قرآن مجید اور اخلاقی تربیت
قرآن مجید اور اخلاقی تربیت
0 Vote
126 View
اخلاق ان صفات اور افعال کو کہا جاتا ہے جو انسان کی زندگی میں اس قدر رچ بس جاتے ہیں کہ غیر ارادی طورپربھی ظہور پذیر ہونے لگتے ہیں۔ بہادر، فطری طور پر میدا ن کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور بزدل، طبیعی انداز سے پرچھائیوں سے ڈرنے لگتا ہے۔ کریم کا ہاتھ خود بخود جیب کی طرف بڑھ جاتا ہے اور بخیل کے چہرے ہر سائل کی صورت دیکھ کر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔ اسلام نے غیر شعوری اور غیر ارادی اخلاقیات کو شعوری اور ارادی بنانے کا کام بھی انجام دیاہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے شعور اور ارادہ کے ساتھ پیدا کرے تاکہ ہر اہم سے اہم موقع پر صفت اس کا ساتھ دے ورنہ اگر غیر شعوری طور صفت پیدا بھی کرلی ہے تو حالات کے بدلتے ہی اس کے متغیر ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ان تذکروں کو ملاحظہ کیا جائے جہاں اسلام نے صاحب ایمان کی اخلاقی تربیت کاسامان فراہم کیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ انسان میں اخلاقی جوہر بہترین تربیت اور اعلیٰ ترین شعور کے زیر اثر پیدا ہو۔ قوت تحمل قوت تحمل: سخت ترین حالات میں قوت برداشت کا باقی رہ جانا ایک بہترین اخلاقی صفت ہے لیکن یہ صفت بعض اوقات بزدلی اور نافہمی کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات مصائب و مشکلات کی صحیح سنگینی کے اندازہ نہ کرنے کی بنیاد پر۔ اسلام نے یہ چاہا ہے کہ یہ صفت مکمل شعور کے ساتھ پیدا ہو اور انسان یہ سمجھے کہ قوت تحمل کا مظاہرہ اس کا اخلاقی فرض ہے جسے بہر حال ادا کرنا ہے۔ تحمل نہ بزدلی اور بے غیرتی کی علامت بننے پائے اور نہ حالات کے صحیح ادراک کے فقدان کی علامت قرار پائے۔ ”ولنبلونکم بشئی من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس والثمرات و بشر الصابرین الذین اذا اصابتہم مصیبة قالوا انّا للہ و انا الیہ راجعون، اولئک علیہم صلواة من ربہم و رحمة و اولئک ہم المہتدون“ ” یقینا ہم تمہارا امتحان مختصر سے خوف اور بھوک اور جان، مال اور ثمرات کے نقص کے ذریعہ لیں گے اور پیغمبر آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں جن کی شان یہ ہے کہ جب ان تک کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جانے والے ہیں۔ انہیں افراد کے لیے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں۔“ آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید قوت تحمل کی تربیت دینا چاہتا ہے اور مسلمان کو ہر طرح کے امتحان کے تیار کرنا چاہتا ہے اور پھر تحمل کو بزدلی سے الگ کرنے کے لیے ”انا للہ و انا الیہ راجعون “کی تعلیم دیتا ہے اور نقص اموال اور انفس کو خسارہ تصور کرنے کے جواب میں صلوات اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے تاکہ انسان ہر مادی خسارہ اور نقصان کے لیے آمادہ رہے اور اسے یہ احساس رہے کہ مادی نقصان، نقصان نہیں ہے بلکہ صلوات اور رحمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ انسان میں یہ احساس پیدا ہوجائے تو وہ عظیم قوت تحمل کا حامل ہوسکتا ہے اور اس میں یہ اخلاقی کمال شعوری اور ارادی طور پر پیدا ہوسکتا ہے اور وہ ہر آن مصائب کا استقبال کرنے کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کر سکتا ہے۔ ”الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشو ہم فزادہم ایماناً و قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل فانقلبو بنعمة من اللہ و فضل لم یمسسہم سوء وابتعوا رضوان اللہ واللہ ذو فضل عظیم“ ”وہ لوگ جن سے کچھ لوگوں نے کہا کہ دشمنوں نے تمہارے لیے بہت بڑا لشکر جمع کر لیا ہے تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے اور وہی بہترین محافظ ہے جس کے بعد وہ لوگ نعمت و فضل الہی کے ساتھ واپس ہوئے اور انہیں کسی طرح کی تکلیف نہیں ہوئی اور انہوں نے رضائے الہی کا اتباع کیا، اور اللہ بڑے عظیم فضل کا مالک ہے۔“ آیت کریمہ کے ہر لفظ میں ایک نئی اخلاقی تربیت پائی جاتی ہے اور اس سے مسلمان کے دل میں ارادی اخلاق اور قوت برداشت پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ دشمن کی طرف سے بے خوف ہوجانا شجاعت کا کمال ہے لیکن حسبنا اللہ کہہ کر بےخوفی کا اعلان کرنا ایمان کا کمال ہے۔ بے خوف ہوکر نامناسب اور متکبرانہ انداز اختیار کرنادنیاوی کمال ہے اور رضوان الہی کا اتباع کرتے رہنا قرآنی کمال ہے۔ قرآن مجید ایسے ہی اخلاقیات کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور مسلمان کو اسی منزل کمال تک لے جانا چاہتا ہے۔ ”ولما رأی المومنون الاحزاب قالوا ہذا ما وعدنا اللہ رسولہ و صدق اللہ و رسولہ و ما زاداہم الا ایماناً تسلیماً“ (احزاب ۲۲) ”اور جب صاحبان ایمان نے کفار کے گروہوں کو دیکھا تو برجستہ یہ اعلان کردیا کہ یہی وہ بات ہے جس کا خدا و رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور ان کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس اجتماع سے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہوگیا“ مصیبت کو برداشت کر لینا ایک انسانی کمال ہے۔ لیکن اس شان سے استقبال کرنا گویا اسی کا انتظار کر رہے تھے اور پھر اس کو صداقت خدا اور رسول کی بنیاد قرار دے کر اپنے ایمان و تسلیم میں اضافہ کر لینا وہ اخلاقی کمال ہے جسے قرآن مجید اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ”وکاین من نبی قات معہ ربّیون کثیر فما وہنوا لما اصابہم فی سبیل اللہ و ما ضعفوا وما استکانوا واللہ یحبّ الصابرین“ (آل عمران ۱۴۶) ”اور جس طرح بعض انبیاء کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا ہے اور اس کے بعد راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں نے نہ ان میں کمزوری پیدا کی اور نہ ان کے ارادوں میں ضعف پیدا ہوا اور نہ ان میں کسی طرح کی ذلّت کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے“ آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی ذریعہ ایمان والوں کواخلاقی تربیت دی جا رہی ہے اور انہیں ہر طرح کے ضعف و ذلت سے اس لیے الگ رکھا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ خدا ہے اور وہ انہیں دوست رکھتا ہے اور جسے خدا دوست رکھتا ہے اسے کوئی ذلیل کرسکتا ہے اور نہ بیچارہ بنا سکتا ہے۔ یہی ارادی اخلاق ہے جو قرآنی آیات کا طرہ امتیاز ہے اور جس سے دنیا کے سارے مذاہب و اقوام بے بہرہ ہیں۔ ”وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ہوناً واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً۔۔۔۔۔ اولئک یجزون الغرفة بما صبروا و یلقون فیہا تحیہ وسلاما“ ( فرقان ۶۳) ”اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہلانہ انداز سے ان سے خطاب کرتا ہے تو اسے سلامتی کا پیغام دیتے ہیں ۔۔ یہی وہ لوگ جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت میں غرفے دیے جائیں گے اور تحیہ اور سلام کی پیش کش کی جائے گی اس آیت میں بھی صاحبان ایمان اور عباد الرحمن کی علامت قوت تحمل و برداشت کو قرار دیا گیا ہے، لیکن ”قالوا سلاماً“ کہہ کراس کی ارادیت اور شعوری کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سکوت بر بنائے بزدلی اور بے حیائی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک اخلاقی فلسفہ ہے کہ وہ سلامتی کا پیغام دے کر دشمن کو بھی راہ راست پر لانا چاہتا ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام آیات میں صبر کرنے والوں کی جزا کا اعلان تربیت کا ایک خاص انداز ہے کہ اس طرح قوت تحمل بیکار نہ جانے پائے اور انسان کو کسی طرح کے خسارہ اور نقصان کا خیال نہ پیدا ہو بلکہ مزید تحمل و برداشت کا حوصلہ پیدا ہوجائے کہ اس طرح خدا کی معیت، محبت، فضل عظیم اورتحیہ و سلام کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے جو بہترین راحت وآرام اور بے حساب دولت و ثروت کے بعد بھی نہیں حاصل ہوسکتاہے۔ قرآن مجید کا سب سے بڑا امتیاز یہی ہے کہ وہ اپنے تعلیمات میں اس عنصر کونمایاں رکھتا ہے اور مسلمان کو ایسا با اخلاق بنانا چاہتا ہے جس کے اخلاقیات صرف افعال، اعمال اور عادات نہ ہوں بلکہ ان کی پشت پر فکر، فلسفہ، عقیدہ اور نظریہ ہو اور وہ عقیدہ و نظریہ اسے مسلسل دعوت عمل دیتا رہے اور اس کے اخلاقیات کو مضبوط سے مضبوت تر بناتا رہے۔ جذبہ ایمانی جذبہ ایمانی: قوت تحمل کے ساتھ قرآن مجید نے ایمانی جذبات کے بھی مرقع پیش کیے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ تحمل و حلم کو صرف منفی حدوں تک نہیں رکھنا چاہتا ہے بلکہ مصائب و آفات کے مقابلہ میں ایک مثبت رخ دینا چاہتا ہے۔ ”فالقی السحرة سجدا قالو اآمنا برب ہارون و موسیٰ قال آمنتم بہ قبل ان آذن لکم انہ لکبیر الذی علمکم السحر فلاقطعن ایدیکم و ارجلکم من خلاف ولا وصلینکم فی جذوع النخل و لتعلمن اینا اشد عذابا و ابقی قالوا لن نوشرک علی ما جاء نا من البینات والذی فطرنافاقض ما انت قاض انما تقضی ہذہ الحیٰوة الدنیا انا امنا بربنا لیغفر لنا خطٰیٰنا وما اکرہتنا علیہ من السحر واللہ خیر و ابقی“ (طہ ۷۰ تا۷۳) پس جادو گر سجدہ میں گر پڑے اور انہوں نے کہا کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے تو فرعون نے کہا کہ ہماری اجازت کے بغیر کس طرح ایمان لے آئے بے شک یہ تم سے بڑا جادو گر ہے جس نے تم لوگوں کو جادو سکھایا ہے تو اب میں تمہارے ہاتھ پاوٴں کاٹ دوں گا اور تمہیں درخت خرما کی شاخوں پر سولی پر لٹکا دوں گا تاکہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ کس کا عذاب زیادہ سخت تر ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم تیری بات کو موسیٰ کے دلائل اور اپنے پروردگار مقدم نہیں کرسکتے ہیں اب تو جو فیصلہ کنا چاہے کر لے تو صرف اسی زندگانی دنیا تک فیصلہ کر سکتا ہے اور ہم اس لیے ایمان لے آئے ہیں کہ خدا ہماری غلطیوں کو اور اس جرم کو معاف کردے جس پر تونے ہمیں مجبور کیاتھا اور بے شک خدا ہی عین خیر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ “ ”الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ اذا خرجہ الذین کفروا ثانی اثنین اذہما فی الغار از یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا فانزل اللہ سکینة علیہ ایدہ بجنود لم لم تروہا و جعل کملة الذین کفرو السفلیٰ و کلمة اللہ ہی العلیا اللہ عزیز حکیم۔“ (توبہ ۴۰) ”اگر اتم ان کی نصرت نہیں کروگے تو خدا نے ان کی نصرت کی ہے جب انہیں کفار نے دو کا دوسرا بنا کروطن سے نکال دیا اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج مت کرو خدا ہمارے ساتھ ہے تو خدا نے ان پر اپنی طرف سے سکون نازل کردیااور ان کی تائید اسے لشکروں کے ذریعہ کی جن کا مقابلہ نا ممکن تھا اور کفار کے کلمہ کو پست قرار دیا اور اللہ کا کلمہ تو بہر حال بلند ہے اور اللہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔“ آیت اولیٰ میں فرعون کے دور کے جادوگروں کے جذبہ ایمانی کی حکایت کی گئی ہے جہاں فرعون جیسے ظالم و جابر کے سامنے بھی اعلان حق میں کسی ضعف و کمزوری سے کام نہیں لیا گیا اور اسے چیلینج کر دیا گیاکہ تو جو کرنا چاہے کرلے۔ تیرا اختیار زندگانی دنیا سے آگے نہیں ہے اور صاحبان ایمان آخرت کے لیے جان دیتے ہیں انہیں دنیا کی راحت کی فکر یا مصائب کی پروا نہیں ہوتی ہے۔ اور دوسری آیت میں سرکار دو عالم کے حوصلہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور صورت حال کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے ساتھی کا بھی ذکر کیا گیا جس پر حالات کی سنگینی اور ایمان کی کمزوری کی بنا پر حزن طاری ہو گیا اور رسول اکرم کو سمجھانا پڑا کہ ایمان و عقیدہ صحیح رکھو۔ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوتا ہے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور وہ ہر مصیبت کا پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے بعد خدائی تائید اور امداد کا تذکرہ کرکے یہ بھی واضح کردیاگیا کہ رسول اکرم کا ارشاد صرف تسکین قلب کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کی ایک واقعیت بھی تھی اور یہ آپ کے کمال ایمان کا اثر تھا کہ آپ پر کسی طرح کا حزن و ملال طاری نہیں ہوا اور آپ اپنے مسلک پر گامزن رہے اور اسی طرح تبلیغ دین اور خدمت اسلام کرتے رہے جس طرح پہلے کر رہے تھے بلکہ اسلام کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع تر ہو گیا کہ نہ مکہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہوا تھا اور نہ مدینہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہونے والا ہے۔ مکہ کا صبر و تحمل بھی خدائی امداد کی بنا پر تھا اور مدینہ کا فاتحانہ انداز بھی خدائی تائید و نصرت کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ادبی شجاعت ادبی شجاعت: میدان جہاد میں زور بازو کا مظاہرہ کرنا یقینا ایک عظیم انسانی کارنامہ ہے لیکن بعض روایات کی روشنی میں اس سے بالاتر جہاد سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کا زبان پر جاری کرنا ہے اور شاید اس کا راز یہ ہے کہ میدان جنگ کے کارنامے میں بسا اوقات نفس انسان کی ہمراہی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور انسان جذباتی طور بھی دشمن پر وار کرنے لگتاہے جس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن عبدود کی بے ادبی کے بعد اس کا سر قلم نہیں کیا اور سینے سے اتر آئے جہاد راہ خدا میں جذبات کی شمولیت کا احساس نہ پیدا ہوجائے لیکن سلطان جائر کے سامنے کلمہ حق کے بلند کرنے میں نفس کی ہمراہی کے بجائے شدید ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں نفس انسانی کبھی ضائع ہوتے ہوئے مفادات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کبھی آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور اس طرح یہ جہاد ”جہاد میدان“ سے زیادہ سخت تر اور مشکل تر ہوجاتا ہے جسے روایات ہی کی زبان میں جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیاہے۔ جہاد باللسان بظاہر جہاد نفس نہیں ہے لیکن غور کیا جائے تو یہ جہاد نفس کا بہترین مرقع ہے خصوصیت کے ساتھ اگر ماحول ناسازگار ہواور تختہ دار سے اعلان حق کرنا پڑے۔ قرآن مجید نے مرد مسلم میں اس ادبی شجاعت کو پیدا کرنا چاہا ہے اور اس کا منشأ یہ ہے کہ مسلمان اخلاقیات میں اس قدر مکمل ہو کہ اس کے نفس میں قوت تحمل و برداشت ہو۔ اسکے دل میں جذبہ ایمان و یقین ہو اور اس کی زبان، اس کی ادبی شجاعت کا مکمل مظاہرہ کرے جس کی تربیت کے لیے اس نے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ”قال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ أ تقتلون رجلاً ان یقول ربی اللہ و قد جائکم بالبینات و ان یک کاذباً فعلیہ کذبہ و ان یک صادقاً یصبکم بعض الذی یعدکم ان اللہ لا یہدی من ہو مسرف مرتاب۔