امام زمانہ کتب اہل سنت میں

روایات امام مہدی اہل سنت کی کتب میں شیعوں کی طرح اہل سنت کی کتابوں میں بھی بہت سی روایات امام مہدی کے بارے میں نقل کی گئی ہیں حتی کہ بعض اہل سنت کے مصنفین نے مستقل کتابیں امام مہدی کے بارے میں لکھی ہیںجس سے وہ اعتراض بھی دور ہوجاتا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ یہ عقیدہ صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص ہے اہل سنت کے وہ علماء جنہوں نے امام مہدی کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی ہیں ان می ںسے بعض درج ذیل ہیں جیسے اربعون حدیثا :   ۔ابونعیم اصفہانی(م۴۲۰ھجری جس نے باقاعدہ امام مہدی سے مخصوص چالیس احادیث کے عنوان سے کتاب لکھی ۔ البیان فی اخبارصاحب الزمان ۔ابوعبداللہ محمد گنجی شافعی نے یہ مستقل کتاب امام مہدی کے بارے میں لکھی ہے اور اس کوگیارہ بابوں میں تقسیم کیا ہے اور اپنی کتاب کے آخری باب کا عنوان رکھا ہے فی الدلالۃ علی جواز بقاء المھدی حیا ''پس اس بنا پر اس نے نہ صرف امام کی ولادت اور غیبت کو قبول کیا ہے بلکہ اس پر ہونے والے ہراشکال کوبھی رد کیا ہے اور کہا ہے کہ امام زندہ ہیں عقدالدررفی اخبار المنتظر: جو یوسف بن یحیی ٰ بن علی بن عبدالعزیز مقدسی شافعی کی لکھی ہوئی ہے جس نے اس کتاب کو بارہ بابوں میں تقسیم کیا ہے العرف الوردی فی الاخبار المھدی: جو جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی نے امام مہدی کے موضوع پر لکھی ہے ۔ البرھان فی علامات مھدی آخرالزمان :کہ جس کو علاء الدین بن حسام الدین مشہورمتقی ھندی نے لکھا ہے اوراس میں ٢٧٠احادیث کو ذکر کیا ہے ان کے علاوہ اہل سنت کے اکثر علماء نے اپنی کتابوں میں امام مہدی کے بارے میں روایات کو نقل کیا ہے امام احمد بن حنبل نے امام زمانہ عج کے بارے میں ١٣٠روایات کو ذکر کیا ہے کہ جو ایک مستقل کتاب "احادیث المھدی "کے عنوان سے بھی چھپ کر منظر عام پر آگئی ہے یہاں ہم فقط چند ایک احادیث کو بطور مثال بیان کرتے ہیں پہلی حدیث: :  بخاری ،ابوھریرہ سے نقل کرتا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم صحیح بخاری ،ج٤،ص ١٤٣؛مسلم نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے صحیح مسلم ،ج١،ص ٩٤ تم پرکیا گزرے گی جب عیسی ابن مریم نازل ہونگے حالانکہ امام تم میں سے ہوگا ۔ صحیح بخاری اور مسلم کے تمام شارحین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث امام مہدی کے بارے میں ہے اور اس مورد کے علاوہ اس کی تشریح ممکن نہیں شیعہ کتب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب حضرت عیسی نازل ہونگے تو نماز کے وقت حضرت امام مہدی سے کہیں گے کہ نماز پڑھائیں اور صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی اسی بات کی طرف اشارہ کررہی ہے جس سے امام مہدی عج کی عظمت بھی سمجھی جاسکتی ہے ۔اور ساتھ یہ بھی کہ امام مہدی اور حضرت عیسی دو شخصیات ہیں اور ان لوگوں کا جواب بھی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ حضرت عیسی ہی امام مہدی عج ہیں ۔ یہی ان کی اپنی معتبر کتاب کہ یہ حدیث ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ دوسری حدیث : امام مہدی عج امام علی اور فاطمہ زہرا کی اولاد میں ہونگے ۔ قال: علی بن ھلال  قال: دخلت علی رسول اللہ فی شکاتہ التی قبض فیھا فاذا فاطمۃ ،سلام اللہ علیھا ۔عندراسہ ،قال: فبکت حتی ارتفع صوتھا فرفع رسول اللہ ؐطرفہ الیھا فقال :حبیبتی فاطمۃ ماالذی یبکیک ؟فقالت اخشی الضیعۃ من بعدک ۔ فقال ؐیاحبیبتی ۔۔۔۔۔۔ علی فلما قبض النبی لم تبق فاطمۃ بعدہ الاخمسۃ وسبعین یوما حتی الحقھا اللہ بہ ۔ؐ ترجمہ علی بن ہلال نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ ؐکی بیماری کے آخری ایام میں کہ جس بیماری کے سبب رسول خدا ؐنے اس دنیا سے رحلت فرمائی ان کے گھر گیا اور فاطمہ زہرا ۔سلام اللہ علیھا کو ان کے والدکے سرہانے بیٹھے دیکھا کہ آپ بلند آواز سے گریہ کررہی تھیں اس وقت پیغمبر نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا میری بیٹی !کیوں اتنا رورہی ہو ؟جواب دیا ڈرتی ہوں کہ آپ کے بعد میراحق ضایع نہ ہوجائے ؟اس وقت رسول خدا نے فرمایامعلوم ہے کہ خداوند متعال نے اہل زمین پر نگاہ ڈالی اور ان میں سے آپ کے والد کو منتخب کیا پھر اسے نبوت عطاکی ؟خداوند متعال نے ایک بار پھر اہل زمین پر نگاہ ڈالی اور آپ کے شوہر کو منتخب کیا اور مجھ پر وحی نازل کی کہ میں آپ کی شادی علی سے کردوں ؟اے فاطمہ ہم اہل بیت ہیں کہ جنہیں خدا نے سات خصوصیات ہمیں عطا کی ہیں کہ جو نہ ہم سے پہلے کسی کو عطا کیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا کیں ۔ میں خاتم المرسلین ہوں اورتمام انبیا میں سے خدا وند متعال کے نزدیک محبوبترین اور عزیزترین ہوں اور میں آپ کا باپ ہوں ؛ میراجانشین بہترین وصی ہے اور خدا وند منان کے نزدیک محبوبترین ہے اور وہ آپ کا شوہر ہے ؛ ہمارا شہید سب سے عظیم ہے اورشہیدوں میں سے خداکے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اور وہ حمزہ بن عبدالمطلب آپ کے والد اور آپ کے شوہر کا چچا ہے ؛ وہ ہم سے ہے جس کو خدانے دوپرعطاکیے ہیں جن کے ذریعے بہشت میںدوسرے فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتا ہے اورجہاں چاہے پرواز کرے وہ جعفربن ابیطالب، آپ کے والد کے چچا کا بیٹا اور آپ کے شوہر کا بھائی ہے اس امت کے دوسبط ہم میں سے ہیں یعنی تیرے دوفرزند حسن وحسین علیھماالسلام یہ دونوں جوان اہل بہشت کے سردار ہیںقسم اس ذات کی جس نے مجھے مبعوث فرمایا کہ ان کا والد ان سے عظیم ہے ؛ اے فاطمہ !اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ان دونوں سے اس امت کا مہدی ہوگا جب دنیا لاقانونیت اور ہرج ومرج کا شکارہوگی فتنے اور فساد عام ہونگے راستے ناامنی کا شکارہونگے بعض لوگ دوسرے لوگوں پر حملے کریں گے بڑے چھوٹوں پر مہربانی نہیں کریں گے اور چھوٹے بڑوں کا احترام نہیں کریں گے ۔۔۔۔اس وقت خداوند متعال ان دونوں کی اولاد میں سے اس کو مبعوث فرمائے گا کہ جو گمراہی کے قلعوں کا خاتمہ کرے گا اور دلوں پر لگے تالے کھولے گا آخری زمانے میں خداکے دین کو سرافرازی عطاکرے گا جس طرح کہ میں نےرسالت ابتدائی زمانے میں خداکے دین کو قائم کیا وہ دنیا کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ؛ اے فاطمہ غمگین نہ ہو اور گریہ مت کر تحقیق خداوند متعال تیرے لیے مجھ سے زیادہ مہربان اور رؤف ہے اس مقا م اورمنزلت کی وجہ سے جو میری نظروں میں تمہارے لیے ہے خدا نے تجھے وہ شوہر عطاکیا ہے جو نسب کے لحاظ سے ہم اہل بیت میں سے شریف ترین انسان ہے وہ امت میں سے محبوب ترین ،مہربان ترین ،عادل ترین اورداناترین ہے میں نے اپنے خداسے درخواست کی ہے کہ میری اہل بیت میں سے سب سے پہلے جو مجھ سے ملے وہ تم ہو ؛ علی ؑ نے فرمایا :جب رسول خدا ؐکی رحلت ہوئی ٧٥دن سے زیادہ نہیں گزرے تھے کہ خدا نے اسےفاطمہ کو اپنے باپ کے ساتھ ملحق کردیا اور اس جہان فانی سے کوچ کرگئیں( محمد بن یوسف بن محمد قرشی گنجی شافعی ،البیان فی اخبارصاحب الزمان ،باب ١،ح١،ص٨١۔٨٣ تیسری حدیث  :مہدی اہل بیت پیغمبر میں سے ہوں گے عن ابی داوود،عن عثمان بن ابی شیبۃ ،عن فضل بن رکین ،عن قطر ،عن قاسم بن( ابی بزہ) ابی برۃ عن ابی الطفیل ،عن علی علیہ السلام عن النبی ؐوقال  لولم یبق من الدھر الایوم لبعث اللہ رجلا من اھل بیتی یملاھا عدلاکماملئت جورا ۔ ابوداوودعثمان بن ابی شیبہ سے ،اس نے فضل بن رکین سے ،اس نے قطر سے ،اس نے قاسم بن ابی بزہ یا ابی برہ سے ،اس نے ابوطفیل سے اور اس نے علی ؑسے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکر م ؐ نے فرمایا اگر دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ جائے تو بھی خداوند متعال میری اہل بیت میں سے ایک شخص کو مبعوث فرمائے گا جو دنیا کو عدل سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی (سنن ابی داوود ،ج٢،ص ٢٠٧؛مسند احمد بن حنبل ،ج١،ص ٩٩؛ینابیع المودۃ ،ص٥١٩) چوتھی حدیث  :غیبت میں صبر کرنے والوں کا اجرعن سعید بن جبیر عن ابن عباس ۔رضی اللہ عنھما ۔قال قال رسول اللہ ؐان علیا امام امتی من بعدی ومن ولدہ القائم المنتظر الذی اذاظھریملاالارض عدلا وقسطاکماملئت جورا وظلما ،والذی بعثنی بالحق بشیرا ونذیرا ان الثابتین علی القول بامامتہ فی زمان غیبتہ لاعزمن الکبریت الاحمر ۔ فقام الیہ جابربن عبداللہ الانصاری فقال یا رسول اللہ ولولدک القائم غیبۃ ؟ قال ای وربی لتمحصن الذین امنوا ویمحق الکافرین ،یاجابر ان ھذاامرمن امراللہ وسرمن سراللہ ،مطوی من عباداللہ ،فایاک والشک فیہ فان الشک فی امراللہ عزوجل کفر سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا  :تحقیق علی میرے بعد اس امت کا امام ہے اور اس کی اولاد میں سے قائم منتظر دنیا میں آئے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وستم سے بھر چکی ہوگی اس ذات کی قسم کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا تحقیق جو غیبت کے زمانے میں اس کی امامت پر ثابت قدم رہیں گے کبریت احمر سے بھی زیادہ ان کی ارزش ہوگی اس وقت جابربن عبداللہ انصاری اٹھے اور عرض کی :اے رسول خدا !