آثار حیدری-تفسیر امام حسن عسکریؑ

آثار حیدری-تفسیر امام حسن عسکریؑ

آثار حیدری-تفسیر امام حسن عسکریؑ

Publication year :

2003

Publish location :

لکھنؤ پاکستان

(0 پسندیدگی)

QRCode

(0 پسندیدگی)

آثار حیدری-تفسیر امام حسن عسکریؑ

تفسیر جلیل الشان جوکہ منسوب ہے حضرت امام حادی عشر جناب امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف بہت سارے اسرار و رموز پر مشتمل ہے جس کے ملاحظے سے چشم دل روشن و منوّر ہوجاتی ہے، اس بات کی بہت ضرورت تھی کہ اس کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ ہوتا تاکہ اردو ترجمہ اردوں داں طبقے کے لیے مفید عام قرار پاتا، الحمد للہ کہ سید جلیل و فاضل نبیل جناب سید شریف حسین صاحب نے مذکورہ کتاب کا سلیس و بامحاورہ ترجمہ اردو میں کرکے اجر و ثواب اپنے نام کرلیا ہے۔ ترجمے کے مستند ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس پر مشہور علماء و افاضل جیسے سید محمد ہارون زنگی پوری، سید نجم الحسن صاحب نے تقریظ تحریر فرمائی ہے۔

تفسیر امام حسن عسکری (ع) مکتب امامیہ کی روائی تفاسیر میں سے ہے جو تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی۔ اس میں بعض آیات کی تاویل بیان ہوئی اور اکثر پیامبر (ص) و ائمہ کے معجزات کی تاویل بیان کی گئی ہے۔ آیات کے اسباب نزول کی طرف کم توجہ کی گئی اگرچہ آیات کے مصادیق بیان ہوئے ہیں۔ صرف، نحو اور بلاغت جیسے ادبیات عرب کے علوم اس میں موجود نہیں ہیں۔ اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی کے فقہا و محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جاتے تھے۔ یہ تفسیر سورہ بقرہ کی 282ویں آیت کے آخر تک موجود ہے۔یہ تفسیر قرآن کے فضائل سے متعلق روایات، تأویل اور آداب قرائت قرآن سے شروع ہوتی ہے نیز فضائل اہل بیت (ع) کی احادیث اور دشمنان اہل بیت کے مثالب (ع) کے ساتھ اس کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ اس کتاب میں سیرت نبوی خاص طور پر مناسبات پیغمبر اسلام(ص) اور یہود سے متعلق متعدد ابحاث مذکور ہیں۔ مجموعی طور پر اس تفسیر میں 379 حدیثیں منقول ہوئی ہیں۔ حجم کے لحاظ سے اکثر و بیشتر روایات اس طرح طولانی اور مفصّل ہیں کہ چند صفحات پر مذکور ہیں اسی وجہ سے ان میں بعض مقامات پر یہ روایات حدیثی خد و خال سے باہر نکل گئی ہیں۔ بعض روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ یہ تفسیر بعض آیات کی تاویل پر مشتمل ہے اور اکثر معجزات پیغمبر(ص) اور ائمہ کے معجزات کی تاویلیں بیان کرتی ہے۔ اس تفسیر میں آیات کے اسباب نزول کی طرف کم توجہ کی گئی ہے۔ ادبیات عرب کے علوم کی طرف اس تفسیر میں توجہ نہیں کی گئی۔ اکثر آیات کی تفسیر آیت کے مفہوم کی شرح و توضیح سے شروع ہوتی ہے پھر معصومین (ع) سے منقول روایات آیات کی تفسیر میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض مقامات پر آیت کی تفسیر شان نزول کی روایات سے مخلوط ہیں۔شیعہ،رافضی، تقیہ، صحابہ کے فضائل اور خبّاب بن ارّت اور عمار بن یاسر، کی مانند کچھ عناوین ہیں جو آیات کی تفسیر کے حاشیے پر ذکر ہوئے ہیں۔ شجرۀ ممنوعہ سے شجرۀ علم محمد (ص) اور اہل بیت (ع)  کے فرق جیسے تفسیری نکات اس تفسیر کی خصوصیات میں سے ہیں۔

اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں قم کے فقہا اور محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جانے کا رواج تھا۔ خطیب اور مشہور مفسر جرجانی محمد بن قاسم استر آبادی نے اس تفسیر کے دو راویوں یعنی ابو الحسن علی بن محمد بن سیار (یسار؟) اور ابو یعقوب یوسف بن محمد بن زیاد سے اس تفسیر کے مطالب نقل کئے ہیں۔ جبکہ ان دونوں کے حالات زندگی تاریخی لحاظ سے مشکوک نظر آتے ہیں۔

اس تفسیر کے قدیمی ہونے کے باوجود اس کی وثاقت علمائے امامیہ کے درمیان محل اختلاف ہے۔ شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) نے اس کتاب سے اکثر مطالب اپنی کتابوں میں نقل کئے ہیں۔ اگرچہ اس کتاب کی وثاقت و عدم وثاقت کے متعلق کوئی بات نہیں کی ہے۔

سب سے پہلے جس شخصیت نے اس کتاب پر تنقید کی وہ احمد بن حسین بن عبیداللّه غضائری ہیں جو ابن غضائری کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے الضعفاء میں محمد بن قاسم استر آبادی کو ایک ضعیف اور کذّاب شخص کہا ہے نیز کہا ہے کہ سلسلۂ سند میں دو افراد جو اپنے باپ سے اور وہ امام حسن عسکری سے نقل کرتے ہیں، مجہول ہیں۔ابن غضائری تفسیر کو موضوع اور جعلی سمجھتے ہیں اس کے وضع کرنے والے کا نام سہل بن احمد بن عبداللّہ دیباجی (متوفی 380 ھ) ذکر کیا ہے۔اس تفسیر کو معتبر جاننے والوں نے بھی ابن غضائری کے کلام کی رد میں دلائل ذکر کئے ہیں۔

سید شریف حسین بھریلوی (متوفی 1361 ھ) نے اس تفسیر کو اردو زبان میں ترجمہ کیا اور آثار حیدریہ کے نام سے اسے چھپوایا ہے۔