تقویٰ اور رزق کا تعلق

تقویٰ اور رزق کا تعلق

جب عالم غیب اور عالم محسوس کا تعلق اور ربط واضح ھوگیا ”تو آیئے ایک نگاہ ،حدیث قدسی کے اس فقرہ پر ڈالتے ھیں:

<لا یوٴثرعبد  ھوای علی ھواہ الاضمنت السمٰوات والارض رزقہ>

”کوئی بندہ اگر اپنی خواھشات پرمیرے احکام اورمرضی کو ترجیح دے گا تو میں زمین وآسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادوں گا“ عالم غیب و عالم محسوس کے درمیان تعلق کی گذشتہ توضیح کے پیش نظر غیب اور معنویت سے تعلق رکھنے والے ”تقویٰ“اور عالم غیب وعالم محسوس وشھود سے تعلق رکھنے والے ”رزق‘ ‘ کے درمیان ربط کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نھیں رہ جاتی ۔

اسلامی تہذیب میں یہ نظریہ بالکل واضح وروشن ھے اس لئے کہ تقویٰ بھی رحمت الٰھی کا وسیع دروازہ ھے تقوے کے ذریعہ انسان الله سے رزق نازل کراسکتا ھے ۔تقوے سے ھی باران رحمت نازل ھوتی ھے اور مشکلات بر طرف ھوتی ھیں تقوے کے سھارے ھی الله کی جانب سے فتح وکامیابی میسر ھوتی ھے۔اسی کے طفیل بند دروازے کھل جاتے ھیں تقوے کی ھی بدولت خداوند عالم زندگی کے مشکلات میں لوگوں کے لئے آسانیاں فراھم کرتا ھے۔جیسا کہ ارشادالٰھی ھے :

<ومن یتّق الله یجعلْ لہ مخرجاً#ویرزقہ من حیث لایحتسب ومن  یتوکّل علی الله فھوحسبہ انّ الله بالغ اٴمرہ قد جعل الله لکلّ شی ء قدْرا>

”اور جو بھی اللهسے ڈرتا ھے اللهاس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ھے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ھے جس کا خیال بھی نھیں ھوتا ھے اور جو خدا پر بھروسہ کریگا خدا اسکے لئے کافی ھے بیشک خدا اپنے حکم کا پھنچانے والا ھے اس نے ھر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ھے ۔ “[1]

جیسا کہ ارشاد الٰھی ھے :

<ومن یتّق الله یجعل لہ من اٴمرہ یُسراً>[2]

”اور جو خدا سے ڈرتا ھے خدا اسکے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ھے“

پیغمبر اسلام  (ص)کا ارشاد گرامی ھے:

<لواٴن السمٰوات والارض کانتا رتقاً علیٰ عبد ثم اتقیٰ الله لجعل اللهلہ منھما فرجاً ومخرجاً>[3]

”اگر کسی بندے پر زمین وآسمان کے دروازے بالکل بند ھوجائیں پھر وہ تقوائے الٰھی اختیار کرے تو الله اسکو زمین وآسمان میں کشادگی اور آسانیاں عطا کردے گا “

روایت کے مطابق جب حضرت ابوذر(رح) ربذہ کے لئے جلا وطن کئے گئے توان سے  امیر المومنین حضرت علی (ع) نے فرمایا:

<یااٴباذر؛انک غضبت لله فارجُ من غضبت لہ،ولواٴن السمٰوات والارض کانتاعلیٰ عبد رتقاً ثم اتقیٰ اللهلجعل منھمافرجاًومخرجاً>[4]

”اے ابوذر تمھاری ناراضگی اور غضب الله کے لئے تھا لہٰذا اسی کی ذات سے لولگائے رکھنا۔اگر زمین وآسمان کے راستے کسی بندہ پر بند ھوجائیں اور وہ تقوائے الٰھی اختیار کرے تو الله اسکے لئے زمین وآسمان میں آسانیاں فراھم کردے گا “

مولائے کائنات حضرت علی (ع)  کا ارشاد گرامی ھے:

<من اٴخذ بالتقویٰ عزبت(غابت)عنہ الشدائد بعد دنوّھا،واحلولت لہ الاموربعد مرارتھا،وانفرجت عنہ الامواج  بعد  تراکمھا،واٴسھلت لہ الصعا ب بعد انصابھا>[5]

”جوتقویٰ اختیار کرے گا شدائد و مصائب اس سے نزدیک ھونے کے بعد دور ھو جائیں گے تلخیوں کے بعد حلاوت محسوس کرے گا۔ امواج بلا اسکے گرد جمع ھونے کے بعد پراکندہ ھوجائیں گی مشکلات پڑنے کے بعد آسانیوں میں تبدیل ھوجائیں گی “

امام جعفر صادق(ع)  کا ارشاد ھے:

<من اعتصم بالله بتقواہ عصمہ الله،ومن اٴقبل الله علیہ وعصمہ لم یبال لوسقطت السماء علیٰ الارض،وان نزلت نازلة علیٰ اٴھل الارض فتشملھم بلیة،کان فی حرزالله بالتقویٰ من کل بلیة،اٴلیس الله تعالیٰ یقول:ان المتقین فی مقام اٴمین>

”جو تقوائے الٰھی کی پناہ میں آئے گا الله اسے محفوظ رکھے گا اور جس کی طرف الله کی توجہ ھوجائے اور الله اسے محفوظ رکھے توچاھے آسمان، زمین پر گرجائے اسے کوئی پرواہ نھیں ھوتی اگر تمام اھل زمین پرکوئی بلا نازل ھوتو وہ تقوے کے باعث امان خدا میں رھے گا ۔کیا خدا کایہ قول نھیں ھے:

<ان المتقین فی مقام اٴمین>[6]

”بیشک متقین امن کے مقام پر ھیں“

امام جعفرصادق(ع)  سے مروی ھے کہ:

<ان الله قد ضمن لمن اتّقاہ اٴن یحوّلہ عمایکرہ الیٰ مایحب ویرزقہ من حیث لایحتسب>[7]

”الله نے متقی کی ضمانت لی ھے کہ اسکے ناپسند یدہ امور کو پسندیدہ امور میںتبدیل کردے گا اور اسے ایسے راستہ سے رزق عطا کرے گا جس کا اسے گمان بھی نہ ھوگا“

امام محمد تقی(ع) نے سعد الخیرکو تحریر فرمایا:

<ان الله عزّوجل یقی بالتقویٰ عن العبد ماغرب عنہ عقلہ،ویجلّی بالتقویٰ عماہ وجھلہ،وبالتقویٰ نُجّی نوح ومن معہ فی السفینة،وصالح ومن معہ من الصاعقة،وبالتقویٰ فازالصابرون ونجت تلک العصب من المھالک>[8]