کیا آپ کے بیٹے قائم آل محمد کے لیے غیبت ہوگی ؟ رسول خدا نے جواب دیا جی ہاں ،خداکی قسم ایسا ہی ہے تاکہ مومنین کو خالص بنائے اور کافروں کو تباہ وبرباد کرے اے جابراس کی غیبت خداکے کاموں میں سے ایک کام ہے اور خداکے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ جو خدا کے بندوں سے پوشیدہ ہے پس اس میں شک کرنے سے بچ ،کیونکہ خدا کے امر میں شک اور تردید کفر ہے قندوزی،ینابیع المودۃ ،ج٣،باب ٩٤، ص١٦٤۔١٦٩) پانچویں حدیث امام مہدی سے بیعت کا مکان عن اعمش ،عن زربن جیش ،عن حذیفۃ ،قال : قال رسول اللہ ؐلولم یبق من الدنیا الایوم واحد لبعث اللہ فیہ رجلا اسمہ اسمی وخلقہ خلقی یکنی اباعبداللہ یبایع لہ الناس بین الرکن والمقام ،یرداللہ بہ الدین ویفتح لہ فتوحا فلایبقی علی ظھر الارض الامن یقول لاالہ اللہ فقام سلمان فقال یارسول اللہ من ای ولدک ھو؟ قال من ولد ابنی ھذا،وضرب بیدہ علی الحسین ۔علیہ السلام ۔اعمش نے زربن جیش سے اور اس نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :اگرچہ دنیا کے ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ جائے توبھی خداوند متعال ایک ایسے مرد کومبعوث فرمائے گا کہ جو میراہمنام اور اس کا اخلاق میرے اخلاق کی طرح اور اس کی کنیت ابوعبداللہ ہوگی لوگ مسجدالحرام میں رکن اور مقام کے درمیان اس کی بیعت کریں گے خداوند متعال اس کے واسطے سے لوگوں کے درمیان اپنے دین کو سرفرازی عطاکرے گا اور اس کے ہاتھ پر بہت سی فتوحات نصیب فرمائے گاپس دنیا میں کوئی ایساانسان نہیں ملے گا مگر یہ کلمہ توحید لاالہ اللہ کا اقرار کرے گا اسی دوران سلمان فارسی اٹھے اور عرض کی یارسول اللہ !یہ مرد آپ کی عترت میں سے کس کابیٹا ہوگا ؟ پیغمبر اکرم نے فرمایا اس کی اولاد میں سے اور ساتھ اپنا ہاتھ امام حسین ابن علی کے کندھے پر رکھا گنجی شافعی ،کتاب البیان ،باب١٣،فی ذکر کنیتہ ۔۔۔اوراربلی ،کشف الغمہ ،ج٣،ص٢٧٥ چھٹی حدیث لقب مہدی ہے ۔ حاکم نیشاپوری نے ابن سعید خدری سے روایت نقل کی ہے کہ حدثنا ابوالعباس محمد بن یعقوب ،ثنامحمد بن اسحاق الصغانی ،ثناعمرو بن عاصم الکلایی ،ثناعمران العطان ،ثناقتادہ ،عن ابی نضرۃ ،عن ابی سعید رضی اللہ عنہ ،قال : قال رسول اللہ ؐ المھدی منا اھل البیت۔۔۔ رسول خدا نے فرمایاکہ مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگاالمستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری ح٨٨٢٠؛سنن ابن ماجہ ،باب خروج المھدی ؑ،ج١٣،ص٢٥٥، ساتویں حدیث : سعید بن مسیب کہتا ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس تھا کہ حضرت امام مہدی کا ذکر آیا تو ام سلمہ نے فرمایا :میں نے رسول خدا ؐسے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا المھدی من ولد فاطمہ کہ مہدی فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا (سنن ابن ماجہ ،ج١٢،ص ٢٥٦،ح٤٢٢٤) چند مہم نکات مذکورہ بالا ر وایات کی روشنی میں چند ایک مہم نکات سامنے آتے ہیں ۔ ١:اولایہ کہ جوآخری زمانے میں ظہور فرمائے گا اور دنیا کو عدل وانصاف سے پر کردے اور الہی حکومت کا قیام کرے گا اس کا لقب مہدی ہوگا ۔ ٢:دوسرا نکتہ یہ امام مہدی کے ظھور کا عقیدہ رکھنا واجب ہے تمام شیعہ اور اہل سنت امام مہدیؑ کے ظھور کا عقیدہ رکھتے ہیں شاید اہل سنت کے چند ایک افراد مل جائیں کہ جنہوں نے ان روایات کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن مسلمانوں کے اجماع کے سامنے ان کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ ٣:امام مہدی ،پیغمبراکرم ؐکی اہل بیت اورحضرت علی اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوں گے ۔ ٤:جب امام مہدی ظھور فرمائیں گے توحضرت عیسی ٰ ان کی نصرت کے لیے زمین پر آئیں گے اوران کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔ ٥:امام مہدی کا ظھور سرزمین مکہ سے ہوگا اور لوگ آپ کی بیعت کریں گے ۔ ماخوذ از کتاب موعود ادیان مہدی صاحب الزمان عج "مصنف تصورعباس خان امام مہدی عج کے وجود پر اجماع ہے امام مہدی (عج) کے عقیدہ پر مسلمانوں کا اجماع، عقیدہ مہدویت کے مسلم الثبوت ہونے پر صدر اسلام کے مسلمانوں میں اجماع واضح اور بلا شبہ ہے اجماع مسلمین سے مرادصرف اجماع شیعہ نہیں ہے کیونکہ یہ واضحات میں سے ہے اورسب جانتے ہیں کہ عقیدہ وجو دوظہور امام مہدی(عج) اصول وضروریات مذہب شیعہ اثنا عشری میں سے ہے جس میں کوئی بحث کی گنجائش نہیں ۔ بلکہ اجماع مسلمین سے مراد اجماع شیعہ و اہل سنت ہے رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین کے درمیان عقیدہ مہدی(عج) مسلم تھا اورظہور حضرت امام مہدی (عج) کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں تھا، اسی طرح قرن اول کے بعد سے لے کر چودہوں صدی ہجری تک آپ کے ظہور کے سلسلے میں بھی تمام مسلمانوں کے درمیان اتفاق تھا ، اوراگر کوئی ان احایث کی صحت اوران کے رسول خدا سے صادر ہونے کے بارے میں شک یاتردد کرتے تو اس شخص کی ناواقفیت پر حمل کرتے تھے ، یہی وجہ ہے آج تک تاریخ اسلام میں جھوٹے اور جعلی مہدیوں کی رد میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ عقیدہ ہی باطل ہے ، بلکہ حضرت مہدی(عج) کے اوصاف اور علامتوں کے نہ ہونے کے ذریعے رد کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ” ابو الفرج“ لکھتے ہیں : ” ابوالعباس “ نے نقل کیا ہے کہ میں نے مروان سے کہا” محمد[بن عبداللہ] “ خود کو مہدی کہتے ہیں ، اس نے کہا: نہ وہ مہدی موعود (عج) ہے نہ ان کے باپ کی نسل سے ہوگا بلکہ وہ ایک کنیز کا بیٹا ہے ۔( مقاتل الطالبین ،ص۲۴۱ ؛ آفتاب عدالت ، ص ۸۵۔) ابو الفرج ہی لکھتے ہیں : جعفر بن محمد [ امام جعفر الصادق] علہ اسلام جب بھی محمدبن عبداللہ کو دیکھتے گریہ کرتے تھے اورفرماتے تھے ” ان پر [ حضرت مہدی (عج)] میری جان فدا ہو، لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص مہدی موعود ہے جب کہ یہ قتل کیا جائے گا اورکتاب علی علیہ السلام میں امت کے خلفاءکی لسٹ میں اس کا نام نہیں ہے ۔( مقاتل الطالبین ،ص۶۶۱ ؛ آفتاب عدالت ، ص ۱۶۔) مختصریہ کہ ” عقیدہ مہدویت “ صدر اسلام سے ہی مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا اورلوگوں میں اتنا راسخ ہوگیا تھا کہ وہ صدر اسلام ہی سے ان کے انتظار میں تھے اورہر لمحہ صحیح مصداق کی تلاش میں رہتے تھے اورکبھی غلطی سے بعض افراد کو مہدی سمجھ بیٹھتے تھے ، اور جیسا کہ عرض کیا مسئلہ مہدی (عج) پر مسلمانوں کا اجما ہے ۔چنانچہ : ۱۔ ” سویدی “ ” سبائک الذہب“ میں تحریر کرتے ہیں : ”الذین اتفق علیہ العلماءان المہدی ھو القائم فی آخر الوقت ، انّہ یملاءالارض عدلاً والاحادیث فیہ وفی ظہورہ کثیرہ ۔“ وہ چیز جس پر علماءاسلام کا اتفاق ہے وہ یہ ہے مہدی قائم کی شخصیت جو آخری زمانے میں ظہور فرمائیں گے اورزمین کو عدل سے پر کردیں گے۔ اورحضرت مہدی(عج) کے وجود اورظہور کے بارے میں احادیث بہت زیادہ ہیں۔(سویدی ، سبائک الذہب ، ص ۸۷۔) ۲۔ جناب ابن ابی الحدید معتزلی ” شرح نہج البلاغہ “ میں لکھتے ہیں : ” قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی انّ الدنیا والتکلیف لاینقض الّا علیہ ۔“( شرح نہج البلاغہ ، ج۳،ص ۵۳۵۔) تمام شیعہ وسنی مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ دنیا اور تکلیف ختم نہیں ہوگی مگر یہ کہ حضرت مہدی پر ، یعنی حضرت مہدی کے ظہور کے بعد۔ ۳۔ شیخ علی نامف ” غایة المامول “ میں لکھتے ہیں: ”اتّضح مماسبق ان المہدی المنتظر من ہذہ الامة وعلی ہذا سلفاً وخلفاً۔(۔غایة المامول شرح تاج جامع الاصول ، ج۵، ص۹۹۲۔) ” مہدی منتظر اسی امت میں سے ہیں اوراہل سنت میں سے جو لوگ گزر گئے اور جو آنے والے ہیں سب کا یہی عقیدہ تھا اور ہے ۔“ ۴۔ علامہ شیخ محمد سفاری حنبلی ؛ ” لوایع الانوار البہیّة“ میں لکھتے ہیں ”فاالایمان بخروج المہدی واجب کما ہو مقرر عنداہل العلم ومدوّن فی عقاید اہل السنہ والجماعة“ امام مہدی کے خروج اور ظہور پر ایمان رکھنا واجب ہے جیسا کہ یہ بات اہل علم کے نزدیک مشخص اور عقائد ہ اہل سنت والجماعت میں لکھی ہوئی ہے ۔( لوایع الانوار البہیہ وسواطع الاسرار الاثر یہ ، ج۲، ص ۷۳۔) ۵۔ جناب ابن خلدون ” المقدمہ میں لکھتے ہیں : ”اعلم انّ المشہور بین الکافہ من اہل الاسلام علی ممرالاعصار انّہ لابدّ من آخر الزمان من ظہور رجل من اہل البیت یوید الدّین ویظہر العدل ویتبعہ المسلمون ویستولی علی الممالک الاسلامیہ ویُسمی باالمہدی “ ” جان لیں ! تمام اہل اسلام [ اعم از شیعہ وسنی ] میں یہ بات مشہور تھی اورہے کہ آخر ی زمانے میں اہل بیت پیغمبر میں سے ایک شخص ظہور فرمائے گا وہ دین کی مدد کرے گا اور عدل کا قیام کرے گا اورتمام مسلمان اس کی پیروی کریں گے ، وہ اسلامی ممالک کی سرپرستی کرے گا اوراس کا نام مہدی ہوگا۔( ۔مقدمہ ابن خلدون ج۲، ص ۱۸۷، باب فی امر الفاطمی ومایذہب الیہ الناس۔) ۶۔