حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت
0 Vote
105 View
علماءومورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ ۱۱/ ذی قعدہ ۱۵۳ ھ بروزجمعرات بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں (اعلام الوری ص ۱۸۲،جلاء الیعون ص ۲۸۰، روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۳،انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷) آپ کی ولادت باسعادت کے متعلق علامہ مجلسی اورعلامہ محمدپارساتحریرفرماتے ہیں کہ جناب ام البنین کاکہناہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے مجھے گل کی گرانباری مطلقامحسوس نہیں ہوئی،میں اکثرخواب میں تسبیح وتہلیل اورتمہیدکی آوازیں سنا کرتی تھی جب امام رضا علیہ السلام پیداہوئے توآپ نے زمین پرتشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک دئے اوراپنا فرق مبارک آسمان کی طرف بلندکردیاآپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے،ایسامعلوم ہوتاتھاکہ جیسے آپ خداسے کچھ باتیں کررہے ہیں ،اسی اثناء میں امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اورمجھ سےارشاد فرمایاکہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو،پھرمیں نے مولودمسعودکوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعدآپ نے ارشادفرمایاکہ اسے لے لویہ زمین پرخداکی نشانی اورمیرے بعدحجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے ابن بابویہ فرماتے ہیں کہ آپ دیگرآئمہ علیہم السلام کی طرح مختون اورناف بریدہ متولد ہوئے تھے(فصل الخطاب وجلاء العیون ص ۲۷۹) ۔ نام ،کنیت،القاب آپ کے والدماجدحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اورتعیین رسول صلعم کے موافق آپ کو”اسم علی“سے موسوم فرمایا،آپ آل محمد،میں کے تیسرے ”علی“ہیں (اعلام الوری ص ۲۲۵ ،مطالب السئول ص ۲۸۲) ۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر،زکی،ولی،رضی،وصی تھے اورمشہورترین لقب رضا تھا (نورالابصارص ۱۲۸ وتذکرة خواص الامة ص ۱۹۸) ۔ لقب رضاکی توجیہ علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کورضااس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوندعالم ،رسول اکرم اورآئمہ طاہرین،نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے (اعلام الوری ص ۱۸۲) علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والدماجدکولقب رضاسے مامون رشیدنے ملقب کیاتھاآپ نے فرمایا ہرگزنہیں یہ لقب خداورسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اورخاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق ومخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے (جلاء العیون ص ۲۷۹ ،روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۲) ۔ آپ کی تربیت آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور اس طرح۳۰ برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم بغدادمیں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵/ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔ بادشاہان وقت آپ نے اپنی زندگی کی پہلی منزل سے تابہ وقت شہادت بہت سے بادشاہوں کے دوردیکھے آپ ۱۵۳ ھ میں بہ عہدمنصوردوانقی متولدہوئے (تاریخ خمیس) ۱۵۸ ھ میں مہدی عباسی ۱۶۹ ھ میں ہادی عباسی ۱۷۰ ھ میں ہارون رشیدعباسی ۱۹۴ ھ میں امین عباسی ۱۹۸ ھ مامون رشید عباسی علی الترتیب خلیفہ وقت ہوتے رہے (ابن الوردی حبیب السیرابوالفداء)۔ آپ نے ہرایک کادوربچشم خوددیکھااورآپ پدربزرگوارنیزدیگراولادعلی وفاطمہ کے ساتھ جوکچھ ہوتارہا،اسے ملاحظہ فرماتے رہے یہاں تک کہ ۲۳۰ ھ میں آپ دنیاسے رخصت ہوگئے اورآپ کوزہردے کرشہیدکردیاگیا۔ جانشینی آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اورایسے حالات پیش آئیں گے کہ آپ کی عمرکے آخری حصہ میں اوردنیاکوچھوڑنے کے موقع پردوستان اہلبیت کاآپ سے ملنایابعدکے لیے راہنماکادریافت کرناغیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے مدینہ میں انہیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں پیروان اہلبیت کواپنے بعدہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس کی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جوممتازحیثیت رکھتے تھے انہیں جمع فرماکراپنے فرزندحضرت علی رضاعلیہ السلام کی وصایت اورجانشینی کااعلان فرمایا اورایک وصیت نامہ بهی تحریر فرمایا جس پرمدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھ دی گئی یہ اہتمام دوسرے آئمہ کے یہاں نظرنہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پرجن سے دوسرے آئمہ اپنی وفات کے موقعہ پردوچارنہیں ہونے والے تھے۔ امام موسی کاظم کی وفات اورامام رضاکے دورامامت کاآغاز ۱۸۳ ھ میں حضرت اما م موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشیدمیں اپنی عمرکاایک بہت بڑاحصہ گذرایہاں تک که درجہ شہادت پرپهنچے ،آپ کی شہادت کے وقت امام رضاعلیہ السلام کی عمر تیس سال تھی والدبزرگوارکی شہادت کے بعدامامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغدادمیں ہارون رشیدتخت خلافت پرمتمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناسازگارتھے۔ ہارونی فوج اورخانہ امام رضاعلیہ السلام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد ہارون رشیداپنےباقی دس برس کےدوررمیں،یقیناامام رضاعلیہ السلام کے وجودکوبھی دنیامیں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتاتھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والدماجدکارہنااس نے گوارانہیں کیاتهامگریاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداورظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندرآپ دنیاسے شہید ہوئے جس سے حکومت وقت کی بدنامی ہوئی تھی یاواقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیرکی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلاامام رضاکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کررها تھا لیکن اس نے امام رضاعلیہ السلام کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاحضرت کے عہدہ امامت کوسنبھالتے ہی ہارون رشیدنے آپ کاگھرلٹوادیاتھا۔ تاریخ اسلام میں ہے کہ ہارون رشیدنے اس حوالہ اوربہانے سے کہ محمدبن جعفرصادق علیہ السلام نے اس کی حکومت وخلافت سے انکارکردیاہے ایک عظیم فوج عیسی جلودی کی ماتحتی میں مدینہ منورہ بھیج کرحکم دیاکہ علی و فاطمہ کی تمام اولادکوبالکل ہی تباہ وبربادکردیاجائے ان کے گھروں میں آگ لگادی جائے ان کے سامان لوٹ لیے جائیں اورانہیں اس درجہ مفلوج اورمفلوک کردیاجائے کہ پھران میں کسی قسم کے حوصلہ ابھرنے کاسوال ہی پیدانہ ہوسکے اورمحمدبن جعفرصادق کوگرفتارکرکے قتل کردیاجائے، عیسی جلودی نے مدینہ پہنچ کرتعمیل حکم کی سعی بلیغ کی اورہرممکن طریقہ سے بنی فاطمہ کوتباہ وبربادکیا،حضرت محمدبن جعفرصادق علیہ السلام نے بھرپورمقابلہ کیا لیکن آخرمیں گرفتار ہوکرہارون رشیدکے پاس پہنچادیئے گئے۔ عیسی جلودی سادات کرام کولوٹ کرحضرت امام علی رضاعلیہ السلام کے دولت کدہ پرپہنچااوراس نے خواہش کی کہ وہ حسب حکم ہارون رشید،خانہ امام میں داخل ہوکراپنے ساتھیوں سے عورتوں کے زیورات اورکپڑے اتارے ،امام علیہ السلام نے فرمایایہ نہیں ہوسکتا،میں خودتمہیں ساراسامان لاکردئے دیتاہوں پہلے تووہ اس پرراضی نہ ہوالیکن بعدمیں کہنے لگاکہ اچھاآپ ہی اتارلائیے آپ محل سرامیں تشریف لے گئے اورآپ نے تمام زیورات اورسارے کپڑے ایک سترپوش چادرکے علاوہ لاکردیدیااوراسی کے ساتھ ساتھ اثاث البیت نقدوجنس یہاں تک کہ بچوں کے کان کے بندے سب کچھ اس کے حوالہ کردیاوہ ملعون تمام سامان لے کر بغدادروانہ ہوگیا،یہ واقعہ آپ کے آغازامامت کاہے۔ علامہ مجلسی بحارالانوارمیں لکھتے ہین کہ محمدبن جعفرصادق کے واقعہ سے امام علی رضا علیہ السلام کاکوئی تعلق نہ تھا وہ اکثراپنے چچامحمدکو خاموشی کی ہدایت اورصبرکی تلقین فرمایاکرتے تھے ابوالفرج اصفہانی مقاتل الطالبین میں لکھتے ہیں کہ محمدبن جعفرنہایت متقی اورپرہیزگارشخص تھے کسی ناصبی نے دستی کتبہ لکھ کر مدینہ کی دیواروں پرچسپاں کردیاتھا جس میں حضرت علی وفاطمہ کے متعلق ناسزاالفاظ تھے یہی آپ کے خروج کاسبب بنا۔ آپ کی بیعت لفظ امیرالمومنین سے کی گئی آپ جب نمازکونکلتے تھے توآپ کے ساتھ دوسوصلحاواتقیاہواکرتے تھے علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعدصفوان بن یحی نے حضرت امام علی رضاعلیہ السلام سے کہاکہ مولاہم آپ کے بارے میں ہارون رشیدسے بہت خائف ہیں ہمیں ڈرہے کہ یہ کہیں آپ کے ساتھ وہی سلوک نہ کرے جوآپ کے والدکے ساتھ کرچکاہے حضرت نے ارشادفرمایاکہ یہ تواپنی سعی کرے گالیکن مجھ پرکامیاب نہ ہوسکے گاچنانچہ ایساہی ہوااورحالات نے اسے کچھ اس درجہ مجبورکردیاتھا کہ وہ کچھ بھی نہ کرسکایہاں تک کہ جب خالدبن یحی برمکی نے اس سے کہاکہ امام رضااپنے باپ کی طرح امرامامت کااعلان کرتے اوراپنے کوامام زمانہ کہتے ہیں تواس نے جواب دیاکہ ہم جوان کے ساتھ کرچکے ہیں وہی ہمارے لیے کافی ہے اب توچاہتاہے کہ ”ان نقتلہم جمیعا“ہم سب کے سب کوقتل کرڈالیں،اب میں ایسانہیں کروں گا (نورالابصارص ۱۴۴ طبع مصر۔ یہ سچ ہے کہ ہارون رشیدکے ایام سلطنت میں آپ کی امامت کے دس سال گزرے اس زمانہ میں عیسی جلودی کی تاخت کے بعدپھراس نے آپ کے معاملات کی طرف بالکل سکوت اورخاموشی اختیارکرلی اس کی دووجہیں معلوم ہوتی ہیں: اول تویہ کہ سلطنتی زندگی کے ابتدائی ایام میں وہ آل برامکہ کے استیصال رافع بن لیث ابن تیارکے غداورفسادکے انسدادمیں جوسمرقندکے علاقہ سے نمودارہوکرماوراء النہراورحدودعرب تک پھیل چکاتھاایساہمہ وقت اورہمہ دم الجھارہاکہ پھراس کوان امورکی طرف توجہ کرنے کی ذرابھی فرصت نہ ملی دوسرے یہ کہ اپنے دس سالہ مدت کے آخری ایام میں یہ اپنے بیٹوں میں ملک تقسیم کردینے کے بعدخودایساکمزوراورمجبورہو گیاتھاکہ کوئی کام اپنے اختیارسے نہیں کرسکتاتھانام کابادشاہ بنابیٹھاتها،اپنی زندگی کے دن نہایت عسرت اورتنگی کی حالتوں میں کاٹ رہاتھااس کے ثبوت کے لیے مندرجه ذیل واقعہ ملاحظہ فرمائیں: صباح طبری کابیان ہے کہ ہارون جب خراسان جانے لگا تومیں نہروان تک اس کی مشایعت کوگیاراستہ میں اس نے بیان کیاکہ اے صباح تم اس کے بعدپھرکبهی مجھے زندہ نہ پاؤگے میں نے کہاامیرالمومنین ایساخیال نہ کریں آپ انشاء اللہ صحیح وسالم اس سفرسے واپس آئیں گے یہ سن کراس نے کہاکہ شایدتجھ کومیراحال معلوم نہیں ہے آؤ میں دکھادوں ،پھرمجھے راستہ کاٹ کرایک سمت درخت کے نیچے لے گیااوروہاں سے اپنے خواصوں کوہٹاکرآپنے بدن کاکپڑااٹھاکرمجھے دکھایا،توایک ریشمی کپڑا پیٹ پرلپیٹاہواتھا،اوراس سے سارابدن کساہواتھا یہ دکھاکرمجھ سے کہنے لگےکہ میں مدت سے بیمارہوں پورےبدن میں درداٹھتاہے مگرکسی سے اپناحال نہیں کہہ سکتاتمہارے پاس بھی یہ رازامانت رہے میرے بیٹوں میں سے ہرایک کاگماشتہ میرے اوپرمقررہے ماموں کی طرف سے مسرور،امین کی طرف سے بختیشوع ،یہ لوگ میری سانس تک گنتے رہتے ہیں،اورنہیں چاہتے کہ میں ایک روزبھی زندہ رہوں،اگرتم کویقین نہ ہوتودیکھومیں تمہارے سامنے گھوڑاسوارہونے کومانگتاہوں ،ایسالاغرٹٹومیرے لیے لائیں گے جس پرسوارہوکرمیں اورزیادہ بیمارہوجاؤں،یہ کہہ کرگھوڑاطلب کیاواقعی ایساہی لاغراڑیل ٹٹوحاضرکیااس پرہارون بے چون وچراسوارہوگیااورمجھ کووہاں سے رخصت کرکے جرجان کاراستہ پکڑلیا (لمعة الضیاء ص ۹۲) ۔ بہرحال ہارون رشیدکی یہی مجبوریاں تھیں جنہوں نے اس کوحضرت امام علی رضاعلیہ السلام کے مخالفانہ امورکی طرف متوجہ نہیں ہونے دیا ورنہ اگراسے فرصت ہوتی اوروہ اپنی قدیم ذی اختیاری کی حالتوں پرقائم رہتاتواس سلسلہ کی غارت گری وبربادی کوکبھی بھولنے والانہیں تھا، مگراس وقت کیاکرسکتاتھا اپنے ہی دست وپااپنے اختیارمیں نہیں تھے بہرحال هارون رشیداسی ضیق النفس مجبوری ناداری اوربے اختیاری کی غیرمتحمل مصیبتوں میں خراسان پہنچ کر ۱۹۳ ھ کے ابتدا میں مرگیا۔ (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۰) ۔ امام علی رضاکاحج اورہارون رشیدعباسی زمانہ ہارون رشیدمیں حضرت امام علی رضاعلیہ السلام حج کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اسی سال ہارون رشیدبھی حج کے لیے آیاہواتھا خانہ کعبہ میں داخلہ کے بعد امام علی رضاعلیہ السلام ایک دروازہ سے اورہارون رشید دوسرے دروازہ سے نکلے امام علیہ السلام نے فرمایاکہ یہ دوسرے دروازہ سے نکلنے والاجوہم سے دورجارہاہے عنقریب طوس میں دونوں ایک جگہ ہوں گے ایک روایت میں ہے کہ حج کے موقع پرامام علیہ السلام نے ہارون رشیدکودیکھ کراپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملاتے ہوئے فرمایاکہ میں اوریہ اسی طرح ایک ہوجائیں گے وہ کہتاہے کہ میں اس ارشادکامطلب اس وقت سمجھاجب آپ کی شہادت واقع ہوئی اوردونوں ایک مقبرہ میں دفن ہوئے موسی بن عمران کاکہناہے کہ اسی سال ہارون رشیدمدینہ منورہ پہنچااورامام علیہ السلام نے اسے خطبہ دیتے ہوئے دیکھ کرفرمایاکہ عنقریب میں اورہارون ایک ہی مقبرہ میں دفن کئے جائیں گے (نورالابصار ص ۱۴۴) ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کا مجدد مذہب امامیہ ہونا حدیث میں ہرسوسال کے بعد ایک مجدداسلام کے نمودوشہودکانشان ملتاہے یہ ظاہرہے کہ جواسلام کامجددہوگااس کے تمام ماننے والے اسی کے مسلک پرگامزن ہوں گے اورمجددکاجوبنیادی مذہب ہوگااس کے ماننے والوں کابھی وہی مذہب ہوگا،حضرت امام رضاعلیہ السلام جوقطعی طورپرفرزندرسول اسلام تھے وہ اسی مسلک پرگامزن تھے جس مسلک کی بنیادپیغمبراسلام اورعلی خیرالانام کاوجودذی وجودتھا یہ مسلمات سے ہے کہ آل محمدعلیہم السلام پیغمبرعلیہ السلام کے نقش قدم پرچلتے تھے اورانہیں کے خدائی منشاء اوربنیادی مقصدکی تبلیغ فرمایاکرتے تھے یعنی آل محمدکامسلک وہ تھاجومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامسلک تھا۔ علامہ ابن اثیرجزری اپنی کتاب جامع الاصول میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام تیسری صدی ہجری میں اورثقة الاسلام علامہ کلینی چوتھی صدی ہجری میں مذہب امامیہ کے مجددتھے علامہ قونوی اورملامبین نے اسی کودوسری صدی کے حوالہ سے تحریرفرمایاہے (وسیلةالنجات ص ۳۷۶ ،شرح جامع صغیر)۔ محدث دہلوی شاہ عبدالعزیزابن اثیرکاقول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن اثیرجذری صاحب جامع الاصول نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کوتیسری صدی میں مذہب امامیہ کامجددہوناظاہروواضح فرمایاہے (تحفہ اثناعشریہ کید ۸۵ ص ۸۳) بعض علماء اہل سنت نے آپ کودوسری صدی کااوربعض نے تیسری صدی کامجدد بتلایاہے البته دونوں هی کودرست کہاجاسکتاہے کیوں کہ دوسری صدی میں امام رضاعلیہ السلام کی ولادت اورتیسری صدی کے آغازمیں آپ کی شہادت ہوئی ہے ۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام کے اخلاق و عادات آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کالکھنااس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں ”مشتی نمونہ ازخرواری“یہ ہیں بحوالہ علامہ شبلنجی ابراہیم بن عباس تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے کبھی کسی شخص کے ساتھ گفتگوکرنے میں سختی نہیں کی،اورکبھی کسی بات کوقطع نہیں فرمایا آپ کے مکارم عادات سے تھا کہ جب بات کرنے والااپنی بات ختم کرلیتاتھا تب اپنی طرف سے کلام آغازفرماتے تھے کسی کی حاجت روائی اورکام نکالنے میں حتی المقدوردریغ نہ فرماتے ،کبھی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلاکرنہ بیٹھتے اورنہ اہل محفل کے روبروتکیہ لگاکربیٹھتے ، کبھی اپنے غلاموں کوگالی نہ دی ،میں نے کبھی آپ کے تھوکتے اورناک صاف کرتے نہیں دیکھا،آپ قہقہہ لگاکرہرگز نہیں ہنستے تھے خندہ زنی کے موقع پرآپ تبسم فرمایاکرتے تھے محاسن اخلاق اورتواضع وانکساری کی یہ حالت تھی کہ دسترخوان پرسائیس اوردربان تک کواپنے ساتھ بٹھالیتے ،راتوں کوبہت کم سوتے اوراکثرراتوں کوشام سے صبح تک شب بیداری کرتے تھے اکثراوقات روزے سے ہوتے تھے مگرہرمہینے کے تین روزےتوآپ سے کبھی قضانہیں ہوئے ارشادفرماتے تھے کہ ہرماہ میں کم ازکم تین روزے رکھ لیناایساہے جیسے کوئی ہمیشہ روزے سے رہے ۔ آپ کثرت سے خیرات کیاکرتے تھے اوراکثررات کی تاریکی کے پردہ میں اس استحباب کوادافرمایاکرتے تھے موسم گرمامیں آپ کافرش جس پرآپ بیٹھ کرفتوی دیتے یامسائل بیان کیاکرتے تهے بوریاکاہوتاتھااورموسم سرمامیں کمبل ،آپ کایہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہدحکومت تھے آپ کالباس گھرمیں موٹااورخشن ہوتاتھا اوررفع طعن کے لیے باہرآپ اچھالباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندرکاپیراہن دکھلاکرفرمایااچھالباس دنیاوالوں کے لیے اورکمبل کاپیراہن خداکے لیے ہے۔ علامہ موصوف تحریرفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ حمام میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جندی نامی آگیااوراس نے بھی نہاناشروع کیادوران غسل اس نے اس نے امام رضاعلیہ السلام سے کہاکہ میرے جسم پرپانی ڈالئے آپ نے پانی ڈالناشروع کیااتنے میں ایک شخص نے کہااے جندی فرزندرسول سے خدمت لے رہاہے ارے یہ امام رضاہیں، یہ سنناتھا کہ وہ پیروں پرگرپڑااورمعافی مانگنے لگا (نورالابصار ص ۳۸،۳۹) ۔ ایک مردبلخی ناقل ہے کہ حضرت کے ساتھ ایک سفرمیں تھاایک مقام پردسترخوان بچھاتوآپ نے تمام غلاموں کوجن میں حبشی بھی شامل تھے بلاکربٹھا لیامیں نے عرض کیامولاانہیں علیحدہ بٹھائیں توکیاحرج ہے آپ نے فرمایاکہ سب کارب ایک ہے اورماں باپ آدم وحوا بھی ایک ہیں اورجزاوسزا اعمال پرموقوف ہے، توپھرفرق کیسا.آپ کے ایک خادم یاسرکاکہناہے کہ آپ کایہ تاکیدی حکم تھا کہ میرے آنے پرکوئی خادم کھاناکھانے کی حالت میں میری تعظیم کونہ اٹھے۔ معمر بن خلادکابیان ہے کہ جب بھی دسترخوان بچھتاآپ ہرکھانے میں سے ایک ایک لقمہ نکال لیتے تھے اوراسے مسکینوں اوریتیموں کوبھیج دیاکرتے تھے شیخ صدوق تحریرفرماتے ہیں کہ آپ نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے فرمایاکہ بزرگی تقوی سے ہے جومجھ سے زیادہ متقی ہے وہ مجھ سے بہترہے۔ ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال عنایت کیجیے، فرمایایہ ممکن ہے چنانچہ آپ نے اسے دوسواشرفی عنایت فرمادی، ایک مرتبہ نویں ذی الحجہ یوم عرفہ آپ نے راہ خدامیں ساراگھرلٹادیا یہ دیکھ کرمامون کے وزیرفضل بن سہیل نے کہاحضرت یہ توغرامت یعنی اپنے آپ کونقصان پہنچاناہے آپ نے فرمایایہ غرامت نہیں ہے غنیمت ہے میں اس کے عوض میں خداسے نیکی اورحسنہ لوں گا۔ آپ کے خادم یاسرکابیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھارہے تھے اورکھانے میں ایساکرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے اورکچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کوآپ نے دیکھ لیا اورفرمایانعمت خداکوضائع نہ کروٹھیک سے کھاؤ اورجوبچ جائے اسے کسی محتاج کودیدو،آپ فرمایاکرتے تھے کہ مزدورکی مزدوری پہلے طے کرناچاہئے کیونکہ چکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جوکچھ دیاجائے گاپانے والااس کوانعام سمجھے گا۔ صولی کابیان ہے کہ آپ اکثرعودہندی کابخورکرتے اورمشک وگلاب کاپانی استعمال کرتے تھے عطریات کاآپ کوبڑاشوق تھانمازصبح اول وقت پڑھتے اس کے بعدسجدہ میں چلے جاتے تھے اورنہایت ہی طول دیتے تھے پھرلوگوں کوپندونصائح فرماتے۔ سلیمان بن جعفرکاکہناہے کہ آپ آباؤاجدادکی طرح خرمے کوبہت پسندفرماتے تھے آپ شب وروزمیں ایک ہزاررکعت نمازپڑھتے تھے جب بھی آپ بسترپرلیٹتے تھے تابہ خواب قرآن مجیدکے سورے پڑھاکرتے تھے موسی بن سیار کاکہناہے کہ آپ اکثراپنے شیعوں کی میت میں شرکت فرماتے تھے اورکہاکرتے تھے کہ ہرروزشام کے وقت امام وقت کے سامنے شیعوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں اگرکوئی شیعہ گناہ گارہوتاہے توامام اس کے لیے استغفارکرتے ہیں علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کے سامنے جب بھی کوئی آتاتھا آپ پہچان لیتے تھے کہ مومن ہے یامنافق (اعلام الوری، تحفہ رضویہ ،کشف الغمہ ص ۱۱۲) ۔ علامہ محمدرضا لکھتے ہیں کہ آپ ہرسوال کاجواب قرآن مجیدسے دیتے تھے اورروزانہ ایک قرآن ختم کرتے تھے (جنات الخلود ص ۳۱) ۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام کاعلمی کمال مورخین کابیان ہے کہ آل محمدمیں ائمه کاہرفردحضرت احدیت کی طرف سے بلندترین علم کے درجے پرقراردیا گیاتھاجسکادوست اوردشمن نےاقرارکیا ہےیہ اوربات ہے کہ کسی کوعلمی فیوض پھیلانے کازمانے نے کم موقع دیا اورکسی کوزیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہ السلام کے بعداگرکسی کوسب سے زیادہ موقع حاصل ہواہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام ہیں ،جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمدہیں، اپنے دینی مسائل کوان سے دریافت کیاکرواورجوکچھ کہیں اسے یادرکھو،اورپھرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اورروضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محمدبن عیسی یقطینی کابیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جوحضرت امام رضاعلیہ السلام سے پوچھے گئے تھے اورآپ نے ان کاجواب تحریرمیں فرمایاتھا،اکھٹا کیاتواٹھارہ ہزارکی تعدادمیں تھے،صاحب لمعة الرضاء تحریرکرتے ہیں کہ حضرت آئمہ طاہرین علیہم السلام کے خصوصیات میں یہ امرتمام تاریخی مشاہداورنیزحدیث وسیرکے اسانیدمعتبرسے ثابت ہے ،باوجودیکہ اہل دنیاکوآپ حضرات کی تقلیداورمتابعت فی الاحکام کابہت کم شرف حاصل تھا،مگرباین ہمہ تمام زمانہ وہرخویش وبیگانہ آپ حضرات کوتمام علوم الہی اوراسرارالہی کاگنجینہ سمجھتاتھا اورمحدثین ومفسرین اورتمام علماء وفضلاء جوآپ کے مقابلہ کادعوی رکھتے تھے وہ بھی علمی مباحث ومجالس میں آپ حضرات کے آگے زانوئے ادب تہ کرتے تھے اورعلمی مسائل کوحل کرنے کی ضرورتوں کے وقت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے لے کرامام زین العابدین علیہ السلام تک استفاده کئے وہ سب کتابوں میں موجودہے۔ جناب امام رضاعلیہ السلام کواتفاق حسنہ سے اپنے علم وفضل کے اظہارکے زیادہ موقع پیش آئے کیوں کہ مامون عباسی کے پاس جب تک دارالحکومت مروتشریف فرمارہے، بڑے بڑے علماء وفضلاء علوم مختلفہ میں آپ کی استعداداور فضیلت کااندازہ کرایاگیااورکچھ اسلامی علماء پرموقوف نہیں تھا بلکہ علماء یہودی ونصاری سے بھی آپ کامقابلہ کرایاگیا،مگران تمام مناظروں ومباحثوں مین ان تمام لوگوں پرآ پ کی فضیلت وفوقیت ظاہرہوئی،خودمامون بھی خلفائے عباسیہ میں سب سے زیادہ اعلم وافقہ تھا باوجوداس کے تبحرفی العلوم کالوہامانتاتھا اورچاروناچاراس کااعتراف اوراقرارکرتاتھا چنانچہ مامون برابرعلماء ادیان وفقہائے شریعت کوجناب امام رضاعلیہ السلام کے مقابلہ میں بلاتااورمناظرہ کراتا،مگرآپ ہمیشہ ان لوگوں پرغالب آتے تھے اورخودارشادفرماتے تھے کہ میں مدینہ میں روضہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھتا،وہاں کے علمائے کثیرجب کسی علمی مسئلہ میں عاجزآجاتے توبالاتفاق میری طرف رجوع کرتے،جواب ہائے شافی دےکران کی تسلی وتسکین کردیتا۔ ابوصلت ابن صالح کہتے ہیں کہ حضرت امام علی بن موسی رضاعلیہماالسلام سے زیادہ کوئی عالم میری نظرسے نہیں گزرا ،اورمجھ پرموقوف نہیں جوکوئی آپ کی زیارت سے مشرف ہوا وہ میری طرح آپ کی اعلمیت کی شہادت دے گا۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام کے بعض مرویات وارشادات حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بے شماراحادیث مروی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں: ۱ ۔ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے بہترکوئی دودھ نہیں ۔ ۲ ۔ سرکہ بہترین سالن ہے جس کے گھرمیں سرکہ ہوگاوہ محتاج نہ ہوگا۔ ۳ ۔ ہرانارمیں ایک دانہ جنت کاہوتاہے ۴ ۔ منقی صفراکودرست کرتاہے بلغم کودورکرتاہے پٹھوں کومضبوط کرتاہے نفس کوپاکیزہ بناتااوررنج وغم کودورکرتاہے ۵ ۔شہدمیں شفاہے ،اگرکوئی شہدہدیہ کرے توواپس نہ کرو ۶ ۔ گلاب جنت کے پھولوں کا سردار ہے۔ ۷ ۔ بنفشہ کاتیل سرمیں لگاناچاہئے اس کی تاثیرگرمیوں میں سرداورسردیوں میں گرم ہوتی ہے۔ ۸ ۔ جوزیتون کاتیل سرمیں لگائے یاکھائے اس کے پاس چالیس دن تک شیطان نہ آئے گا۔ ۹ ۔ صلہ رحم اورپڑوسیوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے سے مال میں زیادتی ہوتی ہے۔ ۱۰ ۔ اپنے بچوں کاساتویں دن ختنہ کردیاکرواس سے صحت ٹھیک ہوتی ہے اورجسم پرگوشت چڑھتاہے ۔ ۱۱ ۔ جمعہ کے دن روزہ رکھنا دس روزوں کے برابرہے۔ ۱۲ ۔ جوکسی عورت کامہرنہ دے یامزدورکی اجرت روکے یاکسی کوفروخت کردے وہ بخشانہ جاوے گا۔ ۱۳ ۔ شہدکھانے اوردودھ پینے سے حافظہ بڑھتاہے۔ ۱۴۔ گوشت کھانے شفاہوتی ہے اورمرض دورہوتاہے۔ ۱۵ ۔ کھانے کی ابتداء نمک سے کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ستربیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے جن میں جذام بھی ہے۔ ۱۶ ۔ جودنیامیں زیادہ کھائے گاقیامت میں بھوکارہے گا۔ ۱۷ ۔ مسورسترانبیاء کی پسندیدہ خوراک ہے اس سے دل نرم ہوتاہے اورآنسوبنتے ہیں ۔ ۱۸ ۔ جوچالیس دن گوشت نہ کھائے گابداخلاق ہوجائےگا۔ ۱۹ ۔ کھاناٹھنڈاکرکے کھاناچاہئے۔ ۲۰ ۔ کھانے پیالے کے کنارے سے کھانا چاہئے۔ ۲۱ ۔ عمرطول کے لیے اچھاکھانا،اچھی جوتی پہننااورقرض سے بچنا،کثرت جماع سے پرہیزکرنا مفیدہے۔ ۲۲ ۔ اچھے اخلاق والاپیغمبراسلام کے ساتھ قیامت میں ہوگا۔ ۲۳ ۔ جنت میں متقی اورحسن خلق والوں کی اورجہنم میں پیٹواور زناکاروں کی کثرت ہوگی۔ ۲۴ ۔ امام حسین کے قاتل بخشے نہ جائیں گے ان کابدلہ خدالے گا۔ ۲۵ ۔ حسن اورحسین علیہم السلام جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران سے بہترہیں۔ ۲۶ ۔ اہل بیت کی مثال سفینہ نوح جیسی ہے ،نجات وہی پائے گا جواس پرسوارہوگا۔ ۲۷ ۔ حضرت فاطمہ ساق عرش پکڑکرقیامت کے دن واقعہ کربلاکافیصلہ چاہیں گی اس دن ان کے ہاتھ میں امام حسین علیہ السلام کاخون بھراپیراہن ہوگا۔ ۲۸ ۔ خداسے روزی صدقہ دیے کرمانگو۔ ۲۹ ۔ سب سے پہلے جنت میں وہ شہدااورعیال دارجائیں گے جوپرہیزگارہوں گے اورسب سے پہلے جہنم میں حاکم غیرعادل اورمالدارجائیں گے (مسندامام رضاطبع مصر ۱۳۴۱ ہجری) ۳۰ ۔ ہرمومن کاکوئی نہ کوئی پڑوسی اذیت کاباعث ضرورہوگا۔ ۳۱ ۔ بالوں کی سفیدی کاسرکے اگلے حصے سے شروع ہونا سلامتی اوراقبال مندی کی دلیل ہے اوررخساروں ڈاڑھی کے اطراف سے شروع ہونا سخاوت کی علامت ہے اورگیسوؤں سے شروع ہونا شجاعت کانشان ہے اورگدی سے شروع ہونانحوست ہے۔ ۳۲ ۔ قضاوقدرکے بارے میں آپ نے فضیل بن سہیل کے جواب میں فرمایاکہ انسان نہ بالکل مجبورہے اورنہ بالکل آزادہے (نورالابصار ص ۱۴۰) ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام اورمجلس شہداء کربلا علامہ مجلسی بحارالانوارمیں لکھتے ہیں کہ شاعرآل محمد،دعبل خزاعی کابیان ہے کہ ایک مرتبہ عاشورہ کے دن میں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا،تودیکھاکہ آپ اصحاب کے حلقہ میں انتہائی غمگین وحزیں بیٹھے ہوئے ہیں مجھے حاضرہوتے دیکھ کر فرمایا،آؤآؤہم تمہاراانتظارکررہے ہیں میں قریب پہنچاتوآپ نے اپنے پہلومیں مجھے جگہ دے کرفرمایا کہ اے دعبل چونکہ آج یوم عاشوراہے اوریہ دن ہمارے لیے انتہائی رنج وغم کادن ہے لہذا تم میرے جد مظلوم حضرت امام حسین علیہ السلام کے مرثیہ سے متعلق کچھ شعرپڑھو،اے دعبل جوشخص ہماری مصیبت پرروئے یارلائے اس کااجرخداپرواجب ہے ،اے دعبل جس شخص کی آنکھ ہمارے غم میں ترہو وہ قیامت میں ہمارے ساتھ محشورہوگا ،اے دعبل جوشخص ہمارے جدنامدارحضرت سیدالشہداء علیہ السلام کے غم میں روئے گا خدااس کے گناہ بخش دے گا۔ یہ فرما کر امام علیہ السلام نے اپنی جگہ سے اٹھ کر پردہ کھینچااورمخدرات عصمت کوبلاکراس میں بٹھادیاپھرآپ میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے ہاں دعبل! اب میرے جدامجدکامرثیہ شروع کرو، دعبل کہتے ہیں کہ میرادل بھرآیااورمیری آنکھوں سے آنسوجاری تھے اورآل محمدمیں رونے کاکہرام عظیم برپاتھا صاحب درالمصائب تحریرفرماتے ہیں کہ دعبل کامرثیہ سن کرمعصومہ قم جناب فاطمہ ہمیشرہ حضرت امام رضاعلیہ السلام اس قدرروئیں کہ آپ کوغش آگیا۔ اس اجتماعی طریقہ سے ذکرحسینی کومجلس کہتے ہیں اس کاسلسلہ عہدامام رضامیں مدینہ سے شروع ہوکرمروتک جاری رہا،علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ اب امام رضاعلیہ السلام کوتبلیغ حق کے لیے نام حسین کی اشاعت کے کام کوترقی دینے کابھی پوراموقع حاصل ہوگیاتھا جس کی بنیاداس کے پہلے حضرت امام محمدباقر علیہ السلام اورامام جعفرصادق علیہ السلام قائم کرچکے تھے مگروہ زمانہ ایساتھا کہ جب امام کی خدمت میں وہی لوگ حاضرہوتے تھے جوبحیثیت امام یابحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اوراب امام رضاعلیہ السلام توامام روحانی بھی ہیں اورولی عہدسلطنت بھی،اس لیے آپ کے دربارمیں حاضرہونے والوں کادائرہ وسیع ہے۔ مرو،وہ مقام ہے جوایران کے تقریبا وسط میں واقع ہے ہرطرف کے لوگ یہاں آتے ہیں اوریہاں یہ عالم کہ ادھر محرم کاچاند نکلااورآنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے دوسروں کوبھی ترغیب وتحریص کی جانے لگی کہ آل محمدکے مصائب کویادکرواوراثرات غم کوظاہرکرو یہ بھی ارشادہونے لگا کہ جواس مجلس میں بیٹھے جہاں ہماری باتیں زندہ کی جاتی ہیں اس کادل مردہ نہ ہوگااس دن کے جب سب کے دل مردہ ہوں گے۔ تذکرہ امام حسین کے لیے جومجمع ہو،اس کانام اصطلاحی طورپرمجلس اسی امام رضاعلیہ السلام کی حدیث سے ہی ماخوذہے آپ نے عملی طورپربھی خودمجلسیں کرنا شروع کردیں جن میں کبھی خودذاکرہوئے اوردوسرے سامعین جیسے ریان بن شبیب کی حاضری کے موقع پرآپ نے مصائب امام حسین علیہ السلام بیان فرمائے اورکبھی عبداللہ بن ثابت یادعبل خزاعی جیسے کسی شاعرکی حاضری کے موقع پراس شاعرکوحکم ہواکہ تم ذکرامام حسین میں اشعارپڑھواورحضرت سامعین میں داخل ہوئے الخ۔ مامون کی طلبی سے قبل امام علیہ السلام کی روضہ رسول پرفریاد ابومخنف بن لوط بن یحی خزاعی کابیان ہے کہ حضرت امام موسی کاظم کی شہادت کے بعد ۱۵/ محرم الحرام شب یک شنبہ کوحضرت امام رضاعلیہ السلام نے روضہ رسول خداپرحاضری دی وہاں مشغول عبادت تھے کہ آنکھ لگ گئی، خواب میں دیکھاکہ حضرت رسول کریم بالباس سیاہ تشریف لائے ہیں اورسخت پریشان ہیں امام علیہ السلام نے سلام کیاحضورنے جواب سلام دے کرفرمایا،اے فرزند،میں اورعلی وفاطمہ ،حسن وحسین سب تمہارے غم میں نالاں وگریاں ہیں اورہم ہی نہیں فرزندم زین العابدین،محمدباقر،جعفرصادق اورتمہارے پدرموسی کاظم سب غمگین اوررنجیدہ ہیں،اے فرزندعنقریب مامون رشیدتم کوزہرسے شہیدکرے گا،یہ دیکھ کرآپ کی آنکھ کھل گئی اورآپ زارزاررونے لگے پھرروضہ مبارک سے باہرآئے ایک جماعت نے آپ سے ملاقات کی اورآپ کوپریشان دیکھ کرپوچھاکہ مولااضطراب کی وجہ کیاہے فرمایاابھی ابھی جدنامدارنے میری شہادت کی خبردی ہے اے ابوصلت دشمن مجھے شہیدکرناچاہتاہے اورمیں خداپربھروسہ کرتاہوں جومرضی معبودہووہی میری مرضی ہے اس خواب کے تھوڑے عرصہ بعد مامون رشیدکالشکرمدینہ پہنچ گیااوروہ امام علیہ السلام کو اپنی سیاسی غرض کے لیے وہاں سے دارالخلافت ”مرو“میں لے آیا(کنزالانساب ص ۸۶) ۔ امام رضاعلیہ السلام کی مدینہ سے مرومیں طلبی علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حالات کی روشنی میں مامون نے اپنے مقام پریہ قطعی فیصلہ اورعزم بالجزم کرلیا کہ امام رضاعلیہ السلام کوولیعہد یاخلافه بنائے گا اپنے وزیراعظم فضل بن سہل کوبلابھیجا اوراس سے کہاکہ ہماری رائے ہے کہ ہم امام رضاکوولی عہدی سپردکردیں تم خودبھی اس پرسوچ وبچارکرو، اوراپنے بھائی حسن بن سہل سے مشورہ کروان دونوں نے آپس میں تبادلہ خیال کرنے کے بعد مامون کی بارگاہ میں حاضری دی،ان کامقصدتھا کہ مامون ایسانہ کرے ورنہ خلافت آل عباس سے آل محمدمیں چلی جائے گی ان لوگوں نے اگرچہ کھل کرمخالفت نہیں کی،لیکن دبے لفظوں میں ناراضگی کااظہارکیا مامون نے کہاکہ میرا فیصلہ اٹل ہے اورمیں تم دونوں کو حکم دیتاہوں کہ تم مدینہ جاکرامام رضاکواپنے ہمراہ لاؤ(حکم حاکم مرگ مفاجات) آخرکاریہ دونوں امام رضاکی خدمت میں مقام مدینہ منورہ حاضرہوئے اورانہوں نے بادشاہ کاپیغام پہنچایا۔ حضرت امام علی رضانے اس عرضداشت کومستردکردیااورفرمایاکہ میں اس امرکے لیے اپنے کوپیش کرنے سے معذورہوں لیکن چونکہ بادشاہ کاحکم تھا کہ انہیں ضرورلاؤ اس لیے ان دونوں نے بے انتہااصرارکیااورآپ کے ساتھ اس وقت تک لگے رہے جب تک آپ نے مشروط طورپروعدہ نہیں کرلیا (نورالابصارص ۴۱) ۔ امام رضاعلیہ السلام کی مدینہ سے روانگی تاریخ ابوالفداء میں ہے کہ جب امین قتل ہواتومامون سلطنت عباسیہ کامستقل بادشاہ بن گیایہ ظاہرہے کہ امین کے قتل ہونے کے بعد سلطنت مامون کے پائے نام ہوگئی مگریہ پہلے کہاجاچکاہے کہ امین ننہیال کی طرف سے عربی النسل تھا ،اورمامون عجمی النسل تھا امین کے قتل ہونے سے عراق کی عرب قوم اورارکان سلطنت کے دل مامون کی طرف سے صاف نہیں ہوسکتے تھے بلکہ وہ ایک غم وغصہ کی کیفیت محسوس کرتے تھے دوسری طرف خودبنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جوامین کی طرف دارتھی اس سے بھی مامون کوہرطرح خطرہ لگاہواتھا۔ اولادفاطمہ میں سے بہت سے لوگ جووقتافوقتابنی عباس کے مقابل میں کھڑے ہوتے رہتے تھے وہ خواہ قتل کردیے گئے ہوں یاجلاوطن کئے گئے ہوں یاقید رکھے گئے ہوں ان کے موافق جماعت تھی جواگرچہ حکومت کاکچھ بگاڑنہ سکتی تھی مگردل ہی دل میں حکومت بن عباس سے بیزارضرورتھی ایران میں ابومسلم خراسانی نے بنی امیہ کے خلاف جواشتعال پیداکیاوہ ان مظالم ہی کویاددلاکرجوبنی امیہ کے ہاتھوں حضرت امام حسین علیہ السلام اوردوسرے بنی فاطمہ کے ساتھ کیے تھے اس سے ایران میں اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کاپیداہونافطری تھا درمیان میں بنی عباس نے اس سے غلط فائدہ اٹھایامگراتنی مدت میں کچھ نہ کچھ توایرانیوں کی آنکھیں بھی کھل گئی کہ ہم سے کہاگیاتھامگراقتدارکن لوگوں نے حاصل کرلیا، ممکن ہے ایرانی قوم کے ان رجحانات کا چرچامامون کے کانوں تک بھی پہنچاہواب جس کی وجہ سے ا مین کے قتل کے بعد وہ عرب قوم پراوربنی عباس کے خاندان پربھروسہ نہیں کرسکتاتھا اوراسے ہروقت اس حلقہ سے بغاوت کااندیشہ تھا،تواسے سیاسی مصلحت اسی میں معلوم ہوئی کہ عرب کے خلاف عجم اوربنی عباس کے خلاف بنی فاطمہ کواپنالیاجائے،اورچونکہ طرزعمل میں خلوص سمجھانہیں جاسکتا اوروہ عام طبائع پراثرنہیں ڈال سکتااگریہ نمایاں ہوجائے کہ وہ سیاسی مصلحتوں کی بناپرہے اس لے ضرورت ہوئی کہ مامون مذہبی حیثیت سے اپنی شیعت نوازی اورولائے اہلبیت کے چرچے عوام کے حلقوں میں پھیلائے اوریہ دکھلائے کہ وہ انتہائی نیک نیتی پرقائم ہے اب ”حق بہ حقدار رسید“ کے مقولہ کوسچابناناچاہتاہے۔ اس سلسلہ میں جناب شیخ صدوق اعلی اللہ مقامہ نے تحریرفرمایاہے کہ اس نے اپنی زندگی کی حکایت بھی شائع کی کہ جب امین کااورمیرامقابلہ تھا،اوربہت نازک حالت تھی اورعین اسی وقت میرے خلاف سیستان اورکرمان میں بھی بغاوت ہوگئی تھی اورخراسان میں بھی بے چینی پھیلی ہوئی تھی اورفوج کی طرف سے بھی اطمینان نہ تھا اوراس سخت اوردشوارماحول میں ،میں نے خداسے التجاکی اورمنت مانی کہ اگریہ سب جھگڑے ختم ہوجائیں اورمیں بام خلافت تک پہنچوں تواس کواس کے اصل حقداریعنی اولادفاطمہ میں سے جواس کااہل ہے اس تک پہنچادوں گا اسی نذرکے بعدسے میرے سب کام بننے لگے ،اورآخر تمام دشمنوں پرمجھے فتح حاصل ہوئی۔ یقینایہ واقعہ مامون کی طرف سے اس لیے بیان کیاگیاکہ اس کاطرزعمل خلوص نیت اورحسن نیت پربھی مبنی سمجھاجائے ،یوں توجواہلبیت کے کھلے ہوئے دشمن سخت سے سخت تھے وہ بھی ان کی حقیقت اورفضیلت سے واقف تھے اوران کی عظمت کوجانتے تھے مگرشیعیت کے معنی صرف یہ جانناتونہیں ہیں بلکہ محبت رکھنا اوراطاعت کرناہیں اورمامون کے طرزعمل سے یہ ظاہرہے کہ وہ اس دعوے شیعیت اورمحبت اہل بیت کاڈھنڈوراپیٹنے کے باوجودخودامام کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا تھا،بلکہ امام کواپنے منشاکے مطابق چلانے کی کوشش تھی ولی عہدبننے کے بارے میں آپ کے اختیارات کوبالکل سلب کردیاگیا اورآپ کومجبوربنادیاگیا تھا اس سے ظاہرہے کہ یہ ولی عہدی کی تفویض بھی ایک حاکمانہ تشددتھا جواس وقت شیعیت کے بھیس میں امام کے ساتھ کیاجارہاتھا۔ امام رضاعلیہ السلام کاولی عہدکوقبول کرنابالکل ویساہی تھا جیساہارون کے حکم سے امام موسی کاظم کاجیل خانہ میں چلاجانا اسی لیے جب امام رضاعلیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف روانہ ہورہے تھے توآپ کے رنج وصدمہ اوراضطراب کی کوئی حدنہ تھی روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کاوہی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السلام کامدینہ سے روانگی کے وقت تھا دیکھنے والوں نے دیکھاکہ آپ بے تابانہ روضہ کے اندرجاتے ہیں اورنالہ وآہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں پھرباہرنکل کرگھرجانے کاارادہ کرتے ہیں اورپھردل نہیں مانتاپھرروضہ سے جاکرلپٹ جاتے ہیں یہ ہی صورت کئی مرتبہ ہوئی،راوی کا بیان ہے کہ میں حضرت کے قریب گیاتوفرمایااے محول! میں اپنے جدامجدکے روضے سے بہ جبرجدا کیاجارہاہوں اب مجھ کویہاں آنا نصیب نہ ہوگا (سوانح امام رضاجلد ۳ ص ۷) ۔ محول شیبانی کابیان ہے کہ جب وہ ناگواروقت پہنچ گیاکہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے جدبزرگوارکے روضہ اقدس سے ہمیشہ کےلے وداع ہوئے تو میں نے دیکھاکہ آپ بے تابانہ اندرجاتے ہیں اوربانالہ وآہ باہرآتے ہیں اورظلمہ امت کی شکایت کرتے ہیں یاباہرآکر گریہ وبکافرماتے ہیں اورپھراندرواپس چلے جاتے ہیں آپ نے چندبارایساہی کیااورمجھ سے نہ رہاگیااورمیں نے حاضرہوکرعرض کی مولااضطراب کی کیاوجہ ہے ؟ فرمایاائے محول ! میں اپنے نانا کے روضہ سے جبراجداکیاجارہاہوں مجھے اس کے بعداب یہاں آنانصیب نہ ہوگامیں اسی مسافرت اورغریب الوطنی میں شہیدکردیاجاؤں گا،اورہارون رشید کے مقبرہ میں مدفون ہوں گااس کے بعدآپ دولت سرامیں تشریف لائے اورسب کوجمع کرکے فرمایاکہ میں تم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہورہاہوں یہ سن کر گھرمیں ایک عظیم کہرام بپاہوگیااورسب چھوٹے بڑے رونے لگے ، آپ نے سب کوتسلی دی اورکچھ دیناراعزامیں تقسیم کرکے راہ سفراختیار فرمالیا ایک روایت کی بناپر آپ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے اوروہاں طواف کرکے خانہ کعبہ کورخصت فرمایا۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام کانیشاپورمیں ورودمسعود رجب ۲۰۰ ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اورمتعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اورقم کی سیدھی راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظراختیارکیاگیاکہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضرہوکرآپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہرہوئے توتمام خوردوبزرگ شوق زیارت میں امنڈپڑے،مرکب عالی جب مربعہ شہر(چوک) میں پہنچاتو خلاق سے زمین پرتل رکھنے کی جگہ نہ تھی اس وقت حضرت امام رضاقاطرنامی خچرپرسوارتھے جس کاتمام سازوسامان نقرئی تھاخچرپرعماری تھی اوراس پردونوں طرف پردہ پڑے ہوئے تھے اوربروایتے چھتری لگی ہوئی تھی اس وقت امام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اورمحمدن بن اسلم طوسی آگے آگے اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضرخدمت ہوئی اورباین کلمات امام علیہ السلام کومخاطب کیا”اے جمیع سادات کے سردار،اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکیزگی ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ میں اپنے دیدارکاموقع دیجئے اورکوئی حدیث اپنے جدنامدارکی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،یحی بن یحی اوراسحاق بن راہویہ نے آپ کے قاطرکی باگ تھام لی۔ ان کی استدعا سن کرآپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا د ئیے جائیں فوراتعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی وہ نورانی چہرہ اپنے پیارے رسول کے جگرگوشہ کادیکھاسینوں میں دل بیتاب ہوگئے دوزلفین نورانورپر مانندگیسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹی ہوئی تھیں کسی کویارائے ضبط باقی نہ رہاوہ سب کے سب بے اختیاردھاڑیں مارکررونے لگے غرضکہ عجیب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال دیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انورکی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہرہوگئی اوران کے موجودہ اشتیاق وتمناکی پرجوشیوں میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے لیے آزارنہ بنو، ان کی استدعاپرقدرے شوروغل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا: حد ثنی ابی موسی الکاظم عن ابیہ جعفرالصادق عن ابیہ محمدالباقرعن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین الشہیدبکربلاعن ابیہ علی المرتضی قال حدثنی حبیبی وقرة عینی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال حدثنی جبرئیل علیہ السلام قال حدثنی رب العزت سبحانہ وتعالی قال لاالہ الااللہ حصنی فمن قالہادخل حصنی ومن دخل حصنی امن من عذابی (مسندامام رضاعلیہ السلام ص ۷ طبع مصر ۱۳۴۱ ھ)۔ ترجمہ : میرے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایااوران سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اوران سے امام محمدباقرنے اوران سے امام زین العابدین نے اوران سے امام حسین نے اوران سے حضرت علی مرتضی نے اوران سے حضرت رسول کریم جناب محمدمصطفی صلعم نے اوران سے جناب جبرئیل امین نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرمایاکہ ”لاالہ الااللہ “ میراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا اورجومیرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔ یہ کہہ کرآپ نے پردہ کھینچوادیا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمایا بشرطہاوشروطہاوانامن شروطہا کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گالیکن اس کے کہنے اورنجات پانے میں چندشرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں یعنی اگرآل محمدکی محبت دل میں نہ ہوگی تولاالہ الااللہ کہناکافی نہ ہوگاعلماء نے ”تاریخ نیشابور“ کے حوالے سے لکھاہے کہ اس حدیث کے لکھنے میں مفرددواتوں کے علاوہ ۲۴ ہزارقلمدان استعمال کئے گئے احمدبن حنبل کاکہناہے کہ یہ حدیث جن اسناداوراسماء کے ذریعہ سے بیان فرمائی گئی ہے اگرانہیں اسماء کوپڑھ کر مجنون پردم کیاجائے تو”لافاق من جنونہ“ ضروراس کاجنون جاتارہے گا اوروہ اچھاہوجائے گاعلامہ شبلنجی نورالابصارمیں بحوالہ ابوالقاسم تضیری لکھتے ہیں کہ ساسانہ کے رہنے والے بعض رؤسا نے جب اس سلسلہ حدیث کوسناتواسے سونے کے پانی سے لکھواکراپنے پاس رکھ لیااورمرتے وقت وصیت کی کہ اسے میرے کفن میں رکھ دیاجائے چنانچہ ایساہی کیاگیامرنے کے بعداس نے خواب میں بتایاکہ خداوندعالم نے مجھے ان ناموں کی برکت سے بخش دیاہے اورمیں بہت آرام کی جگہ ہوں ۔ مؤلف کہتاہے کہ اسی فائدہ کے لیے شیعہ اپنے کفن میں خواب نامہ کے طورپران اسماء کولکھ کررکھتے ہیں بعض کتابوں میں ہے کہ نیشاپورمیں آپ سے بہت سے کرامات نمودارہوئے۔ شہرطوس میں آپ کی آمد جب اس سفرمیں چلتے چلتے شہرطوس پہنچے تووہاں دیکھاکہ ایک پہاڑسے لوگ پتھرتراش کرہانڈی وغیرہ بناتے ہیں آپ اس سے ٹیک لگاکرکھڑے ہوگئے اورآپ نے اس کے نرم ہونے کی دعاکی وہاں کے باشندوں کاکہناہے کہ اس پہاڑکاپتھربالکل نرم ہوگیااوربڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔ امارضا کادارالخلافہ مرومیں امام علیہ السلام طے مراحل اورقطع منازل کرنے کے بعد جب مروپہنچے جسے سکندرذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آبادکیاتھا اورجواس وقت دارالسلنطت تھا تومامون نے چندروزضیافت تکریم کے مراسم اداکرنے کے بعد قبول خلافت کاسوال پیش کیا حضرت نے اس سے اسی طرح انکارکیا جس طرح امیرالمومنین چوتھے موقعہ خلافت پیش کئے جانے کے وقت انکارفرمارہے تھے مامون کوخلافت سے دستبردارہونا ،درحقیقت منظورنہ تھا ورنہ وہ امام کواسی پرمجبورکرتا۔ چنانچہ جب حضرت نے خلافت کے قبول کرنے سے انکارفرمایا،تواس نے ولیعہدی کاسوال پیش کیا حضرت اس کے بھی انجام سے ناواقف نہ تھے نیزبخوشی جابرحکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا حضرت نے اس سے بھی انکارفرمایا مگراس پرمامون کااصرارجبرکی حدتک پہنچ گیا اوراس نے صاف کہہ دیاکہ ”لابدمن قبولک“اگرآپ اس کومنظورنہیں کرسکتے تواس وقت آپ کواپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑے گا جان کاخطرہ قبول کیاجاسکتاہے جب مذہبی مفادکاقیام جان دینے پرموقوف ہوورنہ حفاظت جان شریعت اسلام کابنیادی حکم ہے امام نے فرمایا، یہ ہے تومیں مجبورا قبول کرتاہوں مگرکاروبارسلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا ہاں اگرکسی بات میں مجھ سے مشورہ لیاجائے تونیک مشورہ ضروردوں گا ۔ اس کے بعدیہ ولی عہدی صرف برائے نام سلطنت وقت کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی وقعت نہ رکھتی تھی جس سے ممکن ہے کچھ عرصہ تک سیاسی مقصد میں کامیابی حاصل کرلی گئی ہومگرامام کی حیثیت اپنے فرایض کے انجام دینے میں بالکل وہ تھی جوان کے پیش روحضرت علی مرتضی اپنے زمانے کے بااقتدارطاقتوں کے ساتھ اختیارکرچکے تھے جس طرح ان کاکبھی کبھی مشورہ دیدنا ان حکومتوں کو صحیح وناجائزنہیں بناسکتا ویسے ہی امام رضاعلیہ السلام کااس نوعیت سے ولیعہدی کاقبول فرمانا اس سلطنت کے جوازکاباعث نہیں ہوسکتاتھا صرف مامون کی ایک راج ہٹ تھی جوسیاسی غرض کے پیش نظراس طرح پوری ہوگئی مگرامام نے اپنے دامن کوسلطنت ظلم کے اقدامات اورنظم ونسق سے بالکل الگ رکھا۔ تواریخ میں ہے کہ مامون نے حضرت امام رضاعلیہ السلام سے کہاکہ شرطیں قبول کرلیں اس کے بعدآپ نے دونوں ہاتھوں کوآسمان کی طرف بلندکئے اور بارگاہ احدیت میں عرض کی پروردگار توجانتاہے کہ اس امرکومیں نے بہ مجبوروناچاری اورخوف قتل کی وجہ سے قبول کرلیاہے۔ خداونداتومیرے اس فعل پرمجھ سے اسی طرح مواخذہ نہ کرناجس طرح جناب یوسف اورجناب دانیال سے بازپرس فرمائی اس کے بعدکہامیرے پالنے والے تیرے عہدکے سواکوئی عہدنہیں اورتیری عطاکی ہوئی حیثیت کے سواکوئی عزت نہیں خدایاتومجھے اپنے دین پرقائم رہنے کی توفیق عنایت فرما، خواجہ محمدپارساکاکہناہے کہ ولیعہدی کے وقت آپ رورہے تھے ملاحسین لکھتے ہیں کہ مامون کی طرف سے اصراراور حضرت کی طرف سے انکارکاسلسلہ دوماہ جاری رہا اس کے بعدولی عہدی قبول کی گئی۔ جلسلہ ولیعہدی کاانعقاد یکم رمضان ۲۰۱ ھجری بروزپنجشنبہ جلسہ ولیعہدی منعقدہوا،بڑی شان وشوکت اورتزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کواشارہ کیااوراس نے بیعت کی، پھراورلوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے اورچاندی کے سکے سرمبارک پرنثارہوئے اورتمام ارکان سلطنت اورملازمین کوانعامات تقسیم ہوئے مامون نے حکم دیاکہ حضرت کے نام کاسکہ تیارکیاجائے، چنانچہ درہم ودیناپرحضرت کے نام کانقش ہوا، اورتمام قلمرومیں وہ سکہ چلایاگیاجمعہ کے خطبہ میں حضرت کانام نامی داخل کیاگیا۔ یہ ظاہرہے کہ حضرت کے نام مبارک کاسکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اورضمانت کی حیثیت رکھتاتھا اس سکہ کوسفروحضرمیں حرزجان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امرتھا صاحب جنات الخلودنے بحروبرکے سفرمیں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کاذکرکیاہے اسی کی یادگارمیں بطورضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی سفر میں بازوپرامام ضامن ثامن کاپیسہ باندھتے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ۳۳ ہزارعباسی مردوزن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کوولیعہدخلافت بنادیاگیا اس کے بعداس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضاکے لیے بیعت لی اوردربارکالباس بجائے سیاہ کے سبزقراردیاگیا جوسادات کاامتیازی لباس تھا فوج کی وردی بھی بدل دی گئی تمام ملک میں احکام شاہی نافذہوئے کہ مامون کے بعدعلی رضاتخت وتاج کے مالک ہیں اوران کالقب ہے ”الرضامن آل محمد“ حسن بن سہل کے نام بھی فرمان گیاکہ ان کے لیے بیعت عام لی جائے اورعموما اہل فوج وعمائدبنی ہاشم سبزرنگ کے پھرہرے اورسبزکلاہ وقبائیں استعمال کریں۔ علامہ شریف جرجانی نے لکھاہے کہ قبول ولیعہدی کے متعلق جوتحریرحضرت امام علی رضاعلیہ السلام نے مامون کولکھی اس کامضمون یہ تھا کہ ”چونکہ مامون نے ہمارے ان حقوق کوتسلیم کرلیاہے جن کوان کے آباؤاجدادنے نہیں پہچاناتھا لہذامیں نے اس کی درخواست ولی عہدی قبول کرلی اگرچہ جفروجامعہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ کام انجام کونہ پہنچے گا“۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ قبول ولیعہدی کے سلسلہ میں آپ نے جوکچھ تحریرفرمایاتھا اس پرگواہ کی حیثیت سے فضل بن سہل ،سہل بن فضل ،یحی بن اکثم، عبداللہ بن طاہر، ثمامہ بن اشرس،بشربن معتمر،حمادبن نعمان وغیرہم کے دستخط تھے انہوں نے یہ بھی لکھاہے کہ امام رضاعلیہ السلام نے اس جلسہ ولیعہدی میں اپنے مخصوص عقیدت مندوں کوقریب بلاکرکان میں فرمایاتھا کہ اس تقریب پردل میں خوشی کوجگہ نہ دو ملاحظہ ہوصواعق محرقہ ص ۱۲۲ ، مطالب السول ص ۲۸۲ ، نورالابصار ص ۱۴۲ ، اعلام الوری ص ۱۹۳ ، کشف الغمہ ص ۱۱۲ ، جنات الخلودص ۳۱ ،المامون ص ۸۲ ، وسیلة النجات ص ۳۷۹ ، ارحج المطالب ص ۴۵۴ ، مسندامام رضا ص ۷ ، تاریخ طبری ،شرح مواقف ،تاریخ آئمہ ص ۴۷۲ ،تاریخ احمدی ص ۳۵۴ ،شواہدالنبوت، ینابع المودة ،فصل الخطاب ،حلیة الاولیا، روضة الصفا، عیون اخباررضا، دمعہ ساکبہ ، سوانح امام رضا۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام کی ولیعہدی کا دشمنوں پر اثر تاریخ اسلام میں ہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی ولیعہدی کی خبرسن کربغدادکے عباسی یہ خیال کرکے کہ خلافت ہمارے خاندان سے نکل چکی ہے کمال دل سوختہ ہوئے اورانہوں نے ابراہیم بن مہدی کوبغداکے تخت پربٹھادیااورمحرم ۲۰۲ ہجری میں مامون کی معزولی کااعلان کردیا بغداداوراس کے نواح میں بالکل بد نظمی پھیل گئی لچے غنڈے دن دھاڑے لوٹ مارکرنے لگے جنوبی عراق اورحجازمیں بھی معاملات کی حالت ایسی ہی خراب ہورہی تھی فضل وزیراعظم سب خبروں کوبادشاہ سے پوشیدہ رکھتاتھا مگرامام رضاعلیہ السلام نے اسے خبردارکردیا بادشاہ وزیرکی طرف سے بدگمان ہوگیامامون کوجب ان شورشوں کی خبرہوئی توبغدادکی طرف روانہ ہوگیا سرخس میں پہنچ کراس نے فضل بن سہل وزیرسلطنت کو حمام میں قتل کرادیا(تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۱) ۔ شمس العلماء شبلی نعمانی حضرت امام رضاکی بیعت ولیعہدی کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس انوکھے حکم نے بغدادمیں ایک قیامت انگیزہلچل مچادی اورمامون سے مخالفت کاپیمانہ لبریزہوگیا بعضوں نے (سبزرنگ وغیرہ کے اختیارکرنے کے حکم کی بہ جبرتعمیل کی مگرعام صدایہی تھی کہ خلافت خاندان عباس کے دائرہ سے باہرنہیں جاسکتی (المامون ص ۸۲) ۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام جب ولی عہدخلافت مقررکئے جانے لگے مامون کے حاشیہ نشین سخت بدظن اوردل تنگ ہوگئے اوران پریہ خوف چھاگیاکہ اب خلافت بنی عباس سے نکل کر بنی فاطمہ کی طرف چلی جائے گی اوراسی تصورنے انہیں حضرت امام رضاعلیہ السلام سے سخت متنفرکردیا (نورالابصارص ۱۴۳) ۔ واقعہ حجاب مورخین لکھتے ہیں کہ اس واقعہ ولیعہدی سے لوگوں میں اس درجہ بغض وحسداورکینہ پیداہوگیاکہ وہ لوگ معمولی معمولی باتوں پراس کامظاہرہ کردیتے تھے علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام کاولیعہدی کے بعدیہ اصول تھا کہ آپ مامون سے اکثرملنے کے لیے تشریف لے جایاکرتے تھے اورہوتایہ تھا کہ جب آپ دہلیزکے قریب پہنچتے تھے توتمام دربان اورخدام آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اورسلام کرکے پردہ در اٹھایاکرتے تھے ایک دن سب نے مل کرطے کرلیا کہ کوئی پردہ نہ اٹھائے چنانچہ ایساہی ہوا جب امام علیہ السلام تشریف لائے توحجاب نے پردہ نہیں اٹھایامطلب یہ تھا کہ اس سے امام کی توہین ہوگی، لیکن اللہ کے ولی کوکوئی ذلیل نہیں کرسکتاجب ایساواقعہ آیاتوایک تندہوانے پرداہ اٹھایااورامام داخل دربارہوگئے پھرجب آپ واپس تشریف لائے توہوانے بدستورپردہ اٹھانے میں سبقت کی اسی طرح کئی دن تک ہوتارہا بالآخرہ وہ سب کے سب شرمندہ ہوگئے اورامام علیہ السلام کی خدمت مثل سابق کرنے لگے (نورالابصارص ۱۴۳ ،مطالب السؤل ص ۲۸۲ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۷) ۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام اورنمازعید ولی عہدی کوابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عیدکاموقع آگیامامون نے حضرت سے کہلابھیجاکہ آپ سواری پرجاکرلوگوں کونمازعیدپڑھائیں حضرت نے فرمایاکہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کرلی ہے کہ بادشاہت اورحکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گااورنہ اس کے قریب جاؤں گا اس وجہ سے تم مجھ کو اس نمازعیدسے بھی معاف کردوتوبہترہے ورنہ میں نمازعیدکے لے اسی طرح جاؤں گا جس طرح میرے جدامجدحضرت محمد رسول اللہ صلعم تشریف لے جایاکرتے تھے مامون نے کہاکہ آپ کواختیارہے جس طرح چاہیں جائیں اس کے بعداس نے سواروں اورپیادوں کوحکم دیاکہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔ جب یہ خبرشہرمیں مشہورہوئی تولوگ عیدکے روزسڑکوں اورچھتوں پرحضرت کی سواری کی شان دیکھنے کوجمع ہوگئے،عورتوں اورلڑکوں سب کوآرزو تھی کہ حضرت کی زیارت کریں اورآفتاب نکلنے کے بعدحضرت نے غسل کیااورکپڑے بدلے، سفیدعمامہ سرپرباندھا،عطرلگایااورعصاہاتھ میں لے کرعیدگاہ جانے پرآمادہ ہوگئے اس کے بعدنوکروں اورغلاموں کوحکم دیاکہ تم بھی غسل کرکے کپڑے بدل لواوراسی طرح پیدل چلو۔ اس انتظام کے بعدحضرت گھرسے باہرنکلے پائجامہ آدھی پنڈلی تک اٹھالیا کپڑوں کوسمیٹ لیا، ننگے پاؤں ہوگئے اورپھردوتین قدم چل کرکھڑے ہوگئے اورسرکو آسمان کی طرف بلند کرکے کہا اللہ اکبراللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اورفوج کے سپاہیوں نے بھی تکبیرکہی راوی کابیان ہے کہ جب امام رضاعلیہ السلام تکبیرکہتے تھے توہم لوگوں کومعلوم ہوتاتھا کہ درودیواراورزمین آسمان سے حضرت کی تکبیرکاجواب سنائی دیتاہے اس ہیبت کودیکھ کریہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اورخود لشکروالے زمین پرگرپڑے سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے چھریوں سے اپنی جوتیوں کے کل تسمے کاٹ دئیے اورجلدی جلدی جوتیاں پھینک کرننگے پاؤں ہوگئے شہربھرکے لوگ چینخ چینخ کررونے لگے ایک کہرام بپاہوگیا۔ اس کی خبرمامون کوبھی ہوگئی اس کے وزیرفضل بن سہل نے اس سے کہاکہ اگرامام رضااسی حالت سے عیدگاہ تک پہنچ جائیں گے تومعلوم نہیں کیافتنہ اورہنگام برپاہوجائے گا سب لوگ ان کی طرف ہوجائیں گے اورہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے وزیرکی اس تقریرپرمتنبہ ہوکرمامون نے اپنے پاس سے ایک شخص کوحضرت کی خدمت میں بھیج کرکہلابھیجاکہ مجھ سے غلطی ہوگئی جوآپ سے عیدگاہ جانے کے لیے کہا اس سے آپ کوزحمت ہورہی ہے اورمیں آپ کی مشقت کوپسندنہیں کرتا بہترہے کہ آپ واپس چلے آئیں اورعیدگاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں پہلے جوشخص نمازپڑھاتاتھا وہ پڑھائے گا یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام واپس تشریف لائے اورنمازعیدنہ پڑھاسکے (وسیلة النجات ص ۳۸۲ ، مطالب السول ص ۲۸۲ واصول کافی)۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں ،فرجع علی رضاالی بیتہ ورکب المامون فصلی بالناس “کہ امام رضاعلیہ السلام دولت سراکوواپس تشریف لائے اورمامون نے جاکرنماز پڑھائی (نورالابصارص ۱۴۳) ۔ حضرت امام رضاکی مدح سرائی اوردعبل خزاعی اورابونواس عرب کے مشہورشاعرجناب دعبل خزاعی کانام ابوعلی دعبل ابن علی بن زرین ہے آپ ۱۴۸ ہجری میں پیداکر ۲۴۵ ہجری میں بمقام شوش وفات پاگئے (رجال طوسی ۳۷۶) ۔اورابونواس کاپورانام ابوعلی حسن بن ہانی ابن عبدالاول ہوازی بصری بغدادی ہے یہ ۱۳۶ ہجری میں پیداہوکر ۱۹۶ ہجری میں فوت ہوئے دعبل آل محمدکے مداح خاص تھے اورابونواس ہارون رشیدامین ومامون کاندیم تھا۔ دعبل خزاعی کے بے شماراشعارمدح آل محمدمیں موجودہیں علامہ شبلنجی تحریرفرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں حضرت امام رضاعلیہ السلام ولی عہدسطلنت تھے دعبل خزاعی ایک دن دارالسلطنت مرومیں آپ سے ملے اورانہوں نے کہاکہ حضورمیں نے آپ کی مدح میں ۱۲۰ اشعارپرمشتمل ایک قصیدہ لکھاہے میری تمناہے میں اسے سب سے پہلے حضورہی کوسناؤں حضرت نے فرمایابہترہے، پڑھو: دعبل خزاعی نے اشعارپڑھناشروع کیا قصیدہ کامطلع یہ ہے: ذکرت محل الربع من عرفات فاجریت دمع العین بالعبرات جب دعبل قصیدہ پڑھ چکے توامام علیہ السلام نے ایک سواشرفی کی تھیلی انہیں عطافرمائی دعبل نے شکریہ اداکرنے کے بعد اسے واپس کرتے ہوئے کہاکہ مولا میں نے یہ قصیدہ قربة الی اللہ کہاہے میں کوئی عطیہ نہیں چاہتا خدانے مجھے سب کچھ دے رکھاہے البتہ حضوراگرمجھے جسم سے اترے ہوئے کپڑے عنایت فرما دیں ،تووہ میری عین خواہش کے مطابق ہوگا آپ نے ایک جبہ عطاکرتے ہوئے فرمایاکہ اس رقم کوبھی رکھ لو یہ تمہارے کام آئے گی دعبل نے اسے لے لیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد دعبل مروسے عراق جانے والے قافلے کے ساتھ ہوکر روانہ ہوئے راستہ میں چوروں اورڈاکوؤں نے حملہ کرکے سب کچھ لوٹ لیا اورچند آدمیوں کوگرفتاربھی کرلیا جن میں دعبل بھی تھے ڈاکوؤں نے مالی تقسیم کرتے وقت دعبل کاایک شعرپڑھا دعبل نے پوچھایہ کس کاشعرہے انہوں نے کہاکسی کاہوگادعبل نے کہاکہ یہ میراشعرہے اس کے بعدانہوں نے ساراقصیدہ سنادیا ان لوگوں نے دعبل کے صدقے میں سب کوچھوڑدیا اورسب کامال واپس کردیا یہاں تک کہ یہ نوبت آئی کہ ان لوگوں نے واقعہ سن کرامام رضاکادیاہواجبہ خریدناچاہا،اوراس کی قیمت ایک ہزاردینارلگائی دعبل نے جواب دیا کہ یہ میں نے بطورتبرک اپنے پاس رکھاہے اسے فروخت نہ کروں گا بالآخرباربار گرفتارہونے کے بعد انہوں نے اسے ایک ہزاراشرفی پرفروخت کردیا ۔ علامہ شبلنجی بحوالہ ابوصلت ہروی لکھتے ہیں کہ دعبل نے جب امام رضاکے سامنے یہ قصیدہ پڑھاتھاتوآپ رورہے تھے اورآپ نے دوبیتوں کے بارے میں فرمایاتھاکہ یہ اشعارالہامی ہیں (نورالابصارص ۱۳۸) ۔ علامہ عبدالرحمن لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے قصیدہ سنتے ہوئے نفس زکیہ کے تذکرہ پرفرمایاکہ اے دعبل اس جگہ ایک شعرکااوراضافہ کرو،تاکہ تمہاراقصیدہ مکمل ہوجائے انہوں نے عرض کی مولافرمائیے ارشادہوا: وقبربطوس نالہا من مصیبة الحت علی الاحشاء بالزفرات دعبل نے گھبراکے پوچھامولا، یہ کس کی قبرہوگی، جس کاحضورنے حوالہ دیاہے فرمایااے دعبل یہ قبرمیری ہوگی اورمیں عنقریب اس عالم غربت میں جب کہ میرے اعزاواقرباء بال بچے مدینہ میں ہیں شہیدکردیاجاؤں گا اورمیری قبریہیں بنے گی اے دعبل جومیری زیارت کو آئے گاجنت میں میرے ہمراہ ہوگا (شواہدالنبوت ص ۱۹۹) ۔ منبع:jafariah.com