“ (غافر ۲۶) ”فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کیا تم کسی شخص کو صرف اس بات پرقتل کرناچاہتے ہو کہ جو اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے جب کی وہ اپنے دعوے پر کھلی ہوئی دلیلیں بھی لا چکا ہے ۔ تو آگاہ ہوجاوٴ اگر وہ جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ کا ذمہ دار ہے ۔ لیکن اگر سچا ہے تو بعض وہ مصیبتیں آسکتی ہیں جن کا وہ وعدہ کر رہا ہے۔ بے شک خدا زیادتی کرنے والے اور شک کرنے والے انسان کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں مرد مومن نے اپنے صریحی ایمان کی پردہ داری ضرور کی ہے لیکن چند باتوں کا واشگاف اعلان بھی کر دیا ہے جس کی ہمت ہر شخص میں نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ شخص کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آیا ہے۔ یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ اگر جھوٹا ہے تو تم اس کے جھوٹ کے ذمہ دار نہیں ہو، اور نہ تمہیں قتل کرنے کا کوئی حق ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ وہ اگر سچا ہے تو تم پر عذاب نازل ہو سکتا ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ عذاب اس کی وعید کا ایک حصہ ہے ورنہ اس کے بعد عذاب جہنم بھی ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ تم لوگ زیادتی کرنے والے اور حقائق میں تشکیک کرنے والے ہو ، اور ایسے افراد کبھی ہدایت یافتہ نہی ہوسکتے۔ اور ادبی شجاعت کا اس سے بہتر کوئی مرقع نہیں ہو سکتاہے کہ انسان فرعونیت جیسے ماحول میں اس قدر حقائق کے اظہار اور اعلان کے اظہار کی جرأت و ہمت رکھتا ہو۔ واضح رہے کہ اس آیت کریمہ میں پروردگار عالم نے اس مرد مومن کو مومن بھی کہا ہے اور اس کے ایمان کے چھپانے کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان ایک قلبی عقیدہ ہے اور حالات و مصالح کے تحت اس کے چھپانے کو کتمان حق سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض دشمنان حقائق کا وطیرہ بن گیا ہے کہ ایک فرقہ کی دشمنی میں تقیہ کی مخالفت کرنے کرنے کے لئے قرآن مجید کے صریحی تذکرہ کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنے لیے عذاب جہنم کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ قال ماخطبکن اذراودتن یوسف عن نفسہ قلن حاش للہ ما علمنا علیہ من سوء قالت امرأة العزیز الآن حصحص الحق اناراوتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین“ (یوسف ۵۱) ”جب مصر کی عورتوں نے انگلیاں کاٹ لیں اور عزیز مصر نے خواب کی تعبیر کے لئے جناب یوسف کو طلب کیا تو انہوں نے فرمایاکہ عورتوں سے دریافت کروکہ انہوں نے انگلیاں کاٹ لیں اور اس میں میری کیا خطا ہے؟۔۔عزیز مصر نے ان عورتوں سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ خدا گواہ ہے کہ یوسف کی کوئی خطا نہیں ہے۔۔ توعزیز مصر کی عورتوں نے کہاکہ یہ سب میرا اقدام تھا اور یوسف صادقین میں سے ہیں اوراب حق بالکل واضح ہوچکاہے۔“ اس مقام پر عزیز مصر کی زوجہ کا اس جرأت وہمت سے کام لینا کہ بھرے مجمع میں اپنی غلطی کا اقرار کرلیا اور زنان مصر کا بھی اس جرأت کا مظاہرہ کرنا کہ عزیز مصرکی زوجہ کی حمایت میں غلط بیانی کرنے کے بجائے صاف صاف اعلان کر دیاکہ یوسف میں کوئی برائی اور خرابی ہیے ۔ ادبی جرأت وشجاعت کے بہترین مناظر میں جنکا تذکرہ کر کے قرآن مجید مسلمان کی ذہنی اور نفسیاتی تربیت کرنا چاہتا ہے۔ ۔۔”