علامہ محمد جواد مغنیہ مصری ” الشیعہ والتشیع “ کے ص، ۶۳۲ پر لکھتے ہیں ”وجود مہدی(عج) کو عقل کے سامنے پیش کیا تو انکار نہیں کیا، قرآن کی طرف رجوع کیا تو اس موضوع کے مشابہ بہت پایا، حدیث نبوی کی طرف مراجعہ کیا ، حدیثیں بہت زیادہ تھیں ، اہل سنت والجماعت کی کتابوں میں تلاش وجستجو کی تو سب کو اپنا ہم عقیدہ پایا، پس کس طرح یہ مسئلہ[ مہدی(عج)] مسائل خرافی میں سے ہے ؟ فاضل مصنف حضرت مہدی(عج) کے بارے میں علماءاہل سنت کے اقوال کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں” پس یہ مہدی(ع) جسے ترمذی، ابن ماجہ ، ابی داوود، ابن حجر ، ابن صباغ مالکی وصفدی وغیرہ کہتے ہیں وہی مہدی موعود ہیں جن کے وجود کے شیعہ قائل ہیں :اگر حضرت مہدی(عج) کا وجود مسائل خرافی میں سے ہے تو اس کے ،ذمہ دار خود پیغمبراکرم(ص) ہیں ، اور وہ لوگ جو وجود مہدی(ع) کا مذاق اڑاتے ہیں حقیقت میں یہ لوگ اسلام اور رسول اکرم (ص)کا مذاق اڑاتے ہیں ، کیوں کہ پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا :” من انکر المہدی فقد کفر بما انزل علیٰ محمد “ جس نے مہدی کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا ۔( الشیعہ والتشیع، ص ۶۳۲۔) ۷۔قاضی بھلول آفندی المحاکمہ فی تاریخ آل محمد “ میں لکھتے ہیں :”انّ ظہورہ امراتفق علیہ المسلمون فلا حاجة الیٰ ذکر الدلیل۔“حضرت مہدی(عج) کا ظہور ایک ایسا امر ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ، لہذا کسی دلیل کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ تھے چند بزرگ سنی علماءکے اقوال جن میں وجود اور ظہور حضرت امام مہدی(عج) پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے ۔ ۸۔ ایک اورقول ملاحظہ فرمائیں ” حضرت مہدی(ع) کے ظہور اورآمد کے بارے میں دنیا کے کسی مسلمان کا اختلاف نہیں، اہل سنت کے چاروں امام اور عہد حاضر میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر حضرت امام مہدی(عج) کے ظہور اورآمد پر متفق ہیں البتہ اہل سنت اور شیعہ! دونوں کے عقاید کے مطابق امام مہدی(عج) کا ایک ہونا کسی بھی چھوٹی سی روایت اورآنحضرت کی بیان کردہ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ ” ہم نہیں جان سکے کہ شیعہ نے ظہور مہدی کے بارے میں جو عقیدہ اپنا یا ہے اس کا مآخذ کیا ہے ، صرف آنحضرت ہی نہیں بلکہ شیعہ کے مذکورہ عقیدے کی تائید میں حضرت علی رض حضرت حسن ؛اورحضرت حسین رض کی طرف سے بھی کوئی سند نہیں ملتی۔“ ”آنحضرت کی بیان کردہ احادیث کے مطابق ” بعثت مہدی“ کا عقیدہ تو تیار ہوگیا ، لیکن وہ آنحضرت کی بیان کردہ ساٹھ ۶۰ سے زیادہ علامات کو اپنے مزعوم ” امام مہدی ع “ پر منطبق نہ کرسکے۔ انہیں یہ مشکل ہر دور میں پیش آئی ہے (حضرت امام مہدی، ضیاءالرحمن فاروقی،ص۱۷،۱۸،۲۰) یہ تھے جناب فاروقی صاحب کے الفاظ کہ انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ظہور حضرت مہدی(عج) کے بارے میں مسلمانوں کے تمام مکاتب اتفاق نظر رکھتے ہیں ان کے اور دوسرے علماءاہل سنت کے اقوال کا نتیجہ یہ ہے کہ ” عقیدہ وجود وظہور حضرت مہدی (ع)“ ؛مسلمانوں کے متفق علیہ عقاید میں سے ایک ہے اوراس عقیدے کے واضع خود پیغمبر اکرم (ص) ہیں ۔ لیکن جناب فاروقی کا یہ کہنا کہ ” شیعہ اوراہل سنت کے عقاید کے مطابق امام مہدی(عج) کا ایک ہونا کسی بھی چھوٹی سی روایت سے ثابت نہیں ہوتا“ ایک غلط دعویٰ ہے ، کیونکہ حضرت مہدی(ع) کے بارے میں جوروایتیں وارد ہوئی ہیں اسے شیعوں نے بھی نقل کیا ہے اورسنی محدثین نے بھی، رہا شیعوں کی روایات کے مآخذ ، ! تو اسے جناب فاروقی صاحب بھی جانتے تھے کہ شیعہ روایات کاماخذ ومنبع وحی الہیٰ ہے جو خاندان وحی ( یعنی آل رسول ) کے توسط سے ان تک پہنچی ہے ، لہذا کبھی بھی مقام تطبیق میں مشکل سے دچار نہیں ہوئے ۔ کاش فاروقی صاحب ( عدم تطبیق) کی تہمت لگانے سے پہلے شیعہ علماءاورمحققین کی کتابیں پڑھنے کی زحمت گوارا کرتے تو جس طرح وجود وظہور حضرت مہدی(عج) کا انکار نہ کرسکے اسی طرح واضح ہوتا کہ شیعوں کے نزدیک حتی وجود وذات والامقام حضرت مہدی(ع) بھی کبھی مبہم نہیں رہا اور وہ ابھی تک اس مسئلے میں دوسروں کے برخلاف مطمئن رہے ہیں اس لئے کہ جس کے ظہور کے وہ منتظر ہیں ابھی ان کا ظہور ہوا ہی نہیں ورنہ روایات شیعہ جن اوصاف کا ذکر کرتیں ہیں وہ سب ان کے امام پر کاملاً منطبق ہیں ۔ لیکن افسوس اہل سنت کے کچھ افراطی وتفریطی گروہ پر جو مدارک سند تاریخ اوراسلامی افکار کے گہرے مطالعہ کی محرومی یاکتب اہل سنت میں موجود متضاد احادیث کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے ہیں یاہورہے ہیں ، لیکن جن بزرگ سنی علماءنے اسلامی افکار اوراحادیث کا گہرا اور دقیق مطالعہ کیا ہے انہوں نے پہلے گروہ کے خلاف امام مہدی (عج) کے شیعی تصور ( جسے پیغمبر اکرم (ص) اوران کے اہل بیت(ع) نے پیش کیا تھا) کو قبول کیا رسول خدا (ص)اورائمہ اہل بیت(ع) سے ایسی سیکڑوں احادیث وارد ہوئی ہیں جن سے حضرت مہدی (ع) کا تعیین ہوتا ہے ، نیز ان احادیث کی دلالت اس بات پر ہے کہ حضرت امام مہدی(عج) ، اہل بیت(ع) میں سے ہون گے ،اولاد فاطمہ (س) میں سے ہوں گے ، حضرت امام حسین(ع) کی ذریت میں سے ہوں گے وہ امام حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ۔ امام یاخلیفہ وامیر بارہ ہوں گے ، ان میں پہلے علی (ع)اورآخری مہدی (ع) ہوں گے یعنی مہدی(عج) بارہ اماموں میںسے ایک ہیں ۔ یہ روایات اس عام تصور کو ائمہ اہل بیت(ع) کے بارہویں امام ( حضرت مہدی بن حسن عسکری (ع) ) میں محدود کردیتی ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ان روایات کو نقل کرنے والے جناب بخاری ومسلم وابی داوود واحمد ، امام محمد تقی وامام علی النقی اورامام حسن العسکری کے ہمعصر تھے اس سے یہ بات واضح سمجھ میں آتی ہے کہ اس احادیث کو رسول اللہ سے اس وقت نقل کیاگیا جب کہ خارج میں اس کا مصداق نہیں تھا اور ائمہ کی تعداد مکمل نہیں ہوئی تھی۔ لہذا یہ شک نہیں کیا جاسکتا کہ یہ احادیث ، شیعہ ائمہ (ع)کی واقعی تعداد کے مطابق نقل کردی گئی ہے تاکہ ان کے بارہ امام کے عقیدے کی تقویت ہو جائے اورجب تک ہمارے پاس یہ دلیل ہے کہ مذکورہ احادیث ائمہ اثناعشر ( جن کے شیعہ قائل ہیں ) کی واقعی تعداد مکمل ہونے سے پہلے ہی کتابوں میں نقل کی گئی ہے تو ہم اعتماد سے کہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث کسی طے شدہ منصوبے کے تحت جعل نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ ایک الہیٰ حقیقت ہے جسے اس نے بیان کیا ہے جو اپنی طرف سے اوراپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتا ہے [ وماینطق عن الہویٰ ان ہو الاّ وحی یوحیٰ] اور خلیفہ یاامام ، یاامیر ، بارہ ہوں گے آپ کی یہ پیشین گوئی اس وقت پوری ہوئی جب یہ تعداد امام المتقین امیر المومنین علی ابن ابی طالب(ع) سے شروع ہوک امام مہدی(ع) تک بارہ ہوگئی اس طرح حدیث نبوی کاایک مصداق خارج مین متحقق ہوگیا ،” فماذا بعد الحقّ الاّ الضلال فانّیٰ تصرفون۔“ (سورہ یونس ، آیت ۲۳۔) اور حق کی روشن راہ کے بعد بجز گمراہی کچھ نہیں تو تم کہا بہکے جارہے ہو؟ روایات خلفا ا ثنی عشرپر اھل سنت کی تطبیق اور اس کا رد مھدی موعود کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے مسلمات میں سے ہے اہل سنت کے مختلف فرقوں کے علماء مھدویت کے متعلق روایات کومتواتر مانتےہیں ابن حجرھیثمی مکی ،احمد السرود الصباح ،شیخ محمد الخطابی المالکی ،اور شیخ یحیی بن محمد الحنفی اھل سنت کے چاروں فرقوں کے یہ بزرگ علماء مھدویت کے بارےمیں وارد ہونے والی احادیث کوصحیح السند اورمسلم مانتے ہیں (مھدی فقیہ ایمانی اصالۃ المھدی فی الاسلام ص۱۲۰) لیکن شیعہ کے نزدیک مھدویت کا عقیدہ ضروریات مذھب میں سے ہے علامہ حسن زادہ کہتے ہیں اگر کوئی حضرت مھدی موعود عج کے بارے میں شیعہ وسنی روایات کا بغور مطالعہ کرے تو اس کے لیے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مھدی موعودعج پہ ایمان اور ان کے ظہور کاعقیدہ صدراسلام سے لوگوں کے اذھان میں تھا اگر ہم شیعوں کی  تفسیری ، حدیثی ،تاریخی اور عقیدتی کتابوں کامطالعہ کریں تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب سے پہلی ھستی جس نے مھدویت کےعقیدے کےمتعلق اور مھدی عج کی صفات کےمتعلق گفتگوکی وہ خود رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور آپ ص خود اس نظریے کے سب سے پہلے مروج تھے اگرچہ مھدی موعود کے مصداق میں اختلاف ہے لیکن مھدویت کے اصل عقیدے کی کوئی مخالفت نہیں کرتا اور یہ ایک شیعہ سنی کے مسلمات میں سے ہے ۔