہ پر قائم رکھو اور خوش ہو کہ اب کسی کا قول تمھیں نقصان نہیں پہنچاسکتاہے، لیکن اگر قرآن سے الگ ہوگئے تو کون سی شے ہے جو تمھارے نفس کو مغرور بنائے ہوئے ہے۔( تحف العقول ص 284)۔ اما م باقر (ع) اپنے بعض شیعوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اے میرے شیعو ! سنو اور سمجھو ! ان وصیتوں کو جو ہمارے دوستوں کے لئے ہمارے عہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دیکھو ، قول میں صداقت سے کام لو معاملات میں دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، آپس میں لوگوں کے ساتھ مالی ہمدردی کرو، دلوں سے ایک دوسرے کو دوست رکھو، فقراء پر مال خرچ کرو،امور میں اتحاد و اتفاق رکھو، کسی کے بارے میں خیانت اور فریب سے کام نہ لو، یقین کے بعد شک پیدا مت کرو، اقدام کے بعد بزدلی کا مظاہرہ مت کرو، خبردار کوئی اہل مودت سے پیٹھ نہ پھرائے ، اغیار کی محبت کی خواہش مت رکھو اور نہ ان سے دوستی کی فکر کرو، اللہ کے علاوہ کسی کے لئے عمل نہ کرو اور نبی کے علاوہ کسی پر ایمان نہ رکھو اور نہ اس کا قصد کرو، اللہ سے مدد طلب کرو اور پھر صبر کرو“ زمین اللہ کی ہے وہ جس کو چاہتاہے اپنے بندوں میں سے اس کا وارث بنادیتاہے اور عاقبت صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ہے، یاد رکھو خدا اپنی زمین کا وارث نیک بندوں کے علاوہ کسی کو نہ بنائے گا۔ دیکھو ہمارے شیعوں میں اللہ اور رسول کا دوست وہی ہے جو بات میں سچاہو، وعدہ کو وفا کرتاہو، امانت کو پہونچا دیتاہو، حق کا بوجھ اٹھا لیتاہو واجب مطالبات پر عطا کرتاہو، حق کے احکام پر عمل کرتاہو، ہمارا شیعہ وہی ہے جس کی سماعت اس کے علم سے آگے نہیں جاتی ہے۔ہمارے بارے میں عیب لگانے والوں کی تعریف نہیں کرتاہے، ہمارے دشمن سے تعلقات نہیں رکھتاہے، ہم سے بیزار رہنے والوں کے ساتھ بیٹھتا نہیں ہے،مومن سے ملاقات کرتاہے تو اس کا اکرام کرتاہے۔ جاہل سے ملتاہے تو اسے نظر انداز کردیتاہے ہمارا شیعہ کتوں کی طرح شور نہیں مچاتاہے اور نہ کوّوں کی طرح لالچی ہوتاہے، ہمیشہ صرف اپنے برادران ایمانی سے سوال کرتاہے اور اغیار سے سوال نہیں کرتاہے چاہے بھوکا ہی کیوں نہ مرجائے، ہمارا شیعہ ہماری جیسی بات کرتاہے اور ہمارے معاملہ میں اپنے دوستوں کو بھی چھوڑ دیتاہے اور ہماری محبت میں دور والوں کو قریب بنالیتاہے اور ہماری دشمنی کی بنا پر قریب والوں کو بھی دور کردیتاہے۔ (دعائم الاسلام 1 ص 64)۔ 776۔عبداللہ بن بکیر ایک شخص کے حوالہ سے امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت کے پاس ہماری ایک جماعت وارد ہوئی اور ہم نے گذارش کی کہ ہم لوگ عراق جارہے ہیں ہمیں کچھ نصیحتیں فرمائیں ؟ فرمایا کہ تمہارے طاقتور کا فرض ہے کہ کمزور کو قوی بنائے اور غنی ، فقیر کا خیال رکھے، خبردار ہمارے اسرار کو نشر نہ کرنا اور ہمارے خاص معاملات کا اعلان نہ کرنا ! اگر تمھارے پاس ہماری طرف سے کوئی خبر آئے اور اس پر کتاب خدا میں ایک یا دو شاہد مل جائیں تو فوراً لے لینا ورنہ تھہرجانا اور ہماری طرف واپس کردینا تا کہ ہم تمھارے واسطے اس کی وضاحت کریں۔