شفاعت
شفاعت
Author :
محمود رجبی
0 Vote
156 View
شفاعت ، شفع (جفت ،زوج ) سے لیا گیا ہے.اور عرف میں یہ معنی ہے کہ کوئی عزت دار شخص کسی بزرگ سے خواہش کرے کہ وہ اس کے (جس کی شفاعت کر رہا ہے )جرم کی سزا معاف کردے. یا خدمت گذار فرد کی جزا میں اضافہ کردے ۔ شفاعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان، شفیع کی مدد کے بغیر سزا سے بچنے یا جزا کے ملنے کے لائق نہیں ہے لیکن شفیع کی درخواست سے اس کے لئے یہ حق حاصل ہوجائے گا۔ شفاعت ، شفع (جفت ،زوج ) سے لیا گیا ہے.اور عرف میں یہ معنی ہے کہ کوئی عزت دار شخص کسی بزرگ سے خواہش کرے کہ وہ اس کے (جس کی شفاعت کر رہا ہے )جرم کی سزا معاف کردے. یا خدمت گذار فرد کی جزا میں اضافہ کردے ۔ شفاعت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان، شفیع کی مدد کے بغیر سزا سے بچنے یا جزا کے ملنے کے لائق نہیں ہے لیکن شفیع کی درخواست سے اس کے لئے یہ حق حاصل ہوجائے گا۔ شفاعت ،برائیوں سے توبہ وتکفیر کے علاوہ ہے گنہگاروں کی امید کی آخری کرن اور خداوندعالم کی رحمت کا سب سے عظیم مظہر ہے. شفاعت کامعنی شفیع کی طرف سے خدا وند عالم پر اثر انداز ہونا نہیں ہے .شفاعت کا انکار کرنے والی آیات سے مراد جیسے(لا یُقبَلُ مِنھَا شَفَاعَة)\'\'سورہ بقرہ ٤٨و١٢٣\'\'کی آیہ کے یہی معنی ہے.لفظ شفاعت کبھی وسیع تر معنی یعنی دوسرے انسان کے ذریعہ کسی انسان کے لئے کسی طرح سے اثر خیر ظاہر ہونے میں استعمال ہوتا ہے.جیسے فرزندوں کے لئے والدین کا موثر ہونا اور اس کے برعکس یعنی والدین کے لئے بچوں کا موثر ہونایا اساتید اور رہنما حضرات کاشاگردوں اور ہدایت پانے والوں کے حوالے سے حتی مؤذن کی آواز ان لوگوں کے لئے جو اس کی آواز سے نماز کو یاد کرتے ہیں اور مسجد جاتے ہیں .شفاعت کہا جاتاہے .وہی اثر خیر جو دنیا میں تھا آخرت میں شفاعت کی صورت میں ظاہر ہوگا جس طرح گناہوں کے لئے استغفارنیزدوسرے دنیاوی حاجات کے پورا ہونے کے لئے دعا کرنے کو شفاعت کہا جاتاہے۔ شفاعت کے مندرجہ ذیل قوانین ہیں: الف) خداوند عالم کی طرف سے شفیع کو اجازت . ب) شفاعت پانے والوں کے اعمال نیز اس کی اہمیت و عظمت سے شفاعت کرنے والوں کا آگاہ ہونا۔ ج) دین وایمان کے حوالے سے شفاعت پانے والوں کا ممدوح اورپسندیدہ ہونا. حقیقی شفاعت کرنے والے خداوند عالم کی طرف سے ماذون ہونے کے علاوہ معصیت کار اور گنہگارنہ ہوں . اہل اطاعت ومعصیت کے مراتب کو پرکھنے کی ان کے اندر صلاحیت ہونیز شفاعت کرنے والوں کے ماننے والے بھی کم ترین درجہ کے شفیع ہوں ،دوسری طرف وہی شفاعت پانے کے قابل ہیں جو خدا وند کریم کی اجازت کے علاوہ خدا، انبیاء حشر اور وہ تمام چیزیں جو خدا وند عالم نے اپنے انبیاء پر نازل فرمائی ہیں منجملہ \'\'شفاعت\'\'پر حقیقی ایمان رکھتے ہوں اور زندگی کے آخری لمحہ تک اپنے ایمان کو محفوظ رکھے ہوں اور جو لوگ نماز کو ترک کریںاور فقرا کی مدد نہ کریں نیزروز قیامت کی تکذیب کریںاور خود شفاعت سے انکار کریں یااس کو ہلکا سمجھیں توایسے لوگ شفاعت سے محروم ہیں. اس دنیا میں شفیع کی شفاعت کا قبول کرنا شفیع کی ہمنشینی اور محبت کی لذت کے ختم ہوجانے کاخوف یا شفیع کی طرف سے ضرر پہونچنے کا اندیشہ یا شفیع سے شفاعت کے قبول کرنے کی ضرورت کی وجہ سے شفاعت انجام پاتی ہے لیکن خداوند عالم کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والوںکی شفاعت کے قبول ہونے کی دلیل مذکورہ امور نہیں ہیں بلکہ خدا وند عالم کی وسیع رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ دائمی رحمت کے حاصل کرنے کی بہت کم صلاحیت رکھتے ہیں ان کے لئے شرائط وضوابط کے ساتھ کوئی راستہ فراہم کرنے کا نام شفاعت ہے ۔ ٢۔ شفاعت کے بارے میں اعتراضات و شبہات شفاعت کے بارے میں بہت سے اعتراضات و شبہات بیان کئے گئے، یہاں پرہم ان میں سے بعض اہم اعتراضات و شبہات کا تجزیہ کریں گے۔ پہلا شبہہ :پہلا شبہہ یہ ہے کہ بعض آیات قرآنی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روز قیامت کسی کی بھی شفاعت قبول نہیںکی جائے گی جیسا کہ سورہ بقرہ کی ٤٨ویں آیہ میں فرماتا ہے: (وَ اتَّقُوا یَوماً لا تَجزِی نَفس عَن نَّفسٍ شَیئاً وَ لا یُقبَلُ مِنھَا شَفَاعَة وَ لا یُؤخَذُ مِنھَا عَدل وَ لا ھُم یُنصَرُونَ) جواب: اس طرح کی آیات بغیر قاعدہ وقانون کے مطلقاًاور مستقل شفاعت کی نفی کرتی ہیں بلکہ جو لوگ شفاعت کے معتقد ہیں وہ مزیداس بات کے قائل ہیں کہ مذکورہ آیات عام ہیں جو ان آیات کے ذریعہ جو خدا کی اجازت اور مخصوص قواعد وضوابط کے تحت شفاعت کے قبول کرنے پر دلالت کرتی ہیں تخصیص دی جاتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے۔ دوسرا شبہہ: شفاعت کے صحیح ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم شفاعت کرنے والوں کے زیر اثر قرار پائے یعنی ان لوگوں کی شفاعت فعل الہی یعنی مغفرت کا سبب ہوگی. جواب : شفاعت کا قبول کرنا زیر اثر ہونے کی معنی میں نہیں ہے جس طرح توبہ اور دعا کا قبول ہونا بھی مذکورہ غلط لازمہ نہیں رکھتا ہے. اس لئے کہ ان تمام موارد میں بندوں کے افعال کا اس طرح شائستہ و سزاوار ہونا ہے کہ وہ رحمت الہٰی کو جذب کرنے کا باعث بن سکیں، اصطلاحاًقابل کی شرط قابلیت اور فاعل کی شرط فاعلیت نہیں ہے۔ تیسرا شبہہ : شفاعت کا لازمہ یہ ہے کہ شفاعت کرنے والے خدا سے زیادہ مہربان ہوں ، اس لئے کہ فرض یہ ہے کہ اگر ان کی شفاعت نہ ہوتی تویہ گنہگار لوگ عذابمیں مبتلا ہوجاتے ،یا ہمیشہ معذّب رہتے . جواب:شفاعت کرنے والوں کی مہربانی اور ہمدردی بھی خداوند عالم کی بے انتہا رحمت کی جھلک ہے . دوسرے لفظوں میں ، شفاعت وہ وسیلہ اور راہ ہے جسے خداوند عالم نے خود اپنے بندوں کے گناہوں کو بخشنے