وجاء من اقصی المدینةرجل یسعیٰ قال یٰقوم اتبعواالمرسلین اتبعوا من لایسئلکم أجراوہم مہتدون#ومالی لااعبدالذی فطرنی والیہ ترجعون أاتخذمن دونہ آلہةأن یردن الرحمٰن بضرلاتغن عنّی شفاعتہم شیئاًولاینقذون انی اذا لفی ضلال مبین انی آمنت بربکم فاسمعون۔“(یٓس۲۰) ”اور شہرکے آخر سے ایک شخص دوڑتا ہواآیااور اسنے کہا کہ اے قوم!مرسلین کا اتباع کرو،اس شخص کا اتباع کروجوتم سے کوئی اجر بھی نہیں مانگتاہے اور وہ سب ہدایت یافتہ بھی ہیں،اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس خدا کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور تم سب اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہو۔کیا میں اس کے علاوہدوسرے خداوں کو اختیار کر لوں جب کہ رحمٰن کوئی نقصان پہونچانا چاہے توان کی سفارش کسی کام نہیں آسکتی ہے اور نہ یہ بچا سکتے ہیں،میں تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہوجاؤں گا۔بشک میں تمہارے خدا پر ایمان لا چکا ہوں لھذاتم لوگ بھی میری بات سنو۔“ ! آیت کریمہ میں اس مرد مومن کے جن فقرات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ادبی شجاعت کا شاہکار ہیں ۔ اس نے ایک طرف داعی حق کی بے نیازی کا اعلان کیا کہ وہ زحمت ہدایت بھی برداشت کرتا ہے اور اجرت کا طلبگار بھی نہیں ہے ۔ پھر اس کے خدا کو اپنا خالق کہہ کر متوجہ کیا کہ تم سب بھی اسی کی بارگاہ میں جانے والے ہو تو ابھی سے سوچ لو کہ وہاں جا کر اپنی ان حرکتوں کا کیا جواز پیش کروگے ۔ پھر قوم کے خداوٴں کی بے بسی اور بے کسی کا اظہار کیا کہ یہ سفارش تک کرنے کے قابل نہیں ہیں ، ذاتی طور پر کونسا کام انجام دے سکتے ہیں۔ پھر قوم کے ساتھ رہنے کو ضلال مبین اور کھلی ہوئی گمراہی سے تعبیر کر کے یہ بھی واضح کردیا کہ میں جس پر ایمان لایا ہوں وہ تمہارا بھی پروردگار ہے ۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اپنے پروردگار پر تم بھی ایمان لے آوٴ اور مخلوقات کے چکر میں نہ پڑو۔ ”ان قارون کان من قوم موسیٰ فبغیٰ علیہم و آتینٰہ من الکنوز ما ان مفاتحہ لتنوء بالعصبة اولیٰ القوةاذا قال لہ قومہ لا تفرح ان اللہ لا یحب الفرحین ابتغ فیما آتٰک اللہ الدار الآخرة ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللہ لا یحب المفسدین۔“ (قصص ۷۶۔۷۷) ”بے شک قارون موسیٰ ہی کی قوم میں سے تھا لیکن اس نے قوم پر زیادتی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے کہ بڑی جماعت بھی اس کا بار اٹھا نے سے عاجز تھی تو قوم نے اس سے کہا کہ غرور مت کر کہ خدا غرور کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ قارون کے بے تحاشہ صاحب دولت ہونے کے با وجود قوم میں اس قدر ادبی جرأت موجود تھی کہ اسے مغرور اور مفسد قرار دے دیا ، اور یہ واضح کر دیا کہ خدا مغرور اور مفسد کو نہیں پسند کرتا ہے اور یہ بھی واضح کردیا کہ دولت کا بہترین مصرف آخرت کا گھر حاصل کر لینا ہے ورنہ دنیا چند روزہ ہے اور فنا ہو جانے والی ہے۔ عفت نفس عفت نفس: انسان کے عظیم ترین اخلاقی صفات میں ایک صفت عفت نفس بھی ہے جس کا تصور عام طور سے جنس سے وابستہ کر دیا جاتا ہے، حالانکہ عفت نفس کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے اور اس میں ہر طرح کی پاکیزگی اور پاکدامانی شامل ہے ۔۔ قرآن مجید نے اس عفت نفس کے مختلف مرقع پیش کیے ہیں اور مسلمانوں کو اس کے وسیع تر مفہوم کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ”وراودتہ التی ہو فی بیتہا ان نفسہ و غلقت الابواب و قال ہیت لک قال معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوای انہ لا یفلح الظالمون۔