( کافی 2 ص 222/4)۔ خطاب کوفی ، مصعب بن عبداللہ الکوفی کہتے ہیں کہ سدیر صیرفی امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ کے پاس اصحاب کی ایک جماعت موجود تھی آپ نے فرمایا ، سدیر ! ہمارے شیعہ ہمیشہ ہماری نگاہ میں ، ہماری حفاظت میں، ہر طرح سے مامون و محفوظ رہیں گے جب تک اپنے اور اپنے خالق کے درمیان تعلقات ٹھیک رکھیں گے اور ائمہ کے ساتھ نیت صحیح رکھیں گے ، اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح اچھا برتاؤ کریں گے کہ کمزوروں پر مہربانی کریں گے اور فاقہ کشوں کو مال عطا کریں گے ، ہم کسی کو ظلم کا حکم نہیں دیتے ہیں، صرف احتیاط تقویٰ اور ورع کا حکم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مواسات اور ہمدردی کرو کہ روز اول اور دور آدم (ع) سے اللہ کے دوست ہمیشہ قلیل اور کمزور رہے ہیں، ان میں آپس میں ہمدردی بیحد ضروری ہے۔( محاسن برقی (ر) 1 ص 258 / 492)۔ 778۔اسماعیل بن جابر امام صادق (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے اصحاب کون یہ خط لکھا اور انھیں حکم دیا کہ اس پر نظر رکھیں ، اسے یاد رکھیں ، اس پر عمل کریں اور آپس میں اس پر مذاکرہ کرتے رہیں، چنانچہ وہ حضرات اس وصیت نامہ کو اپنے گھر کی جائے نماز پر رکھتے تھے اور ہر نماز کے بعد اس کا مطالعہ کرتے تھے۔ اما بعد ، اپنے پروردگار سے عافیت طلب کرو، سکون ، وقار اور اطمینان نفس کو اپنا شعار بناؤ ، حیات و غیرت کو اختیار کرو اور ان تمام چیزوں سے دور رہو جن سے تمھارے پہلے اللہ کے نیک بندوں نے دوری اختیار کی ہے، خبردار بہتان، ، الزام تراشی ، گناہ اور ظلم سے زبان کو آشنا نہ کرو کہ تم نے ان مکروہ اور ناپسندیدہ اقوال سے زبان کوبچالیا تو اس میں پروردگار کے نزدیک تمھارے لئے خیر ہے۔ ایسی ناپسندیدہ باتوں سے زبان کو آشنا کرنا بندہ کے لئے تباہی کا سبب اور اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتاہے اور خدا اسے گونگا ، بہرا اور اندھا بنادیتاہے جس کے بعد سورہ بقرہ کی آیت 18 کا مصداق ہوجاتا ہے ” یہ لوگ بہرے ، گونگے اور انڈھے ہیں کہ اب پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں یعنی بولنے کے لائق نہیں ہے اور پھر انھیں اجازت بھی نہ دی جائے گی کہ معذرت کرسکیں “ ( سورہ مرسلات آیت 36)۔ خبردار جن چیزوں سے خدا نے روکاہے ان کا ارتکاب نہ کرنا اور ان باتوں کے علاوہ خاموش رہنا جن میں آخرت کا فائدہ ہو اور خدا اجر و ثواب دے سکے ، تسبیح و تقدیس و تہلیل و ثنائے پروردگار کرتے رہتا، اس کی بارگاہ میں تضرع و زاری کرنا اور ان چیزوں میں رغبت پیدا کرنا جو اس کے پاس ہیں اور جن کی قدر و منزلت اور حقیقت کواس کے علاوہ کوئی نہیں جانتاہے، اپنی زبان کوان باتوں سے دور رکھو جن کلمات باطل سے خدا نے روکا ہے اور جن کا انجام ہمیشہ کا عذاب جہنم ہے اگر انسان توبہ نہ کرلے اور ان سے بالکل الگ نہ ہوجائے۔ دعا کرتے رہو کہ مسلمانوں نے کوئی کامیابی اور کامرانی دعا سے بہتر اور تضرع و زاری سے بالاتر وسیلہ سے حاصل نہین کی ہے، جس چیز کی خدا نے رغبت دلائی ہے اس کی رغبت رکھو اور جس چیز کی طرف دعوت دی ہے ادھر قدم آگئے بڑھاؤ کہ کامیابی حاصل کرلو اور عذاب الہی سے نجات پاجاؤ۔ خبردار تمھارا نفس کسی حرام کی لالچ میں نہ پڑجائے کہ جس نے دنیا میں محرمات الہیہ کی پرواہ نہیں کی خدا آخرت میں اس کے اور جنت ونعمات و لذات جنت کے درمیان حائل ہوجائے گا اور اسے اہل جنت کی دائمی اور ابدی کرامت و عظمت سے محروم کردے گا۔ یاد رکھو ، بدترین اور خطرناک ترین حصہ اس کا ہے جس نے اطاعت الہی کو ترک کرکے معصیت کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کی چند روزہ زائل ہوجانے والی لذتوں کو آخرت کی دائمی نعمت و لذت و کرامت پر مقدم کرکے محرمات الہی کو پامال کردیا، افسوس ہے ایسے افراد کے لئے کیا بدترین حصہ ان کو ملاہے اور کیا خسارہ آمیز واپسی ہوئی ہے اور کیا بدترین حال روز قیامت ہوا ہے۔ اللہ سے پناہ طلب کرو کہ تمھیں ایسا نہ ہونے دے اور ایسی بلاء میں مبتلا نہ کرنے کہ اس کی طاقت و قوت کے علاوہ کوئی طاقت و قوت نہیں ہے، دعاؤں میں کثرت پیدا کرو کہ پروردگار اپنے بندگان مومنین سے کثرت دعا کو پسند کرتاہے اور اس نے قبول کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے اور خدا روز قیامت ان دعاؤں کو بھی ایک ایسا عمل خیر بنادے گا جس سے جنت کے درجات میں اضافہ ہوجائے گا۔ جہاں تک ممکن ہو دن رات کی تمام ساعتوں میں ذکر خدا کرتے رہو کہ اللہ نے تمھیں کثرت ذکر کا حکم دیا ہے اور وہ بھی اپنا ذکرکرنے والوں کو یاد رکھتاہے اور یاد رکھو کہ جب بھی کوئی بندہٴ مومن اسے یاد کرتاہے تو وہ بھی اسے خیر سے یاد کرتاہے، اپنی طرف سے خدا کی بارگاہ میں کثرت عبادت کا ہدیہ پیش کرو کہ اس کی بارگاہ میں کسی بھی خیر کا حصول اس کی اطاعت اور ان تمام محرمات سے اجتناب کے بغیر جن کا ذکر ظاہر یا باطن قرآن میں کیا گیاہے… ممکن نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ خدا نے جس شے سے اجتناب کا حکم دیا ہے اسے حرام قرار دیاہے لہذاسنت و سیرت پیغمبر اکرم کا اتباع کرو اور اس کے مقابلہ میں اپنے افکار اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ گمراہ ہوجاؤ، جہاں تک ممکن ہوا اپنے نفس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کہ تم جو نیکی بھی کروگے وہ اپنے لئے کروگے اور تمھاری برائی بھی تمھارے ہی لئے ہوگی۔ اے وہ جماعت جس کے امور کا خدا محافظ ہے ! تمھارا فرض ہے کہ سنت رسول اور آثار ائمہ ہدی و اہلبیت (ع) رسول اللہ کا خیال رکھو کہ جس نے ان چیزوں کو اختیار کرلیا وہ ہدایت پاگیا اور جس نے انھیں چھوڑ دیا اور ان سے کنارہ کشی کرلی وہ گمراہ ہوگیا، یہی وہ حضرات ہیں جن کی ولایت اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ہمارے پدر بزرگوار رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ اتباع سنن و آثار میں مختصر عمل کی پابندی بھی روز قیامت بدعتوں اور خواہشات کی پیروی سے کہیں زیادہ مفید اور پروردگار کو خوش کرنے والی ہے۔ یاد رکھو کہ خواہشات اور بدعات کا اتباع خدا کی ہدایت کے بغیر کھلی ہوئی گمراہی ہے اور ہر گمراہی بدعت ہے اور بدعت کا انجام جہنم ہے خدا کی بارگاہ میں کسی خیر کا حصول اطاعت اور صبر و رضا کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ صبر و رضا خود ہی اطاعت پروردگار ہے۔ اور یاد رکھو کہ کسی بندہ کا ایمان اس وقت تک ایمان نہیں کہا جاسکتاہے جب تک وہ خدا کے برتاؤ سے راضی نہ ہو اور اس کے برتاؤ کو اپنی پسند و ناپسند پر مقدم نہ رکھے اور خدا صبر و رضا والوں کے ساتھ وہی برتاؤ کرے گا جس کے وہ اہل ہوں گے اور وہ برتاؤ ان کی اپنی پسند سے یقیناً بہتر ہوگا۔ تمھارا فرض ہے کہ تمام نمازوں کی محافظت اور پابندی کرو بالخصوص نماز ظہر کی اور اللہ کی بارگاہ میں دعا گو رہو جس طرح اس نے تم سے پہلے والوں کو بھی حکم دیا ہے اور تمھیں بھی حکم دیا ہے۔ اور تمھارا فرض ہے کہ غریب مسلمانوں سے محبت کرو کہ جس شخص نے بھی انھیں حقیر سمجھا اور ان کے سامنے غرور کا مظاہرہ کیا وہ دین خدا سے پھسل گیا اور پروردگار اسے ذلیل بھی کرے گا اور سزا بھی دے گا، ہمارے پدر بزرگوار رسول اکرم نے فرمایاہے کہ پروردگار نے مجھے غریب مسلمانوں کی محبت کا حکم دیا ہے اور یاد رکھو کہ جو بھی ان میں سے کسی ایک کو بھی ذلیل کرے گا، خداوند اس پر عذاب اور حقارت آمیز عذاب نازل کرے گا کہ لوگ اس سے بیزار رہیں گے اور خدائی سزا ا س سے زیادہ سخت ہوگی ، اپنے مسلمان غریب بھائیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کہ تمھارے اوپر ان کا حق ہے کہ ان سے محبت کرو، پروردگار نے اپنے رسول کو ان کی محبت کا حکم دیا ہے، اب اگر کسی شخص نے ان سے محبت نہ کی جن کی محبت کا خدا نے حکم دیا ہے تو اس نے خدا و رسول کی نافرمانی کی اور جس نے ایسا کیا اور اسی حال میں مرگیا وہ گمراہ دنیا سے جائے گا ۔ دیکھو اپنی بڑائی اور تکبر سے دور رہو کہ کبریائی پروردگار کی ردا ہے اور جو اس میں خدا سے مقابلہ کرے گا وہ اسے روز قیامت ذلیل کردے گا اور دنیا میں اس کی کمر توڑ دے گا، خبردار ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا کہ یہ نیک بندوں کا طریقہ نہیں ہے، جو شخص بھی کسی پر ظلم کرے گا اس کا مظلمہ خود اس کی گردن پر ہوگا اور خدا اس کے خلاف مظلوم کی مدد کرے گا اور جس خدا مدد کردے گا وہی کامیاب ہوگا اور غالب آجائے گا۔ خبردار ایک دوسرے سے حسد بھی نہ کرنا کہ کفر کی اصل حسد ہی ہے اور خبردار کسی مظلوم مسلمان کے خلاف کسی کی امداد نہ کرنا کہ وہ بد دعا کردے گا تو اس کی دعا قبول ہوجائے گی ، رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ مظلوم مسلمان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ اور ایک دوسرے کی امداد کرتے رہنا کہ ہمارے جد رسول اکرم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کی امداد ایک کار خیر ہے اور اس کا ثواب ایک ماہ کے روزہ اور مسجد الحرام میں اعتکاف سے زیادہ ہے۔ اور خبردار کسی مسلمان بھائی پر غربت میں دباؤ مت ڈالنا کہ اگر تمھارا کوئی حق ہے تو زبردستی وصول کرو کہ ہمارے جد رسول اکرم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کو مسلمان پر تنگی کرنے کا حق نہیں ہے اور جو شخص غریب مسلمان کو مہلت دیدے گا خدا اس دن اسے سایہ رحمت میں جگہ دے گا جس دن اس کے علاوہ کسی کا سایہ نہ ہوگا۔ اور یاد رکھو کہ اسلام سپردگی کا نام ہے، جس نے اپنے کو خدا کے سپرد کردیا وہ مسلمان ہوگیا اورجو ایسا نہ کرسکا وہ واقعاً مسلمان نہیں ہے جو اپنے نفس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتاہے اس کا فرض ہے کہ اللہ کی اطاعت کرے کہ جو اللہ کی اطاعت کرے گا اس کافائدہ اسی کو ہوگا۔ اور خبردار معصیت سے دور رہنا کہ جو معصیت کا ارتکاب کرے گا وہ اپنے ہی ساتھ برائی کرے گا اور اچھائی اور برائی کے درمیان کوئی تیسری قسم نہیں ہے ، اچھائی کرنے والوں کے لئے پروردگار کے یہاں جنت ہے اور برائی کرنے والوں کے لئے جہنم ہے لہذا اطاعت پر عمل کرو اور معصیت سے پرہیز کرو۔ اور یاد رکھو خدا سے کوئی شے بھی بے نیاز نہیں بناسکتی ہے نہ ملک مقرب اور نہ نبی مرسل نہ کوئی اور … جو شخص چاہتاہے کہ شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے فائدہ اٹھائے اس کا فرض ہے کہ رضائے خدا کو طلب کرے اور یہ بھی معلوم رہے کہ رضائے خدا اس کی اطاعت اور رسول و آل رسول کی معصیت ہے اور ان کے چھوٹے بڑے کسی بھی فضل کا انکار کے بعد رضائے خدا کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اللہ سے عافیت کا سوال کرو اور اسی کو تلاش کرتے رہو کہ کوئی قوت و طاقت اس کے علاوہ نہیں ہے، اپنے نفس کو دنیا کی بلاؤں کے برداشت کرنے پر آمادہ کرو کہ ولایت واطاعت خدا و رسول و آل رسول میں مسلسل بلاؤں کا نزول بھی آخرت میں تمام دنیا کے اقتدار اور اس کی ان مسلسل نعمتوں اور لذتوں سے بہتر ہے جس میں ان لوگوں سے محبت رکھی جائے جن کی محبت اور اطاعت سے خدا نے منع کیا ہے۔ یاد رکھو پروردگار نے صرف ان ائمہ کی محبت کا حکم دیا ہے جن کا ذکر سورہ انبیاء آیت نمبر 73 میں کیا ہے اور جن کی محبت و اطاعت سے منع کیا ہے ، وہ سب ائمہ ضلال میں جن کا کام جہنم کی طرف دعوت دیناہے۔ اور یاد رکھو کہ پروردگار جب بندہ کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کردیتاہے اور جب یہ نعمت دیتاہے تو اس کی زبان پر حق جاری کردیتاہے اور اس کے دل میں حق کو جاگزیں کرداہے اور وہ اسی پر عمل کرنے لگتاہے اور جب ایسا کردیتاہے تو اس کا اسلام مکمل ہوجاتاہے اور وہ اسی حال میں مرجائے تو حقیقی مسلمان مرتاہے، لیکن اگر وہ کسی کو خیر نہیں دینا چاہتاہے تو اس کو اسی کے حال پر چھوڑ دیتاہے اور اس کا سینہ بالکل تنگ ہوجاتاہے کہ اگر حق زبان پر جاری بھی ہوجائے تو دل میں جاگزین نہیں ہوتاہے اور جب ایسا نہیں ہوتاہے تو اس پر عمل کرنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور اس حال میں مرجانے والا منافقین میں شمار ہوتاہے اور جو وہ حق زبان پر جاری ہوکر دل کی گہرائیوں میں نہ اترسکے اور اس پر عمل نہ ہوسکے وہ روز قیامت ایک حجت بن جاتاہے۔ اللہ سے ڈرو اور دعا کرو کہ تمھارے دلوں کو اسلام کے لئے کشادہ کردے اور تمھاری زبانوں کو حق کے ساتھ گویا بنادے تا کہ اسی حال میں دنیا سے جاؤ اور تمھاری بازگشت نیک بندوں جیسی ہوکہ اللہ کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے اور ساری حمد اسی رب العالمین کے لئے ہے۔ اور جو شخص بھی یہ جاننا چاہتاہے کہ خدا اس سے محبت کرتاہے اس کا فرض ہے کہ اللہ کی اطاعت کرے اور ہماری پیروی کرے، کیا اس نے پیغمبر اکرم کا یہ خطاب نہیں سناہے کہ آپ کہہ دیں کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو تا کہ خدا تم سے محبت کرے اور تمھارے گناہوں کو معاف کردے۔(آل عمران 31)۔ خدا کی قسم کوئی شخص بھی خدا کی اطاعت نہیں کرتاہے مگر یہ کہ خدا ہمارے اتباع کو شامل کردیتاہے اور کوئی شخص ہمارا اتباع نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ خدا اسے محبوب بنالیتاہے اور پھر جو شخص ہمارا اتباع چھوڑدیتاہے وہ ہمارا دشمن ہوجاتاہے اور جو ہمارا دشمن ہوجاتاہے وہ خدا کا نافرمان شمار کیا جاتاہے اور جو ایسا ہوجاتاہے خدا اسے ذلیل و رسوا کردیتاہے اور منھ کو بھل جہنم میں ڈال دیتاہے والحمدللہ رب العالمین ۔( کافی 8 ص4)۔ عبدالسلام بن صالح الہروی ! میں نے امام رضا (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ اس بندہ پر رحم کرے جو ہمارے امر کو زندہ کرتے تو عرض کیا کہ آپ کا امر کس طرح زندہ کیا جاتاہے ؟ فرمایا ہمارے علوم سیکھا جاتاہے اور پھر لوگوں کو سکھایا جاتاہے کہ لوگ ہمارے کلام کے محاسن سے آگاہ ہوجائیں تو خود بخود ہمارا اتباع کرنے لگیں گے،( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص307 /69 ، معانی الاخبار ص 180/1)۔ امام رضا (ع) نے عبدالعظیم الحسنئ سے فرمایا کہ ہمارے دوستوں تک ہمارا سلام پہنچا دینا اور کہنا کہ خبردار شیطان کو اپنے نفس پر کوئی راستہ نہ دیں اور ان کو حکم دینا کہ سچ بولیں ، امانتیں ادا کریں اور سکوت اختیار کریں بلاوجہ بحث نہ کریں، ایک دوسرے کی طرف متوجہ رہیں ، ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں کہ اسی میں ہماری قرابت ہے اور آپس میں پھوٹ نہ پیدا کریں کہ میں نے قسم کھالی ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا کرے گا اور میرے کسی دوست کو ناراض کرے گا تو میں خد ا سے دعا کروں گا کہ اس پر دنیا میں بھی بدترین عذاب کرے اور آخرت میں تو بہر حال وہ خسارہ والوں میں ہوگا۔ انھیں یہ بھی بتادینا کہ خدا ان کے نیک کرداروں کو بخش دے گا اور برے اعمال والوں سے بھی درگذر کردے گا لیکن شرک کرنے والوں اور ہمارے دوستوں کو اذیت کرنے والوں یا ان کے ساتھ برائی چاہنے والوں کو ہرگز معاف نہیں کرے گا جب تک اپنے عمل سے باز نہ آجائیں… ہاں اگر اپنی حرکت سے باز آگئے تو خیر ہے، ورنہ وہ ان کے دل سے ایمان کی روح نکال لے گا اور اسے ہماری ولایت سے نکال باہر کرے گا اور اس کا ہماری محبت میں کوئی حصہ نہ ہوگا، اللہ اس دن سے پناہ دے ۔( الاختصاص ص 247)۔