تجلیات حکمت المعروف اقوال امیرالمؤمنین علیہ السلام

تجلیات حکمت المعروف اقوال امیرالمؤمنین علیہ السلام

تجلیات حکمت المعروف اقوال امیرالمؤمنین علیہ السلام

Publish number :

1

Publication year :

2006

Publish location :

قم ایران

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

تجلیات حکمت المعروف اقوال امیرالمؤمنین علیہ السلام

زیر نظر کتاب "تجلیات حکمت" المعروف اقوال امیر المومین علیہ السلام، حضرت علی علیہ السلام کے مختلف موضوعات پر منتخب کلمات کا مجموعہ ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کا پُر معنیٰ کلام درحقیقت اس قیمتی خزانے کی طرح ہے جو انسانی تہذیب و ثقافت کے ماتھے پہ گوہرِ آبدر کی طرح درخشاں ہے۔ یہ عظیم میراث سخن سنجوں کی نگاہ میں ایسا کلام ہے جو ، کلامِ خالق کے بعد اور کلامِ مخلوق میں سب سے بلند مرتبے کاحامل ہے۔

یہ کلمات اس عظیم و بزرگ شخص کی زبان اور ذہین کی گوہر افشانیاں ہیں جو ایک بلند وبالا پہاڑ کی طرح ہے جس کی چوٹی سے (علم وحکمت) کا سیلاب بہہ رہا ہو اور جہاں پرنده بھی پَر نہیں مار سکتا۔ وہی ہویعصوبِ کلام ہے، وہ جس کے عظیم خاندان سے کلام کے درخت کی جڑیں ملی ہیں اور جن کے سروں پر اس کی شاخوں کاسایہ ہے۔ ایسا رہنما جو سید رضیؒ کے جملوں میں "فصاحت کا آبشار و بلاغت کی اصل اور جڑ ہے۔ بلاغت کے مخفی اسرار اس کے ذریعے ظاہر ہوئے اور اس کے تمام قوانین اسی کی دین ہیں۔ تمام بولنے والے خطیب اسی کا اِتّباع کرتے ہیں اور ہر واعظ اسی کی باتوں سے مدد مانگتا ہے اس کے باوجود کوئی بھی اس کے کلام کی بلندیوں کو درک نہ کر پایا بلکہ لوگ اس سے کافی پیچھے رہ گئے کیونکہ اس کا کلام توخدائے وحدہٗ کے لازول کلام کی ایک علامت ہے اور اس کے کلام میں خوشبوئے نبوت رچی بسی ہے"۔

یا پھر ابن ابی الحدید کے بقول "حکمت نظری سے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے اقوال، افلاطون و ارسطو کے اقوال سے کہیں زیادہ بلند پایہ، حکمت عملی میں سقراط کے کام سے زیاد عمیق اور فصاحت میں ابن وائل و قیس بن ساعدہ کے کلام سے زیادہ فصیح ہیں۔

چونکہ یہ باتیں ایسے ذہن کے چشمے سے نکلی ہیں جس کے سَوتے حکمت متعالیہ سے پھوٹے ہیں اور جس کی تربیت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے کی ہے۔ لہذا یہ کلمات لطافت کے لحاظ سے بہار کی اس شبنم کی طرح ہیں جو دلوں کو جِلا بخشتی ہے اور روحوں کو بالیدہ کر دیتی ہے مگر سختی و صلابت میں یہ کلمات اس چٹان کی مانند ہیں جو زبردست و منہ زور آندھیوں کا زور توڑ دیتی ہے اور فصاحت میں آپ کے کلام کا آہنگ، کوہستانوں میں تغمہ ریز آبشاروں کے سحر انگیز زمزموں کی طرح انسان کے احساسات کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔

ایسے اہم اور قیمتی کلمات کی حفاظت، شرح و تفسیر ایک نہایت اہم ذمہ داری ہے جس کا احساس کرتے ہوئے شیعہ و سنی علماء نے شروع سے لے کر اب تک بہت سی کتاہیں اس ضمن میں لکھی ہیں ہر کتاب اپنی جگہ پر ایک مشعل کی حیثیت رکھتی ہے جو علوی علوم و معارف کو انسانی سماج کے سامنے واضح کرتی ہے اور انسانی ثقافت کی راہوں پر روشنی ڈالتی ہے۔

مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری تھا کہ احادیث کی مختلف کتابوں میں بکھرے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے کلمات قصار کو اکٹھا کر دیا جائے تاکو محققین و خطباء حضرات کو سہولت ہو سکے۔اسی مقصد کی تکمیل کے لیے زیر نظر کتاب لکھی گئی ہے۔

یہ کتاب ۲۲۵؍ابواب اور تقریباً ۵۰۰۰؍حدیثوں پر مشتمل ہے جن کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے رکھی گئی ہے۔ بعض مقامات پر ایک ہی حدیث کئی موضوعات سے مربوط ہونے کی وجہ سے دہرائی گئی ہے۔ شیعہ و سنّی کتابوں کے مختلف حوالے کتاب کے آخر میں ذکر کیے گئے ہیں۔