آئین تربیت

آئین تربیت

آئین تربیت

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

آئین تربیت

دور حاضرمیں جہاں حضرت انسان نے مادیت میں اس قدر ترقی کی ہے کہ اب وہ خلائی سفر کامیابی سے انجام دیتے ہوئے نظام شمسی میں دیگر سیـٓاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے، وہاں وہ اقدار انسانی میں مسلسل انحطاط کے مسئلہ سے بھی شدّت کے ساتھ دو چار ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مادّی ترقی مادی تعلیم کے حصول کامنطقی نتیجہ ہے لیکن اقدار حیات کی ترقّی میں ایک اور چیز بھی ناگزیر ہے حبس کو تربیت کہتے ہیں۔ یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جو مہد یعنی ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے اور یہ وہ کیفیت ہے جس کی عدم مو جود گی مادّی تعلیم کے با وجود انسان کو اس سطح پر لے آئی ہے جہاں ترقّی علوم مادّی کا عملی مقصد مخالفین کی حیات کو صفحہء ہستی سے یکسر مٹا دینا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کے وہ منصوبے اس بات کی دلیل ہیں جو بتدریج سائنسی تجربات کی شکل میں سامنے آرہے ہیں ان کے ذریعے کوشش کی جارہی ہے کہ ایسے ہتھیار ایجاد کریں، جن کا استعمال کم سے کم وقت میں زیاد ہ سے زیادہ انسانوں کو نیست و نابود کردے۔

ان تمام حالات کے پیش نظر تربیتِ انسان کی ضرورت دن بہ دن زیادہ محسوس ہوتی جارہی ہے کتا ب ہذا "آئین تربیت'' ایران کے فاضل مصنّف جناب ابراہیم امینی نجف آبادی کی ایک نہایت عمدہ سعی ہے حبس میں تر بیت انسان کے موضوع پر اسوہء معصومین علیہم السلام کی روشنی میں بجث کی گئی ہے۔

کتاب ہذا میں مندرجہ ذیل امور پر خصوصیت کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے جو ضروریات تربیت میں شامل ہیں: ۱: جسمانی اور نفسانی دونوں میں تربیت کنندہ کی امور تربیت سے کما حقّہ واقفیت۔ ۲: اہدافِ تربیت سے واقفیت۔ ۳: تربیت کے لیے جن اقدار و اوضاع کی ضرورت ہوتی ہے، ان سے کما حقّہ واقفیت۔

فاضل مؤلّف نے یہ سب کچھ سیرت معصومینؑ کی روشنی میں پیش کیا ہے،امید و اثق ہے کہ یہ کتاب والدین اور اساتذہ کے لیے تربیت اولاد و شاگرد میں ایسی معاون ثابت ہو گی حبس سے دور مادیت میں قوم کو با اقدار انسان مل سکیں گے۔

تعلیم اور تربیت میں فرق ہے تعلیم کا معنی ہے آموزش، سکھانا یا کسی کو کوئی مطلب یاد کرانا۔ جب کہ تربیت کہ مطلب ہے شخصیت کی تعمیر اور پرورش۔ تربیت کے ذریعے سے اپنے پسند کے مطابق افراد ڈھالے اور تیارکیے جاسکتے ہیں اورنتیجتاً معاشر ے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

ضروری ہے کہ تربیت ایک سو چے سمجھے پروگرام کے تحت انجام پائے تا کہ کامیابی کے ساتھ نتیجہ بھی ہاتھ لگے، تربیت میں صرف وعظ و نصیحت اور ڈرانا دھمکانا ہی کافی نہیں بلکہ چاہیے کہ تمام حالات اور شرائط و مقاصد کے مطابق یہ تربیت فراہم ہو، تا کہ مقصود حاصل ہو سکے۔

تربیت کے لیے بہترین زمانہ بچین کا ہے کیونکہ بچے نے ابھی پوری شکل اختیار نہیں کی ہوتی اور ہر طرح کی تربیت کے لئے آمادہ ہوتا ہے، یہ حساس اور اہم ذمہ داری پہلے مرحلہ پرماں باپ کے ذمے ہے لیکن تربیت ایک سہل اور سادہ سا کام نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی ظریف و حسٓاس فن ہے کہ جس کے لیے کام کی شناخت، اطلاعات، تجربہ، برد باری اور حوصلہ و عزم کی ضرورت ہے، یہ بات باعث افسوس ہے کہ اکثرماں باپ فنِٓ تربیت سے آشنا نہیں، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر بچوں کی کسی حساب شدہ اور منظم پروگرام کے تحت پرورش نہیں ہوتی بلکہ وہ گویا خود رو پودوں کی طرح پروان چڑ ھتے ہیں۔

مشرق و مغرب کے ترقی یافتہ کہلا نے والے ممالک میں تربیت کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، انہوں نے اس سلسلے میں بہت تحقیقات کی ہیں، بہت سی سودمند کتابیں لکھی ہیں اور وہاں اس فن کے بہت سے ماہرین موجود ہیں(البتہ پھر بھی وہ اخلاقی بیماریوں میں شدت سے گرفتار ہیں) لیکن ہمارے ملک میں زندگی کے اس اہم مسئلہ کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی، گرچہ چند ایک ماہرین موجود ہیں اور تھوڑی بہت کتابیں بھی ہیں لیکن اتنا کچھ کفایت نہیں کرتا، دوسری زبانوں سے اس ضمن میں بہت سی کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے جو سب کی دسترس میں ہیں لیکن ان مشترقی اور مغربی کتابوں میں دوبڑے نقص موجود ہیں۔

پہلا عیب یہ ہے کہ ان میں انسان کو فقط جسمانی حوالے اور اس کی دنیوی زندگی کے حوالے سے دیکھا گیا ہے اور بحث و تحقیق کی گئی ہے اور روحانی سعادت و بد بختی اور اخروی زندگی سے یا غفلت برتی گئی ہے یااعراض کیا گیا ہے۔

مغرب میں تربیت کے لیے اس کے علاوہ کوئی ہدف نہیں کہ بچے کی جسمانی طاقت اس کی حیوانی قوتوں، اعصاب اور مغز کو صحیح طریقے سے پروان چڑھایا جائے تا کہ جس و قت وہ بڑا ہو تو آرام سے زندگی گزارسکے اور مادی فوائد اور حیوانی لذتوں سے بہرہ مند ہو سکے اور اگر ان کتابوں میں اخلاق کے بارے میں گفتگو ہوتی بھی ہے تو وہ بھی اسی دنیوی زندگی اور مادی مفادات کے حصول سے مربوط ہے، ان کتایوں میں روحانی کمالات یا نقائص کاذکر نہیں، اخروی خوشبختی یا بدبختی کا تذکرہ نہیں، مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں اخلاقی اور روحانی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں، دوسراعیب یہ ہے کہ مغرب والوں کے نزدیک تربیتی مسائل کا انحصار تجربات اور شماریات پر ہے، دین کا ان پرکوئی رنگ نہیں، لہٰذا یہ کتابیں مسلمانوں کے نزدیک مفید، جامغ اور کامل نہیں ہوسکتیں کیوں کہ ایک مسلمان کی نظر مین انسان کے دو پہلو ہیں، ایک جسم اور دوسرا روح، ایک دنیوی زندگی اور دوسری اخروی زندگی، اور دونوں کا ہی خیال رکھنا اور انھیں  صحیح ڈھنگ سے تربیت کرنا ضروری ہے اور یہ کتاب اس ذمہ داری کو پوری کرتی ہے ضرور مطالعہ فرمائیں۔