اور صدراسلام سے لےکرآج تک کوئی بھی مھدویت کے عقیدے کامنکرنہیں گذرا ہے مکتب خلافت کےطرفداروں کی لکھی گئی کتابوں میں مھدی موعود عج کے ظہور کو قیامت کی سب سے بڑی نشانی کے طور پرمانا گیاہے اور بعض کتابوں میں تواس عبارت کے ساتھ لایاگیاہے کہ (اشراط الساعہ )یعنی قیامت کے وقوع پذیر ہونے کی شرط (ملاحظہ ہو مجمع الزواید ج۱۴ ص۳۲۷ الاساس فی السنن سعید جوی ج۲ص۹۶۲ کنز العمال ص ۲۰۳ ) شھید مطہری فرماتےہیں کہ اگرچاہتےہو کہ دیکھوکہ مھدویت کامسئلہ فقط شیعوں کے ساتھ مختص نہیں ہے تودیکھوکہ مھدویت کے جھوٹے دعویدار شیعوں میں زیادہ تھے یا اھل سنت میں تودیکھوگے کہ اھل سنت میں مھدویت کے دعویدار زیادہ تھے (مجموعہ آثارشھید مطھری ج۱۸ ص۱۴۸) بعض دانشمندوں کی تحقیق کےمطابق حضرت مھدی عج کانام اھل سنت کی تقریبا ۷۰سےزیادہ کتابوں میں آیا ہے  خلاصہ یہ کہ عقیدہ مھدویت اھل سنت کے نزدیک ایک ناقابل انکار حقیقت ہے روایات : بعض کتابوں کےمصنفین نے خلفای اثنی عشر (یعنی بارہ خلیفہ یاامام )کی روایات کوصحاح ستہ سےنقل کیاہے یہ روایات ائمہ اثنی عشر(بارہ اماموں )کی امامت پردلالت کرتی ہیں اس لیے کہ حضرت مھدی عج بھی ان میں سے ایک ہیں اس لیے یہ روایات حضرت مھدی عج کی امامت کوبھی اثبات کرتی ہیں اھل سنت کی روایات : ایک روایت میں آیا ہے کہ حدثنی محمد بن المثنی ،حدثنا غندر ،حدثنا شعبہ ، عن عبدالملک سمعت جابربن سمرۃ قال :سمعت النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول :یکون بعدی اثنا عشر امیرافقال کلمۃ لم اسمعھافقال ابی :انہ یقول کلھم من قریش (ملاحظہ ہو صیحیح بخاری چاپ بیروت ج۸ کتاب الاحکام باب الاستخلاف ص ۱۷۱ حدیث نمبر  ۷۲۲۲  ) ترجمہ:   جابر کہتاہے کہ میں نےرسول اکرم ﷺسےسنا کہ آپ نےفرمایا کہ میرےبعد بارہ جانشین (خلیفے ،امام )ہوں گے جابرکہتاہے کہ اس کےبعد رسول اکرمﷺنے ایک کلمہ فرمایا جومجھے سمجھ نہ آیا میرےوالد نے کہا کہ پیامبر نے فرمایا :وہ تمام قریش سے ہونگے ۔ باقی صحاح کےمصنفین نے بھی اس حدیث کونقل کیاہے (صحیح مسلم  ج۶ کتاب الامارۃ باب یتبع الناس لقریش ص۳ح ۴۸۰۵ ،۴۸۰۶،۴۸۰۷،۴۸۰۸،۴۸۰۹،۴۸۰۱۰ سنن ترمذی ج۳ باب ما جاء فی الخلفاء ص۳۴۰ ح ۲۳۲۳،۲۳۲۴ سنن ابی داود ج۲ ص ۳۰۹ ح ۴۲۷۹،۴۲۸۰،۴۲۸۱) اھل سنت کےمحدثین علماءاور دانشمندحضرات ان احادیث کو جن میں بارہ اماموں یا خلیفوں کا تذکرہ آیا ہے ان احادیث کوعالی السند ،معتبر اور مقطوع الصدور کہتے ہیں اور ان روایات کی صحت کےبارے میں کوئی شک وشبہ نہیں رکھتے لیکن اھل سنت کوجومشکل پیش  آتی ہے وہ بارہ خلیفہ پورے کرنے میں ہے کہ کس طرح اس مشکل کوحل کیا جائے اس لیے ان کے علماء میں اختلاف ہے اس جہت سے اور ہر کسی نے اپنی سمجھ کے مطابق ایک نظریہ دیاہے ہم ان میں سے پندرہ علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں جو ایک دوسرے کے بھی خلاف ہیں اور ساتھ ان کا جواب (۱)پہلا قول یہ کہ ان روایات سے مراد وہ فتنے ہیں جورسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعد وقوع پذیر ہونگے خلفاء کی تعداد زیادہ ہونے کی بنا پر امت اسلامی بھی تقسیم ہوجائے گی (فتح الباری فی شرح البخاری چاپ بیروت ج۱۳ کتاب الاحکام باب الاستخلاف ص۲۶۱ ح۷۲۲۲) جواب  :یہ  احتمال باطل ہے کیونکہ بارہ خلیفوں کے بارے میں جوروایات وارد ہوئی ہیں وہ خلفاء کی تعریف میں وارد ہوئی ہیں اگر یہ روایات پہلے قول کے مطابق آخری زمانے کے فتنوں کے بارےمیں ہو جس طرح کہ پہلے قول سے واضح ہے توپھر یہ روایات خلفاء کی تعریف میں نہیں ہیں بلکہ ان کی مذمت میں ہونگی اور یہ خود روایات کے مطالب کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتا (۲)یہ بارہ خلیفے ایک ہی زمانہ میں آئیں گے اور امت کے اختلاف کا سبب  بھی نہیں بنیں گے جواب :یہ بات کہ  وہ بارہ کے بارہ ایک ہی زمانہ ہونگے یہ قول بھی باطل ہے کیونکہ وہ سب کےسب ایک زمانے میں اکٹھے نہیں ہوسکتے کیونکہ یہ امت کے تقسیم اور اختلاف کا سبب ہوگا اور دوسرا ان روایات میں خلفاء کو تشبیہ دی گئی ہے بنی اسرائیل کے نقباء سے جوایک زمانے میں نہیں تھے پس یہ بھی ایک زمانے میں نہیں ہوسکتے (۳)روایات کی تعبیرات اور الفاظ مختلف ہیں لہذا کوئی حتمی نتیجہ نہیں لیا جاسکتا جواب :یہ  کہ ان روایات سے کوئی معنی بھی نہیں سمجھا جاسکتا یہ قول بھی بے بنیاد ہے کیا رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں اس قدر مجمل کہا ہے کہ کچھ بھی نہیں سمجھا جاسکتا ؟اگر تھوڑی سی دقت کے ساتھ شیعہ اور سنی روایات کامطالعہ کیا جائے تومقصود واضح ہوجاتاہے (۴)ان روایات سےمراد یہ کہ رسول اکرم نے اپنے بعد کے خلفاء کی خلافت کی خبردی ہے اور بس جواب :چوتھا قول یہ کہ یہ احادیث پیامبر اور خلفاء کے بعد کی خلافت کوبیان کرتی ہیں یہ بھی درست نہیں ہےکیونکہ پیامبر نے اس حدیث میں فرمایاہے کہ (۔۔۔۔یکون بعدی ۔۔۔۔)میرے بعد نہیں فرمایا کہ (یکون بعدی وبعد اصحابی )اگربالفرض چوتھا قول قبول کرلیا جائے تو پھر کیسے یہ احادیث خلفاء کی تعریف میں آسکتی ہیں جبکہ پیامبر اوراصحاب کے بعد فسق وفجور اور ظلم وستم حکومتوں کا کام تھا اور ظالم حکمران آتے رہے ۔ (۵)ان روایات سےمرادحضرت مھدی عج کی خلافت کے بعدجو خلفاء آئیں گے وہ مراد ہیں جواب :یہ قول بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس قول کے مطابق حضرت مھدی عج کے ظہور تک زمین حجت خدا سے خالی رہے گی درحالانکہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہنی چاہیے کیونکہ خلفاء کا متصل ہونا ضروری ہے اور اگرزمین حجت خدا سے خالی رہ جائے تو زمین غرق ہوجائے گی اور یہی اشکال وارد ہے قول نمبر (۷)  (۸)  (۱۰) اور (۱۱)نمبر پر غور کیجیے (۶)یہ روایات بنی امیہ کی حکومت کی طرف اشارہ ہے البتہ بنی امیہ کی حکومت کاتختہ الٹنے سے پہلے جواب :یہ قول بہت ہی تعجب آور ہے  کیونکہ یہ روایات جوخلفاء کی تعریف اور ان کی شان میں نازل ہوئیں ہیں کیسے انہوں نے معاویہ اور اس جیسے خلفاء پر منطبق کرتے ہیں جبکہ ان کا ظلم وستم کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور شیعہ اور سنی علماء اور دانشمند حضرات معاویہ کوعادل نہیں مانتے اسی طرح کیسے یزید اس روایت کا مصداق بن سکتاہے کہ جس کا فسق وفجور کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ؟کیا یہ روایات ان کے بارے میں آئی ہیں جنہوں نے قرآن کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا (۹)ان روایات میں خلفاء سےمراد وہ حاکم ہیں جوعلویوں کی خلافت کے بعد ظاہر ہونگے جواب :اگر ان کی مراد علویوں کی حکومت سےمراد مصر میں علویوں کی حکومت مراد ہے تو پھر بھی وہی مشکل ہوگی کہ زمین حجت خدا سے خالی ہوگی اور اگر مراد امام مھدی عج کی حکومت مراد ہے تو بھی یہی مشکل (۱۰) ان سےمراد ابوبکر سے لے کرعمربن عبدالعزیز تک مراد ہیں (۱۱)روایات سےمراد خلفاء راشدین اور بعض بنی امیہ کے حکمران ہیں البتہ یزید کے علاوہ (۱۲)بارہواں قول یہ ہے کہ روایت میں خلفاء سے مراد خلفاء راشدین مراد ہیں اور بعض بنی امیہ کے خلفاء بھی کہ یزید ان میں سے ایک ہے جواب :یہ قول تو اصلا قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یزید بھی ان میں سے شمار ہ ان میں سے شمار کیا گیا ہے جس کومسلمان اصلا قبول نہیں کرتے (۱۳)اس روایت میں خلفاء سےمراد خلفاء راشدین ہیں اور باقیوں کا حال مشخص نہیں ہے یہ قول بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ انسان کے ضروری ہے کہ وہ اپنے خلیفہ کوپہچانے اور اس کی اطاعت کرے کیونکہ من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیہ اگر امام اور خلیفہ وقت کی پہچان ہی نہ ہو تو اس کی پیروی کیسے کی جائے گی (۱۴)چودھواں قول یہ کہ اگر خلافت سے مراد خلافت ظاہری مراد ہے تو یہ خلفاء راشدین کے علاوہ عمر بن عبدالعزیز کوبھی شامل ہے اگر مراد خلافت ظاہری مراد ہے تو بنی امیہ اور عباسیان کے بعض خلفاء کو بھی شامل ہے جواب :یہ تقسیم جو چودھویں قول میں کی گئی ہے یہ تقسیم بشری اور اعتباری ہے درحالانکہ جو خداوند متعال کی طرف سے خلیفہ ہے وہ ظاہرمیں بھی خلیفہ ہے  اور باطن میں بھی (۱۵)پندرہواں قول یہ ہے کہ جومشخص اور معین ہے وہ یہ کہ جن بارہ خلیفوں کا تذکرہ روایت میں آیا ہے وہ شیعوں کے بارہ امام نہیں ہیں کیونکہ امامت نہیں کہا بلکہ خلافت کہا ہے جواب :یہ صرف تعصب کی بنا پر ہے اور اسی بنا پر آج تک ان سے یہ مسئلہ حل نہیں ھوسکا اور جس کے دل میں جوآیا اس نے اپنا نظریہ بنا لیا حالانکہ شیعوں میں یہ مشکل نہیں ہے کیونکہ حق پر ہیں اور یہ جو کہاہے کہ خلافت مراد ہے امامت مراد نہیں ہے حالانکہ قرآن میں خود خلافت سے مراد یعنی خدا کی طرف سے حاکم اورامام کے ہے مثلا واذقال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (سورہ بقرہ ۳۰ ) یا داود انا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالعدل (سورہ ص آیۃ ۲۶ ) اور خلیفہ سے مراد اپنے غیر کا نائب قرار پانا ہے اور جونائب بن رہا ہے ضروری ہے کہ اس میں ایسی صفات ہوں جومنوب عنہ (جس کا نائب بن رہاہے )اس میں موجود ہوں نبی معصوم تھے اب اگر ان کا جانشین اور خلیفہ اور نائب بننا ہے تواس کوبھی معصوم ہونا چاہیے اور فقط شیعہ اپنے اماموں کی عصمت کے قائل ہیں اور اس عصمت کو آیۃ تطھیر اور حدیث ثقلین سے ثابت کرتے ہیں اور کسی قسم کی مشکل بھی نہیں اور عقل کے نزدیک بھی ہے نہ حیران ہیں کہ بارہ اماموں کی تعداد کیسے پوری کریں جیسا کہ اھل سنت والے