جبر اور اختیار کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟

جبر اور اختیار کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ علمائے اسلام کے درمیان یہ مسئلہ زمانہٴ قدیم سے مورد نزاع رہا ہے ، ایک جماعت انسان کی آزادی اور اختیار کی قائل ہے جبکہ دوسرا گروہ جبر کے نظریہ کا طرفدار ہے، اور ہر جماعت اپنے مقصد کے اثبات کے لئے دلائل پیش کرتی ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ”جبر کے قائل“ بھی اور ”اختیار کے طرفدار“ بھی مقام عمل میں اختیار اور آزادی کو ہی صحیح مانتے ہیں، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ تمام بحث و گفتگو صرف علمی میدان تک ہے، مقام عمل میں نہیں، جس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ تمام انسانوں میں آزادی، ارادہ اور اختیار اصل ہے، اور اگر اس سلسلہ میں مختلف وسوسے نہ پائے جائیں تو سبھی انسان آزادی اور اختیار کے طرفدار ہوں گے۔ عام فکر وخیال اور فطرتِ انسان ”نظریہ اختیار“ کی واضح دلیل ہے، جو انسانی زندگی کے مختلف مواقع پر جلوہ گر ہے،کیونکہ اگر انسان اپنے اعمال میں خود کو مجبور سمجھے اور اپنے لئے اختیار کا قائل نہ ہو ، تو پھر کیوں: ۱۔ انسان اپنے کئے ہوئے بعض کاموں پر یا بعض کاموں کے نہ کرنے پر پشیمان اور شرمندہ ہوتا ہے، اور یہ طے کرلیتا ہے کہ اپنے گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھائے، ”جبر کا عقیدہ رکھنے والوں “کو (بھی) یہ شرمندگی بہت سے موارد میں پیش آتی ہے، اگر نظریہٴ اختیار صحیح نہیں ہے تو پھر یہ شرمندگی کیسی؟! ۲۔ بُرے لوگوں کی سب مذمت کرتے ہیں، اگر جبر کا نظریہ صحیح ہے تو ملامت کیسی؟! ۳۔ نیک اور اچھے لوگوں کی سب تعریفیں کرتے ہیں، اگر جبر کا نظریہ صحیح ہے تو تعریف کیوں؟! ۴۔ سبھی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ خوش بخت ہوجائیں، اگر سبھی مجبور ہیں تو پھر تعلیم و تربیت کیا معنی رکھتی ہے؟! ۵۔ معاشرہ میں اخلاقی سطح کو بلند کرنے کے لئے سبھی علمااور دانشور کوشش کرتے ہیں۔ ۶۔ انسان اپنی خطاؤں سے توبہ کرتا ہے، لیکن اگر جبر کے نظریہ کو قبول کیا جائے تو پھر توبہ کی کیا حیثیت ہے؟! ۷۔ انسان اپنی کوتاہی اور خامیوں پر حسرت اور افسوس کرتا ہے، کیوں؟ ۸۔ پوری دنیا میں مجرم اور بُرے لوگوں کو سزا ملتی ہے اور سختی کے سا تھ سوال و جواب ہو تے ہیں،لیکن جو کام ان کے اختیار میں نہیں ہے تو پھر یہ سزا اور بازپرس کیسی؟! ۹۔ پوری دنیا اور تمام مذہب و ملت میں چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم سبھی کے یہاں مجرموں کے لئے سزا معین ہے، لیکن انسان جس کام پر مجبور ہو تو پھر سزا کیسی؟! ۱۰۔ یہاں تک کہ جبری مکتب کے قائل لوگوں کا اگر کوئی نقصان کر دیتا ہے یا کو ئی ان پر ظلم و ستم کرتا ہے تو ان کی فریاد بلند ہوجاتی ہے، اس کو خطاکار شمار کرتے ہیں اور اس کو عدلیہ تک لے جاتے ہیں! خلاصہ یہ کہ اگر حقیقت میں انسان مختار نہیں ہے تو پشیمانی کیوں؟! مذمت اور ملامت کس لئے؟ اگر کسی کا ہاتھ بے اختیار لرزتا ہو تو کیا اس کو ملامت کی جائے گی؟ کیوں نیک افراد کی مدح و ثنا کی جاتی ہے، کیا انھوں نے اپنے اختیار سے کچھ کیا ہے جو نیک کام کی طرف ترغیب دلانے سے نیک کام کرتے رہتے ہیں؟! اصولی طور پر تعلیم و تربیت کی تاثیر کو قبول کرتے ہوئے جبری نظریہ کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ آزادی اور اختیار کو قبول کئے بغیر اخلاقی مسائل کا ہرگز کوئی مفہوم نہیں نکلتا۔ اگر ہم اپنے کاموں میں مجبور ہوں تو پھر توبہ کیوں؟ کیوں حسرت کی جائے؟ اس لحاظ سے مجبور شخص کو سزا دینا سب سے بڑا ظلم ہے۔ یہ سب چیزیں واضح کرتی ہیں کہ تمام انسانوں میں آزادی اور اختیار اصل ہے اور نوعِ بشر کا دل بھی اسی چیز کی گواہی دیتا ہے، نہ صرف عوام الناس بلکہ تمام علمااور فلاسفہ مقام عمل میں اسی طرح ہیں ، یہاں تک کہ جبری نظریہ رکھنے والے بھی مقام عمل میں اختیار کے نظریہ کو مانتے ہیں: ”الجَبریُّونَ إخْتِیَاریُّونَ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُونَ“! قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید نے اسی مسئلہ پر بارہا تاکید کی ہے، ارشاد خداوندی ہے: <فَمَنْ شَاءَ إتَّخِذَ اِلٰی رَبَّہِ مَآبَا>(1)”(یہی بر حق دین ہے )تو جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف ٹھکانا بنا لے“۔ قرآن مجید کی دیگر آیات میں انسان کے ارادہ و اختیار پر بہت زیادہ اعتماد کیا گیا ہے ، ان سب کو یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے صرف دو آیتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے: <إِنَّا ہَدَیْنَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا>(2) ”یقینا ہم نے انسان کو راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا ہوجائے“۔ اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: <فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ>(3) ”اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کافر ہوجائے“۔ (لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کافروں کے لئے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے) ”جبر و تفویض“ کے سلسلہ میں گفتگو بہت طویل ہے، اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں، لیکن اس مسئلہ میں صرف قرآن و وجدان کی روشنی میں لکھا گیا ہے، ہم اس گفتگو کو ایک ”اہم نکتہ“ کی یاد دہانی کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں: مسئلہ جبر سے ایک گروہ کی طرفداری فلسفی یا استدلالی مشکلات کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ اس عقیدہ کی پیدائش میں اجتماعی اور نفسیاتی عوامل کا دخل تھا۔ ”جبر“ یا ”جبری زندگی“ اور جبر کے معنی میں ”قضا و قدر“ کا عقیدہ رکھنے والے متعدد افراد بعض ذمہ داریوں سے فرار کرنے کے لئے اس عقیدہ کا سہارا لیتے ہیں، جو اس عقیدہ کی آڑ میں ہر غلط کام اور شکست کی توجیہ کرنا چاہتے ہیں جو خود ان کی سستی اور کاہلی کی بنا پر ہوتا تھا۔ یا اپنی ہوس اور بے راہ روی پر اس عقیدہ کا پردہ ڈال کر ہر کام کو جائز کرنا چاہتے تھے۔ اور کبھی استعمار،عوام الناس کی تحریک کو کچلنے اور قوم و ملت کے قہر و غضب کی آگ کو خاموش کرنے کے لئے اپنے عقیدہ کو لوگوں پر حمل کرتا ہے کہ شروع سے تمہاری قسمت میں یہی تھا لہٰذا اس پر راضی اور تسلیم ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ! اس (غلط) نظریہ کے تحت اپنے تمام ظلم و ستم اور غلط اعمال کی توجیہ کرلیتے ہیں، اور سبھی گناہگاروں کے گناہوں کی منطقی اور عقلی توجیہ ہوجاتی ہے، اس صورت میں اطاعت گزار اور مجرم کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔(4) انسان کی آزادی اور اختیار کے لئے سورہ فصلت کی یہ آیہٴ کریمہ واضح دلیل ہے :<وَمَا رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ >(5)یہ آیہٴ شریفہ اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ خداوندعالم کسی کو بلا وجہ عذاب نہیں دیتا اور نہ ہی کسی کے عذاب میں دلیل کے بغیر اضافہ کرتا، اس کے کام صرف عدالت پر مبنی ہوتے ہیں، کیونکہ ظلم و ستم کا سر چشمہ؛ کمی اور خامی، جہل و نادانی یا ہوائے نفس ہوتے ہیں، جبکہ خداوندعالم کی ذات اقدس ان تمام چیزوں سے پاک و منزہ ہے۔ قرآن مجید اپنی واضح آیات (بینات) میں ”جبری نظریہ“ ( جس کے پیش نظر معاشرہ میں ظلم و فساد پھیلتا ہے ، برائیوں کی تائید ہوتی ہے اور انسان ہر طرح کی ذمہ داری سے بچ جاتا ہے) کو باطل قرار دیتی ہیں، اور سبھی انسانوں کو اپنے اعمال کا ذمہ دار شمار کرتی ہیں، اور ہر انسان کے اعمال کے نتائج (جزا یا سزا) اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہواہے، کہ آپ کے ایک صحابی نے سوال کیا: ”ھَلْ یجبَرُ الله عِبَادہ عَلَی المُعَاصِی؟ فَقَالَ:لا ، بَل یُخَیُّرھُم وَ یُمَھِّلُھُم حَتّٰی یَتُوبُوا“ ”کیا خداوندعالم اپنے بندوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:نہیں، بلکہ ان کو آزاد چھوڑ دیتا ہے اور ان کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں“ اس صحابی نے دوبارہ سوال کیا: ”ھل کلف عبادہ ما لایطیقون؟“ کیا خداوندعالم اپنے بندوں کو ”تکلیف ما لایطاق“ دیتا ہے ؟ (یعنی ایسی چیز کے انجام دینے کے لئے کہتا ہے جس کی انسان میں طاقت نہ ہو۔) اس وقت امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”کَیفَ یَفْعَلُ ذَلکَ؟ وَ ھُوَیَقُولُ: <وَمَا رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ>(6) ” وہ کس طرح ایسا کرسکتا ہے جبکہ خود اس نے فرمایا ہے: ’اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے“۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے مزید فرمایا: ہمارے پدر بزرگوار موسیٰ بن جعفر علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار جعفر بن محمد علیہ السلام سے اس طرح نقل فرمایا ہے: ”جو شخص یہ گمان کرے کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو گناہوں پر مجبور کرتا ہے یا تکلیف ما لا یطاق دیتا ہے، تو ایسے شخص کے ہاتھوں کا ذبیحہ نہ کھاؤ ، اس کی گواہی قبول نہ کرو، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو، اور اس کو زکوٰة نہ دو، (خلاصہ یہ کہ اس پر اسلام کے احکام جاری نہ کرو)(7) (قارئین کرام!) مذکورہ حدیث سے ضمنی طور پر یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ ایک ظریف نکتہ ہے کہ ”مکتب جبری“ تکلیف مالا یطاق کا دوسرا چہرہ ہے، کیونکہ اگر انسان ایک طرف گناہ کرنے پر مجبور ہو اور دوسری طرف اس کو نہی کی جائے تو یہ تکلیف ما لا یطاق کا واضح مصداق ہوگا۔(8) اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: <إِنَّ ہَذِہِ تَذْکِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ اتَّخَذَ إِلَی رَبِّہِ سَبِیلًا>(9) ” بے شک یہ ایک نصیحت کا سامان ہے اب جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستہ کو اختیار کرلے“،(یہ خود ایک یاد دہانی ہے جس کے ذریعہ انسان خداوندعالم کے بتائے ہوئے راستہ کا انتخاب کرسکتاہے) اور چونکہ ممکن تھا کہ کم ظرف لوگ اس مذکورہ تعبیر سے مطلق طور پر ”تفویض“ کا تصور کرلیں، اسی وجہ سے بعد والی آیت میں ”تفویض“ کی نفی کے لئے ارشاد ہوا ہے: < وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلاَّ اٴَنْ یَشَاءَ اللهُ > ” اور تم لوگ صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگار چاہتا ہے“۔ ”بے شک اللہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحب حکمت ہے“۔ <إِنَّ اللهَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًا>(10) در اصل یہ مشہور و معروف قاعدہ”الامر بین الامرین“(۲) کا اثبات ہے، ایک طرف تو خداوندعالم فرماتا ہے: ”خدا نے راستہ دکھا دیا ہے ، راستہ کا انتخاب تمہارا کام ہے“ ، دوسری طرف فرماتا ہے: ”تمہارا انتخاب مشیت الٰہی پر موقوف ہے“، یعنی تم مکمل طور پر استقلال نہیں رکھتے بلکہ تمہاری قدرت، آزادی اور ارادہ خدا کی مرضی اور اس کی طرف سے ہے، وہ جس وقت بھی ارادہ کرے تمہاری قدرت اور آزادی کو سلب کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے نہ مکمل ”تفویض“ ہے اور نہ ”اجبار اور سلبِ اختیار“ بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک دقیق و لطیف حقیقت ہے، بالفاظِ دیگر: ایک قسم کی آزادی ہے لیکن مشیت الٰہی سے وابستہ ،یعنی جب بھی خدا چاہے اس آزادی کو واپس لے سکتا ہے، تاکہ بندگان خدا تکالیف اور ذمہ داریوں کا احساس کریں دوسری طرف سے خدا سے بے نیازی کا تصور بھی پیدانہ ہو۔ مختصر: یہ تعبیرات اس وجہ سے ہیں کہ بندے ہدایت، حمایت، توفیق اور تائید ذات مقدس سے بے نیازی کا تصور نہ کریں، اپنے کاموں کے عزم و ارادہ کو خداوندعالم کے سپرد کریں اور اس کی حمایت کے زیر سایہ قدم اٹھائیں۔ یہاں سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ بعض جبری مسلک رکھنے والے مفسرین اس آیت کا سہارا لیتے ہیں البتہ وہ اس مسئلہ میں پہلے سے فیصلہ کرچکے ہیں (یعنی جبری نظریہ کو پہلے سے قبول کرچکے ہیں) جیسا کہ فخر رازی کا کہنا ہے: ”وَ اعلم اٴنَّ ھَذِہ الآیةِ مِن جُمْلَةِ الآیَاتِ التی تَلاطمتْ فِیْھَا اٴمْوَاجُ الجَبْرِ وَ القَدْرِ!“(11) ”جاننا چاہئے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جن میں ”جبر“ کی موجیں متلاطم ہیں“،جی ہاں! اگر اس آیت کو پہلی آیات سے الگ کرلیں تو اس طرح کا وہم و گمان کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ ایک آیت میں ”اختیار“ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے اور دوسری آیت میں ”مشیتِ پروردگار“ کی تاثیر کو بیان کیا گیا ہے، جس سے ”الامر بین الامرین“ کا مسئلہ ثابت ہوجاتا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ ”تفویض“ کے طرفدار افراد بھی اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ آیت ”مطلقِ اختیار “ کو بیان کرتی ہے، جبکہ ”جبر“ کے طرفدار بھی اس آیت، کہ جس سے صرف جبر کی بو آتی ہے، تمسک کرتے ہیں اور دونوں پہلے سے اپنے کئے ہوئے فیصلہ کی توجیہ کرتے ہیں، جبکہ کلام الٰہی (بلکہ کسی بھی کلام) کو صحیح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے نظریہ کو دور رکھیں اور تعصب سے کام نہ لیتے ہوئے فیصلہ کریں۔آیت کے ذیل میں فرمایا گیا ہے: <ان اللہ کان علیماً حکیما> جو اسی بات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے کیونکہ خداوندعالم کی حکمت اور اس کا علم اس بات کا مو جب ہے کہ انسان کمال اور ترقی کی منزلوں کو طے کرنے میں آزاد ہے ورنہ اجباری تکامل و ترقی کوئی کمال نہیں ہے۔ اس کے علاوہ خداوندعالم کا علم اور اس کی حکمت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کچھ لوگوں کو نیک کام پر مجبور کرے اور کچھ لوگوں کو برُے کاموں پر مجبور کرے ، پہلے گروہ کو جزا یا انعام دے اور دوسرے گروہ کو سزا اور عذاب میں مبتلا کرے۔(12) -------------------------------------------------------------------------------- حوالاجات (1) سورہٴ نباء ، آیت ۳۹ (2) سورہٴ دہر ، آیت ۳ (3) سورہٴ کہف ، آیت ۲۹ (4) تفسیر نمونہ ، جلد۲۶، صفحہ ۶۴ (5) سورہٴ فصلت ، آیت ۴۶: ”اور آپ کا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے“ (6) سورہٴ فصلت ، آیت ۴۶ (7) عیون اخبار الرضا ، نور الثقلین ، جلد ۴، صفحہ ۵۵۵ کے نقل کے مطابق (8) تفسیر نمونہ ، جلد۲۰، صفحہ ۳۰۸ (9) سورہٴ انسان (دہر)، آیت ۲۹ (10)سورہ انسان (دہر) ، آیت ۳۰ (11) تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۰ ، صفحہ ۲۶۲ (12) تفسیر نمونہ ، جلد ۲۵، صفحہ ۳۸۵ منبع:shiaarticles.com