اصول الشریعہ فی عقائد الشیعہ
اصول الشریعہ فی عقائد الشیعہ
Author :
Publisher :
Publish number :
4
Publication year :
2000
Publish location :
سرگودھا پاکستان
(0 پسندیدگی)
(0 پسندیدگی)
اصول الشریعہ فی عقائد الشیعہ
یہ کتاب رئیس المحدثین شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے رسالۂ شریفۂ اعتقادیہ کی شرح ہے، صحیح عقائد کو بعض دین فروش لوگ غلط انداز میں عوام کے سامنے پیش کرکے انہیں شیعہ اعلام اور مدارس دینیہ سے بد ظن کرنے کی سعی نافرجام کررہے ہیں، ولایت و وصایت ائمۂ اطہار کا اعتقاد و اقرار اعمال شرعیہ کی صحت اور قبولیت کی شرط ہے یعنی اس کے بغیر کوئی عمل صالح شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتا لیکن یہ اقرار ولایت اعمال صالحہ کی بجاآوری سے گلوخلاصی اور چھٹّی دلانے کے لیے نہیں ہے جیسا کہ بعض عوام الناس کے ذہنوں میں بعض غیر ذمہ دار اہل منبر روضہ خوانوں نے راسخ کردیا ہے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ عمل صالح کی بجا آوری اور حرام سے اجتناب کیے بغیر ولایت اہل بیت(ع) حاصل ہوہی نہیں سکتی۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:يَا جَابِرُ أَ يَكْتَفِي مَنِ اِنْتَحَلَ اَلتَّشَيُّعَ أَنْ يَقُولَ بِحُبِّنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ فَوَ اَللَّهِ مَا شِيعَتُنَا إِلاَّ مَنِ اِتَّقَى اَللَّهَ وَ أَطَاعَهُ وَ مَا كَانُوا يُعْرَفُونَ يَا جَابِرُ إِلاَّ بِالتَّوَاضُعِ وَ اَلتَّخَشُّعِ وَ اَلْأَمَانَةِ وَ كَثْرَةِ ذِكْرِ اَللَّهِ وَ اَلصَّوْمِ وَ اَلصَّلاَةِ وَ اَلْبِرِّ بِالْوَالِدَيْنِ وَ اَلتَّعَاهُدِ لِلْجِيرَانِ مِنَ اَلْفُقَرَاءِ وَ أَهْلِ اَلْمَسْكَنَةِ وَ اَلْغَارِمِينَ وَ اَلْأَيْتَامِ وَ صِدْقِ اَلْحَدِيثِ وَ تِلاَوَةِ اَلْقُرْآنِ وَ كَفِّ اَلْأَلْسُنِ عَنِ اَلنَّاسِ إِلاَّ مِنْ خَيْرٍ وَ كَانُوا أُمَنَاءَ عَشَائِرِهِمْ فِي اَلْأَشْيَاءِ قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ مَا نَعْرِفُ اَلْيَوْمَ أَحَداً بِهَذِهِ اَلصِّفَةِ فَقَالَ يَا جَابِرُ لاَ تَذْهَبَنَّ بِكَ اَلْمَذَاهِبُ حَسْبُ اَلرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ أُحِبُّ عَلِيّاً وَ أَتَوَلاَّهُ ثُمَّ لاَ يَكُونَ مَعَ ذَلِكَ فَعَّالاً فَلَوْ قَالَ إِنِّي أُحِبُّ رَسُولَ اَللَّهِ فَرَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ خَيْرٌ مِنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ ثُمَّ لاَ يَتَّبِعُ سِيرَتَهُ وَ لاَ يَعْمَلُ بِسُنَّتِهِ مَا نَفَعَهُ حُبُّهُ إِيَّاهُ شَيْئاً فَاتَّقُوا اَللَّهَ وَ اِعْمَلُوا لِمَا عِنْدَ اَللَّهِ لَيْسَ بَيْنَ اَللَّهِ وَ بَيْنَ أَحَدٍ قَرَابَةٌ أَحَبُّ اَلْعِبَادِ إِلَى اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ أَكْرَمُهُمْ عَلَيْهِ أَتْقَاهُمْ وَ أَعْمَلُهُمْ بِطَاعَتِهِ يَا جَابِرُ وَ اَللَّهِ مَا يُتَقَرَّبُ إِلَى اَللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِلاَّ بِالطَّاعَةِ وَ مَا مَعَنَا بَرَاءَةٌ مِنَ اَلنَّارِ وَ لاَ عَلَى اَللَّهِ لِأَحَدٍ مِنْ حُجَّةٍ مَنْ كَانَ لِلَّهِ مُطِيعاً فَهُوَ لَنَا وَلِيٌّ وَ مَنْ كَانَ لِلَّهِ عَاصِياً فَهُوَ لَنَا عَدُوٌّ وَ مَا تُنَالُ وَلاَيَتُنَا إِلاَّ بِالْعَمَلِ وَ اَلْوَرَعِ.