”پروردگار عالم، تقویٰ کے ذریعہ اپنے بندہ سے ان چیزوں کومحفوظ رکھتا ھے جو اسکی عقل سے مخفی تھیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسے مکمل بینائی عطا کردیتا ھے اور ان چیزوں کو بھی دکھادیتا ھے جو جھالت کے باعث اس سے پوشیدہ تھیں۔تقویٰ کے باعث ھی نوح  (ع) اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں نے نجات پائی ،صالح(ع) اور ان کے ساتھی آسمانی بجلی سے محفوظ رھے۔ تقویٰ کی بناء پر ھی صبر کرنے والے بلند درجات پر فائز ھوئے اور ھلاکت خیز مشکلات سے نجات حاصل کرسکے“

خلاصہٴ کلام یہ کہ جو لوگ الله کی مرضی اور احکام کو اپنی خواھشات پر ترجیح دیتے ھیں اور حکم خدا کے سامنے اپنی ضرورتوں ،خواھشوں اور ترجیحات کو اھمیت نھیں دیتے ھیں تو خداوند عالم زمین وآسمان کو ان کے رزق کا ضامن بنادیتا ھے۔ان کے امور کا خود ذمہ دار ھوجاتا ھے اور انھیں ان کے نفسوں کے حوالہ نھیں کرتا اور انکی سعی وکوشش میں توفیق و برکت عطا کرتا ھے۔

یھاں پھرسے یہ بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے کہ ان باتوں کایہ مطلب ھرگز نھیں ھے کہ تقوی کے بعدرزق حاصل کرنے کے لئے سعی وجستجو کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔حصول رزق کے لئے صرف تقویٰ کوکافی سمجھ لینا اسلامی نظریہ نھیں ھے البتہ اتنا ضرور ھے کہ تقویٰ کے ذریعہ بندہ پر رزق نازل ھوتا ھے اوراس طرح آسانی کے ساتھ مختصر زحمت  سے ھی رزق حاصل ھوجاتا ھے۔

تقویٰ کی بنا پر نجات پانے والے تین لوگوں کا واقعہ

نافع نے ابن عمر سے نقل کیا کہ پیغمبر اسلام  (ص)نے فرمایا:تین آدمی چلے جار ھے تھے کہ بارش ھونے لگی تو وہ لوگ پھاڑکے دامن میں ایک غار میں چلے گئے اتنے میں پھاڑ کی بلندی سے ایک بڑا سا پتھر گرااور اسکی وجہ سے غار کا دروازہ بند ھوگیا۔تو ان لوگوں نے آپس میں کھا:اپنے اپنے اعمال صالحہ پر نظر دوڑاؤ اور انھیں کے واسطہ سے خدا سے دعاکرو شائد خدا کوئی آسانی پیداکردے۔ ان میں سے ایک نے کھا کہ میرے والدین بہت بوڑھے تھے اورمیرے بچے بھی بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بکریاں چراکر ان کا پیٹ پالتا تھا واپس آکر بکریوں کا دودھ نکالتا تو پھلے والدین کے سامنے پیش کرتا اس کے بعد اپنے بچوں کودیتا۔

اتفاقاً میں ایک دن صبح سویرے گھر سے نکل گیا اور شام تک واپس نہ آیا۔جب میں واپس پلٹا تومیرے والدین سوچکے تھے میں نے روزانہ کی طرح دودھ نکالا اور دودھ لے کر والدین کے سرھانے کھڑا ھوگیا مجھے یہ گوارہ نہ ھوا کہ انھیںبیدار کروں اور نہ ھی یہ گوارہ ھوا کہ والدین سے پھلے بچی کو دودھ پیش کروں حالانکہ بچی بھوک کی وجہ سے رو رھی تھی اور میرے قدموں میں بلبلا رھی تھی مگر میری روش میں تبدیلی نہ آئی یھاں تک کہ صبح ھوگئی پروردگار ا!اگر تو یہ جانتا ھے کہ یہ عمل میں نے صرف تیری رضا کے لئے انجام دیا ھے تو اسی عمل کے واسطہ سے اتنی گنجائش پیدا کردے کہ ھم آسمان کو دیکھ سکیں الله نے اتنی گنجائش پیدا کردی اور ان لوگوں کو آسمان دکھائی دینے لگا۔

دوسرے نے کھا:میرے چچاکی ایک لڑکی تھی میں اس سے ایسی شدید محبت کرتا تھا جیسے کہ مرد عورتوں سے کرتے ھیں میں نے اس سے مطلب برآری کی خواھش کی اس نے سودینار کی شرط رکھی میں نے کوشش کرکے کسی طرح سودینار جمع کئے انھیں ساتھ لے کر اسکے پاس پھونچ گیا۔اور جب شیطانی مطلب پورا کرنے کی غرض سے اس کے نزدیک ھو ا تو اس نے کھا”اے بندئہ خدا الله سے ڈرو اور ناحق میرا لباس مت اتارو“یہ بات سن کر میں نے اسے چھوڑدیا۔پروردگار اگر میرا یہ عمل تیرے لئے ھے تو تھوڑی گنجائش اور مرحمت کردے۔اللہ نے تھوڑی سی گنجائش اور عطا کردی۔

تیسرے آدمی نے کھا میں نے ایک شخص کوتھوڑے چا ول کی اجرت پراجیرکیا جب کام مکمل ھوگیا تو اس نے اجرت کا مطالبہ کیا میں نے اجرت پیش کردی لیکن دہ چھوڑ کر چلا گیا میں اسی سے کاشت کرتا رھا یھاں تک کہ اسکی قیمت سے بیل اور اسکا چرواھاخرید لیا۔ایک دن وہ مزدور آیا اور مجھ سے کھا:خدا سے ڈرو اور میرا حق مجھے دے دو۔میں نے کھا جاؤوہ بیل اور چرواھا لے لو اس نے پھر کھا خدا سے ڈرو اور میرا مذاق مت اڑاؤ۔میں نے کھا میں ھرگز مذاق نھیں کررھا ھوں یہ بیل اور چرواھا لے لو۔چنانچہ وہ لے کر چلاگیا۔پروردگار میرا یہ عمل اگر تیرے لئے تھاتوھمارے لئے بقیہ راستہ کھول دے ۔ الله نے راستہ کھول دیا۔[9]

۳۔کففت علیہ ضیعتہ

اس جملہ کے دو معنی ھوسکتے ھیں کیونکہ”کف“ جمع کرنے اوراکٹھاکرنے کے معنی میں بھی ھے اور یھی لفظ منع کرنے اورروکنے کے معنی میں بھی استعمال ھوتا ھے لہٰذاپھلے معنی کے لحاظ سے اس جملہ” و کففت علیہ ضیعتہ“کے معنی یہ ھوں گے ”میں اس کے درھم برھم امور کو جمع کردوں گا اس کے سامان واسباب کانگھبان ،اسکے امور کا ذمہ دار اور اسکی معیشت کا ضامن ھوں“ابن اثیر اپنی کتاب ”النھایة“میں ”کف“کے معنی کے بارے میں تحریر کرتے ھیں کہ احتمال ھے کہ یہ لفظ ”جمع کرنے “کے معنی میں ھو جیسے کہ حدیث میں آیا ھے:

