والدین کے ساتھ نیکی کرو؛ آیات و احادیث

مولود کعبہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا دن یوم والد قرار دیا گیا ہے چنانچہ اسی مناسبت سے والدین کے حقوق کے بارے چند آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کا انتخاب کیا گیا امید ہے کہ شیعیان امیرالمؤمنین خداوند متعال کے اس حکم حکمت آمیز کا پاس رکھتے ہوئے اہل بیت علیہم السلام سے اپنی محبت کا اثبات کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ و سلم اور ائمۂ اہل بیت علیہم السلام سے مروی ہے کہ "ہمارا حبدار صرف وہ ہے جو خداوند متعال کا مطیع ہو اور جو خدا کا مطیع نہ ہو وہ ہمارا دشمن ہے"۔ اور ہم جانتے ہيں کہ توحید کے بعد والدین کے ساتھ نیکی پر سب سے زیادہ تاکید ہوئی ہے اور جہاں بھی یکتا پرستی کا حکم ہے وہاں والدین کے ساتھ نیکی کا حکم بھی ہے۔ اکثر مقامات پر جہاں خدا کی عبادت و بندگی اور وحدانیت پر ایمان لانے کا حکم ہے وہیں والدین پر احسان کا حکم بھی ہے: آیات کریمہ: آیات کریمہ اور احادیث شریفہ سے ثابت ہو کہ نہ صرف عقوق والدین (یعنی والدین کو آزار و اذيت دینا اور انہیں تکلیف پہنچانا) حرام اور گناہان کبیرہ میں سے ہے بلکہ ان پر احسان کرنا، ان کے ساتھ نیکی کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا بھی واجب ہے اور ان واجبات کو ترک کرنا حرام ہے۔ ارشاد ربانی ہے: "وَوَصَّيْنا الْاِنْسانَ بِوالِدَيْهِ اِحْساناً"۔ سوره احقاف ، آيت 15۔ ترجمہ: اور ہم نے انسان کو وصیت کردی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرے۔ احسان یہاں حرف بـ کے ساتھ مذکور ہے جس سے مراد یہ ہے کہ یہ عمل خدا کے نزدیک اس قدر اہم ہے کہ اسے براہ راست اور بلاواسطہ انجام دینا پڑے گا۔ تفسير المنار، ج 8،ص 185. وتفسير نمونه، ج 6، ص 33۔ والدین کی شکرگزاری خدا کی نعمتوں کی شکرگزاری کی ردیف میں والدین کے حقوق کتنے ہیں؟ کہاں تک ہیں؟ ان کی حد کیا ہے؟ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے والدین کی شکرگزاری کو اپنی نعمتوں کی شکرگزاری کے زمرے میں اور فورا بعد، ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کے حقوق کی حدود اور وسعت کس قدر ہے: آيات کریمہ: وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مِّعْرِضُونَ. سورہ بقرہ آیت 83۔ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا ( ہرگز) کسی کی پرستش نہ کرنا اور اپنے والدین اور اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا اور لوگوں کے ساتھ اچھی باتیں کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوۃ دیتے رہنا ، لیکن تم میں تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ سب (عہد سے ) پھرگئے اور تم لوگ تو منہ موڑ لیتے ہی ہو۔ وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا۔ سورہ نساء آیت 36۔ ترجمہ: خدا کی پرستش کرو اور کسی چیز کو بھی اس کے شریک قرار نہ دو اور اپنے ماں باپ پر احسان کرو نیز اپنے اقارب، یتیموں، مسکینوں، قریبی پڑوسیوں اور دور کے پڑوسیوں اور دوستوں اور مصاحبین (ہم نشینوں اور سفر میں رہنے والے (ابناء السبیل) اور ان غلاموں پر جن کے تم مالک ہو؛ کیونکہ خداوند متعال متکبرین اور فخر فروشوں کو [جو دوسروں کے حقوق ادا کرنے سے انکاریوں] کو دوست نہيں رکھتا۔ لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّهِ إِ