آج تک پریشان ہیں کہ کیسے بارہ کی تعداد پوری کریں کس کوداخل کریں اور کس کوخارج کریں تاکہ بارہ پورے ہوجائیں اور نہ زمین کے حجت خدا سے خالی رہنے کا اشکال شیعوں پر آتاہے کیونکہ ان کے نزدیک ان کا بارہواں امام موجود ہے نقد عام : ہرایک قول کوذکرکرکے اس کا جواب دیا جاچکاہے اب ایک کلی اشکال جوان تمام اقوال وارد ہے اس کوذکرکرتے ہیں نقد عام جو تمام اقوال کے رد میں ہے اور اس کے بعدہرایک قول احتمال کو رد کیا جائے گا (۱)پیامبر کے خلیفوں کاتعین خداوند متعال کی جانب سے ہے نہ اپنی رائے اور اجماع کے ذریعے کیونکہ بعض روایات میں پیامبر کے خلفاء کو تشبیہ دی گئی ہے بنی اسرائیل کے نقباء کے ساتھ اور بنی اسرائیل کے نقباء خداوند متعال کے حکم سے تعیین ہوئے تھے جیسا کہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ ولقد اخذنا میثاق بنی اسرائیل وبعثنا منھمم اثنا عشر نقیبا "(۴۰)  ومن قوم موسی امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون وقطعناھم اثنا عشر اسباطا (۴۱) پس معلوم ہوا کہ خلیفہ کے انتخاب میں لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہے اور مذکورہ پندرہ احتمالات کی کوئی قیمت نہیں ہے کیونکہ یہ سب اس وقت اہمیت رکھتے ہیں کہ جب لوگ خلیفہ کوانتخاب کرنے کا حق رکھتے ہیں اور جیسا کہ قرآن کی آیت سے ثابت ہے کہ یہ حق صرف خداوند متعال کو حاصل ہے (۲)ان روایات میں جوبارہ خلیفوں کے بارے میں وارد ہوئیں ہیں علماء اور دانشمندوں میں اختلاف ہے کہ ان سے کونسے بارہ خلیفے مراد ہیں یہاں تک کہ اتنے حیران وپریشان تھے کہ جس کے ذھن میں جوکچھ آیا اس نے اپنے ذھن کے مطابق ایک نظریہ دے دیا اور یہاں تکہ پندرہ سے بھی زیادہ اقوال ذکر ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی متفق علیہ (جوسب کا مورد قبول ہو)نظریہ اور قول پیش نہیں کرسکے (۳)پہلے چار خلیفوں کے بعد خلافت بادشاھی میں تبدیل ہوچکی تھی پس اس کوخلافت کہنا درست نہیں ہے (۴)اھل سنت کے علماء اور دانشوروں کی سب سے مھم دلیل اجماع ہے اور اجماع فقط علی علیہ السلام کے لیے حاصل ہوا تھا (۵)علماء اھل سنت کے اقوال آپس میں ایک دوسرے کے موافق نہیں ہیں لہذا قابل قبول بھی نہیں ہیں (۶)تمام یہ اقوال نص کے مقابل میں اجتھاد ہے کیونکہ خلافت کااثبات متوقف ہے نص پر کہ خدا وند متعال نے اسے اپنے ساتھ مخصوص کیا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا (۔۔۔۔۔وجعلنا ائمۃ یھدون بامرنا )۴۵ترجمہ:اور ہم نے امام قرار دیے جوہمارے حکم سے ھدایت کرتےہیں (۔۔۔۔انی جاعلک للناس اماما ) ۴۶ ہم نے تجھے لوگوں کےلیے امام بنا دیاہے پس امام اور خلیفہ کا تعین کرنا خود خدا کا کام ہے اور اگر لوگ خود انتخاب کرنے ہیں تویہ نص کےمقابلے میں اجتھاد ہے جوباطل ہے (۷)یہ تمام اقوال اھل سنت کی بعض روایات کے مخالف ہیں بعض روایات میں آیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ میرے بعد خلافت تیس سال ہے ،، جبکہ بارہ خلیفے پورے کرنے کے لیے تیس سال سے بھی اوپر چلے گئے ہیں پس اس روایت کے خلاف ہے (۸)ان اقوال کی بنا پر خلفاء کے درمیان فاصلہ آجاتاہے جونہیں آنا چاہیے کیونکہ حجت الھی کے درمیان فاصلہ یعنی اھل زمین کا تباہ ہونا جیسا کہ حدیث ہے کہ (لاتخلواالارض من خلیفۃ )۴۸ یعنی زمین کبھی حجت خدا اور خلیفہ الھی کے بغیرخالی نہیں رہ سکتی اگر ایسا ہوجائے توزمین اپنے اھل کے ساتھ دھنس جائے گی اھل سنت کے علماء بھی کہتے ہیں کہ اھل بیت کا وجود اھل زمین کے لیے امان ہے انہوں نے حدیث امان کوذکر کیاہے اور کہا ہے کہ زمین کی امان اھل بیت علیھم السلام ہیں اگر زمین ان کے وجود سےخالی ہوجائے تو امان میں نہیں ہوگی یعنی تباہ وبرباد ہوجائے گی احمد بن حنبل کہتاہے کہ (خداوندکریم نے زمین کو پیامبر اکرم کی خاطر خلق کیا اور اس کی ہمیشگی کو آنحضرت کی اھل بیت کے ساتھ مشروط کردیا )۵۰ یعنی زمین اس وقت تک امان میں ہے جب تک رسول کی عترت میں سے اور حجت خدا موجود ہوگا پس ان پندرہ اقوال کے درمیان کوئی جامع قول نہیں ہے جوسب کوشامل ہوتاکہ اس پر عمل کیا جائے بلکہ ہر کسی کے ذھن میں جوبات آئی اس نے بیان کردی جوقابل قبول نہیں ہے جبتکہ کوئی محکم دلیل نہیں ہو جب اصحاب خلیفہ کے بارے میں سوال کرتے کہ آپ کےبعد خلیفہ کون ہوگا تو ان کے خیال میں یہ تھا کہ امام اور خلیفہ اللہ کی جانب سے ہے جو خدا نے تعیین فرمانا ہے اور رسول خدا بھی فرماتے تھے کہ میرے خلیفوں کی تعدا بنی اسرائیل کے نقباء کی تعداد کے مطابق ہے امام زمانہ عج کی ولادت اور اھل سنت علما امام مہدی(عج اللہ فرجہ الشریف) کا موضوع ایسا موضوع نہیں ہے کہ محض شیعہ حضرات اس پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس موضوع پر تمام اسلامی دانشور خواہ وہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں سب متفق ہیں نیز سب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کے خاندان سے ہوں گے ، ان کے ہم نام ہوں گے اور علی و فاطمہ علیھما السلام کی نسل مبارک سے ہوں گے اور جب ظہور فرمائیں گے تو وہ دنیا کہ جو ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اسلامی مفکرین اور دانشوروں کا یہ اتفاق اس بنا پر ہے کہ امام مہدی (عج) کے حوالے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے احادیث متواتر بلکہ ان سے بڑھ کر احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ ہاں البتہ اس حوالے سے اہل سنت میں اختلاف نظر موجود ہے کہ آیا وہ امام حسن(ع) کی اولاد میں سے ہوں گے یا امام حسین(ع) کی اولاد میں سے ہوں گے یا یہ کہ آیا وہ پیدا ہوچکے ہیں یا پیدا ہوں گے؟ اہل سنت کے وہ علماء اور مفکرین جو شیعہ علماء کی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ امام مہدی(عج) پیدا ہوچکے ہیں اور ابھی زندہ ہیں اور امام حسن عسکری(ع) کے فرزند ارجمند ہیں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے مثلا ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں : (۱)ابوسالم کمال الدین محمد بن طلحہ بن محمد قرشی شافعی اپنی کتاب مطالب السؤل فی مناقب آل رسول میں۔ ظہور امام زمانہ عج کے بارے میں اہل سنت کی حدیثیں صدر اسلام میں ” عقیدہ مہدویت“ کے مسلم اوررائج العقیدة ہونے کی وجہ سے سنی روایات بھی حضرت مہدی (عج) کے ظہور پر گواہ ہیں جو کہ کتب حدیثی ، رجالی ، تاریخی وغیرہ میں نقل ہوئی ہے ، قارئین کی آگہی کے لئے چند نمونے پیش کرتے ہیں ۔ 1:” احمد بن حنبل ، حدثنا عبداللہ، حدثنی ابی ، حدثنا عبدالرزاق، ثنا جعفر عن المعلیٰ بن زیاد، ثنا العلاءبن بشیر، عن ابی الصدیق النااجی ، عن ابی سعید الخدری رض قال: قال رسول اللہ: ابشرکم باالمہدی یبعث اللہ فی امتی علی اختلاف من الناس وزلازل ، فیملاالارض قسطا وعدلاً کما ملئت ظلماً وجوراً یرض عنہ ساکن السماء وساکن الارض “ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں ، ہم سے عبداللہ نے حدیث بیان کی ، ان سے ان کے والد نے حدیث بیان کی ، ان سے عبدالرزاق نے حدیث بیان کی ان سے جعفر نے ، ان سے معلی بن زیاد نے ان سے علاءبن بشیر نے حدیث بیان کی انہوں نے ابی صدیق ناجی سے ، انہوں نے ابی سعید خدری سے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا: میں تمہیں مہدی (عج) کی بشارت دیتا ہوں کہ وہ میری امت میں اس وقت مبعوث ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف پھوٹ پڑے گا اورگمراہی عام ہوجائے گی ، پس وہ زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ، زمین وآسمان کے رہنے والے ان سے راضی ہوں گے (۔ مسند احمد بن حنبل، ج۶، ص ۰۳، باب اشراط الساعہ؛ عقد الدرر، باب۷، ص ۷۰۲۔) 2:ابی داوود ، ذکر عبدالرز اق ، اخبرنا معمر بن ابی ہارون العبدی ، عن معاویة بن قرة، عبن ابی الصدیق الناجی ، عن ابی سعید الخدری قال: ذکر رسو اللہ : بلایا تصیب ہذہ الامة لایجد ملجاءاً یلجاءالیہ من الظلم ، فبعث اللہ رجلاً من عترتی اہل بیتی فیملاءالارض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً وظلماً یرضی عنہ ساکن السماءوالارض ” ابی سعید خدری نے کہا: رسول خدا نے فرمایا: میری امت پر ایسی مصیبتیں پڑیں گی کہ انہیں ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی جائے پناہ حاصل نہیں ہوگی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت عترت مین سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی ، زمین وآسمان کے رہنے والے ان سے راضی ہوگے۔ “(۔ سنن ابی داوود ، کتاب المہدی ، ج۴، ص ۷۰۱ ؛ البیان فی اخبار صاحب الزمان ( کنجی شافعی) باب ۹، ص ۴۰۱۔) 