کے لئے قرار دیا ہے اور جیسا کہ اشارہ ہو ا کہ اسکی عظیم رحمتوں کا جلوہ اور کرشمہ اس کے منتخب بندوں میں ظاہر ہوتا ہے اسی طرح دعا اور توبہ بھی وہ ذرائع ہیں جنہیں خداوند عالم نے گناہوں کی بخشش اور ضروتوں کو پورا کرنے کے لئے قرار دیا ہے. چوتھا شبہہ : اگر خداوند عالم کا گنہگاروں پرعذاب نازل کرنے کا حکم مقتضاء عدالت ہے تو ان کے لئے شفاعت کا قبول کرنا خلاف عدل ہوگا اور اگر شفاعت کو قبول کرنے کے نتیجہ میں عذاب الہی سے نجات پاناعادلانہ ہے تواس کے معنی یہ ہوئے کہ شفاعت کے انجام پانے سے پہلے عذاب کا حکم، غیر عادلانہ تھا۔ جواب : ہر حکم الٰہی (چاہے شفاعت سے پہلے عذاب کا حکم ہو یاشفاعت کے بعد نجات کا حکم ہو) عدل وحکمت کے مطابق ہے ایک حکم کا عادلانہ اور حکیمانہ ہونا دوسرے حکم کے عادلانہ اور حکیمانہ ہونے سے ناسازگار نہیں ہے،اس لئے کہ اس کاموضوع جداہے ۔ وضاحت : عذاب کا حکم ارتکاب گناہ کا تقاضا ہے. ان تقاضوں سے چشم پوشی کرنا ہی گنہگارکے حق میں شفاعت اور قبول شفاعت کے تحقق کا سبب ہوتا ہے. اور عذاب سے نجات کا حکم شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی وجہ سے ہے، یہ موضوع اس طرح ہے کہ بلا کا دعا یا صدقہ دینے سے پہلے مقدر ہونا یا دعا اور صدقہ کے بعد بلا کا ٹل جانا ہی حکیمانہ فعل ہے۔ پانچواں شبہہ: خداوند متعال نے شیطان کی پیروی کوعذاب دوزخ میں گرفتارہونے کا سبب بتایاہے جیسا کہ سورہ حجر کی ٤٢و٤٣ویں آیہ میں فرماتا ہے: (ِنَّ عِبَادِی لَیسَ لَکَ عَلَیھِم سُلطَان ِلا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الغَاوِینَ ٭ وَ نَّ جَہَنَّمَ لَمَوعِدُھُم أَجمَعِینَ) جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تجھے کسی طرح کی حکومت نہ ہوگی مگرصرف گمراہوں میں سے جو تیری پیروی کرے اور ہاں ان سب کے واسطے وعدہ بس جہنم ہے ۔ آخرت میں گنہگاروںپر عذاب نازل کرنا ایک سنت الہی ہے اور سنت الہی غیر قابل تغیر ہے جیسا کہ سورہ فاطرکی ٤٣ویں آیہ میں فرماتا ہے کہ: (فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبدِیلاً وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحوِیلاً) ہرگز خدا کی سنت میں تبدیلی نہیں آئیگی اور ہرگز خدا کی سنت میں تغیر نہیں پیدا ہوگاجب یہ بات طے ہے تو کیسے ممکن ہے کہ شفاعت کے ذریعہ خدا کی سنت نقض ہوجائے اور اس میں تغیر پیدا ہو جائے ۔ جواب : جس طرح گنہگاروں پر عذاب نازل کرنا ایک سنت ہے اسی طرح واجد شرائط گنہگاروں کے لئے شفاعت قبول کرنا بھی ایک غیر قابل تغیر الٰہی سنت ہے لہٰذا دونوں پر ایک ساتھ توجہ کرنا چاہئیے ، خدا وند عالم کی مختلف سنتیں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں ان میں جس کا معیار و اعتبار زیادہ قوی ہوگا وہ دوسرے پر حاکم ہوجاتی ہے۔ چھٹا شبہہ : وعدۂ شفاعت ، غلط راہوں اور گناہوں کے ارتکاب میں لوگوں کی جرأت کا سبب ہوتا ہے۔ جواب : شفاعت ومغفرت ہونا مشروط ہے بعض ایسی شرطوں سے کہ گنہگار اس کے حصول کا یقین پیدا نہیں کرسکتا ہے. شفاعت کے شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اپنے ایمان کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ رکھے اور ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی شرط کے تحقق پر یقین (کہ ہمارا ایمان آخری لمحہ تک محفوظ رہے گا)نہیںرکھ سکتا ہے. دوسری طرف جو مرتکب گناہ ہوتا ہے اگر اس کے لئے بخشش کی کوئی امید اور توقع نہ ہو تووہ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجائے گا اور یہی نا امیدی اس میں ترک گناہ کے انگیزے کو ضعیف کردے گی اور آخر کار خطاو انحراف کی طرف مائل ہوجائے گا اسی لئے خدائی مربیوں کا طریقۂ تربیت یہ رہاہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو خوف و امید کے درمیان باقی رکھتے ہیں. نہ ہی رحمت خدا سے اتنا امید وار کرتے ہیں کہ خدا وند عالم کے عذاب سے محفوظ ہوجائیں اور نہ ہی ان کو عذاب سے اتنا ڈراتے ہیں کہ وہ رحمت الٰہی سے مایوس ہوجائیں. اور ہمیں معلوم ہے کہ رحمت الٰہی سے مایوس اور محفوظ ہونا گناہ کبیرہ شمار ہوتا ہے. ساتواںشبہہ: عذاب سے بچنے میں شفاعت کی تاثیر یعنی گنہگار شخص کو بد بختی سے بچانے اور سعادت میں دوسروں (شفاعت کرنے والے) کے فعل کا موثر ہونا ہے. جبکہ سورہ نجم ٣٩ویںآیہ کا تقاضا یہ ہے کہ فقط یہ انسان کی اپنی کوشش ہے جو اسے خوشبخت بناتی ہے۔ جواب : مننرل مقصود کو پانے کے لئے کبھی خود انسان کی کوششہوتی ہے جو آخری منزل تک جاری رہتی ہے اور کبھی مقدمات اور واسطوں کے فراہم کرنے سے انجام پاتی ہے. جو شخص مورد شفاعت قرار پاتا ہے وہ بھی مقدمات سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے. اس لئے کہ ایمان لانا اور استحقاق شفاعت کے شرائط کا حاصل کرنا حصول سعادت کی راہ میں ایک طرح کی کوشش شمار ہوتی ہے . چاہے وہ تلاش ایک ناقص و بے فائدہ کیوں نہ ہو. اسی وجہ سے مدتوں برزخ کی سختیوں اور غموں میں گرفتار ہونے کے بعد انسان میدان محشر میں وارد ہوگا لیکن بہر حال خودہی سعادت کے بیج (یعنی ایمان ) کو اپنے زمین دل میں بوئے اور اس کو اپنے اچھے اعمال سے آبیاری کرے اس طرح کہ اپنی عمر کے آخری لمحات تک خشک نہ ہونے دے تویہ اس کی انتہائی سعادت و خوشبختی ہے جو خود اسی کی تلاش و کوشش کا نتیجہ ہے. اگر چہ شفاعت کرنے والے بھی ایک طرح سے اس درخت کے ثمر بخش ہونے میں موثر ہیں جس طرح اس دنیا میں بھی بعض لوگ بعض دوسرے افراد کی تربیت و ہدایت میں موثر واقع ہوتے ہیں لیکن ان کی یہ تاثیر اس شخص کے تلاش و جستجو کی نفی کا معنی نہیں دیتی ہے.(١) .............. (١)ملاحظہ ہو: محمد تقی مصباح ؛ آموزش عقاید ؛ ج٣ سازمان تبلیغات ، تہران ١٣٧٠۔