< الموٴمن اٴخ الموٴمن یکفّ علیہ ضیعتہ>[10]

 ”ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ھے جو اسکے سرمایہ کو اسکے لئے اکٹھاکرکے رکھتا ھے “

اسکے دوسرے معنی منع کرنا،روکنا اور دفع کرنا ھیں جیسے :

<کفّہ عنہ فکفّ، اٴی دفعہ وصرفہ ومنعہ،فاندفع وانصرف،وامتنع>

اس نے اسکو روکا یعنی اسکا دفاع کیا منع کیا اور واپس پلٹایا تو وہ دفع ھوگیا ،پلٹ گیا اور رک گیا اس معنی کے لحاظ سے مذکورہ حدیث کے معنی یہ ھونگے :

”میں نے اسکی بربادی کو دفع کردیا اور اسکی بربادی اور اسکے درمیان حائل ھوگیا اور اسے ھدایت دیدی اور راستے کے تمام نشانات واضح و روشن کردئے“[11]

علامہ مجلسی(رح)نے اس فقرہ کی تفسیر میں اپنی کتاب بحار الانوار میں تحریر کیا ھے :کہ اس جملہ میں چند احتمالات پائے جاتے ھیں :۱۔وہ معنی جو ابن ثیر نے نھایہ میں ذکر کئے ھیں یعنی اسکے درھم برھم معاملات معیشت کو سمیٹ دو نگااور اسمیں ”علیٰ“کے ذریعہ جو تعدیہ ھے اسکی بنا پر،برکت اور شفقت و غیرہ کے معنی میں ھے یا”علیٰ “الیٰ کے معنی میں ھے جسکی طرف نھایہ میں اشارہ موجود ھے البتہ اس صورت میں برکت وغیرہ کے معنی مراد نہ ھونگے“

۲۔”کف“منع کرنے اور ”علیٰ “،”فی“ کے معنی میں ھو اور” ضیعہ“ضائع اوربربادھونے کے معنی ھو یعنی اس نے اسکی جان،مال ،محنت او ر اسکی تمام متعلقہ چیزوں کو ضائع ھونے سے بچالیا اسکی تائید اس فقرہ ”وکففت عنہ ضیعتہ“سے بھی ھوتی ھے جو شیخ صدوق(رح)کی روایت کے ذیل میں آئندہ ذکر ھوگا۔

ھمیں یہ دوسرے معنی زیادہ مناسب معلوم ھوتے ھیں جو حدیث کے سیاق کے مطابق اور اس سے مشابہ بھی ھیں خاص طور سے جب ھمیں یہ بھی معلوم ھوگیا کہ شیخ صدوق (رح) نے بعینہ اسی روایت میں ”وکففت عنہ ضیعتہ“نقل کیا ھے جس میں علیٰ کی جگہ عن سے تعدیہ آیا ھے اور جیسا کہ ھم نے ذکر کیا ھے کہ کف دفع یا منع کرنے اور پلٹانے کے معنی میں ھے جو کہ رفع کے معنی سے مختلف ھیں کیونکہ دفع کے معنی ،کسی چیز کے وجود میں آنے سے پھلے اسے روک دینا ھیں اور رفع کے معنی کسی چیز کے وجودمیں آجانے کے بعد اسے زائل کردینا یا ختم کردینا ھیں یا دوسرے الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ رفع علاج کی طرح ھوتا ھے اور دفع بیماری آنے سے پھلے اسے روک دینے کی طرح ھے ۔

اور کف ،دفع کے معنی میں ھے نہ کہ رفع کے معنی میں جسکے مطابق اسکے معنی یہ ھونگے خداوند عالم نے اسکو ضائع نھیں ھونے دیا ،یاوہ اسکی بربادی کے لئے راضی نہ ھوا اور یہ بھی ایک قسم کی ھدایت ھے کیونکہ ھدایت کی دو قسمیںھیں :

۱۔گمراھی کے بعد ھدایت

۲۔گمراھی سے پھلے ھدایت

ان دونو ںکو ھی ھدایت کھا جاتا ھے لیکن پھلی والی ھدایت اس وقت ھوتی ھے جب انسان گمراھی اور تباھی میں مبتلا ھوچکا ھو لیکن دوسری قسم کی ھدایت اسکی گمراھی اور بربادی سے پھلے ھی پوری ھوجاتی ھے اور یہ قسم پھلی قسم سے زیادہ بہتر ھے ۔

حدیث میں (کف ضیعتہ)بربادی سے حفاظت کا تذکرہ ھے نہ کہ ھدایت کا اور بربادی سے حفاظت ،

ھدایت کا نتیجہ ھے اس لئے یہ منزل مقصود تک پھونچانے کے معنی میں ھے نہ کہ راستہ دکھانے اور یاد دھانی کے معنی میں ۔

ھدایت کے معنی

لفظ ھدایت دو معنی میں استعمال ھوتا ھے ۔ھدایت کے ایک معنی منزل مقصود تک پھونچانا ھیں اور دوسرے معنی راستہ بتا نا ،راھنمائی کرناھیں جیسا کہ خداوند عالم کے اس قول :

<انک لاتھدی من اٴحببت ولکن الله یھدی من یشاء>[12]

”پیغمبر بیشک آپ جسے چا ھیں ھدایت نھیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ھے ھدایت دیدیتا ھے “

 میں یہ لفظ پھلے معنی میں استعمال ھوا ھے ۔طے شدہ بات ھے کہ یھاں جس ھدایت کی نفی کی جارھی ھے وہ منزل مقصود تک پھنچانے کے معنی میں ھے کہ یہ چیز صرف پروردگار عالم سے مخصوص ھے ورنہ راستہ دکھانا رھنمائی کرنا تو پیغمبر اسلام کا فریضہ اورآپ کی اھم ترین ذمہ داری ھے اس معنی میں پیغمبر اکرم  (ص) کے لئے ھدایت کا انکار کرکے اسے صرف پروردگا ر سے مخصوص کردینا ممکن نھیں ھے کیونکہ خداوند عالم پیغمبر کے بارے میں فرماتا ھے :

<وانک لتھدی الی صراطٍ مستقیم>[13]

”اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ھدایت کررھے ھیں “

اسی معنی میں قرآن کریم میں مومن آل فرعون کا یہ جملہ ھے :

<یا قوم اتّبعون اٴھدکم سبیل الرشاد >[14]

”اے قوم والو :میرا اتباع کرو،میں تمھیں ھدایت کا راستہ دکھا دوں گا “

یھاں پر بھی ھدایت ،راھنمائی اور راستہ دکھانے کے معنی میں ھے نہ کہ منزل مقصود تک پھنچانے کے معنی میں ۔۔۔اس حدیث شریف میں بھی ھدایت کے پھلے معنی (منزل تک پھنچانا) ھی زیادہ مناسب ھیںاس لئے کہ دوسرے معنی کا لازمہ یہ نھیں ھے کہ انسان ضائع نہ ھو بلکہ ایصا ل الی المطلوب ھی انسان کو ضائع ھونے سے بچاتا ھے اور انسان کو قطعی طور پر اللہ تک پھنچانے کا ضامن ھے