3:عن ابی جعفررضی اللہ عنہ اذا تشبہ الرّجال بالنساءولنساءباالرجال وامات النّاس الصلواة ، والتبعوا الشہوات واستخفوا بالسمائ وتظاہروا باالزناءوشیدً والنساء،واستحلو الکذب واتبعو الہویٰ وباعوالدّین باالدنیا، وقطعوا الارحام وکان الحلم ضعفاً والظلم فخراً ، والامراءفجرة والوزراءکذبہ ، ولامناءخونة والاعوان الظلمة ، والقرّاءفسقہ وظہر الجور وکثر الطلاق وبداءالفجور وقبلت شہادة الزور وشرب الخمور ورکبت الذکور بالذکور ، واستغنت النساءباالنساء، واتخذ الفیءمغنماً والصدقہ مغنما واتقیٰ الاشرار مخانة السنتہم ، وخرج السفیانی من الشّام والیمانی من الیمان وخسف بالبیداءبین مکہ ومدینہ وقتل غلام من آل محمد بین الرکن والمقام وصاح صالح من السماءبان الحق معہ ومع اتباعہ قال فاذا خرج السندہ ظہرہ الی الکعبة واجتمع الیہ ثلثماة وثلاثة عشر رجلاً من اتباعہ فاوّل ماینطق بہ ہذہ الایة بقیة اللّہ خیر لکم ان کنتم مومنین ثم یقول: انابقیة ، وخلیفتہ ، وحجتہ علیکم ، فلا یسلم علیہ احدالاّ قال َ السلام علیک یابقیة اللّہ فی الارض ، فاذا اجتمع عندہ العقد عشرة الآف رجلٍ ، فلا یبقی یہودیَّ ولانصرانی ، ولااحد عن یعبد غیر اللّہ الاّ آمن وصدقہ وتکون الملک واحدہ ملة الاسلام ، وکل ماکان فی الارض من معبود، سوی اللہ تعالیٰ تنزّل علیہ ناراً من السماءفتحرقہ۔ ابی جعفر [ امام محمد باقر(ع) ] رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ” جب مرد عورتوں سی وضع قطع اختیار کریں اور عورتیں مردانی شکل وصورت بنائیں اور جب لوگ نماز کو ترک کریں خواہشات نفسانی کی اتباع کریں خون بہانا آسان سمجھنےلگیں اورلوگ علناً زنا کے مرتکب ہونے لگیں مرد اپنی عورتوں کے مطیع ہوجائیں جھوٹ اور رشوت حلال ہوجائے خواہشات نفسانی کی پیروی کرنے لگیں دین کو دنیا کے مقابلے میں بیچنے لگیں ، قطع رحم کرنے لگیں جب حلم کو ضعف کی علامت اور ظلم کو فخر سمجھا جانے لگے حاکمان وقت فاجر ہوں گے ان کے وزرا خائن اور ظالم حکمرانوں کے مدد گار ہوں قاریان قرآن فاسق ہوں گے اورظلم وفساد ظاہر ہوجائے اورکثرت سے طلاق ہونے لگے فسق وفجور عام ہوجائے اورجھوٹی گواہی قبول کرنے لگیں اور شراب پینے لگیں مرد ، مرد پر سوار ہوں گے اور عورتیں دوسری عورتوں کی وجہ سے مردوں سے بے نیاز ہو جائیں گیں ، فئی اور صدقہ[بیت المال] کو مال غنیمت سمجھا جانے لگے آدمی کی اس کے شر اوربد گوئی کے خوف سے اس کی عزت کی جائے ،شام سے سفیانی اور یمن سے یمانی خروج کریں ۔ اور آل محمد کے ایک جوان کو رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان قتل کیا جائے اور آسمان سے ندا دینے والا ندا دے گا کہ حق اس کے حضرت مہدی اور اس کی اتباع کرنے والوں کےساتھ ہے پس اس وقت جب وہ حضرت مہدی (عج) ظہور فرمائیں بیداءکی زمین ، جو کہ مکہ اورمدینہ کے درمیان گے خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے ہوں گے اور ارد گرد تین سو تیرہ (۳۱۳) افراد ان کے پیروکاروں میں سے جمع ہوجائیں گے اور جس چیز کی سب سے پہلے تلاوت ہوگی یہ آیت ہے۔” بقیة اللّہ خیر لکم ان کنتم مومنین “ اس کے بعدآپ (عج) فرمائیں گے ، میں بقیة اللہ اس کا خلیفہ اورحجت خدا ہوں پس کوئی سلام کرنے والا ایسا نہ ہوگا ، مگر یہ کہ سب کہیں گے ہمارا سلام ہو تم پر ای ذخیرہ خدا پس جب ان کے پاس دس ہزار افراد ( انصار) جمع ہوجائیں گے تو اس وقت [روی زمین پر]نہ کوئی یہودی باقی رہے گا اور نہ نصرانی اورنہ کوئی ایسا شخص جو غیر خدا کی عبادت کرتا ہومگر یہ کہ سب لوگ اس پرایمان لائیں گے اوراس کی تصدیق کریں گے (اس وقت)ایک ہی حکومت ہوگی اور وہ ملت اسلامیہ کی حکومت ہے اور سوای اللہ تعالی کے زمین پر موجود تمام معبودوں [ یعنی ہر وہ شیءجس کی لوگ پرستش کرتے ہیں] پر اللہ تعالی آسمان سے آگ نازل کرے گا اوروہ آگ سب کو جلادے گی۔“(نورالابصار ، باب الثانی، ص ۵۵۱، مومن شلنجی متوفی ، ۱۹۲۱ھ ق ۱)۔ 4:”ابن ماجہ ، حدثنا حرملة بن یحی المصری وابراہیم بن سعید الجوہر قالاثنا ابو صالح عبدالغفار بن داود والحیرانی ثنا ابن ابی الھیعہ عن ابی زرعہ عمرو بن جابر الحضرمی عن عبداللّہ بن الحرث بن جزءالزبیدی قال: قال رسول اللّہ یخرج الناس من المشرق فیوطﺅن للمہدی یعنی سلطانہ حافظ ابن ماجہ متوفی ۳۷۲ھ لکھتے ہیں ، ہم سے حرملہ ابن یحیٰ مصری نے وابراہیم سعید جوہر نے حدیث بیان کی کہ ان دونوں نے کہا ہم سے عبدالغفارابن داوود حیرانی نے حدیث بیان کی ، ان سے ابن ابی لھیعہ نے حدیث بیان کی ان سے ابی زرعہ عمرو بن جابر حضرمی نے ، ان سے عبداللہ بن حرث بن جزءزبیدی نے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا: مشرق سے لوگوں کا ایک گروہ قیام کرے گا وہ مہدی یعنی اپنے سلطان کے لیے تیار ہونگے۔“(سنن ابن ماجہ ، ابواب الفتن باب خروج المہدی ص ۸۶۳۱ ، ج۲ومنتخب کنزالعمال برحاشیہ مسند احمد ابن حنبل ، ج۶، ص۹۲)۔ 5:ابن ابی شیبہ حدثنی مجاہد حدثنی فلان  رجل من النّبی : ان المہدی لایخرج حتی یقتل النفس الزکیہ فاذا قتلت النفس الزکیہ غضب علیہم من فی السماءومن فی الارض فاتی الناس المہدی فزقّوہ کما تزفّ العروس الی زوجہا لیلة عِرسِہا وہو یملاءالارض قسطاً وعدلاً ابن ابی شیبہ کہتے ہیں ہم سے مجاہد نے حدیث بیان کی ،ان سے ایک صحابی نے حدیث بیان کی ، کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا نفس زکیہ کے قتل کے بعد خلیفہ خدا مہدی کا ظہور ہوگا جس وقت نفس زکیہ قتل کردئے جائیں گے زمین وآسمان والے ان کے قاتلین پر غضبناک ہوں گے اس کے بعد لوگ مہدی کے پاس آئیں گے اورانہیں شوق وشتیاق سے دلہن کی طرح اراستہ وپیراستہ کریں گے اوروہ اس وقت زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں ( ان کے زمانے میں ) زمین اپنی پیداوار بڑھادے گی اور آسمان سے پانی خوب برسے گااور ان کے دور خلافت میں امت میں اس قدر خوشحال ہوگی کہ ایسی خوش حالی کہ اس سے پہلے لوگوں کو کبھی نصیب نہ ہوئی ہوگی ( المصنف ابن ابی شیبہ ، متوفی ۳۵۲ ،ص ۸۹۱، الحادی للقنادی ، سیوطی ، باب الادب والرتق ، ج۲ ، باب اخبار المہدی) ۔ 6:الصدیق الناجی عن ابی سعید الخدری قال، قال النّبی : ینزل بامتی فی آخر الزمان بلاءشدید من سلطان فہم لم سمع بلآءاشد منہ حتّی تفیق عنہم الارض الرحبہ وحتی یملاءالارض جوراً وظلماً لایجد المومن ملجاءاً یلتجی الیہ من الظّلم فیبعث اللّہ عز وجل من عترتی فیملاءالارض قسطاً وعدلاً کماملئت ظلماً وجوراً یرضی عنہ ساکن السماءوساکن الارض لاتدخر الارض من بذرھا شیئاً الّا صبّہ اللّہ علیہم مدراراً یعیش فیہم سبع سنین او ثمان او تسع تتمنّٰی الاحیاءالاموات ممّا صنع اللّہ ۔ رسول اللہ نے فرمایا: ” آخری زمانے میں میری امت کے سرپر ان کے پادشاہ کی جانب سے ایسی مصیبتیں نازل ہوں گے اس سے پہلے کسی نے اس کے بارے میں نہ سنا ہوگا اور میری امت پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی زمین ظلم وجور سے بھر جائے گی ، مومنین کا کوئی فریاد رس اور پناہ دینے والا نہ ہوگا ، اس وقت خدا وند عالم میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے پرہوچکی ہوگی ۔ آسمان وزمین کے رہنے والے ان سے راضی ہوں گے ، اس کے لئے زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور آسمان سے مسلسل بارشیں ہوںگی سات یا آٹھ یانو سال لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرے گا اورزمین میں رہنے والوں پر [ آپ کے دور میں ] اللہ تعالیٰ کی طرفسے جورحمتیں نازل ہوں گی [ اسے دیکھ کر] جو زندہ ہیں وہ مردوں کے زندہ ہونے کی آرزو کریں گے ، اوریہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے ۔ (۔مستدرک الحاکم ، ج۴، ص ۲۱۵کتاب الفتی و الملاحم ”عن ابی سعید الخدری) 7:”حافظ ترمذی حدثنا عثمان بن ابی شیبہ ، ثنا الفضل بن وکین ، ثنا فطر، عن القاسم بن ابی بزہ عن ابی طفیل عن علی رضی اللہ عنہ، عن النّبی قال لولم یبق من الدہر الاّ یوم یبعث اللہ رجلاً من اہل بیتی یملائہا عدلاً کما ملئت جوراً۔“ حافظ ترمزی ، ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے حدیث بیان کی ، ان سے فضل بن وکین نے حدیث بیان کی ، ان سے فطر نے حدیث بیان کی ان سے قاسم ابن ابی بزہ نے ، ان سے ابی طفیل نے انہوں نے علی ابن طالب  سے انہوں نے پیغمبر اکرم سے کہ آنحضرت نے فرمایا: اس دنیا کی عمر اگرچہ ایک دن ہی کیوں نہ رہ گئی ہو ، پر بھی اللہ تعالی اس دن کو طولانی کردے گا اوراس میں میرے اہل بیت  میں سے ایک شخص کو مبعوث فرمائے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔ ( سنن ترمذی ، ابواب الفتن ، باب ماجاءفی المہدی ، ج۴، ص ۳۴؛ ایضاً جامع الاصول من احادیث الرسول ، ج۱۱، حدیث ۱۱۸۷؛ البیان فی اخبار صاحب الزمان باب اول ، ذکر خروج المہدی فی آخر الزمان ، ص ۶۸ ؛ الصواعق المحرقہ ، الایة الثانیة عشر، ص ۳۶۱) 8:” ترمذی ، حدثنا عبیدبن اسباط بن محمد القرشی ، اخبرنا ابی ، اخبرنا سفیان الثوری عن عاصم بن بھدلة عن زرِّ ، عن عبداللہ قال: قال رسول اللہ : لاتذہب الدنیا حتی یملک العرب رجل من اہل بیتی یواطی اسمہ اسمی “ وھذا حدیث حسن صحیح۔ ترمذی ، ہم سے عبیدبن اسباط بن محمد قرش نے حدیث بیان کی ، ان کو ان کے والد نے خبردی ان کی سفیان ثوری نے خبردی ، انہوں نے عاصم بن بدلہ سے ، انہوں نے رز [بن جیش] سے انہوں نے عبداللہ [ بن مسعود] سے کہ انہوں نے کہا: رسول خدا نے فرمایا: دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک میراہم نام ایک شخص میرے اہل بیت میں سے پورے عرب پر حکومت نہ کرے ۔ اور اس باب میں علی ، ابوسعید ام سلمہ اورابوہریرہ سے بھی احادیث منقول ہیں اوریہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ ( سنن ترمذی ، ابواب الفتن ، باب ماجاءفی المہدی ، ج۱، ص ۲۰۸۔) 9:”احمد بن حنبل ، عن رزّ ، عن عبداللّہ ، عن النّبی ” لاتقوم الساعة حتی یلی رجل من اہل بیتی ، یواطئی اسمہ اسمی“ احمد رز نے عبداللہ سے ، انہوں نے پیغمبر اکرم کہ حضور نے فرمایا: اس وقت تک قیامت برپانہ ہوگی جب تک میرے اہل بیت میں سے میر ا ہم نام ایک شخص ظہور نہ کرے (مسند احمد، باب اشراط الساعة ، ج۵، ص۰۳ 10:”کنجی شافعی ، عن ابن عباس انّہ قال ، قال رسول اللہ کیف تہلک امة انا فی اولّہا وعیسیٰ فی آخر ہا والمہدی فی وسطہا۔“ ابن عباس رسول اللہ سے ناقل ہیں کہ آپ نے فرمایا: وہ امت کیوں کر ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول میں ، آخر میں عیسیٰ اور وسط میں ”مہدی “ ہیں ( البیان ، ص ۶۲۱ ؛ کنز العمال ، ج۴۱ ص ۶۲۲۔) نوٹ: اس حدیث سے ممکن ہے ، یہ توہم پیدا ہو کہ حضرت امام مہدی  کے بعد حضرت عیسیٰ  زندہ رہیں گے اورامت اسلامی کی قیادت کریں گے ، لیکن یہ توہم صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ دوسری احادیث میں وارد ہوا ہے ” لاخیر فی العیش بعدہ “ ( امام مہدی) ولاخیر فی الحیات بعدہ “ ان کے[مہدی] بعد زندگانی میں کوئی بھلائی نہیں اورنہ ہی ان کے بعد زندہ رہنے میں کوئی بھلائی ہے ۔ اس قسم کی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ(ع) حضرت مہدی (عج) سے پہلے رحلت فرمائیں گے ، ورنہ ، جس قوم میں عیسیٰ بن مریم (ع) جیسا نبی اور ولی خدا موجود ہو ”لاخیر فی الحیات بعدہ“ معنی نہیں رکھتا ، ثانیاً : لازم آتا ہے کہ مخلوق الہیٰ بغیر امام اور حجت خدا کے باقی رہے یہ صحیح نہیں ہے(البیان فی اخبار صاحب الزمان باب العاشر ، ذکر کرم المہدی ، ص ۰۲۱)۔ المھدی ۳۱۳ سے ماخوذ اہل سنت کے نزد یک مھدی منتظر مھدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کےساتھ مختص نہیں (اگرچہ اس عقیدہ کو عروج مذھب شیعہ میں ملاہے )اور اھل سنت کے علماء کرام، فقھاء، محدثین، مورخین ،ادباء، مفکرین اور مفسرین بھی مھدی منتظر کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں اور مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے کہ مھدویت کا عقیدہ ضروریات دین اسلام میں سے ہے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ المجلۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورہ شمارہ نمبر ۲ ص ۱۴۴ میں لکھا ہے کہ امام مہدی عج کے ظہور کی تصدیق ایمان میں داخل ہے اورمھدی کے ظہور کی تصدیق یعنی رسول اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے قول کی تصدیق ہے اور جو مھدی کے ظہور کا انکار کرے یعنی اس نے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بات کو جھٹلایا ہے۔اس مختصر مضمون میں اھل سنت کی معتبر  کتابوں میں امام مھدی عج کے بارے میں جو  احادیث وارد ہوئی ہیں ان کو بیان کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے بعض متعصب قسم کے علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ مھدویت کا  عقیدہ اھل سنت کا نہیں ہے اور یہ صرف شیعوں کے ساتھ مختص ہے اور ان کا من گھڑت ہے  مثلا  ابن القیم اپنی کتاب  "اعاثۃ اللفھان من مصائد الشیطان " ص ۱۱۹ میں لکھتا ہے کہ شیعہ جو امام کا انتظار کررہے ہیں یہ مثل یہودیوں کے ہے جو داود نبی کے ایک بیٹے کا انتظار کررہے ہیں لیکن اھل سنت کی معتبر کتابوں کوپڑھنے سے اور وہ اصحاب جن سے یہ احادیث نقل ہوئی ہیں ،اھل سنت کے وہ علمائے کرام جنہوں نے باقاعدہ امام مھدی علیہ السلام پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ان سب سے یہ واضح ہوتاہے کہ یہ شیعوں کی من گھڑت احادیث نہیں ہیں ۔اور دوسری طرف ایک الھی حکومت کا انتظار کہ جس میں عدل وانصاف قائم ہو، خدا وند متعال کی عبادت ہو، کسی پر ظلم نہ ہو، کیا ایسی حکومت کا انتظار ایک مسلمان کا کمال اور فضیلت شمار ہوگایا وہ یہودی بن جائےگا۔ بہت ساری احادیث اھل سنت کی معتبر کتابوں میں مثل صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سنن ابی داود،  سنن ابن ماجہ اور دوسری کتابوں میں ذکر ہیں ملاحظہ ہو چند احادیث :عن ابی ھریرہ قال :قال رسول اللہ ﷺ "کیف انتم اذانزل ابن مریم وامامکم منکم "  (1) صحیح البخاری أحادیث الأنبیاء (3265),صحیح مسلم الإیمان (155),سنن الترمذی الفتن (2233),سنن أبو داود الملاحم (4324),سنن ابن ماجه الفتن (4078),مسند أحمد بن حنبل (2/483).اگرچہ اس حدیث میں واضح طور پر مھدی منتظر کا ذکر نہیں ہے لیکن دوسری روایات کی بنا پر اسی کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت عیسی جن کےپیچھے نماز پڑھیں گے ۔جیسے یہ روایت ہے کہ عن جابر -رضی الله عنه- قال: قال رسول الله صلى الله علیه وسلم: « ینزل عیسى ابن مریم فیقول أمیرهم ( المهدی ) تعال صل بنا فیقول: لا إن بعضهم أمیر بعض تكرمة الله لهذه الأمةجابر سے روایت ہے کہ عیسی ابن مریم نازل ہونگے اور ان (مسلمانوں )کے امیر،المھدی ان سے کہیں گے نماز پڑھائیں پس وہ کہے گا کہ نہیں بعض بعض کے امیر ہیں اور خداوند متعال نے اس امت کی تکریم کی ہے خود ابن القیم نے المنار المنیف میں جو متعصب ہے کہتا ہے کہ یہ سند بہترین اور مضبوط ہے (المنار المنیف ص ۱۴۸ )وعن أم سلمة -رضی الله عنها- قالت: سمعت رسول الله صلى الله علیه وسلم یقول: « المهدی من عترتی من ولد فاطمة » ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مھدی میری عترت فاطمہ کی اولاد میں سے ہوگا اس حدیث کو ابن ماجہ اور سیوطی نے جامع الصغیر میں اس حدیث کو صحیح مانا ہے اور ابن القیم نے المنار میں کہاہے کہ اس حدیث میں زیادبن بیان اور ثقہ ابن حبان ہے اور ابن معیں نے کہاہے کہ راوی ٹھیک ہیں ملاحظہ ہو المنار المنیف ۱۴۶اگرچہ بخاری نے کہا ہے کہ اس حدیث میں نظر ہے اس کی ہماری نگاہ میں کوئی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ اولا : کیونکہ اس حدیث میں جناب سیدہ فاطمہ  سلام اللہ علیھا  کا نام آیا ہے حالانکہ  دوسرے سب اھل سنت کے مصنفین نے اس حدیث کو قبول کیا ہے اور دوسری بہت ساری احادیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام مھدی عج رسول اکرم ﷺ کی عترت اور جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے ہوگا سیوطی نے جامع صغیر میں اس حدیث کو نقل کیاہے اور کہاہے کہ یہ حدیث صحیح ہے البانی جس کے ہاتھ سےبہت کم  راوی بچ نکلتے ہیں تخریج احادیث المشکاۃ میں کہتاہے کہ اس حدیث کی سند بہتریں اور مضبوط ہے۔  ثانیا :یہ کہ  اھل سنت کا شیعوں میں ایک اختلاف یہ ہے کہ شیعہ کہتے ہیں امام مھدی امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونگے اور بعض اھل سنت کہتے ہیں کہ امام حسن کی اولاد میں سے ہونگے حالانکہ دونوں مذھب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ امام مھدی عج جناب سیدہ کی اولاد میں سے ہونگے اور یہ ثابت ہے پس بخاری کا حدیث میں اشکال درست نہیں ہے۔اھل سنت کے بہت بڑے عالم دین اور مورد اعتماد شریف برزنجی اپنی کتاب (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ )ص ۱۱۲ لکھتاہے کہ امام مھدی عج کے وجود پر موجود روایات اور یہ کہ آخری زمانے میں ظہور فرمائیں گے اور وہ رسول اکرم ﷺ کی عترت اور جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے ہونگے، تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں کہ جن کا انکارکرنا اصلا  معنی نہیں رکھتا ۔پس بخاری کے قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ « لا تقوم الساعة حتى تملأ الأرض ظلما وعدوانا قال: ثم یخرج من عترتی أو من أهل بیتی من یملؤها قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وعدوانا »   رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت نہیں آئے گی یہاں تکہ زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی پھر فرمایا کہ میری عترت  اور اھل بیت ؑ سے وہ شخص آئے گا جو زمین کو عدل اور انصاف سے اس طرح بھر دے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی (مسند احمد بن حنبل  ج۳ ص ۳۶ابن تیمیہ جو متعصب ترین آدمی اور وھابیت کا رئیس مانا جاتاہے وہ بھی اپنی کتاب منھاج السنۃ میں ج۴ ص ۲۱۱ میں لکھتا ہے کہ المهدی أحادیث صحیحة رواها أبو داود والترمذی وأحمد وغیرهم من حدیث ابن مسعود وغیره . ترجمہ : مھدی کے بارے میں مستند احادیث وارد ہوئی ہیں کہ جن کو ابوداود ،ترمذی احمد بن حنبل اور دوسروں نے نقل کیا ہے جیسے ابن مسعود کی حدیث اور دوسری حدیثیں ۔یہاں تک کہ ابن حجر نے کہاہے کہ آخری زمانے میں حضرت عیسی کا نزول اور امام مھدی کے پیچھے نماز پڑھنا دلالت کرتاہے کہ الأرض لا تخلو عن قائم لله بحجة زمین حجت خدا سے، جوموجود ہو، خالی نہیں رہ سکتی اور یہ روشن دلیل ہے مذھب شیعہ کی حقانیت پر ابن حجر کے علاوہ بعض دوسرے علمائے اھل سنت نے بھی کبھی کبھی اس بات کا اقرار بھی کیا ہے جیسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ زمین حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی ۔