اصلاح الرسوم الظاھرہ-اصلی اسلام اور رسمی اسلام
اصلاح الرسوم الظاھرہ-اصلی اسلام اور رسمی اسلام
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
اصلاح الرسوم الظاھرہ-اصلی اسلام اور رسمی اسلام
روز مرہ کا مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر نام نہاد مسلمان و اہل ایمان اپنی اختراعی اورغیر شرعی رسوم و عادات کی قیود میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ وہ اس طرح واجبات و فرائض کو بھی باقاعدگی سے ادا نہیں کرتے جس دھوم دھام سے رسوم کو اداکرتے ہیں۔ اور اگر کبھی کوئی رسم ترک ہوجائے تو اس طرح اس رسم کے رہ جانے کا غم مناتے ہیں کہ خدا و رسول(ص) کی ناراضی مول لے لیتے ہیں،رسم و رواج کے ترک کرنے سے معاشرو میں انکی جو ہیٹی ہوتی ہے اسے گوارا نہیں کرتے محض اس غلط جذبہ کے تخت کہ برادری میں ساکھ رہ جائے اور ناک نہ کٹ جائے۔ ان گنت مصیبتیں جھیلتے ہیں، بعض لوگ تو اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ جو شخص ان بدعات و رسومات ادئیگی و بجاآوری میں ان کا ساتھ نہ دے یا ان کو روکے ٹوکے الٹا اس پر فتوے لگاتے ہیں اورا سے خارج از ایمان بلکه خارج از اسلام ٹھہراتے ہیں۔ اورجہاں تک نام نہاد خواص و پیرصاحبان و مولوی صاحبان کی اکزیت کا تعلق ہے تو اگر بہ نظر غائر حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی کیفیتِ زارعوام کی حالت زار سے بھی بدتر نظر آتی ہے یہ لوگ اپنے اپنے ذاتی مفادات کی آہنی زنجیروں میں کچھ اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ وہ کھیی رائے عامہ کی مخالفت کر کے اور عوام کو ناراض کرکے اپنے مفادات کے تحفظ، جھوٹے وقار کی بقاء اور عامتہ الناس میں سستی شہرت و مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر عوام کی ہاں میں ہاں ملانے اور قرآن وحدیث کو توڑ موڑ کر عوامی جذبات و خیالات اور ان کی مروجہ رسوم و عادات کی تائید مزید کرنے میں اپنی ہردلعزیزی اور کامیابی کا راز مضمرجانتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر یہ خواص بالخصوص وارثانِ منبر ومحراب اپنی شرعی ذمہ داریوں کو سمجھتے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آواز حق بلند کرتے اور قرآنی حقائق اور شرعی دقائق کو بغیر خوفِ لومة لائم برملا بیان کرتے تو ناگفتہ بہ حالات رونما نہ ہوتے بلکہ ہمارا اسلامی معاشرہ جنت الفردرس کا نمونہ پیش کرتا اور اعتقادی وعملی کج روی کا نام ونشان مٹ جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو جس قدر نقصان و زیاں علماء سوء اور علماء دنیا یعنی درباری و سرکاری با الفاظ دیگر پیٹ کے پجاری ملاؤں نے پہنچایا ہے اتنا کسی دشمن نے بھی انہیں پہنچایا۔
اس فرض منصبی کے احساس اور اسکی ادائیگی کے بھرپور جذبے سے سرشار ہوکر مؤلف موصوف نے اس خاردار وادی میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ سینکڑوں غلط اوربری رسمیں جو نہ صرف یہ کہ ہمارے اسلام وایمان کے خلاف ہیں بلکہ تہذیب و شائستگی اور انسانی مَجد و شرافت کے بھی خلاف ہیں... یہ رسمیت نہ صرف یہ کہ ہمارے معاشرہ کی رگ و ریشے میں سرایت کر گئی ہیں بلکہ ان میں سے اکثر و بیشتر رسوم کو اس طرح اسلام میں داخل کردیا گیا ہے کہ جس سے اس کا اصلی و مقدس چہرہ مسخ ہوکر رہ گیا ہے، اور آج اسلام و مسلمان اغیار کی نظروں میں ذلیل خوار ہورہے ہیں۔ اسلئے ضرورت اور سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن وسنت کی کدال لے کر موجودہ گلستان اسلام کی «گوڈی» کی جائے اور اس طرح جہاں اللہ کے قرآن اور چہاردہ معصومین علیہم السلام کے کلام کی روشنی میں حقیقی واصلي اسلام و ایمان کے خد و خال کو نمایاں کیا جائے وہاں اسلام کے مقدس گلستان میں جو خود رَو پودے اُگ آئے ہیں اور اسکے گل و سُنبل و ریحان کی نشو و نما میں ہارج ومانع ہورہے ہیں اور جن کو بعض نادان اصل گلستان کا جزء و حصہ سمجھ رہے ہیں ان کو بیخ وبُن سے اکھیڑ کر دور پھیک دیا جائے۔ تاکہ اس طرح جہاں اسلام اپنی اصلی شکل و صورت میں جلوہ گر ہو کر اس ظلمت کدہ دنیا کو اپنے جلوۂ نور سے رشکِ طور بنادے وہاں مسلمان بھی اغیار کے طعن تشنیع کی یلغار سے بچ جائیں اور اسلام کے پیش کرده صراط مستقیم پر گامزن ہوکر جہاں دنیا میں اپنا کھویا ہوا وقار و اقتدار دوباره حاصل کرسکیں وہاں آخرت میں بھی کامیاب و کامران ہوسکیں۔
دراصل اس تمام تگ و تاز کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ اس کتاب کے قارئین کرام کے سامنے تصویر کے دونوں رخ آجائیں کہ اصلی اسلام کیا ہے اور رسمی اسلام کیا؟
اسی مقصد کے تحت اس کتاب کے ہر باب میں اللہ کے قرآن، معصومين علیہم السلام کے فرمان اور علماء اعلام کے کلام کی روشنی میں پہلے اصل اسلام کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اس کے بعد رسمی اسلام کا تذکرہ ہوا ہے اور پھر اسی کی تحقیقی وتفصلی رد کی گئی ہے۔
اس کتاب کے بعض مندرجات:
عید نوروز اور اس کے بعض رسوم و قیود،غیر خدا کے نام کی منت ماننا،مساجد و امام بارگاہوں کے نقش و نگار کرنا، اجرت پر قرآن پڑھنا، شب برأت کا حلوہ اور چراغاں، عورتوں کا ناخن بڑھانا اور ناخن پالش لگانا، غیر اسلامی طریقے پر سلام کرنا اور جواب دینا، رجب کے کونڈے، کھانے یا پھل فروٹ سامنے رکھ کر اس پر ختم دنا، بیوہ کا عقد ثانی نہ کرنا، قل خوانی تیجہ دسواں چالیسواں چھ ماہی برسی، سالگرہ مانانا، پانی چھڑکنے اور چھٹی کی رسم، چھلّہ اور دست بند، بچے کے سرہانے تلوار یا چھری رکھنا، تعزیہ سے متعلق غلط رسوم کی نشاندہی، جلوس مہندی اور سیج، جعلی مزارات، فیس طئے کرکے مجلس پڑھنا،......۔