سیاق وسباق سے بھی یھی معنی زیادہ مناسب معلوم ھوتے ھیں اس لئے کہ یہ گفتگو ان لوگوں پرخصوصی فضل الٰھی کی ھے کہ جو اپنے خواھشات پر الله کی مرضی کو مقدم کرتے ھیں لہٰذا فضل وعنایت کاخصوصی تقاضا یہ ھے کہ انھیں منزل مقصود تک پھنچا یا جائے ورنہ رھنمائی اور راستہ دکھا ناتو خدا کی عام عنایت ورحمت ھے جوصرف مومنین سے یا ان لوگوں سے مخصوص نھیں ھے کہ جوالله کی مرضی کو مقدم کرتے ھوں بلکہ یہ عنایت تو ان لوگوں کے شامل حال بھی ھے کہ جو اپنی خواھشات کو الله کی مرضی پر مقدم کرتے ھیں ۔

الله بندہ کو بربادی اورضائع ھونے سے کیسے بچاتا ھے ؟

درحقیقت یہ کام بصیرت کے ذریعہ ھوتا ھے ۔بصیر ت کے اعلیٰ درجات پر فائز انسان قطعی طور پر ضائع ھونے سے بچ جاتا ھے ۔

لہٰذا جب خداوندعالم کسی بندہ کےلئے خیر کا ارادہ کرتا ھے اور اسے بربادی سے بچانا چا ہتا ھے تو اسے بصیرت مرحمت کر دیتا ھے جس کے نتیجہ میں وہ نجات پاجاتا ھے اور خدا تک اس کی رسائی قطعی ھوجاتی ھے یہ بصیرت اس منطقی دلیل وبرھان سے الگ ھے کہ جس کے ذریعہ بھی انسان خدا تک پھنچتا ھے اور اسلام اس کا بھی منکر نھیں ھے بلکہ اسے اپنا نے اوراختیار کرنے کی تاکید کرتا ھے وہ اسے  ھر شخص کے دل کی گھرائیوں میں اتارنا چاہتا ھے اس لئے کہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد عقل و منطق کے سھارے ھی خدا تک پھنچتی ھے ۔

بصیرت کا مطلب حق کا مکمل طریقہ سے واضح دکھائی دینا ھے ۔ایسی رویت منطقی استدلال کا نتیجہ بھی ھو سکتی ھے اور صفائے نفس اور پاکیزگی ٴ قلب کے ذریعہ بھی حاصل ھو سکتی ھے یعنی انسان کسی ایک راستہ سے اس بلند مقام تک پھنچ سکتا ھے یا عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعہ یا پاکیزگی ٴ نفس کے راستہ ۔

اسلام ان میں سے کسی ایک کو کافی قرار نھیں دےتا بلکہ اسلامی نقطہٴ نظر سے انسان کے اوپر دونوں کو اختیار کرنا ضروری ھے ۔یعنی عقلی روش کو اپنانا بھی ضروری ھے اور نفس کو پاکیزہ بنانا بھی ۔اس آیہٴ شریفہ میں قرآن مجید نے دونوں باتوں کی طرف ایک ساتھ اشارہ کیا ھے:

<ھوالذی بعث فی الامیّین رسولاً منھم یتلوا علیھم آیاتہ ویزکّیھم و یعلّمھم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبلُ لفی ضلالٍ مبینٍ >[15]

” اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“

تزکیہ کا مطلب صفائے قلب اور پاکیزگیٴ نفس ھے جس سے معرفت الھی کے بے شمار دروازے کھلتے ھیں ۔

 معرفت کا دوسرا باب (تعلیم )ھے بھر حال بصیر ت چاھے عقل ومنطق کا ثمرہ ھویا تزکیہ وتہذیب نفس کا یہ طے ھے کہ حیات انسانی میں بصیرت کا سر چشمہ پروردگار عالم ھی ھے اسکے علاوہ کسی اور جگہ سے بصیرت کا حصول ممکن نھیں ھے اور اس تک رسائی کا دروازہ عقل وتزکیہٴ نفس ھے ۔

بصیرت اور عمل

ایک بار پھر اس بات کی وضاحت کردیں کہ اسلام بصیرت کےلئے ”علم “اور تزکیہ یا”عقل اور صفائے قلب “دونوں کو تسلیم کرتا ھے اور اعلان کرتا ھے کہ ان میں سے ایک ،دوسرے سے بے نیاز نھیں کرسکتا لیکن یہ بھی طے ھے کہ حصول بصیرت کےلئے تزکیہ زیادہ اھم اور موثر ھے اسی لئے قرآنِ کریم نے آیہ ٴ بعثت میں تزکیہ کو علم پر مقدم رکھا ھے :

<یزکّیھم ویعلّمھم الکتاب والحکمة>[16]

”ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے“

مناسب ھوگا کہ چند لمحے ٹھھرکر ھم خود (تزکیہ )کے بارے میں بھی غور کریں اور دیکھیں کہ تزکیہٴ نفس کیسے ھوتا ھے ؟

رھبا نیت کے قائل مذاھب میں تزکیہ کا مطلب یہ ھے کہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی جائے اور حیات دنیوی سے فرار اختیار کیا جائے اس طرح تزکیہ کا خواھشمند انسان جب اپنی ھویٰ وھوس اور خواھشات نفسانی اور فتنوں سے پرھیز کرے گا تو اسکا نفس پاکیزہ ھوجا ئے گا لیکن اسلامی طریقہ ٴ تربیت میں صور تحال اس کے بالکل برعکس ھے ۔اسلام تزکیہ کے خواھشمندکسی بھی مسلمان کو ھر گزیہ نصیحت نھیں کرتا کہ فتنوں سے فرار کرے خواھشات اور ھویٰ وھوس کو کچل دے بلکہ اسلام فرار کے بجائے فتنوں سے مقابلہ اور خواھشات کو کچل کر ختم کر نے کے بجائے انھیں حدا عتدال میں رکھنے کی دعوت دیتاھے ۔

اسلام کا طریقہٴ تربیت ،عمل کو تزکیہ کی بنیاد قرار دیتا ھے نہ کہ گوشہ نشینی ،رھبا نیت اور محرومی کو ۔اور یھی عمل بصیرت میں تبدیل ھوجاتا ھے جس طرح بصیرت عمل میں ظاھر ھوتی ھے لہٰذا دیکھنا یہ ھوگا کہ عمل کیا ھے ؟بصیرت کسے کہتے ھیں ؟اور ان دونوں میں کیا رابطہ ھے ؟

