حضرت بقیة اللہ الاعظم کے ظہور سے مخفی چیزیں آشکار ہوجائیں گی
حضرت بقیة اللہ الاعظم کے ظہور سے مخفی چیزیں آشکار ہوجائیں گی
0 Vote
47 View
جیسا کی اصلی قرآن کے ساتھ بہت سی اشیاء حجاب میں مخفی رہ گئی ہیں وہ بھی ظاہر ہوں گی اسی طرح حضرت بقیة اللہ الاعظم امام عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے تشریف لانے پر جو کچھ انسانوں کے ضمیروں میں موجود ہے وہ بھی منصہٴ شہود و ظہور پر آئے گا۔ اور بہت سے وہ امور جو جہل و نادانی کی بنا پر انجام پذیر ہوئے ہیں اگرچہ ظاہری صورت میں حجّت شرعی بھی رکھتے ہوں وہ بھی ظاہر ہوں گے، کیوں کہ حضرت - کی حکومت بعض انبیائے کرام کی حکومت کی طرح جیسے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان واقعِ امر کا حکم کرتے تھے وہ بھی ویسا ہی حکم کریں گے اور انہیں گواہ اور حجّت و دلیل طلب کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ ۵۱۷۔ ” وفی الکافی باسنادہ عَنْ اَبی عُبیدہِ الحذّاء قالَ: کُنّا زَمانَ اَبی جَعفرٍ علیہ السلام حینَ قُبِضَ نَتَردَدُ کالغَنِم لا راعَی لَھا فَلَقینا سالِمَ بنَ اَبی حَفصَةَ فَقالَ لی : یا اَبا عُبَیدةَ مَن اِمامُکَ ؟ فَقُلتُ ائمِتَّی آل محمّدٍ فَقال ھَلکتَ واھلَکتَ اَما سَمِعتُ اٴنَا وَاَنتَ اَبا جَعفَرٍ علیہ السلام یَقُولُ : مَن ماتَ وَلَیسَ عَلَیہ اِمامٌ ماتَ میتَةً جاھِلِیَّةً ؟فَقُلتُ بَلی لَعَمری ولَقَد کانَ قَبلَ ذلِکَ بِثَلاثٍ او نَحوِھا دَخَلتُ عَلیٰ ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام فَرَزَقَ اللّٰہ المعرِفَةَ فَقُلت لاٴبی عَبدِ اللّٰہِ علیہ السلام اِنَّی سالِماً قالَ لی کذا وَکَذا ، قالَ فَقالَ یا اَبا عُبَیْدَةَ اِنَّہُ لا یمُوت مِنَّا مَیّتٌ حَتّیٰ یخُلَّفِ مِن بعدِہِ مَن یعملِ بِمِثلِ عَمَلِہِ یَسیرُ بِسیرَتِہِ وَیدعُوا اِلیٰ ما دَعا اِلَیہِ یا اَبا عُبَیْدَةَ اِنَّہُ لَم یمَنعُ ما اُعْطِیَ داوُدَ اَن اعطَی سُلَیمانَ ، ثُمَّ قالَ یا اَبا عُبَیْدَةَ اِذا قامَ قائِمُ آلِ محمَّدٍ علیہ السلام حَکَم بِحُکْمِ داوُدَ وَ سُلَیمانَ وَلا یَساٴَل بَیَّنةً “ (۱) کافی میں بطور مسند ابو عبیدہ خداء سے مروی ہے کہ اس کا بیان ہے :جب امام محمد باقر - کا انتقال ہوا تو میں موجود تھا (ان کے جانشین کے معین ہونے کے لیے) ہم لوگ اس طرح متردد تھے جیسے وہ بکری جس کا چرواہا نہ ہو اور ہم سے سالم ابن ابی حفصہ نے ملاقات کی (جس نے بعد میں زیدی مذہب اختیار کیا اور امام صادق - پر لعنت اور ان کی تکفیر کی) وہ مجھ سے کہنے لگا: اب تمہارا امام کون ہے؟ میں نے کہا: آل محمد کے ائمہ ہیں۔ اس نے کہا: تم خود بھی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ امام محمد باقر فرمایا کرتے تھے کہ : جو شخص ایسی حالت میں مر گیا ہو کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو وہ کفر کی موت مرا۔ میں نے کہا: اپنی جان کی قسم! ضرور ایسا ہی ہے اور اس سے پہلے بھی۔ وہ دو تین مرتبہ ایسا کہہ چکا تھا میں امام جعفر صادق - کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: سالم ایسا ایسا کہتا ہے فرمایا: اے ابو عبیدہ! ہم میں سے جو شخص مرتا ہے تو ضرور اپنے بعد ایسے شخص کو چھوڑتا ہے جو اس کی طرح عمل کرنے والا ہو اور اسی جیسی سیرت کا حامل ہو اسی کی طرح خدا کی طرف بلانے والا ہو۔ اے ابو عبیدہ! جو داؤد کو خدا نے عطا کیا تھا اس کے پانے میں سلیمان کے لیے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی (لہٰذا خدا نے جو فضیلت میرے والدِ گرامی کو عطا کی مجھے بھی عطا فرمائے گا) پھر فرمایا: اے ابو عبیدہ! جب قائم آل محمد کا ظہور ہوگا تو وہ داؤد و ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ کافی، ج۱، ص ۳۹۷۔باب ان الائمہ اذا ظھر امرھم حکموا بحکم داؤد۔ سلیمان علیہما السلام کی طرح بغیر گواہ کے مقدمات کا فیصلہ کریں گے۔ مولف کہتے ہیں: حکم داؤد سے مراد پیغمبر و امام کا حکم دینا ہے اس علم و یقین کے مطابق جو انہیں حاصل ہے اور طرفین کے حالات و قرائن اور ادلہ و شواہد کی طرف توجہ نہیں فرمائیں گے کیوں کہ حضرت داؤد کی قضاوت اسی طرح ہوا کرتی تھی۔ یعنی اپنے علم کے مطابق جو حقیقی واقعے کے حامل ہوتے تھے حکم کرتے تھے۔ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کتاب مرآة العقول (۱) میں رقم طراز ہیں کہ: شیخ مفید علیہ الرحمہ نے کتاب المسائل میں تحریر کیا ہے: امام اپنے علم و یقین کے مطابق حکم کرسکتا ہے جیسا کہ ظاہری گواہوں کے مطابق حکم کرتا ہے اور جب بھی اسے معلوم ہوجائے کہ گواہوں کی گواہی خلافِ واقع و حقیقت تھی تو ان کی گواہی کو رد کر دیتا ہے اور جو کچھ خدا نے اسے سمجھایا ہے اس کے مطابق حکم کرتا ہے اور میرے عقیدے کے مطابق ممکن ہے کبھی باطن اور حقیقت امر امام سے مخفی ہوجائے اور ظاہر کے مطابق حکم کر اگرچہ ایک واقع و حقیقت کے برخلاف ہو کہ جسے خدا جانتا ہے اور ممکن ہے خدا امام کو آگاہ کرے اور سچے گواہ کو جھوٹے گواہ سے اس کے لیے مشخص کرے اور اس طرح حقیقت حال امام سے پوشیدہ نہ رہے یہ امور ان مصالح و الطاف الٰہی سے وابستہ ہیں کہ جس سے کوئی خدائے عزوجل کے علاوہ واقف نہیں ہے۔ اور امامیہ گروہ کا یہاں تین قول پایا جاتا ہے۔ ۱۔ بعض قائل ہیں: ان کے فیصلے ہمیشہ ظواہر کے مطابق ہیں اور کبھی بھی اپنے علم کے مطابق حکم نہیں کرتے۔ ۲۔ بعض قائل ہیں: ان کے فیصلے باطن و حقیقت کے مطابق ہیں نہ ظاہری امور کے مطابق کہ جہاں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ مسئلہ اس کے برخلاف آشکار ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ مرآة العقول، ج۱، ص ۲۹۷۔ ۳۔ بعض افراد جیسے جو قول میں نے اختیار کیا ہے قائل ہیں کہ امام کبھی ظاہر کے مطابق اور کبھی باطن کے مطابق حکم کرتا ہے۔ لیکن اس بات کی روایات اور وہ عنوان جو کلینی علیہ الرحمہ نے اخذ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ جب بھی مبسوط الید ہوتے تقیہ کی حالت میں نہیں ہوتے تھے تو باطن اور واقع کے مطابق قضاوت کرتے تھے۔ (۱) ۵۱۸۔ ”وفیہ باسنادہ عن ابان قالَ سَمِعتُ اَبا عَبدِ اللّٰہ علیہ السلام یَقُولُ لا تَذھبُ الدُّنیا حَتّیٰ یَخرجَ رَجُلٌ مِنّی یَحکُمُ بِحکُوُمَةِ آلِ داوُدَ وَلا یساٴلَ بَینَّةً یُعطی کُلَّ نَفسٍ حَقھا ، وفی نسخة حکمھا “ (۲) اسی کتاب میں کلینی علیہ الرحمہ اپنے اسناد کے ساتھ ابان سے نقل کرتے ہیں کہ ان کا بیان ہے : میں نے امام جعفر صادق - سے سنا کہ جب تک دنیا چلتی رہے گی ایک شخص مجھ سے اس کے خاتمہ سے پہلے ظاہر ہوگا جو آل داؤد کی طرف حکومت کرے گا اسے مقدمات کے فیصلہ میں گواہ کی ضرورت نہ ہوگی وہ ہر شخص کو اس کا حق عطا کرے گا۔ (ایک نسخہ میں ہے کہ ہر شخص کو اس کے حکم کے مطابق حکم دے گا) ۵۱۹۔ ”وفیہ باسنادہ عن عمار الساباطی قالَ قُلتُ لِاَ بی عَبدِ اللّٰہِ علیہ السلام ، بِما تحکُمُونَ اِذا حَکَمْتُمْ قالَ بِحُکمِ اللّٰہِ وَحُکْمِ داوُدَ فَاِذا وَرَدَ عَلَینا الَّشیءِ الَّذی لَیسَ عِندَنا تَلَقّٰانٰا بِہِ روحُ القدُسُ “ (۳) اسی کتاب میں کلینی علیہ الرحمہ اپنے اسناد کے ساتھ عمار ساباطی سے نقل کرتے ہیں کہ ان کا بیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ الحاج سید جواد مصطفوی صاحب کی مترجم کتاب کافی سے منقول ، ج۲، ص ۲۴۸۔ (۲)۔ کافی، ج۱، ص ۳۹۸۔ (۳)۔ گزشتہ حوالہ۔ ہے : میں نے امام جعفر صادق - سے عرض کیا کہ: جب آپ کسی قضیہ کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیسے کرتے ہیں؟ فرمایا: حکم خدا کے مطابق اسی طرح جیسے داؤد فیصلے کرتے تھے جب کوئی ایسا معاملہ درپیش ہوتا ہے کہ جس کا ہمیں علم نہ ہو تو روح القدس ہمیں بتا دیتے ہیں۔ ۵۲۰۔ ”وفیہ باسنادہ عن عمار الساباطیّ قالَ : قلُتُ لاٴبی عَبدِ اللّٰہِ علیہ السلام ما مَنِزلُة الاٴَئمِةُ ؟ قالَ کَمنزِلةِ ذی القرنَینِ وَکمنزِلةِ یوشَع وَکمنزِلةِ آصفَ صاحِبِ سُلیمانَ ، قالَ فبما تحکُمُونَ ؟ قالَ بِحکمِ اللّٰہِ وَحکُمِ آِل داوُدَ وَحُکم محمّدٍ (ص) وَیَتَلَقّانا بِہِ روحُ القدُسِ “ (۱) اسی کتاب میں کلینی علیہ الرحمہ اپنے اسناد کے ساتھ عمار ساباطی سے نقل کرتے ہیں کہ ان کا بیان ہے: میں نے امام جعفر صادق - سے دریافت کیا کہ ائمہ کی منزلت کیا ہے؟ فرمایا: وہی جو ذو القرنین کی ہے یا یوشع کی یا آصف وزیر سلیمان کی۔ راوی نے کہا: آپ قضا کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں؟ فرمایا: جو حکم خدا ہوتا ہے اس کے مطابق اور آل داؤد کے مطابق اور محمد مصطفی (ص) کے فیصلے کے مطابق اور اسے ہمیں رو ح القدس بتاتے ہیں۔ ۵۲۱۔ ”وفی البصائر : با سنادہ عن ابی عبیدہ عنہ ( الصادق ) علیہ السلام قالَ اِذا قامَ قائِمُ آلِ محمَّدٍ (ص) حَکَمَ بِحُکمِ داوُد وَسُلیمانَ لا یسئَلُ الناسَ بیّنَةً“(۲) صاحب بصائر نے اپنے اسناد کے ساتھ ابو عبیدہ سے روایت کی ہے کہ امام صادق - نے فرمایا: جب قائم آل محمد کا ظہور ہوگا تو وہ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی طرح بغیر گواہ کے مقدمات کا فیصلہ کریں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ گزشتہ حوالہ، حدیث ۵۔ (۲)۔ بصائر الدرجات، ص ۲۷۹۔ ۵۲۲۔ ”وفیہ عن جریز قال سَمِعَتُ اَبا عَبدِ اللّٰہ علیہ السلام یَقُولُ لَن تَذھَبَ الدُّنیا حَتّیٰ یخرجُ رَجُلٌ مِنا اھلِ البَیتِ یَحکُمُ بِحُکْم داوُدَ وَلا یسئَل النَّاسَ بَیّنَةً “ (۱) کتاب بصائر میں جریز سے منقول ہے کہ ان کا بیان ہے: میں نے امام جعفر صادق - کو یہ فرماتے ہوئے سنا: دنیا کا اس وقت تک خاتمہ نہیںہوگا جب تک ایک شخص ہم اہل بیت سے ظاہر ہوگا جو حضرت داؤد کی طرح فیصلہ کرے گا اور لوگوں سے گواہ نہیں طلب کرے گا۔ ۵۲۳۔ ”وفی غیبة النعمانی بِاِسنادِہِ عَن اَبی حَمزَةً الثمالِی قالَ سَمِعتُ اَبا جَعفرٍ محمَّدَ بنَ عَلیٍ علیھما السلام یقُولُ لَو قَد خَرَجَ قائِمُ آلِ محمَّدٍ علیہ السلام لَنَصَرہُ اللّٰہ بالملائِکةِ المسوَّمینَ والمردِفینَ وَالمنزلینَ والکروبینَ یَکُونُ جَبرَئیل امامَہُ وَمیکائِیلُ عَن یَمینہ وَاِسرافیل عَن یسارِہِ والرُّعبُ مَسیرُہُ امَامَہُ وَخَلفَہُ وَعَن یمینہِ وَعَن شِمالِہِ وَالملائِکَة المقرَبونَ حِذاہُ اوَّل مَن تبعہ محمَّدٌ (ص) وَعَلیٌ علیہ السلام والثانی وَمَعَہُ سَیفٌ مخترِطٌ نَفتح اللّٰہ لَہُ الرّوم وَالقیَن وَالترکَ وَالدَّیلمَة والسّند اوالھنَد وَکابُل شاہَ والخَزَرَ یا اَبا حَمزَةَ لایَقُومُ القائِم علیہ السلام اِلاَّ عَلیٰ خَوفٍ شَدیدٍ وَزَلازِلَ وَفتنَةٍ وَبلاءٍ یُصیبُ النّاس وَطاعُونَ قَبلَ ذلِکَ وَسَیفٌ قاطعٌ بَینَ العَربِ واختِلافٍ شَدیدٍ بَینَ النّاسِ وَتَشیّتٍ وَ تَشَتّتٍ فی دینھِم وَتَغیّرٍ مِن حالِھِم حَتیٰ یتمنَّی المنتھی الموتَ صَباحاً وَمساءً من عظِم ما یریٰ مِن کَلَبِ النّاسِ وَاکَلِ بعضھم بَعضاً وَخرُوجُ اِذا خَرَجَ عِند الاٴَیاسِ والقُنُوطِ فَیاطوبی لِمَن ادرَکَہُ وَکانَ مِن انصارِہِ، وَالوَیلُ کُلُّ الوَیلُ لِمَن خالَفَہَ وَخالَفَ امرَہُ وَکانَ مِن اعلامِہ ثُمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ بصائر الدرجات، حدیث ۴۔ قالَ یَقوم باٴمِرٍ جَدیدٍ وَسُنةٍ جَدیدَةٍ وَقضاءٍ جَدید عَلَی العَرَبِ شَدیدٌ لیَسَ شَاٴنُہُ اِلاَّ القَتل وَلا یستَتُیب احدٌ وَلا تاٴخذہُ فی اللّٰہ لومة لائمٍ “ (۱) نعمانی نے الغیبة میں اپنے اسناد کے ساتھ ابو حمزہٴ ثمالی سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے: میں نے امام محمد باقر - کو یہ کہتے سنا: اگر قائم آل محمد ظہور کریں تو یقینا ملائکہ مسومین (نشانیوں والے فرشتے) مردفین (یعنی وہ فرشتے جو مومنین کی مشایعت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں) منزلین (یعنی بھیجے ہوئے)، کروبین (بڑے فرشتوں کو کہتے ہیں کہ جن کے سردار جبرئیل - ہیں)(۲) ان کی نصرت کریں گے، جبرئیل ان کے سامنے اور میکائیل داہنی طرف اسرافیل بائیں طرف ہوں گے اور رعب (خوف) چاروں طرف سے ہوگا اور ملائکہ مقربین مقابل میں ہوں گے اور سب سے پہلے جو اِن کی مشایعت کریں گے حضرت محمد (ص) ہیں اور علی - دوسرے فرد ہوں گے ان کے ہمراہ شمشیر برہنہ ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے روم و دیلم سندھ و ہند اور کابل شاہ و خزر کو فتح عنایت کرے گا اے ابو حمزہ! امام قائم - اس وقت ظہور کریں گے جب لوگ شدید خوف زلزلوں ، فتنوں اور بلاؤں میں مبتلا ہوں گے اور آپ کے ظہور سے پہلے طاعون کی وبا پھیلے گی، اہل عرب کے درمیان باہم شدید اختلاف اور کشیدگی پیدا ہوگی برہنہ تلواریں چلیں گی، دین میں انتشار پیدا ہوگا اور ان کا ایسا برا حال ہوگا کہ لوگ صبح و شام موت کی تمنا کریں گے اس لیے کہ دیکھ رہے ہوں گے کہ ایک دوسرے کو جانوروں کی طرح کھایا جا رہا ہے، ظلم ڈھایا جارہا ہے۔ آپ اس وقت خروج کریں گے جب لوگوں پر مایوسی اور نا اُمیدی چھائی ہوئی ہوگی۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو امام قائم - کا زمانہ مل جائے اور ان کے انصار میں شامل ہوجائے اور ویل و افسوس ہے اس شخص پر جو اِن کی مخالفت کرے ان کا حکم نہ مانے، ان کے دشمنوں میں شامل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ غیبت نعمانی، ص ۲۳۵۔ (۲)۔ پرانٹز کے درمیان کی عبارت مجمع البحرین سے ماخوذ ہے۔ ہوجائے۔ پھر فرمایا: آپ ظہور کریں گے تو امر جدید و سنت جدیدہ، جدید فیصلہ کے ساتھ، جو اہل عرب کے لیے گراں ہوگا، کیونکہ ان کا کام صرف قتل ہوگا، وہ کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ نبی اکرم (ص) اور ائمہ کے سامنے اعمال کا پیش کرنا ۵۲۴۔ ”وفی الکافی باسنادہ عن ابی بصیر عن ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام قالَ تُعرَضُ الاٴَعمال علی رَسُولِ اللّٰہِ (ص)اعمالُ العِباد کُلَّ صَباحٍ ابرارُھا وَ فجّارُ ھا فاحذَرُوھا وَھُوَ قولُ اللّٰہِ تعالیٰ <اِعمَلُوا فَسَیری اللّٰہ عَملکُم ورسولُہُ >وسَکَتَ“ (۱) کلینی علیہ الرحمہ نے کافی میں اپنے اسناد کے ساتھ ابو بصیر سے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: رسول خدا (ص) پر تمام لوگوں کے اعمال خواہ وہ نیک ہوں یا بد ہر صبح کو پیش کیے جاتے ہیں لہٰذا تم اس سے ڈرتے رہو برے اعمال نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کرو کہ ”اللہ تمہارے عمل کو دیکھتا ہے اور اس کا رسول “ اس کا معنی یہی ہے یہ فرما کر خاموش ہو گئے۔ اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہ آیہٴ کریمہ میں کلمہٴ (و رسولہ) کے بعد کلمہٴ (و المومنون) ذکر ہوا ہے کہ جس سے مراد تفسیر میں ائمہ ہیں امام صادق - نے اس کلمہ کو یا تقیةً یا مطلب واضح ہونے کی بنا پر بیان نہیں کیا اور ساکت رہے۔ ۵۲۵۔ ”وفیہ باسنادہ عن سماعة عن ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام قالَ سَمِعتُہُ یَقوُلُ مالکُم تَسووٴُنَ رَسُولَ اللّٰہِ (ص) فَقالَ رَجُلٌ کَیفَ نَسوٴوُہُ فَقالَ : اَما تَعلَمُونَ انَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ کافی، ج۱، ص ۲۱۹، حدیث۱۔ اعمالکُم تُعْرَضُ عَلَیہِ فَاِذا رَای فیھا مَعصَیةً سآءَ ہُ ذلِکَ فَلا تَسوُوُا رَسُولَ اللّٰہِ وَسَرُّوُہ “ (۱) نیز کلینی علیہ الرحمہ نے کافی میں اپنے اسناد کے ساتھ سماعہ سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے : میں نے امام جعفر صادق - کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ: تم کو کیا ہوگیا ہے کہ رسول خدا (ص) کو ناخوش اور آرزدہ کرتے ہو؟ ایک شخص نے کہا کہ: ہم کیسے ناخوش کرتے ہیں؟ فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ حضور اکرم (ص) کے سامنے تمہارے اعمال پیش ہوتے ہیں جب برے اعمال دیکھتے ہیں تو حضرت رنجیدہ ہوتے ہیں لہٰذا رسول خدا (ص) کو ناخوش نہ کرو بلکہ انہیں خوش رکھو۔ ۵۲۶۔ ”وفی البصائر : باسنادہ عن محمد بن مسلم عن ابی جعفر علیہ السلام قالَ اَعمالَ العِبادِ تُعرَضُ عَلیٰ نبیکُم کُلّ عشیَّةٍ الخمیس احَدکُمْ اَن تُعرضَ عَلیٰ نَبیّہِ العَمَلَ القَبیحِ “ (۲) بصائر میں محمد ابن مسلم نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: بندوں کے اعمال تمہارے پیغمبر کے سامنے ہر شب جمعہ پیش کیے جاتے ہیں لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو شرم و حیا کرنی چاہیے کہ کہیں تمہارے برے اعمال پیغمبر (ص) کے سامنے پیش کیے جائیں۔ ’ ’ وفیہ : باسنادہ عن عبد الرحمن بن کثیر عن ابی عبداللہ علیہ السلام قولہ تعالیٰ <قُل اعمَلُوا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ >قالَ ھُمُ الاٴئمَّةُ تُعرَض عَلَیھم اعمالُ العِبادِ کُلَّ یومٍ اِلیٰ یومِ القِیٰمَةِ “ (۳) اسی کتاب میں عبد الرحمن ابن کثیر ناقل ہیں کہ: امام جعفر صادق - نے خدائے عزوجل کے قول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ کافی، ج۱، ص ۲۱۹، حدیث ۳۔ (۲)۔ بصائر الدرجات، جزء۹، ص ۴۲۶، حدیث ۱۴۔ (۳)۔ بصائر الدرجات، جزء۹، ص ۴۲۷، حدیث ۴۔ (عمل کریں کہ خدا و رسول اور مومنین آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں ) کے متعلق فرمایا: مومنین ائمہ ہیں کہ جن کے سامنے بندوں کے اعمال روزانہ صبح قیامت تک پیش کیے جائیں گے۔ ۵۲۷۔ ”وفیہ ایضاً باسنادہ عن برید العجلی قال قلت لا بی جعفر علیہ السلا م <اعمَلُوا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ >قالَ ما مِن مُوٴمِنٍ یَمُوتُ وَلاکافِرٍ فَتُوضَع فی قَبرِہِ حَتّیٰ تَعرُضُ عَمَلُہُ عَلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) وَعَلِیٌٍ علیہ السلام فَھَلُم جرّاً اِلیٰ آخرِ مَن فَرَضَ اللّٰہُ طاعَتَہُ عَلَی العِبادِ “ (۱) اسی کتاب میں برید عجلی کا بیان ہے: میں نے امام محمد باقر - سے آیت کے متعلق : (کام کرتے رہو کہ خدا و رسول اور مومنین تمہارے عمل و کردار کو دیکھ رہے ہیں) عرض کیا تو فرمایا: کوئی بھی مومن ، کافر انتقال نہیں کرتا پھر قبر میں رکھا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کا عمل رسول خدا (ص) اور علی - کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان میں یکے بعد دیگرے آخری امام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ اللہ نے ان کی اطاعت تمام بندوں پر واجب قرار دی ہے۔ ۵۲۸۔ ”وفی الکافی باسنادہ عَن عَبدِ اللّٰہ بن اَبانَ الزَیّات وَکانَ مَکیناً عِندَ الرِّضا علیہ السلام قالَ قُلتُ لِلرِّضا علیہ السلام ادعُ اللّٰہَ لی ولا ھلِ بَیتی فَقالَ اَوَلَستُ افعَلُ وَاللّٰہِ انَّ اعمالَکُم لَتُعرضُ عَلی فی کُلِّ یومٍ وَلَیلَةٍ قالَ فَاستعظمتُ ذلِکَ فَقالَ لی اما تَقَرء کِتابَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ <قُل اعمَلُوا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ >؟ قالَ ھُوَ وَاللّٰہِ عَلیّ بن ابی طالِبٍ علیہ السلام “ (۲) کافی میں کلینی علیہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن ابان زیات سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بیان ہے: (حضرت امام رضا - کے نزدیک ان کا ایک مقام تھا) میں نے امام رضا - سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ بصائر الدرجات، جزء۹، ص ۴۲۹، حدیث ۸۔ (۲)۔ کافی، ج۱، ص ۲۱۹، حدیث ۴۔ عرض کیا: میرے اور میرے گھر والوں کے لیے دعا فرمائیں؟ فرمایا: کیا میں دعا نہیں کرتا؟ خدا کی قسم! تمہارے اعمال ہر شب و روز میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ عبد اللہ کا بیان ہے: میں نے اس کو امر عظیم سمجھا تو حضرت - نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے کتاب خدا میں یہ آیت نہیں پڑھی ”عمل کرو پس تمہارے عمل و کردار کو اللہ دیکھتا ہے اس کا رسول اور مومنین“ پھر فرمایا: خدا کی قسم! اس مومن سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں۔ ۵۲۹۔ ” وفی البَصائِرِ بِاسنادِہِ عَن داوُدِ الرَّقی قالَ دَخَلتُ عَلی ابی عبدِ اللّٰہ علیہ السلام فَقالَ لی یا داوُدُ اعمالُکُم عرضَت عَلَّی یَوم الخَمیس فَرَایتُ لَکَ فیھا شَیئاً فَرَّحَنی وَذلِکَ صِلتکَ لابنِ عمَّکَ اَما اِنَّہ سَیمحَقُ اجَلُہُ وَلا ینقُصُ رِزقُکَ قالَ داوُد کانَ لی اِبنُ عَمٍّ ناصِبٍ کثیرِ العَیالِ محتاجٌ فَلمّا خَرَجتُ اِلیٰ مَکَّة اُمِرتُ لَہُ بصِلَةٍ فَلَمّا دَخَلَت عَلیٰ ابی عَبدِ اللّٰہ اخبَرَنی بھذا “ (۱) بصائر میں بطور مسند داؤد رقّی سے منقول ہے کہ ان کا بیان ہے کہ میں امام جعفر صادق - کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: اے داؤد! تمہارے اعمال بروز پنجشنبہ میرے سامنے پیش کیے گئے تو میں نے دیکھا کہ تمہارے نفع کی چیز اس میں موجود ہے (یا تحریر کی ہوئی ہے) وہ میرے لیے مایہٴ خوش حالی ثابت ہوا اوروہ تمہیں اپنے چچا کے بیٹے سے صلہٴ رحم کرنا تھا۔ جان لو عنقریب اس کی عمر ختم ہوجائے گی اور تمہاری روزی میں سے کوئی شے کم نہیں ہوگی۔ داؤد کا بیان ہے: میرے ایک چچا کا فرزند ناصبی تھا جو کثیر العیال اور ضرورت مند تھا، جب میں مکہ مکرمہ جانے کے لیے مامور ہوا تو میں نے اس کی مدد کی (یا حکم دیا کہ اس کی مدد کی جائے) جس وقت میں امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے اس واقعہ سے باخبر کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ بصائر الدرجات، جزء۹، ص ۴۲۹، حدیث ۳۔