امام باقر علیہ السلام نے جابر سے فرمایا: اے جابر! صرف یہ کہنا کہ ہم اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں شیعیت کے لئے کافی نہیں ہے خدا کی قسم ہمارا شیعہ نہیں ہوسکتا مگر جب کہ اللہ سے ڈرے، اس کی اطاعت کرے اور اے جابر! یہ نہیں ہوسکتا بغیر تواضع اور خضوع وخشوع، ادائے امانت، کثرت ذکر خدا، روزہ نماز، والدین سے نیکی، حسن سلوک، ہمسایہ فقیروں اور مسکینوں، مقروضوں اور یتیموں سے، اور قول میں صداقت سے قرآن کی تلاوت سے، اور لوگوں کے بارے میں نیکی کے سوا کچھ نہ کہنے سے اور اپنے قبائل کی اشیاء میں امین ہونے سے۔جابر نے کہا یابن رسول اللہ اس زمانے میں ایسا آدمی تو کوئی نظرنہیں آتا۔فرمایا: اے جابر! مذاہبِ باطلہ تم کو مذہب سے ہٹا نہ دیں، کیا یہ کافی ہے ایک شخص کے لیے کہنا کہ میں علیؑ کو دوست رکھتا ہوں اوراس کے سوا وہ کرنے والا کچھ نہ ہو، ایسے ہی اگر وہ کہے کہ میں رسول اللہ کو دوست رکھتا ہوں۔ رسول(ص) علیؑ سے بہتر ہیں اس کے بعد وہ رسول(ص) کی سیرت کی پیروی نہ کرے اوران کی سنت پر اس کا عمل نہ ہو تو حضرت کی محبت اسے کچھ فائدہ نہ دے گی، اللہ سے ڈرو اور صحیح عمل کرو جو پیش خدا مقبول ہو، کسی شخص اور خدا کے درمیان قرابت نہیں ہے، خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب و مُکرّم وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے اور اس کی اطاعت عملاً زياره کرنے والا ہے۔اے جابر! کوئی کوئی خدا کا مقرب نہیں بن سکتا مگر اطاعت سے اس کے بغیر ہمارے ساتھ ہونا برأت نہیں اور نہ خدا پر کوئی حجت ہے، جو اللہ کا مطیع ہے وہ ہمارا دوست ہے جو اللہ کا گنہگار ہے وہ ہمارادشمن ہے، ہماری ولایت کی کوئی نہیں پاسکتا مگر عمل اور پرہیزگاری سے۔[الکافي،جلد۲،صفحه۷۴،كتاب الإيمان و الكفر، بَابُ اَلطَّاعَةِ وَ اَلتَّقْوَى]
لیکن ان تمام تاکیدات و تہدیدات اور ترغیبات کے باوجود اکثر لوگ نہ افراط سے باز آئے اور نہ تفریط سے رکے اور اعتدال کا دامن ہاتھوں سے چھوڑ بیٹھے، چنانچہ بعض کمبخت نہ صرف مسلّمہ فضائل کا انکار بلکہ ان ذوات ِ قدسیہ کی امامت و خلافت کا بھی انکار کرکے ابدی ہلاکت کا شکار ہوگئے اور بعض احمق غلط اندازِ محبت اختیار کرکے غلو و تفویض کے اتھاہ سمندر میں غرق ہوگئے اور ائمۂ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں محض اپنے ذاتی خیالات و قیاسات اور غلط تاویلات سے وہ عجیب و غریب من گھڑت نظریات قائم کیے کہ جن کا نہ آیات قرآنیہ میں کہیں وجود ہے اور نہ صحیح احادیث نبویّہ اور ارشادات ائمّہ میں کوئی نام و نشان ہے اور نہ ہی جنکا کلام علماء اعلام سے کوئی ثبوت ملتا ہے اور نہ عقل سلیم ان کی تائید و تصدیق کرتی ہے۔
اس کتاب میں ایسے ہی بعض نظریاتِ فاسدہ پر مکمل نقد و تبصرہ موجود ہے، ضرور مطالعہ فرمائیں اور شیخ صدوقؒ کی کتاب الاعتقاد کی ایک جامع شرح کی روشنی میں اپنے عقائد کا جائزہ لیتے ہوئے صحیح عقائد کو اپنائیں اور غلو و تقصیر سے اپنا دامن بچا کر رکھیں۔
کتاب کے بعض مندرجات:
انبیاء و آئمہ علیہم السلام کی علیٰحدہ نوع ہونے کا بیان،انبیاء و آئمہ علیہم السلام کے نور یا بشر ہونے کا بیان، تفویض کے معانی و اقسام اور تفویض کے ممنوع ہونے کا بطلان، انبیاء و آئمہ علیہم السلام سے استمداد کے جواز و عدم جواز کا بیان، حقیقت معجزہ اور اس کے فعل خدا یا فعل نبی و امام ہونے کا بیان، سرکار محمد و آل محمد علیہم السلام کے ہر وقت ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے یا نہ ہونے کا بیان، انبیاء و آئمہ علیہم السلام کے عالم الغیب ہونے یا نہ ہونے کا بیان، پیغمبر اسلام(ص) کے ہمراہ معراج پر حضرت امیر علیہ السلام کے تشریف لیجانے یا نہ لیجانے کا بیان، بعض علماء اعلام کثرهم اللہ فی الاسلام سے اتہام وہابیت کے ازالے کا بیان، موجودہ دور کے اکثر مدعیان تشیع کے مفوّضہ اور شیخی العقیدہ ہونے کا بیان۔