شیعہ اور جابر حکمران

شیعہ اور جابر حکمران

شیعہ اور جابر حکمران

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

شیعہ اور جابر حکمران

زیر نظر کتاب اس بہیانہ اور وحشیانہ سلوک پر سے پردہ اٹھاتی ہے جو جابر حکومتوں نے شیعوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ یہ کتاب ان لوگوں کے اس شرمناک طرزعمل کو زیر بحث لاتی ہے جس کے نتیجے میں اسلام اور اسلامی اتحاد کمزور ہوگیا اور جمہور مسلمانوں کے دلوں میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت پیدا ہوگئی جو کئی صدیوں تک قائم رہی۔ نیز اس کتاب میں ان حکمرانوں کے مظالم پر روشنی ڈالی گئی ہے جنھوں نے عوامی آرزوؤں کا خون کیا اور حکومت کے حقداروں کا حق غصب کر کے سیاسی بساط پر ناجائز قبضہ جمایا۔ اس کتاب میں شہادتگہ عدل میں قدم رکھنے والے ان سرفروشوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جو آمریت کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور جنھوں نے آمریت کے خلاف معرکہ آرائیوں میں اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا۔ آخر ان کا خون رنگ لایا جس کے نتیجے میں تاج اچھالے گئے اور تخت گراۓ گئے۔ ملوکیت اور آمریت رو بہ زوال ہوئی تو یکے بعد دیگرے جابر بادشاہوں کا صفایا ہوگیا اور ان کے اقتدار کی بساط لپیٹ دی گئی۔ شیعہ ایک دینی حکمران میں پائی جانے والی شرائط کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ انھوں نے یہ شرائط اپنی فقہی اور اعتقادی کتابوں میں درج کی ہیں۔ شیعہ علماء یہی باتیں اپنے طلباء کو دینی مدارس میں پڑھاتے ہیں، اہل ایمان کو مساجد میں بتاتے اور مجالس میں سمجھاتے ہیں۔ شیعہ برملا کہتے ہیں کہ جو حکمران ’’دین ‘‘ کے نام پر حکومت کرتا ہو اور مذکورہ شرائط میں سے کسی شرط پر پورا نہ اتر تا ہو وہ خدا کا، اس کے فرشتوں کا اور اس کے نبیوں کا دشمن ہے۔ اس سلسلے میں اہل تشیع، شیعہ اور سنی حکمرانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے بلکہ ان کے نزدیک اس شیعہ حکمراں کا جرم جو صحیح طریقے سے حکومت نہ کرتا ہو زیادہ سنگین ہے کیونکہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف عمل کرتا ہے۔ شیعیت اس سلسلے میں حکمران کے علم اور عدل کو کافی نہیں سمجھتی بلکہ شیعیت میں یہ چیز بھی ناجائز ہے کہ مفضول کو افضل پر فوقیت دی جائے۔ افضل لوگوں کے ہوتے ہوئے جو غیر افضل لوگ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں وہ غاصب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم بلاخوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعہ عقیدے کے مطابق آل بویہ، فاطمی، حمدانی اور صفوی حکومتیں دینی حکومتیں نہیں بلکہ سیاسی حکومتیں تھیں۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفاء بھی ’’دینی نہیں بلکہ سیاسی حکمران تھے۔‘‘

یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ دین کی رو سے شیعہ اس بات کے خلاف نہیں ہیں کہ عوامی راۓ اور مرضی سے ایک جمہوری حکومت تشکیل پاۓ جو انسانی حقوق کا دفاع کرے نیز سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے نظم ونسق کی ذمے داری سنبھالے۔ تاہم الہی حکومت کو دینی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ لہذا اس کتاب "الشيعه والحاكمون" کے سرورق پر لفظ ’’حاکمون‘‘ استعمال کرنے سے مراد فقط سنی حکمران نہیں بلکہ تمام جابر اور آمر حکمران ہیں۔ یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ سنی حکمرانوں نے شیعوں یہ جو ظلم و تشدد کیا تھا اس کی وجوہات سیاسی تھیں، دین سے اسے کوئی سروکار نہ تھا۔

قصہ کوتاہ اس کتاب کی تصنیف کا مقصد یہ ہے کہ قاری کو اپنے عقیدے، اظہار رائے اور عمل میں آزادی حاصل ہوتا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق عمل کر سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اگر ضرورت پڑے تو اسے چاہیے کہ اپنی متاع جان بھی لٹا دے بلکہ اس سے بڑھ کر بھی قربانی کے لئے تیار رہے۔

تاریخ کے گہرے مطالعے سے مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ اگر حکمران آمر اور جابر نہ ہوتے تو اسلام اس انداز سے پھیلتا کہ آج اس روئے زمین پر ایک بھی غیر مسلم نہ ہوتا۔

آخری بات یہ ہے کہ جب لوگ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کے رنگ ڈھنگ بدل جاتے ہیں اور ان کا دامن اچھے اوصاف سے خالی ہوجا تا ہے۔ (اقتدار میں آنے سے پہلے لوگ جن سیاستدانوں کو معتبر خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اعلی اخلاقی اصولوں کو نہیں توڑیں گے وہی سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد توڑ جوڑ کی ڈپلومیسی کرنے لگ جاتے ہیں) اس قاعدے سے صرف وہ لوگ مستثنی ہیں جنھیں خدا گمراہی سے محفوظ رکھتا ہے البتہ ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