بصیرت اور عمل کا رابطہ

بصیرت کے بارے میں اجمالی طور پرگفتگو ھوچکی ھے ۔۔یھاں عمل سے مراد ھروہ سعی و کو شش ھے جس کو انسان رضائے الھی کی خاطر انجام دیتا ھے اس کے دورخ ھوتے ھیں ایک مثبت ،یعنی اوا مرخدا کی اطاعت اور دوسرا سلبی یعنی اپنے نفس کو حرام کا موں سے محفوظ رکھنا ۔ اس طرح عمل سے مرادیہ ھے کہ خوشنودی پر وردگار کی خاطر کوئی کام کرے چاھے کسی کام کو بجا لا یا جائے اور چا ھے کسی کام سے پر ھیز کیا جائے ۔بصیرت اور عمل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ھے ۔ بصیرت عمل کا سبب ھوتی ھے اور عمل ،بصیرت کا ۔۔۔اور دونوں کے آپسی اور طرفینی رابطے سے خود بخود بصیرت اور عمل میں اضافہ ھوتا رہتا ھے عمل صالح سے بصیرت میں اضافہ ھوتا ھے اور بصیرت میں زیادتی عمل صالح میں اضافہ کا سبب بنتی ھے اس طرح انمیں سے ھر ایک دوسرے کے اضافہ کا موجب ھوتا ھے یھاں تک کہ انسان انھیں کے سھارے بصیرت وعمل کی چوٹی پر پھونچ جاتا ھے ۔

۱۔ عمل صالح کا سرچشمہ بصیرت

بصیرت کا ثمر ہ عمل صالح ھے ۔اگر دل وجان کی گھرائیوں میں بصیرت ھے تو وہ لامحالہ عمل صالح پر آمادہ کر ے گی بصیرت کبھی عمل سے جدا نھیں ھوسکتی ھے روایات اس چیز کو صراحت سے بیان کرتی ھیں کہ انسان کے عمل میں نقص اورکوتاھی دراصل اس کی بصیرت میں نقص اورکوتاھی کی وجہ سے ھوتی ھے ۔اس سلسلہ میں چند روایات ملا حظہ فرما ئیں ۔

پیغمبر اکرم  (ص)نے جبرئیل امین سے نقل فرما یا ھے :

<الموقن یعمل للهکاٴنہ یراہ،فان لم یکن یریٰ الله فان الله یراہ>[17]

”درجہٴ یقین پر فائز انسان الله کےلئے اس طرح عمل انجام دیتا ھے جیسے وہ اللهکو دیکھ رھا ھے اگر وہ اللهکو نھیں دیکھ رھا ھے تو کم از کم الله تو اس کو دیکھ رھا ھے “

مولائے کائنات  (ع) سے منقول ھے :

<یُستدل علیٰ الیقین بقصرالامل،واخلاص العمل،والزھد فی الدنیا>[18]

”آرزووں کی قلت، اخلاص عمل اور زھد، یقین کی دلیلیں ھیں“

آپ  (ع)  ھی کا ارشاد گرامی ھے :

<التقویٰ ثمرةالدین،واٴمارةالیقین>[19]

”تقویٰ دین کا ثمر ہ اور یقین کا سردار ھے“

نیز آپ سے مروی ھے:

<من یستیقن،یعملْ جاھداً>[20]

”صاحب یقین بھر پور جدوجھد کے ساتھ عمل انجام دیتا “

امام جعفر صادق(ع) کا ارشاد ھے :

<ان العمل الدائم القلیل علیٰ الیقین،اٴفضل عندالله من العمل الکثیرعلیٰ غیریقین>[21]

”یقین کے ساتھ مسلسل تھوڑا عمل کرنااللهکے نزدیک یقین کے بغیربہت زیادہ عمل سے افضل ھے “

آپ ھی کا ارشاد گرامی ھے:

<لاعمل الابیقین،ولایقین الابخشوع>[22]

”یقین کے بغیر عمل اور خشوع کے بغیر یقین بے فا ئدہ ھے “

آپ نے ارشاد فرمایا :

<العامل علیٰ غیربصیرةکالسائر علیٰ سراب بقیعة لا یزیدہ سرعةالسیر الابعدا>[23]

”بصیرت کے بغیر عمل انجام دینے والا ایسا ھے جیسے سراب کے پیچھے دوڑنے والا کہ اسکی تیزی اسے منزل سے دور ھی کرتی جاتی ھے “

صادق آل محمد (ع)  کا ھی یہ بھی فرمان ھے :

<انکم لا تکونون صالحین حتیٰ تعرفوا،ولا تعرفون حتیٰ تصدقوا ولاتصدقون حتیٰ تسلموا>[24]

”تم اس وقت تک صالح نھیں ھو سکتے جب تک معرفت حاصل نہ کرلو اور یقین کے بغیر معرفت اور تسلیم کے بغیر تصدیق حاصل نہ ھو گی “یعنی تصدیق معرفت اور معرفت، عمل صالح کاذریعہ ھے

امام جعفر صادق(ع) سے مروی ھے :

<لایقبل عمل الا بمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،فمن عرف دلّتہ المعرفة علیٰ العمل>[25]

 ”معرفت کے بغیر کو ئی عمل قابل قبول نھیں ھے اور عمل کے بغیر معرفت بھی نھیں ھو سکتی جب معرفت حاصل ھو جاتی ھے تو معرفت خود عمل پر ابھارتی ھے “

امام محمد باقر(ع) کا ارشاد ھے :

<لایقبل عمل الابمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،ومن عرف دلّتہ معرفتہ علیٰ العمل ،ومن لم یعرف فلا عمل لہ>[26]

”معرفت کے بغیر عمل قبول نھیں ھوتا اور عمل کے بغیر معرفت حاصل نھیں ھوتی جب معرفت حاصل ھوجاتی ھے تووہ خود انسان کو دعوت عمل دیتی ھے جس کے پاس معرفت نھیں ھے اس کے پاس عمل بھی نھیںھے“

۲۔بصیرت کی بنیاد عمل صالح

ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمل صالح کی بنیاد بصیرت ھے اسی کے با لمقابل بصیرت کا سرچشمہ عمل صالح ھے ۔دوطرفہ متبادل رابطوں کے ایسے نمونے آپ کواسلامی علوم میں اکثر مقامات پر نظر آئیں گے ۔

قرآن کریم عمل صالح اور بصیرت کے اس متبادل اور دوطرفہ رابطہ کا شدت سے قائل ھے اور بیان کرتا ھے کہ بصیرت سے عمل اور عمل صالح سے بصیرت حاصل ھوتی ھے اور عمل صالح کے ذریعہ ھی انسان خداوندعالم کی جانب سے بصیرت کا حقدار قرار پاتا ھے ۔

<والذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سُبُلَنا وان الله لمع المحسنین >[27]

”اور جن لوگوں نے ھمارے حق میں جھاد کیا ھے انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کریں گے اور یقینااللهحسن عمل والوں کے ساتھ ھے “

آیت واضح طورپر بیان کر رھی ھے کہ جھاد (جوخود عمل صالح کا بہترین مصداق ھے )کے ذریعہ انسان ھدایت الھی کو قبول کرنے اور حاصل کرنے کے لائق ھوتا ھے ۔

<لنھدینّھم سبلنا>[28]

