توکل کی حقیقت اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟

توکل“ در اصل ”وکالت“ سے مشتق ہے، اور وکیل انتخاب کرنے کے معنیٰ میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ایک اچھا وکیل وہی ہے جو کم از کم چار صفات کا حامل ہو۔ ۱۔ضروری معلو مات۔ ۲۔ امانت داری ۔ ۳۔ طاقت و قدرت۔ ۴۔ ہمدردی ۔ شاید اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت نہ ہو کہ مختلف کاموں کے لئے ایک مدافع وکیل کا انتخاب اس مو قع پر ہو تا ہے جہاں انسان ذاتی طور پر دفاع کرنے پر قادر نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ وہ اس موقع پر دوسرے کی قوت سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اس کی طاقت و صلاحیت کے ذریعہ اپنی مشکل حل کرتا ہے۔ لہٰذا خدا پر تو کل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور مفہوم نہیں ہے کہ انسان زندگی کی مشکلات و حوادث ،مخالفین کی دشمنیوں اور سختیوں، پیچیدگیوں اور کبھی اہداف کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو خوددور کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے اپنا وکیل قراردے اور اس پر بھروسہ کرے اور خود بھی ہمت اور کوشش کرتارہے بلکہ جہاں کسی کام کوخود انجام دینے کی طاقت رکھتا ہو وہاں بھی موٴثر حقیقی ،خدا ہی کو مانے کیونکہ اگر ایک موحّد کی چشم بصیرت سے دیکھا جائے تو تمام قدرتوں اور قوتوں کاسر چشمہ وہی ہے۔ ”تَوَکَّل عَلَی الله “ کانقطئہ مقابل یہ ہے کہ اس کے غیر پر بھروسہ کیاجائے، یعنی کسی غیر کے سہارے پر جینا، دوسرے سے وابستہ ہونا اور اپنی ذات میں استقلال و اعتماد سے عاری ہونا۔ علمائے اخلاق کہتے ہیں کہ توکل،براہ راست خدا کی توحید افعالی کا نتیجہ ہے کیو نکہ جیسے ہم نے کہا ہے کہ ایک موٴحّد کی نظر میں ہر حرکت، ہر کوشش، ہر جنبش اور اسی عالم میں ہر چیز آخر کار اس جہان کی پہلی علت یعنی ذات خدا سے ارتباط رکھتی ہے، لہٰذا ایک موٴ حّد کی نگاہ میں تمام طاقتیں اور کامیابیاں اسی کی طرف سے ہیں۔ توکل کا فلسفہ ( قا رئین کرام ! ) ہماری مذ کورہ گفتگو پر تو جہ کرنے سے معلوم ہو جا تا ہے: اولا ً:”تَوَکَّل عَلَی الله “ زندگی کے سخت واقعات و مشکلات میں اس نا قابل فنا مرکز قدرت پر توکل انسان کی استقامت و مقاومت کا سبب بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں نے میدان احد میں سخت ضرب کھائی اور دشمن میدان چھوڑ نے کے بعد دو بارہ پلٹ آئے تاکہ مسلمانوں پر آخر ی ضرب لگائیں اور یہ خبر مسلمانوں کو پہنچی تو اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ صاحب ایما ن افراد اس خطر ناک لمحہ میں وحشت زدہ نہ ہوئے جب کہ وہ اپنی فعّال قوت کا ایک اہم حصہ کھو چکے تھے بلکہ ”توکل “ اور قوتِ ایمانی نے ان کی استقامت میں اضافہ کردیا اور فاتح دشمن اس آ مادگی کی خبر سنتے ہی تیزی سے پیچھے ہٹ گیا (سورہ آل عمران ، آیت ۱۷۳) توکل کے سائے میں اس استقامت کے نمونے متعدد آیات میں نظر آتے ہیں، ان میں سے سورہ آل عمران کی ، آیت ۱۲۲ میں قرآن مجیدکہتا ہے :توکل علی اللہ نے مجاہدین کے دو گرو ہوں کو میدان جہاد میں سستی سے بچایا۔ سورہٴ ابراہیم کی ، آیت نمبر ۱۲ /میں دشمن کے حملوں اور نقصانات کے مقابل میں توکل اور صبر کا با ہم ذکر ہوا ہے۔ آل عمران کی آیت۱۵۹ /میں اہم کاموں کی انجام دہی کے لئے پہلے مشورہ اس کے بعد پختہ ارادہ اور پھر ”تَوَکَّل عَلَی الله “ کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے : <إِنَّہُ لَیْسَ لَہُ سُلْطَانٌ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ >(1) ”شیطان ہرگز لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبان ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے“۔ ان آیات سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ نکلتاہے کہ شدید مشکلات میں انسان ضعف اور کمزوری محسوس نہ کرے بلکہ اللہ کی بے انتہا قدرت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو کامیاب اور فاتح سمجھے، گویا توکل امید آفریں، قوت بخش، تقویت پہچانے والا اور استقامت میں اضافہ کرنے کا باعث ہے، توکل کا مفہوم اگر گوشہ نشینی اختیار کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا ہوتا تو مجاہدین اور اس قسم کے لوگوں میں تحریک پیدا کرنے کا باعث نہ بنتا۔ اگر کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ عالم اسباب اور طبیعی عوامل کی طرف توجہ روح ِ توکل سے مناسبت نہیں رکھتی تووہ انتہائی غلط فہمی میں مبتلا ہیں، کیونکہ طبیعی عوامل کے اثرات کو ارادہٴ الٰہی سے جدا کرنا ایک طرح کا شرک ہے، کیا ایسا نہیں ہے ،کہ عواملِ طبیعی کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا ہے اور سب کچھ اسی کے ارادہ اور فرمان کے تحت ہے، البتہ اگر عوامل کو ایک مستقل طاقت سمجھا جائے اور انھیں اس کے ارادہ کے مد مقابل قرار دیا جائے تو یہ چیز روحِ توکل سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ توکل کی ایسی تفسیر کرنا کیسے ممکن ہے جبکہ خود متوکلین کے سید وسردار پیغمبر اکرم (ص) اپنے اہداف کی ترقی کے لئے کسی موقع پر، صحیح منصوبہ، مثبت ٹکنیک اور مختلف ظاہری وسائل سے غفلت نہیں برتتے تھے۔ یہ سب چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ توکل کا منفی مفہوم نہیں ہے۔ ثانیاً: ”تَوَکَّل عَلَی الله “ انسان کو ان وابستگیوں سے نجات دلاتا ہے جو ذلت و غلامی کا سر چشمہ ہیں اور اسے آزادی اور خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔ ”توکل “ اور ”قناعت“ ہم ریشہ ہیں اور فطرتاً ان دونوں کا فلسفہ بھی کئی پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مشباہت رکھتا ہے، اس کے باوجود ان میں فرق بھی ہے یہاں ہم چند اسلامی روایات پیش کرتے ہیں جن سے توکل کا حقیقی مفہوم اور اصلی بنیاد واضح ہوسکے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے: ”إنَّ الغِنَا وَالْعِزَ یَجُولانِ فَإذَا ظَفَرَا بِمُوضَعِ التَّوَکّل وَطَنا“(2) ”بے نیازی اور عزت محو جستجو رہتی ہیں جہاں توکل کو پالیتی ہیں وہیں ڈیرے ڈال دیتی ہے اور اسی مقام کو اپنا وطن بنا لیتی ہیں“۔ اس حدیث میں بے نیازی اور عزت کا اصلی وطن ”توکل“ بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”جب بندہ اس حقیقت سے آگاہ ہوجاتا ہے کہ مخلوق اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ فائدہ ، تو وہ مخلوق سے توقع اٹھا لیتا ہے تو پھر وہ خدا کے علاوہ کسی کے لئے کام نہیں کرتا، اور اس کے سوا کسی سے اُمید نہیں رکھتا ہے ، اور یہی حقیقت توکل ہے“۔(3) کسی نے حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام سے سوال کیا: ”مَا حَدُّ التَّوَکُّل“(توکل کی حد کیا ہے؟):تو آپ نے فرمایا: ”إنّ لَاتَخَافَ مَعَ اللّٰہِ اٴحداً“ (4) ”خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی سے نہ ڈرو“۔(5)(6) (1) سورہٴ نحل ، آیت ۹۹ (2) اصول کافی ، جلد دوم،بَابُ التَّفْوِیضِ إلَی اللهِ وَالتَّوَکُّل عَلَیہِ، حدیث۳ (3) بحار الانوار، جلد۱۵، اخلاق کی بحث میں صفحہ ۱۴ ، طبع قدیم (4) سفینة البحار ، جلد دوم، صفحہ ۶۸۲ (5) توکل کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے ”انگیزہ پیدائش مذہب“ کی طرف رجوع فرمائیں (6)تفسیر نمو نہ ، جلد ۱۰صفحہ ۲۹۵ منبع: islaminurdu.com