“ (یوسف ۲۳) ”اور زلیخا نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنے کی ہر امکانی کوشش کی اور تمام دروازے بند کرکے یوسف کو اپنی طرف دعوت دی لیکن انہوں نے برجستہ کہا کہ پناہ بخدا وہ میرا پروردگار ہے اور اس نے مجھے بہترین مقام عطا کیا ہے اور ظلم کرنے والوں کے لیے فلاح اور کامیابی نہیں ہے۔“ ایسے حالات اور ماحول میں انسان کا اس طرح دامن بچا لینا اور عورت کے شکنجے سے آزاد ہو جانا عفت نفس کا بہترین کارنامہ ہے، اور الفاظ پر دقت نظر کرنے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یوسف نے صرف اپنا دامن نہیں بچا لیا بلکہ نبی خدا ہونے کے رشتہ سے ہدایت کا فریضہ بھی انجام دے دیا اورزلیخا کو بھی متوجہ کر دیا کہ جس نے اس قدر شرف اور عزت سے نوازا ہے وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس کے احکام کی اطاعت کی جائے اور اس کے راستے سے انحراف نہ کیا جائے اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس کی اطاعت سے انحراف ظلم ہے اور ظلم کسی وقت بھی کامیاب اور کامران نہیں ہو سکتا ہے ۔ ”للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضرباً فی الارض یحسبہم الجاہل اغنیاء من التعفف تعرفہم بسیماہم لا یسئلون الناس الحافا وما تنفقوا من خیرٍ فان اللہ بہ علیم“ (بقرہ۲۷۳) ان فقراء کے لیے جو راہ خدا میں محصور کر دیے گئے ہیں اور زمین میں دوڑ دھوپ کرنے کے قابل نہیں ہیں، ناواقف انھیں ان کی عفت نفس کی بنا پر مالدار کہتے ہیں حالانکہ تم انہیں ان کے چہرے کے علامات سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال نہیں دراز کرتے ہیں حالانکہ تم لوگ جوبھی خیر کا انفاق کروگے خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ جنسی پاکدامنی کے علاوہ یہ عفت نفس کا دوسرا مرقع ہے جہاں انسان بد ترین فقر و فاقہ کی زندگی گذارتاہے جس کا اندازہ حالات اور علامات سے بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنی غربت کا اظہار نہیں کرتاہے اور لوگوں کے سامنے دست سوال نہیں دراز کرتا ہے کہ یہ انسانی زندگی کا بدترین سودا ہے۔ دنیا کا ہر صاحب عقل جانتا ہے کہ آبرو کی قیمت مال سے زیادہ ہے اور مال آبرو کے تحفظ پر قربان کر دیا جاتاہے۔ بنابریں آبرو دے کر مال حاصل کرنا زندگی کا بد ترین معاملہ ہے جس کے لیے کوئی صاحب عقل و شرف امکانی حدود تک تیار نہیں ہوسکتا ہے۔ اضطرار کے حالات دوسرے ہوتے ہیں وہاں ہر شرعی اور عقلی تکلیف تبدیل ہو جاتی ہے۔ ”واذا خاطبہم الجاہلون قالو سلاماً“ ۔ ”جب جاہل ان سے جاہلانہ انداز سے خطاب کرتے ہیں تووہ سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں“ ”والذین لا یشہدون الزور واذا مروا باللغو مروا کراًام۔“ (فرقان ۷۳) ”اللہ نیک اور مخلص بندے وہ ہیں جو گناہوں کی محفلوں میں حاضر نہیں ہوتے ہیں اور جب لغویات کی طرف سے گذرتے ہیں تو نہایت شریفانہ انداز سے گذر جاتے ہیں اور ادھر توجہ دینا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔ ان فقرات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ عباد الرحمان میں مختلف قسم کی عفت نفس پائی جاتی ہے۔ جاہلوں سے الجھتے نہیں ہیں اور انھیں بھی سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔ رقص و رنگ کی محفلوں میں حاضر نہیں ہوتے ہیں اور اپنے نفس کو ان خرافات سے بلند رکھتے ہیں۔ ان محفلوں کے قریب سے بھی گذرتے ہیں تو اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اور شریفانہ انداز سے گذر جاتے ہیں تاکہ دیکھنے والوں کو بھی یہ احساس پیدا ہوکہ ان محفلوں میں شرکت ایک غیر شریفانہ اور شیطانی عمل ہے جس کی طرف شریف النفس اور عباد الرحمان قسم کے افراد توجہ نہیں کرتے ہیں اور ادھر سے نہایت درجہ شرافت کے ساتھ گذر جاتے ہیں۔ http://alhassanain.com/