”ھم انھیں اپنے راستوں کی ھدایت کرینگے “

حدیث قدسی میں پیغمبر اکرم  (ص)سے مروی ھے :

<لایزال عبدی یتنفّل لی حتیٰ اُحبّہ ، فاذا اٴحببتہ کنت سمعہ الذی بہ یسمع، وبصرہ الذی یبصر بہ،و یدہ التی بھا یبطش>[29]

”میرا بندہ مجھ سے نزدیک ھوتا رہتا ھے یھاں تک کہ میں اس سے محبت کر نے لگتا ھو ں اور جب میں اس سے محبت کرتا ھوں تو میں اس کے کان بن جاتا ھوں جن کے ذریعہ وہ سنتا ھے اسکی آنکھیں بن جاتا ھوں جنکے ذریعہ وہ دیکھتا ھے اسی کے ھاتھ بن جاتا ھوں جن کے ذریعہ وہ چیزوں کو چھوتا ھے “

یہ بہت ھی مشھور ومعروف حدیث ھے تمام محدثوں ،معتبرراویوں اور مشایخ حدیث نے اس حدیث قدسی کو نقل کیا ھے نقل مختلف ھے مگر الفاظ تقریباً ملتے جلتے ھیں اور روایت صحیح ھے اوروضاحت کے ساتھ بیان کرتی ھے کہ عبادت ،معرفت ویقین کا دروازہ ھے اور بندہ قرب الٰھی کی منزلیں طے کرتارہتا ھے یھاں تک کہ الله اسے بصیرت عطا کردیتا ھے پھر وہ الله کے ذریعہ سنتا ھے دیکھتا ھے اور ادراک حاصل کرتا ھے ۔۔۔اور ظاھر ھے کہ جو الله کے ذریعہ یہ کام انجام دے گا تو اسکی سماعت بصارت اور معرفت میں خطا کا کوئی امکان نھیں ھے ۔

دوسرا رخ

عمل اور بصیرت کے درمیان دوطرفہ رابطہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح بصیرت سے عمل اور عمل سے بصیرت میں اضافہ ھوتا ھے اسی کے ساتھ ساتھ اس رابطہ کا دوسرا رخ بھی ھے جس کے مطابق برے اعمال اورکردارکی خرابی بصیرت میں کمی ،اندھے اور بھرے پن کا سبب ھوتے ھیں اس کے برعکس یہ چیزیں بے عملی اور گناہ وفساد کا باعث ھوتی ھیں ۔

گذشتہ صفحات میں ھم نے روایات کی روشنی میں عمل اور بصیرت کے درمیان مثبت رابطہ کی وضاحت کی تھی اسی طرح اس رابطہ کے دوسرے رخ کو بھی احادیث کی روشنی میں ھی پیش کررھے ھیں ۔

بے عملی سے خاتمہٴ بصیرت

اسلامی روایات سے یہ صاف واضح ھوجاتا ھے کہ برے اعمال سے بصیرت ختم ھوتی رہتی ھے قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پراس حقیقت کا اظھار واعلان کیا ھے چنانچہ ارشاد ھوتا ھے :

<اٴفراٴیت من اتّخذ الٰھہ،ھواہ واٴضلّہ الله علیٰ علمٍ وختم علیٰ سمعہ وقلبہ وجعل علیٰ بصرہ غشاوةً فمن یھدیہ  من بعد الله>[30]

”کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی خواھش ھی کو خدا بنالیا اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کراسے گمراھی میں چھوڑ دیا اور اسکے کان اوردل پرمھرلگا دی ھے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ھوئے ھیں اور خدا کے بعد کون ھدایت کر سکتا ھے “

جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر کسی دوسرے معبود کی عبادت کرکے شرک اختیار کیا الله ان سے بصیرت سلب کرلیتا ھے اور ان کے کانوں اور دلوں پر مھر لگادیتا ھے آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ھے اور طے ھے کہ جب الله کسی بندہ سے بصیرت سلب کرلے تو پھر اسے کون ھدایت دے سکتا ھے؟ اسی کو قرآن مجیدان الفاظ میں بیان کرتا ھے :

<کذلک یُضلّ الله الکافرین>[31]

”اللهاسی طرح کافروں کو گمراھی میں چھوڑدیتا ھے “یہ جملہ دراصل گذشتہ تفصیل کا اجمالی بیان ھے

<کذلک یُضل الله من ھومسرفٌ مرتاب>[32]

” اسی طرح خدا زیادتی کرنے والے اور شکی مزاج انسانوں کو انکی گمراھی میں چھوڑ دیتا ھے“

 اس لئے کہ اسراف گمراھی کی طرف لے جاتا ھے

 اسی طرح ارشاد ھوتا ھے :

<وما یُضلّ بہ الا الفاسقین >[33]

 ”اور گمراھی صرف انکا حصہ ھے جو فاسق ھیں “

یا :< ویُضلّ الله الظالمین >[34]

”الله ظالمین کو گمراھی میں چھوڑدیتا ھے “

اس کا مطلب یہ ھے کہ فسق اورظلم ،گمراھی کی طرف لے جاتے ھیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ھے :

<کَلا بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون>[35]

”نھیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ھے “

انسان جب گنا ھوں اور معصیتوںکا مرتکب ھوتا ھے تو اس کے یھی اعمال ایک ٹیلہ کی شکل میں جمع ھو کر اس کے قلب کے سامنے رکاوٹ بن جاتے ھیں اور پھر خدا اور حق اسے نظر نھیں آتے ۔                     خدا وند عالم کا ارشاد ھے :

<انَّ اللّٰہَ  لَا یَھْدِ ی القَوْم َ الظَّالِمِیْنَ>[36]

”الله ظالموں کی ھدایت نھیں کرتا “

<ان الله لا یھدی القوم الکافرین>[37]

”اللهکافروں کی ھدایت نھیں کرتا “

<انَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِ ی القَوْمَ الْفاسقین>[38]

”یقینا الله بدکار لوگوں کی ھدایت نھیں کرتا “

<انَّ اللّٰہَ  لَا یَھْدِ ی من ھوَ مُسْرِفٌ کَذَّا ب>[39]

”بیشک الله کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی ھدایت نھیں کرتا “

<انَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی من ھُوکاذب کفار>[40]

”الله کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کی ھدایت نھیں کرتا “

پیغمبر اکرم  (ص)کا ارشاد ھے :

            <لولا تکثیر فی کلامکم ،وتمزیج  فی قلوبکم، لراٴیتم ما اٴریٰ و سمعتم ما اسمع>[41]

”اگر تمھارے کلام میں کثرت نہ ھو تی اور قلوب آلودہ نہ ھوتے تو تم بھی وھی دیکھتے جو میں دیکھتا ھوں اور وھی سنتے جومیں سنتاھوں “

امیر المو منین حضرت علی (ع)  کا ارشاد ھے :

<کیف یستطیع الھدیٰ من یغلبہ الھویٰ>[42]

”جس پرھویٰ وھوس غالب ھو وہ کیسے ھدایت پاسکتا ھے ؟“

آپ (ع) کا ھی ارشاد ھے :