پس معلوم ہوا کہ ظہور امام مھدی عج کا عقیدہ رکھنا دین اسلام کی ضروریات میں سے ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔لیکن پھر صرف شیعوں کومورد اعتراض ٹھرانے کی وجہ کیا ہے وجہ صرف یہ ہے کہ (۱)شیعوں کا عقیدہ امام مھدی کی امامت اور ظہور کےساتھ رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان جو اھل سنت کی معتبر کتابوں میں ذکر ہوا ہے  کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہونگے اور ان میں سے آخری مھدی ہونگے اب اھل سنت کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے سوائے یہ کہ اپنی سادہ عوام کو بے بنیاد شبھے ڈال کر ان کو شیعوں سے دور رکھا جائے اور شیعوں کا یہ عقیدہ کہ زمین حجت خدا سےخالی نہیں رہ سکتی اور ضروری ہے کہ ہر زمانے میں ایک امام کا ہونا ضروری ہے کہ جس کو بعض اھل سنت کے بزرگ علمائے اھل سنت نے بھی قبول کیاہے ایک اور واضح دلیل ہے مذھب شیعہ کی حقانیت پر جب متعصب لوگ ایسی دلیلوں کا سامنا کرتے ہیں اور کوئی جواب نہیں بن پاتا ناروا باتیں کرنے لگتے ہیں  ۔ کیا مھدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کے ساتھ مختص ہے بعض اھل سنت کہتے ہیں کہ مھدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کے ساتھ مختص ہے اور شیعوں کا من گھڑت عقیدہ ہے اور وہ تمام احادیث شیعوں کی من گھڑت ہیں اگرچہ ان کا جواب خود اھل سنت نے بھی دیاہے اور مھدویت کے عقیدہ کوثابت کیاہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی مھدویت کے عقیدہ کو نہ مانے تو وہ اسلام کے دائرہ سےخارج ہے   یہاں ہم ان کے اقوال ذکر کرتےہیں جنہوں نے امام مھدی عج کے وجود اور ظہور کا انکار کیا ہے اور بعد میں ان کے رد کے لیے ان اصحاب کے نام جنہوں نے ان امام مھدی عج کےبارے میں وارد احادیث کونقل کیاہے اوراھل سنت کے ان علماء کے نام جنہوں نے ان کی تصدیق کی ہے اور جنہوں نے باقاعدہ اورمستقل کتابیں لکھی ہیں۔عبدالرحمن محمدعثمان نے کتاب تحفۃ الاحوذی پرحاشیہ لگایا ہے اس کی چھٹی جلدمیں حاشیہ لگاتے ہوئے کہتاہے کہ  یرى الكثیرون من العلماء أن كل ما ورد من أحادیث عن المهدی إنما هی موضع شك وأنها لا تصح عن رسول الله صلى الله علیه وسلم بل إنها من وضع الشیعةترجمہ :بہت سارے علماء کا خیال ہے کہ جواحادیث امام مھدی عج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ان میں شک ہے اور رسول اکرم ﷺ سے روایت نہیں ہوئیں بلکہ شیعوں کی گھڑی ہوئیں ہیں اسی چھٹی جلد کے باب (فی تقارب الزمن وقصر الامل )کے ذیل میں کہتاہے کہ ویرى الكثیرون من العلماء الثقاة الأثبات أن ما ورد من أحادیث خاصة بالمهدی لیست إلا من وضع الباطنیة والشیعة وأضرابهم وأنها لا تصح نسبتها إلى الرسول صلى الله علیه وسلمترجمہ :بہت سارے علماء کے نزدیک ثابت ہے کہ جواحادیث مھدی کے ظہور کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ شیعوں کی من گھڑت ہیں اور ان احادیث کی رسول اکرم ﷺکی طرف نسبت دینا صحیح نہیں ہے محی الدین عبد الحمید سیوطی کی کتاب العرف الوردی فی اخبار المھدی ص ۱۶۶ پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہتاہے کہ  یرى بعض الباحثین أن كل ما ورد عن المهدی وعن الدجال من الإسرائیلیات کہ مھدی کے بارے میں جواحادیث وارد ہوئی ہیں وہ (نعوذ باللہ )یہودیوں کی بنائی ہوئی ہیں اس سے بھی زیادہ خطر ناک ابوعیبہ جو بعثت الازھر کا رئیس ہے کتاب النھایہ جوابن کثیر کی کتاب ہے اس پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہتاہے کہ اصلا مھدی کی شان اور عیسی کے نزول اور دجال کے بارے میں کوئی احادیث وارد نہیں ہوئیں  حالانکہ اولا :خوداھل سنت مھدویت کے عقیدہ کو دین اسلام کی ضروریات میں شمار کرتے ہیں اور اس کے منکر دین اسلام سے خارج سمجھتے ہیں المجلۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورہ شمارہ نمبر ۲ ص ۱۴۴میں لکھا ہے کہ امام مہدی عج کے ظہور کی تصدیق ایمان میں داخل ہے اورمھدی کے ظہور کی تصدیق یعنی رسول اکرم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے قول کی تصدیق ہے اور جو مھدی کے ظہور کا انکار کرے یعنی اس نے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بات کو جھٹلایا ہےثانیا :اھل سنت کی معتبر کتابوں کوپڑھنے سے اور وہ اصحاب جن سے یہ احادیث نقل ہوئی ہیں ،اھل سنت کے وہ علمائے کرام جنہوں نے باقاعدہ امام مھدی علیہ السلام پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ان سب سے یہ واضح ہوتاہے کہ یہ شیعوں کی من گھڑت احادیث نہیں ہیں ۔ثالثا : دوسری طرف ایک الھی حکومت کا انتظار کہ جس میں عدل وانصاف قائم ہو، خدا وند متعال کی عبادت ہو، کسی پر ظلم نہ ہو، کیا ایسی حکومت کا انتظار ایک مسلمان کا کمال اور فضیلت شمار نہیں ہوتا کہ جس کی خوشخبری خود رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھی اور اس وقت سے مسلمان ایسی الھی حکومت کا انتظار کرتے رہے ہیں اور یہ شیعوں کے ساتھ نہ مختص ہے اور نہ شیعوں کا من گھڑت ۔ اب ہم ان اصحاب کے نام ذکر کرتےہیں  جنہوں نے رسول اکرم ﷺ سے روایات نقل کی ہیں جو ان کے قول کو جھوٹا ثابت کرنےکے لیے کافی ہے کہ یہ شیعوں کی من گھڑت ہیں اور ان اصحاب سے خود اھل سنت نے احادیث نقل کی ہیں اور اپنی کتابوں میں ذکر کی ہیں ۔ان اصحا ب کے نام جنہوں نے رسول اکرم ﷺ سے روایات نقل کی ہیں وہ یہ ہیں علی بن أبی طالبالحسین بن علیأم سلمةعبد الله بن عباسحذیفة بن الیمانأبو سعید الخدریجابر بن عبد الله عمار بن یاسرعبد الله بن مسعودعبد الرحمن بن عوفعبد الله بن عمرعبد الله بن عمروأبو هریرةأنس بن مالكعوف بن مالكثوبان مولى رسول اللهقرة بن إیاسعلی الهلالیعبد الله بن الحارث بن جزءعمران بن حصین أم حبیبة رضی الله عنهاطلحة  بن عبید اللهعثمان بن عفانأبو الطفیلجابر الصدفیامام مھدی عج کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ ان اصحاب سے نقل ہوئی ہیں یہ اھل سنت کے نزدیک ہیں حالانکہ شیعوں کے اماموں جو امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے علاوہ دوسرے اماموں سے نقل ہوئی ہیں ان سے بھی روایات نقل ہوئی ہیں جو بہت زیادہ ہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے اور شیعوں کی من گھڑت ہیں تو سب دین اسلام پر درود پڑھنا ہوگا کیونکہ بہت کم ایسے موضوع ہیں جن پر اتنی تاکید ہوئی ہے تو جن موضوعات پر بہت کم احادیث بیان ہوئی ہیں ان کا کیا بنے گا امام زمانہ عج اور اہل سنت کے مصنفین وہ علماء اھل سنت جنہوں نے اپنی کتابوں میں امام مھدی عج کے بارے میں وارد احادیث کو بیان کیا ہے(۱) ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں (۲) بخاری نے صحیح بخاری میں (۳) أبو الترمذی نے جامع الاحادیث میں  (۴) داودنے سنن داود میں (۵) ابن ماجه نے سنن ابن ماجہ میں (۶)  النسائی  سنن النسائی میں (۷)  أحمد نے مسند احمد میں (۸) ابن حبان نے صحیح ابن حبان میں (۹) الحاكم نے مستدرک علی الصحیحین میں (۱۰) أبو بكر بن أبی شیبة نے المصنف میں (۱۱) نعیم بن حماد نے كتاب الفتن میں (۱۲) الحافظ أبو نعیم نے كتاب المهدی و الحلیة میں (۱۳)     الطبرانی فی الكبیر والأوسط والصغیر(۱۴) الدار قطنی نے الأفراد میں (۱۵) البارودی نے معرفة الصحابة میں (۱۶) أبو یعلى الموصلی اپنی  مسندمیں (۱۷) البزار نےاپنی  مسند میں (۱۸)     الحارث بن أبی أسامة نےاپنی مسندمیں  (۱۹) ابن عساكرنے تاریخ ابن عساکرمیں (۲۰)  ا بن منده نے تاریخ أصفهان میں (۲۱)  أبو الحسن الحربی نے الأول من الحربیات میں (۲۲) تمام الرازی نے  فوائدمیں (۲۳) ابن جریر نے تهذیب الآثار میں (۲۴) أبو بكر بن المقری نے معجم میں (۲۵) أبو عمرو الدانی نے  اپنی سنن میں (۲۶)  ابو غنم الكوفی نے  كتاب الفتن میں (۲۷)الدیلمی نے  مسند الفردوس میں (۲۸) أبو بكر الإسكاف نے  فوائد الأخبارمیں (۲۹) أبو الحسین بن المناوی نے  كتاب الملاحم میں (۳۰) البیهقی نے   دلائل النبوة میں (۳۱) أبو عمرو المقری نے اپنی  سنن میں (۳۲)     ابن الجوزی نے  تاریخ ابن جوزی میں (۳۳)     یحیى بن عبد الحمید الحمانی نے  مسند یحیى بن عبد الحمید الحمانی میں (۳۴)    الرویانی نے اپنی  مسند میں (۳۵)ابن سعد نے  الطبقات الکبری میں (۳۶) ابن خزیمة(۳۷)الحسن بن سفیان(۳۸)عمر بن شبه(۳۹) أبوعوانیہ اھل سنت کے وہ مشہور علماء ہیں جنہوں نے اپنی اپنی کتابوں میں امام مھدی عج کے بارے میں احادیث کو بیان کیاہے اور اپنی اپنی نظر دی ہے پس یہ کہنا کہ یہ عقیدہ اور یہ روایات شیعوں کی من گھڑت ہیں درست نہیں ہے ۔اور خود اھل سنت بھی اس کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روایات جو امام مھدی عج کے بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ صحیح ہیں اور جو ان احادیث کا منکر ہے وہ دین اسلام سے خارج ہے :