<انکم ان اٴمّرْتُم علیکم الھویٰ اٴصمّکم واٴعماکم واٴرداکم>[43]

”اگر تم نے اپنے اوپر ھویٰ وھوس کوغالب کرلیاتو وہ تمھیں بھرا،اندھا اور پست بنادیں گی “

اس سے معلوم ھوا کہ مسلسل باطل اور فضول باتیں کرنااور دلوں میں حق و باطل کا گڈمڈھونایہ آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بھرابنا دیتا ھے ۔

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا :

<مامن عبد الا وفی قلبہ نکتة بیضاء،فاذا اٴذنب خرج فیتلک النکتة،نکتة سوداء،فاذا تاب ذھب ذٰلک السواد،وان تمادیٰ فی الذنوب زادذلک السواد حتیٰ یغطّی البیاض،فاذا غطّیٰ البیاض لم یرجع صاحبہ الیٰ خیراٴبداً،وھو قول الله عزّوجل:<بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون>[44]

”ھر انسان کے دل میں ایک سفیدی ھوتی ھے انسان جب کوئی گناہ کرتا ھے تو اس سفیدی میںایک سیاہ نقطہ نمودار ھوجاتا ھے اگر گناھگار تو بہ کرلیتا ھے تو وہ سیاھی زائل ھوجاتی ھے لیکن اگر گناھوں کا سلسلہ جاری رھے تو سیاھی میں اضافہ ھوتا رہتا ھے یھاں تک کہ یہ سیاھی دل کی سفیدی کو ڈھانپ لیتی ھے اور جب سفیدی پوشیدہ ھوجاتی ھے تو ایسا انسان کبھی خیر کی جانب نھیں پلٹ سکتا ۔ یھی خدا وند عالم کے قول<بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون>’نھیں نھیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ھے‘کے معنی ھیں“

یھی سیاھی جب قلب پر چھاجاتی ھے تو اسکے لئے حجاب بن جاتی ھے جس کے نتیجہ میں انسان سے بصیرت سلب ھوجاتی ھے بہ الفاظ دیگر انسان جب گناھوں کا مرتکب ھوتا ھے تو بصیرت ختم ھوجاتی ھے ۔

امام محمد باقر(ع) کا ارشاد ھے :

<ماشیء اٴفسد للقلب من الخطیئة،ان القلب لیواقع الخطیئة فماتزال بہ حتیٰ تغلب علیہ فیصیر اٴسفلہ اٴعلاہ،واٴعلاہ اٴسفلہ ،قال رسول الله(ص)>[45]

”خطا سے بڑھ کر قلب کو فاسد کرنے والی کوئی شئے نھیں ھے ،بیشک جب دل میں کوئی برائی پیدا ھو جاتی ھے اور وہ اسی میں باقی رہ کر اس پر غلبہ حاصل کر لیتی ھے تو اسکا نچلا حصہ اوپر اور اوپری حصہ نیچے ھو جاتا ھے“

رسول اکرم  (ص)نے فرمایا :<انّ الموٴمن اذا اٴذنب کانت نکتة سوداء فی قلبہ،فاذا تاب ونزع واستغفرصقل قلبہ، وان ازداد زادت فذلک الرین الذی ذکرہ اللهتعالیٰ فی کتابہ <کلّا بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوایکسبون>[46]

”مومن جب گناہ کرتا ھے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ھے اگر تو بہ واستغفارکرلے تو اسکا قلب صیقل ھوجاتا ھے لیکن اگر گناھوں میں زیادتی ھوتی رھے تو یھی (رین) یعنی زنگ بن جاتا ھے جسے خدا نے آیت <کلاّبل ران علیٰ قلوبھم>میں فرمایا ھے “

امیر المومنین حضرت علی (ع) کا ارشاد ھے:

<انْ اٴطعت ھواک اصمک واٴعماک>[47]

 ”اگر تم ھویٰ وھوس کی اطاعت کروگے تو وہ تمھیں بھرا اور اندھا بنادے گی“

فقدان بصیرت برے اعمال کا سبب

جس طرح برائیوں اور گناھوں سے گمراھی پیدا ھوتی ھے اسی کے برعکس ضلالت و گمراھی بھی گناہ اور بد عملی کاسبب ھوتی ھے اور اس طرح جھالت و ضلالت اور فقدان بصیرت کے باعث  شقاوت و بدبختی ظلم واسراف جیسے برے اعمال وجود میں آتے ھیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ھے :

<قالوا ربّنا غلبت علیناشِقوتنا وکنّا قوما ضالّین>[48]

”وہ لوگ کھیں گے کہ پروردگار ھم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ھم لوگ گمراہ ھوگئے تھے“

امیر المومنین حضرت علی  (ع)  نے فرمایا :

<لاورع مع غیّ>[49]

”گمراھی کے بعد کوئی پارسائی نھیں رہتی “

مولائے کائنات  (ع)  نے،معاویہ بن ابی سفیان کواپنے خط میں تحریر فرمایاھے:

<امریء لیس لہ بصر یھدیہ،ولا قائد یرشدہ،قد دعاہ الھویٰ فاٴجابہ،وقادہ الضلال فاتّبعہ، فھجرلاغطاً،وضلّ خابطاً>[50]

”(مجھے تیرا جوخط ملا ھے )یہ ایک ایسے شخص کا خط ھے جس کے پاس نہ ھدایت دینے والی بصارت ھے اور نہ راستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواھشات نے پکارا تو اس نے لبیک کھدی اور گمراھی نے کھینچا تو اسکے پیچھے چل پڑا اور اسکے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ھوگیا“

آپ ھی کا ارشاد گرامی ھے :

<من زاغ ساء ت عندہ الحسنة،وحسنت عندہ السیئة،وسکرسکرالضلالة>[51]

”جوکجی میں مبتلا ھوا،اسے نیکی برائی اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ھے اور وہ گمراھی کے نشہ میں چور ھوجاتا ھے “

لہٰذا معلوم ھوا کہ بصیرت اور عمل میں دوطرفہ مستحکم رابطہ ھے یہ رابطہ مثبت انداز میں بھی ھے اور منفی صورت میں بھی ۔جسے اس طرح بیان کیا جاسکتا ھے ۔

۱۔بصیرت ،عمل صالح کی طرف لے جاتی ھے ۔

۲۔عمل صالح، بصیرت و ھدایت کا سبب ھوتا ھے ۔

۳۔ضلالت اور فقدانِ بصیرت، ظلم وجور جیسے دیگر برے اعمال اور گناھوںکا سبب ھوتی ھے ۔

۴۔برے اعمال اورظلم وجور سے بصیرت ختم ھوجاتی ھے ۔

خلاصہٴ کلام

حدیث شریف کے فقرہ ”کففت علیہ ضیعتہ“کے بارے میں جو گفتگو ھوئی ا س سے یھی نتیجہ نکلتا ھے کہ انسان جب خواھشات نفس کی مخالفت کرکے اپنے خواھشات کو ارادئہ الٰھی کا تابع بنادیتا ھے اور مالک کی مرضی کا خواھاں ھوتا ھے تو خدا اسے نور ھدایت اور بصیرت عنایت فرمادیتا ھے اور تاریک راستوںمیں اسکا ھاتھ تھام لیتا ھے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ھے :

<یااٴیّھا الذین آمنوا اتقوا الله وآمنوا برسولہ یُوٴتکم کِفلین من رحمتہ ویجعلْ لکم نوراً تمشون بہ>[52]

”اے ایمان والو! اللهسے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آؤ تا کہ خدا تمھیں اپنی رحمت کے دوبڑے حصے عطا کردے اور تمھارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو “

دوسرے مقام پر ارشاد ھوتا ھے :

<یااٴیّھا الذین آمنوا انْ تتّقوا الله یجعلْ لکم فرقاناً>[53]

”ایمان والو! اگر تم تقوائے الٰھی اختیار کروگے تو وہ تمھیں حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کردے گا “

<واتّقوا الله و یعلمکم الله >[54]

” اوراللہ سے ڈرو تاکہ اللہ تمھیں علم عطاکرے“

حضرت علی  (ع)  سے مروی ھے :

<ہُدی من اٴشعر قلبہ التقویٰ>[55]

”وہ ھدایت یافتہ ھے جس نے تقویٰ کو اپنے دل کا شعار بنالیا “

<ھُدی  من تجلبب جلباب الدّین>[56]

”وہ ھدایت یافتہ ھے جس نے دین کا لباس اوڑھ لیا“

<من غرس اٴشجارالتُقیٰ،جنیٰ ثمار الھدیٰ>[57]

”جس نے تقویٰ کے درخت بوئے وہ ھدایت کے پھل کھائے گا“

[1] سوره طلاق آیت۲۔۳۔

[2] سوره طلاق آیت ۴۔

[3] بحارالانوار ج۷۰ص ۲۸۵۔

[4] نہج البلاغہ خطبہ۱۳۰۔

[5] نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸۔

[6] بحارالانوارج۷۰ ص۲۸۵۔

[7] گذشتہ حوالہ۔

[8] فروع کافی ج۸ص۵۲۔

[9] صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اجابةدعاء من بَرّوالدیہ ج۵ ص۴۰ط؛مصر۱۲۸۶ ھ ق۔فتح الباری للعسقلانی ج۱۰ص۳۳۸شرح القسطلانی ج۹ص۵۔صحیح مسلم کتاب الرقاق باب قصةاصحاب الغار الثلاثةوالتوسّل بصالح الاعمال ج۸ص۸۹ط؛دارالفکر۔ وشرح النووی ج۱۰ص۳۲۱وذم الھوی لابن الجوزی ص۲۴۶

[10] النھایة لا بن ا لاثیرج۴ص۹۰۔

[11] اقرب المواردج۲ص۱۰۹۳۔

[12] سوره قصص آیت ۵۶۔

[13] سوره شوریٰ آیت۵۲۔

[14] سوره غافرآیت ۳۸۔

[15] سوره جمعہ آیت۲۔

[16] سوره جمعہ آیت۲

[17] بحارالانوارج ۷۷ص۲۱ ۔

[18] غرر الحکم ج ۲ص ۳۷۶۔

[19] غررالحکم ج۱ص۸۵۔

[20] غررالحکم ج۲ص۱۶۶۔

[21] اصول کافی ج۲ص۵۷۔

[22] تحف العقول ص۲۳۳۔

[23] وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص ۱۲۲ح۳۶۔

[24] بحارالانوار ج ۶۹ ص۱۰۔

[25] اصول کافی ج۱ ص۴۴۔

[26] تحف العقول ص۲۱۵۔

[27] سوره عنکبوت ۶۹۔

[28] خداوند عالم ھمارے شیخ جلیل مجاھد راہ خدا شیخ عباس علی اسلامی پر رحمت نازل کرے میں ان سے اکثر یہ سنا کرتا تھا :کہ انسان کو ھر حرکت کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ھو تی ھے جن کا بدل ممکن نھیں ھے ایک تو وہ اس چیز کا محتاج ھوتا ھے جو تحرک میں اس کی مدد کر ے اور حرکت کی تکان کو ھلکا کردے اور اسے ایسی طاقت و قوت عطا کرے جس سے وہ اپنی حرکت کو جاری رکھ سکے اور دوسرے اس چیز کا محتاج ھوتا ھے جو اسے صحیح راستہ کی رھنمائی کرتی رھے تا کہ وہ راستہ سے بھٹکنے نہ پائے یعنی اسے ایسی قوت وطاقت کی ضرورت ھو تی ھے جو ھدایت اور بصیرت کے مطابق اس کی حرکت کا راستہ معین کرے  تاکہ وہ صراط مستقیم پر چلتا رھے اور انھیں دونوں چیزوں کا وعدہ ھم سے پروردگار عالم نے سوره عنکبوت کی آخری آیت میں فر مایا ھے :<والذین جاھدوافینالنھدینھم سبلناوانّ اللّٰہ لمع المحسنین >پس جو لوگ خدا کی راہ میں جھاد کرتے ھیں پروردگار عالم ان کو پھلے تو پشت پناھی اور قوت و طاقت عطا کرتا ھے اور یھی خدا کی معیت ھے “ انّ اللّٰہ لمع المحسنین> اور دوسرے ان کوبصیرت و ھدایت عطا کرتا ھے جیسا کہ ارشاد ھے <لنھدینھم سبلنا>۔

[29] اصول کافی ج۲ص۳۵۲۔

[30] سوره جاثیہ آیت۲۳۔

[31] سوره غافرآیت۷۴۔

[32] سوره غافرآیت ۳۴۔

[33] سوره بقرہ آیت۲۶ ۔

[34] سوره ابراھیم آیت۲۷۔

[35] سوره مطففین آیت۱۴۔

[36] سوره قصص آیت۰ ۵۔

[37] سوره مائدہ آیت ۶۷۔

[38] سوره منافقون آیت۶۔

[39] سوره غافرآیت۲۸۔

[40] سوره زمرآیت۳۔

[41] المیزان ج۵ص۲۹۲۔

[42] غرر الحکم ج۲ ص ۹۴۔

[43] غررالحکم ج۱ص۲۶۴۔

[44] نوررالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

[45] گذشتہ حوالہ۔

[46] نورالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

[47] غررالحکم۔

[48] سوره مومنون آیت ۱۰۶۔

[49] غررالحکم ج۲ص۳۴۵۔

[50] نہج البلاغہ مکتوب ۷۔

[51] نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

[52] سوره حدید آیت۲۸۔

[53] سوره انفال آیت۲۹۔

[54] سوره بقرہ آیت ۲۸۲۔

[55] غررالحکم ج۲ص۳۱۱۔

[56] گذشتہ حوالہ۔

[57] غررالحکم ج۲ ص۲۴۵۔

http://www.al-shia.org